ترجمان القرآن

﴿ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ﴿١٦﴾...البقرة
ترجمہ:۔یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی تو نہ تو  ان کی  تجارت ہی نے کچھ نفع دیا اور نہ وہ ہدایت یاب ہی ہوئے۔"
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی ایک جماعت نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ گمراہی لے لی۔اور ہدایت چھوڑ دی۔ابن عباس  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے فرمایا ایمان دے کر  کفر خرید لیا۔مجاہد ؒ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد کافر ہوئے ،قتادہ  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے فرمایا۔انہوں نے گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دی۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
ترجمہ"۔اور جو ثمود تھے ان کوہم نے سیدھا  رستہ دکھایا تھا مگر  انہوں نے ہدایت کے مقابلے میں اندھا رہنا پسند کیا۔
پھر قتادہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے فرمایا واللہ تم نے انہیں دیکھا ہے کہ وہ ہدایت سے نکل کر گمراہ ہوگئے جماعت کو چھوڑ کر فرقے بازی کی طرف چلے گئے امن چھوڑ کر خوف میں جا پڑے،سنت سے علیحدہ ہوکر بدعت پر اڑ گئے۔اصل زر پر جو آمدنی زیادہ ہو اس کو ریح کہتے ہیں۔

سودا گری کے کام کاج کو تجارت بولتے ہیں سو انہیں اس تجارت میں نقصان ہے نہ کہ نفع کیونکہ راس المال "ایمان" برباد کرکے ضلالت کے معتقدہوئے ،ہدایت سے بھٹک گئے۔

(عربی)

ترجمہ:۔اُن کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے شب تاریک میں آگ جلائی جب آگ نے اس کے ارد گرد کی چیزیں روشن کیں تو اللہ نے ان لوگوں کی  روشنی زائل کردی اور ان لوگوں کو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے یہ بہرے ہیں،گونگے ہیں،اندھے ہیں کہ کسی طرح سیدھے رستے کی طرف لوٹ ہی نہیں سکتے۔"

یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دین اسلام کو روشن کیا ایک خلق نے راہنمائی حاصل کی ،منافق اس وقت اندھے ہوگئے ،آنکھ کی روشنی نہ ہوتو مشعل بھی کام نہیں آتی۔آدمی اگر صرف اندھا ہو تو مدد کے لیے کسی کو پکار سکتا ہے۔کسی کی آواز سن کر راہنمائی  حال کرسکتا ہے۔مگر جو آدمی بیک وقت بہرہ بھی ہو،گونگا بھی ہو،اندھا بھی ہوتو وہ راہنمائی کیسے حاصل کرسکتا ہے۔کیونکہ  راہنمائی کے سارے حاسے  تو بند ہوچکے ہیں۔منافقین کی نہ عقل کی آنکھ ہے۔کہ خود راہنمائی حاصل کریں۔نہ مرشد کی طرف رجوع ہے کہ وہ ہاتھ پکڑ کر سیدھے راستے پر لگا دے نہ حق بات سننے کا یارا ہے لہذا ایسے شخص کی راہ راست پر آنے کی توقع نہیں ہوسکتی اس مثال میں دلیل ہے اس  بات پر کہ یہ لوگ ایمان لا کر کافر ہوگئے جس طرح اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر  فرمایا:

(عربی)(المنافقون ۔3)

ترجمہ:۔"یہ اس لئے کہ یہ پہلے تو ایمان لائے پھر کافر ہوگئے تو انکے دلوں پر مہر لگا دی گئی سو اب یہ سمجھتے ہیں نہیں۔

امام رازی ؒ نے فرمایا یہ تشبیہ نہایت صحیح ہے اس لئے کہ انہوں نے ایمان لا کر جو نور کمایا تھا پھر منافق بن کر اس نور کو کھودیا۔ایک بڑی حیرانی میں پڑ گئے۔دین کی حیرت سے بڑی کوئی حیرت نہیں۔ابن جریرؒ کا یہ خیال کہ وہ کبھی بھی ایمان نہ لائے تھے۔دلیل میں وہ یہ آیت پیش کرتے ہیں:

(عربی)

ترجمہ:۔"اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم  اللہ پر اور روزآخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے۔

صحیح نہیں۔اس لئے کہ اس آیت میں جو خبر دی گئ ہے۔وہ ان کے نفاق وکفر کا حال ہے اس لئے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے پہلے کبھی ان کو ایمان حاصل نہیں ہوا بلکہ مطلب یہ ہے کہ ا ُن سے ایمان چھین کر  پھر ان کے دلوں پرمہر لگادی گئی۔ابن جریرؒ کو آیت (عربی) شاید یاد نہ ہوگی۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں تشریف لائے۔تو کچھ لوگ مسلمان ہوگئے بعد میں منافقت اختیار کی سو ان کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص اندھیرے میں تھا،اس نے آگ سلگائی،آگ کی روشنی میں ہر نشیب وفراز نظر آنے لگا۔ناگہاں آگ بجھ گئی اب کچھ دکھائی نہیں دیتا۔اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے ،یہی حال منافق کا ہے کہ وہ ظلمت شرک میں پڑا تھا ۔اسلام قبول کیا ،حرام وحلال کی تمیز نصیب ہوئی خیر وشر میں امتیاز کرنے لگا۔اتنے میں پھر کافر ہوگیا،اب کچھ بھی نہیں پہچانتا۔ابن عباس  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

نور سے مراد ان کا ایمان ہے۔ظلمت سےمراد ان کی ضلالت اور کفر ہے جس میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔عطاء خراسانی نے کہا کہ یہ آیت منافق کی مثال ہے کبھی بات کو جانتا اور پہچانتا ہے پھر اُس کا دل اندھا ہوجاتا ہے۔بصیرت کی روشنی جاتی رہتی ہے۔ابن زید ؒ نے کہا،یہ منافقوں کی صفت ہے کہ وہ    پہلے تو ایمان لائے،ایمان ان کے دل میں اس طرح چمکا جس طرح آگ سلگانے والے کے لئے روشنی مہیا کرتی ہے  پھر کافر ہوگئے،اللہ ان کے ایمان کی روشنی لے گیا جس طرح کہ وہ آگ بجھ گئی۔اب اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں کچھ سمجھائی نہیں دیتا۔ابو العالیہؒ نے کہا۔منافق جب کلمہ اخلاص لا الٰہ الا اللہ پڑھتا ہے تو چمک اٹھتا ہے پھر جب اس نے شک کیا تو اندھیرے میں جاگرا۔قتادہ ؒ نے کہا۔منافق دنیا میں کلمہ پڑھ کر کھاتے  پیتے نکاح کرتے،اپنے خون ومال کو بچاتے ہیں  پھر جب وفات پائیں گے۔تو اللہ تعالیٰ ان کو اندھوں کی طرح اندھیرے میں چھوڑ دے گا۔ابن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے فرمایا ۔ظلمت سے مراد عذاب ہے جو بعد از وفات ہوگا۔قتادہؒ نے فرمایا۔ وفات کے وقت ان سے ایمان لے لیا جاتا ہے اس لئے کہ اس کی کچھ اصل دل میں نہیں تھی۔نہ ان کا عمل حقیقت رکھتا تھا۔بلکہ یہ محض د ھوکا تھا اب قبر کے اندھیرے میں پڑے رہو۔وہ ایسے اندھے ۔بہرے اور گونگے ہیں کہ کبھی ہدایت کی طرف لوٹ کرنہیں آئیں گے۔ نہ اسلام قبول کریں گے۔نہ اپنے نفاق اور ضلالت سے تائب ہوں گے۔ یہ آگ باطل کی آگ ہے۔اس کا چمکنا اس لئے فرمایا کہ ہر باطل کی چمک ایک لحظہ بڑی دھوم دھام سے ہوتی ہے۔لیکن آ خر کار مٹ جاتی ہے۔

عربی کا محاورہ ہے:

(عربی)

علماء بلاغت نے کہا ہے ضرب المثل کا رتبہ اظہار حقیقت اورمخفی معانی کو بیان کرنے کے لئے بہت بڑا ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ مثالیں بیان فرمائی ہیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اکثر وعظ ونصیحت اور گفتگو میں مثالیں بیان فرمایا کرتےتھے۔

ابن جریرؒ نے کہا ایک جماعت کی مثال ایک شخص سے بھی ہوسکتی ہے جیسے آیت:

(عربی)

ترجمہ:۔"آپ ان کو دیکھیں گے کہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں اوران کی آنکھیں اس طرح پھر رہی   ہیں جیسے کسی پرموت کی غشی طاری ہے"

(عربی)

"جن لوگوں کے سروں پرتورات ا ٹھوائی گئی پھر انہوں نے اس (کے بار تعمیل) کو نہ  اٹھایا،ان کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی (کتابوں) کا بوجھ لدا ہو "

ضرب المثل سے کہنے والے کی بات سننے والے کے دل میں اترتی ہے۔اگر وہ صاحب شعور ہو گفتگو کا  پورا اثر قبول کرتا ہے۔اورنہ اندھے کے آگے رونا اپنی آنکھوں کھونا کے مصداق ہوتا ہے۔"ضرب المثل" ہر زبان میں نیا رنگ رکھتی ہے۔عربی،فارسی،اردو سب زبانوں میں مستعمل ہے۔علماء ادب نے اس باب میں مستقل کتابیں لکھی ہیں۔جیسے"امثال میدانی" اور" خزینۃ الامثال" وغیرہ۔

(عربی)

"یا ان کی مثال بارش کی سی ہے کہ آسمان سے برس رہی ہو اور اس میں اندھیرے پر اندھیرا چھا رہا ہو اور بادل گرج ر ہا ہو اور بجلی کو ند رہی ہو تو یہ کڑک سے ڈر کر موت کے خوف سے کانوں میں انگلیاں دے لیں۔اور اللہ کافروں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کی بصارت کو اُچک لے جائے۔جب بجلی چکمتی  اور ان کی آنکھوں پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے کھڑے رہ جاتے ہیں۔اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے کانون کی شنوائی  اور آنکھوں کی بینائی دونوں کو زائل کردیتا،بلاشبہ اللہ  تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔"

یعنی دین اسلام میں آخر کو سب نعمت ہی نعمت ہے اگرچہ شروع میں کچھ محنت وزحمت ہوتی ہے۔جس طرح کہ بارش میں اول گرج ،چمک،کڑک  پھر اس کا انجام آبادی ہے سو جو لوگ منافق ہیں وہ شروع کی سختی سے ڈر جاتے ہیں۔انہیں سامنے آفت نظر آتی ہے جیسےبجلی میں کبھی اندھیرا کبھی اجالا۔اسی طرح منافق کے دل میں کبھی اقرار اور کبھی انکار رہتا ہے۔

ف:اللہ تعالیٰ نے سور ت کے آغاز سے یہاں  تک تین قسم کے لوگوں کا حال بیان کیاہے۔ایک مومن دوسرے کافر جن کے دلوں پرمہر ہے۔یعنی ان کی قسمت میں ایمان نہیں لکھا  تیسرے منافق جو دیکھتے ہیں مسلمان ہیں لیکن ان کا دل ایک طرف نہیں ہے ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے۔

یہ ایک دوسری مثال ہے جو اللہ نے منافقوں کے لیے بیان فرمائی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی حق کا اظہار کرتے ہیں۔اور کبھی شک میں  گرفتار ہوتے ہیں۔ان کے دل ہمیشہ شک،کفر،اور تردد میں رہتے ہیں۔بارش کی مانند ۔ظلمات سے مراد شک، کُفر اور نفاق ہے ۔رعد سے مراد خوف ہے ۔منافقوں کو ہمیشہ دہشت اور گھبراہٹ رہتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(عربی)

("بزدل ایسے کہ  ہر چیخ (زور  دار آواز) کو سمجھیں کہ ان پر بلانازل ہوئی)( اور اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں۔ کہ وہ  آپ ہی میں سے ہے حالانکہ وہ  آپ میں سے نہیں ہیں اصل یہ ہے کہ یہ ڈر پوک لوگ ہیں۔اگر ان کو کوئی بچاؤ کی جگہ جیسے قلعہ یاغار یا زمین کے اندر گھسنے کی جگہ مل جائے  تو اس طرف رسیاں تڑاتے ہوئے بھاک  جائیں گے۔)

برق سے مراد ایمان کی چمک ہے۔جو کبھی کبھی ا ن منافقوں کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ وہ کڑک کے ڈر سے کان میں انگلیاں دے لیتے ہیں لیکن اس کا کچھ فائدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔وہ اس کی قدرت اس کی مشیت اور ارادے سے نکل کر کہاں بھاگ سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(عربی)

"اللہ انھیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے"

