ستمبر 1986ء

مُنکرینِ حدیث کی عربی زبان سے ناواقفی

’’طلوع اسلام ‘‘ نے اس مقام پر سیبویہ کا قول بڑے فخر سے نقل کیا ہے۔ حالانکہ سیبویہ کے ہاں اس عطف کی ممانعت کی دلیل بری کمزور ہے او رجستجو کے بعد اس کے ضعف میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس علت کو نقل کیا جائے، جس کی بناء پر سیبویہ نے اس عطف کی ممانعت کا قول اختیار کیا ہے، او رپھر اس علّت کی کمزوری کو واضح کیا جائے۔

یہ علت تفسیر قرطبی میں ہی اس طرح منقول ہے:

’’وقال سیبویہ: لم یعطف علی الضمیر الخفوض لانہ، بمنزلۃ التنوین والتنوین لا یعطف علیہ‘‘ (الجامع لاحکام القرآن جلد3 صفحہ 1573)

یعنی ضمیر مجرور چونکہ تنوین کے مشابہ ہے اور تنوین پر کسی اسم وغیرہ کا عطف نہیں ڈالا جاسکتا، لہٰذا ضمیر مجرور پر بھی عطف نہیں ڈالنا چاہیے۔

لیکن تفسیر البحر المحیط وغیرہ میں سیبویہ کی بیان کردہ اس علت کی تردید یوں کی گئی ہے کہ:

’’واما القیاس فھو انہ کما یجوز ان بدل منہ و یؤکد، من غیر اعادۃ جار کذٰلک یجوز ان یعطف علیہ من غیر اعادۃ جار‘‘ (البحر المحیط:2؍148)

اگر ضمیر مجرو پر تنوین کی مشابہت کی وجہ سے عطف نہیں ڈالا جاسکتا، تو پھر اس سے بدل اور تاکید لانا بھی ممنوع ہونا چاہیے، کیونکہ تنوین سےبدل اور تاکید نہیں آسکتے، حالانکہ بالاتفاق ضمیر مجرور سے بدل آسکتا ہے ، اور اس کی تاکید لائی جاسکتی ہے، جبکہ عطف بھی تاکید او ربدل کی طرح توابع میں داخل ہے، تو ان میں تفریق کرنا، تفریق بین المتماثلین ہے، جو کہ ناجائز ہے۔

تفسیر قرطبی میں ہی اس عطف کی ممانعت کی ایک دوسری علت، جو مازنی سے نقل کی گئی ہے، وہ بھی قابل تسلیم نہیں۔ علت بمع جواب ملاحظہ ہو:

’’وقال الزجاج عن المازنی: لان المعطوف، والمعطوف علیہ شریگان، یحل کل واحد منھما محل صاحبہ فکما لا یجوز مررت بزید وک کذٰلک لا یجوز مررت بک و زید‘‘ (الجامع لاحکام القرآن:3؍1573)

یعنی دو اسموں میں سے ایک  کے دوسرے پر عطف کے لیے یہ شرط ہے کہ ان میں ہر ایک دوسرے کی جگہ پر رکھا جاسکتا ہو، جیسے ’’مررت بزید و عمرو‘‘ میں ’’مررت بعمرو وزید‘‘ کہا جاسکتا ہے، لیکن ضمیر مجرور پر عطف کی صورت میں اس طرح قلب مکانی نہیں کی جاسکتی، لہٰذا جب ’’مررت بزید وک‘‘ جائز نہیں، تو ’’مررت بک و زید‘‘ حرف جر دھرائے بغیر، بھی  جائز نہیں ہونا چاہیے۔

اس دوسری علت کی تردید کرتے ہوئے علامہ جمال الدین طائی فرماتے ہیں:

’’یدل علیٰ ضعفہا انہ لوکان حلول کل واحد من المعطوف والمعطوف علیہ .......یعنی محل الاٰخر......شرطاً فی صحۃ العطف لم یجز: رب رجل واخیہ....... ولا الواھب المائۃ الھجان ف عبدھا، وامثال ذٰلک من المعطوفات الممتنع تقدیمھا و تاخیر ما عطفت علیہ کثیرۃ، فلما لم یمتنع فیھا العطف لا یمتنع فی نحو مررت بک وزید واذا بطل کون ما تعللوابہ مانعا وجب الاعتراف بصحۃ الجواز‘‘ (شرح الکافیہ الشافیہ :3؍1247)

یعنی اگر عطف کی صحت کے لیے معطوف علیہ اور معطوف میں سے ہر ایک کا دوسرے کی جگہ واقع ہونا شرط ہو تو ’’رب رجل و أخیہ‘‘ میں  ’’اخیہ‘‘ کا ’’رجل‘‘ پر عطف صحیح نہیں ہونا چاہیے کیونکہ  اس میں قلب مکانی کرکے اگر کہا جائے ’’رب أخیہ و رجل‘‘ تو یہ اضمار قبل الذکر، یعنی ضمیر کا اپنے مرجع کے ذکر سے پہلے واقع ہونے کی بناء پر جائز نہیں، حالانکہ پہلی صورت ’’رب رجل و اخیہ‘‘ میں عطف کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ اس صورت میں اضمار قبل الذکر لازم نہیں آتا، لہٰذا معلوم ہوا کہ عطف کی صحت کے لیے معطوف علیہ اور معطوف میں سے ہر ایک کا دوسرے کی جگہ واقع ہونے  کو شرط بنانا غلط  ہے۔ جبکہ وہ علتیں، جن کی بنیاد پر ضمیر مجرور پر حرف جر دہرائے بغیر عطف کو ممنوع بنا دیا گیا ہے وہ مانع نہیں بن سکیں تو ضمیر مجرور پر بلا اعادہ جار، عطف کے جواز کو لازماً تسلیم کرنا پڑے گا۔

شیخ جمال الدین نے تو اس مقام پر تفصیل سے گفتگو کی ہے، لیکن ہم نے بقدر ضرورت علت اور ا س کی تردید نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ جن علتوں کا سہار ا لے کر سیبویہ وغیرہ نے اس عطف کو ممنوع قرار دیاہے، وہ علتیں کمزور ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہیں، جس کا لازمی نتیجہ یہ  ہوا کہ ضمیر مجرور پرحرف جر کے اعادے کے بغیر عطف ڈالنا جائز ہے۔

او رجہاں تک قراءۃ حمزہ پر ثانی الذکر اعتراض کا تعلق ہے، تو یہ اشکال بظاہر وزنی معلوم ہوتا ہے، لیکن کرید کے بعد ’’ھباء منشوراً‘‘ ہوکر رہ جاتا ہے، وہ اس طرح کہ ’’الارحام‘‘ جر کے ساتھ ’’بہ‘‘ کی ضمیر مجرور پر معطوف ہے، جب کہ معطوف علیہ تساءلون کے بعد واقع ہے۔ تو جس طرح معطوف علیہ سوال سے متعلق ہے ، معطوف بھی اسی طرح ’’تساءلون‘‘ کے سوال سے وابستہ ہوا۔لہٰذا اس آیت کریمہ میں زیر بحث مسئلہ سوال کرنے کا ہے، قسم اٹھانے کا نہیں۔

سید محمد رشید رضا اُن لوگوں کا تعاقب کرتے ہوئے، جنہوں نے یہاں ’’تساءلون‘‘ کو قسم او رحلف کے معنی میں لے لیا ہے، فرماتے ہیں:

’’.................... ھذا الجواب مبنی علیٰ کون التساءل بالارحام ھو قسمابھا وھو خطأ، فان السؤال باللہ غیرالقسم باللہ، والسؤال بالرحم غیر الحلف بھا، وقد اوضح شیخ الاسلام ابن تیمیۃ ھٰذا الفرق فی القاعدۃ التی قرر فیھا مسألۃ التوسل والوسیلۃ فقال واجاد، وحقق کعادتہ جزاہ اللہ عن دینہ و نفسہ خیر الجزآء‘‘ (تفسیرالمنار:4؍334)

یعنی ’’واتقواللہ الذی  تساءلون بہ والارحام‘‘ کو جر کی حالت میں قسم پر محمول کرلینا غلطی ہے کیونکہ سوال باللہ ، قسم باللہ سے مختلف ہے، اسی طرح سوال بالرحم او رحلف بالرحم دونوں الگ الگ ہیں او رشیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے اپنے رسالہ ’’التوسل و الوسیلہ‘‘ میں اپنی عادت کے مطابق اس فرق کو خوب واضح کیا ہے۔

