ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی خطاء
طبرانی حاکمؒ اور آجری ؒ کی ان تینوں سندوں میں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم موجود ہے جو انتہائی مجروح راوی ہے امام احمد بن حنبل ؒ ،ابن المدینی ،بخاریؒ ،ابو داؤد،نسائی،ابو حاتمؒ،ابو زرعہؒ، ابن سعد ؒ ، جو زجانی ؒ عقیلیؒ، ذہبیؒ،ہثیمیؒ، اور ابن حجر عسقلانی ؒ وغیرہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ابن معین ؒ فرماتے ہیں۔اُ کی حدیث کچھ بھی نہیں ہوتی ۔علامہ ذہبیؒ عثمان الدارمی ؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ یحییٰ ؒ نےفرمایا وہ ضعیف ہے ۔"ایک اور مقام پر علامہ ذہبیؒ بیان کرتے ہیں کہ "عبدالرحمٰن بن زید واہ یعنی کمزور ہے۔ابن خزیمہؒ کا قول ہے "یہ ان میں سے نہیں ہے۔جس کی حدیث کوا ہل علم حجت جانتے ہیں۔اور اس کا حافظہ خراب ہے۔طحاوی ؒ فرماتے ہیں۔اس کی حدیث علمائے حدیث کے نزدیک انتہائی ضعیف ہوتی ہے۔ساجی ؒ نے اسے منکر الحدیث " بتایا ہے ابو نعیم ؒ اور حاکم ؒ فرماتے ہیں اپنے والد سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔امام ابن الجوزیؒ نے اس کا تذکرہ اپنی کتاب "الموضوعات" میں کیا ہے اور لکھا ہے کہ :اس کی تضعیف پر علماء نے اتفاق کیا ہے۔علامہ ہثیمی ؒ بھی فرماتے ہیں کہ :" اکثر نے اس کی تضعیف پر اتفاق کیا ہے ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :" اس پر کلام کیا گیا ہے لیکن ابن عدی ؒ نے اس کی توثیق کی ہے۔علامہ مدراسی فرماتے ہیں : باتفاق علماء ضعیف ہے۔امام حاکم ؒ نے اپنی مستدرک کے ایک اور مقام پر عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کی ایک دوسری حدیث روایت کی ہے اور اس کی تصیح نہیں فرمائی ہے۔لکھتے ہیں کہ شیخین نے عبدالرحمٰن بن زید سے احتجاج نہیں کیا ہے حاکم ؒ کے اس قول سے تناقص ظاہر ہوتا ہے۔
علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :" حاکمؒ کا اس حدیث کو روایت کرنا سخت قابل مواخذہ ہے کیونکہ خود حاکم ؒ نے اپنی کتاب (عربی) میں ہے کہ لکھا ہے کہ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے اپنے والد سے احادیث موضوعہ روایت کی ہیں۔میں کہتا ہوں کہ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم باتفاق محدثین ضعیف ہے اور بہت کثرت کے ساتھ غلطیاں کرتا ہے۔احمد بن حنبل ؒ ،ابو زرعہؒ،ابو حاتمؒ،نسائیؒ دارقطنی ؒ وغیرہ نے اس کو ضعیف کہا ہے۔اب حبان ؒ کا قول ہے کہ حدیث کرنا دانستہ مقلوب کرتا تھا چنانچہ بکثرت مرسل حدیثیں مرفوع بنادی ہیں اور موقوف متصل پس مستحق ترک ہے۔"
علامہ ابن عبدالہادی ؒ فرماتے ہیں:" خود حاکم ؒ نے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کو اپنی کتاب "الضعفاء" میں وار دکیا ہے جس کے آخر میں وہ فرماتے ہیں ۔پس وہ تمام لوگ جن کا ذکر میں نے اس سے قبل کیا ہے۔ان پر جرح میرے نزدیک ظاہر ہے۔ چونکہ جرح بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہوتی پس یہ لوگ وہ ہیں جن پر جرح بدلائل واضح ہے۔تقلید کسی پرجرح کرنا جائز نہیں ہے جو اس کو اختیار کرنا چاہے اس پر لازم ہے کہ جن کے نام ہم نے در ج کئے ہیں ان میں سے کسی کو حدیث نہ لکھے کیونکہ یہ وہ راوی ہیں۔جن کی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم میں داخل ہیں۔(عربی)[1]
عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے تفصیلی ترجمہ کے لئے کتاب الضعفاء والمتروکین للنسائی ؒ "العلل لابن حنبل ؒ التاریخ الکبیر للبخاری ؒ،التاریخ الصغیر للبخاریؒ،الضعفاء الصغیر للبخاریؒ،المعرفۃ والتاریخ للبسویؒ، الضعفاء الکبیر للعقیلیؒ،الجرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ الکامل،فی الضعفاء لابن عدیؒ کتاب المجروحین لابن حبان ؒ کتاب الضعفاء والمتروکین للدارقطنیؒ میزان الاعتدال فی نقد الرجال للذہبیؒ،المغنی فی الضعفاء المذہبیؒ،تقریب التہذیب لابن حجر عسقلانیؒ المجوع فی الضعفاء والمتروکین للسیروانؒ، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للہثیمی ؒ،تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق الکنانیؒ ،فہارس مجمع الزوائد للسیوطی للزغلول ،تحفۃ الاحوذی للمبارکفوریؒ،تہذیب التہذیب لابن حجرعسقلانی ؒ،کتاب الموضوعات لابن الجوزیؒ،مختصر الضعفاء لابن حبانؒ،کشف الاحوال للمدراسیؒ،القاعدہ الجلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ لابن تیمیہؒ،صارم المنکی لابن عبدالہادیؒ،سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للبانی اور سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للبانی[2] وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں۔