"ظلمات" اس لئے کہا کہ ایک تاریکی رات کی ہوتی ہے۔دوسری بادل کی تیسری بارش کی۔رعد نام ہے ایک فرشتے کا جو بادل کو ڈانٹتا ہے۔ابن عباس  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ یہود نے رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے  پوچھا تھا کہ رعد کیا چیز ہے؟فرمایا ایک فرشتہ ہے اس کے ہاتھ میں آگ کے کوڑے ہیں۔جن سے وہ بادل کو اس طرف ہانکتا ہے۔جس طرف اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ۔کہا یہ آواز کیا ہے ؟فرمایا! بادل کو ڈانٹ ہے کہ جہاں کا حکم ہے وہاں پہنچے۔کہا سچ ہے۔(حدیث) اس کو ترمذی ؒ نے روایت کیا ہے۔اس کی سند میں اگرچہ کچھ گفتگو ہے لیکن اکثر علماء اسی  طرف گئے ہیں۔فلاسفہ اور متکلمین کا یہ قول کہ یہ آواز رعد کی اجرام ابرکی گڑگڑاہٹ ہے  اور یہ پانی زمین کے بخارات ہیں۔یہ بجلی صدمہ بخارات سے نکلتے ہیں یہ بات بھی اپنی جگہ ٹھیک نہیں ہے۔ابن عباس  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے کہا کہ ر عد نام ہے ایک فرشتے کا جو ابر کو ہانکتا ہے بجلی چمک ہے اس کے کوڑے کی،یہ کوڑا نور کا ہے اس سے بادل کو ڈانٹتا ہے۔اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور جمہور علماء شریعت یہی کہتے ہیں کہ برق ایک مخراق(پھاڑنے والا کوڑا) فرشتے کے ہاتھ  میں ہے جب وہ چابک کسی ابر کو مارتا ہے۔ تو وہ بادل جہاں کا حکم ہوتا ہے۔وہاں جا برستا ہے۔"صاعقہ" ایک ٹکرا ہے آگ کا جو فرشتے کے کوڑے سے شدت غضب کے وقت الگ ہوکر گرجاتاہے کسی نے کہا یہ آگ فرشتے کے منہ سے نکلتی ہے۔کسی نے کہا نہیں بلکہ "رعد"کی آواز کے وقت آسمان سے اترتی ہے۔ابن عمر  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم "رعد" اور صاعقہ کی آواز سنتے تو یوں فرماتے:

(عربی)

اے اللہ ہمیں اپنے غضب اور عذاب سے  ہلاک نہ کردینا اور اس سے پہلے ہمیں معاف کردے۔"

ترمذی ؒ نے اسے روایت کیا ہے حدیث غریب لکھا ہے غریب حدیث صحیح حدیث کی ایک قسم ہے ابن عباس  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:معلوم ہوتاہے کہ محکم قرآن نے سارے عیب منافقوں کے بتادیئے۔جب ان کو کچھ عزت اسلام سے ملتی ہے تو مطمئن ہوجاتے ہیں جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کافر ہونے پر  تیار ہوجاتے ہیں۔جیسے (اللہ کا فرمان ہے):

(عربی۔الحج۔11)

"اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جو کنارے پر کھڑا ہوکر اللہ کی عبادت کرتا ہے اگر اس کو کوئی دنیاوی فائدہ  پہنچے تو اس کے سبب مطمئین ہوجاتا ہے۔"

میں نے ایک عیسائی نوجوان کو دیکھا مسلمان ہوکر قرآن  پڑھنا شروع کیا کئی ماہ تک یہی مشغلہ رہا اس امید پر کہ ریاست میں کوئی معقول تنخواہ پر نوکری مل جائے گی۔اتفاقاً نہ ملی  تو مرتد ہوکر عیسائی ہوگیا۔

یہ حال اکثر نو مسلموں کا دیکھنے میں آیا ہے دنیا داری کے لئے اسلام قبول کرتے ہیں جب رزق کی تنگی ہونے لگتی ہے۔ تو اسلام چھوڑ کر پھر کفر اختیار کرلیتے ہیں۔اخلاص اس و قت عنقا اور نایاب ہوگیا ہے۔پرانے اہل اسلام میں بھی باقی نہ رہا،نئے ایمان والوں کا کیا ذکر ہے۔ابن عباس  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے کہا! آیت کا مطلب ہے کہ وہ حق کو  پہچانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی بات میں استقامت ہے۔مگر جب کفر کی طرف جھکتے ہیں۔ تو حیران وششدر ر ہ جاتے ہیں۔یہی قول اکثرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا ہے۔ابن کثیرؒ نے کہا!سب سے زیادہ  صحیح یہی قول ہے۔اس طرح قیامت کے دن بھی لوگوں کا یہی حال ہوگا جب لوگوں کوایمان کے مطابق ان کو نور دیا جائے گا کسی کو کئی میل تک،کسی کو کم ،کسی کو زیادہ،پھر کسی کا نور کبھی بجھے گا،کبھی چمکے گا،کوئی ایک بار پُل صراط پر چلے گا پھر ٹھر جائے گا۔اور کسی کا نور بالکل بجھ جائے گا یہی لوگ خالص منافق ہوں گے۔جن کے بارے میں فرمایا۔

(عربی)

"اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ  ہماری  طرف نظر شفقت کیجئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں تو ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے کو لوٹ جاؤ اور وہاں نور تلاش کرو۔"

مومنین کے حق میں یوں فرمایا:

(عربی)

"جس دن تم مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھو گے کہ ا ُن کے ایمان کا نور اُن کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہے تو ان سے کہاجائے گا کہ تم کو بشارت ہو کہ آج تمہارے لئے با غ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔

(عربی)

"اس دن اللہ تعالیٰ پیغمبر کو  اور ان لوگوں کو جو ان پر ایمان لائے ہیں۔رسوا نہیں کرے گا۔بلکہ ان کانور(ایمان) انکے  آگے اور دائیں طرف روشنی کرتے ہوئے چل رہا ہوگاوہ اللہ تعالیٰ سے التجا کریں گے کہ اے پروردیگار! ہمارا نور ہمار ے لئے پورا کرو اور ہمیں معاف فرما،بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔"

یہاں "اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے" کہنے سے قدرت الٰہی کا عموم ثابت ہوتا ہے۔کوئی چیز کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو اللہ سب پر قادر ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر نئی چیز اپنے معرض وجود میں آنے اور بقاء کے ممکنہ وقت کا احاطہ کرنا،سب اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شامل ہے۔معتزلہ کا خیال ہے کہ استطاعت فعل سے پہلے ہوتی ہے صحیح نہیں ہے۔یہاں قدرت کا ذکر منافقین کو ڈ رانے کے لئے کیا گیا ہے۔تاکہ اللہ کی سطوت و(لفظ مٹا ہوا ہے) سے ڈرکر نفاق کو چھوڑ دیں۔یہ بات سمجھ لیں کہ اللہ ان کو اندھا ،بہرہ کردے تو اللہ تعالیٰ سے کچھ بعید نہیں اس لئے کہ ہر چیز اس کے احاطے میں ہے۔وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔یہ نفاق ان کا قادر اور محیط کے آگے کسی طرح نہیں چل سکے گا۔غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے  یہ مثال منافقوں کے لئے بیان کی ہے۔

منافقوں کی اقسام:

منافقین کی دو اقسام ہیں:1۔ایک اعتقادی۔2۔دوسرے عملی۔

اعتقادی منافق وہ ہیں جو ظاہر میں مسلمان مگر باطن میں کافر اور شیطان۔عملی منافق وہ ہیں جن کے حق میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا!تین چیزیں ہیں جس کسی میں وہ ہوں تو وہ خالص منافق ہے۔اور جس کسی میں ایک ہی چیز ہو تو اس میں ایک ہی خصلت نفاق کی ہے جب تک اس خصلت کو  چھوڑ نہ دے جب بات کرے جھوٹ بولے۔جب وعدہ کرے خلاف ورزی کرے۔جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔

ابن عمر  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے مرفوعاً بخاری ومسلم میں  روایت ہے دوسری ر وایت میں چوتھی چیز بھی بیان ہوئی ہے کہ جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالیاں بکے۔تیسری روایت میں پانچویں چیز یہ آئی ہے کہ جب عہد وپیماں کرے تو  توڑ ڈالے،اس سے معلوم ہوا کہ انسان میں کبھی ایک شعبہ ایمان کا اور دوسرا شعبہ نفاق کا ہوتا ہے۔خواہ عملی ہو جس طرح اس حدیث میں آیا ہے۔یااعتقادی جس طرح آیت سے ثابت ہوا،اکثر سلف اور بعض علماء کا یہی قول ہے یہ ویسی ہی بات ہے جیسے قرآن میں فرمایا:

(عربی)

"یہ اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے مگر اس کے ساتھ شریک کرتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ اکثر شرک باطنی،ایمان ظاہری کے ساتھ جمع ہوجاتا ہے خواہ   فائدہ نہ کرے سو جس طرح شرک ایمان کو تباہ کردیتاہے اس طرح نفاق اخلاص کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔کفر ونفاق کا ساتھ مثل دامن دگریبان کے ہے۔(عربی) ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کے آدمیوں کاذکر فرمایا ہے۔ ایک خالص مومنین ان کا وصف چارآیتوں میں اوپر گزر چکا ہے۔دوسرے خالص کفار ان کا ذکر صرف دو آیتوں میں کیا ہے۔

تیسرے خالص منافق۔وہ دو قسم کے ہیں۔جن کے لئے آگ سلگانے کی مثال دی دوسرے وہ جو متردد ہیں،کبھی ایمان ظاہر کرتے ہیں کبھی ایمان چھپاتے ہیں،ان کی مثال بارش سے دی گئی۔یہ پہلی قسم سے کچھ ہلکے ہیں۔یہ مقام بعض وجوہات کی بناء پر اس ضرب المثل کے مطابق ومشابہہ ہے۔جس کا ذکر سورۃ"النور" میں آیا ہے۔وہاں مومن کی مثال چراغ اور فانوس سے دی ہے۔پھر ابن کثیرؒ نے یہ لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد اُن کفار کی مثال بیان کی ہے جن کو یہ خیال ہے کہ وہ کچھ دین رکھتے ہیں،حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔بلکہ جہل مرکب کا نمونہ ہیں جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے:

(عربی)

" اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے میدان میں سراب کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آئے تو اسے کچھ بھی نہ پائے۔"

پھر ان کفار کی مثال بیان کی جو کچھ تھوڑے اصحاب جہل ہیں ان کے حق میں فرمایا۔

(عربی)

یا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دریائے عمیق میں اندھیرے جس پر لہرچڑھی آتی ہو اور اس کے اوپر اور لہر آرہی ہو اور اس کے اوپر بادل ہو، غرض اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھاہا ہوا جب اپنا ہاتھ نکالے تو کچھ نہ دیکھ سکے۔اور جس کو اللہ روشنی نہ دے اس کو کہیں بھی روشنی نہیں مل سکتی۔

غرض یہ کہ کفار کو بھی دو قسمیں  ٹھہرایا۔ایک داعی،دوسرا مقلد۔چنانچہ ان دونوں کا ذکر سور ہ حج یوں آیا ہے۔

(عربی)

"(اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ  تعالیٰ کی شان میں علم ودانش کے بغیر جھگڑتے ہیں اور ہر شیطان سرکش کی پیروی کرتے ہیں) ( اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں،نہ علم رکھتے ہیں اور نہ ہدایت اور نہ کتاب روشن)

مومنین کی اقسام:

اسی طرح اللہ نے مومنین کی تقسیم سورہ واقعہ کے آغاذ اور سورۃ نساء میں دو طرح کی ہے ایک "سابقین" جو مقربین کہلاتے ہیں،دوسرے اصحاب یمین جن کو "ابرار"کہتے ہیں۔سو ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ مومنین کی بھی دو قسمیں ہیں۔مقربین وابرار۔

کفار کی اقسام:

کفار کی بھی دو قسمیں ہیں۔1۔داعی۔2۔مقلدین ۔اسی طرح منافقین کی بھی دو قسمیں ہیں۔ایک منافق خالص دوسرے وہ جن میں کوئی شعبہ نفاق کا ہے۔ابوسعید  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  مرفوعاً کہتے ہیں۔دل چار طرح کے ہوتے ہیں ایک "اجرد" اس میں چراغ ساجلتا ہے اجرد کامعنیٰ ہے برہنہ ،عریاں دوسرا "غلف" جس کو غلاف میں لپیٹ دیا گیا ہو۔تیسرا "منکوس یعنی الٹا،چوتھا "مصفح"سو "اجرو"مومن کامل کا دل ہے۔اس کا چراغ وہی نور ایمان ہے۔اغلف کافر کا دل ،منکوس،منافق خالص کا دل ہے کہ حق کو پہچان کر منکر ہوگیا ہے۔"مصفح" وہ دل ہے جس میں ایمان ونفاق ہے۔ایمان کی مثال اس کے اندر ایسی ہے جیسے "پھوڑا" کہ پیب اور لہو اس کو بڑھاتا ہے۔سوجو مادہ دوسرے مادے پر غالب  آگیا۔وہی اس  دل پر غالب آگیا۔اسے امام احمدؒ نے روایت کیا ہے۔ ابن کثیر ؒ نے فرمایا یہ اسناد جید وحسن ہیں۔ابن جریرؒ وغیرہ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دونوں مثالیں آیت کی ایک ہی قسم ک منافقین کے لئے ہیں۔ابن کثیرؒ نے لکھا ہے یہ باعتبار جنس منافقین کے ہے کیونکہ کئی قسم کے منافق اور بھی ہیں جن کے احوال اور صفات کا ذکراللہ نے "سورہ براءت" میں کیا ہے۔ان کے اقوال وافعال کا  پتہ بتایا ہے۔سو ان دونوں مثالوں کو دو قسم کےمنافقین کےمطابق ٹھہرانا زیادہ مناسب ہے ۔جس طرح دو مثالیں دو قسم کے کافروں کی سورہ نور میں ذکر کی ہیں ایک "داعی" دوسرے مقلدین پہلی قسم کے حق میں مثال سہراب کی دی ہے جس کو پیاسا شخص پانی سمجھتا ہے یہ داعی ہیں دوسری قسم کے حق میں مثال دریائے  تاریک کی فرمائی ہے یہ مقلدین ہیں دعاۃ(داعی کی جمع) جہل مرکب میں گرفتار ہیں۔تو مقلدین زرا کم اصحاب جہل ہیں۔واللہ اعلم۔

