سود کا مقدمہ
آج کل وطن وزیز کے دینی اور قانونی حلقوں میں جو علمی مباحث جاری ہیں ان میں سودی نظام پر بحث سر فہرست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حر مت سود سے متعلق ایک بہت اہم اپیل کی سماعت عدالت عظمیٰ کے شریعت اپلیٹ بنچ کے روبرو ہو رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ کا یہ فل بنچ مسٹر جسٹس خلیل الرحمٰن خان کی سربراہی میں مسٹر جسٹس وجیہ الدین احمد مسٹر جسٹس منیر اے شیخ مسٹر جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی اور مسٹر جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی پر مشتمل ہے اس اپیل کو موجودہ صورت حال میں مندرجہ وجوہات کی بنا پر اور بھی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔
(الف)یہ کہ اگر سود کو حرام دے دیا گیا تو یہ اپیل چونکہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے زیر سماعت ہے اس لیے اس کا فیصلہ حتمی اور آخری ہو گا ۔ اور اس فیصلے کے خلاف کسی بھی سطح پر کوئی نظر ثانی نگرانی یا دوسری کسی اپیل کا حق کسی فریق کو حاصل نہ رہے گا نتیجہ یہ کہ اس مقدمے کا فیصلہ پاکستان کے دائمی قانون کی حیثیت حاصل کر لے گا۔ اور حکومت سمیت پاکستان کے سب ادارے اس پر عمل در آمدکے پابند قرارپائیں گے۔
(ب)یہ کہ اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کے مالیاتی نظام میں نہ صرف یہ کہ انقلابی تبدیلیاں آئیں گی بلکہ وطن عزیز کے مسلمانوں کے طرز زندگی کا نقشہ بھی یکسر بدل جائے گا۔
(ج)یہ کہ پاکستان اور عالمی طاقتوں بالخصوص عالمی مالیاتی اداروں اور پاکستان کو قرض اور امداد مہیا کرنے والے ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات میں بھی زبردست زلزلہ متوقع ہو گا۔ جس کے نتیجے میں قومی معاشی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گا یا پھر اس ملبے سے ایک نیا اور خالص اسلامی اقتصادی نظام طلوع ہو گا۔
مناسب ہو گا کہ گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھانے سے قبل موجودہ اپیل کے اسباب و علل پر تھوڑی سی بات ہو جائے 1991ءمیں وفاقی شرعی عدالت پاکستان کے رو برو ایک مقدمہ بعوان "ڈاکٹر محمود الرحمٰن فیصل وغیرہ بنام سیکرٹری وزارت قانون اسلام آباد وغیرہ" سماعت کے لیے پیش ہوا اس مقدمے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رائج ان متعدد قوانین کو چیلنج کیا گیا تھا جو سودی لین دین سے متعلق تھے اور استدعا کی گئی تھی کہ چونکہ قرآن سنت میں سود کو حرام قرارد یا گیا ہے اور آئین حکومت کو اس امر کا پابند کرتا ہے کہ وہ تمام رائج قوانین کو قرآن و سنت میں بیان کردہ اصولوں کے مطابق ڈھالے۔ لہٰذا ان تمام قوانین کو قرآن و سنت سے متصادم قراردیا جائے ۔ جن میں قانونی طور پر سودی لین دین یا کاروبار کی اجازت پائی جاتی ہے وفاقی شرعی عدالت کے فل بنچ نے جو مسٹر جسٹس تنزیل الرحمٰن (چیئرمین)مسٹر جسٹس فدامحمد خان اور مسٹر جسٹس عبید اللہ خان پر مشتمل تھا اس مقدمے کی 7/فروری 1991ءسے سماعت کا آغاز کیا۔ یہ سلسلہ 24/اکتوبر 1991ء تک جاری رہا۔جس کے نتیجے میں مسئلے کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد بنچ کے فاضل چیئرمین مسٹر جسٹس تنزیل الرحمٰن نے 157صفحات پر مشتمل تاریخی فیصلہ صادر کیا۔ اس فیصلے کے چند اہم نکات حسب ذیل ہیں ۔
