ستمبر 1986ء

شریعت اور فقہ میں فرق

شریعت صرف اور صرف کتاب و سنت ہے، اجتہاد (فقہ) کا دروازہ تاقیامت ہمارے نزدیک کھلا ہے، مگر مختلف فقہوں میں سے کسی کو نہ شریعت قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی شریعت کے نام پراسے قبول کیا جاسکتاہے۔

سینیٹ کے بعض ارکان نے اپنا دینی فریضہ ادا کرتے ہوئے  نفاذ شریعت کے نام سے ایک بل سینیٹ میں پیش کیا۔لیکن اس بل میں شریعت کی تعریف ایسی کی گئی کہ جس سے بل متنازعہ بن گیا۔ چنانچہ اس بل کی دفعہ 2 یوں ہے:

’’شریعت کی تعریف:

اس ایکٹ میں شریعت سے مراد

(الف) دین کا وہ خاص طریقہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کے ذریعے اپنے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے۔

(ب)   شریعت کا اصل مآخذ قرآن پاک اور سنت رسول اللہ ﷺ ہے۔

(ج) کوئی حکم یا ضابطہ جو اجماع امت سے ثابت ، اور ماخوذ ہو شریعت کا حکم متصور ہوگا۔

(د)  ایسے احکام جو امت کے مسلمہ اور مستند فقہاء مجتہدین نے قرآن پاک اور سنت رسول اللہ ﷺ او راجماع امت کے قیاس و اجتہاد کے ذریعہ مستنبط کرکے مدون کئے ہیں شریعت کے احکام متصور ہوں گے۔

غور کیا جائے تو بل میں شریعت کی تعریف کو اس طرح سے پیش کیا گیا ہے ہےکہ بعض فقہی مسالک کے ذہنی تحفظات کو جگہ مل گئی ہے۔چنانچہ دوسرے فقہی مسلک نے بل کو ہی اپنے خلاف سمجھ لیا اور مخالفت شروع کردی۔اسی طرح جدید طبقے نے یہ تاثر لیا ہے کہ اس بل سے اجتہاد کے دروازےبند ہوجائیں گے۔لہٰذا ضروری ہے کہ بنیادی اختلافی مسئلے کو حل کیاجائے اور وہ ہے شریعت کی تعریف کاقضیہ۔ چنانچہ بل کی دفعہ 2 کی شق الف میں شریعت کی جو تعریف کی گئی ہے وہ الفاظ نہایت مناسب ہیں، جن کی رو سے شریعت ان احکام او رطریقوں کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر نازل کیے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:

’’(اے پیغمبرؐ) ہم نے آپ کو ایک شریعت پر چلایا ہے سو آپؐ اسی کا اتباع کریں او ران لوگوں کے پیچھے نہ چلیں جونہیں جانتے۔‘‘

سورہ مائدہ میں ہے:

’’آپ ؐ فیصلہ اس کے مطابق کریں جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اور لوگوں کی خواہشات پر نہ چلیں اور ڈرتے رہیں کہ کہیں لوگ آپؐ کو فتنے میں مبتلا نہ کریں اس بارے میں جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے۔‘‘

اس مضمون کی متعدد آیات قرآن حکیم میں موجود ہیں، جن سے یہ واضح ہے کہ شریعت صرف منزل من اللہ یعنی وحی ہے۔ چنانچہ جو چیز اللہ کی طرف سے نہیں یا حضورﷺ سے ثابت نہیں وہ شریعت نہیں۔ اس مناسبت سے شریعت کا اطلاق صرف دو چیزوں پر ہوتا ہے ۔کتاب اللہ اور سنت  رسول اللہ ﷺ۔ ان کے علاوہ جو کچھ بھی ہے اور شریعت بل کی تعریف کرتے ہوئے شق ’’ج‘‘ اور ’’د‘‘ میں جو کچھ پیش کیا گیا  ہے، اس کی حیثیت شرعی تو ہوسکتی ہے لیکن اسے شریعت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اجتہاد و قیاس، چاہے ایک عالم کا ہو یا اسے اجماعی حیثیت حاصل ہو، کا تعلق شریعت کےفہم سے ہے جسے اصطلاح میں فقہ کہتے ہیں۔ فقہاء ائمہ کے ہاں آراء کا اختلاف تھا اور اس کی گنجائش موجود ہے۔ امام شافعی  کی آراء ایک ہی مسئلے میں مختلف ملتی ہیں۔ امام ابوحنیفہ او ران کے شاگردوں کا متعدد مسائل میں اختلاف فقہ کی کتب میںموجود ہے۔ اس مناسبت سے متعدد فقہیں موجود ہیں، یعنی حنفی فقہ اور شافعی فقہ وغیرہ۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ شریعتیں بھی متعدد ہیں۔خود حنفی اور شافعی اور جعفری حضرات نے بھی کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ حنفی شریعت یا جعفری شریعت۔ بلکہ یہ بات مسلم ہے کہ شریعت صرف ایک ہے اور وہ ہے شریعت محمدﷺ اور فقہیں متعدد ہیں اور مختلف بھی ۔ یہاں اس بات کا ازالہ بھی ہوجانا چاہیے کہ بعض لوگ قرآن ہی کومآخذ شریعت مانتے ہیں اور سنت کی اہمیت کے انکاری ہیں۔ حالانکہ شریعت کی نسبت اگر محمدﷺ کی طرف ہے تو اس میں قرآن کے ساتھ سنت بھی شامل ہے کیونکہ ان دونوں کا اصل ایک ہی یعنی وحی الٰہی۔

