شہادت جو تمغہءِ سعادت عید بنی
حسب معمول یکم مئی 1990کی نماز فجر مجلس تحقیق اسلامی کی تین منزلہ عمارت کے درمیانے حصہ میں مخصوص جائے سجود میں ماہنامہ"محدث" کے مدیر اعلیٰ حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحب نے پڑھائی۔نماز کے مسنون اذکار سے فراغت کے بعد مجھ سے مخاطب ہوئے!
"آپ کو معلوم ہے مولانا خالد سیف صاحب شہید ہوگئے! انا للہ وانا الیه راجعون"
شہادت کی خبر سننے کا رد عمل خبر سنانے والے کے قلبی تاثرات کی وجہ سے اُس خبر سے بالکل مختلف ہوتا ہے جس کا بھیانک نام "موت " ہے۔
اس لئے کہ شہید کی شخصیت کےلئے اس لفظ کا استعمال کلام الٰہی قرآن حکیم میں (جو ہمارا دستور حیات ہے) منع فرمایا گیا ہے۔
(عربی)
جو اللہ کے راستے میں قتل کردیئے جاتے ہیں انہیں مردے نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمھیں شعور نہیں۔
مگر خبر سناتے ہوئے مدنی صاحب کا اضمحلال ،غم واندوہ اور قلبی اضطراب اتنا زیادہ تھا کہ میں دم بخود رہ گیا۔
اسی اضطرابی کیفیت میں ہی شہید سے اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
انہوں نے ہمارے ہی جامعہ لاہور السلامیہ (رحمانیہ) میں تعلیم مکمل کی تھی پھر یہیں متعلم سے معلم حتیٰ کہ ناظم دفتر بھی رہے۔بڑے ذہین اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل تھے۔اپنے ہاں ہی کلیۃ الشریعۃ سے امتیازی حیثیت میں کامیابی حاصل کی۔"
ابھی میرا ذہن اسلاف میں استاد وشاگرد کے باہم پاکیزہ رشتوں ،محبتوں ،شفقتوں کی روشنیوں سے گزرتے ہوئے دورحاضر میں اس کی جھلک پر مرتکز ہوا ہی تھا کہ مدنی صاحب کے سلسلہ گفتگو نے پھر میری توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔
"میں تو وطن سے باہر تھا لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ خالد صاحب رمضان المعظم میں کافی بیمار رہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق "بیماری مسلمان کے گناہ کا کفارہ ہوتی ہے۔"
گویا خالد صاحب نے پہلے تو بیمار رہ کر اپنے گناہ معاف کروائے پھر رمضان شریف کی طاق راتوں میں مسلسل اللہ رب العزت سے شہادت کی آرزو پوری ہونے کی دعائیں کرتے رہے۔یہی دعائیں اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائیں۔عید سے تین دن پہلے جہاد افغانستان میں شامل ہونے کے لئے روانہ ہوئے۔اللہ نے ان کی مراد پوری کردی اور وہ شہید ہوگئے یہ ان کی عید سعید ہے۔شہادت کا تمغہ پاکر وہ حقیقی خوشی پاگئے عید کے یہی معنی تو ہیں۔۔۔پھر یہ تو ایسی خوشی ایسی لذت کے انسان اسے پانے کے لئے اللہ رب العزت سے بار بار اس دنیا میں لوٹنے کی خواہش کرتا ہے۔شہید کی آرزو ہوتی ہے کہ وہ بار بار شہادت کی لذت سے لطف اندوز ہو۔یہی حدیث میں مذکور ہے۔میں خاموشی سے سب کچھ سن رہا تھا۔دل سوچنے لگا۔شہادت کی لذت کیسی ہوگی؟لطف کیسا ہوگا؟ مسرت کیسی ہوگی؟عقل نے کہا ہے جو بات تیرے بس کی نہ ہو اُسے سوچا نہ کر۔
پھر مدنی صاحب نے اپنا روئے سخن نمازیوں کی طرف کیا۔
"میں نے اس شہادت کی خبر رات گئے اخبارات میں بھجوادی تھی۔اپنے بیٹے حافظ حسین کو چند دیگر نوجوانوں کے علاوہ اپنے یہاں کے بزرگ مولوی احمد دین کےہمراہ اپنی گاڑی میں گوجرانوالہ روانہ کردیا تھا۔کہ شہید کا جسد خاکی سیدھا لاہور لے آئیں۔کیونکہ جامعہ لاہور اسلامیہ(رحمانیہ) ان کی مادر علمی ہے۔اس لئے میرا خیال ہے کہ شہید کا جسد خاکی پہلے جامعہ اسلامیہ میں لایا جائے۔"
اسی دوران ان کی چھوٹی صاحب زادی آئی اور کہا۔ابو فون آیا ہے۔
