کمالات ِنبویؐ قرآن کریم کے آئینہ میں

رسول کریم  جناب محمد  رسول اللہ ﷺ کی ذات قدسی صفات پر جس قدر  غور کیا جائے، صاف نظر آتا ہے کہ آپؐ کی ذات بابرکات تمام انبیاء کرام ؑ کے محاسن و خصائص پر حاوی تھی او رجملہ اوصاف و کمالات کی جامع تھی۔علامہ سیوطی نے اپنی کتاب ’’خصائص‘‘ جلد 2 میں ایک مستقل موضوع مقرر کیا ہے۔ جس میں ہر نبیؑ کے مشہور اوصاف و معجزات کے ساتھ ساتھ آنحضرتﷺ کے محاسن کا باحسن وجوہ مقابلہ کیا ہے۔ تفصیل ’’خصائص‘‘ میں ملاحظہ فرمائیے۔ سردست ’’خصائص‘‘ سے ایک معجزہ ’’احیاء‘‘ پر کچھ عرض ہے:

امام بیہقی راوی ہیں کہ امام شافعی نے ایک بار فرمایا: ’’ہمارے نبی کریم ﷺ کواللہ تعالیٰ نے جس قدر معجزات عطا فرمائے،  اس قدر کسی اور نبیؑ کو نہیں دیئے گئے۔‘‘ ایک شخص نے پوچھا کہ ’’حضرت عیسیٰ ؑ کے معجزہ ’’احیاء موتیٰ‘‘ کے مقابلہ میں حضورؐ کو کیا عطا کیا گیا تھا؟‘‘ امام صاحب نے فرمایا:

’’اعطی محمد حنین الجزع فھٰذا اکبر من ذٰلک‘‘

یعنی ’’کھجور کے رونے تھرتھرانے کا واقعہ جو موجود ہے، یہ احیاء موتیٰ سے بڑھ کر  ہے کیونکہ مردہ کو موت سے پہلے روح سے تعلق ہوتا ہے مگر اس کھجور کے ستون میں  نہ کبھی روح تھی او رنہ حیات ظاہری کا محال تھا۔ لیکن آپؐ کا معجزہ تھا کہ ایک سوکھے نباتاتی جسم میں انسانی صفات  و خواص پیدا  ہوگئے۔‘‘

اسی طرح  دیکھئے حضرت موسیٰ ؑ کا عطا سانپ بن کر معجزہ نمائی کررہا تھا تو کھجور کا تنا اپنی شکل پر رہتے ہوئے اپنے احساس او رمحبت رسولؐ کا ثبوت دے رہا تھا۔ اس لیے یہ معجزہ محمدیؐ، معجزہ موسویؑ سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ عطا بعد انقلاب ماہیت اژدھا بن کرادھر ادھر دوڑا تو اس کی یہ کیفیت انقلاب ماہیت کے بعد ظاہر ہوئی، اس سے پہلے نہیں۔ اور ظاہر ہے  سانپ کی شکل کو سانپ کے افعال و حرکات سے قوی مناسبت ہے۔ اس سے وہی کام سرزد ہوا جو سانپ ہوکر ظہور میں آنا چاہیے تھے۔ کوئی ایسا کام نہیں ہوسکتا جو صرف انسان سے صادر ہوتا ہے۔ لیکن نخلہ، جو حضورؐ کو ٹیک کاکام دیتا تھا، جب آپؐ جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے اس سے ہٹ کر منبر پر کھڑے ہوئے تو یہ فراق محمدﷺ سے بے چین ہوکر رونے اور چلّانے لگا۔

نخلہ کی ماہیت میں کوئی تغیر توتبدّل نہیں ہوا۔ اس کے باوجود اس سے ایسا فعل صادر ہوا جو اس سے مناسبت نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ وہ انسانوں کے ساتھ مخصوص تھا او رانسان بھی وہ کہ جن کا افراد کاملہ میں شمار ہو اور جو سوز و گداز کے حامل ہوں۔

اب ہم نبی کریمﷺ کی فضیلت و جامعیت اوصاف کے باب میں قرآن کریم سے چند مثالیں پیش کررہے ہیں۔ اس کی پوری تفصیل رحمۃ للعالمینؐ میں ہے، جسے ہم اختصار کےساتھ مع ترجمہ و تفسیر ذکر کرتے ہیں:

