اسلامک ویلفیئرٹرسٹ (خواتین ونگ ) کا سالانہ اجتماع
20/اپریلبروز منگل صبح 10بجے ٹرسٹ کے خواتین ونگ کے زیر اہتمام الحمراہال نمبرامیں سالانہ اجتماع منعقدہواجس میں ممبر خواتین اور ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والے اسلامک انسٹیٹیوٹ کی طالبات کی کثیر تعداد شرکت کی۔ یہ اجتماع بنیادی طور پر خواتین ونگ کی سال بھر کی کارکردگی آئندہ منصوبوں کی منظوری اور مختلف تعلیمی کورسزسے فارغ ہونے والی طالبات میں تقسیم اسناد کے لیے منعقد کیا گیا۔
اجلاس کی صدارت ڈاکٹر اسراراحمد (امیر تنظیم اسلامی) کی اہلیہ محترمہ نے کی جبکہ اہم مہمانوں میں جسٹس خلیل الرحمٰن خاں (وفاقی محتسب و جج سپریم کورٹ ) کی اہلیہ جنرل (ر)راحت لطیف اور جسٹس ظفر پاشا چوہدری کی بیگمات محترمہ شہباز لغاری محترمہ مسز شجاعت حسین (وفاقی وزیر داخلہ ) خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ٹرسٹ کی ایگزیکٹوباڈی محترمہ مسز غزالہ اسمٰعیل (صدرخواتین ونگ ) مسز رضیہ مدنی (جنرل سیکرٹری ) نے شریک ہونے والوں کو خوش آمدید کہا۔جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض رافعہ مبشرہ نے انجام دئے۔
یہ اجلاس 3گھنٹے تک جاری رہا جس میں محترمہ رضیہ مدنی صاحبہ نے"حلال و حرام"محترمہ مسز غزالہ اسمٰعیل صاحبہ نے"سالانہ کار کردگی رپورٹ 98ء"محترمہ فوزیہ سلفی صاحبہ نے "دعوت الی القرآن "کے موضوع پر درس اور محترمہ آصفہ اکرم (طالبہ اسلامک انسٹیٹیوٹ ) نے مختلف کورسز کا تعارف پیش کیا۔ جبکہ ایک طالبہ نے "میں اسلامک انسٹیٹیوٹ سے کیا پایا اور میرے آئندہ کے عزائم "کے موضوع پر اپنے خیالات خوبصور ت پیرائے میں دلکش اسلوب کے ساتھ پیش کئے یہ پروگرام محترمہ مسز عطیہ انعام الٰہی کی پرسوز دعا کے ساتھ اختتام کو پہنچا اجتماع کی جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں۔
شریک ہونے والی خواتین کی تعداد 1000سے متجاوز تھی پہلی بار صدر دفتر سے دور اجتماع منعقد ہونے کی وجہ سے کافی خواتین شرکت سے محروم رہ گئیں یاد رہے کہ گذشتہ برسوں میں دو ہزار کے لگ بھگ خواتین شرکت کرتی آرہی ہیں۔
1۔خواتین نے بڑے انہماک اورذوق و شوق سے تمام کاروائی کو سنا اور نظم و ضبط مثالی رہا۔
2۔محترمہ فوزیہ سلفی صاحبہ کے درس کے موقع پر سامعین میں خاص جوش و خروش دیکھنے میں آیا ۔
3۔مختلف موقعوں پر طالبات کی نعتوں اور نظموں سے بھی سامعین کو محظوظ کیا جا تا رہا۔
4۔ اجتماع کا سارا انتظام وانصرام اسلامک انسٹیٹیوٹ کی طالبات نے خوش اسلوبی سے سر انجام دیا۔
5۔داخلہ کے بڑے دروازے کے فوری بعد آنے والے ہال میں طالبات نے کتب کیسٹس اور اسلامی حجاب کے ملبوسات کے سٹال لگائے جن پر اجتماع کے بعد خواتین نے خریداری کی۔
6۔تمام اخبارات کی خواتین رپورٹرز بڑی دلچسپی سے ساری کاروائی میں شریک ہوئیں جبکہ تصاویرکے لیے آنے والے فوٹو گرافروں سے معذرت کر لی گئی۔
7۔فارغ ہونے والی طالبات میں تقسیم اسناد کے اعداد وشماریوں رہے ۔
تین سالہ فہم دین کورس سیشن 96ء99ء9خواتین نے اسناد حاصل کیں۔
ایک سالہ تعلیم دین کورس سیشن 97ء98ء23 طالبات نے اسنادحاصل کیں
سہ ماہی فہم دین کورس موسم گرما98ء۔34 طالبات نے اسنادحاصل کیں
دوماہی فہم دین کورس جولائی /اگست98ء۔128 طالبات نے اسنادحاصل کیں
رمضان المبارک ریفریشر کورس۔1419ء۔اسلامک انسٹیٹیوٹ کی 40 طالبات نے65۔
مقامات پر یہ کورس کروائے اور 4ہزار طالبات میں سے 2141طالبات کے سرٹیفکیٹس ان کے اساتذہ کے حوالے کئے گئے۔
8۔اجلاس کے اختتام پر یہ قراردیں منظور کی گئیں تمام حاضرین نے جن سے مکمل اتفاق کا اظہار کیا۔
1۔سود کی لعنت سے معاشرے کو پاک کیا جائے حکومتی سطح پر متعلقہ مکاتب فکر سے رابطہ کر کے اس کا متبادل نظام رائج کیا جا ئے انعامی سکیموں پر پابندی لگائی جائے جن کے ذریعے پوری قوم کو جوئے کا عادی بنایا جا رہا ہے۔
2۔مہنگائی اور بے روزگاری ختم کرنے کے لیے مؤثر اور مثبت اقدامات کیے جائیں تاکہ معاشرے میں پھیلی ہوئی بدامنی بیروزگاری اور خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پایا جا سکے ۔
3۔پولیس کو کھلاہاتھ دیکر ماورائے عدالت قتل کا رواج دینے سے مجرموں میں خوف و دہشت پیدا کرنے کی بجائے صحیح اسلامی عدالتی نظام اور اسلامی نظام عقوبات کو تحفظات کے بغیر نافذ کر دیا جائے جو عدل و انصاف کے قومی دہلی تقاضے بخوبی پورا کر سکتا ہے۔
4۔ موجود ہ حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی نصاب تعلیم میں قرآنی تعلیمات کے اضافے اور نظام تعلیم میں تبدیلیوں کا جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا جائے ہر مسلمان کو کم از کم ناظرہ اور مکمل ترجمہ قرآن پڑھانے کو مسدود ہوگی اور ایک پڑھا لکھا اسلامی معاشرہ بننے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
5۔خاندانی نظام کے تحفظ والدین کی اطاعت اور نوجوان نسل میں بے راہ وردی سے بچاؤ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کی جائے۔
6۔خواتین کی بے حرمتی کے واقعات کو ہر ممکنہ طریقے سے کنٹرول کیا جائے اور اس کے مرتکب افراد کو کڑی سزائیں دے کر مقام عبرت بنایا جائے۔
7۔خواتین کا یہ اجلاس اس امر کی تائید کرتا ہے کہ وہ اسلام میں دئیے گئے اپنے حقوق اور فرائض سے سوفیصد مطمئن ہیں اور ان الٰہی تعلیمات کی پیروی کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتی ہیں ضرورت فقط اس بات کی ہے کہ ان دئیے گئے حقوق و فرائض کے تقاضے پورے کئے جائیں۔