سانحہ کربلا اور غزوہ قسطنطنیہ کی امارت کا مسئلہ

((زیر نظر مضمون میں واقعہ کربلا میں افراط و تفریط کاایک جائز پیش کرتے ہوئے غزوہ قسطنطنیہ میں امارت کے مسئلہ پر تحقیقی انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے جس سے تاریخ اسلام کے اہم ترین واقعہ "کربلا" کے بارے میں حقیقت پر مبنی بعض پہلوؤں کی نشاندہی کرکے حقیقی صورتحال اور صحیح تاثر اُجاگر کرنا مقصود ہے۔وما توفیقی الا باللہ۔
1۔حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مصالحت اور بیعت اور کوفیوں کی حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ورغلانے کی کوشش:۔

حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنے حواریوں سے تنگ آکر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مصالحت کرکے بیعت خلافت کی توسبائیوں کو انتہائی ناگوارگزرا،ان کی برابر کوشش یہی تھی کہ صلح نہ ہونے پائے چنانچہ سبائی لیڈر حجر بن عدی نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس سلسلہ میں گفتگو کی تو حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بڑی سختی سے ڈانٹا تو اس نے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رابطہ کیا تو حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ:

"أنا قد بايعنا وعاهدنا، ولا سبيل إلى نقض بيعتنا"(اخبار الطوال ،ص 234)

"بلاشبہ ہم نے بیعت کی اور معاہدہ کیا ہے اور اب اس معاہدہ کو توڑنے کاکوئی امکان نہیں"

ڈاکٹر طہٰ حسین نے اپنی تازہ تصنیف میں اس کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ۔۔۔

"حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بھائی حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اتفاق رائے نہ رکھتے تھے۔بلکہ اس پر لڑائی میں چلنے پر زور دیا تو حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منع کیا اورڈرایا کہ اگر میری اطاعت نہ کی تو بیڑیاں پہنادی جائیں گی۔"(علی وبنوہ ص 203)

نیز الامامۃ والسیاسیۃ کے مولف نے لکھا ہے کہ(ص 173)

"حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفی لیڈر سلیمان بن صرد کو یہ جواب دیا تھا کہ تم میں سے ہر شخص خاموشی سے اپنے گھر میں بیٹھارہے جب تک معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ زندہ ہے کیونکہ واللہ میں نےاس کو بالکراہت بیعت کی ہے"

" فإن هلك معاوية نظرنا ونظرتم ورأينا ورأيتم."

حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کی خبر سن کر کوفیوں نے پھر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ورغلانے کی کوشش کی اور جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب نے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوخط لکھا جس میں مرقوم تھا کہ۔۔۔

"فان كنت تحب ان تطلب هذا الأمر فاقدم علينا، فقد وطنا أنفسنا على الموت معك"(اخبار الطوال،ص 235)

حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواباً لکھاکہ:

"تم اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے رہو جب تک معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ زندہ ہے کوئی حرکت نہ کرو،جب ان کا وقت آگیا اور میں زندہ رہا تواپنی رائے سے مطلع کردوں گا۔"۔۔۔ایضاً

2۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات اور امیر یزید کی تخت نشینی:۔

چنانچہ22 رجب 60ھ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے، اور امیر یزید تخت نشین ہوا تو والئی مدینہ حضرت ولید بن عقبہ بن ابی سفیان نے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت کامطالبہ کیا تو انہوں نے مہلت مانگی،جو نہی مہلت ملی تو دونوں نے مکہ مکرمہ کارخ کیا۔رستہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوئی تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:کیاخبر ہے؟توحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ موت معاویہ بیعت یزید توحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ:

"اتقيا اللَّه ، وَلا تفرقا جماعة الْمُسْلِمِينَ"

"تم دونوں اللہ سے ڈرو اور جماعت المسلمین میں تفرقہ نہ ڈالو۔"(طبری ،ص 191/6)

لیکن حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبدللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس نہ ہوئے اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ چلے گئے اور حضرت ولیدبن عقبہ کے پاس جا کر بیعت کی اور تادم آخر اسی پر قائم رہے (طبری ص 166)

یہی مضمون بغیر الفاظ تاریخ ابن خلدون ص 71/5 کتاب ثانی ،تاریخ اسلام از صادق حسین،ص 40،تاریخ بنو امیہ ص 36 پر موجود ہے۔طالب تفصیل کو کتب مذکورہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

3۔اہل کوفہ کے خطوط اور حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عقیل کی سوئے کوفہ روانگی

جب اہل کوفہ کو آپ کے مکہ مکرمہ تشریف لانے کاعلم ہواتو انہوں نے آپ کی خدمت میں قاصد اور خطوط بھیجے کہ نواحی کوفہ لہلارہے ہیں،میوے پختہ ہوچکے ہیں،چشمے چھلک رہے ہیں،آپ کا جب جی چاہے آئیے آپ کالشکر یہاں تیار موجود ہے۔(جلال العیون ص 431/5) طبری ص 177/2 شہید انسانیت ص 251)

اورآخری خطوط کوفہ کے بڑے بڑے سرداروں کی جانب سےتھے جن میں سے، سلیمان بن صرف ،شیث بن ابی یزید،عزرہ بن قرن،عمر بن حجاج زیدی،عمر بن تمیمی،حبیب بن نجد،رفاعہ بن شداد اورحبیب بن مظاہر قابل ذکر ہیں۔(جلال العیون باب5/ص 430 طبری 177/2) اور خطوط کی تعداد بارہ ہزار سے متجاوز تھی۔(ناسخ التواریخ ،131/3)

حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر کوفہ جانے کا پروگرام بنا لیا مگر کوفہ کے حالات سے بے خبر تھے،آپ نے اپنے چچازاد برادر حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روانہ کیا تاکہ کوفہ کے حالات بچشم خود ملاحظہ فرماکر مطلع کریں۔جب مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے تو لوگوں نے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مخالفت کے لیے حضرت مسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور قسمیں کھائیں کہ "اس کام میں ان کی مدد کی جائے گی یہاں تک کہ اپنی جانوں اورمالوں سے بھی گریز نہیں کریں گے۔"

چنانچہ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ:

"فبايعوه على إمرة الحسين بن علي، وحلفوا له لينصرنه بأنفسهم وأموالهم"

چنانچہ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امارت کی بیعت کی اور قسمیں کھائیں کہ وہ لازماً اپنی جانوں اورمالوں سے ان کی مددکریں گے۔"(البدایہ والنھایہ ص 152/جلد8)

4۔حضرت مسلم بن عقیل کاخط

حضر ت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ:

"وقد بايعني من أهل الكوفة ثمانية عشر ألفاً فعجّل الإقبال حين يأتيك كتابي فإن الناس كلهم معك ليس لهم في آل معاوية رأى ولا هوى"

"اہل کوفہ سے اٹھارہ ہزار اشخاص نے میرے ہاتھ پربیعت کرلی ہے لہذا جب میرا خط آپ کے پاس پہنچے تو جلدی آنے کی کوشش کیجئے کیونکہ اہل کوفہ کو آل معاویہ کے ساتھ کوئی سروکار نہیں۔"(طبری ص 221،ج4)

5۔اہل کوفہ کی بغاوت اور گورنر کوفہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر

جب گورنرکوفہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اہل کوفہ کی ان سرگرمیوں کا علم ہوا تو اس نے لوگوں کو اختلاف وفساد سے باز رکھنے کے لیے پرجوش تقریرکی،فرمایا" کہ لوگو!فتنہ وفساد سے بچو،اتفاق واتحاد اور سنت کی پیروی کرو،جو مجھ سے نہ لڑے،میں اس سے نہیں لڑوں گا لیکن۔۔۔

"والله الذي لا إله إلا هو لئن فارقتم إمامكم ونكثتم بيعته لأقاتلنكم ما دام في يدي سيفي قائمة" (البدایہ والنھایۃ ،ص 152ج8)

"اور اللہ کی قسم جسکے سواکوئی معبود نہیں،اگر تم نے اپنے امام سے بغاوت کی اور اس کی بیعت توڑڈالی تو میں تم سے تب تک جنگ کروں گا جب تک میرے ہاتھ میں میری تلوار موجود ہے"

مگرحضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حالات پر قابو نہ پاسکے۔

6۔نئے گورنر کا تقرر

ان حالات کا جب یزید کو علم ہوا تو اس نے عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کے حالات درست کرنے کے لیے بصرہ کے ساتھ کوفہ کی گورنری بھی سونپ دی اس نے عہدے کا چارج لیتے ہی کوفہ کی جامع مسجد میں تقریرکی:

حمد وصلوٰۃ کے بعد امیر المومنین یزید(اللہ تعالیٰ ان کی بہتری کرے) نے تمہارے شہر اور سرحدی حدود کا مجھے والی مقرر کیا ہے۔

" وأمرني بانصاف مظلومكم ، وأعطاء محرومكم ، وبالاحسان إلى سامعكم ومطيعكم ، وبالشدة على مريبكم وعاصيكم ، وأنا متبع فيكم أمره ، ومنفذ فيكم عهده ، فانا لمحسنكم ومطيعكم كالوالد البر ، وسوطي وسيفي على من ترك أمري ، وخالف عهدي ، فليبق امرء على نفسه"

"اور مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں تمہارے مظلوموں سے انصاف کروں اور محروموں کو عطا کروں،جو شخص بات سنے اور اطاعت کرے،ان پر احسان کروں اور جو دھوکہ باز،نافرمان ہو،اس پر تشدد کروں۔تم لوگوں کے معاملہ میں ،میں اُن کے فرمان کو نافذ کروں گا،تم میں سے جو اچھے کردار کا،مطیع وفرماں بردارہے۔میں اس کے ساتھ مہربان باب کی طرح پیش آؤں گا، اور جو میرا کہا نہ مانے اور میرے فرمان کی بجا آوری نہیں کرے گا،اس کے لیے میرا تازیانہ اور میری تلوار موجود ہے۔آدمی کو چاہیے کہ اپنی جان کی خیر منائے،بات چیت سچی ہوکر سامنے آئے تو پتہ چلتا ہے محض دھمکی سے کچھ نہیں ہوتا"(طبری 201/6)

7۔حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قصر امارت پر حملہ

اس کے بعد ابن زیاد نے مسلم بن عقیل کے میزبان ہانی بن عروہ کوگرفتار کرلیا تو حضرت مسلم نے ہانی کوقید سے چھڑانے اور ابن زیاد کا قلع قلمع کرنے کے لیے اپنے بیعت کنندگان کو جمع کیا اور فوجی قاعدہ کے مطابق ترتیب دیاچنانچہ چالیس ہزار کا لشکر قصر امارت کی طرف بڑھا اور قصر شاہی کامحاصرہ کیا۔

ابن زیاد گورنرکوفہ ،بمعہ رفقاء ،مجلس،ممتاز اہل کوفہ اور پولیس اہلکار(جن کی تعداد ووصد کے قریب تھی) محصور ہوگئے۔(اخبار الطوال،ص 352)

انہی راویوں کا بیان ہے کہ ابن زیاد کی فرمائش پراشراف اہل کوفہ نے(جو قصر شاہی میں موجود تھے) اپنے ساتھیوں کو( جو حضرت مسلم کے لشکر میں شامل ہو کر قصر امارت کا احاطہ کئے ہوئے تھے) فتنہ وفساد کے نتائج بد سے ڈرایا اور کہا:اے کوفہ والو!اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور فتنہ وفساد کونہ بھڑکاؤ،اور اُمت کے اتحاد واتفاق کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کرو،اور اپنی جانوں پر شام کی فوج کو حملہ آور ہونے کے لیے مت آنے دو،جس کا ذائقہ تم چکھ چکے ہو۔(اخبار الطوال،ص 352)

اس تقریر کا یہ اثر ہوا کہ جو لوگ قصر امارت کا محاصرہ کئے ہوئے تھے،انہی کے قریبی رشتہ دار اور دوست واحباب آآکر ہٹانے اور واپس لے جانے لگے:

"حتي تجئي المراة الي ابنها وزوجها واخيها فتعلق حتي يرجع"(حوالہ مذکور)

8۔حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اوروصیت

الغرض چالیس ہزار کی فوجی جمیعت چند ساعتوں میں ایسی منتشر ہوئی کہ حضرت مسلم اکیلے رہ گئے اور ایک عورت کے گھر پناہ لی۔مخبری ہونے پر جب پولیس گرفتار کرنے کے لیے گئی تو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار سونت کر میدان میں آگئے بالآخر گرفتار کیے گئے،گورنر کوفہ اور رفقاء گورنر پر تلوار چلانے،قصر امارت پر لشکر کشی کرنے اور پولیس پر شمشیر زنی کرنے کی پاداش میں قتل کئے گئے۔۔۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔

قتل کئے جانے سے قبل انہوں نے حضرت عمر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بوجہ قرابت وصیت کی کہ:

1۔ایک ہزار دینار مجھ پر قرض ہے ،ادا کرنا،

2۔میری لاش کی تدفین کرنا۔

3۔حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قاصد بھیج کر تمام حالات سےمطلع کرنا اور کہلوادینا کہ یہاں آنے کاقصد نہ کریں کیونکہ اہل کوفہ بڑے غدار ہیں۔(اخبار الطوال،ص 354)

عمر بن سعد نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیتوں کی پوری پوری تعمیل کی ،چنانچہ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ رقم فرماتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیغام پہنچانے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں کی بلکہ عمر بن سعد کو مکمل اجازت دے دی۔(البدایہ والنھایۃ ،ص 157/جلد8)

9۔حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بجانب کوفہ تیاری

جب حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط ملا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفہ کے لیے تیاری شروع کردی جب آپ کے ہمدردوں،بزرگوں،عزیزوں کو اس بات کا علم ہوا توانہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس کے نتیجے میں بجائے اتحاد اُمت کے امت میں تفرقہ پڑے بعض ثقہ مورخین نے ان کی نصیحتوں کے فقرات بھی نقل کیے ہیں۔۔۔ملاحظہ فرمائیں:

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ :

"غلبني الحسين على الخروج وقد قلت له : اتق الله والزم بيتك ولا تخرج علي امامك"(البدایہ والنھایہ ص 163۔جلد8)

"مجھے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اصرار کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ نکلوں ،جبکہ میں نےانہیں کہاکہ اللہ سےاپنے بارے میں ڈرئیے،اپنے گھر میں ہی ٹھہریے اور اپنے امام کے خلاف نہ نکلیں"

حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ تعالیٰ عنہ :

"فناشده الله أن لا يخرج، فإنه يخرج في غير وجه خروج، وإنما خرج يقتل نفسه،" (حوالہ مذکور)

"میں نے انہیں اللہ کی قسم دے کر کہا کہ آپ خروج نہ کریں،اس لیے کہ جوبغیر وجہ کے خروج کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو قتل کرتا ہے"

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ :

"كَلَّمْتُ حُسَيْنًا ، فَقُلْتُ : اتَّقِ اللَّهَ ، وَلا تَضْرِبَ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ"

"میں نے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:اللہ سے ڈریں اور لوگوں کو آپس میں نہ لڑائیں"(حوالہ مذکور)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ :"قسم ہے اس وحدہ لاشریک کی کہ اگر میں سمجھتا کہ تمہارے بال اور گردن پکڑ کرروک لوں۔کہ تم میراکہنا جاؤگے تو میں ایسا ہی کرتا"(طبری 217/6)

تو حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیاکہ:

"إنك شيخ قد كبرت ""آپ سٹھیا گئے ہیں"

(البدایۃ والنھایۃ 164/8)

لیکن حضر ت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اُمت کے مفاد،بھتیجے کی محبت ،اُن کی اور ان کے اہل وعیال کی سلامتی کا خیال پریشان کیے ہوئے تھا ،مجبوراً کہا:اے میرے بھتیجے!

"فإن كنت ولا بد سائرًا فلا تسر بأولادك ونسائك، فوالله إني لخائف أن تُقتَلَ كما قُتِلَ عثمانُ ونساؤه وولده ينظرون إليه."(البدایۃ والنھایۃ ص 160/8۔طبری ص 217/6)

"اگر آپ کو ضرور ہی جانا ہے تو اپنی خواتین اور بچوں کو ہمراہ لے جائیے ،بخدا میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ آپ کو اس طرح شہید کردیاجائے جس طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا گیا اور آپ کی عورتیں اور بچے آپ کودیکھ رہے تھے۔"

ان سب سے بڑھ کر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچازاد بھائی حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متعددباررو کا جب حضر ت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ رکے تو اس نے حضر ت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ زینب کو طلاق دے دی اور اپنا اکلوتا بیٹا علی الزعینی ان سے چھین لیا لیکن حضر ت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عزیز واقارب ،اجلہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور دیگر ہمدردوں کے پندو نصائح،ہمشیرہ کی طلاق اور دیگر امور کے باوجود بھی اپنے موقف پرڈتے رہے اور عازم کوفہ ہوئے۔

10۔ابن زیاد کے نام یزید کا حکم نامہ

جب حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوفہ روانگی کا علم یزید کو پہنچا تو اس نے عبیداللہ بن زیاد کو لکھا:

"حمد و صلوٰۃ کے بعد۔۔۔مجھے اطلاع پہنچی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ عراق کی طرف روانہ ہوچکے ہیں،سرحدی چوکیوں پر نگران مقرر کرو،جن سے بدگمانی ہوااُنہیں حراست میں لو،جن پر تہمت ہو،انہیں گرفتار کرلو۔"

"غير أن لا تقتل إلا من قاتلك، واكتب إليَّ في كل ما يحدث من خبر، والسلام"

یعنی"جو خود تجھ سے جنگ نہ کرے،اس سے تم بھی جنگ نہ کرنا اور جو واقعہ پیش آئے،اس کا حال لکھنا۔والسلام"(طبری 215/6۔البدایہ 165/8)

بلکہ ناسخ التواریخ کے مولف نے لکھا ہے کہ ایک خط مروان کی طرف سے بھی ابن زیاد کو موصول ہوا جس میں مرقوم تھا کہ:

"أما بعد فإن الحسين بن علي قد توجه إليك، وهو الحسين بن فاطمة، وفاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتالله ما أحد يسلمه الله أحب إلينا من الحسين، وإياك أن تهيج على نفسك ما لا يسده شيء ولا ينساه العامة، ولا يدع ذكره، والسلام عليك"(البدایہ والنھایہ ص 165/ص8) ناسخ التواریخ مطبوعہ ایران 1309ھ)

"اما بعد تمھیں معلوم ہے کہ حسین بن علی تمہاری طرف روانہ ہوچکے ہیں(یہ تو تمھیں معلوم ہے کہ) حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹے ہیں اور فاطمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ہے۔ خدا کی قسم حسین سے زیادہ(اللہ انھیں سلامت رکھے) کوئی شخص بھی ہم کو محبوب نہیں،خبردار ایسا نہ ہوکہ نفس کے ہیجان میں کوئی ایسا کام کر بیٹھو جس کے برے نتائج کو اُمت فراموش نہ کرسکے۔اور رہتی دنیا تک اس کا ذکر نہ بھولے اور قیامت تک اس کا تذکرہ ہوتا رہے۔(ملاحظہ ہوشیعہ مورخ مرزا محمد تقی سپہر کاشانی کی مشہور تالیف ناسخ التواریخ کتاب روم ص 212/6)

11۔اہل کوفہ کے نام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط

حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ 11 ذوالحجہ 60ہجری کو مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے جب آپ بارہ منزلیں طے کرکے مقام الحاجر پہنچے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قیس بن مسہر صیدادی کے ہاتھ یہ خط روانہ کیاکہ:

"بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ إِلى إِخْوَانِهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُسْلِمِينَ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ، فَإِنِّي اَحْمَدُ إِلَيْكُمُ اللهَ الَّذِي لَا إِلهَ إِلاّ هُوَ، اَمَّا بَعْدُ، فَإنَّ كِتَابَ مُسْلِمِ بْنِ عَقِيل جَائَنِي يُخْبِرُنِي فِيهِ بِحُسْنِ رَأْيِكُمْ، وَ اجْتِمَاعِ مَلَئِكُمْ عَلَي نَصْرِنَا وَ الطَّلَبِ بِحَقِّنَا فَسَأَلْتُ ‏اللَّهَ اَنْ يُحْسِنَ لَنَا الصُّنْعَ، وَ أَنْ يُثِيبَكُمْ عَلَي ذَلِكَ اَعْظَمَ الْأَجْرِ وَ قَدْ شَخَصْتُ اِلَيْكُمْ مِنْ مَكَّةَ يَوْمَ الثَّلاثَاءِ لَثمَانٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ يَوْمِ التَّرْوِيَةِ، إِذَا قَدِمَ عَلَيْكُمْ رَسُولِي فَاَكْمِشُوا اَمْرِكُمْ فَاِنِّي قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فِي اَيّامِي هَذِهِ إِنْ شَاءَ اللهُ، وَ السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَكَاتُهُ"

"میرے پا س مسلم کاخط پہنچ چکاہے جس میں انہوں نے مجھے اطلاع دی ہے کہ تم لوگ میرے متعلق اچھی رائے رکھتے ہو اور ہماری نصرت اور حق کے طلب کرنے پر متفق ہو۔خدا سے دعاکرتا ہوں کہ ہمارامقصد برلائے اور تم لوگوں کو اس پر اجر عظیم دے۔۔۔۔۔۔جب میرا قاصد پہنچے تو تم لوگ اپنے کام میں کوشش کرو۔کیونکہ میں انہی دنوں میں تمہارے پاس پہنچ جاؤ گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ"

(طبری ص 223/2۔البدایہ والنھایہ ص 168/ص8)

12۔شہادت مسلم کی خبر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملی تو برادران مسلم جوش انتقام میں آگئے

جب آپ اکیس منازل طے کرکے یکم محرم الحرام 61ھ کو زبالہ کے مقام پر پہنچے تو آپ کو عمر بن سعد اور محمد بن اشعث کاپیغام ملا کہ حضرت مسلم شہید ہوچکے ہیں،آپ واپس لوٹ جائیں۔(اخبار الطوال ص 310)۔۔۔مرزا محمد تقی سپہر کا شانی رقم طراز ہیں کہ:

"حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرزندان عقیل کی جانب نظرڈال کر کہا:اب رائے کیا ہے؟انہوں نے کہا:واللہ ہم سے جو کچھ بن پڑے گا،ہم اُن کے خون کا بدلہ لینے کی کوشش کریں گے یا ہروہ شربت ہم بھی نوش کریں گے جو ا نہوں نے نوش کیا۔آنحضرت(حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے فرمایا کہ ان لوگوں کے بعد ہم کو بھی زندگانی کاکیا لطف رہے گا۔(ناسخ التواریخ ،کتاب روم ص 316۔جلد6)

طبری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ"شہادت مسلم کی خبر سنتے ہی برادران مسلم جوش انتقام میں اُٹھ کھڑے ہوئے۔"(طبری ص 226/6)

اور البدایہ والنھایہ میں ہے کہ:

"إن بنی عقيل قالوا والله لا نرجع حتی ندرك ثأرنا أونذوق ما ذاق أخونا"(البدایہ ص 169/8 طبری 225/6)

"عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹوں(مسلم کے بھائیوں) نے کہا:ہم اس وقت واپس نہ جائیں گے جب تک ہم انتقام نہ لے لیں یا ہم بھی اس موت کا مزہ چکھ لیں جو ہمارے بھائی نے چکھا"

خلاصۃ المصائب کے مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مبسوط خطبہ ارشاد فرمایا جس کے آخری الفاظ یہ ہیں کہ

"فمن احب منكم الانصراف، فلينصرف، في غير حرج و ليس عليه زمام "

(خلاصۃ المصائب ،مطبوعہ نو لکشور ص 56)

"جوتم میں سے واپس جانا چاہے،تو وہ چلا جائے ،اس پر کوئی حرج نہیں"

اور خود بھی حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واپسی کا اعلان کرلیا جیسا کہ ایک شیعہ مورخ نے رقم کیا ہے کہ

"واتصل به خبر قتل مسلم بن عقيل في الطريق فأراد الرجوع فامتنع بنو عقيل من ذلك"

(عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب مبطوعہ لکھنوء طبع اول ص179)

"رستے میں مسلم کے قتل کی خبر ملی تو حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واپسی کاارادہ کیا،لیکن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹوں نے واپس جانے سے انکار کردیا"

مگر بُرا ہو ان حواریوں کا جو جو حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ظاہر اجان قربان کرنے کے مدعی تھے مگر باطناً وہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کے پیاسے تھے،اس ارادہ کی تبدیلی پر انہوں نے کہا کہ:

"إنك والله ما أنت مثل مسلم ، ولو قدمت الكوفة لكان الناس إليك أسرع" (طبری ص 225/6)

"واللہ آ پ کی کیا بات ہے ،کہاں مسلم اور کہاں آپ؟آپ کوفہ میں قدم رکھیں گے تو سب لوگ آپ کی طرف دوڑیں گے"

حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے سفر کاپھر آغاز کیا جب آپ قادسیہ کے قریب پہنچے توحربن یزید تمیمی سے ملاقات ہوئی توحُر بن یزید نے پوچھا:کہاں کاارادہ ہے؟

تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:"اس(کوفہ)شہر کوجارہا ہوں"

توحُر نے کہا:"خدارا،واپس لوٹ جائیے،وہاں آپ کے لیے کسی بہتری کی امید نہیں۔"اس پر آپ نے پھر واپس لوٹ جانے کا ارادہ کیا مگر مسلم کے بھائیوں نے کہاکہ"واللہ ہم اس وقت تک واپس نہیں لوٹیں گے۔جب تک ہم اپنا انتقام نہ لے لیں یا ہم سب قتل نہ کردیئے جائیں۔

توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :تمہارے بعد ہمیں بھی زندگی کا کوئی لطف نہیں"یہ کہہ کر آپ آگے بڑھے تو ابن زیاد کے لشکر کا ہر اول دستہ سامنے آگیا تو آپ کربلا کی طرف پلٹ گئے۔(طبری ص 220/ص6)

13۔کوفہ کی بجائے شام کی طرف روانگی اور مقام کربلا پر رکاوٹ

عمدۃ الطالب کے مولف نے لکھا ہے کہ:

حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واپس لوٹ جانے کاارادہ کیا مگر فرزندان عقیل مانع ہوئے جب کوفہ کے قریب گئے توحر بن یزید الریاحی سے مڈ بھیڑ ہوئی۔اس نے کوفہ لے جانے کاارادہ کیا تو آپ نے منع کیا اور ملک شام کی طرف مڑ گئے تاکہ یزید بن معاویہ کے پاس چلے جائیں لیکن جب آپ کربلا پہنچے تو آگے بڑھنے سے روک دیا گیا اورکوفہ لے جانےاور ابن زیاد کا حکم ماننے کے لیے کہا گیا توآپ نے اس سے انکار کردیا اور ملک شام جانا پسند کیا(عمدۃ الطالب،طبع اول،لکھنو ص 179)

جب آپ کو مقام کربلا پر روکا گیا تو آپ نے کوفہ کے گورنر کے افسروں کے سامنے تین شرطیں پیش کیں:

1۔مجھے چھوڑ دو میں واپس چلا جاؤں گا۔

2۔ممالک اسلامیہ کی حد پر چلا جاؤں۔

3۔مجھے براہ راست یزید بن معاویہ کے پاس جانے دو۔

(طبری طبع بیروت ،ص 235/3 ناسخ التواریخ ص 175)

شریف المرتضیٰ المتوفی 446ہجری رقم فرماتے ہیں کہ:

"وقد روى أنه قال لعمر بن سعد: اختاروا منى:

إما الرجوع إلى المكان الذي اقبلت منه

أو ان اضع يدي في يد يزيد ابن عمى ليرى في رأيه

وإما ان تسيروني إلى ثغر من ثغور المسلمين، فأكون رجلا من أهله"(کتاب الشافی شریف المرتضیٰ المتوفی 436ہجری ص 471)

"یعنی حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمر بن سعد کے سامنے تین شرطیں پیش کیں۔یعنی:

1۔ میں جہاں سےآیا ہوںواپس چلا جاؤں۔

2۔براہ راست یزید کے پاس جانے دو،وہ میرا چچازاد بھائی ہے،وہ میرے متعلق خود اپنی رائے قائم کرے گا۔

3۔یا مسلمانوں کی سرحد پر چلا جاؤں اور وہاں کا باشندہ بن جاؤں۔"

نیز الامامۃ والسیاسۃ کے مولف نے بھی أو ان اضع يدي في يد يزيد کا تذکرہ کیاہے۔

مزید تفصیل کے لیے البدایہ ص 170/8 ،طبری طبع بیروت 235/3۔اصابہ طبع مصر ص 334/1۔ابن اثیر طبع بیروت ص 283/3 مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر ص 325،جلد 4 وص 337 جلد4 ملاحظہ فرمائیں۔

14۔حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کااپنے موقف سے رجوع

حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تیسری شرط کی منظوری سے متعلق جو تحریر امیر لشکر حضرت عمر بن سعد نے گورنر کوفہ کو ارسال کی تھی،ناسخ التواریخ کے مولف نے اس کا ان الفاظ میں تذکرہ کیا ہے کہ:

"أو أن يأتي أمير المؤمنين يزيد فيضع يده في يده فيرى فيما بينه وبينه رأيه وهذا لكم رضى وللأمة صلاح."

"یا وہ امیر المومنین یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلے جائیں اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیں اس معاملے میں جو ان دونوں کے درمیان ہے۔اس کے بعد وہ اپنا فیصلہ کرے گا،اس میں تیری رضا مندی اور امت کی بہبود ہے۔(ناسخ التواریخ ،کتاب دوم طبع ایران،ص 237)

بہرحال حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاکیزگی ،سرشست اور طہارت طینت تھی کہ انہوں نے اپنےموقف سے رجوع کرلیا۔یہ وہ چیز تھی جو اکابر علماء اور عقلا کے نزدیک حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان ا حادیث کی زد سے بچا لے گئی جن احادیث میں امارت قائمہ میں خروج کرنے والے کو واجب القتل قراردیا گیا ہے،چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ رقم فرماتے ہیں کہ(منہاج السنۃ ص 256/2)

"صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان روایت ہوا ہے کہ"تمہارا نظم مملکت کسی ایک شخص کی سربراہی میں قائم ہوجائے تو اس وقت جو بھی جماعت میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے اس کی گردن تلوارسے اُڑادو ،چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ لیکن حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس روایت کی زد میں نہیں آتے،کیونکہ انہیں تو اس وقت شہید کیا گیا جب انہوں نے اپنے موقف سے دست برداری دے کر یہ چاہا تھا کہ"یا تو مجھے اپنے شہر واپس لوٹ جانے دو،یا کسی سرحدی چوکی پر جانے دو،یایزید کے پاس بھیج دوتاکہ میں اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں دےدوں۔اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ خروج اور طلب خلافت کاخیال چھوڑ کر داخل فی الجماعۃ ہوگئے تھے ،اور تفریق سے رجوع فرمالیاتھا،لہذا حریف پر لازم تھا کہ ان میں سے کوئی بات تسلیم کرتا اور قتل نہ کرتا،یہ باتیں توایسی تھیں کہ اگر ایک معمولی آدمی بھی ان کا مطالبہ کرتا تو منظور کرلینا چاہیے تھا،تو حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے معظم انسان کامطالبہ کیوں نہ منظور کیاگیا؟اورحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کمترآدمی بھی ایسے مطالبہ کے بعد اس کا مستحق نہ تھا کہ اس کی راہ روکی جائے چہ جائیکہ اُسے قید یا قتل کیا جائے۔یہ ماننا پڑےگا کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مظلوم قتل کئے گئے اور یقیناً شہید ہوئے۔رضی اللہ عنہ"

نیز طبری رحمۃ اللہ علیہ نے زہیر بن قیس کے اس وقت کےالفاظ نقل کیے ہیں۔جس وقت ان کا راستہ روکا جارہا تھا اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیاجارہاتھا کہ:

"فخلوا بين هذا الرجل وبين ابن عمه يزيد بن معاوية فلعمري ان يزيد ليرضى من طاعتكم بدون قتل الحسين"

(طبری ص 243 ،جلد 6)

حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کے چچازاد بھائی یزید کے پاس جانے دو اس کا رستہ مت روکو،میری جان کی قسم ،یزید تمہاری اطاعت گزاری سے قتل حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بغیر بھی راضی رہیں گے۔"

15۔جملہ معترضہ

یہی تیسری بات ہی مبنی برحقیقت تھی کیونکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن امیروں کے سہارے کوفہ کا سفر اختیار کیا تھا وہ امیدیں ایک ایک کرکے دم توڑ چکی تھیں اور آپ کی فہم وفراست جو کوفیوں کے خطوط کی بھر مار میں دب کر رہ گئی تھی ،تبدیلی حالات سے اب پھر اُبھر کے سامنے آچکی تھی،مگر گیا وقت ہاتھ آتا نہیں۔

در اصل فوج کا مطالبہ ہتھیاروں کی سپردگی کا اس بنا پر تھا کہ آپ کی بحفاظت دمشق پہنچایا جائے اور آئینی تقاضا بھی یہی تھا مگر آپ کو بھی اس بات کااندیشہ تھاکہ مکہ سے جو کوفی ہمراہ آئے ہیں وہ کوئی نقصان نہ پہنچائیں کیونکہ آپ وہ خطوط یزید کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے۔اورحقیقت بھی یہی تھی کہ اگر وہ خطوط یزید کے سامنے پیش کیے جاتے تو یہ خطوط بھیجنے والے مجرم گردانے جاتے۔یہ تکرار بلآخر جنگ وجدل کی صورت اختیار کرگئی اور کوفیوں کی یہی گستاخی حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاہاتھ تلوارکے قبضےتک پہنچنے کا سبب بنی۔کوفی بدکرداار حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام سے کب آشنا تھے،انہوں نے ہلہ بول دیا اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بمعہ چند اقربا شہید کردیے گئے۔اناللہ واناالی راجعون۔

16۔ شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یزید پر اثر اور قاتل سے سلوک

شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خبر جب یزید تک پہنچی تو اسے بڑا دکھ ہوا۔راوی کابیان ہے کہ " بيده منديل يمسح به دموعه " اُس کے ہاتھ میں رومال تھا جس سے وہ اپنے آنسو پونچھتا تھا ،(مزید تفصیل کے لیے خلاصۃ المصائب ص 292 تا 294 دیکھئے) اور جب شمر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاسر مبارک دربار یزید میں پیش کرتا اور یہ رجز پڑھتا ہے کہ:

املأ ركابي فضةَ أم ذهباً

قتلت خير الناس أماً وأباَ

"کاش میرے پائے رکاب سونے چاندی کے ہوتے،میں نے ماں اور باپ ہر دولحاظ سے اعلیٰ ترین شخصیت کو قتل کیا ہے"

تو یزید انتہائی غصے کی حالت میں کہتاہے۔۔۔(خلاصۃالمصائب ص 304)

خُدا تیرے رکاب کو آگ سے بھر دے تیرے لیے بربادی ہوجب تجھے معلوم تھا کہ حسین خیر الخلق ہے پھر تو نے اسےقتل کیوں کیا؟میری آنکھوں سےدور ہوجا"

بلکہ ناسخ التواریخ میں ہے کہ یزید نے شمر کو کہا کہ"میری طرف سے تجھے کوئی انعام نہیں ملے گا"یہ سن کر شمر غائب وخاسر واپس ہوا اور اسی طرح وہ دین ودنیا سے بے نصیب رہا(ناسخ التواریخ ص 269) نیز اسی کتاب کے ص 278 پر ہے کہ یزید نے کہا:

"خدا اس کو غارت کرے جس نے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوقتل کیا"

طراز مذہب مظفری میں ہے کہ یزید نے کہا کہ"خدا ابن زیاد کو غارت کرے اس نے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کیا اور مجھے دونوں جہاں میں رسوا کیا۔"(ص 456)

17۔شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کی یزید سے ملاقات

واقعہ شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عرصہ بعد جب حضر ت محمد بن حنفیہ دمشق تشریف لائے تو یزید نے ان کے ساتھ اسی طرح اظہار تاسف کیا اور تعزیت کی راوی کا بیان ہے کہ پھر یزید نے محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کو ملاقات کے لیے بلایا اور اپنے پاس بٹھا کر ان سے کہا کہ:

"حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت پر خدا مجھے اور تمھیں اجر عطا فرمائے۔ بخدا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نقصان جتنا بھاری تمہارے لیے ہے اتنا ہی میرے لیے بھی ہے اور ان کی موت سے جتنی اذیت تمھیں ہوئی ہے،اتنی ہی مجھے بھی ہوئی ہے۔اگر ان کا میرے ہاتھ میں ہوتا اور میں دیکھتا کہ ان کی موت کو اپنی انگلیاں کاٹ کر اور اپنی آنکھیں دے کر ٹال سکتا ہوں تو بلا مبالغہ ان دونوں کو اُن کے لیے قربان کردیتا"تو محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:"خدا تمہارا بھلاکرے اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر رحم فرمائے اور ان کے گناہوں کومعاف فرمائے یہ معلوم کرکے مجھے مسرت ہوئی ہے۔کہ ہمارا نقصان تمہارا نقصان اور ہماری محرومی تمہاری محرومی ہے!حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کے مستحق نہیں کہ تم اُن کو بُرا بھلاکہو اور ان کی مذمت کرو۔امیر المومنین میں درخواست کرتا ہوں کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کیجئے جو مجھے ناگوار ہو۔"تو یزید نے کہا:"میرے چچیرے بھائی!میں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں کروں گا جس سے تمہارا دل دکھے"(انساب الاشراف از بلازری،ج3)

18۔واقعہ کربلا اور حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ (505ہجری)

جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ یزید نے قتل حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاحکم دیا تھا،یا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا وہ شخص پرلے درجے کا احمق ہے۔اکابر ،وزراءاور سلاطین میں سے جوجو اپنے اپنے زمانہ میں قتل ہوئے اگر کوئی شخص ان کی یہ حقیقت معلوم کرنا چاہے کہ قتل کا حکم کس نے دیا تھا؟کون اس پر راضی تھا؟اور کس نے اس کو ناپسند کیا؟تو وہ اس پر قادر نہ ہوگا کہ اس کی تہہ تک پہنچ سکے اگرچہ یہ قتل اس کے پڑوس میں اس کے زمانہ میں،اور اس کی موجودگی میں ہی کیوں نہ ہواہوتو اس واقعہ تک کیونکر رسائی ہوسکتی ہے جو دور دراز شہروں،اور قدیم میں گزرا ہو پس کیونکہ اس واقعہ کی حقیقت کا پتہ چل سکتا ہے جس پر چار سوبرس کی طویل مدت،بعید مقام میں گزر ہوچکی ہو۔

امر واقعہ یہ ہے کہ اس بارے میں شدید تعصب کی راہ اختیار کی گئی اس وجہ سے اس واقعہ کے بارہ میں مختلف گروہوں کی طرف سے بکثرت روایتیں مروی ہیں پس یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی حقیقت کا ہرگز پتہ نہیں چل سکتا اور حقیقت تعصب کے پردوں میں روپوش ہے تو پھر ہر مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا واجب ہے جہاں حسن ظن کے قرائن ممکن ہوں۔۔۔الخ

(وفیات الاعیان لابن خلکان بذیل ترجمہ الکیاالہراسی ص 460)

آپ ابو حامد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ 505ء کے آخری فقرہ فهذا أمرٌ لا تُعلم حقيقته أصلاً پر غور فرمائیں جو انہوں نے آج سے نو سو برس پہلے سپرد قلم کیا تھا، جب کہ اس وقت بھی واقعہ کی صورت کا ذبہ کی تصویر کشی کے لیے وضعی روایات کا انبارموجود تھا۔

(19)واقعہ سے متعلق ایک شیعہ مؤرخ کے تاثرات :۔

واقعہ کربلا سے متعلق ایک مشہور شیعہ مؤرخ جناب شاکر حسین امر وہی کے تاثرات بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ فرماتے ہیں کہ:

"صدہاباتیں طبع زاد تراشی گئیں واقعات کی تدوین عرصہ دراز کے بعدہوئی رفتہ رفتہ اختلافات کی اس قدر کثرت ہوئی کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ سے علیحدہ کرنا مشکل ہو گیا ابو مخنف لوط بن یحییٰ ازدی کربلا میں خود موجودنہ تھا اس لیے یہ سب واقعات انھوں نے سماعی لکھے ہیں لہٰذا مقتل ابو مخنف پر پورا وثوق نہیں پھر لطف یہ کہ مقتل ابو مخنف کے متعددنسخے پائے جا تے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف البیان ہیں اور ان سے صاف پایا جا تا ہے کہ خود ابو مخنف واقعات کو جمع کرنے والا نہیں بلکہ کسی اور شخص نے ان کے بیان کردہ سماعی واقعات کو قلمبند کیا ہے مختصر یہ کہ شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق تمام واقعات ابتدا سے انتہا تک اس قدراختلاف سے پر ہیں کہ اگر ان کو فرداً فرداً بیان کیا جائے تو کئی ضخیم دفتر فراہم ہو جائیں ۔ اکثر واقعات مثلاً :

اہل بیت پر تین شبانہ روزنہ پانی کا بند رہنا فوج مخالف کا لاکھوں کی تعداد میں ہو نا شمر کا سینہ مطہر پر بیٹھ کر سر جدا کرنا آپ کی لاش مقدس سے کپڑوں تک کا اتارلینا نعش مبارک کا سم اسپاں کئے جانا سر اوقات اہل بیت کی غارت گری نبی زادیوں کی چادریں تک چھین کر رعب جمانا وغیرہ وغیرہ۔بہت ہی مشہور اور زبان زد خاص و عام ہیں حالانکہ ان میں سے بعض غلط بعض مشکوک بعض ضعیف بعض مبالغہ آمیز اور بعض من گھڑت ہیں۔(مجاہداعظم ص178مؤلف جناب شاکر حسین امر وہی)

دوسرے مقام پر رقم فرماتے ہیں کہ:

"ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بعض واقعات جو نہایت مشہور اور سینکڑوں برس سے سنیوں اور شیعوں میں نسلاً بعد نسل منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں سرے سے بے بنیاد اور بے اصل ہیں ہم اس کو بھی مانتے ہیں کہ طبقہ علماء کے بڑے اراکین مفسرین ہو یا محدثین مؤرخین یا دوسرے مصنفین متقدمین ہو یا متاخرین ان کو یکے بعد دیگرے بلا سوچے سمجھے نقل کرتے آئے ہیں اور ان کی صحت وغیر صحت کو معیار اصول پر نہیں جانچا۔ اس تساہل و تسامح کا نتیجہ یہ ہوا کہ غلط اور بے بنیاد قصے عوام تو عوام خواص کے اذہان و قلوب میں ایسے راسخ اور استوار ہوگئے کہ اب ان کا انکار گویا کہ بدیہیات کا انکار ہے۔(مجاہد اعظم از شاکر حسین امر وہی: ص164)

محترم قارئین!اب سانحہ کربلا کی تصویر :۔

ذرا سے بات تھی اندیشہ عجم نے جسے

بڑھا دیا ہے یونہی زیب داستان کے لیے

کی مصداق بن گئی اللہ کریم تمام مسلمانوں کو حق سمجھنے اور حق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

(20)سالار فوج مغفورلھم کون تھا ؟:۔

سید نا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی سفیان (حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی)حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن جراح ، حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر امراء کو جہاد شام پر متعین کیا۔ انھوں نے شام و فلسطین وغیرہ کو فتح کیا اور رومیوں کو عبرتناک شکستیں دیں حضرت یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی جگہ پر مقرر کیا گیا انھوں نے دور فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دور عثمانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں رومیوں کو بری و بحری شکستیں دیں لیکن مدینہ قیصر (قسطنطنیہ )پر ابھی تک پیش قدمی نہیں کی گئی تھی اور شجاعان عرب رومی نصرانیت کے صدر مقام قسطنطنیہ کے فتح کرنے کا خیال اس وقت سے دل میں بٹھائے ہوئے تھے جب سے انھوں نے ملک شام کو فتح کیا۔

چنانچہ حاضر العالم الاسلامی ص214پر مرقوم ہے کہ:

"ان العرب منذ فتحوا الشام فكروا في فتح القسطنطنية لانها كانت لذلك العهد عاصمة النصرانية وكان الاسلام لو فتحها غلب علي شمالي اوربابلا نزاع"

"شجاعان عرب شام کو فتح کرنے کے وقت سے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کی فکر میں تھے کیونکہ اس دور میں قسطنطنیہ نصرانیت کا دارالخلافہ تھا اور اگر قسطنطنیہ فتح ہو جا تا تو اسلام بلانزاع شمالی یورپ میں غلبہ حاصل کرلیتا"

لیکن صفین کی خانہ جنگی نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رومی نصرانیت کے خلاف سر گرمیوں کو ملتوی کردیا 41ھ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو متعدد سالوں کی جدو جہد سے انھوں نے جہازوں کا بیڑا تیار کیا یہ سب سے پہلا جنگی بیڑا تھا 49ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاد قسطنطنیہ کے لیے بری وبحری حملوں کا انتظام کیا۔ فوج میں شامی عرب بالخصوص بنو کلب اور ان کے علاوہ حجازی اور قریشی غازیوں کا دستہ بھی تھا اور اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی جماعت بھی تھی اس فوج کے سپہ سالار یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے یہ وہی پہلا لشکر تھا جس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا جس کی بشارت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں الفاظ دی تھی کہ:

"أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ"(صحیح بخاری ص1/410)

کہ میری امت کی پہلی فوج جو مدینہ قیصر پر جہاد کرے گی ان کے لیے مغفرت ہے۔

علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں رقم طرازہیں کہ:

" قَالَ الْمُهَلَّب: فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَنْقَبَة لِمُعَاوِيَة لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ غَزَا الْبَحْرَ، وَمَنْقَبَةٌ لِوَلَدِهِ يَزِيد لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ غَزَا مَدِينَةَ قَيْصَرَ"(فتح الباری مطبوعہ مصروریاض ص102جلد6)

"اس حدیث کے بارے میں(محدث) مہلب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ حدیث حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت میں ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے بحری جہاد کا آغاز کیا اور اس کے فرزند یزید کی منقبت میں ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے مدینہ قیصر پر جہاد کیا۔"

علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ شارح بخاری مدینہ قیصر کی تشریح فرماتے ہیں کہ:

"اس سے مراد رومی سلطنت کا صدر مقام قسطنطنیہ ہے اور صحیح بخاری زیر حدیث اول جیش الخ کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ :

" وكان أول من غزا مدينة قيصر يزيد بن معاوية ، ومعه جماعة من سادات الصحابة كابن عمرو ابن عباس وابن الزبير وأبي أيوب الأنصاري رضوان الله عنهم اجمعين"(صحیح بخاری ص1/410اصح المطابع 357)

"مدینہ قیصر (قسطنطنیہ)پر سب سے پہلے حملہ کرنے والے یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور ان کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت تھی جیسے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ "اور قسطلانی میں ہے کہ: (قسطلانی طبع بیروت ص104جلد 5)

"واستدل به المهلب على ثبوت خلافة يزيد وأنه من أهل الجنة"

"اس سے محدث مہلب رحمۃ اللہ علیہ نے یزید کی خلافت پر استدلال کیا ہے اور یہ کہ وہ اہل جنت میں سے ہے"شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ:

"وقد ثبت في صحيح البخاري عن ابن عمررضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال اول جيش يغفروا القسطنطنية مغفورلهم واول جيش غزاها كان اميرهم يزيد والجيش عدد معين لا مطلق وشمول المغفرة لاحاد هذا لجيش اقوي.......ويقال ان يزيد انما غزا القسطنطنية لاجل ذلك هذ الحديث...الخ

"صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ پہلا لشکر جو قسطنطنیہ کو جہاد کرے گا وہ بخشا ہوا ہے۔ پہلا لشکر جس نے اس کے خلاف جہاد کیا۔ اسکا امیر یزید تھا لشکر کی تعداد معین ہوتی ہے نہ کہ غیر محدود اور مغفرت میں لشکر کے ایک ایک آدمی کا شامل ہونا زیادہ قوی بات ہے۔بعض لوگوں نے یہ بات بھی کہی ہے کہ یزید کے قسطنطنیہ پر جہاد میں جانے کی غرض بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فرمان ہے۔(تفصیل کے لیے منہاج السنۃ النبویۃفی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ مطبوعہ 1376ھ ص290ٍ ملاحظہ فرمائیں)

دوسرے مقام پر رقم فرماتے ہیں کہ:

"جب یزید نے اپنے باپ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا تو اس کی فوج میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ بھی شریک تھے یہ مسلمانوں کی سب سے پہلی فوج تھی جس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا اور صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سب سے پہلی فوج میری امت کی جو قسطنطنیہ پر حملہ کرے گی وہ مغفورہوگی۔"

(حسین ویزید مطبوعہ کلکتہ ص28منہاج السنہ مطبوعہ مصرص245ج2)

ایک اور مقام پر یوں فرماتے ہیں کہ:

"أَوَّلُ جَيْشٍ يَغْزُو الْقُسْطَنْطِينِية مَغْفُورٌ لَهُ } وَأَوَّلُ جَيْشٍ غَزَاهَا كَانَ أَمِيرُهُمْ يَزِيدَ بْنَ مُعَأوِيَةَ وَكَانَ مَعَهُ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ "

(منہاج السنہ مطبوعہ 1396ھ،ص245/2۔252فتاوی شیخ الاسلام مطبوعہ 1381ھ ص3/414،475،486،البدایہ والنہایہ مطبوعہ 1398ھ ص6/223ص59ص81ص229جلد 8)

علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ:

"فإنه كان أمير ذلك الجيش بالاتفاق"

کہ وہ متفقہ طور پر اس لشکر کا امیر تھا" (فتح الباری مطبوعہ 1305ھ ص92جلد 11)

مشہور شیعہ مؤرخ المسعودی نے کتاب التنبیۃوالاشراف میں لکھا ہے کہ:

"وقد حاصر القسطنطنية في الاسلام من هذا العدوة ثلاثة امراء:آبائهم ملوك وخلفاء اولهم يزيد بن معاوية بن ابي سفيان والثاني مسلمة بن عبدالملك بن مروان والثالث هارون الرشيد بن المهدي"(التنبیۃ والاشراف مطبوعہ لندن 1894ء ص140)

یعنی "اسلامی دور میں اس ساحل بحرسے چل کر تین امرائے جیوش اسلام نے(جن کے آباؤجداد خلیفہ و بادشاہ تھے) قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا سب سے اول یزید بن معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسرے مسلمہ بن عبدالمالک بن مروان اور تیسرے ہارون الرشید مہدی تھے۔"

ان حوالہ جات سے اظہر من الشمس ہے کہ جس حدیث میں قسطنطنیہ پر حملہ آور فوج کو مغفر ت کی بشارت ہے ان کے امیربالاتفاق یزید بن معاویہ تھے اور اسی لشکر میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل تھے اگر پہلا حملہ 46ھ میں زیر قیادت حضرت عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید رحمۃ اللہ علیہ تھا تو حضرت ابو ایوب انصاری رحمۃ اللہ علیہ حصول مغفرت کی اس سعادت کے کیوں محروم رہے؟

"اور پھر اسی (80) سال سے متجاوز عمر میں یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں شمولیت کی اور ارض روم کے قریب ہی بیمار ہوئے اور یزید ان کی تیماداری کرتا تھا "(اصابہ مطبوعہ مصر ص1/405)

اور حضرت ابو ایوب انصاری کی وصیت کے مطابق یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی (البدایہ :8/58)

اور الاستیعاب میں ہے:

"قال أبو عمر : وكان أبو أيوب مع علي بن أبي طالب في حروبه كلها، ثم مات في القسطنطينية من بلاد الروم في زمن معاوية، وكانت غزاته تلك تحت راية يزيد، وكان أميرهم يومئذ."(الاستیعاب ص157)

"حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام جنگوں میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے پھر ان کی وفات حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں رومیوں کے ملک قسطنطنیہ میں ہوئی ان کا جہاد یزید بن معاویہ کے جھنڈے تلے تھا جو اس وقت ان کا امیر تھا"

روض الانف میں ہے کہ یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی اور انھوں نے یزید بن معاویہ کو وصیت کی تھی کہ مجھے بلاروم کے بہت ہی قریب دفن کیا جائے چنانچہ مسلمانوں نے ان کی وصیت کے پیش نظر انہیں بلاد روم کے قریب دفن کردیا جب رومیوں نے یہ منظر دیکھا تو کہا یہ تم کیا کر رہے ہو؟تو یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ" ہم پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی کو دفن کر رہے ہیں۔تو رومیوں نے کہا: تم کس قدر احمق ہو کیا تمہیں اس بات کا خوف نہیں کہ ہم تمھارے جانے کے بعد اس کی قبر کھود کر اس کی ہڈیاں بھی جلادیں گے۔ تو یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ الفاظ برداشت نہ کر سکا للکار کر کہا: واللہ العظیم !اگر تم ایسا کرو گے تو یاد رکھو سر زمین عرب میں جس قدر گرجے ہیں ہم ان کو گرادیں گے اور تمھاری جتنی قبریں ہیں ہم ان کو اکھاڑدیں گے یہ جواب سن کر رومیوں نے اپنے دین کی قسمیں اٹھائیں اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کی حفاظت و احترام کا عہد کیا۔

(ملاحظہ ہو:روض الانف شرح ابن ہشام الامام سہیلی طبع قدیم ص2/246)

شیعہ مؤرخین نے بھی یزید کی سپہ سالاری کو تسلیم کیا ہے!:۔

اغانی شیعہ رقم طراز ہے کہ:

"جب قیصر روم نے لاش نکال کر جلادینے کی بات کہی تو یزید یہ توہین آمیز الفاظ برداشت نہ کر سکا۔ فوراً رومیوں پردھاوا بول دیا اور لشکر ادھر اُدھر پھیر کر ایسا زبردست حملہ کیا کہ رومیوں کو شکست دے کر شہر کے اندر محصور کردیا اور قسطنطنیہ کے دروازے کو لوہے کی گزر سے ضربیں لگائیں ان ضربوں کی وجہ سے دروازہ جگہ جگہ سے پھٹ گیا۔ (اغانی شیعہ ص16/33)

بلکہ عقد الفرید میں ہے کہ"جس وقت قیصر روم نے یہ الفاظ کہے تو اس وقت امیر یزید نے رومیوں کو للکار اور کہا کہ:

" ولئن بلغني أنه نبش من قبره أو مثّل به لا تركت بأرض العرب نصرانيا إلا قتلته، ولا كنيسة إلا هدمتها!"(عقد الفرید مطبوعہ مصر ج2 ص133) (مطلب وہی ہے جو گزرچکا ہے)

امیر یزید کے یہ الفاظ بلا تغیر واختلاف الاستیعاب ص2/238 ناسخ التواریخ ص6/46کتاب دوم پر بھی موجود ہیں کیا پورے لشکر اور سالار کی موجودگی میں ایسے الفاظ کوئی معمولی سپاہی یا عہدیدار کہہ سکتا ہے ہر گز نہیں جبکہ ان الفاظ میں ایک سالار لشکر کا طنطہ اور رعب و دبدبہ کار فرماہے۔

نیز مشہور شیعہ مؤرخ سید امیر علی نے ہسٹری آف سیریز مطبوعہ لندن 198ءص84پر ابن جریر طبری نے تاریخ الامم والملوک ص173/ج4پر المسعودی نے التنبیہ والا شراف ص140پر ابوالعلی شاہ محمد کبیر شاہ دانا پوری نے تذکرۃ الکرام مطبوعہ لکھنؤ ص276پر اور محرم نامہ ص116پر تفصیلاً جہاد قسطنطنیہ کے واقعات لکھے ہیں اور امیر یزید کی سپہ سالاری کو تسلیم کیا ہے ان شیعہ سنی مؤرخوں اور مصنفوں کے علاوہ عیسائی مصنفین میں سے پروفیسر ہٹی نے تاریخ عرب میں ایڈورگبن نے تاریخ عروج و زوال رومتہ الکبری ص286پر اور بزلطین ایمپائر کے ص170 پر امیر یزید کی سپہ سالاری کو تسلیم کیا ہے ۔

(21)مقام یزید بن معاویہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں:۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ:

"وقال أحمد إبن حنبل لا ينبغي أن يروى عنه"(خطبات بخاری ص385)

کہ"یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نہ لی جائے۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا دین اور پرہیز گاری میں بڑا بلند مقام ہے اور روایات قبول کرنے میں بڑی احتیاط کرتے ہیں بنا بریں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی مستند کتاب سے یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو نقل کر دینا ہی یزید کی ثقاہت کے لیے کافی ہے انھوں نے اپنی کتاب الزہد میں یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ یزید اپنے خطبہ میں کہا کرتا تھا کہ (اس روایت کو قاضی ابو بکر ابن العربی نے اپنی مایہ ناز کتاب "العواصم من القواصم " میں بھی درج کیا ہے)

"جب تم میں سے کوئی آدمی بیمار ہو کر قریب المرگ ہو جائے اور پھر تندرست ہو جائے تو وہ غور کرے اس کا جوافضل ترین عمل ہو۔ اس کو لازم پکڑے پھر اپنے کسی بد ترین عمل کو دیکھےتو اسے چھوڑدے"

یزید کا یہ قول نقل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یزید کا مقام امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ میں بلند تھا یہاں تک کہ اس(یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو آپ نے ان زاہد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ میں شمار کیا ہے جن کے اقوال کی پیروی کی جا تی ہے اور جن کے وعظ سے لوگ گناہ چھوڑتے ہیں۔