امام اسحاق بن راھویہ 161ہجری تا 238ہجری

تابعین کے فیض  تربیت سے جولوگ بہر ور  ہوئے۔اوراُن کے بعد علوم دینیہ کی ترقی وترویج میں ایک اہم کردار ادا کیا،اُن میں اسحاق بن راھویہ ؒ کا شمار صف اول میں ہوتا ہے۔آپ علمائے اسلام میں سے تھے۔اہل علم اورآپ کے معاصرین نے آپ کے علم وفضل کا اعتراف کیا ہے۔امام اسحاق بن راھویہؒ نہ صرف علم وحدیث میں بلند مقام کے حامل تھے۔بلکہ دوسرے علوم اسلامیہ یعنی تفسیر ،فقہ،اصول فقہ، ادب ولغت،تاریخ وانساب اور صرف ونحو میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔
امام خطیب بغدادی ؒ(م463ھ) لکھتے ہیں کہ:
"امام اسحاق بن راھویہؒ حدیث وفقہ کے جامع تھے۔ جب وہ قرآن کی تفسیر بیان کرتے تھے تو اس میں بھی سند کاتذکرہ کرتے تھے۔[1]
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ(م852ھ) نے تہذیب التہذیب میں امام ابو حاتم رازی ؒ (م264ھ) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:
"حدیث کے سلسلہ میں روایت اور الفاظ کا یاد کرنا تفسیر کے مقابلہ میں آسان ہے۔ابن راہویہ ؒ میں یہ کمال ہے کہ وہ تفسیر کے سلسلہ سند کو بھی یاد کرلیتے تھے۔[2]
امام اسحاق بن راہویہ ؒ فقہ واجتہاد کے ماہر تھے۔حافظ ابن کثیر ؒ(م774ھ) نے آپ کو (عربی) کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔[3]
خطیب بغدادیؒ(463ھ) نے تاریخ بغداد میں امام احمد بن حنبل ؒ(م241ھ) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل ؒ بھی امام اسحاق بن راہویہؒ سے مسائل اور فتویٰ دریافت کیا کرتے تھے۔[4]
غرض فقہی  حیثیت سے ان کا پایہ بہت بلند تھا۔وہ مسلمہ امام اور صاحب مذہب فقہاء میں سے تھے۔
علم حدیث میں کمال وامتیاز:
امام اسحاق بن راہویہ ؒ کو علم حدیث سے خاص تعلق تھا۔ان کا شمار اکابر محدثین کرام اور نامور حفاظ حدیث میں ہوتا تھا۔احادیث کی نشر واشاعت ،درس مذاکرہ ،حفظ وضبط اور حزم واحتیاط کے لئے ا ُن کی ذات بڑی شہرت واہمیت رکھتی ہے۔
حدیث سے اس قدر شغف وانہماک نے ان کو تبع تابعین کے زمرہ میں ایک ممتاز حیثیت کا مالک بنادیا تھا۔بڑے بڑے اہل علم،محدثین کرام اور صاحب فضل وکمال محدثین اُن کے جلالت علم وفضل کے قائل ہوگئے تھے۔
امام خطیب بغدادی ؒ(م463ھ) کہتے ہیں کہ:
"اسحاق بن راھویہؒ حفظ وثقات کے جامع تھے۔"[5]
محدث اب حبان 354ھ  فرماتے ہیں۔
"اسحاق بن راھویہ ؒ کا شمار ثقات کے لحاظ  سے صف اول کے محدثین کرام میں ہوتا ہے۔[6]
امام ابو عبداللہ دارمیؒ(م255ھ)  فرماتے ہیں کہ:
"اسحاق بن راھویہؒ اپنے صدق کی وجہ سے اہل مغرب ومشرق کے سردار بن گئے۔[7]
حفاظت واشاعت حدیث:
امام اسحاق بن راھویہؒ کی ذات سے مشرق کی سر زمین میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی اشاعت اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا احیاء ہوا۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م852ھ) کہتے ہیں کہ:
"اسحاق بن ر اھویہ ؒ نے سنتوں کا دفاع کیا اور مخالفین حدیث کا قلع قمع کیا۔اُن کی ذات سے مشرق کی سرزمین میں حدیثوں کی اشاعت اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا احیا ء ہوا۔[8]
مذہب ومسلک:
امام اسحاق بن  راھویہ ؒ خود صاحب مذہب ومجتہد تھے۔چاروں مذاہب یعنی حنفی،مالکی،حنبلی ۔شافعی،کسی مذہب سے وابستہ نہ تھے۔
حافظ ابن کثیرؒ(م774ھ) لکھتے ہی کہ:
(عربی)[9]
"اسحاق بن راھویہؒ امام وقت تھے۔ایک گروہ ان کے مسلک کے مطابق مسائل کا استنباط اور اجتہاد کرتا تھا۔"
اس بات کا علم نہیں ہوسکا کہ یہ مسلک کہاں پروان چڑھا۔کتنے دنوں تک زندہ رہا اور کب ختم ہوگیا۔
عادات واخلاق:
عادات واخلاق اور ذہد واتقاء کے لحاظ سے ممتاز تھے۔
ارباب اسیر اور تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ اُن کے تقویٰ اور خثیت الٰہی کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت مثال کے طور پر پیش کی جاتی تھی۔
(عربی)
"یعنی اللہ تعالیٰ سے اُس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔"[10]
 ولادت وتعلیم وتربیت:
امام اسحاق بن راہویہؒ 161ھ میں پیدا ہوئے۔ان کا وطن خراسان تھا بعد میں نیشا پور میں سکونت اختیار کی۔[11] امام صاحب نے جن اساتذہ کرام سے اکتساب فیض کیا۔ان کی تفصیل اما ابو بکر خطیب بغدادیؒ (م463ھ) نے تاریخ بغداد میں علامہ ابن سبکی (م771ھ) نے الطبقات الشافعیۃ میں اور ابن حجر عسقلانیؒ (م852ھ)  نے تہذیب التہذیب میں زکر کی ہے۔[12] آپ کے اساتذہ میں امام عبداللہ بن مبارک ؒ (م181ھ) کا  نام بھی آتا ہے آپ کے تلامذہ میں امام احمد بن حنبل ؒ (م241ھ) کے علاوہ محدثین صحاح ستہ میں امام ابن ماجہ (م273ھ) کے علاوہ یعنی امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ (م256ھ) امام مسلم بن حجاج القشیری ؒ(م261ھ) امام ابو داؤد (م275ھ) امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ(م279ء9 اور امام ابو عبدالرحمان احمد بن شعیب نسائیؒ(م303ھ) کے نام بھی ملتے ہیں۔[13]
درس تدریس:
تکمیل تعلیم کے بعد نیشا پور میں سکونت اختیار کی اور درس تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔اور صدہا تشنگان علم آپ سے  سیراب ہوئے۔
امام ابو بکر خطیب بغدادی ؒ(م463ھ) لکھتے ہیں کہ:
"امام اسحاق بن راھویہؒ نے خراسان میں در س وتدریس کا سلسلہ شروع کیا اور خراسانیوں میں اُن کا علم خوب  پھیلا۔"[14]
امام اسحاق بن راھویہؒ کا طریقہ درس یہ تھا کہ وہ زبانی املاء کراتے تھے۔اور یہ سب کچھ ان کی قوت حافظہ کی وجہ سے تھا خود فرمایا کرتے تھے کہ ستر ہزار احادیث ہر وقت میری نظر کے سامنے رہتی ہیں۔امام ابو زرعہؒ رازی (م264ھ) فرماتے تھے کہ:
"میں نے اسحاق بن راھویہؒ جیسا قوی الحافظہ نہیں دیکھا۔[15]
صحیح بخاری کی تصنیف امام اسحاق بن راہویہؒ کی ترغیب سے عمل میں آئی:
امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ(م256ھ) امام اسحاق بن راھویہؒ کے تلامذہ میں سے ہیں۔حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م582ھ) نے مقدمہ فتح الباری میں اس کی تصریح کی ہےکہ امام بخاریؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے جامع الصحیح امام اسحاق بن راہویہؒ کی ترغیب سے  تصنیف کی۔
مولانا سید احمد حسن دہلویؒ (م238ھ) لکھتے ہیں کہ:
"امام اسحاق بن راہویہؒ فن حدیث میں مشہور اور امام بخاری ؒ کے اُستادوں میں سے ہیں۔امام بخاری ؒ نے ان ہی کی ترغیب سے صحیح بخاریؒ  تالیف کی ہے چنانچہ ابن حجرؒ نے مقدمہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں صحیح سند سے امام بخاریؒ کا قول لکھا ہے۔ جس میں امام بخاریؒ نے یہ بات جتلائی ہے کہ صحیح بخاری اُن کے استاد اسحاق بن راھویہؒ کی ترغیب سے انھوں نے تالیف کی ہے۔"[16]
تصنیفات:
ارباب سیر اور تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ امام اسحاق بن راھویہؒ صاحب تصنیف تھے مگر معلوم ہونا ہے کہ آپ کی ساری تصنیفات ضائع ہوگئیں۔ تاہم آپ کی تین کتابوں کا ذکر خصوصیت سے ملتا ہے:
1۔کتاب السنن فی الفقہ:۔ اس کے نام سے موضوع ظاہر ہے۔
2۔کتاب التفسیر:۔ علامہ جلال الدین سیوطی ؒ (م911ھ) نے عہد تابعین کے بعد جن تفسیروں کو اہم اور اقوال صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  وتابعین ؒ کو جامع قرار دیا ہے ان میں اما اسحاق بن راھویہؒ کی کتاب التفسیر کا بھی ذکر کیا ہے۔[17]
3۔مسند:یہ امام اسحاق بن راہویہؒ کی مشہور تصنیف ہے اور 6 جلدوں میں ہے۔[18]
امام ابو عبداللہ حاکم ؒ (م405ھ) نے اس کا ذکر امام احمد بن حنبل ؒ (م241ھ) کی مُسند کے ساتھ کیا ہے۔[19]
اور اس کی ترتیب وتکمیل سے وہ اپنی زندگی میں فارغ ہوچکے تھے۔علامہ  سیوطیؒ (م911ھ) لکھتے ہیں:
(عربی)[20]
"ابو زرعہ ؒ رازی کا بیان ہے کہ اسحق بن راھویہؒ ان ہی روایتوں کی تخریج کرتے تھے،جو اس صحابی  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کی سب سے بہتر اور اچھی روایت ہوتی تھی۔"
اس مسند کا ایک قلمی نسخہ علامہ سیوطی ؒ کا قلم کالکھا ہوا جرمنی کے کتب خانہ میں موجود ہے۔علامہ ذہبی ؒ (م748ھ) نے اس کے رجال کے نقد میں ایک مستقل کتاب لکھی تھی،اس کو بھی علامہ سیوطیؒ نے اس نسخہ کے حاشیہ میں درج کیا ہے۔[21]
وفات:
امام اسحاق بن راھویہؒ نے  77 سال کی عمر میں 14 یا 15 شعبان 237ھ میں انتقال  کیا۔[22]


[1] ۔تاریخ بغداد ج6 ص345۔
[2] ۔تہذیب التہذیب ج1ص 218۔
[3] ۔البدایہ والنہایہ ج10 ص317۔
[4] ۔تاریخ بغداد ج6 ص349۔
[5] ۔تاریخ بغداد ج6 ص353۔
[6] ۔تاریخ ابن عساکر ج2 ص413۔
[7] ۔الطبقات الشافعیہ ج1 س234۔
[8] ۔تہذیب التہذہب ج1 ص 217۔
[9] ۔اختصار علوم الحدیث ص89۔
[10] ۔تاریخ بغداد ج6  ص345وتاریخ ابن عساکر ج2 ص412۔
[11] ۔الانتقاد ابن عبدالبر ص108۔
[12] ۔تاریخ بغداد ج6 ص345 الطبقات الشافعیۃ ج1 ص232۔تہذیب التہذیب ج1 ص217۔
[13] ۔تاریخ بغداد ج6 ص345۔
[14] ۔تاریخ بغداد ج6 ص350۔
[15] ۔ایضاً ص350۔
[16] ۔تفسیر احسن التفاسیر ج4 ص305۔مطبوعۃ المکتبۃ السلفیۃ لاہور۔
[17] ۔التقان ج2 ص190۔
[18] ۔تاریخ ابن خلکان ج1 ص311۔
[19] ۔المدخل فی اصول الحدیث ص4۔
[20] ۔تدریب الراوی ص57۔
[21] ۔مقدمہ تحفۃ الاحوذی ص165۔
[22] ۔الطبقات الشافعیۃ ج1 ص233  تاریخ ابن عساکر ج2 ص  210۔تاریخ بغداد 2 ص347۔