کتاب و سنت کے علاوہ اجتہاد و قیاس شرعی ضرورتیں ہیں،  جن کے بغیر چارہ نہیں کیونکہ حالات اور واقعات زندگی ہر ان تغیر پذیر ہیں (لیکن اس کےساتھ یہ عقیدہ رکھنا بھی لازمی ہے کہ شریعت غیر مبدل ہے، دائمی ہے او رقیامت تک کے لیے مکمل ہے) اس موقع پر اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ اجتہاد کے دروازے کو بند کیا جائے بلکہ یہ قیامت تک کے لیے کھلا ہے۔ علماء او رکتاب و سنت کے ماہرین آتے رہیں گے او راجتہاد کے ذریعے ہر قسم کے حالات میں اُمت کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔

جدید طبقے کے ہاں اجتہاد کےبارے میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ان کا ازالہ بھی ضروری ہے۔اس سلسلے میں فی الحال اتنا کہنا کافی ہے کہ اجتہاد کتاب و سنت پر اضافے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اجتہاد سے مراد، بدلے ہوئے اور جدید حالات میں کسی مسئلے کے بارے میں شریعت یعنی کتاب و سنت کا حکم معلوم کرنا ہے۔ یہ مجتہدکا کام ہے کہ کتاب  وسنت کاکون سا حکم درپیش مسئلے پرلاگو ہوتا ہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ حکم معلوم کرنے او راس کے تعین میں غلطی ہوجائے۔ یہ انسانی کمزوری ہے۔ ہزار کوشش کے باوجود بھی غلطی کا امکان ہے، اس لیےمجتہد کا اجتہاد اس کی رائے ہوتا ہے، اسے شریعت نہیں کہتے۔ متجددین یہ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد سے شاید شریعت پر اضافے کی گنجائش مل جاتی ہے۔ یا یہ کہ حالات بدلنےسے شاید حکم بھی تبدیل ہوجاتی ہے، یہ سب نظریات قطعاً غلط ہیں او رالحاد و زندقہ یہیں سے پیدا ہوتے ہیں۔

فقہ کے بارے میں بھی ہمارے ہاں دو قسم کی غلط فہمیان پائی جاتی ہیں۔ایک طبقہ وہ ہےجس کا ابھی ابھی ذکر کیا گیاہے، انہیں فقہ سےچڑ ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ فقہاء کا علمی سرمایہ ہمارےلیےبےسود ہے بلکہ وہ اپنی ترقی پسندی کوقائم  رکھنے کے لیے  اسے دقیانوسیت قرار دیتے ہین۔ان کا خیال ہے کہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے فقہی سرمایہ سےصرف نظر کرکے جدید انداز فکر اختیار کرنا چاہیے۔کیونکہ یہ علوم سائنسی  دور کےمسائل   کو حل نہیں کرسکتے اور چاند پر پہنچنے والا انسان  گھوڑے گدھے کی سواری کے زمانے میں واپس نہیں جاسکتا۔اور دوسراطبقہ جدیدیت کے برعکس تقلیدی نقطہ نظر کا حامل ہے۔ تجدد کے مقابلے میں اسے اتنا برا نہیں کہنا چاہیے۔۔ اگرہمارے مقلدین بھائی متعصبانہ رویہ اختیار نہ کریں تو مسائل سلجھ سکتے ہیں۔ اگر ایک  امام کی رائے پر ہی فتویٰ دی جائے اور اس کی رائے پر ہی اجتہاد کی بنیاد رکھی جائے تو اس سے نہ صرف فرقہ پیداہوتا ہے بلکہ اجتہاد اور فقہ جیسی اہم شرعی ضرورتوں کے بارے میں بھی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں او رجدید طبقہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ان کاررائیوں سے اجتہاد کا دروازہ بند کیا جارہا ہے۔