(عربی)

لوگو! اپنے پروردیگار کی عبادت کرو جس نے تمھیں اور  تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم(اس کے عذاب سے)بچو۔جس نے تمہارے لیئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے مینہ برسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع واقسام کے میوے پیداکئے پس کسی کو اللہ کا ہمسر نہ بناؤ اور تم جانتے    توہو۔

ابن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کا قول کہ"(عربی) خطاب ہے اہل مکہ سے(عربی) ۔۔۔خطاب ہے اہل مدینہ کو یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے کیونکہ سورۃ البقرۃ نساء الجرات بالاتفاق مدنی ہیں۔حالانکہ ہر ایک کا آغاذ (عربی) سے ہوا ہے ۔ابن عباس  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے کہا قرآن میں جہاں کہیں (عربی)آیا ہے اس کے معنیٰ ہیں۔(عربی) یعنی اللہ کو واحد جانو،شرک سے بچو،پیدا کرنے کا ذکر اس لئے اس جگہ کیا ہے کہ سارے کافر اللہ کے خالق ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔

(عربی)

"اور اگر آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے۔"

اس لئے اس بات کا احسان ان پر رکھا جس کے وہ معترف تھے تاکہ انکار نہ کرسکیں۔ابن کثیر ؒ کہتے ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید الوہیت کو بیان فرمایا ہے کہ اس انعام کو تو دیکھو کہ ہم نے تم کو عدم سے وجود بخشا۔انواع واقسام کی ظاہری اور پوشیدہ نعمتیں دیں زمین کو پہاڑوں سے مضبوط کرکے  تمہارے چلنے پھرنے کو ایک فرش بنادیا۔ آسمان کو چھت بنایا جیسے فرمایا:

(نوٹ۔پی ڈی ایف کا یہ صفحہ الٹ سکین ہواہے یعنی 546 کے بعد 548 ہے میں نے یہاں درست  کردیا ہے)

(عربی)

" اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا،اس پر بھی وہ ہماری نشانیوں سے منہ پھیرتے ہیں۔

"فتح البیان" میں ہےاگر کوئی آدمی جہاں میں غور کرے تو اسے ایک آباد گھر کی مانند پائے  گا جس میں تمام ضروریات زندگی موجود  ہوں،آسمان کو دیکھو چھت کی مانند بلندہے ،زمین کودیکھو فرش کی طرح بچھی ہوئی ہے ،تاروں کو دیکھو چراغوں کی طرح روشن ہیں،انسان کو دیکھو  جیسے گھر کا مالک ہو،پھر اس  گھر میں ہر طرح کی روئیدگی ہرطرح کے جانور ہر کام کی چیز موجود ومہیاکی ہے۔انسان پر جس کی تسخیر(کنٹرول) میں یہ سب اشیاء ہیں لازم ہے کہ اللہ کا شکر بجا لائے،اس نعمت کو  غفلت سے استعمال نہ کرے۔

ابروباد ومہ وخورشید وفلک درکاراند     تاتو نانے بکف آری وبغفلت نخوری

ہمہ از بہر و سرگشتہ وفرمانبردار!          شرط انصاف نبا شد کہ توں فرمانبری

ترجمہ:۔ انسان،بادل،ہوائیں ،چاند،سورج،اور آسمان سبھی اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں۔(تمھیں احساس دلارہے ہیں کہ یہ ساری محنت ومشقت اس لئے ہے) کہ تمھیں روزی میسر ہو،اور تم اُسے اللہ تعالیٰ کے احسان کا شکر کئے بغیر نہ کھاؤ۔"

یاد رکھو! کائنات کے (تمام مذکورہ مظاہر) اگر سرگرم عمل ہیں تو تمھارے اگر فرمانبردار ہیں تو صرف تمہارے۔اس کے باوجود اس ذات برحق نے ان سب کو تمہارا فرمانبردار بنایا ہے۔اُس کی فرمانبرداری سے جی چراؤ تو یہ سراسر تمہارا ظلم  اور ناانصافی ہے۔

ابن کثیر ؒ نے کہا ہے کہ یہاں "آسمان" سے مراد بادل ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ضرورت کے وقت بادل سے بارش برسائی،اس بارش سے طرح طرح کی کھیتی اور  پھل نکالے۔یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔اس آیت سے مشابہہ یہ آیت بھی ہے۔

(عربی)

"اللہ ہی تو ہے جس نے زمین کو تمہار ے لئے ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری صورتیں بنائیں اوراچھی صورتیں بنائیں اور تمھیں پاکیزہ چیزیں کھانےکو دیں پس اللہ  پروردیگار عالم بہت ہی بابرکت ہے۔"

مطلب یہ ہوا کہ جب خالق ،مالک،رزاق،اس گھر کا وہی ایک اللہ ہے تو اب اسی ایک وحدہ،لاشریک لہ ،کی عبادت کرنی چاہیے ،نہ کسی اور کی۔کسی غیر کو ہر گز  اس کی عبادت میں شریک نہیں کرنا چاہیے۔صحیحین میں ابن مسعود  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے آیا ہے کہ میں نے عرض کی اے اللہ کے  رسول،(صلی اللہ علیہ وسلم)  اللہ کے نزدیک کون سا گناہ بڑا ہے؟فرمایا،کہ تو اُس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اُس نے تجھے پیدا کیا(عربی) (حدیث) اس طرح حدیث معاذ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  میں ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو جانتا ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟پھر فرمایا:یہ حق ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں ،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں (حدیث) تیسری حدیث میں یوں آیا ہے تم میں سے کوئی شخص یوں نہ کہا کرے کہ:

(عربی)

"جو اللہ نے چاہا اور جو فلاں نے چاہا،

بلکہ یوں کہے:

(عربی)

"جو اللہ نے چاہا پھر فلاں نے چاہا"

 کسی کا چاہنا کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ نہ چاہے۔ جب پہلے اللہ چاہ لیتا ہے تب ہی پھر کوئی بندہ ہی چاہتا ہے۔

چاہا ہم نے ولے نہ چاہا اس نے                         چاہا اس کا ہوا ہمارا نہ ہوا

طفیل بن سنجرہ  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کی لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ آدمی یوں کہے!(عربی) پھر  فرمایا یوں کہو!(عربی) رواہ ابن مردودیہ و ابن ماجہ۔سفیان ثوریؒ کی روایت میں بھی ابن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے یوں آیا ہے کہ ایک آدمی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (عربی) کہہ دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے مجھے اللہ کے برابر ٹھہرادیا ہے؟صرف یوں کہو(عربی) (ابن مردودیہ ،نسائی،ابن ماجہ) ابن کثیر ؒ نے فرمایا یہ سب صاحب توحید کی صیانت  وحمایت ہے ۔فتح البیان میں کہا گیا ہے کہ اس آیت میں دلیل ہے کہ حجت کا استعمال اور تقلید کا  ترک لازم ہے ۔ابن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے فرمایا یہ خطاب"اے لوگو تم اپنے رب کی عبادت کرو" دونوں گروہ کفار اور منافقین سے ہے ،پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ یہ توحید جس کی طرف رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  تمھیں بلاتے ہیں بے شک یہی حق ہے۔پھر اللہ کے برابر کسی دوسرے کو کیوں ٹھہراتے ہو؟ جو نہ تمھیں نفع پہنچا سکتے ہیں،نہ ضرر"انداد" بنانے سے مراد شرک ہے یہ شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے جو اندھیری رات میں کسی سیاہ پتھر پر چلتی ہے۔یہ برابری اللہ تعالیٰ کے ساتھ یوں ہوتی ہے۔کہ آدمی کہے قسم ہے اللہ کی اور تیری جان کی۔یا یوں کہے کہ اگر یہ کتیا یا بطخ۔گھر میں نہ ہوتی تو چور چوری کرلیتے یا کسی سے یہ کہے" کہ اللہ اور تو چاہے گا تو یوں ہوگا"یہ سب اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بعض جاہل ضرورتمند حضرات کسی امیر یا دولتمند سے یوں کہنے لگتے ہیں کہ"اوپر اللہ ہے نیچے تم۔"اس طرح کہنے سے شرک لازم  آتا ہے سننے والا اگر منع نہ کرے تو وہ بھی مشرک ہوتا ہے۔      (جاری ہے)