1۔ حضرت آدم علیہ السلام کی بابت ارشاد ہے:

’’وعلم اٰدم الاسمآء کلھا۔ الآیۃ‘‘ (بقرہ: ع4)

’’او راللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو (بعد پیدائش) سب چیزوں کے نام سکھائے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں آدم علیہ السلام کو اپنا شاگرد بتایا ہے تو نبی کریم ﷺ کو استاذ عالم قرار دیاہے۔

’’ویعلمکم الکتاب  والحکمۃ و یعلمکم مالم تکونوا تعلمون‘‘ (البقرہ: ع18)

’’اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں، وہ (باتیں) بھی سکھاتے ہیں جنہیں تم پہلے سےنہ جانتے تھے۔‘‘

اس آیت میں کتاب و سنت کے علاوہ فقرہ ’’مالم تکونوا تعلمون‘‘ کے تحت بے شمار اسرار و غوامض بھی آگئے۔

2۔   حضرت آدم علیہ السلام کی بابت فرمایا:

’’ولقد عہدنآ الیٰ اٰدم من قبل فنسی۔ الایۃ ‘‘ (طٰہٰ: ع10)

’’اور ہم  نے اس سے پہلے آدم ؑ کی طرف ایک حکم بھیجا پھر وہ بھول گئے۔‘‘

نبی پاکؐ کی بابت ارشاد ہے:

’’سنقرءک فلا تنسیٰ‘‘ (الاعلیٰ:ع1)

’’(اے رسولؐ)، ہم عنقریب آپ کو پڑھائیں گے پھر آپؐ اسے نہ بھولیں گے۔‘‘

نسیان کو آدمؐ کی طرف اور عدم نسیان کونبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کرکے آپؐ کو افضل قرار دیا ۔

حضرت آدم ؑ کی بابت فرمایا:

’’واذ قلنا للملٰئکۃ اسجدو ا لادم فسجدوا۔ الایۃ ‘‘ (البقرہ : ع4)

’’اور جب ہم نے (تمام) فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا‘‘

نبی ﷺ کی شان کو اس سے بھی زیادہ نمایاں فرمایا:

’’ان اللہ وملٰئکتہ یصولن علی النبی۔ الایۃ ‘‘ (احزاب:ع7)

’’بے شک اللہ تعالیٰ او راس کے فرشتے نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں۔‘‘

اس میں دوام و استمرار بھی پایا جاتا ہے۔

3۔   حضرت ادریس ؑ کے متعلق اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:

’’ورفعناہ مکانا علیا‘‘ (مریم: ع4)

’’اور ہم نے انہیں اونچے مکان پر اٹھا لیا۔‘‘

اور نبی کریم ﷺ کی شان میں  فرمایا:

’’ورفعنالک ذکرک‘‘ (انشراح:ع1)

’’اور ہم نے آپؐ کا ذکربہت بلند کردیا۔‘‘

اس کی بین دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کا اسم گرامی اذان، تکبیر، تشہد ، خطبہ ، نماز وغیرہ میں ہمیشہ لیا جاتاہے۔

4۔   حضرت الیاس علیہ السلام کا وعظ قرآن شریف میں مذکور ہے:

’’اتدعون بعلا و تذرون احسن الخالقین‘‘ (صافات: ع4)

’’کیا تم بعل (جیسے بے جان بت) سے دعائیں مانگتے ہو او رسب سے بہتر خالق یعنی اللہ کو چھوڑ بیٹھےہو۔‘‘

نبیﷺ نے بھی بتوں کا نام لے کر ان کی کھل کر تردید فرمائی، ارشاد ہے:

’’افرءیتم اللّت والعزی ومنٰوہ الثالثۃ الاخرٰی الکم الذکر ولہ الانثٰی ۔ تلک اذا قسمۃ ضیزٰی۔ ان ھی الاسمآء سمیتموھآ انتم و ابآء کم ما انزل اللہ بھا من سلطان‘‘ (سورہ نجم: ع1)

’’بھلا تم لات، عزیٰ اور تیسرے مناۃ پر بھی غور کرو (یعنی جو خود تراشیدہ بے جان اور محتاج ہیں) کیا تمہارے لیے بیٹے اور خدا کے لیے بیٹیاں ہیں۔ یہ تقسیم بڑے نقصان والی ہے۔ یہ تمہارے معبود صرف نام ہی نام کے ہیں، جو تم نے او رتمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان ناموں پر کوئی دلیل نہیں اتاری ہے۔‘‘

5۔   حضرت نوح ؑ کے نام پراحمد مجتبیٰؐ کے نام کو مقدم کرکے فضیلت بیان فرمائی:

’’انآ اوحینآ الیک کمآ او حینآ الیٰ نوح و النبیین من بعدہ‘‘ (سورہ نساء :ع23)

’’ہم نے آپؐ کی طرف وحی کی، جیسا کہ ہم نے نوح ؑ کی طرف او ران کے پیچھے او رانبیاؑء کی طرف وحی کی تھی۔‘‘

نوحؑ  کے بارے  میں ارشاد ہوا:

’’انآ ارسلنا نوحا الی قومہ۔ الایۃ‘‘ (سورہ نوح :ع1)

’’ہم نےنوح ؑ کوان کی قوم کی طرف بھیجا‘‘

اور نبی کریم ﷺ کے بارے میں ارشاد ہے:

’’قل یٰآیھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً‘‘۔ الایۃ‘‘ (الاعراف:ع10)

’’آپ کہہ دیجئے کہ ’’اے لوگو، تم سب کی طرف میں اللہ کا رسولؐ ہوکر آیا ہوں۔‘‘

یعنی نوح ؑ، صرف ایک قوم کی طرف مبعوث ہوئے جبکہ نبی کریم ﷺ تمام عالم اسلامی کے لیے رہبر بنائے گئے۔

6۔   حضرت صالح ؑ کا وعظ قرآن پاک  میں مذکور ہے:

’’یا قوم اعبدوا اللہ مالکم من الٰہ غیرہ‘‘ (سورہ ہو: ع6)

’’اے میری قوم، اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔‘‘

نبی کریم ﷺ کا وعظ تمام عالم اسلامی کے لیے ہے:

’’قل یٰعباد الذین اٰمنوا اتقوا ربکم للذین احسنوا فی ھٰذا الدنیا حسنۃ وارض اللہ واسعۃ‘‘ (سورہ زمر:ع2)

’’آپؐ (میری طرف سے فرما دیجئے) ’’اے میرے ایماندار بندو، اپنے پروردگار سے ڈرتے رہا کرو (کیونکہ) جولوگ نیک افعال ہیں اسی دنیا میں ان کے حصہ میں ہر طرح کی بھلائی ہے او راللہ کی زمین فراخ ہے۔‘‘

7۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’یٰنارکونی بردا او سلاما علیٰ ابراھیم‘‘ (سورہ انبیاء : ع5)

’’ہم نے آگ کو حکم دیا کہ اے آگ تو ابراہیم ؑ کے لیے سرد اورسلامتی والی بن جا۔‘‘

نبی کریم ﷺ کی بابت بایں طو رارشاد ہے:

’’کلمآ او قدون انار للحرب اطفاھا اللہ۔ الآیۃ‘‘ (سورہ مائدہ :ع9)

’’جب کبھی مسلمانوں کےمقابلہ میں لڑائی کی آگ بھڑکائیں گے، خدا اس آگ کو بجھا دے گا۔‘‘

اس میں استمرار پایا جاتا ہے۔

ابراہیم ؑ کے خلق کی تعریف میں فرمایا:

’’ان ابراھیم لاواہ حلیم‘‘ (توبہ : ع14)

’’بے شک ابراہیم ؑ بڑے ہی نرم دل او ربردبار تھے۔‘‘

نبی کریم ﷺ کی تعریف میں ارشاد ہے:

’’وانک لعلیٰ خلق عظیم‘‘ (ن:ع1)

’’اوربے شک آپؐ اعلیٰ خلق پرقائم ہیں۔‘‘

8۔ حضرت لوط علیہ السلام کے اعداء کی تباہی کے لیے فرشتوں کا اترنا یوں مذکور ہے:

’’یالوط انا رسل ربک لن یصلوآ الیک‘‘

’’فرشتوں نے کہا اے لوطؑ! ہم آپ کے پروردگار کے ایلچی ہیں، یہ ہرگز آپ تک نہ پہنچ سکیں گے۔‘‘

نبی کریم ؐ کی شان والا میں فرشتوں کی عظیم تعداد بیان کرکے فرمایا:

’’ھٰذا یمددکم ربکم بخمسۃ الاف من الملٰئکۃ مسومین‘‘ (سورہ آل عمران : ع13)

’’‘پانچ ہزار فرشتوں کی لیس او رتیار فوج سے اللہ آپؐ کی مدد فرمائے گا۔‘‘

اور حفاظت سے  متعلق فرمایا گیا:

’’واللہ یعصمک من الناس‘‘ (مائدہ :ع10)

’’اللہ آپ کو لوگوں کی تکلیف سے محفوظ رکھے گا۔‘‘

9۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صفات میں فرمایا:

’’انہ کان صادق الوعد۔الایۃ‘‘ (مریم :ع4)

’’وہ وعدہ کے سچے تھے۔‘‘

او رنبی کریم ﷺ کی شان میں فرمایا:

’’وصدق اللہ و رسولہ۔ الایۃ‘‘ (احزاب :ع2)

’’او راللہ او راس کے رسولؐ نے سچ فرمایا۔‘‘

ادھر صدق کو صرف وعدہ کی طرف منسوب کیا ہے، ادھر آپؐ کے تمام افعال و اقوال کے لیے اسے عام فرمایا ہے:

10۔                 حضرت اسحاق علیہ السلام کی بابت وارد ہے:

’’وبشرنٰہ باسحاق۔الایۃ‘‘ (صافات :ع3)

’’ہم نے ابراہیم ؑ کو اسحاق ؑ کی بشارت دی۔‘‘

او رنبی کریم ﷺ کی بابت سینکڑوں برس قبل بذریعہ عیسیٰ علیہ السلام بشارت پہنچائی:

’’ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد‘‘ (صف :ع1)

’’او رایک رسولؐ کی خوشخبری سناتا ہوں، جو میرے بعد آئے گا اور جس کا نام احمدؐ ہوگا۔‘‘

11۔                حضرت یعقوب ؑ ، اپنے قصور وار فرزندوں کی اس درخواست پر کہ ہمارے قصور معاف کرا دیجئے ، یوں ارشاد فرماتے ہیں:

’’سوف استغفرلکم ربی انہ ھو الغفور الرحیم‘‘ (یوسف: ع11)

’’میں تمہارے لیے خدا سے بخشش مانگوں گا، (امید ہے کہ خدا قبول کرے گا) کیونکہ وہی بڑا بخشنے والا ہے۔‘‘

اور نبی کریم ﷺ کی شان میں بلا درخواست یوں فرمایا گیا:

’’ولوانھم اذظلموآ انفسھم جآءوک فاستغفروا اللہ واستغفرلھم الرسول لوجدواللہ توابا رحیما‘‘ (سورہ نساء :ع9)

’’او رجب انہوں نے بوجہ انکا رکے اپنا برُا کیا تھا، آپؐ کے پاس آکر خدا سے بخشش مانگتے اور رسولؐ بھی ان کے لیے بخشش مانگتے تو اللہ کو ضرور اپنے حق میں معافی دینے والا مہربان پائیں گے۔‘‘

12۔                حضرت یوسف علیہ السلام کے رؤیا کا ذکر قرآن مجید میں ہے:

’’انی رایت احد عشر کوکبا و الشمس والقمر رایتھم لی ساجدین‘‘ (یوسف :ع1)

’’بیشک میں نے گیارہ ستارے اور سورج او رچاند کو خواب میں دیکھا ہے کہ وہ مجھے سجدہ کررہے ہیں۔‘‘

نبی کریم ﷺ کے رؤیا میں ذکر ہے:

’’لقد صدق اللہ رسولہ الرؤیا بالحق لتدخلن المسجد الحرام ان شآء اللہ امنیین محلقین رءوسکم و مقدرین لا تخافون‘‘ (سورہ فتح :ع4)