اس اطلاع نے ان کے اضملال کو فوراً توانائی میں بدلا۔اٹھے مسجد سے نکلے۔ ان کے بعد ہی دوسرے نمازیوں کے ساتھ میں بھی دوسری منزل پہ واقع مسجد سے نیچے صحن میں اتر آیا۔
مدنی صاحب کے ادارہ میں بالکل نووارد ہونے کی وجہ سے میری آنکھیں اور علم دونوں خالد صاحب سے نا آشنا تھے،اس عظیم الشان تعارف نے ان کے بارے میں مزید فکر ی قربت کا شوق بڑھایا۔میں اسی شوق تجسس میں صحن سے ملحق سٹرک پہ نکلا تو مولانا اکرام اللہ ساجد صاحب کے صاحب زادے انعام اللہ صاحب سے علیک سلیک ہوئی میرے استفسار پر انہوں نے بتایا:
محمد خالد سیف صاحب نوجوانوں کو جذبہ جہاد سے سرشار کرنے والی تحریک مجاہدین اسلام کے بانی تھے، اور امیر بھی جامعہ لاہور اسلامیہ کے طلباء کو مارشل آرٹ کی تعلیم دینے میں پیش پیش رہتے تھے۔مختلف روحانی ریاضتوں اور ورزشوں کے علاوہ نشانہ بازی کی بھی تربیت دیتے تھے۔جدید آلات حرب کے بارے میں معلومات حاصل کرنا پھر ان کے استعمال کی مساعی ان کا خصوصی مشغلہ تھا۔اسی بناء پر وہ اپنی چھٹیاں ہمیشہ افغانستان کے مراکز جہاد میں گزارتے۔
دریں اثناء محمد خالد سیف صاحب کے دیرینہ ر فیق پروفیسر مسعود اقبال صاحب نائب مدیر ماہنامہ"نداء الجہاد" بھی تشریف لے آئے۔انہوں نے انعام اللہ صاحب کی گفتگو سے سلسلہ جوڑتے ہوئے کہا:
ابو خالد محمد خالد سیف"شہید"۔۔۔ماہنامہ "الجہاد" جو ڈیکلریشن کے بعد"نداء الجہاد" کے نام سے شائع ہورہا ہے ،کے ناشر بھی تھے ،نگران بھی۔
خالد صاحب کے جذبہ ء جہاد پہ مذید روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا۔محمد خالدسیف صاحب کا اپنا وجود جہاد کی مکمل تحریک تھا۔ان کا خیال تھا کہ وہ مسلمان ہی کیا؟جو اسلام کی عظمتوں کی حفاظت نہ کرسکے!
"لاالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ" کا عہد وپیمان کرنے کے بعد ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ توحید ورسالت سے اپنی وفا کا ثبوت پیش کرنے کےلئے ہر لمحہ ظاہری ومعنوی ہتھیاروں سے مسلح رہے۔نیز دفاع کے تمام اصولوں سے واقف ہو۔جب سے ملت مسلمہ جذبہ جہاد سے تہی دامن ہوگئی ہے بہت سی اقوام عالم نے انہیں باوقار اقوام کی فہرست سے خارج کردیا ہے۔عظمت رفتہ کو پھر پانے کے لئے ایک ہی راہ ہے۔اللہ کی رضا کے لئے مرنا،اللہ کے دین کی عظمت کے تحفظ میں اپنا سب کچھ قربان کردینا۔(عربی)
شہید کا ایک ایک حرف اپنی سچائی کی بناء پر دل میں اتر رہا تھا۔شوق شہادت عظمت جہاد کے اعتراف کے امتزاج سے پیدا ہونے والی کیفیت کی گرفت میں تھا کہ دو رجامعہ رحمانیہ کےلاؤڈ اسپیکر سے یہ اعلان فضاؤں میں گونجا۔
ابو خالد محمد خالد سیف جہاد کا جسد خاکی جامعہ میں پہنچ چکا ہے۔نوجوانان ملت اسلامیہ کے اس گل سرسید محمد خالد شہید کے جسد خاکی کی الوداعی تقریب یہیں سر انجام پائے گی۔
اعلان سنتے ہی میں بھی جامعہ جانے کے لئے مدنی صاحب کے برادر خورد حافظ عبدالوحید صاحب کی گاڑی میں سوار ہوگیا۔وہاں پہنچ تو دیکھا۔جامعہ کے دروازہ پر مجاہدین افغانستان کی ایمبولینس کھڑی ہے۔صحن میں داخل ہوتے ہی مدرسہ کے شفاخانہ کے سامنے برآمدہ میں شہید کے جسد خاکی کے ارد گرد مقامی شخصیات ،طلباء افغانستان کے مجاہد ساتھی دائیں اور بائیں کھڑے تھے۔اللہ کی فوج کےا ن غاذیوں کی وضع قطع اور لباس میں ا پنی انفرادی شان تھی۔آنکھوں میں شباعت وعزیمت اور چہروں پہ جلال وجمال عام روایتی فوجیوں سے یکسر مختلف تھا۔میں ان کے جذبہ ایمان سے متاثر ومرعوب ہوکر شہید کی چار پائی تک پہنچا۔
شہید کا سر سفید رومال سے ڈھکا ہوا تھا۔ پورے جسم پر خاکی رنگ کا کمبل مقدس خون کی پپڑیاں شہید کا بستر بن رہی تھیں۔اور چہرہ خاک وخون سے اٹا پڑا تھا۔
یقین مانیے میں نے اپنی زندگی میں بہت سے مرنے والوں کے چہروں پہ چھائی ہوئی بھیانک خاموشی دیکھی۔مردہ جسموں کو دیکھ کر خوف وعبرت کا احساس میرے دل میں ابھرا لیکن اس شہید کے چہرہ کو دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے اس چہرہ کو مسرتوں کی انجمنوں سے سجادیا گیا ہے اس جسد شہید کو دیکھا تو اسے گلے لگا کر اللہ تعالیٰ سے دل میں ایسی ہی شہادت مانگنے کا احساس جاگا۔
سالک مرحوم کے چند شعر یاد آئے:
مجاہدوں کے بازوئے فلک فگن عجیب ہیں
بہادروں کے پنجہء ہائے تیغ ذن عجیب ہیں
چشم ہائے خوں چکان وبے کفن عجیب ہیں
مجاہد وشہید کے یہ بانکپن عجیب ہیں
حیات بھی حیات ہے موت بھی حیات ہے
شہید کو دیکھ کردل نے کہا۔
تمھیں دفاع واحترام دین کے ذمہ دار ہو۔
جو تم نہ ہوتو اس کی بنا،نااستوار ہو۔
تمہاری تیغ ضامن نظام کائنات ہے!
شہید کے جسد کو ایسی عزت وعظمت کے اعتراف میں ڈوبا ہوا اُن کا ہر رفیق دیکھ رہا تھا۔
اسی اثناء میں حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحب نے شہید ک چہرہ سے محبت کے ساتھ رومال ہٹایا اور اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا۔۔۔یہ موت نہیں ۔یہ تو بڑی رشک کی زندگی ہے ۔شہید کا تو جنازہ نہیں ہوتا۔کفن بھی نہیں ہوتا۔
شہید کے خون کی خوشبو تو اللہ تعالیٰ کی کستوری کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے"
مدنی صاحب اس عالم باعمل کے بارے میں جسے انہوں نے مسلسل ایک سال نہیں دو سال نہیں تقریباً 8 سال تک زیور علم سے آراستہ کیا تھا۔اور اپنے جامعہ کے طلباء میں جذبہ جہاد منتقل کرنے کی دن رات تربیت دی تھی۔
حاضرین کو والہانہ انداز میں شہید کے سینے میں لگی ہوئی گولی کے گھاؤ کو دیکھا کر ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کررہے تھے۔
یہ دیکھئے انہوں نے دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ بسینہ مقابلہ کرتے ہوئے شہادت پائی ہے اللہ ایسی نعمت عظمیٰ سے ہر ایک مسلمان کو سرفراز فرمائے۔
وہ نعمت عظمیٰ جس کی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواہش کی۔
ایسی نعمت عظمیٰ جس کے بارے میں صادق ومصدوق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
جنتی جنت میں داخل ہوکر بھی ایسی نعمت کو پانے کی تمنا کرتا ہے۔
شہید خالد کو کفن کی ضرورت نہیں مگر۔۔۔ایک دو چادریں سر اور قدم ڈھانپنے کے لئے ہم ڈال دیں تو ہرج کیا ہے؟"
انہوں نے ناظم جامعہ مولانا یوسف صاحب کو لٹھا لانے کے لئے کہا۔اس اثناء میں جناب شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ صاحب اور پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب بھی تشریف لے آئے۔ہر آنے والا شہادت کے واقعاتی پس منظر کی تفصیل کا خواہاں شہید کے رفیق جہاد ذاکراللہ صاحب سے محو گفتگو ہورہاتھا۔کہ شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب نے بلند آواز میں فرمایا ۔شہید کے جسد خاکی کو جلس سے جلد آخری مستقر کے سپرد کرنے ان کے آبائی گاؤں میں بھیج دینا چاہیے۔
اس دوران ناظم صاحب لٹھا لے آئے۔مگر وہ چوڑائی میں کم تھا۔ یکا یک مدنی صاحب کو احرام کے ان کپڑوں کا خیال آیا۔جس میں انہوں نے عمرہ کیا تھا۔ اپنے صاحب زادے حافظ حسن کے ذریعے منگوائے ایک خون کے بستر کے نیچے بچھایا۔دوسرا شہید کو اوڑھایا۔
پاس کھڑے ہوئے ابوخالد محمد خالد سیف شہید کا بھائی بے قابو ہو کر رویا تو لوگوں نے کہا۔بھائی ر و نہیں۔ تمہارے لئے تو بڑی خوشی کی بات ہے کہ تم شہید کے بھائی ہو۔مدنی صاحب نے جملہ پورا کرتے ہوئے کہا اور شہید بھی ایسا جس نے دشمنوں سے روبرو مقابلہ کرتے ہوئے سینہ پر گولی کھائی ہے۔مگر آنسو آنا تو طبعی بات ہے۔بالکل طبعی۔اس کے ساتھ ہی ان کی آواز بھرائی پلکوں پہ ہلکی سی نمی نے خود ان کے دل کی کیفیت بیان کردی۔
شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ صاحب نے پھر جسد شہید کو اس کے مستقر تک جلد پہنچانے کی یاد دہانی کرائی۔
اب شہید کی چارپائی کندھوں پہ تیرتی ہوئی مسجد کےصحن سے گزر کر اُس منبر کے سامنے فرش پر رکھی گئی۔جس منبر پر کھڑے ہوکر شہید نے کئی دفعہ جہاد کی فضیلت بیان کی،شہادت کی عظمتیں بیان کیں۔آج وہ سب کچھ زبان حال سے اسی منبر کے سامنے وہی سب کچھ اپنے عمل کی زبان سے دُہرا رہاتھا۔
شیخ الحدیث صاحب سے مدنی صاحب نے دعا کرنے کے لئے کہا۔
حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب نے حاضرین سے مخاطب ہوکر کہا۔ابوخالد محمد خالد سیف پر اگر کسی کی رقم واجب الادا ہوتو وہ لے لے،میں سب سے پہلے اپنی رقم معاف کرتا ہوں۔جو شہید پر واجب الادا تھی۔
حاضرین نے بھی شیخ الحدیث کے حسن عمل کو اپنایا،اس کے بعد شیخ الحدیث سرپرست تحریک مجاہدین اسلام حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب نے وہی دعائیں مانگیں ،جو نماز جنازہ میں پڑھی جاتی ہیں۔ہر آنکھ آنسوؤں سے بھیگی اور مسجد"آمین" کی آوازوں سے بار بار گونجی۔
دعا کے بعد شہید کے جسد خاکی کو پھر اسی ایمبولینس میں سوا ر کیا گیا جس میں مجاہدین انھیں محاذ جنگ سے لائے تھے۔
ان کے ساتھ حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحب،شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب،حافظ محمد سعیدصاحب،مولانا یوسف ناظم جامعہ اور دوسرے معززین بھی سوار ہوئے مگر اس سے پہلے مجھے پروفیسر مسعود اقبال صاحب نے خالد صاحب کے رفیق جہاد جناب غاذی ذاکراللہ صاحب سے اسی شام مذید معلومات فر اہم کرنے کے لئے تحریک مجاہدین اسلام کے دفتر میں ملاقات کا وقت لے دیا۔اور یہ بھی بتایا کہ "شہید" کو ایمبولینس جس گاؤں (سمبلہ خورد) لے جارہی ہے۔ وہاں ان کی ڈیڑھ سال پہلے بیاہی بیوی چند ماہ کی بیٹی(طوبیٰ) والد اور والدہ کے علاوہ گاؤں کے لوگ منتظر ہوں گے۔
اسی اثناء میں ایمبولینس جامعہ رحمانیہ کی حدود سے نکل کر نگاہوں سے اوجھل ہوچکی تھی۔میں سوچنے لگا جواں سال شہید کے استقبال کاعجیب منظر ہوگا۔گاؤں والے ہوں گے آنسوہوں گے کہ تھمتے ہی نہیں ہوں گے والد کو اپنے جوان بیٹے کی شہادت پر فخر تو ہوگا۔مگر شفقت پدری کے آنسوؤں کو کون روک سکے گا۔صبر وتحمل کی چادر اوڑھے بیوہ بیوی چند ماہ کی بچی گود میں لئے شہید کو خراج تحسین تو ادا کرے گی۔لیکن طبعی تقاضوں کے طوفانوں کو کون تھامے گا۔ اور پھر انسانی زندگی کے تمام رشتوں سے افضل ترین رشتے ماں کے دل کی کیفیت کا خیال آتے ہی ایسی ہی ایک ماں کی شان میں کہے ہوئے ماہر القادری کے شعر یادآگئے۔
غم زدہ بھی ہے شادماں بھی ہے شعلہ گل بھی ہے دھواں بھی ہے
مطمئن بھی ہے سوگوار بھی ہے کچھ خزاں بھی ہے کچھ بہار بھی ہے
دل میں بیتے کا داغ رکھتی ہے آسماں پر دماغ رکھتی ہے
حق پر قربان ہوا ہے نور نظر ناز کرتی ہے اپنی قسمت پر۔!
کیا ضرورت ہے اس کو پُرسے کی ہے یہ ماں ایک شہید بیٹے کی!
مگر دل نے کہا یہ تو صرف انسان کی سوچیں ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ انسانی سوچ اور خیالوں کی حدوں سے بہت دور شہید تو بارگاہ الٰہی کی تجلیات میں پہنچ چکا جنتیوں کی آفرین کہتی نگاہوں سے فیض یاب ہوچکا۔حوروں سے حبذا،مرحبا کے نغمے سن بھی چکا۔
غرض کچھ ایسے ہی خیالوں میں وقت گزرا۔ظہر گزری،عصرگزری،اور پھر مغرب کی نماز کے بعد راقم جناب پروفیسر مسعوداقبال صاحب کے ساتھ تحریک مجاہدین اسلام کے مرکزی دفتر میں موجود تھا۔
تحریک مجاہدین اسلام:
دفتر تحریک مجاہدین اسلام کی اپنی ہی شان تھی۔اس کا اپنا ہی جلال تھا۔ایک چھوٹا سا کمرہ،کرسیوں کی جگہ چٹائیاں ،صوفوں کی جگہ صاف فرش، آرائشی سامان کی جگہ سادگی کا حسن اس دفتر کا نہ کوئی دربان تھا نہ روک ٹوک!
یہاں کمرہ میں چند نوجوان تھے سادہ سا لباس ،مشرع چہرے سچی مسکراہٹیں بے لاگ گفتگو ،جو تحریک مجاہدین اسلام سے متعلق تھے۔
اور تین صحافی۔ان کا تعلق اسلامی صحافت سے ہے۔ان کی آنکھوں میں صحافت کی رغونت نہیں بلکہ اسلامی اخوت ،لباس،اور چہرہ سب پر نظر پڑھتے ہی دل بے ساختہ کہہ اٹھے یہ سب محمد ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانبرداروں میں سے ہیں۔ان کے جرائد میں اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے عنوان ان کے جرائد میں دین حق کی خاطر قربان ہونے والوں کی عزیمت وعظمت کے تذکرے۔
ذاکراللہ صاحب "شہید" ہی کے بارے میں دوسرے صاحبان سے بات چیت کررہے تھے۔ اس لئے ان سے ہم کلام ہونے کے درمیان مجھے وقفہ ملا۔تو میری نگاہیں کمرے میں موجود شخصیتوں میں کسی ایک ایسے صحافی کو تلاش کرنے لگیں۔جس کا تعلق ان اخباروں یا جریدوں سے ہو جن کے ہاتھوں میں آجکل عوام کے ذہن وافکار کی باگ ڈور تسلیم کیجاتی ہے۔شاید ان ہی سے کوئی ایک جوہر بات کو عوام تک پہنچانے کوفن صحافت سے انصاف کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔یہاں اس خیال سے آیا ہو کہ اس شہید کی شہادت کے اصل مقصد(عربی) کی تفصیل لکھ کر اسلام دشمنوں کے غلط پروپیگنڈہ کی تردید کرے لوگوں کو بتائے کہ آئین الٰہیہ کی بالادستی کے لئے اپنی جان قربان کرنے والے اس شہید کی عزیمت وعظمت کی رواداد یہ ہے۔لیکن افسوس ان میں سے کسی کو بھی صحافت سے انصاف کرنے کا خیال نہیں آیا۔میرے دل نے کہا کیا فرق پڑتا ہے۔ سچائی وکالت اور دلیل کی محتاج نہیں ہوتی۔بلکہ خود اپنی دلیل آپ ہوتی ہے۔ افغانستان کی تاریخ مجاہدین اسلام نے اپنے خون سے لکھ دی ہے۔جس کا عنوان بھی ہمیشہ تابندہ رہے گا۔دنیا کی سب سے بڑی بری،بحری، فضائی قوت روس پر مومن کا جذبہ ایمان غالب ہے ۔مومن اگر ثابت قدم رہے ہمت شکستہ نہ ہو اللہ کے سوا کسی اور سے خوفزدہ نہ ہو تو اس کی سربلندی لازم ہے۔شہیدوں کے قافلوں نے ثابت کردیا اللہ کے وعدے سچے ہیں،عزت،عظمت،بزرگی اور بڑائی صرف اللہ کے لئے ہے۔
اچانک زاکر اللہ صاحب نے مجھے اپنی طرف مخاطب کرتے ہوئے روادادشہادت بیان کرنا شروع کی۔
رواداد شہادت:
ہمارا قافلہ 26 رمضان المبارک کی صبح کو افغانستان کیطرف روانہ ہوا ۔27 رمضان المبارک کی شام کو ہم اسلام آباد کے مغربی جانب قائم معسکر پہنچ چکے تھے۔جہاں تحریک مجاہدین اسلام کے بہت سے رفقاء پہلے ہی موجود تھے۔انہوں نے اپنے امیر ابو خالد (کنیت) محمد خالد سیف کا استقبال کیا۔گویا اب ہم وہاں تھے جہاں گیارہ برس سے زیادہ عرصہ گزرا ملحدروسی فوجیں اور ان کے ساتھیوں کا ملحد ٹولہ سب سے زیادہ خطرناک زہریلے گیس،بم اور آگ برسا رہا ہے۔
وہ اقلیم شہادت افغانستان جہاں آئین الٰہیہ کی بالادستی کو ماننے والے مجاہدین نے الحاد کے طوفان کو روکنے کے لئے 15لاکھ سے زیادہ شہادتوں کے نذرانے پیش کئے ہیں۔
وہ افغانستان جہاں اس دور میں بھی مجاہدین اسلام نے غزوہ بدر واحد وحنین کے جذبہ ایمان و شہادت کی یادیں تازہ کی ہیں۔ہم نے نماز مغرب اسی افغانستان میں ادا کی جہاں اب تک حق وباطل کا معرکہ جاری ہے اور آپ جانتے ہیں کہ:
نہ مسجد میں نہ بیت اللہ کی دیواروں کے سایہ میں
نماز حق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سایہ میں
27 رمضان المبارک کی رات سے خط اول پہنچنے کے درمیان کا عرصہ ہمارے امیر محمد خالد سیف پر کتنا گراں تھا۔میں اُس کی کیفیت بیان نہیں کرسکتا وہ ہر دوسری بات یہی کہتے ہیں:۔
میں یہاں اپنی بوڑھی ماں باپ سے اجازت لے کر خط اول پہ پہنچنے اور دشمنان اسلام سے مقابلہ کرنے کے مقصد سے آیا ہوں۔میں نہیں دیکھ سکتا کہ دشمنان اسلام کے ناپاک قدم مسلمانوں کے اس ملک میں چلیں پھریں میں اپنی چند ماہ کی بیٹی ،اور بیوی کو اللہ کے سپرد کرکے اللہ کی راہ میں شہادت پانے کے لئے آیا ہوں۔مجھے جس قدر ممکن ہو خط اول پہ پہنچایا جائے تاکہ میری کاشنکوف ہو اور دشمنان دین کے سینے۔
ایسی ہی بے چینی اور شوق شہادت لئے خالد سیف معسکرطیبہ میں پہنچے ہفتہ کے روز معسکرطیبہ سے گلی صبح وہ صبح جو خالد سیف کی تمناؤں کی صبح کہیں تو غلط نہ ہوگا۔عربوں کے معسکر کی زیر امارت غاذیوں کے اس قافلے کو ایک جیپ پر سوار ہونے کا حکم دیا گیا۔جیپ میں اگلی سیٹ پر خالد صاحب کو بٹھایا گیا۔جیپ اب خط اول کی طرف رواں دواں تھی۔کہ اچانک خالد سیف نے جیپ روکنے کے لئے کہا۔جیپ رکی اور خالد سیف صاحب جیپ کے پچھلے حصہ میں چلے گئے۔جو کھلاتھا اورسوار پر گردوغبار پڑتی تھی۔
ہم نے انہیں سامنے کی نشست پر بیٹھنے کے لئے اصرار کیا تو کہنے لگے آپ لوگوں کو معلوم نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔اللہ کی راہ میں چلنے والے مسافر کے جسم پر پڑی گردوغبار اور جہنم کی آگ دونوں جمع نہیں ہوسکتیں۔"
