نکاح و طلاق وغیرہ کے چند مسائل
محمد سعید صاحب گوجرانوالہ سے لکھتے ہیں:
1۔ بلوغت سے قبل جو نکاح کیا جائے۔ کیا یہ نکاح شرعی طور پر جائز ہوگا یا نہیں؟
2۔ طلاقی زبانی دینا کافی ہے تحریری دینا ضروری ہے؟
3۔ رخصتی سے قبل طلاق کے واقعہ ہونے کی صورت میں کتنا حق مہر ادا کرنا پڑتا ہے۔؟
4۔ رخصتی کے بعد جہیز کا شرعی حکم کیا ہے، آیا وہ لڑکے کے پاس رہے گا یا واپس لڑکی کو دیا جائے گا؟
5۔ کوئی شخص زبانی طلاق دے دے، اس کے بعد اس لڑکی کا نکاح دوسری جگہ کیا جائے تو کیا نکاح خواں کے اورگواہوں کے نکاح متاثر ہوں گے یا کہ نہیں اور کیا ایسے نکاح خواں کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے؟
الجواب :
1۔ واضح ہو کہ صغر سنی میں بلوغت سے قبل جو نکاح کیا جائے شرعاً واقع ہوجاتا ہے بشرطیکہ لڑکی بلوغت کے بعد اس نکاح پر رضا مندی کا اظہار کردے۔
خود آنحضرتﷺ نے حضرت عائشہؓ سے جب نکاح کیاتھا، تب ان کی عمر چھ سات سال تھی اور رخصتی بلوعت کے بعد ہوئی تھی اور اگر چھوٹی عمر کے نکاح پر لڑکی راضی نہ ہو تو وہ نکاح شرعاً صحیح نہیں۔
سنن ابن ماجہ (ص136) میں ہے کہ ایک نوجوان عورت آنحضرتﷺ کی خدمت میں آئی۔ اس نے بیان کیا ’’میرے باپ نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا ہے تاکہ اس طریقہ سے وہ اپنی بدحالی کو زائل کرسکے‘‘ آپؐ نے یہ بیان سن کر لڑکی کو اختیار دے دیا۔
تب اس لڑکی نے کہا: ’’میں اپنے باپ کے کیے ہوئے نکاح کوباقی رکھتی ہوں۔ میں صرف یہ چاہتی تھی کہ عورتوں کو پتہ چل جائے کہ لڑکی کے نکاح کے بارہ میں آباء کو جبر کا کوئی حق حاصل نہیں۔‘‘
اسی طرح سنن ابن ماجہ ص136 اور سنن ابی داؤد:1؍292 پر ہے: حضرت ابن عباسؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی آنحضرتﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا ’’میرے باپ نے میرا نکاح کردیا ہے، لیکن مجھے پسند نہیں۔‘‘ تو آپؐ نے اسے اختیار دے دیا۔
ان احادیث مبارکہ سےمعلوم ہوا کہ اگر لڑکی راضی ہو توصغر سنی کا نکاح درست ہوگا اور اگر لڑکی اس نکاح کو رد کرنا چاہیے تو اسے اختیار ہے۔
2۔ طلاق کا مفہوم صرف اس قدر ہےکہ خاوند اپنی بیوی کو خود سے جدا کرکے آزاد کردے۔ طلاق دینا اگرچہ شرعاً جائز ہے لیکن یاد رہے کہ جائز او رحلال ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کو یہ فعل انتہائی ناپسند ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے:
’’ابغض الحلال الی اللہ الطلاق‘‘ (ابوداؤد مع عون المعبود جلد2 ص221)
کہ ’’تمام حلال کاموں میں سب سے سے ناپسندیدہ او رمبغوض فعل، اللہ کے ہاں طلاق ہے۔‘‘
اس لیے کسی اشد مجبوری کے بغیر طلاق نہیں دینی چاہیے۔
طلاق زبانی دی جائے یا تحریری، واقع ہوجاتی ہے، تحریری طلاق دینا کوئی ضروری نہیں۔
3۔ رخصتی سے قبل اگر طلاق دے دی جائے تو خاوند کے ذمہ مقرر کردہ حق مہر میں سے نصف کی ادائیگی ضروری ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
’’وان طلقتمو ھن من قبل ان تمسوھن وقد فرضتم لھن فریضۃ فنصف مافرضتم۔ الآیۃ‘‘ (البقرہ :237)
کہ ’’اگر تم خلوت سے قبل طلاق دے دو تو مقرر کردہ حق مہر میں سے نصف (کی ادائیگی کرو)‘‘
ہاں اگر خاوند بطور احسان مکمل ادا کردے تو یہ اس کے لیے افضل او ربہتر ہے۔ اسی طرح عورت اگر چاہے تو نصف مہر، جو اس کا حق بنتا ہے، معاف کرسکتی ہے۔
4۔ جہیز عموماً لڑکی کے والدین لڑکی کو دیتے ہیں، اس لیے وہ لڑکی کا حق ہے۔ اختلاف کی صورت میں لڑکی کے والدین سے وضاحت کرائی جاسکتی ہے کہ انہوں نے یہ سامان لڑکے کو دیا یا لڑکی کو؟ اگر انہوں نے لڑکے کو دیا ہو تو جہیز دے کرواپس لینا مستحسن نہیں اور اگر لڑکی کو دیا ہو تو یہ سامان لڑکی کا ہے، جب اسے طلاق دے دی گئی تو وہ اپنی سامان بھی واپس لے جاسکتی ہے۔اسے روکا نہیں جاسکتا۔
5۔ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو زبانی طلاق دے دیتا ہے تو یہ طلاق معتبر ہے۔ رجعی طلاق کی صورت میں عدت کے اندر وہ شخص چاہے تو رجوع کرلے ، ورنہ بعد از عدت اس عورت کا نکاح دوسری جگہ کرنا جائز اور درست ہے۔
عدت کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے پر نکاح خواں اور گواہان کسی جرم کے مرتکب نہیں۔ لہٰذا اس سے ان کے اپنے نکاح پر کوئی اثر نہیں ہوگا ان کے نکاح درست ہیں او رایسے نکاح خواں کے پیچھے نماز درست ہے۔
یاد رہے کہ اگر بالفرض کوئی شخص غلط نکاح پڑھا دے تو وہ اپنی جگہ مجرم اور گناہ گار ہے، تاہم اس سے اس کے اپنے نکاح پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔
ھٰذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب