اسلام اور انٹر نیٹ

((زیر نظر موضوع جو اصلاً تو"اسلامی علم و تحقیق میں کمپیوٹر کے استعمال"کےموضوع پر روشنی ڈالنے کے لیے شروع کیا گیا،اس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے قدرے وسیع دائرہ کار میں مختلف دیگر اعتبار سے بھی کمپیوٹر کے استعمالات کو حاوی ہوگیا ہے۔چونکہ محدث کا مخصوص قاری کمپیوٹر کے بارے میں خاطرخواہ معلومات نہیں رکھتا چنانچہ کسی حوالےسے بات شروع کرنے سے قبل اس موضوع کے مجموعی خاکے کی وضاحت بھی ضروری ہوجاتی ہے۔یہی صورتحال آپ درج ذیل مضمون میں بھی محسوس کریں گے کہ بعض اوقات اپنے موضوع کے تقاضے پورے کرتے ہوئےبات قدرے وسعت اختیار کرجاتی ہے۔لیکن اس کے باوجود مضمون کی افادیت متاثر نہیں ہوئی۔اور پڑھنے لکھنے والے حلقوں کو کمپیوٹر سے آشنا کروانے اور اس کے حیرت انگیز استعمالات سے روشناس کروانے میں یہ ایک اچھی کاوش ہے۔۔۔اس سلسلہ کی ابتداء میں ہی اس تکنیکی پہلو کی ضرورت کو پیش کردیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ ایک جداگانہ موضوع ہونے کےناطے اس قدرے زیادہ ذہنی ارتکاز اور توجہ کی ضرورت ہے۔اور امید ہے کہ اس مضمون کے مطالعے کے بعد آپ انٹر نیٹ کے بارے میں مبنی برحقیقت تاثر قائم کرسکیں گے۔جو چیلنج آئندہ اس میدان میں پیش آنے کے امکانات ہیں اور اس کے ذریعے ابلاغیات کی جونئی صورت گری ہورہی ہے،ان سے بھی آپ کو آگاہی حاصل ہوجائےگی۔دورجدیدکے تقاضوں کی بجا تکمیل ان جدید وسائل علم وابلاغ سے استفادے کے بغیر ممکن نظرنہیں آتی۔

چونکہ یہ ایک بالکل جدید نوعیت کامعلوماتی مضمون ہے جس کا مزاج بھی ہمارے قاری کے مزاج سے یکسر مختلف ہے۔لہذا ممکن ہے کہ بعض قارئین اس سے استفادہ نہ کرپائیں چنانچہ اس مضمون کو قدرے باریک قلم کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے جو اس کی اصل ضخامت سے کم از کم نصف صفحات میں سمایا ہے۔یادرہے کہ انٹر نیٹ پر اس قدر تفصیلی مضمون بالخصوص اس حوالے سے آج تک لکھا نہیں جاسکا۔اس اعتبارسے قارئین محدث کے لیے یہ ایک ارمغان علمی بھی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کی تبلیغ کے تقاضے پورے کرنے اور زمانہ جدید میں اسے خوبصورت انداز میں پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین(ادارہ)))

مارچ 99ء کے شمارے میں پیش کیے جانے والے موضوع پر یوں تو تبصرہ وتعارف مکمل ہوچکا ہے۔لیکن اشاعت کے بعد چند مزید اُمور تشنہ نظر آئے جن کے بغیراس حصہ کی تکمیل قدرے مشکل دکھائی دی۔چنانچہ ذیل میں کمپیوٹر پر پہلے ذریعہ علم وتحقیق یعنی CD.Rom کی بابت تکمیلی بحث پیش کی جارہی ہے:

حقوق اشاعت یعنی Copy Right کامسئلہ

جیسا کہ CDکی مالیت کے بارے میں گزر چکا ہے کہ اس کے میٹریل کی لاگت اور صارف کو قابل ادا قیمت صرف 80 روپے ہوتی ہے۔لیکن یہ قیمت فقط اس کامیٹریل اور اس کی بناوٹMannfacturing پر صرف ہونے والی محنت کی ہے۔جب اس میں کتب علم وتحقیق داخل کی جاتی ہیں اور ان کو مربوط ومنظم انداز میں متنوع فوائد وامکانیاتPossibillites کےساتھ پیش کیا جاتاہے۔تو بے شمار افراد کی پہیم کاوش کے نتیجے میں ایسا ہونا ممکن ہوتاہے۔جس CD کے فوائد جس قدرزیادہ ہوں گے واضح سی بات ہے اس پراُسی قدر زیادہ محنت کی گئی ہوگی۔ CD کی قیمت سے قطع نظر اس پر ہونے والی محنت اور پیش کیے جانے والے مواد کی اہمیت کا اندازہ لگائیں تو واقعتاً اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اس کی قیمت ہزاروں روپے میں بھی ہو تو زیادہ نہیں۔

یوں تو پیش کیے جانے والے مواد یعنی علمی بحوث وتحقیقات کے حقوق طباعت کا مسئلہ بھی اپنی جگہ ایک سوال ہے،جس پر علماء کی مختلف آراء ہیں:بعض توحقوق طباعت کے مسئلے کو علم پر اجارہ داری اور علم سے معنوی ومادی فائدہ اٹھانے کارنگ دیتے ہوئے علم وحکمت کامعاوضہ لینے کو جائز خیال نہیں کرتے جب کہ دوسری طرف بعض کبار علماء ایسے بھی ہیں جو مصنف ومولف کی اجازت معاوضہ کے بغیر اشاعت کتاب کو سنگین خیانت سمجھتے ہوئے شائع کنندہ کے گناہ گار ہونے کا موقف رکھتے ہیں۔یہ سب تو اپنی جگہ ایک مستقل موضوع ہے۔جس میں کسی درمیانی اور متوازن رائے کی ضرورت موجود ہے۔ہمارے پیش نظر مسئلہ اپنے مخصوص موضوع کی مناسبت سے کمپیوٹر پر ان کتب کو پیش کرنے کا ہے کہ آیا ان افراد یا کمپنیوں کو جو یہ نیک کام بڑی لگن اور دینی جذبے سےکر رہی ہیں اور اسلام کی ایک عظیم خدمت بجالارہی ہیں ،ان خدمات کاانہیں کچھ صلہ بھی دیاجائے یا ایسی CD سے آزادانہ استفادہ کا طرز عمل اپنایا جائے۔

اس مسئلے میں کافی غوروفکر کے بعد جو میں سمجھ سکا ہوں اور جس کی تائید عام کمپیوٹر کمپنیوں کا رویہ بھی کرتا ہے وہ یوں ہے کہ اسلامی موضوعات پر کام کرنے والی موجودہ کمپنیاں یا انفرادی طور پر کی جانے والی کاوشیں ایک بہت مبارک عمل ہیں جس کی جس قدر حوصلہ افزائی کی جائے کم ہےاس کام پر ہونے والی کاوشیں بھی اس قدر مسلسل محنت،جدوجہد اور منظم ومربوط کارکردگی کے متقاضی ہیں جس کامعمولی سا اندازہ اس سے مستفید ہونے والا ہر فرد کرسکتا ہے۔چنانچہ اس بارے میں ایسا رویہ اپنایا جائے جو اس کام میں مزید ارتقا کا باعث ہونہ کہ تنزلی کی طرف لے جائے۔

کاپی رائٹ کے قانون سے ڈویلپمنٹ میں اضافہ ہوتاہے

یہ ایک حقیقت ہے کہ جن ممالک میں کمپیوٹر پروگراموں کے لیے"کاپی رائٹ" یعنی حقوق اشاعت محفوظ ہیں وہاں ان پر زیادہ سے زیادہ کام ہوکر مارکیٹ میں آرہاہے۔مثال کے طور پر پاکستان میں چونکہCopy Right کاقانون لاگو نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی قابل ذکر پروگرام نہیں بنایا جاسکا حتیٰ کہ ملک کی قومی زبان اُردو بھی کمپیوٹر کے حوالے سے اس قدر تہی دامن ہے کہ وہ کام جو آج سے دسیوں برس قبل انگریزی وعربی میں باآسانی کیے جارہے تھے، اردو میں کمپیوٹر پر تادم تحریر کرنے ممکن نہیں۔آئندہ اوراق میں جہاں ہم انٹر نیٹ پر گفتگو کریں گے،آپ یہ جان کرحیران ہوں گے کہ اردو زبان میں انٹر نیٹ کی کوئی بھی معیاری سہولت میسر ہی ہے،جب کہ اس کے برعکس بھارت جہاں ان خواتین کی کچھ پاسداری کی جاتی ہے،وہاں کے بنائے سافٹ وئیرز عالمی طور پر اپنا لوہا منواچکے ہیں۔اور دنیائے کمپیوٹر کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے پروگراموں کی تیاری میں بھارتی قوم کامعتدبہ حصہ ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ اُردو جو پاکستان کی قومی اور مسلمانان جنوبی ایشیا کے رابطہ کی واحد زبان ہے۔کا بنیادی کتابت کاسافٹ وئیر Inpage انڈیا کا تیار کردہ ہے جب کہ انڈیا ملکی سطح پر اُردو کی مخالفت کرکے ہندی اور سنسکرت کی ترویج کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔یہ صورت حال پاکستانی قوم کے لیے مقام شرم ہے۔

اس تفصیل کامقصد یہ ہے کہ کمپیوٹر کی حد تک تجربہ یہی بتاتا ہے کہ کاپی رائٹ کاقانون کمپیوٹر میں ڈویلپمنٹ (ارتقاء) کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرتاہے۔علاوہ ازیں شرعی اعتبار سے بھی محنت کرنے والے کو اس کاحق محنت وصول ہوناچاہیے۔چنانچہ دونوں اعتبار سےمحنت کامعاوضہ دینے میں ہردوفریق کی بہتر ی ہے۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کمپیوٹر کی حیرت ناک کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اور اس کام میں کافی منافع کی امید میں بے شمار کمپنیاں متعدد سافٹ ویئرز مارکیٹ میں لے آتی ہیں،جن کے استعمال كي بعد ہی حقیقی جائزہ حاصل ہوتا ہے کہ آیا ان سے صحیح فائدہ اٹھایا جاسکتاہے یانہیں۔ایک دقیقی چیز ہونے کے ناطے کوئی عام خریدار عموماً 70 فیصد سافٹ وئیرز ایسے خرید لیتاہے جو اس کے مطلوبہ تقاضے پورے نہیں کرتے۔

ان دونوں صورتوں کا درمیانی حل یہ ہے کہ استعمال کنندہ کو ہر طرح کے سافٹ وئیرز کاپی کرواکے استعمال کردیکھنے چاہییں۔بعد ازاں اس کو جن سافٹ وئیرز کے بارے میں یقین ہوجائے کہ وہ اس کےمطلوبہ تقاضے پورے کرتے ہیں اور وہ اس سے استفادہ کرنا شروع کر دے تو تب اس کو اس سافٹ وئیرز کی اصل قیمت ادا کردینا چاہیے۔بصورت دیگر ایسے سافٹ وئیرز جو اس کے کام کے نہیں اور وہ ان سے استفادہ نہیں کررہا کو صرف کاپی کرے رکھ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں۔اس سے جہاں استعمال کنندہ کا مفاد محفوظ ہوجاتاہے وہاں سافٹ وئیرز بنانے والی کمپنیوں میں بھی درست بنیادوں پر مقابلے کارجحان پروان چڑھتاہے کہ جو کمپنی بامقصد اور مفید ترین سافٹ وئیرز بنائےگی وہی اپنی محنت کامعاوضہ وصول کر سکتی ہے۔بہرحال یہ صارف کے اپنے ایمان و دیہانت کامسئلہ ہے۔ کہ اگر وہ اپنے فائدے اٹھانے کی قیمت ادا کرنے سے بھی انکاری ہے تو وہ اس کے ذریعے جہاں اپنے ضمیر کا مجرم ٹھہرتاہے وہاں نیک کام پر ہونے والی خدمات کی حوصلہ شکنی کابھی مرتکب ہوتا ہے۔

اس رائے کواپنانے کی وجہ عام کمپیوٹر کمپنیوں کا رویہ بھی ہے۔یورپ وامریکہ کی کمپنیاں اپنی کمپیوٹر مصنوعات یعنی سافٹ وئیرز کے ضمن میں یہی طرز عمل اختیار کرتی ہیں کہ استعمال کنندہ اگر چاہے تو اسے بلا قیمت حاصل کرکے استعمال کرے،لیکن ایک ماہ کے اندر اندر اُسے قیمت ادا کرنا ہوگی۔بصورت دیگر وہ پروگرام از خود کام کرنا بند کردےگا۔یورپی اقوام کے ہاں کاروباری اخلاقیات ودیانت کا چونکہ ایک میعار رواج پاچکا ہے۔اور وہ از خود اس مشروط پیشکش کی ادائیگی کردیتے ہیں۔مسلمان قوم کے ہونے کے ناطے ہمارا بھی یہ لازمی فرض ہے کہ ہم بھی اپنے طرز عمل میں اس کا خیال رکھیں۔غرض جس شے سے استفادہ کیاجائے اس کا معاوضہ محنت کرنے والے کو ادا نہ کرنا ایک واضح بدیانتی ہے جس پر ہمیں غوروفکر کرنا چاہیے۔

دوسرا وسیلہ تحقیق۔۔۔۔۔۔۔۔انٹر نیٹ

انٹر نیٹ کیاہے؟

دور جدید ،ذرائع مواصلات میں انقلاب کادور ہے۔پیغامات کی آزادانہ،سستی اور فوری ترسیل انٹر نیٹ کے بنیادی نکات ہیں۔عام طور پر انسان جس قدر ایک دوسرے سے مربوط اور باخبر ہوں گے۔اس قدر زیادہ سے زیادہ وسائل انسانی سے استفادہ اور انسان کی مشکلات سے نمٹنا آسان ہونے کے امکانات ہیں۔کچھ اس قسم کےتصورات پر ہی یہ ایجاد عالم وجود میں آئی۔یوں تو چند عشروں سے کسی نہ کسی صورت میں مختلف آلات کے ذریعے اسی نوعیت کی خدمات لی جارہی تھیں لیکن اپنی موجودہ شکل میں تمام مذکورہ مقاصد کی سوفیصد تکمیل کاخواب انٹر نیٹ کے ذریعے ہی شرمندہ تعبیر ہوا۔انٹر نیٹ دنیا بھر کے کمپیوٹروں کاآپس میں مربوط ایک عالمی جال (Network) ہے۔اس کے لیے انگریزی میںwwwیعنی World Wide Web(عالمی سطح پر پھیلا ہواجالا) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

اس جال کی تشکیل آسان انداز میں کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ مصنوعی سیاروں(Satelites) کے ذریعے دنیا بھر کے کمپیوٹرز کوآپس میں مربوط کردیا جاتاہے۔سیاروں سے رابطہ ایک بہت طاقتور ڈش(سگنل وصول کرنے اور بھیجنے کا آلہ)کے ذریعے ہوتاہے۔انٹر نیٹ کا ہر صارف تو اس قدر مہنگی ڈش نہیں خرید سکتا چنانچہ ہر شہر میں چند ایسی کمپنیاں بنائی گئی ہیں جو سیارے سے رابطہ کا مکمل نظام تیار کرکے شہر بھر کے کمپیوٹرز کو ٹیلی فون کے ذریعے اپنے کنٹرول ر وم تک رسائی مہیا کرتے ہیں جہاں سے ان بے شمار کمپیوٹروں کو سیارے سے منسلک کردیاجاتا ہے۔اس سےثابت ہوا کہ:

کمپیوٹر،عام ٹیلی فون کی لوکل لائن کے ذریعے اپنے شہر کی انٹر نیٹ سہولت فراہم کرنے والی کمپنی (Internet Service Provider) سےرابطہ کرتے ہیں۔جہاں سے وہ کمپنی انہیں عالمی مواصلاتی سیارے تک رسائی مہیا کردیتی ہے۔جس کے بعد اس عالمی نیٹ ورک سے منسلک کسی بھی کمپیوٹر سے ان کارابطہ سیکنڈوں میں ہوسکتاہے۔بعض قدرے پس ماندہ شہروں میں یہ ISP کمپنیاں موجود نہ ہوں۔ تواس وقت کسی بیرون شہر کمپنی تک ٹیلی فون لائن کے ذریعے رابطہ کرکے سیارے سے مربوط ہوا جاسکتاہے۔

مثال کے طور پر سعودی عرب میں کچھ عرصہ قبل تک بطورپالیسی انٹر نیٹ کا استعمال ممنوع تھا اور ایسی رابطہ کروانے والی کمپنیوں ISPsپر بھی پابندی تھی۔وقت تک امارات کی سرحدوں کے قریب رہنے والے سعودی شہری اپنے کمپیوٹر کے ذریعے سعودی عرب میں ٹیلی فون لائن پر امارات کی کسی انٹر نیٹ کمپنی سے منسلک ہوتے جو انہیں سیاروں سے منسلک کردیتی ہے۔لیکن ظاہر ہے کہ اس صورت میں ٹیلی فون کا رابطہ لوکل کال کی بجائے دو شہروں کے درمیان ہونے والا رابطہ ہوتا۔چنانچہ یہ صورت ممکن تو ہے لیکن کافی مہنگی ہے۔کیونکہ اس صورت میں انٹر نیٹ کے چارجز کے ساتھ ساتھ دو شہروں کے درمیان برابر رابطہ رکھنے کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔

سیارے سے کمپیوٹر کے منسلک ہونے کے بعد آپ برابر کے گھر میں موجود کمپیوٹر سے رابطہ کریں یا دنیا کے کسی حصے میں موجود کمپیوٹر سے،اس کا معاوضہ بالکل ایک ہے کیونکہ سیارے سے ر ابطہ کے بعد تمام دنیا سے رابطہ یکساں ہوجاتا ہے۔حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس رابطہ کی قیمت انتہائی حد تک کم ہے۔بعض ترقی یافتہ ممالک میں تو اب اس کامعاوضہ بھی ختم کرکے بالکل مفت کردیا گیا ہے۔لیکن پاکستان میں اس رابطے کی اوسط قیمت 15 سے 25 روپے فی گھنٹہ ہے۔اس کےعلاوہ ایک ٹیلی فون کال جو جب تک منقطع نہ ہوکے چارجز بھی ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ انٹر نیٹ کی سروس مہیا کرنے والی کمپنیوں سے رابطہ کی صورت میں ہر 5 منٹ پر نئی کال کے اضافہ والا ضابطہ بھی لاگو نہیں ہوتا۔

یہ تو وہ طریق کار ہے کہ یہ رابطہ کس طرح ممکن ہوتا ہے ۔جہاں تک انٹر نیٹ کا تعلق ہے تو یہ دراصل مواصلات ومعلومات کا ایک وسیع اور عظیم الشان نظام ہے۔اس کو آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح TV کے بیسیوں چینل ہوتے ہیں جہاں مختلف نشریاتی ادارے اپنی نشریات پیش کرتے ہیں،عین اسی طرح کمپیوٹر نیٹ ورک پر کروڑوں TV چینل ہیں۔ جن پر آپ پیش کنندہ ادارے کی نشریات ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔کچھ اعتبارات یہ TV سے امتیاز بھی رکھتے ہیں کہ جس TV چینل پر آپ جانا چاہیں تو آپ اس کی پیش کردہ نشریات کو ہی دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔جبکہ انٹر نیٹ کے چینل جنھیں اصطلاح میں Webpage(جال کے صفحات)یا Websiteکہا جاتا ہے۔پر آپ مطلوبہ چینل پر مطلوبہ چیز کاانتخاب بھی کرسکتے ہیں،ان سے بات چیت کرسکتے ہیں۔اور ان سے خیالات کاتبادلہ کرسکتے ہیں ۔انہیں سیکنڈوں میں کوئی بھی کمپیوٹر پر موجود شےData/Software بھیج سکتے ہیں۔یونیورسٹیوں میں پراسپکٹس کا مطالعہ ،شرائط داخلہ کی بابت تفصیلات اوراپنا داخلہ فارم جمع کرواکر جواب طلب کرسکتے ہیں۔دنیا بھر کی لائبریریوں سے مربوط ہوکر اپنے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر تمام کتب یا خاص موضوع پر موجود کتب کی فہرست دیکھ سکتے ہیں اور بعض اوقات مکمل کتاب کوکمپیوٹر سکرین پر ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔انٹر نیٹ کے ذریعے کیا کچھ ہونا ممکن ہے،اس کی حد بندی ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی لیکن عام طور پر جن سہولتوں کو استعمال کیاجاتا ہے،ان کی تعداد 50 سے زیادہ ہے۔جن میں سے اہم ترین کو آئندہ اوراق میں اختصار سے پیش کیاجارہاہے۔

کمپیوٹر پر جہاں مختلف اداروں سے رابطہ کرنا فوری،سستے ترین اور مطلوبہ انداز میں ممکن ہے وہاں یہ امر بھی قابل حیرت ہے کہ کسی ادارے کا اپنے آپ کو انٹر نیٹ چینل(Web page) کے طور پر پیش کرنا بھی بہت آسان اور انتہائی کم لاگت سے ممکن ہے۔(دیکھئے ص:52)

Web Page Browsing انٹر نیٹ چینل کو کھنگالنا/ملاحظہ کرنا

انٹر نیٹ سے بیسیوں قسم کے کام لیے جارہے ہیں جن میں سب سے زیادہ معروف سروس Web Page Browsing یعنی مختلف انٹر نیٹ سائٹس پر دی گئی معلومات کو ملاحظہ کرنا ہے۔اس نوعیت کے استفادے کے لیے ہی عموماً انٹر نیٹ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جبکہ فی الواقع یہ انٹر نیٹ کی ایک ذیلی لیکن زیادہ استعمال ہونے و الی سہولت ہے۔اور اس نوعیت کی مزید بیسیوں سروسز انٹر نیٹ پر میسر ہیں۔اس میں سادہ اور واضح تر انداز میں نکات وار معلومات پر مبنی صفحات ،انٹر نیٹ پررکھے جاتے ہیں۔ابتدائی صفحہ کسی ویب سائٹ کے تمام ذیلی صفحات سے مربوط(Linked)ہوتا ہے ۔

تعلیمی اداروں سے رابطہ اور اس کے کورسز کی تفصیلات حاصل کرکے داخلہ جمع کرانا

مثال کے طور پر اگر کوئی یونیورسٹی اپنا Webpage پر انٹر نیٹ پر لاتی ہے۔تو وہ ابتدائی صفحہ پر بعض واضح سرخیاں درج کرے گی یعنی:یونیورسٹی کے بارے میں بنیادی معلومات،انتظامیہ کی فہرست،کروائے جانے والے کورسز،فیسوں کی تفصیلات۔۔۔ہرہرعنوان کے تحت مزید صفحات مربوط ہوتے ہیں،چنانچہ اگر کوئی شخص تعلیمی کورسز کے بارے میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ"تعلیمی کورسز" کی سرخی پربٹن دبائے گا جس کے نتیجے میں اگلے صفحہ پر موضوع وار،دورانیہ وار یا کسی اور ترتیب سے کورسز کی فہرست آجائے گی۔

مثال کے طور پر اسلامی تحقیق سے دلچسپی رکھنے والا مذہبی کورسز کے عنوان پر بٹن دبائے گا،اس بٹن کے دبانے سے ایک مزید ذیلی صفحہ کھل جائے گا اور اس صفحہ میں مختلف کورسز کی تقسیم بطور مذہب کی گئی ہوگی۔چنانچہ استعمال کنندہ اب اس کی ذیلی صفحہ پر اسلام کے متعلقہ کورسز کےعنوان کو دبا کر اسلامی کورسز تک ر سائی حاصل کرسکےگا۔اس بٹن کو دبانے پر ایک اور ذیلی صفحہ میسر آئے گا جس میں اسلام کے موضوع پر مختلف نوعیت کے کورسز کی فہرست دی گئی ہوگی۔ان میں سے مطلوبہ کورسز کو دبانے پر اس کے ذیلی صفحہ میں اس کورس کی تمام تفصیلات یعنی دورانیہ ،کتب،تعلیمی ،ڈگری،شرائط اور فیسیں وغیرہ دیکھی جاسکیں گی۔اس صفحے پر یہ بھی ممکن ہے کہ داخلہ فارم بھرنے کے لیے بھی ایک بٹن بنایا گیا ہو جس کو دبانے پر داخلہ فارم آپ کے سامنے کھل جائے،داخلہ فارم میں مطلوبہ معلومات داخل کررکے وہیں انٹر نیٹ ڈاکE.mail(جس کا تذکرہ آگےآئے گا)کے ذریعے یہ داخلہ فارم بھی ایک بٹن دبانے پر اس یونیورسٹی کو سیکنڈ بھر میں وصول ہوسکتا ہے۔یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ داخلہ فارم جمع کروانے پر کمپیوٹر آپ سے سوال کرے کہ آپ اس کورس کی فیس بھی ابھی ادا کرنا چاہیں گے۔اگر آپ فوری طور پر ادا کرنا چاہیں تو بٹن دبانے سے ایک اور ذیلی صفحہ کھلتاہے،جس میں اپنے بنک کانام اور اکاؤنٹ نمبر درج کرکے اپنے اکاؤنٹ کاکوڈ نمبر Code Noمہیا کرکے آپ ادائیگی بھی کرسکتے ہیں۔