اس جواب کو سن کر کس کو مجال گفتگو ہوسکتی تھی۔ہم سب بھی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کے خواہاں سپاہی تھے۔جیپ چلی۔اوراُسی دوپہر ہم خط اول کے محاذ پر پہنچ گئے۔ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے کے بعدقادسیہ کے محاذ کے لئے سب سے پہلے نام پیش کرنے والے محمد خالدسیف تھے۔تقریباً 400یا500 فٹ بلند پہاڑ "حطین"پہ رات کو پہرہ دینا ان کی ذمہ داری طے پائی۔ایک گھنٹہ چڑھائی کے بعد دور بین سے آس پاس کاجائزہ لیتے ہوئے جب خالد سیف کی نگاہیں جلال آباد پر رکیں۔تو انہوں نے اپنے پاس کھڑے امیر سے پوچھا جلال آباد تو سامنے ہے آپ حملہ کیوں نہیں کرتے؟امیر نے جواب دیا ہم حملہ کرسکتے ہیں اور بفضل الہٰ فتح بھی کرسکتے ہیں مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔خبردار دشمنوں کے بچوں ،عورتوں اوربوڑھوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا یا جائے اس حکم کی تعمیل ہمیں اپنی جان اور کامیابی سے زیادہ عزیز ہے۔
خالدسیف خاموش ہوگئے۔ اور پھر جس کے دل میں ہر وقت اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ جاگ رہا ہو۔۔۔وہ کچھ بول بھی کیسے سکتا ہے۔
خالد نے کلاشنکوف لی اور اپنی پوزیشن سنبھال لی۔عصر کے وقت سے دشمنوں نے گولہ باری شروع کردی تھی۔جیسے جیسے اندھیراچھانے لگا ویسے ویسے ان کی گولہ باری میں اضافہ ہونے لگا۔رات بھر تاحدنظر ۔چاروں طرف آگ دھواں ،شعلوں کے سوا کچھ نہ تھا۔اور پھر سحر سے پہلے ہمیں حکم ملا دشمن نشست کی طرف سے بڑھ رہا ہے پہاڑ سے اتر آؤ۔
حکم کی تعمیل ہوئی۔ہم دشمن کے نرغہ میں تھے۔حطین کے دامن میں پہنچنے کے بعد دشمن کی فوجیں ہماری سامنے تھیں وہ تعداد میں بھی زیادہ تھیں۔حسب معمول وہ مادی سامان حرب میں بھی زیادہ مگر ہمارے جزبہ وایمان کے سامنے وہ انتہائی کمزور چیز نظر آرہی تھیں۔
ابو خالد محمد خالد سیف کے ساتھ ہم نے داؤ باغ کی ایک جگہ کو نئے مورچہ کے لئے نگاہوں ہی نگاہوں میں چن لیا۔اور دشمن کی نگاہوں سے ان کی گولیوں کی بوچھاڑوں میں گزرے۔
درختوں کی آڑھ میں محاذ کے امیر کی ہدایات کے مطابق دس دس فٹ کا فاصلہ چھوڑ کر ہم دس مجاہدین نے اپنی اپنی نشست سنبھال کر دشمن پرگولیاں پر گولیاں برسانا شروع کردیں۔
ہمیں یقین ہے ہم نے بہت سے د شمنوں کو ہلاک کردیا۔مگر اس اثناء میں ایک گولی ۔خالد سیف صاحب کے دل پہ لگی۔میں نے صرف اتنا دیکھا کہ سیف صاحب کے ہاتھوں سے کلاشنکوف گری ہے۔میں دشمن سے نگاہ بھی نہیں ہٹا سکتا تھا۔مگر مجھے محاذ کے عرب امیر نے حکم دیا۔
ابو خالد کو دیکھو شایداُسے گولی لگ چکی ہے۔
میں نے حکم کی تعمیل کی دیکھا تو خالدسیف کی گردن ڈھلک چکی تھی کلاشنکوف پاس گری ہوئی تھی۔میں نے انہیں آواز دی تو ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ میری کلاشنکوف کہاں ہے؟
میں نے ان سے کہا۔کلاشنکوف ہے ۔حالت کی نزاکت کے تحت مجھے ان کو کندھوں پراٹھا کر ان کی فوری طبی امداد گاہ پر لے جانے کاحکم دیا گیا۔میں نے کندھوں پر اٹھایا۔لہو کے فوارے میری پشست سے ہوتے ہوئے میرے قدموں تک پہنچے۔اور پھر ایمبولینس تک پہنچتے ہوئے خالد سیف نہ معلوم اپنے اللہ سے کیا باتیں کرتے ہوئے خاموش ہوگئے ہمیشہ کے لئے خاموش ان کی رمضان میں مانگی ہوئی دعائیں قبول ہوئیں شوق شہادت نے کامیابی کو چوما۔(عربی)
یقیناً۔اس وقت وہ منکرنکیر ۔قبر۔عالم برزخ۔قیام حشر ۔پل صراط اور نہ جانے کون کون سی منازل سے بے خوف گزر کر سبز پرندوں کے لباس میں مقامات اعلیٰ پر تجلیات الٰہی میں مسند نشین ہوچکے۔رواداد شہادت ختم ہوئی۔
شہادتوں کی بارات:
اس شہادت کی جلو میں سر شام آسمان پر چمکتے ستاروں کی طرح 11 سال سے ترتیب پانے والے شہدائے کرام کی بارات تھی۔اس بارات کو دیکھ کر میرا دل چاہ رہا تھا کاش میرا ہاتھ ہو۔اور لینن۔سٹالین۔کارل مارکس۔ٹالسٹاتی ،چیخوف اور ان کی فکر اولاد کا گریبان ہو جو برسوں سے اپنے ایک ہاتھ میں جدید مہلک ترین ایٹمی ہتھیار اور دوسرے ہاتھ میں قلم لئے۔دنیا بھر کے انسانوں کو یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کہ تمام آسمانی کتابیں،انبیاءؑ اللہ عزوجل اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آئین قرآن وحدیث(نعوذ باللہ) ڈھونگ ہے بلکہ یہ سب ظالم جابر بادشاہوں،استحصالی جاگیرداروں،اورسرمایہ داروں کا پیدا کردہ ہے۔جو عوام کو اس ظالم طبقہ کے ظالمانہ نظام کے تختہء مشق بننے کا عادی بنانے میں افیون کا اثر رکھتا ہے۔میں ان سے پوچھوں۔
بتاؤ ان شہیدوں میں سے کون ہے جس نے کسی بادشاہ ،کسی جاگیردار یا وڈیرے سے دولت زمین،جاگیر ،منصب یا عہدہ حاصل کرنے کےلئے اپنی جان قربان کی ہو۔؟
ثابت کرو ان میں سے کسی ایک نے بھی کسی ظالم یا جابر کو خوش کرنے یا اپنے پسماندگان کو مراعات دلانے کے لالچ میں تمہارے پٹھوؤں اور تمہاری فوجوں سے ٹکر لی ہو؟
تم ایسا ثابت نہیں کرسکتے لیکن ہر شہید کے خون کا ایک ایک قطرہ ثابت کرتاہے۔کہ تمہارے تمام الزام جھوٹے ہیں تمہارے سارے خیال غلط ہیں۔
تم جھوٹے نہ ہوتے تو تمہاری فوجوں کو شکست فاش نہ ہوتی تم غلط نہ ہوتے تو نہتے مجاہدین کے ہاتھوں ذلیل نہ ہوتے۔سچ یہ ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آئین کی حکومت قائم کرنے کے لئے گیارہ سال سے صرف افغان مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کا مسلمان اس جہاد حق وباطل میں شامل ہے۔ان میں سے کسی ایک کو بھی ایک انچ زمین کی تمنا نہیں۔ان کےجہاد کا مقصد صرف ہر ظالم وجابر حکمران انسان کے مضبوط ہاتھ توڑنا ہے اور دنیا میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عدل واحسان کی حکومت قائم کرنا ہے۔ہر ملحد وفاسق قوت کو پاش پاش کرنا ہے۔ان میں سے ہر ایک اپنی جان مال اپنی اولاد اور پسماندگان کا سودا اپنے اللہ سے کرچکا ہے۔
اُس اللہ سے جو ساری کائنات کا خالق ہے۔جو تمہارا رب بھی ہے۔جس کے ہاتھ میں تمہاری بھی زندگی اور موت ہے۔اب بھی توبہ کرلو۔تم بھی مسلمان ہوجاؤ۔اور دنیا میں دین اسلام کا امن وسکون بخش معاشرہ قائم کرنے کا سبب بن کر اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرو سچائی کو ماننا سب سے بڑی جرائت ہے ۔اور سب سے بڑی سچائی یہی ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہی ساری عزتیں اور عظمتیں ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ ایک دن فتح اس سچائی کی ہوگی اور افغانستان میں کلمہ طیبہ کا پرچم لہرائے گا۔اور ضرور لہرائے گا۔آمین ثم آمین۔