محدثین کےپاس کسی حدیث کو پرکھنے کے لئے ایک زریں اصول یہ بھی ہے کہ اگر کسی حدیث کی سند میں کوئی ایسا راوی موجود ہو جو باتفاق اہل علم ضعیف ہو اور موضوعات روایت کرتا ہوتو اس راوی کی کوئی روایت معتبر نہیں سمجھی جائے گی۔چنانچہ یہ روایت قطعی غیر معتبر قرار پاتی ہے۔عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے علاوہ حاکم ؒ اور ابو بکر الاجریؒ کی دونوں سندوں میں ایک راوی ابو الحارث عبداللہ بن مسلم الفہری بھی ہے جو عندالمحدثین "مجہول" ہے۔علامہ ذہبی ؒ تلخیص المستدرک میں فرماتے ہیں:" اس روایت کو عبداللہ بن مسلم الفہری نے روایت کیا ہے میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟"اور میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں۔اس نے اسماعیل بن مسلمہ ابن قعنب عن عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم سے ایک باطل خبر (عربی) روایت کی ہے جسے بیہقیؒ نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے ابن عراق الکنانیؒ فرماتے ہیں کہ "باطل خبر روایت کرتا ہے" مزید تفصیل کے لئے میزان الاعتدال للذہبی ؒ تلخیص المستدرک للذہبیؒ،سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للبانی لسان المیزان لابن حجر عسقلانیؒ اور تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق الکنانی ؒ وغیرہ[3] کا مطالعہ فرمائیں۔
علامہ ابن حجرعسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ در ا صل عبداللہ بن مسلم بن رشید ہے۔جس کو ابن حبان ؒ نے وضع حدیث کے لئے متہم بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ایک جماعت نے ہمیں حدیث بیان کی ہے وہ لیث مالک اور ابن لہیعہ پر حدیث وضع کرتاتھا۔اس کی حدیث لکھناجائز نہیں ہے"ایک اور مقام پر علامہ ابن حبانؒ فرماتے ہیں۔وہ ابن ہدبہ کے نسخہ سے روایت کرتا ہے۔جو کہ قطعاً بناوٹی ہے۔"علامہ ذہبی ؒ اور علامہ ابن عراق الکنانیؒ نے بھی اسے وضع حدیث کے ساتھ متہم بیان کیا ہے۔مزید تفصیل کے لئے میزان الاعتدال للذہبیؒ کتاب المجروحین لابن حبانؒ کثف الحثیث لشیخ برہان الدین حلبیؒ تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق الکنانیؒ،مختصر الضعفاء لابن حبانؒ اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للبانی وغیرہ[4] کی طرف رجوع فرمائیں۔
عبدالرحمٰن بن زید اسلم اور ابو الحارث عبداللہ بن مسلم الفہری کے علاوہ الاجریؒ کی سند میں ابو عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن اسماعیل بن بنت ابی مریم بھی ایسا راوی ہے جس کا ترجمہ معلوم نہیں ہے۔اور غیر معروف راوی کی کوئی ر وایت عندالمحدثین حجت نہیں ہوتی۔جیسا کہ پہلے ہی بیان کیا جاچکا ہے۔
زیر نظر حدیث کو روایت کرنے کے بعد امام طبرانی ؒ فرماتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس سند کے ساتھ اس حدیث کے علاوہ کوئی دوسری روایت موجود نہیں ہے لیکن فی الحقیقت طبرانی کی سند انتہائی مظلم ہے۔کیونکہ اس میں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے علاوہ تینوں رواۃ (محمد بن داؤد بن اسلم الصدفی المصری، احمد بن سعید المدنی الفہری اور عبداللہ بن اسماعیل المدنی) مجہول ہیں۔عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم جو اس سند میں اکیلا معروف راوی ہے انتہائی ضعیف اور مجروح ہے۔اس کا ترجمہ اوپر گزر چکا ہے ۔باقی رواۃ کے غیر معروف ہونے کی شہادت علامہ حافظ نورالدین علی بن ابی بکر الہثیمیؒ (م807ھ) نے بھی دی ہے چنانچہ فرماتے ہیں:"اس حدیث کو طبرانیؒ نے اوسط اور صغیر میں روایت کیا ہے اس میں ایسے رواۃ ہیں جنہیں میں نہیں جانتا کون ہیں۔"[5] علامہ ہثیمی ؒ کے اس قول کا ذکر خود مولانا زکریا صاحب مرحوم نے بھی حدیث کی تخریج کرتے ہوئے فرمایا ہے لیکن مصلحتاً اس کا اردو ترجمہ نہیں فرمایا ہے۔بہرحال مشہور بات ہے کہ غیر معروف رواۃ کی روایت باتفاق محدثین حجت نہیں ہوتی چنانچہ طبرانیؒ کی روایت ساقط الاحتجاج قرار پاتی ہے۔
اما م حاکم ؒ نے زیر نظر حدیث کو اپنے طریق سے روایت کرنے کے بعد فرمایا ہے:"
"یہ پہلی حدیث ہے جو میں اس کتاب میں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم سے روایت کی اور صحیح الاسناد قرار دی ہے "لیکن علم حدیث سے واقفیت رکھنے والے تمام حضرات بخوبی جانتے ہیں۔کہ مجرد حاکم ؒ کی تصیح لائق اعتماد نہیں ہوتی۔حاکم ؒ کے طریق میں ضعیف رواۃ کی موجودگی اور خودحاکم کے قول میں تناقض کا موجود ہونا اس روایت کو قطعاً ناقابل اعتماد ٹھہراتا ہے۔ان شاء اللہ ان سب کا مفصل تذکرہ آگے کیا جائے گا۔
امام بیہقیؒ نے "دلائل النبوۃ" کے باب (عربی) میں اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد فرمایا ہے:" اس میں عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم کا تفرد ہے اور وہ کود ضعیف ہے۔علامہ ذہبی ؒ نے میزان الاعتدال میں بہیقی ؒ کی روایت کے متعلق فرمایا ہے کہ"باطل خبر ہے۔"[6] ابن عساکرؒ نے جس روایت کی تخریج کی ہے وہ در اصل ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصحاب میں سے اہل مدینہ کے کسی شیخ کا موقوفاً مروی قول ہے۔اور اس کی سند میں بھی مجاہیل موجود ہیں۔اما م ابوالفرج ابن الجوزیؒ نے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کو (عربی) [7]میں وارد کیا ہے۔لیکن نہ اس کی سند بیان کی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی حکم لگایا ہے۔ان کے علاوہ مصنفین ک ایک گروہ نے حضرت آدم ؑ کی اس حدیث کو چند اضافوں یاتھوڑے سے اختلاف کے ساتھ اپنی تصانیف میں بلا اسناد روایت کیا ہے،جیسا کہ قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں کہ:" ابو محمد مکیؒ اور ابو اللیث سمرقندیؒ نے بیان کیا ہے کہ:
(عربی)
"حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے گناہ کے وقت کہا اے اللہ تجھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حق کی قسم میری خطا بخش دے اللہ تعالیٰ نے کہا تو نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیسےجانا؟آدم ؑ نے جواب دیا: میں نے جنت کے ہر مقام پر لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا دیکھا۔اس سے میں سمجھ گیا کہ وہ تجھے ساری مخلوق سے زیادہ عزیز ہے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی اور ان کو معاف کردیا۔"
قاضی عیاض ؒ ،ابو محمد مکیؒ،اورابو اللیث سمرقندیؒ کی بیان کردہ مذکورہ بالا روایت پر علامہ حافظ ابن تیمیہؒ نے ایک وقیع فیصلہ صادر فرمایا ہے۔جو ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں پیش کیا جائےگا۔۔ویسے بھی محدثین کے نزدیک بلا سند کسی حدیث کو روایت کھوٹے سکہ کا مقام بھی نہیں رکھتی ہے،پس ساقط الاعتبار ہے۔
علامہ ابو بکر الاجریؒ نے اپنی کتاب الشریعۃ کے ایک دوسرے مقام پر اس حدیث کو تابعی ابو الزناد عبداللہ ابن زکو وان کا قول بیان کیا ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں:
(عربی)[8]
"کہا ہمیں خبر دی ابو احمد ہارون بن یوسف بن زیاد والتاجر نے کہا ہمیں حدیث بیان کی ابو مروان العثمانی نے کہ مجھ سے حدیث بیان کی ابن عثمان بن خالد نے عبدالرحمٰن بن ابی الزناد سے ،اس نے روایت کی ا پنے والد سے کہ انہوں نے کہا وہ کلمات کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی توبہ قبول فرمائی یہ تھے:انہوں نے کہا کہ اے اللہ میں آپ سے بحق محمد صلی اللہ علیہ وسلم سوال کرتا ہوں۔الخ۔"
واضح رہے کہ ا س حدیث میں (عربی) کے الفاظ موجود نہیں ہیں نیز یہ سند بھی مظلم ہے۔اس کی سند کی پہلی خامی تو یہ ہے کہ ابو عثمان بن خالد عن عبدالرحمٰن لکھا گیا ہے۔دوسری خامی یہ ہے کہ سند مقطوع ہے یعنی کسی صحابی تک بھی نہیں پہنچتی۔تیسری خامی یہ ہے کہ اس سند کے تین رواۃ عندالمحدثین مجروح ہیں۔مثلاً ابو مروان۔محمد بن عثمان بن خالد العثمانی ؒ کو اگرچہ امام بخاریؒ نے صدوق اور ابو حاتم ؒ و غیرہ نے ثقہ کہا ہے۔
لیکن علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں:"صالح جرزہؒ کا قول ہے کہ ثقہ تو ہے مگر اپنے والد سے مناکیر روایت کرتا ہے۔اما م حاکم ؒ فرماتے ہیں۔اس کی بعض احادیث میں مناکیر موجود ہیں۔ابن حبان ؒ کا قول ہے خطا کرتا ہے اور مخالفت بھی کرتا ہے۔اور علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں صدوق ہے مگر خطا کرتا ہے۔تفصیلی ترجمہ کے لئے تقریب التہذیب لابن حجر ؒ تہذیب التہذیب لابن حجرؒ اورمیزان الاعتدال للذہبیؒ وغیرہ[9] کی طرف رجوع فرمائیں۔
ابو مروان بن محمدؒ بن عثمان بن خالد العثمانی کے والد عثمان بن خالد العثمانی کے متعلق حاکمؒ ابواحمدؒ اور ابو حاتمؒ کا قول ہے کہ منکر الحدیث ہے نسائی ؒ فرماتے ہیں۔ثقہ نہیں ہے۔علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں متروک الحدیث ہے۔علامہ ہثیمی ؒ نے بھی اسے متروک قرار دیا ہے۔عقیلی ؒ فرماتے ہیں اس کی حدیث پر وہم غالب ہے۔ابن عدی ؒ نے اس کی کئی احادیث روایت کی ہیں اور کہا ہے کے اس کے پاس ان کے علاوہ بھی احادیث ہیں لیکن سب غیر محفوظ ہیں ساجی کا قول ہے اس کے پاس مناکیر ہیں۔ابو نعیم اصبہائی اور حاکم ابو عبداللہ ؒ فرماتے ہیں۔مالک ؒ سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔ابن حبانؒ کا قول ہے کہ ثقات کی طرف سے مقلوبات روایت کرتاہے اس کے ساتھ احتجاج درست نہیں ہے۔علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں بخاری ؒ نے فرمایا ہے کہ ضعیف ہے۔اور اس کے پاس مناکیر ہیں۔تفصیلی ترجمہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں۔تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی ؒ تقریب التہذیب لابن حجر عسقلانی ؒ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للہثیمی ؒ کتاب المجروحین لابن حبان ؒ میزان الاعتدال للذہبی ؒ فہارس مجمع الزوائد للذغول سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للبانی وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ لالبانی وغیرہ۔[10]
اس سند کاتسرا مجروح راوی عبدالرحمٰن بن ابی الزناد ہے جس کو مالکؒ اور عجلی ؒ نے ثقہ کہا ہے لیکن یحییٰ ؒ کا قول ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے ایک مرتبہ فرمایا کہ اس کے ساتھ حجت نہیں ہے۔ابو حاتمؒ نے ایسا ہی فرمایا ہے۔نسائیؒ نے اسے ضعیف اور امام احمدؒ نے مضطرب الحدیث بتایاہے۔امام احمد بن حنبل ؒ کاایک دوسرا قول ہے کہ ضعیف ہے امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں۔ابن معین ؒ کا قول ہے کہ ضعیف تھا۔ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں۔صدوق تھا لیکن اس کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا۔علامہ ہثیمی ؒفرماتے ہیں ضعیف تھالیکن بعض نے اس کی توثیق کی ہے ایک مقام پر لکھتے ہیں اس پر بہت کلام کیا گیا ہے لیکن ا س کی توثیق بھی کی گئی ہے۔دوسرے مقام پر لکھتے ہیں۔لین الحدیث ہے۔"اس کی حدیث حسن ہوتی ہے اور اس میں ضعف ہے۔ایک اور جگہ فرماتے ہیں :" ایک جماعت نے اس کی تضعیف کی ہے۔تفصیلی ترجمہ کے لئے معرفۃ الثقات للعجلیؒ الضعفاء الکبیر العقیلیؒ کتاب المجروحین لابن حبانؒ کتاب الضعفاء والمتروکین للنسائیؒ التاریخ الکبیر للبخاری ؒ الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ؒ الکامل فی الضعفاء لابن عدی ؒ میزان الاعتدال للذہبیؒ تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی ؒ تقریب التہذیب لابن حجر عسقلانی ؒ تحفۃ الاحوزی للمبارک فوری ؒ سلسلۃ الاحادیث الصحیۃ للبانی مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للثیمیؒ اورفہارس مجمع الزوائد للذغول وغیرہ[11] کی طرف رجوع فرمائیں۔ اس حدیث کے متعلق محدث عصر علامہ شیخ ناصر الدین البانیؒ فرماتے ہیں:یہ حدیث موقوف ہے۔عثمان اور ابن عثمان ابو مروان دونوں ضعیف ہیں۔جن کے ساتھ احتجاج درست نہیں ہے اگرچہ وہ مرفوع حدیث ہی روایت کریں تو ان سے بعض اتباع تابعینؒ کے موقوف قول کی روایت کس طرح حجت بن سکتی ہے۔ جسے انہوں نے اہل کتاب یا نو مسلم اہل کتاب مثلاً کعب بن احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ یا ان کی غیرثقہ کتب سے اخذ کیا ہو جیسا کہ شیخ الاسلام ؒ نے اپنی کتب میں تحریر فرمایا ہے۔[12]
روایت کے ضعف (عربی) منکر الحدیث لائق ترک واہ مجہول وغیر معروف متغیر الحفظ سوء الحفظ عدیم الحجت ۔غیر محفوظ۔اور متروک الحدیث بلکہ متہم بالوضع ہونے کی مذکورہ بالا علتوں کے علاوہ ان روایات میں چند اور علتیں بھی موجود ہیں جو اس حدیث کو باطل،مضطرب،اور موضوع قراردیتی ہیں۔مثلاً
1۔ابن حاکم ؒ اور ابو بکر اجری ؒ کی اسناد میں واضح طور پر اضطراب موجود ہے۔چنانچہ حاکم ؒ کی سند میں ابو الحارث عبداللہ بن مسلم الفہری جو کہ خود ایک مجہول ر اوی ہے مرفوعاً بیان کرتا ہے۔
(عربی)
"یعنی ہمیں اسماعیل بن مسلمہ نے حدیث بیان کی کہا ہمیں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے ا پنے والد سے خبردی کہا انہوں نے اس کے دادا سے اور انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ۔الخ"جبکہ یہی راوی ابو بکر الاجری کی مرفوع سند میں اس طرح بیان کرتا ہے۔
(عربی)
"یعنی مجھے سعید بن عمرو نے خبر دی کہا ہمیں ابو عبدالرحمٰن بن عبداللہ نے اسماعیل بن بنت ابی مریم نے حدیث بیان کی کہا مجھے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے اپنے والد سے حدیث بیان کی جنھوں نے اس کے دادا سے اور انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت کی۔الخ"
اس اسناد کے اس اضطراب کے علاوہ ابو بکر اجریؒ کی ایک دوسری سند میں کوئی دوسرا راوی اسے عن عبدالرحمٰن بن ابی الزناد عن ابیہ مقطوعاً بھی روایت کرتا ہے۔اسناد میں اضطراب کی یہ موجودگی بھی اس حدیث کو ناقابل التفات ٹھیراتی ہے۔
2۔دوسری علت یہ ہے کہ حاکم کی روایت میں مروی ہے کہ حضرت آدم ؑ نے اپنی تخلیق کے بعد جب سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو عرش الٰہی پر لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہوا پایا تھا۔جبکہ ایک دوسری روایت میں مروی ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو جنت سے نکال کردنیا میں بھیج دیا گیا تو وہ بہت گھبرائے۔اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہوں نے اذان دی۔حضرت آدمؑ نے حضرت جبرئیل ؑ کی اذان میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنا تو ان سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دریافت کیا۔حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کے استفسار پر فرمایا کہ وہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء میں سے آپ کی آخری اولاد ہیں۔اصل روایت اس طرح ہے۔
(عربی)
اس روایت کو ابن عساکرؒ [13]نے بطریق محمد بن عبداللہ بن سلیمان نا علی بن بہرام الکوفی نا عبدالملک بن ابی کریمہ عن عمرو بن قیس عن عطاء عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً روایت کیا ہے اگرچہ یہ حدیث بھی ضعیف الاسناد ہے لیکن اس سند کے رواۃ طبرانی ؒ آجریؒ،اور حاکم ؒ کی سابقہ اسناد کے رواۃ سے بدرجہا بہتر ہیں۔اس سند میں علی بن بہرام ایک "غیر معروف "راوی ہے۔علامہ ہثیمیؒ نے بھی اس کے غیر معروف ہونے کی شہادت ان الفاظ میں دی ہے :مجھے اس کا ترجمہ نہیں مل سکا۔[14] حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ابو کریمہ سے روایت کرنے والے رواۃ میں اس کا ذکر کیا ہے۔اور اس کا نام علی بن یزید بن بہرام بتایا ہے جبکہ خطیب بغدادی ؒ نے اپنی تاریخ میں [15]یزید کو علی کا دادا قرار دیا ہے۔ کتب ر جال میں محمد بن عبداللہ بن سلیمان نام کے دو رواۃ کے تراجم ملتے ہیں۔ان میں سے ایک کوفی اور دوسرا خراسانی ہے کوفی کوابن مندہ نے "مجہول"[16] بتا یا ہے۔خراسانی کو امام ذہبی ؒ نے موضوع احادیث روایت کرنے کے لئے متہم ٹھہرایا ہے۔علامہ محمد ناصر الدین البانیؒ فرماتے ہیں کہ یہاں بظاہر محمد بن عبداللہ بن سلیمان سے مراد اول الذکر یعنی کوفی ہے۔نیز یہ کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔لیکن اس روایت کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ حدیث بھی حاکمؒ آجریؒ اور طبرانیؒ کی سابقہ روایات کے بطلان کی ایک واضح دلیل ہے۔
3۔تیسری علت یہ ہے کہ یہ حدیث کئی طرح سے قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہے :مثال کے طور پر۔
الف۔حاکم ؒ کی زیر نظر روایت میں مروی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے سوا ل فرمایا:"
(عربی)
"(یعنی اے آدم علیہ السلام تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے پہچاناحالانکہ میں نے ان کو پیدا بھی نہیں کیا ہے؟)
تو حضرت آدم علیہ السلام جواب دیتے ہیں:
(عربی)
"یعنی اے رب ! جب آپ نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اور میرے اندر اپنی روح پھونکی تو میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو عرش کے قوائم پر لاالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھاہوا دیکھا تو میں نے جان لیا کہ آپ نے اسے اپنے نام کے ساتھ جو ملایا ہے توسب مخلو ق میں آپ کو محبوب ہے۔"حضرت آدم علیہ السلام کے پیدا ہوتے ہی عرش کے قوائم پر لکھے ہوئے کلمہ کو دیکھ کر پڑھ لینا اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ کو سمجھ لینا انتہائی قابل گرفت امر ہے کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام تو اپنی تخلیق کے بعد ہر چھوٹی بڑی چیز سے بالکل بے خبر والا علم تھے ۔تاوقت یہ کہ خود اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام چیزوں کا علم بخشا جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت میں مذکور ہے:
(عربی)[17]
ترجمہ:۔
اور ( پھر) اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو تمام چیزوں کے ناموں کا علم دیا۔"
یہاں اگرچہ علم الاسماء کی تعین میں مفسرین کا اختلاف ہے (بعض کہتے ہیں کہ اسماء سے مراد ان کی ذریت کے نام ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ ا سے مراد ملائکہ کے نام ہیں،بعض کہتے ہیں کہ مختلف انواع کی چیزوں کے نام ہیں،بعض کہتے ہیں کہ زمین پر موجود ہرچیز کا نام ہے اور بعض کے نزدیک اسماء سے مراد ہر شے حتیٰ کہ قصعہ کا نام ہے۔[18]
مگر اشرف علی تھانوی اس آیت کے فائدہ میں تحریرفرماتے ہیں:" تمام موجودات روئے زمین کے اسماء وخواص کا علم دے دیا۔[19]اور مولانا سیدابو الاعلیٰ مودودی مرحوم فرماتے ہیں:
آدم ؑ کو سارے نام سکھانا گویا ان کو تمام اشیاء کا علم دینا تھا۔"[20]
پس ا گر اللہ تعالیٰ نے خود ہی حضرت آدم علیہ السلام کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق علم دیا ہوتا ۔ تو ایں سوال چہ معنی وارد؟اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کا علم نہیں دیا تھا حضرت آدم ؑ کو از خود اس کا علم کیونکر ہوسکتا ہے؟اگر نہیں ہوسکتا تو انہیں اللہ تعالیٰ کے استفسار پر اس مفصل جواب کی بجائے اپنی لاعلمی اور بے بضاعتی کا اظہار کرناچاہیے تھا۔
ب۔روایت زیر مطالعہ میں یہ بھی مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حق ووسیلہ سے مغفرت طلب کی تھی۔ حالانکہ قرآن کریم کی صریح آ یات اس امر پر دلالت کرتی ہیں۔کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو ان کے قصور پر متنبہ کیا گیا تو اپنی خطاء ولغزش کا احساس ہوتے ہی وہ انتہائی نادم و پریشان ہوئے ا ور فوراً اپنے قصور کااعتراف کرکے باری تعالیٰ سے معافی مانگنے اور اس کے دامن رحمت میں پناہ ڈھونڈھنے لگے ان کی حالت زار دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے خود یہ ان کو وہ الفاظ بتائے جن سے ان کی توبہ قبول ہوئی۔اس واقعہ کے متعلق مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی مرحوم فرماتے ہیں:
یعنی آدمؑ کو جب اپنے قصور کااحساس ہوا اور انہوں نے نافرمانی سے پھر فرمانبرداری کی طرف رجو ع کرنا چاہا اور ان کےدل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنے رب سے اپنی خطاء معاف کرائیں تو انھیں وہ الفاظ نہ ملتے تھے جن کے ساتھ وہ خطا ء بخشی کے لئے دعا کرسکتے اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم فرما کر وہ الفاظ بتادیئے۔الخ۔"[21]
قرآن کریم میں اس واقعے کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
(عربی)[22]
ترجمہ۔پس حاصل کرلیے آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے (چند توبہ کے) کلمات تو اللہ تعالیٰ نے رحمت کے ساتھ ان پر توجہ فرمائی (یعنی ان کا قصور معاف فرمادیا) کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔"
عربی لغت میں تلقیٰ کا معنی شوق ورغبت کے ساتھ کسی کا استقبال کرنا ،ا س کو قبول کرنا ہے۔[23]یہاں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب ان کو توبہ کےکلمات کی تلقین کی گئی تو حضرت آدم ؑ نے بہ اہتمام وبشوق ان کلمات کو قبول کیا اور توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے یا پلٹنے کے ہیں۔اگر بندہ توبہ کرے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ سرکشی سے باز آکر بندگی کیطرف لوٹ آیا۔اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے توبہ کرکے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے نادم بندہ کی جانب دوبارہ ازراہ عنایت ورحمت متوجہ ہو ملتفت ہوگیا۔
سورہ بقرہ کی آیت (عربی) کی تفسیر میں امام المفسرین وترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
(عربی)[24]
"آدم علیہ السلام نے کہا اے رب کیا آپ نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا فرمایا کیوں نہیں ،کہا اے رب کیا آپ نے میرے اندر اپنی روح نہیں پھونکی؟فرمایا کیوں نہیں،کہا اے رب کیا آپ نے مجھے جنت میں جگہ نہیں دی؟فرمایا کیوں نہیں،کہا کیا آپ کی ر حمت آپ کے غضب پر غالب نہیں ہے؟فرمایا کیوں نہیں،کہا اگر میں توبہ کروں اور نیکی کروں تو کیا آپ مجھے جنت میں واپس لے جائیں گے؟فرمایا کیوں نہیں،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ کا ارشاد اسی بارے میں ہے۔
(عربی)
اس حدیث کو امام حاکم ؒ نے اپنی مستدرک میں بطریق ابو العباس محمد بن یعقوب:(عربی) روایت کیا اور فرمایا کہ:
(عربی)
(یعنی یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر شیخین نے اس کو روایت نہیں کیا ہے)
ابن جریر طبریؒ نے بھی بطریق ابو کریب:
(عربی)
اس کی تخریج کی ہے۔[25]
علامہ ذہبیؒ نے تلخیص المستدرک " میں اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے ،فرماتے ہیں:
(عربی)
(یعنی ابن جریرؒ نے اس کو دوسری سندوں کےساتھ بھی روایت کیا ہے اور اُس کو قتادہ، ابو عالیہ اور سدی سے بھی روایت کیا ہے)
علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی ؒ فرماتے ہیں کہ:
"حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ یہ قول مرفوع کے حکم میں ہے جس کی دو وجوہ ہیں:
1۔یہ امر غیبی ہے جسے انھو ں نے مجرد اپنی رائے سے نہیں کہا ہے نیز ۔
2۔یہ قول آیت کی تفسیر میں وارد ہے اور جو اس طرح ہو وہ مرفوع کے حکم میں ہوتا ہے۔"[26]
یہ حدیث صاف طور پر بتاتی ہے کہ حضرت آدم ؑ نے اپنی مغفرت کے لئے کسی کا وسیلہ وواسطہ اختیار نہیں کیا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ سے حاصل کردہ کلمات سے توبہ واستغفار کی تھی۔چنانچہ مستدرک حاکم کی یہ حدیث بھی سابقہ وسیلہ والی روایات کی تکذیب وبطلان کی واضح دلیل ہے۔
وہ کلمات جو بغرض توبہ حضرت آدم علیہ السلام کو بتلائے گئے تھے قرآن کریم کے ایک د وسرے مقام پر اس طرح مذکور ہیں:
(عربی)[27]
"اے ہمارے رب ہم نے ا پنے اوپر ظلم کیا،اب اگر آ پ ہماری مغفرت نہ فرمائیں گے اور ہم پر رحم نہ کریں گے تو واقعی ہم زبردست خسارہ میں پڑنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔"
مشہور مفسرین میں سے ثعلبیؒ نےبہ طریق عکرمہؒ (عربی) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا :وہ کلمات یہ تھے؛
(عربی)
ابن المنذر نے ابن جریج کے طریق سے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول وروایت کی تخریج کی ہے۔عبدبن حمید،ابن جریر، ابن المنذر،ابن ابی حاتم، اور بیہقی ؒ نے بھی محمد بن کعب القرظی سے اس کی تخریج کی ہے۔وکیع،عبد بن حمید ،ابن جریر ،ابن ابی حاتم نے مجاہد ؒ س بھی اس کی تخریج کی ہے۔عبد بن حمید نے حسن اور ضحاک ؒ سے بھی اس کی تخریج کی ہے۔[28]
ابن جریر الطبری ؒ نے قتادہ اور ابن زید سے بھی ایسی ہی روایت بیان کی ہے اور کہا ہے کہ :"اللہ تعالیٰ کی کتاب دلالت کرتی ہے کہ جو کلمات حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے حاصل کئے تھے۔وہ وہی کلمات تھے۔جن کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی ہے کہ انھوں نے اپنے رب سے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا:
(عربی)[29]
قاضی بیضاوی ؒ [30]اور علامہ نسفیؒ [31]نے بھی (عربی) کی تفسیر میں اسی طرح فرمایا ہے علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ "ابو العالیہ کا قول ہے کہ۔(عربی) سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے۔(عربی)[32]
علامہ جلال الدین سیوطیؒ بھی سورۃ البقرۃ کی آیت (عربی) کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں۔
(عربی)[33]
ماضی قریب کے مفسرین میں سے مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی مرحوم نے بھی تفہیم القرآن میں سورۃ الاعراف کی اس آیت کو ہی حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کے الفاظ بتایا ہے۔[34]اس طرح ڈاکٹر محمد محسن خاں اور ڈاکٹر محمد تقی الدین الہلالی المراکشی (سابق اساتذہ بالجامعۃ السلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ) نے بھی اپنی انگریزی تفسیر میں سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 27 کی شرح میں سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 23 کو ہی حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کے وہ کلمات بتایا ہے جو من جانب اللہ تعالیٰ ان کو بتلائےگئے تھے۔[35]اور مولانا محمد شفیع مرحوم (سابق مفتی اعظم پاکستان) حضرت آدمؑ کی توبہ کے کلمات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
"وہ کلمات جو حضرت آدم علیہ السلام کو بغرض توبہ بتلائے گئے کیا تھے اس میں مفسرین صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کئی روایات منقول ہیں،مشہور قول حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے کہ وہ کلمات وہی ہیں جو قرآن مجید میں دوسری جگہ منقول ہیں یعنی (عربی) [36]
ان مفسرین کےبرخلاف مصری عالم سید رشید رضا نے بعض لوگوں کے اس قول کو اختیار کیا ہے کہ ان کلمات سے مراد (عربی) نہیں ہیں۔[37]لیکن بعض لوگوں کے اس قول کی تضعیف سید رشید رضا سے بہت قبل علامہ حافظ ابن کثیرؒ اپنی تفسیر [38]میں فرماچکے ہیں جو اس موقف کے بطلان کے لئے خوب اور کافی ہے فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ (جاری ہے)
[1] ۔صحیح مسلم ج نمبر 1 ص 7 وصحیح ابن حبان ج 1 ص 27۔
[2] ۔الضعفاء والمتروکین للنسائی ترجمہ نمبر 360 العلل لابن حنبلی ج1 ص401۔وغیرہ التاریخ الکبیر للبخاری ج نمبر 3 ص 284 التاریخ الصغیر البخاری ج2 ص227 الضعفاء الصغیر للبخاری ترجمہ نمبر 208 المعرفۃ والتاریخ للبسوی ج3 ص43 الضعفاء الکبیر للعقیلی ج2 ص331 الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج نمبر 2 ص232 کتاب المجروحین لابن حبان ج2 ص57۔مختصر الضعفاء لابن حبان ص66 الکامل فی الضعفاء لابن عدی۔4 ترجمہ 581۔کتاب الضعفاء والمتروکین للدارقطنی ترجمہ 331۔میزان الاعتدال للذہبی ج2 ص564۔المغنی فی الضعفاء للذہبی ج1 ص280۔تقریب التہذیب لابن حجر ج1 ص480 تہذیب التہذیب لابن حجر ج6 ص179۔کشف الاحوال للمدراسی ص66 کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج2 ص318۔تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق الکنانی ج1 ص 78۔تحفۃ الاحوزی للمبارکفوری ج1 ص343۔مجمع الزوائد للہثیمی ج1 ص21 ج3 ص77 ج5 ص147۔المجوع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان ص456۔فہارس مجمع الزوائد للذغول 3 ص321۔القاعدۃ الجلیۃ فی التوسل والوسیلۃ لابن تیمیہ ص89 صارم المکی لابن عبدالہادی ص39 مستدرک للحاکم ج3 ص332۔سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للبانی 1 ص340۔وغیرہ نمبر 2 ص98 اور سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للبانی ج2 ص195 وغیرہ۔
[3] ۔تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق الکنانی ج1 ص76 میزان الاعتدال للذہبی ج2 ص504 تلخیص المستدرک للذہبی ج2 س615۔ لسان المیزان لابن حجر عسقلانی ج3 ص360 سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للبانی ج1 ص39۔
[4] ۔میزان الاعتدال للذہبیؒ ج2 ص503۔کتاب المجروحین لابن حبان ج2 ص44۔مختصر الضعفاء لابن حبان ص64،کشف الحثیث للحلبی ص250۔تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق الکنانیؒ ج1 ص76 وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للبانی ج1 ص39۔
[5] ۔مجمع الزوائد منبع الفوائد للہثیمی ج8 طبع دارالکتب العربی بیروت 1982ء۔
[6] ۔میزان الاعتدال للذہبیؒ ج2 ص504۔
[7] ۔الوفاء باحوال المصطفیٰ لابن الجوزی ج1 ص 33-34۔
[8] ۔کتاب الشریعۃ للاجری ص423۔425۔
[9] ۔تقریب التہذیب لابن حجر ج2 ص189 تہذیب التہذیب لابن حجر ج9 ص336 ومیزان الاعتدال لذہبی ج3 ص640۔
[10] ۔ تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی ؒج7ص114 تقریب التہذیب لابن حجر عسقلانی ج2 ص8۔مجمع الزوائد لہثیمی ج9 ص81۔کتاب المجروحین لابن حبان ج2 ص102۔میزان الاعتدال للذہبی ج3ص 32 فہارس مجمع الزوائد للذغلول ج3 ص345 سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للبانی ج1 ص40 وسلسلۃ الاحادیث الصحیۃ للبانی ج4 ص442۔
[11] ۔تحفہ الاحوزی للمبارکفوری ج1 ص 50۔99۔سلسۃ الاحادیث الصحیحۃ للبانی ج4 ص588۔فہارس مجمع الزوائد للذغلول ج3 ص318۔مجمع الزوائد لہثیمی ج1 ص143۔ج2 ص48 ج3 ص187۔99۔ج4 ص224۔ج6 ص111ج9ص67 ج10 ص66 معرفۃ الثقات اللعجلی ج2 ص77 الضعفاء الکبیر للعقیلی ج2 ص340 کتاب المجروحین لابن حبان ج2 ص56۔ج2 ص56۔کتاب الضعفاء والمتروکین نسائی ترجمہ 367 التاریخ الکبیر للبخاری ج5 ص315۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج5 ص252۔الکامل فی الضعفاء لابن عدی ج4 ترجمہ 1585۔میزان الاعتدال للذہبی ج2 ص575۔تقریب التہذیب لابن حجر ج1 ص479۔تہذیب التہذیب لابن حجر ج6 ص170۔تحفۃ اللطیفہ فی تاریخ المدینہ لسخاوی ج2 ص487 تاریخ بغداد للخطیب بغدادی ج10 ص228 المجوع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان ص151۔
[12] ۔سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للبانی ج 1 ص 40 وکتاب التوسل انواعہ احکامیہ للبانی ص123۔
[13] ۔ج 2 ق 2 ص323۔
[14] ۔مجمع الزوائد لہثیمی ج3 ص282۔
[15] ۔تاریخ بغداد خطیب بغدادی ج11 ص353۔
[16] ۔میزان الاعتدال للذہبیؒ ج3 ص607۔
[17] ۔سورۃ البقرۃ۔31۔
[18] ۔فتح الباری لابن حجر عسقلانی ج8 ص160۔
[19] ۔قرآن کریم ترجمہ وتفسیر اختصار شدہ بیان القرآن ازاشرف علی تھانوی ص6 طبع تاج کمپنی۔
[20] ۔تفہیم القرآن للمودودی ج1 ص63 حاشیہ 42۔
[21] ۔ایضاً ج1 ص67 حاشیہ 51۔
[22] ۔سورۃ البقرۃ 37۔
[23] ۔کذافی تفسیر روح المعانی للآلوسی والکشاف للذمخشری۔
[24] ۔المستدرک الحاکم ج3 ص 545۔
[25] ۔تفسیر ابن جریر الطبری ج1 ص243۔
[26] ۔التوسل انواعہ احکامہ للبانی ص125۔طبع جمیعۃ احیاء التراث السلامی کویت 1985ء۔
[27] ۔سورۃ الاعراف۔23۔
[28] ۔الدر المنشور ج1 ص59۔
[29] ۔تفسیر ابن جریر الطبری ج1 ص 245۔
[30] ۔انوار التزیل ج1 ص143۔طبع مصری۔
[31] ۔مدارک التنزیل ج1 ص43۔
[32] ۔فتح الباری لابن حجر ج6 ص366۔
[33] ۔تفسیر الجلالین علی ہوامش القرآن الکریم ص7 طبع مکتبۃ الشعبیۃ بمصر۔
[34] ۔تفہیم القرآن للمودودی ج3 ص133۔
[35] ۔ترجمۃ المعانی القرآن الکریم لابن کثیر بالغۃ الانکلیزیہ از ڈاکٹر محمد محسن خاں وڈاکٹر محمد تقی الدین الہلالی ص5 طبع بلال پبلشنگ ہاؤس انقرہ1978ء۔
[36] ۔معارف القرآن از مولانا محمد شفیع مرحوم ج1 ص140۔
[37] ۔تفسیر المنار لسید رشید رضا ج1ص279۔
[38] ۔ابن کثیر ج1 ص81۔