چنانچہ جدید و قدیم کے اس بُعد نے ایک بحرانی کیفیت پیدا کردیہے۔ یہی بنیادی خلا ہے اور نفاذ شریعت بل کی منظوری میں اصل رکاوٹ یہی ہوسکتی ہے ۔ اعتدال کی راہ میں اس مسئلے کا حل ہے۔ جہاں تک فقہی علوم کے او رسلف کے علمی ورثے کا تعلق ہے، اس سےقطع تعلق ممکن نہیں ۔ صحابہ کرام ؓ سے لے کر محدثین و مفسرین اور فقہاء تک سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے شریعت کوسمجھا اور اس پر عمل کیا اور شریعت کی تعبیر و توضیح میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آج اگر پاکستان کی سپریم کورٹ میں پولینڈ کی عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے تو شریعت کے فہم میں متقدمین علماء  و ائمہ مجتہدین کو کیوں نظر انداز کیا جائے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ان سب بزرگان دین سے استفادہ کیا جائے۔ خصوصاً وہ لوگ، جنہیں خیر القرون کہا گیاہے، انہیں نظر انداز کرکے شریعت کی تعبیر درست نہیں ہوسکتی۔ سلف سے ہٹ کر جو لوگ قانون سازی کے اختیارات اسمبلیوں کو دینا چاہتے ہیں ، شاید وہ اس بات سے آگاہ نہیں کہ جدید مغربی افکار سے شریعت کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو شریعت کا اس سے بڑا نقصان کوئی نہیں ہوسکتی۔

البتہ یہ ضروری ہے کہ کسی ایک امام کو خاص نہ کیا جائے، بلکہ اسلامی تاریخ کے تابناک علمی کارناموں کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرکے ثابت کیا جائے کہ فقہاء و علماء کی جو کثرت اسلام کی خدمت کرتی رہی ہے اس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں ملتی او رہر جدید مسئلے کے بارے میں ہمیں سلف کی راہنمائی ملتی ہے۔ اس بحث کے خلاصے کے طورپر کہا جاسکتا ہے کہ شریعت کی تعریف اور تعبیر میں فرق کیا جائے۔ شریعت سے مراد تو کتاب و سنت ہی ہیں البتہ ان کے فہم و تعبیر کے لیے علماء و فقہا سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے، ان میں سے کسی کے قیاس و اجتہاد کو شریعت نہ کہا جائے۔

چنانچہ شریعت بل میں اگر شریعت کی تعریف کے لیے شق الف پر اکتفاء کی جائے تو اس تعریف پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہوسکتا ہے۔کتاب و سنت کا یہ اعجاز ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے کوئی ان کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتا۔جدید طبقے کےلوگ بھی اس سے منحرف نہیں ہیں۔ شیعہ اور سنی دونوں متفق ہیں۔

مسلمان گروہوں میں اختلاف اگرچہ بہت پرانا ہے لیکن قابل تعریف تو نہیں ہے اور نہ ہی پرانا ہونا اس کے لیے سند جواز پیدا کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کی اجازت نہیں دی بلکہ حضورﷺ ن ےامت کے اس اختلاف کو، جس سے اُمت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں، ہلاکت قرار دیا ہے۔بعض لوگ ایک حدیث پیش کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ اُمت کا اختلاف رحمت ہے۔ اس حدیث کا کوئی اصل نہیں ہے۔ آج یہ وقت نہیں ہے کہ اختلافات کو اٹھایا جائے۔ کتاب و سنت کی مضبوط بنیاد جب ہمارے پاس موجود ہے تو اس پر سب کو متفق ہوجانا چاہیے۔ علماء کے 22 نکات اگر متفقہ ہوسکتے ہیں، قرار داد مقاصد متفقہ طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔ 1973ء کے آئین پر تمام جماعتیں متفق ہوسکتی ہیں، تو موجودہ نفاذ شریعت بل میں اختلاف کو رفع کرنے کے لیے کتاب و سنت پر اتفاق کیوں نہیں ہوسکتا؟[1]

ہم سب کویہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر نفاذ شریعت کی تحریک ملک میں ناکام ہوگئی تو اس سے عام مسلمانوں میں سخت مایوسی پھیلے گی اور کمیونسٹ اسے اپنی فتح تصور کریں گے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ نویں ترمیمی بل کو کافی نہ سمجھا جائے  اور شریعت بل کی منظوری کے لیے متحد ہوکر منظم طور پر زور ڈالا جائے اور علماء ان چیزوں کو پیش نظر رکھیں جن پر امت کا اتفاق ہے او ران چیزوں کو چھوڑ دیں جن پران کااختلاف ہے او ریہ سمجھ لیں کہ کتاب وسنت کے شریعت ہونے اور ان کی پابندی کرنے پر سب متفق ہیں۔

 

[1] ۔ واضح رہے کہ 30۔اگست کو جملہ مکاتب فکر ، شریعت کی اس تعریف ، کہ وہ قرآن و سنت ہی ہے، پر متفق ہوچکے ہیں۔ (ادارہ)