’’اللہ نے اپنے رسولؐ کا خواب بالکل سچا کردیا، کہ تم لوگ مسجد حرام میں ضرور داخل ہوگے، ان شاء اللہ اس حال میں کہ تم سرمنڈائے او ربال ترشوائے ہوئے ہوگے۔ کسی کا خوف تم کو نہ ہوگا۔‘‘

یوسف علیہ السلام کا رؤیا ان کے ذاتی مرتبہ کو ظاہر کرتا ہے او رحضورﷺ کا رؤیا پوری قوم کی صلاح و فلاح کی ایک عظیم بشارت ہے۔

13۔                حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو وزن کے باقاعدہ رکھنے پر یہ وعظ فرمایا:

’’ویٰقوم اوفوا المکیال والمیزان بالقسط ولا تبخسوا الناس اشیاءھم۔ الایۃ‘‘ (سورہ ہود: ع8)

’’اے میری قوم، ناپ اور تول انصاف سے پورا کیا کرو او رلوگوں کی چیزیں کم نہ دیا کرو۔‘‘

اور نبی ﷺ نے بھی اپنی امت کو یہ تعلیم دی:

’’واقیموا الوزن بالقسط ولا تخسروا المیزان‘‘ (الرحمٰن:ع1)

’’تم انصاف کے ساتھ وزن او رناپ پورا کیا کرو اور ناپ کم نہ دیا کرو۔‘‘

14۔                حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے قوم، فرعون کے تعاقب سے گھبرائے کیوں جاتے ہو؟ تو :

’’قال کلا ان معی ربی سیھدین‘‘ (الشعراء :ع4)

’’(موسیٰ ؑ نے کہا) ہرگز ایسا نہ ہوگا، میرا پروردگار میرے ساتھ ہے۔‘‘

پھر نبی ؐ کی معیت کا ذکربھی فرمایا، ذرا شان ملاحظہ ہو:

’’لا تحزن ان اللہ معنا‘‘ (سورہ توبہ :ع6)

’’(آپؐ نے ابوبکر سے فرمایا کہ) خود مت کر خدا ہمارے ساتھ ہے۔‘‘

موسیٰ علیہ السلام نے مژدہ نبوت پر شرح صدر کی درخواست کی تھی:

’’قال رب اشرح لی صدری‘‘ (سورہ طٰہٰ: ع2)

’’موسیٰ علیہ  السلام نے دعا، ’’الٰہی میرا سینہ کھول دے۔‘‘

نبی کریم ﷺ کے لیے بلا سوال ارشاد ہوا :

’’الم نشرح لک صدرک‘‘ (الانشراح: ع1)

’’کیا ہم نے آپؐ کا انشراح صدر نہیں فرمایا؟‘‘

15۔                حضرت ہارون علیہ السلام کی فصاحت لسانی کا ذکر قرآن مجید میں یوں ہے:

’’واخی ہارون ھوا فصح منی لسانا۔ الآیۃ‘‘ (قصص: ع4)

’’میرابھائی ہارون ، جو مجھ سے زیادہ فصیح ہے۔‘‘

او رنبی کریم ﷺ کی فصاحت و بلاغت کےمتعلق جملہ محاسن کو دو لفظوں میں مقید فرما دیا:

’’سحر یؤثر‘‘       ’’یہ محض جادو ہے جو پہلے لوگوں سےنقل چلا آیا ہے۔‘‘

مقام غور ہے کہ کفار مکہ، رسول کریم ﷺ کی جادو بیانی کا اقرار کرتے ہیں او رتہ دل سے انہیں بھی علم ہےکہ آپؐ کی بات میں کشش اور تاثیر ہے۔ الغرض جادو بیان ہونا انتہائی فصاحت و بلاغت ہے۔اکبر الٰہ آبادی کہتے ہیں:                                      ؎

سمجھ میں صاف آجائے فصاحت اس کوکہتے ہیں

اثر ہو سننے والوں پر بلاغت اس کو کہتے ہیں

16۔                حضرت داؤد  اور سلیمان علیہما السلام کے علم کےمتعلق ارشاد ہوا:

’’ولقد اٰتینا داؤد و سلیمان علما‘‘ (نحل :ع2)