مگر طلوع اسلام نے یہاں بھی علمی لحاظ سے بُری طرح ٹھوکر کھاتے ہوئے لکھا ہے:

’’بلکہ امام قرطبی نے دعویٰ کیا ہے کہ جمہور ائمہ نے صحیح مسلم کی ایک حدیث کے حوالے سے اس غلط قاعدے کے استعمال پر اصرار کو رسول اللہ ﷺ کی توہین قرار دیا ہے۔‘‘ (بحوالہ الجامع لاحکام القرآن)

یہ عبارت ہم نے طلوع اسلام مارچ 1986ء سے نقل کی ہے جو کہ اس نے اہلحدیث پر اعتراض کے لیے لکھی ہے۔ لیکن قارئین حیران ہوں گے کہ اس حدیث کے  حوالے سے تفسیر قرطبی میں یہ دعویٰ امام قرطبی کا نہیں نحاس کا ہے، امام قرطبی تو اس دعویٰ کے ناقل ہیں جبکہ ’’طلوع اسلام‘‘ نے اپنے جہالت کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے اسے خواہ مخواہ امام قرطبی کے سرمنڈھ دیا ہے۔اصل الفاظ ملاحظہ ہوں:

’’قل النحاس:وقول بعضہم ’’والارحام‘‘ قسم، خطأ من المعنیٰ والاعراب لا الحدیث عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یدل علی النصب‘‘ (الجامع لاحکام القرآن صفحہ 3؍1573)

اور امام قرطبی نے ایک دوسرا قول زجاج سے بھی نقل کیا ہے۔ چنانچہ ان میں سے کوئی قول بھی امام قرطبی کا اپنا نہیں ہے۔ پھر تعجب ہے کہ ’’طلوع اسلام‘‘ کی نظر میں غیر قرطبی کا یہ دعویٰ قرطبی کا دعویٰ کیسے بن گیا؟ جبکہ زجاج او رنحاس دونوں ناموں کے حروف میں کوئی بھی حرف تہجی ’’قرطبی‘‘ کے حروف تہجی کےساتھ مشترک نہیں ہے۔ لہٰذا یہ لوگ اس مقام پر اپنی کوتاہی فہمی کا جتنا بھی ماتم کریں کم ہے کہ وہ اس عبارت سے یہ تک سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ یہ دعویٰ کرنے والا کون ہے؟ تاہم چیلنج علماء اہلحدیث کے مبلغ علم کو کیا جارہا ہے۔........ آہ ع

بریں عقل و دانش ببایدگریست!

پھر تو یہ         ؎

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

یہی امام قرطبی،نحاس او رزجاج کے مذکورہ اقوال نقل کرنے کے بعد نہ صرف ان کی تردید کررہے ہیں، بلکہ ضمیر مجرور پر حرف جر کے بغیر عطف کے جواز کو ثابت کرنے میں بھی وہ سرگرم دکھائی دیتے ہیں ۔چنانچہ اس کتاب کے اگلے صفحہ پر وہ ابونصر قشیری سے ان اقوال کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’وردہ الامام ابونصر عبدالرحیم بن عبدالکریم القشیری ، واختار العطف فقال: ومثل ھٰذا الکلام مردود عند ائمۃ الدین، لان القراءات التی قرأ بھا ائمۃ القراء ثبتت عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تواترا......!‘‘ (الجامع لاحکام القرآن صفحہ 3؍1574)

یعنی ابونصر قشیری نے حرف جر دہرائے بغیر عطف کو پسند فرمایا ہے او رکہا ہے کہ نحاس ، زجاج او رابن عطیہ کی کلام ائمہ دین کے ہاں  مردود ہے۔کیونکہ قراء کرام  کی قراء ات نبی کریم ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، جسے اہل فن بخوبی جانتے ہیں۔ لہٰذا جس نے نبی اکرمﷺ سے ثابت شدہ قراء ت کا انکار کردیا۔ اس نے پیغمبر اسلام  کی قراءت کو قبیح سمجھا۔

نحاس وغیرہ کے اقوال کو قرطبی کا دعویٰ بنا ڈالنا، او رامام قرطبی کی قشیری کے حوالہ سے ان اقوال کی تردید کو گول کر  جانا، بلکہ امام قرطبی کے اصل مؤقف کو چھپا لینا یا تو بددیانتی کی انتہاء ہے او ریا پھر ادارہ طلوع اسلام کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت۔ غالباً یہی وہ ’’خوبیاں ‘‘ ہیں جن کی بناء پر طلوع اسلام اپریل 1986ء میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ:

’’وہ (غلام احمد پرویز) اپنے تربیت یافتہ شاگردوں کی ایسی جماعت تیار کرگئے ہیں  جو نہ صرف یہ کہ ان کے فکر کی بہترین علمبردار ثابت ہوگی بلکہ اس کام کو مزید آگے بڑھانے کی استطاعت بھی رکھتی ہے۔‘‘

چنانچہ تربیت یافتگان  کی جہالت کے ان نمونوں کو دیکھ کر قارئین کو ان کے ساقی کی شناخت بھی ہوگئی ہوگی شاگردوں کی  وساطت سے استاد کو پہچان لینا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔

تعجب بالائے تعجب کہ اس فہم و فراست پر ’’طلوع اسلام‘‘ کو اس قدر ناز ہے کہ وہ ’’اہلحدیث‘‘ کی طرف سے شکریہ اور تبریک کے تحائف وصول کرنےکے لیے بیتاب نظر آتا ہے او راس کی طرف للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے یہ کہتے ہوئے کہ :

’’لیکن اتنی اخلاقی جرأت نہ تھی کہ طلوع اسلام کا شکریہ ادا کیا جاتا۔‘‘

جی نہیں، منہ دھو  رکھیئے! آپ اس قابل ہرگز نہیں ہیں کہ آپ کا شکریہ ادا کیا جائے۔ ہاں اگر آپ کوداد تحسین ہی وصول کرنی ہے تو لندن یا پیرس جائیے، جہاں سے آپ کو اسلام او رعلوم اسلام پر اپنی جہالت کے دبیز پردے ڈالنے کے لیے مسموم مواد فراہم ہوتاہے۔ وہاں اپنی ان خرافات کا فرنگی زبانوں میں ترجمہ کرکے انہیں پھیلایئے تو شاید کچھ حق الخدمت وصول ہوجائے۔ البتہ جہاں تک اہلحدیث کا تعلق ہے تو اہلحدیث پرناحق طعن و تشنیع کرنے پر آپ کو ان سے تحریری معافی کا طلب ہونا چاہیے۔ وگرنہ بتلائیے کہ آپ شکریہ کے مستحق آخر کس بناء پر ہیں؟ کیا غیر قرطبی کے قول کو امام قرطبی کا دعویٰ بنا دینے پر؟ قرطبی کی قشیری سے تردید والی عبارت چھپا لینے پر ؟ یا مسئلہ زیربحث میں قرطبی کا اصل مؤقف نہ سمجھنے پر؟

’’............ لا تحسبن الذین یفرحون بمآ اتوا و یحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا فلا تحسبنھم بمفازۃ من العذاب‘‘ (آل عمران:188)

طلوع اسلام کی دوسری غلطی خلط مبحث کی ہے، کہ بات تو شروع کی تھی عطف کی، او رصحیح حدیث کا تعلق غیر اللہ کےساتھ قسم اٹھانے کی ممانعت سے ہے، اب عطف کی بحث میں قسم کے موضوع کو گڈ مڈ کردینا چہ معنی دارد؟ جب ’’الارحام‘‘ میں واؤ عاطفہ ہوگی ، تب حدیث شریف کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں، کیونکہ معطوف علیہ سوال سےمتعلق ہے، لہٰذا اس پر معطوف کا تعلق بھی سوال ہی سے ہوگا، نہ کہ قسم اور حلف سے۔ جیسا کہ تفسیر المنار کی عبارت سے اس کی وضاحت ہوچکی ہے۔

اس صورت حال کے پیش نظر، بقول شما، اس غلط قاعدے کے استعمال سے رسول اللہ ﷺ کی توہین کیسے ہوئی؟ کیا’’تساءلون‘‘ کا معنی ’’اتحالفون‘‘ ہے؟ جبکہ حدیث شریف سے مراد یہ ہے کہ غیر اللہ کی قسم نہ اٹھائی جائے۔لہٰذا توہین جب ممکن ہے، جب ’’والارحام‘‘  میں واؤ عاطفہ کی بجائے واؤ قسمیہ بنائی جائے اور واؤ قسمیہ کا عطف کے قاعدے سے کوئی تعلق ہی نہیں!