1۔عربی لفظ ربا سے سے مراد ہر قسم کا سود ہے جس میں تجارتی اور صرفی سود بھی شامل ہیں ۔
(2)قرآن وسنت کے مطابق ہر طرح کا سود قطعاً حرام ہے۔
(3)بنک کا سود بھی رباکی ذیل ہی میں آتا ہے لہذا قرآن و سنت کی روشنی میں ممنوع ہے بنک کی جانب سے کھا تہ داروں کو دی جانے والی اصل زر سے زائد رقم اور قرضوں پر اصل زر سے زائد وصول کی جانے والی تمام رقوم سود ہیں اور حرام ہیں۔
(4)ربا النسیہ اور اس کی ذیل میں آنے والی تمام مالیاتی صورتیں بھی ممنوع ہیں۔
(5)افراط زر کے اثرات زائل کرنے کے لیے انڈ کسیشن (اشاریہ بندی) کارائج نظام بھی سود کی ذیل میں آتا ہے لہٰذا سختی سے ممنوع قرارپا تا ہے۔
(6)روپے کی قیمت میں کمی بیشی یا اتارچڑھا ؤ کی صورت میں قرض کی مالیت میں اسی نسبت سے تبدیلی بھی ممنوع ہے۔کیونکہ اسلام کہتا ہے جتنے روپے یا مقدار میں قرض لو اسی قدر گن یا ماپ کر واپس کرو۔
(7)مارک اپ بھی سودی نظام میں چوردروازہ کھولنے کے مترادف ہے لہٰذا یہ بھی ممنوع قرارپاتا ہے۔
مذکورہ بالا صورتوں میں سودی نظام کو ممنوع اور غیر قانونی قراردینے کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے 24کے لگ بھگ ان قوانین یا ان کی مختلف دفعات کو غیر اسلامی قراردے کر انہیں قوانین کی کتب سے حذف کرنے کا حکم دے دیا اور حکومت کو ہدایت کی کہ وہ 30/جون 1992ء تک ان قوانین کی جگہ نئے قوانین وضع اور اسمبلی سےبا ضابطہ طور پر پاس کروانے کے بعد انہیں پاکستان بھر میں نافذ کردے۔تاکہ قرآن و سنت کے احکامات پورے ہوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سودی نظام اپنی تمام اشکال سمیت اپنے آخری انجام کو پہنچ سکے۔
یہ تاریخ ساز فیصلہ صادر ہوتے ہی ایوان ہائے اقتدار کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام حکومتی اور پرائیویٹ مالیاتی اداروں میں زلزلے کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے حکومت اور دیگر تقریباً تما م اہم مالیاتی اداروں اور بنکوں کی جانب سے 180 سے زائد پیلوں کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کے مذکورہ فیصلے کو چیلنج کر دیا گیا۔
حکومت کی جا نب سے اپیل پر دینی اور عوامی حلقوں کی جا نب سے زبردست احتجاج اور نا پسندیدگی کا اظہار کیا گیا اور حکومت کے خلاف یہ تاثر ابھر کر سامنے آیا کہ قوانین کو اسلامی سانچےمیں ڈھالنے کی آئینی پابندی اور آئین کے تحت نظام حکومت چلانے کے حلف کے باوجودحکومت خودہی بد نیتی سے کام لے رہی ہے اورسودی نظام زر کو ختم کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔مسلسل عوامی مطالبے کے پیش نظر آخرکارحکومت کو یہ اعلان کرنا پڑاکہ وہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت سودکے خلاف اپنی اپیل واپس لے لے گی۔اس اعلان کے کچھ عرصہ بعدحکومت نے سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بنچ کے سامنے واپسی اپیل کی درخواست دائرکی۔اس درخواست میں حکومت نے اپیل واپس لینے کی استدعا کے ساتھ ساتھ یہ موقف اختیار کیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں اگرچہ سود کو حرام قراردیا گیا یے لیکن ایسے کسی متبادل نظام کا خاکہ وضع نہیں کیا گیا جو سود کے خاتمے کے بعد فوری طورپر رائج کیا جا سکے یا اس کی جگہ لے سکے اس سلسلے میں بہت سی فنی رکاوٹوں کے علاوہ کئی پیچیدہ سوالات بھی حل طلب ہیں جن پر راہنمائی کے لیے حکومت نے استدعا کی کہ حکومت کو ایک مرتبہ پھر وفاقی شرعی عدالت سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے رجوع کا موقعہ دیا جائے۔ مذکورہ بالا درخواست کے دائرہوتے ہی دینی حلقوں میں یہ شور بلند ہوا کہ وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کی اجازت حاصل کرنے کا دوسرامطلب یہ ہے کہ حکومت اس مقدمے کا ایک اور طویل دور چلا کر لمبا وقت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اور اگر اسے یہ اجازت مل گئی تو غیر سودی نظام کے نفاذ کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر کھٹائی میں پڑ جائے گا۔
اس موقعہ پر جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے وکلا کا ایک باقاعدہ پینل مقرر کیا۔ تاکہ درخواست کی مشروط واپسی کو روکا جا سکے۔ اس پینل میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سنیئر وکیل محمد اسمٰعیل قریشی کے علاوہ چوہدری عبدالرحمٰن اور راقم الحروف بھی شامل ہیں جب کہ اسلامی فقہ کے ماہر اور وفاقی شرعی عدالت کے مشیر علامہ ریاض الحسن نوری بھی اس پینل میں بطور خاص اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں جب حکومت کی مذکورہ بالا درخواست عدالت کے سامنے پیش ہوئی تو جناب محمد اسمٰعیل قریشی نے اس کی پرجوش مخالفت کی اور موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کا شریعت بنچ وفاقی شرعی عدالت کی نسبت وسیع اور اعلیٰ تر فورم ہے اور اگر حکومت کو بعض معاملات میں راہنمائی ہی حاصل کرنا ہے تو وہ موجودہ فورم سے حاصل کرسکتی ہے۔ قریشی صاحب نے دلائل دیتے ہوئے یہ بھی موقف اختیار کیا کہ اب جب کہ شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف بہت سی اپیلیں زیر سماعت ہیں ان کی موجودگی میں وفاقی شرعی عدالت اپنے ہی فیصلے پر نظر ثانی نہیں کر سکتی معزز عدالت نے بھی اس امر کا نوٹس لیا کہ اگر حکومت کو اپیل واپس لینے کی اجازت دے بھی دی جائے تو 180 کے قریب دیگر اپیلیں بد ستور موجود رہیں گی اور ان اپیلوں میں حکومت بھی ایک ضروری فریق کا درجہ رکھتی ہے لہٰذا ایک اپیل کی واپسی سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا نتیجہ یہ کہ حکومت بھی ایک کی جانب سے اپیل واپس لینے کی درخواست کو پذیرائی حاصل نہ ہوسکی ۔ اور معزز عدالت نے حکم جاری کیا کہ مقدمہ کی زبردست اہمیت کے پیش نظر اس کی سماعت روزانہ بنیادوں پر کی جائے گی۔
معزز عدالت نے مقدمہ میں زیر تجویز بعض پیچیدہ اور اہم فقہی سوالات پر رہنمائی کے لیے فریقین کے وکلاء حضرات کے علاوہ بنکنگ کے ماہرین اسلامی بنکاری میں روک رکھنے والے سکالز اور علماء کرام سے اپیل کی کہ اپنے نقطہ ہائے نظر سے عدالت کو آگاہ کریں اس صلائے عام کے علاوہ معزز عدالت نے خود بھی اسلامی بنکاری سے متعلق کچھ سکالرزاور علماء کو بذریعہ خطوط دعوت دی کہ وہ عدالت میں آکر سود سے متعلقہ سوالات پر اپنی رائے سے فاضل ارکان بنچ کو آگاہ کریں معزز عدالت کی دعوت پر اب تک اسلامی بنکاری کے ماہرین میں سے سید محمد طاہر ڈاکٹر وقار اسلم خان کے علاوہ جدہ سے معروف بنک سکالر عبدالکریم چھا پرہ اور ایک دوسرے صاحب عبدالودود خاں پیش ہو کر تفصیلی دلائل مکمل کر چکے ہیں ان کے بعد کراچی کے معروف قانون دان خالد اسحق حبیب بنک اور نیشنل بنک آف پاکستان کے نمائندے بھی اپنے دلائل عدالت کے سامنے پیش کر چکے ہیں۔
فاضل عدالت نے خود اپنی اور وکلاء حضرات سکالرز اور علماء کرام کی سہولت کے لیے از خود بھی کچھ سوالات تیار کیے ہیں ۔یہ سوالات زیر سماعت 180/اپیلوں میں اٹھائے گئے نکات کا عطرہیں اور ان کے جوبات ہی دراصل سود سے متعلق اس اہم مقدمے کے فیصلے میں بنیادی کردار ادا کریں گے۔
شریعت اپیلیٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ انگریزی زبان کے ان دس سوالات کا اردوترجمہ حسب ذیل ہے۔
1۔قرآن پاک نے سود"ربا"کی ممانعت کردی ہے اس اصطلاح سے کیا مرادہے؟قرآن پاک اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں"ربا"کی حقیقی تعریف اور معنویت کیا ہے؟
2۔مالیاتی لین دین کا وہ کون سا حقیقی امکان ہے جس پر "ربا" کی پابندی عائدہوتی ہے؟کیا"ربا" کی اصطلاح کا بنکوں اور مالیاتی اداروں کے دئیے گئے قرضوں اور ان پر عائد کردہ سود پر بھی اطلاق ہو تا ہے
3۔پاکستانی بنک اور بعض مالیاتی ادارے اپنے گاہکوں کو مارک اپ پر دوبارہ خریداری کے معاہدوں کی بنیاد پر رقم دیتے ہیں اس طریق کار کے تحت بنک کا گاہک یہ مراد لیتا ہے کہ وہ ایک مخصوص جنس بنک کو فروخت کرتا اور عین اسی وقت اس جنس کو مؤثر شدہ ادائیگی کی بنیاد پر زیادہ قیمت کے عوض دوبارہ خرید لیتا ہے مارک اپ کی کوئی شرح (فی صدسالانہ) کا اطلاق دوسری فروخت پر ہو تا ہے کیا یہ معاہدہ "ربا" کے زمرے میں آتا ہے؟
4۔کیا ربا کی حرمت کے معاملہ میں ایک مسلمان اور غیر مسلم کے مابین کوئی فرق ہے؟کیا"ربا"کی حرمت کا دائرہ غیر مسلموں سے لیے گئے قرضوں یا ایسے مسلم ممالک جن کے قوانین اور قومی پالیسیاں بین الاقوامی مالیاتی قوانین اور پالیسیوں سے منسلک نہیں اور جو صدر مملکت پاکستان کے کنٹرول میں نہیں ہیں تک بڑھایا جا سکتا ہے؟
5۔حکومت پاکستان اور اس کے زیر کنٹرول بعض ادارے بانڈز اور سرٹیفکیٹس وغیرہ جاری کر کے قرضے حاصل کرتے ہیں اور ایسے سیکورٹی بانڈز کے حامل افراد کو مقررہ ہر مدت کے بعد منافع اداکرتے ہیں کیا یہ منافع "ربا"کی تعریف میں آتا ہے ؟
6۔یہ امر واضح ہے کہ کاغذ کی کرنسی افراط زر کی صورت حال میں اپنی قیمت کم کرنے کے رجحان کی حامل ہے ایک قرض دار جو پیپر کرنسی کی اپنی مخصوص رقم اگر بطور قرض حاصل کرتا ہے تو جب وہ یہ رقم ایک طے شدہ مدت کے بعد اپنے قرض خواہ کو لوٹاتا ہے تو قرض خواہ افراط زر کی وجہ سے نقصان اٹھا سکتاہے اگر قرض خواہ اپنے قرض دارسے اپنے نقصان کی تلافی کے لیے مزید رقم ادا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو کیا یہ مطالبہ سود طلب کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو کیا یہ مطالبہ سود طلب کرنے کے مترادف قراردیا جا سکتا ہے؟
7۔اگر سود یا مارک اپ کی تمام اقسام اسلامی احکامات کے خلاف قراردادے دئیے جائیں تو آپ فنا نسنگ کے کیا طریقہ ہائے کار تجویز کرتے ہیں ۔
(الف) تجارت اور صنعت کی فنانسنگ (ب)بجٹ کے خسارہ کی فنا نسنگ (ج) بیرونی قرضوں کا حصول (د)اسی نوعیت کی دیگر ضروریات اور مقاصد۔
8۔اگر آپ کے خیال میں سود کی تمام اقسام شرعی طور پر حرام ہیں تو حقیقت سے اس کے خاتمہ کے لیے آپ کیا طریق کار تجویز کرتے ہیں؟کیا آپ موجودہ اقتصادی نظام کو فوراً ختم کردیں گے یا قومی معاشی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تدریجی عمل تجویز کریں گے؟ اگر آپ تدریجی عمل کو ترجیح دیتے ہیں تو آپ اس مقصد کے لیے کیا حکمت عملی تجویز کرتے ہیں جو قرآن و سنت کے تقاضوں کے مطابق ہو۔
9۔اگر سود پر مبنی تمام مالیاتی لین دین اسلامی احکامات کے خلاف قراردیے جائیں تو اس پر مبنی لین دین اور معاہدوں کا کیا حشر ہو گا خصوصاً حکومت کو ماضی میں لیے گئے غیر ملکی قرضوں کے ضمن میں کیا طریق کا ر اختیار کرنا چاہیے؟
10۔کیا قرض خواہ اس وقت منافع کی کوئی شرح اور وقت مقرر کر سکتا ہے جب قرض دار یہ کہتا ہے کہ ان شاء اللہ وہ طے شدہ وقت پر کمانے اور رقم واپس کرنے کے قابل ہوجائے گا جس میں ناکام رہنے پر ضمانتی منافع دے سکتا ہے زیادہ رقم کے علاوہ بونس یا ادائیگی میں تاخیر اگر روارکھی گئی کا معاوضہ طلب کرسکتا ہے نیز قرض کے سلسلہ میں رکھی گئی دیگر شرائط کو بروئے کار لا سکتا ہے؟اگر مذکورہ منافع کے لیے انشورنش کا نظام متعارف کرایا جائے تو کیا صورت ہو گی۔؟
اس سوالات پر علماء کرام کو متحرک کرنے اور ایک متفقہ لائحہ عمل اپنانے کی غرض سے مؤرخہ 13/مارچ کو ادارہ محدث میں اہلحدیث مکتب فکر کے نامور علماء کرام اور مدارس کے شیوخ الحدیث کو دعوت فکر دی گئی اور اسلامک ریسرچ کو نسل (مجلس التحقیق الاسلامی) کی لائبریری میں ایک اہم اور بھر پوراجلاس منعقد ہو۔ جس میں مختلف شہروں سے درج ذیل علماء نے شرکت کی۔
شیخ الحدیث مولانا عبدالعزیز علوی (جامعہ سلفیہ اسلام آباد) شیخ الحدیث مولانا عبدالحمید ہزاریوی(جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ حافظ صلح الدین یوسف (ادارہ محدث لاہور ) حافظ عبدالرشیدازہر (مکتب الدعوۃ السودی مولانا ،حمد یونس بٹ (وفاقالمدارس السلفیہ ) مولانا حافظ محمد شریف صاحب (مرکز الترابیہ فیصل آباد ) مولانا ارشاد الحق اثری (ادارہ علوم اثریہ فیصل آباد ) مولانا حافظ مسعود عالم (فیصل آباد) ڈاکٹر صدیق الحسن (مجلس التحقیق الاسلامی ) اور دیگر علماء کرام۔
اس اجلاس میں ان سوالات پر جب غور و فکر کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ فاضل عدالت عظمیٰ کی طرف سے جاری کردہ سوالات اکثر وہی ہیں جو وفاقی شرعی عدالت نے اپنی بحث کے آغاز میں متعین کئے تھے اس لئے ان تمام سوالات پر مشتمل مباحث و مسائل وفاقی شرعی عدالت میں زیر بحث آچکے ہیں اصل مسئلہ صرف عزم و ارادہ کے فقدان اور ابتدائی مشکلات کا ہے اگر حکومت آج سودی نظام کے خاتمے کا عزم صادق کر لے اور ایمانی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے غیر سودی نظام کو اپنانے کا فیصلہ کر لے توابتدا میں یقیناً کچھ مشکلات سامنے آئیں گی جیسا کہ ہر نئے نظام کے نفاذ کے آغاز پر آتی ہیں لیکن اگر عزم صادق ہو تو مشکلات کی گھاٹی عبور کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔
اس سلسلہ میں مدیر اعلیٰ محدث مولانا حافظ عبدالرحمٰن مدنی کو بھی معزز عدالت نے اظہار خیال کی دعوت دی ہے حافظ صاحب نے مسئلہ زیر بحث کی ہمہ گیری اور اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے اسلامک ریسرچ کونسل کے زیر اہتمام دوبارہ کافی وسیع پیمانے پر اور قدرے بڑے دائرہ کار میں معاشی ماہرین صحافیوں وکلاء اقتصادیات کے پروفیسر صاحبان اور علماء کرام کا ایک اہم اجلاس 11/اپریل کو ادارہ محدث میں طلب کیا۔ اجلاس کے دعوت نامے کے ساتھ سپریم کورٹ کے ان سوالات کا اردو ترجمہ بھی ارسال کر کے ماہرین سے ان کے بارے میں رائے کا تقاضا کیا گیا اس اجلاس میں حافظ عبدالرحمٰن مدنی کے علاوہ حافظ صلا ح الدین یوسف (مشیر وفاقی شرعی عدالت ) حافظ عبدالوحید پروفیسر عبدالجبار شاکر جناب عطاء الرحمٰن (سینئر صحافی ) جناب عطا اللہ صدیقی (معروف محقق ) پروفیسر ممتاز احمد سالک (پنجاب یونیورسٹی ) پروفیسر مقصود الرحمٰن (قانون دان ) خواجہ محمد شریف (جج انکم ٹیکس ) پروفیسر عظمت شیخ (گورنمنٹ کالج لاہور ) اور پروفیسر عبدالحمید ڈار (پرنسل منصورہ کالج) شیخ قمر الحق (معروف تاجر ) کے علاوہ متعدد حضرات نے شرکت کی اور مذکورہ بالا دس سوالات کی روشنی میں اظہار خیال کیا گیا۔
اجلاس کی عمومی یہی رائے تھی کہ اسلام نے سود کو ہر صورت میں حرام قراردیا ہے اس لیے بنکوں کے جاری کردہ قرضے بین الاقوامی قرضے اور دیگر ہر طرح کا سودی لاین دین اسلامی فقہ کی روشنی میں قطعی ممنوع ہے۔ چونکہ یہ موضوع اور اس کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات قدرے دقیق علمی و عملی اور اہم نوعیت کے ہیں علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں ان دنوں ان پر خوب زور شور سے بحث بھی ہو رہی ہے لہٰذا عنقریب نسبتاً کامل تر صورت میں اور مستقل مضمون کے طور پر علمی مباحث اور ان علمی مجالس میں ہو نے والی بحثوں اور سفارشات کو محدث کے اوراق پر جگہ دی جائے گی ۔
محترم مدیر اعلیٰ محدث نے بھی ان تمام سوالات کے تفصیلی جوابات دیتے ہوئے اس موضوع پر بڑے قیمتی نکات اٹھائے ہیں آپ سپریم کورٹ میں اپنے بیان کو بھی تحریری شکل دے چکے ہیں جسے عدالت کے سامنے پیش کرنے کے بعد ضروری اضافہ جات کے ساتھ آئندہ شمارہ جات میں محدث میں شائع کیا جا تا رہے گا ان شاء اللہ ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانان پاکستان کو اس اہم قانونی مرحلہ پر سر خروئی نصیب فرمائے اور سود کی لعنت سے جلد از جلد جان چھڑاکر پاکستان دنیا کے سامنے جدید اسلامی اقتصادیات کی مثال پیش کرنے میں کامیاب ہو کے یہ اہالیان پاکستان کی دیر ینہ دلی خواہش بھی ہے اور قیام پاکستان کا بنیادی تقاضا بھی۔(ڈاکٹر ظفر علی راجا)