’’ہم نے داؤد ؑاور سلیمانؑ کوعلم دیاتھا۔‘‘

او رنبی کریم ﷺ کے متعلق ایسا ارشاد ہے، جس میں تمام قسم کی چیزیں داخل ہیں:

’’وعلمک مالم تکن تعلم‘‘ (نساء :ع17)

’’آپؐ کو وہ باتیں سکھائی ہیں جو اپؐ نہیں جانتے تھے۔‘‘

حضرت داؤدؑ کی شان میں فرمایا:

’’ولقد اٰتینا داؤد منا فضلا‘‘ (سبا: ع2)

’’اور ہم نے حضرت داؤد کو اپنے پاس سے فضل دیا تھا۔‘‘

نبی کریم ﷺ کی شان میں فرمایا:

’’وکان فضل اللہ علیک عظیما‘‘ ( نساء :ع17)

’’اور آپؐ پر خدا کا بڑا فضل ہے۔‘‘

یہاں پر فضل عظیم کے ذکر سے آپؐ کی افضلیت ثابت ہوئی۔

حضرت داؤد علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہوا:

’’والنالہ الحدید‘‘ (سباء :ع2)

’’اور ہم نے لوہے کو ان کے لیے نرم کردیا۔‘‘

او رنبی کریم ﷺ کے کلام میں وہ قوت روحانی ہے، جس نےدلوں کونرم کردیا، فرمایا:

’’ثم تلین جلودھم و قلوبھم الیٰ ذکر اللہ‘‘ (سورہ زمر :ع3)

’’پھر ان کے چمڑے اور دل خدا کے ذکر کی طرف جھکتے ہیں(یعنی ان کے جسم، ان کے قلب، ذکر اللہ کے لیے نرم ہوجاتے ہیں۔‘‘

مولانا حالی مرحوم نے کیا خوب لکھا ہے:      ؎

پانی میں آگ کا لگانا دشوار

بہتے ہوئے دریا کو پھیر لانا دشوار

دشوار تو ہے مگر نہ اتنا جتنا

کسی بگڑی ہوئی قوم کا بنانادشوار

چنانچہ نبی کریم ﷺ نے دلوں کومسخر کرلیا تھا۔

17۔                حضرت سلیمان ؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ولسلیمان الریح۔الایۃ‘‘ (سبا: ع2)

’’او رہم نے ہوا کو سلیمان ؑ کے تابع کردیا۔‘‘

اسی طرح نبی کریم ﷺ کے حالات میں بیان کیا گیا:

’’اذجآء تکم جنودفارسلنا  علیہم ریحا و جنودا لم تروھا۔ الایۃ‘‘ (الاحزاب :ع2)

’’جب لشکر تم پرچڑھ آئے تو ہم نے ان پر ہوا اور ان لشکروں کو بھیجا جن کو تم نے نہیں دیکھا۔‘‘

18۔                حضرت ایوبؑ کی خاص صفت صبر کے متعلق فرمایا:

’’انا وجدنٰہ صابرا‘‘ (ص :ع4)

’’ہم نے انہیں صبر کرنے والا پایا۔‘‘

اللہ نے اسی صفت کا ذکر نبی کریمؐ کے لیے بھی کیاہے، فرمایا:

’’وما صبرک الا باللہ‘‘ (نحل :ع16)

’’او رہمیشہ آپؐ کا صبر اللہ کی عنایت سے ہے۔‘‘

رسول کریمﷺ کا صبر ایک مشہور عالم حقیقت ہے، چنانچہ عبداللہ بن رواحہ نے یہ شعر نبی کریم ﷺ کی شان میں کہا ہے:      ؎

رسول اللہ مصطبر کریم

بامر اللہ ینطق اذ یقول

یعنی ’’رسول اللہ ﷺ سراپا صبر ہیں اور اللہ کے حکم سے گویا ہوتے ہیں۔

اللہ پاک نے حضرت ایوب ؑ کے لیے فرمایا:

’’نعم العبد‘‘ (ص: ع4)

مگر حضورﷺ کےمتعلق فرمایا:

’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہ۔ الآیۃ‘‘ (بنی اسرائیل :ع1)

’’اللہ تعالیٰ تمام عیوب سے پاک ہے جس نے اپنے بندے محمدؐ کو راتوں رات سیر کرائی۔‘‘

اور کما ل ملاحظہ ہو کہ ضمیر کا جھگڑا ہی مٹا دیا او ربراہ راست نسبت عبدیت اپنی طرف کرلی۔ فرمایا:

’’لما قام عبداللہ یدعوہ‘‘ (جن :ع1)

یعنی ’’جب اللہ کا بندہ کھڑا ہوکر اسے پکارتا ہے۔‘‘

19۔                حضرت زکریا علیہ السلام کی نسبت فرمایا:

’’ذکر رحمۃ ربک عبدہ زکریا‘‘ (مریم :ع1)

’’یہ آپؐ کے پروردگار کی رحمت کاذکر ہے جو اس نے اپنے بندے زکریاؑ پر فرمائی۔‘‘

نبی پاک ﷺ کے متعلق ارشاد ہوا:

’’الا رحمۃ من ربک ان فضلہ کان علیک کبیرا‘‘ (سورہ بنی اسرائیل : ع10)

’’....... یہ آپؐ کے پروردگار کی رحمت ہے، کچھ شک نہیں کہ آپؐ پر اس کا فضل بہت بڑا ہے۔‘‘

رحمت اور فضل کبیر کا تذکرہ اپؐ کی رفعت شان کے لیے کافی ہے۔

20۔                حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بابت ارشاد ہے:

’’مصدقا بکلمۃ من اللہ۔ الآیۃ‘‘ (آل عمران :ع4)

’’وہ اللہ کے حکم کی تصدیق کرنے والے ہیں۔‘‘

قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ کو اپنا کلمہ بتایا ہے او رحضرت یحییٰ ؑ کومصدق قرار دیا کچھ شک نہیں کہ حضرت یحییٰ نے حضرت عیسیٰ کے قدوم میمنت لزوم کی خبر لوگوں کو  مستقبل میں دی تھی۔ نبی کریم ﷺ کے متعلق یوں ارشاد ہوا:

’’مصدقالما بین یدیہ۔ الآیۃ‘‘ (البقرہ:ع12)

یعنی ’’ اپنے سے پہلوں کی تصدیق کرنے والے ہیں۔‘‘

صرف مستقبل ہی نہیں ماضی کی بھی تصدیق کرنے والے۔

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ نبی کریم فداہ ابی  وامی نے تصدیق انبیاؑء کے کام کو زیادہ وسعت کے ساتھ انجام دیا۔

20۔                حضرت  یحییٰ ؑ کو ’’سّید‘‘ کہا گیا۔

نبی کریم ﷺ کو بھی اس عظیم خطاب سے نوازا: ’’یٰسین‘‘ (اے سیّد)

یہ ترجمہ کتاب الشفاء میں حضرت جعفر سے مروی ہے۔

21۔                یحییٰ علیہ السلام کی شان میں فرمایا:

’’وحنانا من لدنا۔ الآیۃ‘‘ (مریم :ع1)

یعنی ’’خدا کی طرف سے نرم دل پاک طینت  ہیں۔‘‘

نبی کریم ﷺ کی شان میں ہے:

’’فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم ‘‘ ( آل عمران : ع17)

یعنی ’’ یہ خدا کی رحمت ہے کہ اس نے آپؐ کو نرم دل پایا۔‘‘

22۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بابت ارشاد ہے:

’’واٰوینٰھما الیٰ ربوۃ۔الآیۃ‘‘ ( مؤمنون: ع3)

 یعنی’’ہم نے مریم و ابن مریم ؑ کوایک بلند ٹھکانا دیا۔‘‘

اسی طرح عہد طفلی میں نبی کریم ﷺ کے لیے بھی فرمایا:

’’الم یجدک یتیما فٰاوٰی‘‘ (سورہ ضحیٰ)

کہ ’’آپ ؐ دنیا میں یتیم ہوکر آئے پھر خدا نے آپؐ کو ٹھکانا دیا۔‘‘

الغرض نبی کریم ﷺ کی ذات میں وہ تمام محاسن و فضائل بکمال موجود تھے جو تمام انبیاؑء میں پائے جاتے تھے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔  ؎

حسن یوسف ؑ دم عیسیٰؑ ید بیضا داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری