کیا پل صراط سے مسلمانوں کو بھی گزرنا ہوگا؟
سوال:قرآن کریم کی آیت ہے:
﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ﴿٧١﴾ ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا﴾ (سورہ مریم:71۔72)
"تم میں سے ہر ایک وہاں ضرور وارد ہونے والاہے، یہ تیرے پروردگار کے ذمے قطعی، فیصل شده امر ہے (71) پھر ہم پرہیزگاروں کو تو بچالیں گے اور نافرمانوں کو اسی میں گھٹنوں کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے"
صاحب"تدبر قرآن" نے اس کی تفسیر میں کہاہے کہ مِّنكُمْ میں خطاب صرف کافروں سے ہے۔اس کامخاطب تمام انسانوں کو قراردینا،چاہے وہ مومن ہو یاکافر؟مفسرین کی غلطی ہے اور یہ قرآن کریم کی دوسری آیات کے بھی خلاف ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ اہل ایمان جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔
﴿أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ﴾ (سورۃ الانبیاء:101)
کیا مفسر مذکور کا یہ کہنا صحیح ہے ؟ہم تو یہی سنتے آئے ہیں کہ اس آیت کی رو سے ہر مسلمان اور کافر جہنم میں ضرور جائے گا،پھر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ خیر وعافیت سے گزار دے گا اور کافر جہنم میں ہی رہ جائیں گے۔اس بارے میں آپ سے و ضاحت کی درخواست ہے۔(ڈاکٹر عثمان،لاہور)
جواب:"تم میں سے ہر ایک"کامخاطب کون ہے؟آیاوہی کفار ہیں جن کا ذکر اس سے پہلے صیغہ غائب کے ساتھ آیاہے اور اب یہاں انہی سے بصیغہ خطاب یہ کہا جارہا ہے کہ تم میں سے ہر ایک کو جہنم میں ضرور جانا ہے۔یا اس کے مخاطب تمام انسان ہیں چاہے وہ مومن ہیں یا کافر؟
بعض لوگوں نے پہلا مفہوم بھی اگرچہ بیان کیا ہے۔تاہم مفسرین اُمت نے دوسرے مفہوم کو ہی زیادہ صحیح اور اولیٰ بالصواب قراردیاہے کیونکہ اس کی تائید اُن متعدد صحیح احادیث سے ہوتی ہے۔ جو مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مروی ہے۔ان احادیث میں اس کی تفسیر اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جہنم کے اوپر ایک پل بنایا جائےگا جس کو صحیح بخاری وصحیح مسلم میں الصراط یا جسر جہنم کہاگیا ہے اور اسی اعتبار سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کاعنوان یوں باندھا ہے "باب الصراط جسر جہنم "الصراط کا بیان جوجہنم کا پل ہے"
ہماری زبان میں یہ"پل صراط" کے نام سے معروف ہے۔اس کی مزید وضاحت ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی ہے:
"أَنَّ الْجِسْرَ أَدَقُّ مِنْ الشَّعْرَةِ وَأَحَدُّ مِنْ السَّيْفِ"(صحیح مسلم:الایمان ،رقم 183)
"پل بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا"
احادیث میں بیان کیا گیا ہے کہ اس پل میں لوہےکے آنکڑے اور نہایت خطرناک کانٹے ہوں گے اور یہ ایسی جگہ ہوگی جس میں قدم قدم پر لڑکھڑانے کا تو امکان ہوگاثبات واستقرار کا نہیں۔یہ آنکڑے اور کانٹے وغیرہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق اُچکیں گے،اور جن کی بابت اللہ چاہے گا،ان کو اپنی گرفت میں لے لیں گے۔علاوہ ازیں امانت اور رحم کو اللہ تعالیٰ ایک جسمانی وجود عطا فرمائےگا اور یہ بھی اس پل صراط پر دائیں اور بائیں دونوں جانب کھڑے ہوں گے اور خائنوں اور قطع ر حمی کرنے والوں کا مواخذہ کریں گے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پل پر کھڑے دعا مانگ رہے ہوں گے:
اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ " "اے اللہ! سلامتی عطافرما،سلامتی عطا فرما۔"
محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:"اس پل کو سب سے پہلے عبور کرنے والے میں اور میرے ساتھی ہوں گے۔"
اس پل پر سے ہر مومن وکافر کوگزرنا ہوگا۔مومن تو اپنے اپنے اعمال کے مطابق جلد یا بد دیر گزر جائیں گے۔کچھ پلک جھپکنے میں،کچھ بجلی اور ہوا کی طرح،کچھ پرندوں کی طرح،کچھ عمدہ گھوڑوں کی طرح اور تیزروافراد کی طرح اور کچھ گرتے پڑتے اور گھسٹتے ہوئے۔یوں کچھ لوگ بالکل صحیح سالم،کچھ زخمی تاہم پل عبور کرلیں گے اور کچھ جہنم میں گر پڑیں گے۔جنھیں بعد میں شفاعت کے ذریعے سے نکال لیاجائے گا۔لیکن کافر اس پل کو عبور کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے اور سب جہنم میں گر پڑیں گے۔( یہ وہ تفصیلات ہیں جو حدیث کی صحیح ترین کتابوں ،بخاری اور مسلم میں بیان ہوئی ہیں۔یہ دیکھئے :
(صحیح بخاری :الصلوٰۃ باب فضل السجود،الرقاق باب الصراط جسر جہنم التوحید باب قول اللہ تعالیٰ( وُجُوهٌ يَوْمَئِذ نَّاضِرَةٌ)رقم 804۔6573۔7439۔3437۔صحیح مسلم کتاب الایمان باب معرفۃ طریق الرویۃ رقم 182۔183۔باب ادنی اھل الجنۃ منزلۃ فیھا رقم 191۔195)اسکی مزید تائید ذیل کی صحیح احادیث سے ہوتی ہے:
1۔حضرت ام مبشر رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے(اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا،ان شاء للہ اُن اصحاب شجرہ میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائےگا جنھوں نے اس درخت کے نیچے بیٹھ کر بیعت کی تھی۔حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ"تم میں سے ہر شخص کو اس جہنم میں وارد ہونا ہے"؟تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد ہی)اللہ نے فرمایا:"پھر ہم متقیوں کو نجات دے دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے"(صحیح مسلم فضائل الصحابہ باب من فضائل اصحاب الشجرۃ رقم 2496)
2۔حضرت ابو سمیۃ رحمۃ اللہ علیہ ( ایک تابعی) بیان کرتے ہیں کہ ہمارے درمیان ورود(آیت میں مذکور جہنم میں داخل ہونے) کے بارے میں اختلاف ہوگیا ،بعض نے کہا کہ مومن جہنم میں داخل نہیں ہوں گے اور بعض نے کہا کہ مومن اور کافر سب جہنم میں جائیں گے،پھر اللہ تعالیٰ اہل ایمان وتقوی کو نجات عطا فرمادے گا۔چنانچہ(اس اختلاف کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے) میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا اور یہ دونوں رائیں ان کے سامنے پیش کیں،تو انہوں نے اپنی دوانگلیاں اپنے کانوں میں ڈالیں اور فرمایا کہ میرے دونوں کان بہرے ہوجائیں،اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہو کہ ورود داخل ہونے کےمعنی میں ہے یعنی ہرنیک اور بد جہنم میں ضرور جائے گا،لیکن جہنم مومنوں پر اس طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے گی،جیسے حضر ت ابراہیم علیہ السلام پر ہوگئی تھی۔۔۔پھر اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کو نجات عطا فرمادے گا اور ظالموں کو اس میں گرا ہوا چھوڑ دے گا(الفتح الربانی:209/18) وقال الہشیمی ر واہ احمد ورجالہ ثقات مجمع زوائد ج7 ص 55 تفسیر سورہ مریم) سنن ترمذی میں حضر ت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن اور شیخ البانی حفظہ اللہ نے اسے صحیح کہاہے۔(ترمذی:کتاب تفسیر القرآن رقم 3159۔3160)
3۔ایک اورحدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"جس کے تین بچے بلوغت سے پہلے فوت ہوگئے،اسے آگ نہیں چھوئے گی ،مگر صرف قسم حلال کرنے کے لیے"(صحیح بخاری:الجنائز،باب فضل من مات لہ ولد فاحتسب۔مسلم:کتاب البر باب فضل من یموت لہ ولد فیحتسبہ)
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وَإِن مِّنكُمْ میں واؤ قسم کو متضمن ہے،اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے(پھر انہوں نے یہ مذکورہ حدیث الا تحلۃ القسم بیان کی ہے) گویا اس حدیث سےدو باتیں ثابت ہوئیں ،ایک تو یہ کہ اس آیت میں واؤ قسم کے مفہوم کو شامل ہے دوسری یہ کہ ہر مومن وجنتی بھی جہنم میں ضرور داخل ہوگا۔
ایک ضروری وضاحت:۔
ورود کےمعنی بعض نے"داخل ہونے کے" اور بعض نے "صرف گزرنے کے"کیے ہیں،امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دونوں معنوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ مومن پل صراط پر سے گزریں یا جہنم کے اندر سے گزریں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،کیونکہ ان کےلیے جہنم کی آگ بجھی ہوئی ہوگی اور انہیں کچھ نہیں کہے گی۔ ان کا دخول ،دخول سلامت ہوگا۔
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ایک اور سوال اٹھایا ہے کہ کیا انبیاء علیہ السلام بھی جہنم میں داخل ہوں گے؟اس کے جواب میں انہوں نے کہا:ہم اس کا اطلاق تو نہیں کرتے،لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ تمام مخلوق جہنم میں وارد ہوگی،جیسا کہ اس پر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث دلالت کرتی ہے۔پس نافرمان تو جہنم میں اپنے جرائم کی وجہ سے داخل ہوں گے اور اولیاء وسعداء ان کی شفاعت کرنے کے لیے اس لیے ان دونوں داخلوں میں عظیم فرق ہے۔(تفسیر القرطبی :6/139)
اس سے معلوم ہوا کہ ورود کے معنی گزرنے کے کیے جائیں یا داخل ہونے کے،ان میں کوئی منافات اور تضاد نہیں کیونکہ دونوں کا مقصد اور مال ایک ہی ہے کہ اہل ایمان خیر وعافیت سے یا قدرے مشقت سے جہنم کے پل سے یا جہنم کے اندر سے گزر جائیں گے اورجہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔
ایک اور شبہ کا ازالہ:۔
مذکورہ وضاحت سے اس شبہ کا بھی ازالہ ہوجاتا ہے جو بعض لوگ پیش کرتے ہیں کہ نیک لوگوں کی بابت تو سورۃ الانبیاء میں کہا گیا ہے:
﴿أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا﴾
"وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے وہ اس کی آہٹ بھی نہیں سنیں گے"جب کہ مذکورہ تفسیر اس آیت قرآنی کے خلاف ہے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ زیربحث آیت کی جو تفسیر کی گئی وہ صحیح ترین احادیث کی روشنی میں کی گئی ہےی وہ قرآن کریم کی کسی دوسری آیت کے خلاف کس طرح ہوسکتی ہے؟جن لوگوں کو وہ تفسیر سورۃ الانبیاء علیہ السلام کی آیت کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ان کااپنا فہم وتدبر قرآن ناقص ہے۔کیونکہ وہ حدیث رسول کے مقابلے میں اپنے فکر وتدبر کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔کیا اس شوخ چشمانہ جسارت سے وہ صاحب قرآن (پیغمبر اسلام) سے زیادہ فہم قرآن کے حامل ہوجائیں گے؟نہیں ،ہرگز نہیں۔صاحب قرآن کی بیان کردہ تفسیر ہی قرآن کی اصل تفسیر ہے۔آج کل جدید مفسرین قرآن فہمی کے کتنے ہی بلند بانگ دعوے کریں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ان کی قرآن فہمی کی حیثیت پرکاہ کے برابر بھی نہیں۔
بہرحال عرض یہ کیا جارہا تھا کہ جب اہل ایمان جہنم کے اوپر سے یا جہنم کے اندر سے اس طرح گزر جائیں گے۔کہ اُن کو جہنم کی آگ چھوئے گی بھی نہیں۔تو پھر یہ تفسیر أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ کے خلاف کس طرح ہوئی؟اس آیت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ اہل جہنم کے عذاب سے دور رہیں گے اور زیر بحث آیت کی تفسیر میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے جس کی تائید دوسری آیت:
﴿ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا﴾
سے بھی ہوتی ہے،تو پھر ان میں منافات اور تضاد کہاں رہا؟
مفسرین نے بھی اس ٹکتے کی وضاحت فرمادی ہے۔۔۔چنانچہ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں:
"ولا منافاة بين هذه الآية وقوله تعاليٰ(( أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ )) لان المراد مبعدون عن عذابها"(تفسیر روح المعانی ج16 ص 122)
"یہ آیت اللہ کے قول أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ کے منافی نہیں،اس لیے کہ مراد جہنم سے دور رکھے جانے سے،اس کے عذاب سے دور رکھاجاناہے"
اور امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"بأن معنى قوله: «أولئِك عنها مبعدون» عن العذاب فيها، والإحراق بها. قالوا: فمن دخلها وهو لا يشعر بها، ولا يحس منها وجعاً ولا ألماً، فهو مبعد عنها في الحقيقة. ويستدلون بقوله تعالى: ))ثُمَّ نُنَجِّي ٱلَّذِينَ ٱتَّقَواْ(( بضم الثاء؛ فـ«ـثم» تدل على نجاء بعد الدخول."(تفسیر القرطبی:137/6)
"(أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ )کے معنی ہیں ،اس کے عذاب سے اور اس میں جلانے کی سزا سے دور رکھے جائیں گے،پس جو اہل ایمان میں سے اس میں داخل ہوگا،اس کو یہ احساس ہی نہیں ہوگا کہ وہ جہنم میں ہے،نہ اس میں کوئی درد یا تکلیف محسوس کرے گا۔پس یہ حقیقت میں دور رکھا جانا ہی ہے،اس نقطعہ نظر کے حاملین کی دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے"پھر ہم ان لوگوں کو نجات دے دیں گے جو متقی ہوں گے"پس ثُمَّ (پھر)داخل ہونے کے بعد نجات پر دلالت کرتاہے۔"
"كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْماً مَّقْضِيّاً یعنی ہر ایک کا جہنم میں جانا،اللہ کا طے شدہ فیصلہ ہے۔بعض نے اس کے معنی قسم واجب کے کیے ہیں،اسی رقم جس پر ضرور عمل ہوگا۔ مطلب دونوں کا ایک ہی ہے مومن وکافر کا ورود جہنم پر سے یا جہنم میں ضرور ہوگا۔
﴿ثُمَّ نُنَجِّي ٱلَّذِينَ ٱتَّقَواْ وَّنَذَرُ ٱلظَّـٰلِمِينَ فِيهَا جِثِيّاً ﴾ ان الفاظ سے بھی واضح ہے۔ کہ جہنم میں تو سب جائیں گے،لیکن اہل ایمان وتقویٰ کو تو اس کے عذاب سے بچا لیا جائے گا،البتہ کافروں اور مشرکوں کو اسی میں چھوڑ دیاجائے گا،کیونکہ ان کے لیے جہنم کاعذاب دائمی ہے۔اس سے وہ کبھی نجات نہ پائیں گے۔تاہم اہل ایمان وتوحید کی ایک قسم ایسی بھی ہوگی جن کے ذمے کبیرہ گناہ ہوں گے اور دنیا میں انہوں نے اس سے توبہ نہ کی ہوگی۔ان کا معاملہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہوگا،وہ چاہے گا تو اپنے فضل وکرم سے ابتداہی میں معاف فرمادےگا۔اس صورت میں وہ بھی جہنم سے بخیر وعافیت نکل جائیں گے اور اگر اللہ کی مشیت ان کے گناہوں کے مطابق ان کو سزا دینے کی ہوگی،تو یہ بھی ،جب تک اللہ چاہے گا،جہنم میں ہیں گے اور جہنم کی سزا بھگتیں گے،پھر بعد میں شفاعت کے ذریعے سے یااللہ کے فضل وکرم کی وجہ سے جہنم سے نکال کرجنت میں داخل کردیئے جائیں گے اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔
اس کے برعکس معتزلہ کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہ کامرتکب مسلمان ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور مرجئۃ کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہ سے مسلمان کے ایمان میں کوئی خرابی ہی پیدا نہیں ہوتی،اس لیے وہ جہنم میں ہی نہیں جائے گا۔یہ دونوں نقطعہ نظر انتہا پسندانہ ہیں۔ایک سے انسان اللہ کی ر حمت سے مایوس ہوجاتا ہے اور دوسرے سے انسان بڑے بڑے گناہوں کےارتکاب پر دلیر۔اس لیے اہل سنت کا موقف ہی معتدل ہے،علاوہ ازیں اس سے بظاہر متعارض دلائل میں جمع وتطبیق بھی ہوجاتی ہے۔کسی بھی نص کے مفہوم میں تبدیلی یا اس کی دوراز کا تاویل کرنے ضرورت پیش نہیں آتی۔