قارئین کرام غور فرمائیں، طلوع اسلام نے بات کی  ابتداء ان الفاظ سے کی تھی:

’’بلکہ امام قرطبی نے دعویٰ کیا ہے.........!‘‘

اور  انتہا یہ کہ:

(بحوالہ الجامع لاحکام القرآن)

یہاں لفظ ’’بحوالہ‘‘ واضح طو رپر بتلا رہا ہے کہ ’’طلوع اسلام‘‘ کی نظر میں امام قرطبی کا یہ دعویٰ کسی دوسرے شخص کی تصنیف ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ کے حوالہ سے ہے۔ گویا اہلحدیث علماء کا مبلغ علم ناپنے والے اس ادارہ کو یہ تک معلوم نہیں کہ یہ کتاب امام قرطبی کی اپنی تصنیف ہے، ورنہ اسے ’’بحوالہ‘‘ کے لفظ کے اضافہ کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ یوں اس عبارت کی ابتداء بھی غلط ہے او رانتہاء بھی غلط۔ ابتداء اس لیے کہ امام قرطبی کا یہ دعویٰ ہے ہی نہیں بلکہ نحاس کا ہے۔ لیکن طلوع اسلام نے اسے امام قرطبی سےمنسوب کردیا ہے او رانتہاء اس لیے غلط ہے کہ اس نے  ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ کو امام قرطبی کے علاوہ کسی دوسرے کی تصنیف سمجھ لیا ہے۔ یعنی غیر قرطبی کا قول قرطبی کے ذمہ لگا دیا اور قرطبی کی اپنی تصنیف کو کسی دوسرے سے منسوب کردیا۔بالکل یہی حال ان لوگوں کی قرآن فہمی کا بھی ہے۔ پھر نہ جانے یہ لوگ ہمارے منہ کیوں آتے ہیں؟

اسی پر بس نہیں، اس عبارت سے قبل بھی طلوع اسلام کے کچھ شاہکار قابل مطالعہ ہیں۔

اس نے لکھا ہے:

’’پاکستان میں شائع ہونے والے مذہبی رسائل میں سے ہفت روزہ اہلحدیث واحد اخبار تھا جو اہل سنت کے درود کی بجائے اہل تشیع کا درود استعمال کرتا تھا۔اہل تشیع نے اپنے ایک خاص عقیدے کی تائید میں معروف درود کے الفاظ میں ’’آلہ‘‘ کا اضافہ کردیا ہے۔ یہ اضافہ عربی قاعدے کے مطابق درست نہ تھا۔‘‘ (طلوع اسلام مارچ 1986ء)

آگے چلنے سے پیشتر طلو ع اسلام کو یہ بتا دینا مناسب رہے گا کہ سطور بالا میں اس نے مذہبی رسائل والوں کو ایک ہی سانس میں اہل سنت بھی تسلیم کرلیا ہے اور اہل سنت سے مراد اہل دین ہیں۔ کیونکہ یہاں سنت سے اگر سنت رسولؐ بالفرض خارج بھی ہوتو سنت اللہ بہر حال موجود ہے، جو عین دین ہے۔ چنانچہ اہل سنت کہلانا ہمارے لیے تو بہرحال اعزاز ہے، لیکن آپ لوگوں کے سر پر مصیبت یہ سوار ہے کہ:

’’اسلام دین ہے مذہب نہیں، مذہب کا تو لفظ تک قرآن میں نہیں آیا۔ خدا کے رسول ہمیشہ دین لے کر آتے تھے، لیکن ان کے بعد ان کے نام لیوا دین کومذہب میں تبدیل کردیتے۔‘‘ (شاہکار رسالت (از پرویز) صفحہ 37)

نیز طلوع اسلام نومبر1985ء کے صفحہ 18 پر ہے:

’’قرآن تو محض تلاوت کے لیے رہ گیا اور خارج از قرآن عناصر نے اس کی جگہ لے لی او راس طرح دین مذہب میں تبدیل ہوگیا۔ اب جو کچھ اسلام کے نام سے دنیا میں متعارف ہے، وہ دین نہیں بلکہ مذہب ہے۔‘‘

لیکن ناخلف ’’تربیت یافتگان‘‘ نے اب مذہب والوں کواہل سنت یا بالفاظ دیگر اہل دین کہہ کر، دین و مذہب کی تفریق ختم کرکے اپنے باباجی (پرویز) کو جو خراج تحسین پیش کیا ہے تو ان کی تو روح بھی جھنجھنا اٹھی ہوگی کہ کمبختوں نے عمر بھر کی کمائی  پر پانی پھیر کر رکھ دیا ہے۔ اور یہ اس پر مستزاد کہ اثبات عذاب قبر والی حدیثوں کی حقیقت بھی  اب ان پرواضح ہورہی ہوگی۔

رہی یہ بات کہ :

’’اہل تشیع نے اپنے ایک خاص عقیدے کی تائید میں معروف درود کے الفاظ میں’’آلہ‘‘ کا اضافہ کردیا  ہے۔ یہ عربی قواعد کے مطابق درست نہ تھا۔‘‘

تو ہم بڑے خلوص سے آپ کی چابکدستیوں کے معترف ہیں، لیکن غیر محتاط قلم کی باگ ڈور کو ڈھیلا چھوڑ دینے سے آپ حقائق کومسخ نہیں  کرسکتے جہاں تک اس درود کے عربی قواعد کے خلاف ہونے کا تعلق ہے، تو آپ کے اس دعویٰ کا پوسٹ مارٹ ہم کر آئے ہیں ہاں اگرکچھ کمی رہ گئی ہو تومطلع فرمائیے گا تاکہ یہ شکایت باقی نہ رہے۔ رہی یہ بات کہ ’’آلہ‘‘ کا یہ اضافہ اہل تشیع کی طرف سے ہے، تو یہ بھی آپ لوگوں کومغالطٰہ ہے۔ اہل سنت کی کتابیں اٹھاکر دیکھئے ، آل پر درود کا ثبوت آپ کو اہل تشیع کے معرض وجود میں آنے سے بہت پہلے نبی اکرم ﷺ سے مل جائے گا۔ جیسا کہ صحیحین میں ہے:

’’عن ابی حمید الساعدی قال: قالوا یارسول اللہ کیف نصلی علیک ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قولوا اللھم صلی علیٰ محمد وازواجہ و ذریتہ کما صلیت علیٰ ال ابراہیم وبارک علی ٰ محمد وازواجہ و ذریتہ کما بارکت علیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید‘‘

اور صحیح بخاری میں ہے:

’’............ فقلنا یارسول اللہ کیف الصلوٰۃ علیکم اھل البیت فان اللہ قد علمنا کیف نسلم علیک قال قولوا :اللھم صلی علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ ال ابراھیم انک حمید مجید.............................. الخ‘‘

یہ درود  ہی  تو ہے جس میں ’’آل‘‘ کا لفظ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے ۔ بات چونکہ اہل سنت کے درود کی چل نکلی تھی، اس لیے ہم نے مذکورہ احادیث نبویہ نقل کرنے کی ضرورت محسو س کی ہے، ورنہ ہمیں یہ احساس بھی ہے کہ طلوع اسلام کا ناقص مزاج اس بلندمرتبہ کلام کی حقیقت تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہے۔

پھر یہ بھی نہ بھولئے کہ ’’صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم‘‘ کو آپ بھی صحیح تسلیم کرتے ہیں اور ’’آلہ‘‘ کالفظ اس میں بھی موجود ہے۔ اگرچہ اس ’’آل‘‘ سے آپ اہل بیت کی بجائے ، امت مسلمہ ہی کیوں نہ  مراد لیں۔ لیکن کیا اہل بیت، امت مسلمہ سے (معاذ اللہ) خارج ہیں؟ اہل بیت کے بارے میں رافضہ کے غلو کا یہ مطلب تو نہیں کہ ان سے دشمنی شروع کردی جائے اورنہ ہی اہل بیت کا اس میں کوئی جرم ہے بلکہ اوپر صحیحین کی حدیث میں آپ نے دیکھا کہ درود  میں اہل بیت (ازواجہ و ذریتہ)کا مستقل ذکر موجود ہے۔ پھر آپ نے یہ کیونکر کہہ دیا کہ ’’اہلحدیث‘‘ اہل تشیع کا درود استعمال کرتا ہے۔؟

علاوہ ازیں جب آپ لوگوں نے تعلیمات نبویہ سے الگ ہوکر اپنی ذہنی آوارگی سے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کی نصوص کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لینے کا قائل ہوکر کتاب الٰہی کو بازیچہ اطفال بناکر رکھ دیا ہے، آپ کو دوسروں پر اعتراض کاحق ہی کہاں پہنچتا ہے؟ کیونکہ بقول شما اہل تشیع نے بھی درود کے معروف الفاظ کو اپنے خاص عقیدہ کے مطابق ہی ڈھالا ہے، ہوسکتا ہےکہ ان کے وقت کا تقاضا بھی اس اضافےکے بغیر پورا نہ ہوتا ہو۔ ہمارا مقصود یہ ہے کہ آپ دوسروں پر اعتراض کرنے سے پہلے اپنی اصلاح کریں، ورنہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ ع

چہ دلاور است درد ے کہ بکف چراغ دارد !

ظلمات بعضھا فوق بعض:

آخر میں ہم یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ رسالہ ’’طلوع اسلام‘‘ کی جس عبارت کی تردید او راس پر تنقید ہمارے پیش نظر ہے، وہ بمشکل ایک صفحہ تک پہنچتی ہے۔ اس میں بیس بائیس  سطر پرمشتمل عبارت کی اگر ہم غلطیاں شمار کرنا شروع کردیں تو خطا سے پاک شاید چند ایک جملے ہی باقی بچیں۔لیکن ہم صرف ان غلطیوں کو اجمالاً ضبط تحریر میں لارہے ہیں، جن کو اغلوطات سے تعبیر کیا جاسکتا ہے او رجن کی تفصیل گزشتہ سطور میں دیکھی جاسکتی ہے۔ تاکہ طلوع اسلام کے حواریوں کو اپنے سردست ادارے کا مبلغ علم تولنے میں کوئی دشواری نہ ہو:

  • ایک ہی جملے میں اہل مذہب کو اہل سنت (اہل دین) سے تعبیر کرنا تناقض اور تعارض ہے ۔ اس لیےکہ اس طائفے کے نقطہ نظر سے مذہب او ردین  میں بڑا فرق ہے۔
  • ’’آل‘‘ کے لفظ پر مستمل درود کو اہل تشیع کا درود کہنا۔حالانکہ اہلسنت کی کتابوں میں جابجا اس کاذکر موجود ہے او روہ اپنی پانچ نمازوں میں ’’آل‘‘ پر مشتمل درود ہی تو پڑھتے ہیں۔ علاوہ ازیں خود بھی اس پارٹی نے حرف جار کے دہرانے سے ’’آلہ‘‘ پر مشتمل درود کو درست کہا ہے۔
  • ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ سے امام قرطبی کا دعویٰ نقل کرتے وقت ’’بحوالہ‘‘ کالفظ لانا، جو کہ سیاق کے اعتبار سے لغو ہے۔
  • غیر قرطبی کے دعویٰ کو امام قرطبی کا دعویٰ بنا ڈالنا۔
  • ’’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کہنے کو فحش غلطی سمجھنا، حالانکہ تحقیق کے بعد اسے درست تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
  • عطف کی بحث میں قسم کی بحث سے استدلال کرکے خلط مبحث کا ارتکاب کرنا۔
  • نبی  اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے درود میں ثابت شدہ کلمہ کو ایسے فرقہ کا اضافہ بتانا جس کا وجود ہی آپؐ کے دور میں ناپید تھا۔
  • اسم موصول ’’من‘‘ کے اسم ظاہر سے خارج ہونے کا دعویٰ کرنا۔
  • نحاس وغیرہ کے اقوال کی تردید میں ائمہ دین سے امام قرطبی کی منقولہ عبارت کو چھپالینا۔

(10) ا س عطف کے مسئلہ میں امام قرطبی کے اصل موقف کو سمجھنے سے قاصر رہنا۔وغیرہ!............ وان تعودو نعد........... واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین و صلی اللہ علی نبیہ محمد وسلم علیہ واٰلہ و صحبہ اجمعین۔