اسی طرح اسی یونیورسٹی کے مختلف شہروں میں کیمپس وغیرہ کی تفصیلات کے لیے آپ بالکل اولین صفحہ پر"محل وقوع"اور"پتہ جات" کا بٹن دبا کر اس سے مربوط صفحہ پر مختلف یونیورسٹی کیمپس بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔یوں بھی ہوسکتا کہ مختلف عمارتوں کے ناموں پر بٹن دبانے سے آپ کو مطلوبہ کیمپس کی تصاویر اور دوسری تفصیلات دیکھنا بھی ممکن ہوجائیں۔

مختصر یہ کہWebsite بے شمار مربوط صفحات پر مبنی ہوتی ہے،جس میں ایک صفحہ سے دوسرا صفحہ کھلتا چلاجاتا ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی Website 5ہزار صفحات پر مشتمل ہو اور کوئی ویب سائٹ والاادارہ صرف 5 صفحات کو انٹر نیٹ پررکھنے کے اخراجات برداشت کرسکے۔

ویب سائٹس بنا کردینے والے ادارے کامعیار بھی (؟؟؟) میں بہت اہم کردار ادا کرتاہے۔بنوانے والا ادارہ تو فقط وہ (؟؟؟) اور معلومات واضح اور سادہ انداز میں مہیا کرتا ہے۔لیکن اس کو عین منطقی ترتیب کے ساتھ خوش اسلوبی سے مربوط کرنا تو ویب سائٹس بنانے والے ادارے کاکام ہے،اس طرح ویب سائٹس کادیدہ زیب اور واضح ہونا،متعدد سہولیات کا حامل ہونا وغیرہ بھی بنانے والی کمپنی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔صفحات کو غلط طور پر مربوط کرنے کی صورت میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ناظر تعلیمی کورسز کا تقاضا کرے اور کمپیوٹر ذیلی صفحہ( Linked Page) میں یونیورسٹی کامختصر تعارف پیش کردے،تو اس صورت میں یہ صفحات کو مربوط کرنے میں Websiteبنانے والے ادارے کی غلطی ہوگی۔اس لیے صفحات کی ربط بندی اور معلومات کی درستگی اور عقلی ومنطقی ترتیب کی تشکیل بھی قدرے توجہ طلب کام ہے۔

بعض لوگ اس نوعیت کی ویب سائٹس بنوانے کا بھی تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی ویب سائٹس کو کھولنے سے پہلے ناظر اپناکام اور مکمل ایڈریس ودیگر معلومات کا فارم کمپیوٹر پر بھرے۔اس کے یہ فارم بھرنے سے ہی اس کا نام ناظرین کی فہرست میں داخل ہوجاتاہے اور خود کار نظام کے تحت ا سے اگلے روز ناظر کے پیشے ،کام اور اہلیت کی مناسبت سے تیار کردہ مخصوص معلومات پر مبنی مراسلہ اس کوE.mail یا عام ڈاک کے ذریعے ارسال کردیاجاتاہے۔اسی طرح بعض ادارے جن کی پیش کردہ معلومات کی بڑی مانگ ہو،وہ اپنی Site کھولنے سے قبل ناظر سے نام اور بنک اکاؤنٹ کا تقاضا کرتے ہیں اورSite کودیکھنے سے لے کر اس کو بند کرنے تک کے وقت کا ریکارڈ پیش کرکے ناظر کو اس کے پیشگی چارجز بتا کر اس کے اکاؤنٹ سے اپنا بل وصول کرلیتے ہیں۔

ان مختلف مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علمی ونظری طور پر قارئین کو انٹر نیٹ کی سہولیات بتلانے کی بجائے عملی رنگ میں بعض مثالوں کی مدد سے اس کی کارکردگی کا ایک خاصہ پیش کردیا جائے۔

خریداری بذریعہ انٹر نیٹ

قارئین یہ جان کرحیران ہوں گے کہ اس وقت جدید دنیا میں انٹر نیٹ کے ذریعے خریداری کا رجحان فروغ پکڑ چکاہے۔اس کو یوں سمجھئے کہ اگر کوئی ٹیپ ریکارڈ خریدنا ہوتو علاقائی مارکیٹ سے محدود ورائٹی میں اسے منتخب کیاجاتاہے۔اب ٹیپ ریکارڈ بنانے والی تمام کمپنیاں جن کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے ،انٹر نیٹ پر اپنی Sitesکے ساتھ موجود ہیں۔اپنےکمپیوٹر کے ذریعے کسی بھی کمپنی کی سائٹ سے رابطہ کرکے آپ اس کے اولین صفحہ پر بجلی کے گھریلو استعمال کے آلات Home Appliances پر بٹن دبائیں،اگلے صفحے پر ٹیپ ریکارڈ کا لفظ ملنے پر اس کے ذیلی صفحہ پرجائیں وہاں مختلف اقسام Catagoriesمیں سے مطلوبہ میعار پر بٹن دبا کر اس مخصوص ٹیپ ریکارڈ کی معلومات حاصل کریں۔اس صفحے پرمختلف بٹنوں کے ذریعے اس کی مختلف رنگوں میں تصاویر بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔اسی طرح اس کی اصل قیمت اور مختلف مماک میں پارسل کی صورت میں بھیجنے کی صورت میں اس کی "ترسیل پالیسی/چارجز " کو ایک مستقل صفحہ پر دیکھا جاسکتا ہے ،اگر تو یہ قیمت آپ ادا کرنے پر مطمئن ہوں تو کمپیوٹر پر ہی اپنے بنک اکاؤنٹ/کریڈٹ کارڈ کے ذریعے آپ کمپنی کو ادائیگی حاصل کرنے کاخفیہ نمبر Code بتاسکتے ہیں۔اور ترسیل پالیسی کے مطابق ہفتہ بھر میں وہ ٹیپ ریکارڈ بذریعہ ڈاک،کمپنی کے صدر دفتر سے آپ کو گھر میں وصول ہوجائے گا۔بالفرض دوسرے ملک سے خریدنے میں اس کی قیمت زیادہ محسوس ہوتی ہو،تو کمپنی کے پہلے صفحے پر موجود مختلف ممالک میں برانچز کی فہرست۔پتہ جات اور ٹیلی فون نمبرز حاصل کرکے یا ذیلی دفاتر پر بھی انٹر نیٹ کے ذریعے رابطہ کرکے اپنے علاقے کے بااختیار ڈیلر سے آپ ٹیپ ریکارڈ منگواسکتے ہیں۔یہاں اگر کچھ سوالات آپ کو پوچھنے ہیں یا کمپنی سے ہی مشورہ طلب کرنا ہے کہ وہ مطلوبہ ٹیپ ریکارڈ کے اختیار میں آپ کو مدد دے تو Emailکے ذریعے یا فوری طور پر IRC یعنی Inter Relatiing Chat(لکھ کر فوری بات چیت) کے ذریعے آپ فوری مشورہ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

یار رہے کہ فی الوقت انٹر نیٹ پر کوڈ نمبروں کے ذریعے غیر متعلقہ لوگوں کے رقم نکلوالینے کی شکایت بھی عام ہے۔کیونکہ کوڈ نمبر کو دوسرے لوگ پڑھ لینے کے بعد اسی نمبر پر اپنی خریداری بھی کرلیتے ہیں۔گزشتہ سال اس نوعیت کے فراڈ کی مالیت کروڑوں ڈالر کے قریب ریکارڈ کی گئی تھی۔جسکی ادائیگی متعلقہ بنکوں کو کرنا پڑتی ہے جو پہلے ہی اس طرح کے نقصانات سے بچنے کے لیے صارفین سے اضافی چارجز وصول کرچکے ہوتے ہیں۔بہرحال ابھی تک اس مسئلے کاکوئی حل نکالا نہیں جاسکا۔

انٹر نیٹ کومتعارف ہوئے ابھی 3 برس ہی مکمل ہوئے ہیں ۔ کہ جدید دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ادارے انٹر نیٹ پر اپناWebsite بنا چکے ہیں۔ بعض یورپی ممالک میں یہ رجحان قدرے کم ہوسکتا ہے لیکن امریکہ جو اس ٹیکنالوجی کا موجد اور مرکز ہے،میں ایک جنون کے طور پر انٹر نیٹ پر اپنےWebpage(جسےwww کے ساتھ ملحقہ ایڈریس سے پہچانا جاتا ہے)بنائے جارہے ہیں آج سے سال بھر پہلے کی بات ہے کہ انٹر نیٹ پر روزانہ اوسطاً 30 سے 40 ہزار ویب سائٹس کا اضافہ ہورہاتھا۔ا سے بخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے کہ کس قدر ادارے انٹر نیٹ سے منسلک ہیں اور اپنی معلومات مہیاکر رہے ہیں۔دراصل انٹر نیٹ کا یہ عالمی نیٹ ورک آسان انداز میں دنیا بھر میں ہر اعتبار سے ہونے والے کاموں کی معلومات کا ایک عظیم ترین نیٹ ورک ہے۔حیات انسانی کے ہر ہر شعبہ میں جو جو کارکردگی پیش کی جارہی ہے اور جو جو ادارے مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں ان سب کا مطالعہ اور ان سے رابطہ اس عالمی جال کےذریعے بآسانی ہوسکتاہے۔۔۔کہنے کو یہ چند الفاظ ہیں لیکن پردہ تخیل میں ذرا اس کی وسعت پر غور کریں تو آپ شدید حیرانگی وپریشانی سے دوچار ہوجائیں گے۔

اس طرح دنیا میں ویب سائٹس بنا کر دینے والے ادارے جنھیں Web Page Designer کہا جاتا ہے۔کی بہت مانگ ہے۔چونکہ ڈیزائننگ کے کام میں بڑی تخلیق کاری اور جودت طبع سے گزرنا پڑتاہے۔چنانچہ اس کام کا معاوضہ بھی کارکردگی کی بجائے ہر گھنٹہ کی مصروفیات کے اعتبار سے دیاجاتا ہے۔آج کل بھی امریکہ میں اس قسم کے کام کرنے والے کو اوسطاً 15 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے معاوضہ دیاجاتا ہے۔ترقی پزید ممالک میں چونکہ محنت مزدوری Labourکا معاوضہ کافی کم ہوتاہے۔لہذا ن ممالک سے بھی بہت بڑی تعداد میں یہ ڈیزائننگ کروائی جاتی ہے۔

اب ہم اپنے موضوع سے قریب تر،انٹرنیٹ سے استفادے کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔

لکھنے پڑھنے میں انٹر نیٹ کا استعمال

گزشتہ تفصیل ذکر کرنے کامقصد یہ ہے کہ انٹر نیٹ پر تمام چھوٹے بڑے ادارے اپنی معلومات رکھتے ہیں اور اس طرح اپنے صارفینCustomers کو رابطہ کی آسان ترین سہولیات پیش کرتے ہیں۔چنانچہ ہر طرح کے اشاعتی وطباعتی ادارے،میڈیا سے منسلکہ تمام ادارہ جات چاہے ان کا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہویا ریڈیو،ٹی وی وغیرہ پر نٹ میڈیا سے جیسے دنیا بھر کے اخبار وجرائد،مختلف دورانئے کے مجلات ،تمام زبانوں میں چھپنے واے رسائل اور ہر نوعیت کی کتب،ان کی خریداری ،انتخاب اور ترسیل ک سروسز وغیرہ انٹر نیٹ پردستیاب ہیں۔

