شعائر اسلامیہ کی تصحیک

عاصمہ جہانگیرکی طرف سے اسلامی شعائر کی تضحیک
اسلامی شعائر اور معروفات کی پاسداری مسلمانوں میں اسلام سے محبت اور قلبی وابستگی میں اضافہ کرتی ہے اسی لیے اسلام دشمن قوتوں کے مذموم پراپیگنڈہ کا یہ مؤثر ہتھیار رہا ہے کہ وہ اسلامی شعائر کی تضحیک و تحقیر کے گھناؤ نے فعل کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی عظمت کو گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں داڑھی رکھنا اسلامی شعائر میں داخل ہے باریش مسلمانوں کو جس استہزاء اورکیک حملوں کا نشانہ بنایا جا تا ہے وہ محتاج بیان نہیں پردہ اسلامی حکم کے ساتھ ساتھ اسلامی شعائر کا حصہ بھی ہے۔ اس کے متعلق جس طرح لادین اور اسلام دشمن عناصر ہر زہ سرائی کرتے ہیں وہ اس مذموم پراپیگنڈہ مہم کا حصہ ہے۔ ولیٰ ہذاالقیاس ۔

عاصمہ جہانگیر جو تحریک آوارگی کی سرغنہ ہے اور جو انسانی حقوق کے نام پر اسلامی تعلیمات سماجی اقداراور اخلاقی قدروں کو پامال کرنے اور پاکستان کے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی سازش میں سرگرداں ہے اس کے متعلق یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ اس نے ایک جوڑے کا نکاح خود پڑھایا ہے نکاح ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور نکاح پڑھانا اسلامی معروفات میں شامل ہے بے حد تعجب کا مقام ہے کہ عاصمہ جہانگیرجیسی گستاخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورت جو بے حد دریدہ ذہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون توہین رسالت کو "فتنہ" کہنے کی جسارت کی مرتکب ہو چکی ہو اور جو توہین رسالت کے مرتب بد بخت افراد کے دفاع کو انسانی حقوق کے ایجنڈے کی ترجیح اول سمجھتی ہو اس کی طرف سے نکاح پڑھانا اسلامی شعائر کے مذاق اڑانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اس نام نہاد تقریب نکاح کی بلجیم کے انسانی حقوق کمیشن کی ٹیم نے ویڈیو فلم بنائی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عاصمہ جہانگیرحسب معمول اس نکاح خوانی کی کاروائی کو یورپ میں سستی شہرت کے حصول اور اسلام کے خلاف مذموم پراپیگنڈہ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گی۔

گذشتہ چند برسوں میں عاصمہ جہانگیر کی اسلام مخالف اور وطن دشمن سر گرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کچھ شک باقی نہیں رہتا کہ وہ پاکستان میں مغربی صیہونی لابی کے تنخواہ دار ایجنٹ کا کردار ادا کر رہی ہے حال ہی میں بلجیم کے انسانی حقوق کمیشن نے عاصمہ جہانگیر کو انہی"خدمات "اکے اعتراف کے طور پر ایوارڈسے نوازا ہے جب کہ گذشتہ سالوں میں وہ مغرب یورپ سے بھی متعدد بار دادو تعریف وصول کر چکی ہے۔اپنے آقاؤں کی تازہ ترین نوازشات کا حق نمک ادا کرنے کے لیے اس نے اس طرح کی گھٹیا تشہیر بازی کا سہارا لیا ہے ۔

عاصمہ جہانگیر کو نکاح خوانی کے منصب پر متمکن ہونے سے پہلے ذرا اپنے "بندقبا"اور دامن پر نگاہ ضرورڈالنی چاہیے تھی اگر اس کے ضمیر کا آئینہ مکمل طور پر سنگ خاراکی شکل اختیار نہیں کر چکا تو اسے اپنے کرتوتوں کی ظلمت مآب جھلک کا مشاہدہ کرنے میں وقت پیش نہ آتی ۔ معلوم ہوتا ہے اس کا ضمیر اس قدر مردہ ہو چکا ہے کہ اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ جس حرکت کا ارتکاب کر رہی ہے وہ اس کے سیاہ کارناموں میں مزید اضافہ کا باعث بنے گی فارسی کا مقولہ ہے جو غالباً ایک حدیث مبارکہ سے ماخوذ ہے یعنی" بےحیا باش و ہر چہ خواہی کن"یعنی بے حیا بن جا۔اس کے بعد جوجی میں آئے کر۔ عاصمہ جہانگیرحیا باختگی کی اس منزل کو چھوچکی ہے کہ جہاں حیا اور بے شرمی میں حد فاصل قائم نہیں رہتی ۔ ایک عورت جو مسلمان ہونے کا دعوی کرتی ہو لیکن ایک قادیانی مرد کی بیوی ہونے پر علی الاعلان احساس تفاخر کا اظہار بھی کرتی ہو اور علماء کی طرف سے جس کے خلاف حدود آرڈیننس کے تحت زنا کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ اور اس کے مقدمہ کے دائر کرنے کے لیے ہائیکورٹ میں رٹ بھی دائر کی گئی ہو۔ وہ اپنے آپ کو اس قابل سمجھے کہ نکاح خوانی کا مقدس فریضہ انجام دے سکتی ہے اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے۔ بقول غالب ۔

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

سگمنڈفرائیڈجس نے "جنس" کو انسانی کی شعوری اور لاشعوری کاروائیوں کا مرکزی نقطہ قراردیتے ہوئے آزادانہ ہوس ناکی کو سند جواز عطا کیا تھا اور جس کی تعلیمات یورپ میں جنسی انقلاب برپا کرنے کا باعث بنی ہیں وہ تحریک آزادی نسواں کی علمبردارعورتوں کا تحلیل نفسی کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ۔

"وہ نفسیاتی اور اعصابی امراض کا شکار ہیں مردوں سے ہر اعتبار سے برابر کا جنوں Nuorosisیعنی اعصاب زدگی کا نتیجہ ہے۔"

عاصمہ جہانگیر اعصابی انتشار کے مرض کا شکار ہے اسے ہر شعبہ میں مردوں کی برابری کا جنوں لاحق ہے چودہ سو برس کی اسلامی تاریخ میں کسی ایک مسلم عورت کے متعلق یہ ثابت نہیں ہے کہ اس نے نکاح کی تقریب میں ولی یا نکاح خواں کے فرائض سرانجام دئیے ہوں۔ حتیٰ کہ حضرت عائشہ جو امہات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں علم و فضل کے اعتبار سے بھی ممتاز تھیں اور جن سے سینکڑوں احادیث مروی ہیں وہ بھی اپنے عزیزوں کے رشتہ ناطہ طے کرنے کے بعد نکاح ہمیشہ مردوں سے پڑھاتی تھیں ۔(داقطنی تفسیر قرطبی) آج کے دور میں شریعت بیزار نیم قانون دان عورت نکاح خوانی پر اترآئے تو اسے قرب قیامت کی نشانی سمجھا جانا چاہیے۔

عاصمہ جہانگیر کی اس بددماغی اور گمراہی کو تقویت دینے میں ہمارے اخبارات کا بھی خاصا حصہ ہے۔ بعض سیکولر صحافی تو عاصمہ جہانگیر کی سر گرمیوں کی تشہیر میں بے حد فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں وہ اس کی زبان سے نکلا ہوا نا ہنجارلفظ شائع بھی کرتے ہیں گویا اخبار کے قارئین اس کے متعلق لاعلم رہ کر جاہل رہیں گے۔ عاصمہ جہانگیر کی نکاح خوانی کی حرکت کی بجائے بعض اخبارات نے اس کی تائید میں توڑ موڑ کر ایسے بیانات شائع کیے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ نہایت قابل تعریف اقدام ہے عاصمہ جہانگیر کی ہر بے ہودگی اور واہیات حرکت کی تائید میں قانونی جواز ڈھونڈنکالناہی اگر حریت فکر بقول اقبال ابلیس کی ایجاد ہے ۔ہمارے بعض قانون دانوں نے بھی رائے ظاہر کی ہے کہ عورت کے نکاح پڑھانے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے نہایت افسوس کا مقام ہے کہ وہ اس طرح کی قانونی موشگافیاں کرتے ہوئے مجرد قانونی تصور ذہن میں رکھتے ہیں اس رائے کے مہلک مضمرات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اس سازش کا ادراک نہیں کرتے یا وہ اس سازش میں شامل ہوتے ہیں جو ہمارے خاندانی نظام کی تباہی کے لیے مغرب کی سر پرستی میں کی جا رہی ہے اسلامی شعائر اور معروفات کو نظر انداز کرتے ہوئے اگر ان مجرد قانونی نکتہ آفرینیوں پر ہی انحصار کیا جائے تو اس کا نتیجہ ایک عظیم گمراہی کے سوا اور کیا نکلے گا۔ لڑکے لڑکیاں آزادانہ عشق بازی کے بعد عاصمہ جہانگیر جیسی عورت سے نکاح پڑھوانا شروع ہو جائیں گے۔والدین عزیز و اقارب کی موجودگی اور دیگر اسلامی شعائر کی تو شادی بیاہ میں اہمیت و ضرورت ہی ختم ہو جائے گی۔ اس طرح کی فکری ظلمتیں کسی ایک سطح پر نہیں رکتیں جب ایک اسلامی حکم کو تاراج کیا جاتا ہے تو دیگر احکامات کا حترام بھی ممکن نہیں رہتا آج عورت کے نکاح پڑھانے کو" درست" کہا جارہا ہے کل کلاں یورپ کی پیروی میں نکاح کے بغیر "میاں بیوی"کے طور پر رہنے میں بھی کوئی قانونی حرج نظر نہیں آئے گا۔

عاصمہ جہانگیر کی فکر سے متفق ایک قانون دان سید افضل حیدر نے تو روزنامہ "جنگ" کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے پہلے ہی اس طرف اشارہ کردیا ہے موصوف کے بقول "عورت تو کیا اپنا نکاح دولہا یا دلہن خود بھی پڑھ سکتے ہیں کیونکہ مسلمان اللہ کا نام لے کر خود کو ایک دوسرے پر حلال قراردے رہے ہیں ہم نے اپنی زندگی میں مولوی کے کردار کو اتنا ضروری کیوں بنالیا ہے(9/اپریل99ء)

معلوم نہیں اس گمراہ کن رائے کے پیچھے ان جدید مفتی صاحب کے پاس قرآن و سنت کون سی دلیل ہے وہ گویا یہ بتانا چاہتے ہیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین اور مسلمان علماء و فقہاء کے ذہن میں یہ نکتہ کبھی نہ آسکا(نعوذباللہ ) کہ اللہ کا نام لے کر ایک لڑکا اور ایک لڑکی خود کو ایک دوسرے پر حلال کر سکتے ہیں مولوی کی ضرورت کا انکار کرتے کرتے یہ صاحب نکاح خواں اور والدین کی ضرورت کا بھی قطعاً انکار کر لیتے ہیں یہی وہ تجدد ہے جو قرآن وسنت کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے کل کو یہی مجدد صاحب یہ بھی رائے دے سکتے ہیں کہ نکاح کے الفاظ بولنے کی ضرورت نہیں ہے چونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کے حال خوب جانتا ہے سید افضل حیدر پوری اسلامی تاریخ میں کسی ایک بھی واقعہ کی نشاندہی کر سکتے ہیں کہ جس میں ایک دولہا اور دلہن نے اپنا نکاح خود پڑھا لیا ہو؟اگر نہیں تو پھر اسلامی شریعت کو اس طرح باز یچہ اطفال بنانے کا انہیں حق کس نے دیا ہے؟اسلامی قانون کی اس طرح تعبیر کرنے کے وہ اپنے آپ کو اہل کیسے سمجھتے ہیں؟کیا وہ اینگلو سیکسن قانون اور فقہ اسلامی میں اصولی طور پر کوئی فرق نہیں سمجھتے ؟اسلامی شریعت سے اس طرح کے سنگین مذاق کی"لبرٹی"پاکستان میں ہی لی جا سکتی ہے کسی صحیح معنوں میں اسلامی ریاست میں نہیں ان جیسے احباب نے اگر اپنی روشن خیالی " اور ترقی پسندی کا اسلامی شریعت کو تحتہ مشق بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے تو انہیں ذہن میں رکھنا چاہیے پاکستان کے مسلمان قرآن و سنت سے متصادم ان کی اس روشن خیالی کو پائے حقارت سے ٹھکراتے ہیں ان جیسے حضرات سے ہم یہی گزارش کریں گے کہ وہ اپنے ذاتی اور شخصی ارتداد کو سلام کی تعبیر کے طور پر پیش کرنے کی جسارت کا ارتکاب کر کے مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث نہ بنیں ۔

مذکورہ نکاح خوانی کے واقعہ کے بارے میں یہ صراحت موجود نہیں ہے کہ وہ جوڑا قادیانی تھا یا مسلمان وہ قادیانی نہ بھی ہوں تو ان کی"مسلمانی" کی سطح کے بارے میں رائے قائم کرنا دشوار نہیں ہے عاصمہ جہانگیر کی طرف سے بھی یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اس نے یہ نکاح اسلامی فقہ قادیانی قواعد یا اینگلوسیکسن قانون کے تحت پڑھایا ہے۔ اگر بالفرض وہ یہ دعوی کرتی ہے کہ اس نے اسلامی شریعت کے تحت یہ نکاح پڑھایا ہے جس میں عورت کو نکاح پڑھانے سے منع نہیں کیا گیا اسلامی شریعت سے وہ اگر اس درجہ مخلص ہیں تو اسی شریعت کے مطابق ایک مسلمان عورت کا ایک قادیانی مردسے نکاح نہیں ہو سکتا ۔ کیا وہ بتانا پسند کریں گی کہ وہ کس شریعت کی روشنی میں جہانگیر صاحب کی زوجہ کی حیثیت سے رہ رہی ہیں۔

مسلمان فقہاء تو اس طرح کے تعلقات کو ناجائز سمجھتے ہیں اس نے ہمیشہ اپنے اہل سنت ہونے کا دعوی کیا ہے اہل سنت کے عقائد کی اس سنگین خلاف ورزی کے باوجود وہ اپنے اس دعوی میں کہا تک سچی ہے؟اسے اب اس منافقت سے باہر نکلنا پڑے گا یا تو وہ اعتراف کر لے کہ وہ قادیانی ہے تو پھر کسی کو اعتراض کی گنجائش نہیں ہو نی چاہیے لیکن اگر وہ اپنے مسلمان کہلانے پر ہی مصر ہے تو پھر اسے تو بہ کر کے تجدید نکاح کرنی چاہیے اور کسی مسلمان کے ساتھ نکاح کرنا چاہیے عاصمہ جہانگیر اپنے آپ کو ایک عالمی شخصیت سمجھتی ہیں لیکن اس کی شخصیت کا یہ دوغلاپن اور ابہام بے حد تعجب انگیز بلکہ فریب انگیز ہے۔

نکاح پڑھانے کے متعلق سارے مردوں کو بھی اہل نہیں سمجھا جا تا اس معاملے میں دین سے واقفیت فرائض دین کی بجا آوری اور اخلاق و تدین کو مد نظر رکھا جاتا ہے عاصمہ جہانگیر کا تعلق ایک کروڑ پتی گھرانے سے ہے کیا وہ بتا سکتی ہے کہ انھوں نے آج تک توفیق کے باوجود حج کا فریضہ ادا کیوں نہیں کیا؟کیا وہ سالانہ زکوۃ ادا کرتی ہے کیاوہ عام طور پر نمازوں کا اہتمام کرتی ہے؟ دیگر اسلامی تعلیمات اور شعائر کی پاسداری میں اس کا رویہ کیا ہے؟ اگر وہ باقی معاملات میں سیکولر رویہ رکھتی ہیں تو نکاح خوانی کا شوق ان کے ذہن میں کیونکر سمایا۔ کیا اس طرح کی نکاح خوانی خاندانی نظام کی تباہی پر منتج نہیں ہو گی؟ کیا اس طرح وہ بالواسطہ اپنے اس ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہی ہے جس کا ہدف پاکستان کے خاندانی نظام کو مغرب کے معیارات کے مطابق ڈھالنا ہے۔ آخر وہ اہل پاکستان کو کب تک فریب دیتی رہے گی؟انہی محترمہ کےبارے میں یہ خبر بھی گرم ہوئی کہ سمعیہ عمران نامی قتل ہونے والی عورت کا جنازہ پڑھانے کا سودا بھی ان کے سر میں سمایا جس میں مرد حضرات کی بہت بڑی تعدادکا ان کی اقتدا میں عین مال روڑ پر نماز جنازہ ادا کرنے کا پروگرام بھی تھا وہ تو بھلا ہو اس قوم کی غیرت و حمیت کا کہ چند دیدیہ بینا لوگوں نے عین موقعہ پر اس استہزاء دین پر عوام کے ممکنہ اشتعال آمیز رد عمل سے خوف ڈال کر عاصمہ جہانگیر کو اپنے ارادے سے باز رہنے کا مشورہ دیا ورنہ اس دن یہ تاریخ ساز واقعہ بھی عاصمہ جہانگیر کے نامہ اعمال میں شامل ہو جا تا۔

اگر ابھی تک وہ یہ سوچتی ہے کہ اس کے اصل ارادوں کا کسی کو علم نہیں ہے تو یہ محض اس کی خود فریبی ہے اس کی مذموم سازش اب طشت از بام ہو گئی ہے انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کے نام پروہ اسلام اور پاکستان کے خلاف منفی سر گرمیوں میں ملوث ہے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف جلوس نکالنے کا آخر مقصد کیا تھا؟جان جوزف کی خود کشی کو بہانہ بنا کر پاکستان میں مسلم مسیحی فسادات برپا کرنا بھی اس سازش کا حصہ تھا ۔صائمہ کیس کو قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں تشہیر دینا بھی اسی ایجنڈے کی پیروی کا شاخسانہ تھا ابھی حال ہی میں امریکہ اور برطانیہ میں پاکستان کے بارے میں فلم کا دکھایا جا نا بھی پاکستان کے خلاف شر انگیز ی مہم کا حصہ ہے

حکومت پنجاب کے ایک وزیرNGOS کی پاکستان دشمن سر گرمیوں کی نشاندہی کر چکے ہیں ۔9/اپریل کو یہ خبر شائع ہوئی کہ پاکستان میں 300NGOS پر پابندی لگادی گئی ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ عاصمہ جہانگیر کی زیر سر پرستی کام کرنے والیNGOS کے بارے میں بھی تحقیقات کرے جس کی وطن دشمنی کے متعلق بہت کم لوگوں کو شبہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عاصمہ جہا نگیر کی سر گرمیوں پر گرفت کی جائے ورنہ فتنہ کنٹرول سے باہر ہو جائے گا۔