جہاں تک تو مخصوص عرصہ کے بعد طبع ہونے والے جرائد،مجلات اور رسائل کا تعلق ہے یعنی نشریہ مطبوعات وغیرہ مثلاً دنیا کے معروف ترین میگزین ،تکبیر،Time,News,weekریڈرز ڈائجسٹ ،روزنامہ اخبارات مثلاً Dawn,Los Angles Timeانڈیا ٹوڈے،جنگ،نوائے وقت اور دیگر تمام ماہنامہ وہفت روزہ جات وغیرہ تو یہ مکمل ترین صورت میں انٹر نیٹ پر بلا معاوضہ دستیاب ہوتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ جس طرح کاغذ پر اشاعت کے کچھ مخصوص فوائد ہیں اور کچھ مشکلات ہیں،لیکن مجموعی طو پر کمپیوٹر کی سکرین کاغذ کے مقابلے میں وسیع تر سہولیات اور سروسز کی حامل ہے چنانچہ انٹر نیٹ پر یہ اخبار ورسائل نہ صرف کاغذ سے زیادہ جاذب نظر اور مکمل صورت میں ہوتے ہیں۔بلکہ کافی اضافی سہولیات سے بھی مزین ہوتے ہیں۔ مثال کے طو ر پر پاکستان کامعروف ترین روزنامہ جنگ کا جب ہم انٹر نیٹ ایڈیشن ملاحظہ کرتے ہیں۔جو ہر صبح 8 بجے انٹر نیٹ پر شائع ہوتا ہے تو اس میں پہلے صفحہ پرادارہ جنگ کی تمام مطبوعات مثلاً انگریزی روزنامہ دی نیوز،روزنامہ جنگ،اخبارجہاں دی میگ وغیرہ کے بٹن بنے ہوتے ہیں۔

روزنامہ جنگ کا بٹن دبانے کی صورت میں جو ذیلی صفحہ کمپیوٹر کی سکرین پر نمودار ہوتا ہے۔اس میں قومی خبریں،بین الاقوامی خبریں ،لاہور کی خبریں،کراچی کی خبریں،کھیلوں کی خبریں ،ادارتی صفحہ اور تازہ ترین خبروں کی طرح کے کئی بٹن ہوتے ہیں۔جس پر قومی خبریں کابٹن دباکر آپ کے موضوعات کے اعتبار سے ترتیب شدہ خبریں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔چونکہ یہاں پر کاغذ پر حجم کا کوئی مسئلہ بھی درپیش نہیں ہوتا اس لیے بعض اوقات انٹر نیٹ ایڈیشن میں یہ خبریں زیادہ تفصیل سے دی گئی ہوتی ہیں۔

چونکہ کمپوٹر الیکٹرانک مشین ہے،اس لیے بعض اخبارات اس پر یہ سہولتیں بھی مہیا کرتے ہیں کہ قاری جو خبر پڑھ رہاہے۔ ایک کونے میں موجود بٹن کے ذریعے وہ اس خبر کی اصل متحرک تصاویر (ویڈیو یا آڈیو) بھی وہیں ملاحظہ کرسکتا ہے۔اس اعتبار سے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا یہاں یکجا ہوجاتے ہیں۔یہاں تحقیقی لحاظ سے ایک اہم ترین سہولت یہ بھی میسر ہے کہ اگر قاری کسی اخبار یاجریدہ کا کوئی پرانا ایڈیشن مثلاً دو سال قبل کی فلاں فلاں تاریخ کو کوئی پرانا ایڈیشن مثلاً دو سال قبل کی فلاں فلاں تاریخ کا کوئی شمارہ دیکھنا چاہتاہے تو اولین صفحہ پر پرانے ایڈیشنز کے زیر عنوان وہ مطلوبہ تاریخ لکھ کر اس دن کا شمارہ بھی مکمل صورت میں ملاحظہ کرسکتا ہے۔

ضرورت پڑنے پر لفظ وارسرچ کی مدد بھی لی جاسکتی ہے اور اس کو پرنٹر کے ذریعے فوری طور پر طبع کیا جاسکتا ہے۔

جہاں تک الیکٹرانک میڈیا کا تعلق ہے جس تک پہلے ہی مختلف چینلز کے ذریعے پہنچا جاسکتاہے،مثلاً طاقتور ڈش کے ذریعے دنیا کے کسی ملک کے ٹی وی کی نشریات آپ اپنے ٹی وی پر ملاحظہ کرسکتے ہیں،تو آپ یہ جان کرحیران ہوں کے کہ الیکٹرانک میڈیا بھی انٹر نیٹ کو استعمال کررہا ہے۔کیونکہ اول تو ریڈیو ٹی وی وغیرہ کے ہر ہر چینل سے دنیا کے ہر ہر مقام پر استفادہ کرنا ممکن نہیں جب کہ انٹر نیٹ بلاامتیاز پوری دنیا کو گھیرے ہوئے ہے،ثانیاً یہ نشریاتی ادارے ایک وقت میں صرف اپنا طے کردہ Scheduled پروگرام ہی دیکھانے یا سنانے پر قادر ہوتے ہیں جب کہ انٹر نیٹ کے ذریعے صاف اپنی مرضی سے مطلوبہ پیشکش کو منتخب کرکے مستفید ہوسکتاہے چنانچہ تازہ ترین صورت حال سے باخبر ہونے کے لیے الیکٹرانک میڈیا کو اپنے مقرر شیڈول کاانتطار کرنا پڑتاہے جبکہ انٹر نیٹ پر ا پنےWebpage پر"تازہ ترین" کا عنوان دیکر یہ ادارہ تازہ ترین خبریں اپنے ناضرین کو مہیا کرسکتاہے۔اسی طرح الیکٹرانک میڈیا بھی کافی مقاصد کے لیے پرنٹ میڈیا وغیرہ کو استعمال کرتا ہے۔مثلاً روزانہ کے پروگراموں کی فہرست وغیرہ کے لیے۔۔۔یہ مقاصد بھی انٹر نیٹ سے پورے ہوسکتے ہیں۔

آپ یہ جان کر بھی حیران گے کہ جدید دنیا میں انٹر نیٹ کے ذریعے صوتی نشریات کے علاوہ بصری Visual نشریات بھی ہوتی ہیں۔لیکن انٹر نیٹ کی موجودہ تکنیک میں بصری نشریات بالخصوص زیادہ کامیاب نہیں ہوسکیں،جس کی بنیادی وجہ اس قدر وسیع عالمی نیٹ ورک پر استعمال کنندگان(ٹریفک) کی کثرت ہے جس کی بنا پر مطلوبہ رفتار میں کسی ویڈیو یا ٹی وی کودیکھنا ممکن نہیں رہتا۔ٹی وی اور ریڈیو میں توریڈیائی لہریں اسٹیشن سے موصول ہوتی ہیں جب کہ انٹر نیٹ میں کمپیوٹر ز کو ٹیکسٹ،ڈاٹا کی صورت میں ٹیلی فون لائن کے ذریعے مواد مہیا ہوتاہے۔جس کو منتقل کرکے کمپیوٹر ان کو حرکت کرتی تصویروں کی شکل دیتاہے۔

انٹر نیٹ کی رفتار کی ان مشکلات کودیکھتے ہوئے امریکہ میں انٹر نیٹ کے نئے نظام پر تجربات مکمل کرکے اس کو تجرباتی بنیادوں پر بعض اداروں میں متعارف کروایا گیا ہے،جس کی رفتار موجودہ انٹر نیٹ سے 10 گنا زیادہ ہے۔ماہرین اسے انٹر نیٹ 11 کانام دے رہے ہیں،بعض اداروں نے اسے "امریکہ نیٹ" سے بھی موسوم کیا ہے۔

غرض انٹر نیٹ ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ہردو کی خصوصیات سے مزین ہے۔اس لیے مواصلات کے میدان میں بہت سے نئے تجربات سامنے آرہے ہیں۔Audio/Visual سمعی بصری آلات کی بات چل نکلی ہے۔تو یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگاکہ مختلف صوتی نشریات کو جمع کرکے انٹر نیٹ پر مہیا کرنے کاکام بھی بعض ادارے انجام دے رہے ہیں۔مثال کے طور پر جدید دنیا میں چونکہ میوزک کابڑا ذوق پایاجاتاہے۔چنانچہ موسیقی کی سروسز مہیا کرنے والی کسی انٹر نیٹ سائٹ سے مربوط ہو کراس کے اولین صفحہ پر مثلاً موسیقی کی 15/اقسام کے بٹن یا مختلف گلوکاروں کے نام سے تقسیم شدہ میوزک ٹریک پر آپ بٹن دباکر پہنچ سکتے ہیں۔تمام گانوں کی فہرست میں اپنے مطلوبہ گلوکار کے من پسند گانے کا انتخاب کرکے اپنے کمپیوٹر پر اس کو سن بھی سکتے ہیں۔

بعض اسلامی ویب سائٹس نے یہی سہولت تلاوت قرآن کے لیے اور دینی تقاریر ولیکچرز کے لیے بھی استعمال کی ہے۔چنانچہ ایسی کسی ویب سائٹس سے اگر آپ کو مربوط ہونے کا موقع ملے تو اس کے اول صفحہ پرائمہ حرمین یادیگر قراء کی تقسیم سامنے آئے گی۔ائمہ حرمین کا بٹن دبانے پر مختلف ائمہ کے نام جس کے بعد مختلف سورتوں کے نام بھی موجود ہوں گے۔اب اگر آپ قاہرہ کے کسی مخصوص قاری مثلاً شیخ محمد جبریل کی دعاء ختم قرآن سماعت فرمانا چاہیں تو بٹن دبانے پر آپ کے کمپیوٹر سے اس کی تلاوت کی آواز بلند ہونا شروع ہوجائے گی۔

بعینہ یہی صورتحال ویڈیو فلموں کی بھی ہے۔غرض دنیا بھر کے تمام قوموں کی فلمیں اور تمام گانے بٹن دبانے پر بلامعاوضہ آپ کو محفوظ کرسکتے ہیں۔اسلامی نشریات بھی قدرے محدود انداز میں انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔اس طرح سے ہر شخص کو ذاتی لائبریری بنا کررکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔دراصل یہ مواصلات کے نام پر ایک انقلاب کی نویدہے جس کے نتائج اور اثرات ،مفاسد ومحاسن چند سالوں میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے ہیں۔

انٹر نیٹ کے انہی کثیر الجہت مصارف کے پیش نظر بعض ٹیلی ویژن کمپنیوں نے مارکیٹ میں ایسے ٹی وی بھی متعارف کرادیے ہیں جن کے ذریعے کمپیوٹر کے بغیر ٹیلی فون لائن کے ذریعے عالمی انٹر نیٹ سے منسلک ہواجاسکتا ہے ۔جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ ابھی انٹر نیٹ کو متعارف ہوئے چند برس ہی گزرے ہیں اور امریکہ ،یورپ کے بعض ممالک کے ماسوا اکثر دنیا اس سے استفادے کی سہولت موجود ہونے کے باوجود آہستہ آہستہ اس کی طرف متوجہ ہورہی ہے۔لیکن اس حیران کن ایجاد نے قلیل ترین مدت میں تمام روایتی ذرائع ابلاغ سے اپنی واضح برتری ثابت کردی ہے۔اور اپنے گوناگوں استعمالات کے پیش نظر اس کے محاسن سے استفادہ کرنا جہاں بنیادی انسانی تقاضا بن رہا ہے وہاں اس کے مفاسد سے بھی جان چھڑانا مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔

اس کے مفاسد کااندازہ آپ اس امر سے بخوبی لگاسکتے ہیں کہ اسی انٹر نیٹ پر تمام بے ہودہ،فحش مکمل عریاں فلمیں بھی صرف بٹن دبانے پر پردہ سکرین پر چلنا شروع ہوجاتی ہیں۔اس انٹر نیٹ پر جہاں علم وتحقیق کا بیش بہا لٹریچر موجود ہے۔وہاں فحاشی وجنسی بے راہ روی کے پرچارک تمام رسائل اور بدنام زمانہ کتب بھی دستیاب ہیں۔یہاں اگر تعلیم رسائل اور بدنام زمانہ کتب بھی دستیاب ہیں۔یہاں اگر تعلیم وتبلیغ کے شاندار مواقع موجود ہیں تو خاص پروگرام کے تحت جنسی عیاشی اور بے راوہ روی کے تمام مراکز بھی اپنی خدمات مہیا کررہے ہیں۔حضرت انسان کے حیران کن دماغ نے برائی وبھلائی کے تمام مواقع اپنی نوع کے لیے مہیا کرکے ہردروازے کو بالکل کھول دیاہے۔خیر وشر کی ازلی کشمکش یہاں بھی پوری آب وتاب سے موجود ہے۔لیکن شر کو یہاں اس لحاظ سے بھی غلبہ ہے کہ عام معاشرت میں یا اسلامی معاشرہ میں برائی کی دستیابی اور اس کاتعارف وتذکرہ بھی ایک امر معیوب سمجھا جاتا تھا۔اب ہر شخص کھلے عام اپنے اختیار خیروشر میں آزاد ہے اور گناہ کی فطری کشش کا سامنا کررہاہے۔

انٹر نیٹ کی موجودہ صورت حال کو دیکھیں تو آزادی اظہار اور کثرت ابلاغ کا یہ اعجاز صرف ایک آغاز دکھائی دیتا ہے دراصل یہ ایک جدید عالمی محلہ کی تشکیل ہے جس کا بنیادی خاکہ کچھ یوں بنتاہے۔ جس کا تذکرہ گزشتہ صفحات میں ہوا ہے۔لیکن نامعلوم یہ آزادی ابلاغ انسان کو کہاں سے کہاں لے جائے۔چونکہ اس ایجاد کاسرا اور سہرا روایات واخلاقیات سے عاری حیا باختہ یورپ وامریکہ کے ہاتھ ہے۔لہذا مذہب ،روایات اور بزرگوں کے طور اطوار کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔دوسرے لفظوں میں مغرب کی ماڈرن معاشرت عالم کل میں غلبہ پانے والی ہے۔اس اعتبار سے یہ جدیدترین سامراجی تصور"گلوبلائزیشن" کا ایک اہم ہتھیار بھی ہے۔پڑھے لکھے طبقے اس کو اس رنگ میں بھی دیکھ رہے ہیں۔جس طرح مواصلات کی پہلی ایجادوں مثلاً TV,VCR وغیرہ نے انسانیت کی تخریب میں خوب گل کھلائے ہیں،اسی طرح انٹر نیٹ کے موجودہ انقلاب سے بھی شر سے برتر، خیر کی کوئی توقع نہیں،لیکن بہرحال یہ ایک چیلنج ہے جس سے آنکھیں چراکر اس کا سامنا نہیں کیا جاسکتا ہے۔سنجیدہ فکر دانشوروں اور مذہب وملت کے علمبرداروں کو ابھی اس کی بیش بندی کرنا بھی ضروری ہے۔

یوں تو بات سے بات نکلتی جارہی ہے لیکن میری ناقص رائے میں ان مثالوں اور تبصروں کے بغیر صرف نتیجہ فکر کو تحریر کردینے اور ذاتی تجربہ درج کردینے سے قاری اس جدید ایجاد سے کماحقہ آگاہ نہیں ہوسکے گا،نہ ہی ا سے بجا طور پر استفادہ کرسکتاہے اور نہ ہی اسے اس کے مفاسد کاادراک ہوسکتاہے۔۔۔اس لیے ذرا اس طوالت کو قبول فرمائیے!

گزشتہ صفحات میں ہم نے دو صورتیں تحریر کی ہیں جن سے نشریہ مطبوعات کے ضمن میں انٹر نیٹ سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔یعنی ایسی منشورات جو مخصوص دورانئے کے بعد کاغذ،آواز یا تصویر کی صورت میں نشر ہوتی ہیں۔جہاں تک کتب کاتعلق ہے تو انٹر نیٹ پر کتب کے بارے میں یہ کچھ ہونا ممکن ہے:

1۔بعض ادارے تو انٹر نیٹ پر ایسی سروسز دے رہے ہیں کہ ان کی ویب سائٹ پرجاکر مختلف موضوعات پر تقسیم شدہ کتب کی فہرست سے مطلوبہ کتاب کو منتخب کرکے پردہ سکرین پر ہی اس کا مطالعہ کیا جاسکتاہے ۔ان ویب سائٹس پر یہ کتب مکمل ترین صورت میں موجود ہوتی ہیں۔اور آپ مسلسل یا صفحہ کے حساب سے تقسیم بند کتاب کو پڑھ سکتے ہیں اور مطلوبہ بحث تک پہنچنے کے لیے سرچ کی مدد لے کر مخصوص حصے کو فوراً طبع بھی کر سکتے ہیں۔اصل میں تو انٹر نیٹ کی یہی جائے مقصود ہے کہ تمام ذخیرہ کتب بھی live(زندہ) صورت میں انٹر نیٹ پر موجود ہو۔لیکن فی الوقت یہ سہولت قدرے محدود بنیادوں پر دستیاب ہے،کمپیوٹر کے عام استعمال میں آنے کے بعد جتنی کتب کی کمپیوٹر پر کتابت ہوئی ہے،ان میں سے اکثر تو انٹر نیٹ پر بھی موجود ہیں۔لیکن وہ کتابیں جو اس سے پہلے کی طبع شدہ ہیں،آہستہ آہستہ ان کو بھی الیکٹرانک میٹریل کی صورت میں لایا جارہاہے۔

یہاں ایک افسوس ناک امر بھی ذکر کرتا چلوں کہ چونکہ مجموعی طور پر عالم اسلام پس ماندہ ہے اور انٹر نیٹ وذرائع کمپیوٹر سے بھی کمتر اور محدود انداز میں استفادہ کررہا ہے اس لیے اسلامی علم وتحقیق کے حوالے سے چند گنی چنی کتب انٹر نیٹ پر موجود ہیں۔جب کہ جدیددنیا،یورپ وامریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک ان ایجادات سے خوب فائدہ اٹھارہے ہیں۔

کتب کے مطالعے کی سہولتیں عام طور پر معروف لائبریریاں بڑے بڑے اشاعتی ادارے یا بعض نیم حکومتی ادارے دے رہے ہیں۔یہاں ایسا بھی ہے کہ ان اداروں نے ناظرین اور قارئین کے لیے ممبر شب یامطالعہ کے اوقات پر برائے نام چارجز بھی رکھے ہوئے ہیں۔لیکن فی الوقت اس رجحان کی حوصلہ افزائی کے لیے اکثر ادارے یہ سروس فری بنیادوں پر مہیا کررہے ہیں۔

2۔کتب کے مطالعے اور استفادے کی دوسری صورت انٹر نیٹ پر مکمل طور سے مروج ہے۔اور وہ یہ کہ دنیا کی اکثر لائبریریوں کے Webpage انٹر نیٹ پر موجود ہیں۔مثال کے طور پر ہم امریکہ کی سب سے بڑی لائبریری"لائبریری آف کانگریس" کی ویب سائٹ جس کا عنوانwww.LOC.com ہے کو انٹر نیٹ پر ملاحظہ کریں تو لائبریری میں موجود تمام کتابوں کی فہرست مختلف اعتبارات سے Site پر موجود ہے۔عام طور پر لائبریری میں کتب کو تلاش کرنے کے لیے کیٹلاگ(کتاب/،مصنف کا نام اور موضوع کے اعتبار سے منقسم) ہوتے ہیں۔انٹرنیٹ پر تمام لائبریریوں کے کیٹلاگ موجود ہیں۔لیکن کمپیوٹرز پر صرف مروجہ تین شناختوں کے علاوہ مزید اعتبارات سے بھی کتاب کی تلاش ممکن ہوتی ہے ۔چنانچہ کوئی شخص کتاب کی کسی بھی شناخت کے ذریعے کسی کتاب کی موجودگی یا عدم موجودگی اور دستیابی وغیرہ کی معلومات وغیرہ انٹر نیٹ پر حاصل کرسکتاہے۔اس کا طریق کار بھی تقریباً وہی ہے جو دوسری ویب سائٹس کے استعمال کرنے کا ہے۔اولین صفحہ پر موضوع دار کتب میں مخصوص موضوع کو درج کرکے اس موضوع پر موجود ہزاروں کتب آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں لیکن اس صورت میں صرف کتاب کی تمام بنیادی معلومات ہی پردہ سکرین پر درج ہوتی ہیں۔بعض اوقات یہ بھی درج ہوتاہے کہ اگر اس کتاب کا مطالعہ مقصود تو فلاں پبلشر سے رابطہ کیا جائے۔چونکہ کمپیوٹر پر ان معلومات کے اضافے میں کوئی امر رکاوٹ نہیں نہ ہی یہ Data کوئی زیادہ جگہ گھیرتاہے۔لہذا کتاب کے متعلق تلاش میں اور ان کی دستیابی وعدم دستیابی اور دیگر بنیادی معلومات کی فراہمی کے لیے یہ طریق کار بہت مفیدثابت ہوتاہے۔

مسئلہ یہاں بھی وہی ہے کہ آیا اسلامی موضوعات پر کتب کاذخیرہ رکھنے والی لائبریریوں نے اپنی فہرست ہائے کتب کو کامل تو صورت مدون کرکے ویب سائٹس پر نشر کرنے کے لیے دیا ہے یا نہیں۔بالفرض اگر یہ معلومات وتفاصیل ہی باضابطہ اور بااعتماد صورت میں موجود ہوں اور کسی بھی روایتی ذریعے سے نشر کرد گئی ہوں تو تب بھی"عالمی ادارہ جات برائے فراہمی کتب" ان فہرستوں کو از خودUP.to.date اورحتمی شکل دے کر شائع کردیتے ہیں لیکن ہم بخوبی جانتے ہیں کہ علوم اسلامیہ کی بابت ایسا کام قدرے کمتر میعار میں کیاگیاہے۔فی الوقت زیادہ تر عالم جدیدکی لائبریریاں اور ان کے ذخیرہ ہائے کتب پڑھنے والے حلقوں کو اور ادارہ ہائے کتب کو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ عالمی ذخیرہ ہائے عقل ودانش میں ہمارے اصل اور حقیقی نوعیت کے علمی لٹریچر کی سرے سے شرکت ہی نہیں ہوسکے گی۔

یہ امر خوش آئندہے کہ اس ضمن میں سعودی عرب کے ادارہ مکتبات (؟؟؟)نے کچھ کام کیا ہے اور سعودی عرب کی حد تک اسلامی ذخیرہ کتب کی ترتیب وتدوین کا ایک مربوط نظام تشکیل دے دیاہے۔

کتب اور لائبریری کی بات چلی ہے تو یہاں ایک اور اہم ترین ضرورت کا تذکرہ بھی کرتا چلوں کہ عالمی طور پر جملہ علوم کی موضوعات بندی کے بعد 000تا 999نمبر میں سے مخصوص ہندسے،مخصوص موضوعات کے لیے متعین کردیے گئے ہیں۔جس کے ذریعے کسی مخصوص نمبر سے ہر مکتبہ لائبریری میں ایک ہی موضوع کی کتب ممتاز کی جاسکتی ہے۔اسلامی مصادر ومآخذ علوم ومعارف میں مسلمانوں کا حصہ اور ان کا عظیم الشان تاریخی وعلمی کردار اس امر کا متقاضی ہے۔کہ دیگر مذاہب کی بجائے اسلامی ذخیرہ علم ودانش کے لیے بیسیوں نمبر بھی متعین کیے جائیں تو کم ہوں۔یہی وجہ ہے کہ بعض اسلام دوست لائبریرین حضرات نے اول تواس عالمی سیکم(ڈیوی) میں اس تبدیلی کے لیے سفارشات کیں۔لیکن غیر مسلموں کے توجہ نہ دینے پر ذاتی طور پر انہوں نے پاکستان میں کتب اسلامیہ کے موضوعات کی اندیکسنگ کے لیے ایک داخلی نظام وضع کرلیا۔اس اہم قومی خدمت کو قائداعظم لائبریری کے زیر اہتمام بعض مخلص حضرات کی کاوشوں سے پایہ تکمیل کو پہنچایا گیا۔لیکن افسوس کہ صرف پاکستان میں ہی اس ضرورت کی وجہ سے ایک نئے انتشار نے جنم لے لیا اور یہاں اس نئی کاوش پر اتفاق رائے سے عمل ہونے کی بجائے ہر اسلامی لائبریری اپنا ہی نظام وضع کر کے اس پر عمل پیرا ہوگئی۔ادارہ"پبلک لائبریرز" کو اس ضمن میں بھی ایک مخصوص ہندساتی نظام متعین کرنے کے بعد حکم کی زبان میں ماتحت لائبریریوں سے اسے اپنانے کاتقاضاکرنا چاہیے۔

خوش آئند ہے یہ امریکہ سعودی عرب کے ادارہ مکتبات نے بھی اس اہم دینی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ایک جداگانہ نظام موضوعات وضع کرکے ،جہاں تفصیل سے ان موضوعات کو تفصیل سے شائع کردیا ہے۔وہاں حکومتی طور پر تمام سعودی مکتبات میں اس کو نافذ بھی کردیا گیا ہے چونکہ اس نظام اور اس کی تفصیلات کا یہ موقع نہیں لیکن بہرحال کتب ومطبوعات کے بڑھتے ہوئے موضوعات اور نت نئے مسائل پر آمدہ تحقیقات کو مربوط ومنظم رکھنے اور ان سے بھر پور استفادہ کے لیے مکتبات کا یہ ایک اہم ترین اور ضروری نظام ہے۔دینی اداروں کے مکتبات کو بھی اس سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔الحمدللہ ادارہ محدث کے اہتمام لائبریری میں سعودی عرب کی وزارت مکتبات اور قائداعظم لائبریری کی اس ضمن میں ہونے والی کوششوں سے ماہرین کی نگرانی میں برابر فائدہ اٹھا کر جدید اندازہ سے لائبریری کو منظم کرلیاگیا ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ دینی اداروں میں ایک اچھی مثال ہے۔جس کو مزید رواج دیاجانا ضروری ہے۔اس سلسلے دینی اداروں سے ہر ممکنہ تعاون کے لیے مجلس التحقیق الاسلامی اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔

انٹر نیٹ کے نقصانات

انٹر نیٹ معلومات حاصل کرنے اور مربوط رہنے کاسب سے سستاذریعہ ہے ۔اس کے علاوہ بطور پالیسی انٹر نیٹ پر پیش کی جانے والی Websites کسی قسم کے اُصول وقوانین سےبالاتر ہیں۔یہ آزادانہ بلکہ کھلم کھلا آزاد مواصلات کا نظام ہے جس پر کوئی قانون گرفت نہیں کرتا۔کسی شرط وقانون کو ملحوظ خاطر لائے بغیر آزادانہ بنیادوں پر"باخبر رکھیے اور باخبر رہیے"کے اُصول پر پیش کیاجارہاہے۔اس کے ساتھ ساتھ لاگت ہر دو کے لیے بھی صرف علامتی ہے۔ چنانچہ اس میدان میں کھرے کھوٹے کا امیتاز ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوتاہے کہ اسلام کاتعارف پیش کرنے والیSites اگر 100 ہیں تو 80 فیصدSites اسلام کے نام پر من مانی تعبیرات پیش کررہی ہیں لوگوں کو اسلام کے نام پر گمراہ کیا جارہا ہے اور اس پر پابندی لگانے کا کوئی تصور بھی نہیں۔

اس کے تدارک کاآسان حل یہ ہے کہ صحیح اسلامی سائٹس اپنی سائٹ میں درست اسلامی تعبیرات پر مبنی روابطک(Links) کو جمع کریں تاکہ ان سے استفادہ کرنے والے حضرات اگر مزید معلومات کے خواہاں ہوں تو انSites کو ملاحظہ فرمائیں۔اس طرح غلط سے طور سے اسلام کو بدنام کرنے والی سائٹس کی بھی ایک فہرست مسلسل تیار کرکے مشہتر کرتے رہیں تاکہ استعمال کنندہ ان کے نام سے دھوکہ کھانے سے بچ جائیں۔

2۔بے شمار ایسے مذاہب یا اسلام سے منسوب فرق باطلہ جن کے پیروکاروں کی تعداد اُنگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔انٹر نیٹ پر بالکل مساوی انداز میں اپنے آپ کو پیش کررہے ہیں۔دوسرے لفظوں میں ایسے فرق باطلہ یا مذاہب کفر جو اپنی موت مرچکے تھے ،انٹر نیٹ کے بعد دوبارہ مساوی سطح پر اپنے آپ کو متعارف کروارہے ہیں۔خوبصورت ناموں اور دلکش انداز سے پیش کی جانے والے Sites سے ہی استعمال کنندگان عموماً اس Sites کی ثقاہت یامعیار کاجائزہ حاصل کرتے ہیں جو کہ واقعتاً ایک بڑا نامناسب طریقہ ہے۔دوسرے لفظوں میں اس نیٹ ورک پر افکار ونظریات کی تبلیغ اس قدر سستی اور آسان ہے کہ ہرایرا غیرا علم ومعلومات پر فکری انتشار پھیلارہا ہے اور ناظرین کے پاس اس دھوکہ دہی سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

اس طرح جہاں واقعاتی طور پر نہ صرف اسلام بلکہ سب صحیح علوم وافکار کو غلط اطلاعات کے مقابلہ کامسئلہ درپیش ہے وہاں انٹر نیٹ کی صورت میں نظری طور پر ان جدید مغربی افکار کا بودا پن ثابت ہوگیا ہے جنھیں مغرب روشن خیالی کے زعم میں عرصے سے آفاقی حقیقتیں بناکر پیش کرتا رہاہے۔بطور مثال انسانی حقوق کے مغربی ایجنڈے میں آزادی اظہار اور آزادی فکر کے حق کو بلا روک ٹوک کے تسلیم کیاگیاہے۔اسلام بھی ان حقوق کا احترام تو کرتاہے۔لیکن چند ضابطوں کا پابند ٹھہراتاہے۔کیونکہ بے محاباآزادی چاہیے وہ اظہار میں ہو یا فکر میں در اصل گمراہی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔یہ درست ہے کہ آزاد فکر وتخیل اعلیٰ کارکردگی پیش کرتاہے لیکن بے محابا آزادی گمراہی ہے چنانچہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے برسوں قبل ایک شعر میں اس حقیقت کو یوں پیش کیا تھا۔

ع ۔۔۔۔۔۔۔آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد

آزادی اظہار کے نظریے کے مظہر جدید وسائل ابلاغ کے یہ مسائل صرف اسلام کو ہی درپیش نہیں بلکہ کسی بھی معاملے میں پیش کی جانے والی تحقیقات کو درپیش ہیں۔مثال کے طور پر علم حساب کے باب میں جہاں کچھ لوگ درست معلومات اور اصول وضوابط پیش کررہے وہاں بعض شرپسند عین اسی"سادہ" پیمانے پر بلکہ بعض اضافی ظاہری خوبیوں کے ساتھ ردی قواعد کی بھی اشاعت کررہے ہیں تو لازمی ہے کہ ان تدارک پیش کیا جائے اور استعمال کنندہ کو دھوکہ سے بچایا جائے۔جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ "انٹر نیٹ قواعد وضوابط سے بالاتر مواصلات کا فری زون" ہے۔چنانچہ ان مسائل کے حل کے لیے انٹر نیٹ کے موجدین اور کرتا دھرتاؤں نے یہ حل نکالا ہے۔کہ وہ غلط سائٹس پر ریسرچ کرتے رہتے ہیں اور ان کے بارے میں شکایات جمع کرتے رہتے ہیں۔یا کمتر درجے میں Search Engines کے ذریعے ان کو بہت پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔جب کہ اسلام کی بیخ کنی چونکہ مغرب کےمفادات کی تکمیل کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ممکنہ حد تک درست معلومات پر مبنی Sitesکو پس پشت کرتے بلکہ ان کے لیے مشکلات کھڑی کرتے ہیں جن میں رفتار کی کمی یامعینہ عنوان کی واپسی وغیرہ شامل ہے۔اس طرح غلط معلومات پر مبنی مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرم افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی رہتی ہے۔

چونکہ ٹیکنالوجی جس کے تصرف میں ہوگی اس پر اس کاکنٹرول ہی ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ اس میدان میں مسلمانوں کے لیے بہت سے مسائل ہیں۔لیکن بعض تدابیر بروئے کار لاکر ان کی شدت کو کچھ کم کیاجاسکتا ہے۔

3۔انٹر نیٹ پر ایک بہت گھمبیر مسئلہ فحاشی،عریانی اور مغربی کلچر کافروغ ہے۔مغرب اپنے ہاں تہذیب واخلاق و حیا وشرم کے تمام اصول وضوابط پارکرچکا ہے۔اور اخلاق پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرچکاہے ۔اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ تمام دنیا بالخصوص عالم اسلام جس میں بڑی حد تک معاشرتی واخلاقی اور تہذیبی اقدار موجود ہیں میں اپنے اس بے لگام عریانی پر مبنی کلچر کو فروغ دیا جائے۔اسی لیے سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت انٹر نیٹ کی ابتدا سے ہیں اس پر 60 فی صد سے زیادہ فحاشی کی اشاعت میں مصروف چیلنجز کی اجارہ داری ہے۔آپ کوئی بھی ویب سائٹ کھولیں یاکہیں تھوڑی سے غلطی کرجائیں تو ہزاروں جنسی عریانی کی حیا باختہ تصاویر اور ویڈیوز پر مبنی Sites خود بخود کھلتی چلی جائیں گی۔جن سے چھٹکارا پانا بعض اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔انSites پر ایسی تصاویر اور جنسی عیاشی کی صورتیں پیش کی جاتی ہیں۔کہ نوع انسانی کی ذلت دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اور انسان ان پر نظر پڑتے ہی تھوکنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔لیکن جیسا کہ بار بار برائی سامنے آنے پر وہ اصل حیا وغیرت اور فطری نفرت باقی نہیں رہنے دیتی، اسی طرح انسان ان سے مانوس ہوتا جاتاہے اور آخر اس حیا باختہ مغربی کلچر کو اپنانے یا اس کا تجربہ کرنے کو بے چین رہتا ہے۔

گذشتہ چند سالوں میں جیسے فحاشی پر مبنی ویڈیو فلموں کی کثرت کے بعد پاکستان میں بدکاری کی واداتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔عین اسی طرح انٹر نیٹ کے بعد یہ شرح حیرت ناک طور پر بڑھنے کا قوی امکا ن ہے۔ایک لحاظ سے تو خیریت ہے کہ ابھی کمپیوٹر پاکستان میں ہر گھر میں نہیں پہنچا اس لیے اس کی مضرت رسانی نسبتاً کم ہے،جوں جوں کمپیوٹر زیادہ سے زیادہ عام ہوتا جائے گا،جنسی ہوسناکی کی وارداتوں میں روز افزوں اضافہ ہوتا جائے گا۔اور یہ پیشن گوئی قطعاً مشکل نہیں ہے کہ آئندہ 10 برس کے دوران دنیا بھر میں اس حیا باختہ مغربی تہذیب کابڑے پیمانے پر فروغ ہوگا جس نے آج یورپ وامریکہ میں بڑی مضبوطی سے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔اگر ان Websites کاکوئی حل نہ سوچا گیا تو مستقبل قریب میں اسلام کا عفت مآب کلچر اورمشرقی روایات دم توڑتی نظر آئیں گی۔

اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے بعض ملکوں میں تو اولاً انٹر نیٹ کو ممنوع قرار دیاگیا۔لیکن بعد میں اس کی دوسری افادیت کی بنا پر وہ اس کو جاری کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں،جب کہ بعض دیگرممالک مثلاً چین وغیرہ میں ایسی فحش سائٹس پر پابندی لگانے کے منصوبہ پر عمل درآمد ہوا۔لیکن جیسا کہ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ اُصولی طور پر انٹر نیٹ اسی پریشان فکری پر مبنی مغربی اصولوں کا علمبردار ہے جو آزادی اظہار پر کوئی قد غن برداشت کرنے کوتیار نہیں،ثانیاً ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ دنیا کو فحاشی وعریانی پر قائم مغربی کلچر کے فروغ کی ایک تحریک بھی ہے چنانچہ چین ایسے ترقی یافتہ ممالک کابھی پابندیوں کا خواب پورا نہیں ہوا۔اگر انہوں نے ایک روز ایک ہزار Sites کو منع Ban کیا تو دوسرے روز امریکہ میں 2 ہزار نئی ویب سائٹس کھلی ہوئی ملیں۔

جیسا کہ میں ذکر کرچکاہوں کہ انٹر نیٹ کے 60 فیصد استعمال کنندگان امریکہ میں ہیں اور عالم جدید میں یہ کاروبار اس وقت سب سے زیادہ فروغ پر ہے ہ ہر ادارہ اپنی ویب سائٹس بنارہا اور انٹر نیٹ پر اپنی نمائندگی محفوظ کررہاہے۔جس کے نتیجے میں آج سے سال بھر پہلے یومیہ 30ہزار ویب سائٹس کے اضافے کو ریکارڈ کیاگیا تھا جب کہ اب یہ تعداد اس سے بھی بہت زیادہ ہے ان حالات میں ایسی Websites پر پابندی ایک تشنہ تکمیل خواب ہے۔

ہماری رائے میں انٹر نیٹ ان خصوصیات کے بعد بجا طور پر امریکہ کے جدید تصور Globalization کا اہم ترین ہتھیار ہے۔جس کے ذریعے امریکہ دنیا بھر کو اپنے شکنجے میں جکڑ لینا چاہتا ہے۔بعض لوگ پہلے بھی اس خدشہ کا اظہار کرچکے ہیں جو مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ثابت ہوتا نظر آتاہے۔

سوال یہ ہے کہ اب اس کے بعد اس سے بچنا ممکن نہیں،تو پھر کیا طرز عمل اختیار کیاجائے؟چونکہ یہ بالکل ایک مستقل نوعیت کا مسئلہ ہے اس لیے یہ ایک علیحدہ مضمون کامحتاج ہے۔جس پر آئندہ روشنی ڈالی جائے گی۔

انٹر نیٹ پر اسلامی ادارے اپنی ویب سائٹ پیش کر کے اپنی نمائندگی محفوظ کریں!

گزشتہ صفحات میں جابجا اس امر کی ضرورت کا احساس دلایا گیا ہے۔کہ دینی اداروں اور اسلامی فکرکے علمبرداروں کو بھی انٹر نیٹ پر ا پنی خدمات اور معلومات کو پیش کرنا چاہیے۔پہلے تو یہ واضح ہوجائے کہ ان کو پیش کرنے سے فائدہ کسے ہوگا۔یادرہنا چاہیے کہ دینی اداروں کی موجودگی کا ہدف ،وسیع تر دائرہ کار میں امت اسلامیہ کو ہدایت الٰہی سے بہرہ مند کرنا اور انہیں عملی میدان میں دین کی ضرورت سے آگاہ کرنے کے ساتھ دین کی رہنمائی مہیا کرنا ہے۔اگر وہ اپنے مطلوبہ اہداف کی صحیح تکمیل چاہتے ہیں تو انٹر نیٹ پر آنے سے ان کی کارکردگی ،دائرہ کار اورحلقہ فکر میں عالمی سطح پر اضافہ ہوگا۔اگر آپ کسی کو رابطہ کی آسان ترین سہولتیں فراہم کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ آپ سے زیادہ رابطہ کی صورت میں نکلتا ہے۔انٹر نیٹ کی موجودہ صورت کے چند فوائد دینی اداروں کے پیش نظر رہنا ضروری ہیں۔

1۔متحرک یاجامد تصاویر کو عموماً علماء حرام قرار دیتے ہیں اوردینی احکام کو منشا بھی یہی معلوم ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ TVیاVCR کی صورت میں عموما زیادہ اسلامی کام سامنے نہیں آسکا اور یوں یہ لادینیت کے ایک داعی بن کر وسیلہ بے حیائی وفحاشی بن کررہ گئے ہیں۔ جب کہ انٹر نیٹ کی موجودہ صورت میں تصاویر وغیرہ کی ضرورت قطعاً اضافی نوعیت کی ہے۔اس میں دراصل عبارت Text کو پیش کیا جاتاہے۔اس اعتبار سے یہ ایک نسبتاً سنجیدہ وسیلہ ابلاغ ہے۔

2۔TV وغیرہ کی صورت میں لازماً ایک وسیع ترین نظم کار کی ضرورت ہوتی ہے۔اور یہ ایک بڑے بجٹ اور کارکنان کی بڑی ٹیم کا متقاضی ہوتا ہے ۔جبکہ انٹر نیٹ جو TV وغیرہ کی ہی ایک سادہ صورت ہے ،میں پہلی بار ویب سائٹس تیار کرالینے کے بعد صرف ایک معمولی کمپیوٹر آپریٹر کی خدمات سے بھی اس کا جاری رکھا جاسکتا ہے۔

3۔ایک بار تیار کردینے کے بعد انٹر نیٹ کا دائرہ کار بہت وسیع یعنی عالمگیر ہے۔چند صفحات کو لاکھوں لوگ ملاحظہ کرسکتے ہیں جب کہ TV وغیرہ کا دائرہ کار بھی اس قدر وسیع نہیں۔مزید برآں TV ایک اطلاعی وسیلہ ہے جبکہ انٹر نیٹ ایک اطلاعی وسیلہ ہونے کے ساتھ ساتھ رابطہ کابھی قوی ترین ذریعہ ہے۔

4۔جیساکہ گزر چکاہے کہ انٹر نیٹ نے قلیل ترین مدت میں تمام روایتی ذرائع ابلاغ پر اپنی برتری ثابت کردی ہے۔اسی طرح اس کادائرہ کار بھی دیگر ذرائع ابلاغ کی نسبت بہت وسیع ہے۔چنانچہ اس پر غیر مسلم ادارے وسیع پیمانے پر اپنے تبلیغی پروگرام پیش کررہے ہیں اوربدقسمتی سے اسلام کے نام لیواادارے اور انسان کی فلاح کی حقیقی ضامن الٰہی تعلیمات کی پر چار ک ویب سائٹ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے تبلیغ کے اس نئے وسیلہ سے مسلمانوں کو بھی ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

اس کے علاوہ بیسیوں ایسے فوائد ہیں جن کا جا ئزہ اس مضمون کا قاری اپنی فہم و بصیرت کو کام میں لا کر از خود حاصل کر سکتا ہے۔

ویب سائنس بنانے حاصل کرنے کا طریقہ :۔

اس عنوان کے تحت Webiteبنانے کا تکنیکی طریقہ ذکر کرنے کا کوئی مقصد نہیں بلکہ فقط اس کے خاکہ کی وضاحت مقصود ہے تاکہ جہاں اس کے ذریعے ایک طرف انٹرنیٹ کی کار کردگی کو سمجھنے کا فائدہ حاصل ہو وہاں قارئین اس اہم ایجاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انٹرنیٹ پر اپنی ویب سائٹ بھی تیار کر سکیں ۔

انٹرنیٹ میں ہر Siteکو ایک عنوان دیا جا تا ہے جس کے ذریعے اس سے منسلک ہوا جاتا ہے۔ یوں تو یہ عنوان بھی ٹیلی فون نمبر کی طرح 12ہندسوں پر مشتمل ہو تا ہے لیکن آسانی کی غرض سے ہر کمپنی کا عام حروف تہجی پر مشتمل نام ہی اس کا پتہ بن جا تا ہے مثال کے طور پر اگر آپ کمپیوٹر میں انٹرنیٹ کے پتہ ڈائل کرنے کی جگہ پر WWW.Sony.comلکھیں ۔گے تو Sonyکے پتہ کے ذریعے اس الیکٹرانک کمپنی کے صدر دفتر جو جاپان میں واقع ہے سے مربوط ہوجائیں گے۔ اسی طرح ہفت روزہ تکبیر کراچی کامطالعہ کرنا چاہیں تو صرف WWW.Takbeer.com کانام لکھ کر آپ اس کا مطالعہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں اسی طرح دنیا میں ہر ہر کمپنی اپنے معروف نام سے عنوان حاصل کر لیتی ہے لاکھوں کمپنیاں ایسی بھی ہیں جو مختلف موضوعات کو اپنی شناخت بنا کر اس موضوع کو اپنا پتہ بنالیتی ہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ فقہ Fiqhکا لفظ پتہ کے طور پر لکھیں توفقہ کے موضوع پر بنی کوئی ویب سائٹس آپ کے سامنے کھل جائے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ فی الوقت انگریزی کے تمام معروف نام اور تمام بامعنی الفاظ پر مبنی پتہ جات سے ویب سائٹس موجود ہیں۔

لازمی سی بات ہے کہ دنیا بھر میں بے شمار ادارے ایسے ہیں جن کے ملتے جلتے نام ہیں ایسی صورت میں جو لوگ پہلے رابطہ کر کے اس پتہ کو حاصل کر لیتے ہیں باقی لوگ یا تو منہ مانگی قیمت دے کر پہلے شخص سے وہ پتہ خرید نے یا کسی اور سابقے لاحقے کے ساتھ کوئی پتہ اپنے لیے مخصوص کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ان دنوں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ جو کاروبار زوروں پر ہے وہ یہی پتہ جات کی بکنگ کا ہے۔چند ایک عالمی ادارے جو امریکہ سے لائسنس یافتہ ہیں مختلف اداروں کو یہ پتہ جات الاٹ کرتے ہیں ان عنوانات کی لاٹمنٹ Registrationکی فیس دوسال کے لیےفقط70$ڈالر ہے یہ فیس پتہ کی رجسٹریشن کی حد تک ہے۔ اب دنیا میں جو شخص بھی کسی مخصوص پتہ حروف کو تحریر کرے۔تو اس کے جواب میں الاٹ شدہ ادارے کاWebpageکھل سکتا ہے۔ اس کے بعد ادارے کو اپنا مواد جسے وہ انٹرنیٹ پر دینا چاہتا ہے کو مرتب کر کے کسی انٹرنیٹ ڈیزائنر کو دینا ہوتا ہے۔

جس کی تکمیل کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس تیار شدہ چینل کو کہاں رکھا رکھا جائے ۔یوں تو اس کو ذاتی کمپیوٹرپر بھی رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے لازمی ہے کہ کسی وقت بھی وہ کمپیوٹر بند نہ ہو۔کیونکہ نامعلوم کس وقت دنیا کے کس حصے سے کوئی شخص آپ سے رابطہ کرنا چاہیے اس کے لیے اور بھی چند ایک تقاضے ہوتے ہیں چنانچہ اس وقت عموماً اس مقصد کے لیے مخصوص کمپنیوں کی مدد لی جاتی ہے جو یہی کا م کرتی ہیں کہ معمولی معاوضے کے بدلے اپنے ہر وقت چالو رہنے والے کمپیوٹروں پر مخصوص سائز کا ویب پیج رکھنے کی سہولت دیں۔ چنانچہ ایسی کمپنیوں سے رابطہ کر کے ان سے معاوضہ طے کرنے کے بعد اپنی معلومات پر مبنی تمام صفحہ جات وہاں رکھے جا سکتے ہیں بعینہ یہی صورت حال رسالہ جات وغیرہ کی بھی ہے۔ وہ ادارے جو مخصوص دورانئے کے بعد اپنا رسالہ شائع کرتے ہیں کمپیوٹر میں اس کے کتابت شدہ مواد کو ہر دورانئے کے بعد خود کار نظام کے ذریعے اس کو انٹرنیٹ پر شائع کروا سکتے ہیں ۔

یاد رہے کہ علم و آگہی اور بحث و تحقیق کے فروغ کے لیے کام کرنے والے اداروں کو پتہ کی رجسٹریشن کے لیے کوئی معاوضہ بھی ادا نہیں کرنا پڑتا ۔بشرطیکہ وہ رجسٹریشن کرنے والے ادارے کے مخصوص فارم پر اپنی درخواست دیں اور ان کی مطلوبہ شرائط کو پورا کردیں ۔ ان کے عنوان کے آخر میںEdu(تعلیم ) کا لاحقہ ضرورشامل ہو تا ہے۔

انٹرنیٹ پر بحث و تحقیق :۔

اگر آپ کسی موضوع پر تحقیق کے خواہاں ہیں تو یہ کام کسی طرح انٹرنیٹ سے لے سکتے ہیں؟اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس عالمی جال پر موجود ویب سائٹس کے صفحہ جات پر دی گئی معلومات سے لمحوں بھر میں منسلک ہوں۔اس موضوع پر رسائل و کتب کو دیکھنا چاہیں تو مختلف سائٹس سے ان کا مطا لعہ کرلیں یا ان کی جملہ معلومات حاصل کرلیں۔بوقت ضرورت کمپیوٹر کے ذریعے اس کو خرید کر حاصل بھی کر سکتے ہیں۔ کسی رسالے کے گذشتہ شمارہ کو دیکھنا چاہیں تو بھی اس کی Websiteپر جا کر مخصوص شمارہکا مطالعہ کرلیں۔مخصوص موضوع پر اس کے معینہ لفظ سے موجود ویب سائٹس بھی آپ کے لیے بطور خاص مفید ثابت ہو سکتی ۔

لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ان سب سائٹس کے عنوانات پتہ جات کہاں سے میسر ہوں گے؟مثال کے طور پر اگر آپ چاہیں کہ لاہور کی قائداعظم لائبریری میں کسی کتاب کی موجودگی کا پتہ چلائیں اور بالفرض قائد اعظم لائبریری نے اپنا ویب سائٹس بھی بنایا ہوا ہے۔لیکن آیا اس کا پتہ کیا ہے ہو سکتا ہے کہ لائبریری اپنے معروف نام سے اس کا پتہ حال کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی ہو۔اس کا آسان سا جواب تو یہ ہے کہ آئندہ سے ٹیلی فون نوٹ بک کی طرح انٹرنیٹ نوٹ بک بھی تیار رکھنا شروع کردیں۔ لیکن اس قدرو سیع عالمی نیٹ ورک کے تمام پتہ جات اس وقت بھی آپ کے علم میں نہیں ہو سکتے روز بروز اضافہ ہونے والے پتہ جات کا بھی کسی کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہو تا۔ اس کے دو طریقے ہیں۔

1۔ابتدا (1996ء)میں انٹرنیٹ کے پتہ جات پر مشتمل ڈائریکٹری Yellow Pagesمتعارف کرائی گئی تھیں لیکن جلد ہی امر کا شدت سے احساس ہو گیا کہ اس قدروسیع نظام کے لیے کاغذ کی حد بندیوں میں رہ کر مقصد پورا نہیں کیا جا سکتا ۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے CDرام کو استعمال میں لا یا گیا ہے جیسا کہ اس مضمون کی پہلی قسط میں گزرچکاہے کہCDپرکم و بیش ایک لاکھ صفحات سماسکتے ہیں۔ اسی ایجاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پتے مہیا کرنے والے عالمی ادارے مختصر دورانئے کے بعد مختلف موضوعات کے لحاظ سے تقسیم شدہ اور انڈیکسنگ /اشاریہ بندی کے جدید وسائل سے آراستہCDریلیز کرتے رہتے ہیں اسی طرح بعض CDمیں متعدد موضوعات پر ترتیب دئیے ہوئے پتہ جات کی بھی فہرست ہوتی ہے۔جن سے استفادہ کر کے آپ اپنے مطلوبہ Websiteتک پہنچ پاتے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ موضوعات بنیادی اعتبار سے وہی ہیں جنہیں ڈیڑھ صدی قبل مسٹر جان ڈیوی نے کتب کی ترتیب کے لیے متعارف کرایا تھا اور ذیلی موضوعات تک رسائی کے لیے ایک جامع تراور وسیع ترین نظام تشکیل دیا تھا۔ تحقیقات کی وسعت اور موضوعات کی جدت و ندرت اور کثرت کے پیش نظر(آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ) صرف موضوعات کا یہ شمار1997ءتک 27جلدوں میں سمانا ممکن ہوا ہے اس میں بنیادی طور پر نت نئے موضوعات آنے کے بعد ایک موضوع کو حتمی شکل دے کر مخصوص عدد کے تحت باضابطہ سکیم کے مطابق درج کر دیا جا تا ہے اور ہر سال ان موضوعات میں مزید جلدوں کا اضافہ ہو رہا ہے 1998ء میں ان موضوعات پر مبنی ایک مکمل CDپر بھی مارکیٹ میں آچکی ہے جو ڈیوی کی سکیم کے مطابق ترتیب دی گئی ہے۔

نامعلوم انٹرنیٹ کی ان ویب سائٹس کو کل تک یہ موضوعات بھی کفایت نہ کریں اور وہ 000تا 1999اعداد کے نظام کو ناکافی سمجھ کر اس سے کافی بڑے ہندسے تک پھیل جائے ۔

2۔پہلی صورت زیادہ تر موضوع وار بحث سے تعلق رکھتی ہے۔اور اس کے لیے محقق کو اضافی چیزوں مثلاً ڈائریکٹری یا CDSکی خریداری کی ضرورت پیش آتی ہے جبکہ اس کا نسبتاً آسان تر حل بھی موجود ہے۔

جب بھی کوئی ادارہ اپنی ویب سائٹس انٹرنیٹ پر لانا چاہے تو اپنے پتہ کو رجسٹر کرواتا ہے اس وقت جہاں رجسٹریشن کرنے والی کمپنی اس ادارہ کے ضروری کوائف حاصل کرتی ہے وہاں اس ادارے سے یہ تقاضا بھی کرتی ہے کہ چند سطروں میں اپنی ویب سائٹس کا تعارف اور اس میں پیش کی جانے والی معلومات کا دائرہ کار بھی تحریر کر دے۔رجسٹریشن کی تکمیل اور اس کے چارجزکی ادائیگی کے بعد یہی ادارےاسی مقصد کے لیے تیار کردہ بعض مخصوص کمپیوٹروں پر اس سائٹ کا تعارف اور ضروری معلومات داخل کر دیتے ہیں یا خود کار نظام کے تحت وہ معلومات اس بڑے کمپیوٹر میں داخل ہو جا تی ہیں ان کمپیوٹرز کو انٹرنیٹ کی اصطلاح میں Search Enginesکہا جا تا ہے۔ تلاش کے لیے معاونت فراہم کرنے والے ان کمپیوٹروں کو مختلف پتہ جات دیگر انٹرنیٹ سے بھی منسلک کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس طرح کے بیسیوں سرچ کمپیوٹر یہ خدمات فراہم کرتے ہیں بعض سرچ کمپیوٹرز بعض مخصوص موضوعات کی ویب سائٹس کے لیے خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ اس طرح کے سر چ انجن میں Exite اور Altavista,Snap,Yahooوغیرہ بہت مشہور ہیں ان میں سے یوں تو ہر ایک پر کافی Websiteکے کوائف موجود ہوتے ہیں لیکن اضافی خصوصیات کے طور پر بعض تجارتی امور سے متعلق اور بعض لکھنے پڑھنے کے بارے میں ویب سائٹس کا خصوصی ریکارڈرکھتے ہیں ۔

ان کے ناموں پر ہی مبنی پتہ جات دے کر ان سے منسلک ہونے کے بعد چند ایک امتیازی الفاظ میں اپنا مقصد درج کر کے آپ مطلوبہ Websiteکے پتہ جات حاصل کر سکتے ہیں یہ سرچ انجن لگاتار اپنی معلومات کو تکمیل و تنسیق کے مراحل سے گزارے رہتے ہیں ۔مثلاً ہمیں سعودی عرب کی اسلامی یونیورسٹیوں کے انٹرنیٹ سائٹس ملاحظہ کرنا ہوں توwww.Yahoo.comکا پتہ دے کر تلاش طلب سائٹ کی جگہ Islamic+Universites+Saudiaکے الفاظ دے کر آپ کمپیوٹر سے تقاضا کر سکتے ہیں کہ کسی ویب سائٹس کے تعارف میں اگر یہ الفاظ 10یا 20الفاظ کے فاصلے پر ہوں تو ان سائٹ کی فہرست مجھے دے دے۔

اب یہاں ایک اور مسئلہ سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ عموماًآپ کے سوال کے جواب میں اس قدر کثیر پتہ جات آپ کو مل جاتے ہیں جن کو ایک ایک کر کے دیکھنا بھی ایک مستقل درد سر ہے یوں تو اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ کے دئیے گئے الفاظ امتیازی نہیں ہوتے۔ اسی طرح آپ کی مطلوبہ ویب سائٹس نے اپنا تعارف کس حد تک معروف اور جامع دمانع الفاظ میں دیا ہے یہ اس پر بھی منحصر ہے۔ یہ آپ کی ذہانت کا امتحان اور اس کے بعد قسمت کا معاملہ بھی ہے لیکن یہ مطلوبہ ضروریات کی فی الحال تکمیل نہیں کرتا اور اس کے لیے قدرے زیادہ بہتر نظام وضع کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک حقیقت بھی ہے کہ چونکہ آپ ایک وسیع ترین نیٹ ورک سے منسلک ہیں اور پوری دنیا سے اپنے سوال کا جواب طلب کر رہے ہیں اس کی وسعت کو سمجھنے کے بعد لازمی سی بات ہے کہ اس پر ہزاروں ادارآپ کو معلومات مہیا کرنے پر تیار ہیں بعض ادارے تو ایسے ہوں گے کہ وہ سعودی عرب کی اسلامی یونیورسٹیوں سے معادلہAffiliationپر معلومات دیں گے اور بعض دوسرے ان یونیورسٹیوں کے مسائل پر مواد فراہم کریں گے بہر حال انسان کابیسیوں اعتبار سے ان درج کردہ الفاظ کے ساتھ تعلق ممکن ہو سکتا ہے اسی لیے یہاں بے شمار ویب سائٹ سے مطلوبہ سائٹ پر پہنچنے کے لیے کچھ وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔

ماہرین نے گزشتہ سال انٹرنیٹ کی صورت میں ایک نئے ذہنی مرض کی نشاندہی کی ہے اور وہ ہے کثرت معلومات کی بیماری اس مرض میں انسان اس قدر وسیع ذخیرہ معلومات سے استفادہ کرنا چاہیے کہ باوجود اپنی دماغی صلاحیتوں کے آگے ہار جاتا ہے نتیجتاً ذہنی مرض کا شکار ہو جا تا ہے اس بیماری پر ان دنوں متعدد فیچر لکھے جارہے ہیں موضوع سے غیر متعلق ہونے کے ناطےسے ہم ان سے بحث تو نہیں کرتے لیکن ایک امر حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہے کہ:

"انٹرنیٹ معلومات کا ایک سیلاب بھی ہے جس کے آگے انسانی صلاحتیں جواب دیتی جا رہی ہیں۔"

آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے کہ فی الوقت انٹرنیٹ کے ذریعے نامور پرفیسروں سے ہزاروں میل کے فاصلے پر بیٹھےہوئے تعلیم بھی حاصل کی جارہی ہے۔ایسا ممکن ہے کہ آپ کسی موضوع کے ماہر امریکی پروفیسر سے لاہور میں بیٹھے بیٹھے تعلیم حاصل کر رہے ہوں نامور ڈاکٹرز ماہر امراض کے مشورے حاصل کیے جارہے ہیں کیونکہ اسی انٹرنیٹ پر ٹیلی فون اور ویڈیو فون (جس میں آواز کے ساتھ ساتھ دو طرف کی تصویر بھی آتی ہے)کی سہولتیں بھی بڑے سستے داموں موجود ہیں۔

جس طرح انٹرنیٹ ایک لامحدودعالمی نیٹ ورک ہے اس طرح اس کے متعلق معلومات مسائل کا احاطہ بھی نہیں کیا جا سکتا ہے گذشتہ صفحات میں ہم نے انٹرنیٹ کی صرف پہلی صورت Web Browsingپر معلومات ذکر کی ہیں جب کہ انٹرنیٹ کے ایسے مزید بیسیوں استعمالات کا تذکرہ ابھی باقی ہے جن میں FTP,IRC,E-mailاور ویڈیو آڈیو فون وغیرہ خصوصیات سے قابل ذکر ہیں جس امر کا احساس بار بار ہو رہا ہے وہ یہ کہ علم و تحقیق سے متعلق اس مضمون میں موضوع کے قریب تر امور کے تذکرہ کی بجائے زیادہ سائنسی نوعیت کی معلومات جمع ہو گئی ہیں۔ اور شاید "محدث"کے قارئین کے مخصوص ذوق کی بنا پر یہ ان کے لیے اجنبی اور بوجھل ثابت ہوں تاہم ہماری رائے کی حد تک ان معلومات اور مثالوں کا تذکرہ کیے بنا انٹرنیٹ سے اپنے مخصوص میدان میں استفادہ قدرے مشکل دکھائی دیتا ہے اور قارئین اس کی ماہیت و نوعیت کو پوری طرح سمجھ نہ پاتے۔ اپنے فہم و عقل کی حد تک قارئین سے کئے گئے وعدے کی تکمیل میں ،میں نے کافی کچھ سپرد قلم کردیا ہے لیکن اس کی حقیقی افادیت آپ کے تبصرے کے بعد ہی معلوم ہو سکتی ہے۔

اگر قارئین کرام! اس سلسلے کو مفید سمجھیں یا اس میں کسی تبدیلی کے خواہاں ہوں تو پہلی فرصت میں تحریر فرمائیں ۔ آپ کے جوابی تقاضے کی صورت میں ہی اس موضوع پر مزید لکھا جائے گا ۔ بطور اطلاع عرض ہے کہ ابھی ہم اس موضوع کا تقریباً نصف مکمل کر چکے ہیں اور بیسیوں معلومات ایسی ہیں جن کا علم و تعلیم اور بحث و تحقیق سے کچھ نہ کچھ واسطہ ہے میں نے بساط بھر کوشش یہ کی ہے کہ ان معلومات کو آسان تر انداز میں اپنے مخصوص قاری کو پیش نظر رکھتے ہوئے تحریر کردوں میری اس کوشش میں مجھے کہا ں تک کامیابی ہوئی یہ آپ ہی بہتر بتا سکتے ہیں بہر حال اس موضوع پر مزید لکھا جاتا آپ کے تبصرے کے بعد ہی ممکن ہے۔ اولین فرصت میں اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں!