سیکولرز اورنفاذ شریعت
ڈیڑھ دو سال سے پاکستان جس رخ جارہاہے۔ اس میں یہ بات حیرت ناک ہے کہ ملک میں سرکاری سطح پر نفاذ شریعت کی پیش رفت ہورہی ہے۔مثلاً ان دنوں نفاذ شریعت بل1990ء(جسے 13مئی کو سینٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے) کے علاوہ ملک کے مالیاتی قوانین کے وفاقی شرعی عدالت کے دارہ اختیار کے تحت آنے کا مسئلہ اور تعزیرات پاکستان کی 299 سے 338 تک چالیس دفعات کے غیر اسلامی قرار پانے کا مسئلہ حکومت کے لئے سنجیدہ صورت اختیار کر گئے ہیں۔حکومت کا ظاہری رویہ تو ا ُن کے بارے میں مثبت نہیں۔تاہم کیا مشکل ہے کہ اگر جمعے کے چھٹی اور شراب کی بندش کے قوانین کے علاوہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم پیپلز پارٹی کے دور اول میں پاس ہوگئی تھی۔جبکہ شریعت بل جو جنرل ضیاء الحق کے دور میں اُن کی حکومت ہی کی مخالفت کی وجہ سے سینیٹ سے بھی پاس نہ ہوسکا۔لیکن وہ اب سینیٹ کے مرحلہ سے گزر گیا ہے۔تو شاید اگلے مراحل میں بھی کامیابی حاصل کرجائے۔مگر اُس کے لئے وہی د باؤ پیدا ہونا ضروری ہے۔جو 1974ء میں قادیانیوں کے خلاف مسلم اتحاد کی صورت میں سامنے آیا تھا۔لہذا ہم بالخصوص نفاذ شریعت کی دعوایدار جماعتوں مثلاً متحدہ شریعت محاذ ،علماء کونسل اور اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل مذہبی جماعتوں کے علاوہ جملہ دینی حلقوں سے بھی امید رکھتے ہیں۔کہ وہ ا پنے فروعی اختلافات سے قطع نظر تمام مساعی کو متحدہ طور پر مربوط کریں گے تاکہ سیکولرازم کی سازشوں سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔اس سلسلہ میں سیکولر عناصر کے دو حربے معروف ہیں۔جو وہ قیام پاکستان کی تحریک سے برابر ایسے مواقع پر استعمال کرتے چلے آرہے ہیں:
اول نفاذ شریعت کو ناکام کرنے کےلئے مسلمانوں کے فقہی اختلافات کو اجاگر کرکے اُن کا انتشار باورکرانا،دوسرے صنف نازک کو اس کے خلاف ابھارنا کہ شریعت کے نفاذ سے اُس کے حقوق متاثر ہوں گے۔سیکولر حلقوں بشمول وفاقی حکومت کے وزراء کی طر ف سے اس طرح کی بیان بازی شروع بھی ہوگئی ہے۔جس میں مذکورہ بالا شوشوں کے علاوہ آئین کے ساتھ شریعت بل کے ٹکرانے کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔حالانکہ سینیٹ ایک آئینی ادارہ ہے۔اس بات میں اگر کوئی ون ہوتا تو وہاں اراکین سینیٹ کو قائل کیا جاسکتا تھا۔
صدر مملکت کا اس پر تبصرہ بڑا اہم ہے۔کہ سینیٹ سے پاس ہونے والا بل غیر آئینی کیسے ہوسکتا ہے؟باقی رہا شریعت کی بالا دستی اور آئین کے ٹکراؤ کا مسئلہ تو اول پاکستان جیسے ملک میں جس کی وجو ہی کلمہ طیبہ"لاالہٰ الااللہ محمد رسول اللہ" کا مرہون منت ہو۔ایسی بات ریاست کے بنیادی نظریے کے خلاف ہے۔
دوسرے بالفرض اگر شریعت بل کی تفصیلات میں کوئی بات دستور سے ٹکراتی ہو یا اس پر اضافہ وترمیم ہوتو اس کا جواب یہ نہیں ہوسکتا کہ شریعت کا نفاذ نہیں ہونا چاہیے۔بلکہ ایسی صورت میں شریعت بل جو عام قانون ہی بنے گا۔سے بڑھ کر آئینی ترامیم کے لئے تیار رہنا چاہیے۔تاکہ مملکت خداداد میں اس کا بھیجا ہوا دین اسلام اپنے مکمل تقاضوں کے ساتھ نافذ ہوسکے۔
جہاں تک حقواق نسواں کا مسئلہ ہے اس کے بارے میں اتنی بات ہی کافی ہے کہ اللہ کا دین مرد وعورت کی ایسی تفریق نہیں کرتا کہ وہ دونوں میں کسی صنف کے حقوق کا استحصال کرکے دوسرے کو ظلم کی اجازت دے یہ رب العٰالمین کے انصاف کے خلاف ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔(عربی)(آل عمران/195) مردوزن ایک دوسرے سے ہیں۔دوسری جگہ ارشاد ہے:۔
(عربی)
"نیک عمل جو کوئی بھی کرے ۔خواہ مرد ہو یا عورت۔بشرط یہ کہ ایمان والا ہوتو ہم اسے پاکیزہ زندگی دیں گے۔"
پاکستان کے مخصوص حالات میں ہمارے نزدیک نفاذ شریعت میں قابل توجہ مسئلہ فقہی اختلافات کا ہے۔جس کی بناء پر سوئے اتفاق سے دنیا بھر میں برصغیر پاک وہند فرقہ وارانہ تعصبات میں نمایاں ہیں۔گویا اسے اب بھی انھیں نزاعات میں الجھایا جاسکتا ہے۔اگرچہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ فرقہ وارانہ تعصبات بھی افرنگی سامراج کا تحفہ ہیں جو سیکولرازم کا دعوے دار تھا۔یعنی ہند پر انگریز حکومت سے قبل مسلمان حکومتوں کے ادوار میں کوئی بریلوی تھا نہ دیوبندی۔ اسی طرح وہابی سنی کی کوئی تفریق نہیں تھی۔بلکہ شیعہ سنی بھی باہم دست وگریبان نہ تھے۔یہ سارے فرقے نہ صرف سامراج کے پیدا کردہ ہیں بلکہ اسی فرقہ وارانہ جنگ کےلئے انگریز کا خود کاشتہ پودا قادیانیت معرض وجود میں آیا۔تاہم مسلمانوں کی اہم متاع ،کتاب وسنت جو اُس کا بنیادی دستور وقانون بھی ہے۔ہمیشہ ا ُن کے اتحاد کی علامت رہی ہے۔چنانچہ آج بھی جملہ مکاتب فکر اپنی اپنی فقہ کی اصل نہ صرف قرآن و سنت کو قرار دیتے ہیں بلکہ شیعہ سنی دونوں کی مشترکہ اساس بھی یہی ہیں۔سنی کا تو لفظ ہی سنت سے ماخوذہے۔شیعہ بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں۔اور اسی بناء پر کچھ عرصہ قبل تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی طرف سے مینار پاکستان پر "کتاب وسنت" کا نفرنس بھی کی گئی۔اسی مناسبت سے یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے۔کہ 1985ء میں جب شریعت بل سینٹ میں پیش ہوا تو اس پر متعدد آراء اوراختلافات سامنے آئے جو در اصل سرکار ہی کی تدبیر کا شاخسانہ تھے تاکہ شریعت بل پاس نہ ہوسکے۔لیکن اس کے جواب میں کچھ مخلصین کی طرف سے مفاہمت کی ایسی مساعی بھی ہوئیں کہ مختلف مکاتب فکر کے نمائندوں نے مناسب ترمیمات کرکے ایک متفقہ مسودہ تیار کرلیا۔جس پر پہلے سنی مکاتب فکر اکھٹے ہوئے پھر اسی ترمیمی شریعت بل پر ا تفاق کے لئے وفاق علمائے شیعہ کے مرکز"جامعۃ المنتظر"ماڈل ٹاؤن سے رابطہ کیا گیا۔چنانچہ چند نشستوں میں شیعہ سنی سابقہ مفاہمتوں کی روشنی میں جو قرارداد مقاصد اور 31علماء کے 22 نکات کی شکل میں منصہء شہود پر پہلے آچکی تھیں اس اساس کو تسلیم کیا گیا۔جو قرآن وسنت کی صورت میں دونوں میں موجود ہے۔لہذا شریعت بل میں بھی شریعت کی اسی تعریف کی بناء پر اکتفاء کیا گیا کہ وہ کتاب وسنت ہی ہے۔لہذا جس طرح علماء کے بائیس نکات پر شیعہ اکابر مفتی کفایت حسین اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے بانی مفتی جعفر حسین کےدستخط تھے۔اسی طرح جامعۃ المنتظر کے اکابر نے شریعت بل پر دستخط کئے۔اخبارات نے اس اتفاق کو نمایاں شائع بھی کیا۔
حاصل یہ ہے کہ نفاذ شریعت یا بالفاظ دیگر کتاب وسنت کی بالا دستی مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔اس پر کسی کا اختلاف نہیں ۔شریعت بل پر اختلاف شریعت سے انحراف کی بناء پر نہیں ہے بلکہ اس سلسلہ میں اصل وجہ سوئے اتفاق سے عالمی سطح پر شیعہ سنی دو بلاکوں کی تقسیم ہے۔جسے سرخ وسفید سامراج اپنی سازشوں سے قائم رکھے ہوئےہے۔پاکستان کی حالیہ مرکزی حکومت کے رجحانات واضح ہیں۔نیز وہ اپنے سیکولر دوستوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔
مذکورہ شریعت بل جولائی 1985ء میں جمیعت علمائے اسلام کے دو سینیٹروں کی طرف سے پیش کیا گیا تھا اُس وقت سے لے کر پانچ سال کے عرصہ میں جہاں جنرل ضیاء الحق ؒ کی حکومت اور سرکاری پارٹی مسلم لیگ سے لے کر مختلف دینی جماعتوں کی طرف سے متعدد مسودہ ہائے شریعت بل پیش کئے جاتے رہے۔وہاں شریعت بل کی حمایت ومخالفت میں خود جنرل ضیاء الحق ؒ کی شخصیت بھی ایک اہم وجہ اختلاف تھی۔جنرل ضیاء الحق ؒ ہمہ مقتدر تھے ۔اگر وہ 1988ء میں شریعت آرڈیننس کے ذریعہ سے عام قانون سے بڑھ کر آئین کا حصہ بن سکتا تھا جس سے جس سے یہ سوا ل بھی ختم ہوجاتا کہ اس کا آئین سے کوئی ٹکراؤ ہوسکتا ہے۔لیکن یہ نہ ہوا بلکہ سیاسی وجوہ سے جنرل ضیاء الحق ؒ کی حمایت ومخالفت میں تقریباً جملہ دینی جماعتیں کئی کئی د ھڑوں میں بٹ گئیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر ایک دھڑا کسی موقف کی تائید کرتا تو دوسرا اس کی مخالفت اپنا فرض منصبی سمجھتا۔شریعت بل پر اختلافات بھی اُسی کا شاخسانہ تھے۔لیکن آج کل حالات میں جوسیاسی تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ اب جنرل ضیاءالحق ؒ کے نفاذ شریعت کے دعووں کے بالمقابل جمہوریت ک نعرے ہیں۔اور اس جمہورت کے دور میں پیپلز پارٹی کے اقتدار کے باوجود پارلمینٹ کو عوام کی نمائندہ قرار دیا جارہا ہے۔لہذا اگر شریعت بل پارلمینٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس ہوجاتا ہے تو اسے عوام کی مرضی قرار دیا جائے گا۔شاید اسی بناء پردینی جماعتوں میں جو خوش کن رجحانات پیدا ہوئے ہیں۔اس کے نتیجہ میں شریعت بل اُن کا باہمی اختلافی معرکہ نہیں رہا۔بلکہ اب دینی جماعتوں کے مختلف دھڑے بھی شریعت بل پر مجموعی طور پر متفق نظر آتے ہیں۔
جمیعت علمائے اسلام (درخواستی گروپ) کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن گروپ بھی شریعت بل کی حمایت میں ہم آواز ہے تو جمیعت اہل حدیث کے لکھوی گروپ کے ساتھ علامہ احسان الٰہی مرحوم کا گروپ شریعت بل کی حمایت کررہا ہے۔اسی طرح جمیعت علمائے پاکستان کے نو تشکیل شدہ دونوں دھڑے نورانی گروپ اور نیازی گروپ فی الجملہ شریعت بل کی موئید ہیں۔
شریعت بل پر یہ اجمالی اتفاق سیکولرازم کی پیش کردہ مسلمانوں کے مذہبی اختلافات کی گھناؤنی تصویر کا ایک مثبت جواب تو ہے لیکن خطرے کی ایک جھلک ابھی بھی موجود ہے۔جو مذکورہ بالا جماعتوں کے کئی گروپوں کی طر ف سے ترمیمات پیش کرنے کی صورت میں سامنے کی جاسکتی ہے کیونکہ شریعت بل کی ساری دفعات کا مرکزی خیال شریعت کی بالا دستی ہے۔جبکہ شریعت کی بالا دستی کا اصل مدار شریعت کی اس تعریف پر ہے جوصحیح ہونے کے باوصف متفقہ ہو۔یہ امر واضح ہے کہ اس تعریف پر ہے جو صحیح ہونے کے باوصف متفقہ ہو۔یہ امر واضح ہے کہ مسلمانوں میں کتاب وسنت پر تو اتفاق ہے۔لیکن اس سے ماخوذ اسلامی احکام یا فقہ خواہ ملغوبہ کیوں نہ ہو پر اتفاق ہوہی نہیں سکتا۔کہ فقہ از قبیل اجتہاد ہے۔جس کا اختلاف لابدی ہے۔جبکہ شریعت تو وحی الٰہی کا نام ہے جو صرف کتاب وسنت ہیں۔کتاب اللہ کے ساتھ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی واحد ابدی تعبیر کے طور پر موجود ہے۔لہذا ان د ونوں سے ماخوذ اسلامی احکامات سے اگر شریعت مراد لی جائے تو یہ سوال لازماً پیدا ہوگا کہ ان احکامات کو ثابت کون کرے گا۔پھر جو ثابت کرے گا بالادستی اُسی کی ہوگی۔اصل کتاب وسنت پردے میں چلے جائیں گے۔
یہی وہ اہم مسئلہ ہے جو شریعت بل سامنے آتے ہی اختلاف کا باعث بنتا ہے۔کہ کتاب وسنت سے ماخوذ ا حکامات کے تعین میں کھینچا تانی شروع ہوجاتی ہے۔لہذا شریعت بل کی بجائے فقہ بل کی بات بن جاتی ہے۔اس کے برعکس اگرشریعت کتاب وسنت ہے تو کتاب و سنت ہمیشہ وہی رہیں گے جبکہ احکامات کی شکلیں پیش آمدہ واقعات پر اطلاق کے وقت بدل بھی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ علمائے اُمت صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے لے کر مختلف فقہوں کی تدوین تک احکامات میں باہمی اختلافات کرتے رہے۔انہی اختلافات پر مبنی تھیں۔متعدد تیار ہوئیں۔فقہ حنفی،حنبلی،جعفری،مالکی،شافعی۔ظاہری کے وجود کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اور شریعت محمدی کے تعدد کا کوئی قائل ہوتو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔
حاصل یہ ہے کہ شریعت کی نت نئی تعریفات کے چکر میں پڑنے سے یہ بہتر ہے کہ شریعت کی وہی سادہ سی تعریف رکھی جائے جو متحدہ شریعت محاذ کی تشکیل کے وقت جملہ مکاتب فکر کے باہمی اتفاق کا سبب بنی تھی۔یعنی"شریعت سے مراد کتاب وسنت ہے۔"
سینیٹ سے تازہ پاس شدہ شریعت بل میں شریعت کی تعریف سے اختلافات کھڑے ہوسکتے ہیں جو اس طرح ہے:
"شریعت سے مراد وہ احکام اسلام ہیں جو قرآن وسنت سے ثابت ہیں۔"
انگریزی ترجمہ یوں ہے:
Shariah means the ingunctions of islam in accordance with the Holy Quran and the sannah.(The Pakistan times,march 26,1990)
ا س مضمون کی ابتداء میں ہم نے جن تین مسئلوں کا ذکر کیاتھا۔اُس کا دوسرا مسئلہ وفاقی شرعی عدالت کے اُن اختیارات کی بحالی کا ہے کہ مالیاتی قوانین کے بارے میں استشناء کی دس سالہ مدت 25 جون 1990ء کو ختم ہوجانے پر ایسے قوانین کو قرآن وسنت پر پیش کیا جاسکے گا۔لیکن دوبارہ یہی بحالی دوسری طرح محدود کی جارہی ہے۔یعنی مجوزہ نفاذ شریعت بل 1990ء کی دفعہ نمبر 15۔16۔جن کا تعلق مالیات سے ہے۔ان دونوں دفعات کی رُ و سے بہت سے ملکی اور کل بین الاقوامی مالی معاملات کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔حالانکہ ہماری مالی مصیبتوں کی بڑی وجہ اللہ تعالیٰ سے وہ اعلان جنگ ہے۔جوقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔(عربی)(البقرہ۔276)
"اللہ سود کے فوائد مٹاتا ہے اور صدقات بڑھاتا ہے"
کے بعد (عربی)(اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لئے خبردار ہوجاؤ) کے الفاظ سے واردہوا ہے۔افسوس یہ ہے کہ شریعت بل ان کی دفعات کی رو سے جب شرعی عدالت دس سالہ مدت ختم ہوجانے کے بعد سود وغیرہ کے معاملات کی اصلاح قرآن وسنت(شریعت) کی روشنی میں کرنے کی مجاذ ہوگی۔ایسے معاملات کو شریعت سے بالا کیوں رکھا جارہا ہے؟اگر شریعت ہمارے کئی معاملات کو حل کرنے سے نعوذ باللہ قاصر ہوگئی تو شریعت کی بالادستی کا دعویٰ ہی غلط ہوجائے گا۔اس طرح ہم یہ تسلیم کرلیں گے کہ بہت سے مسائل کا حل انھیں شریعت سے آزاد رکھنے میں ہے۔لہذا ایسی دفعات کی موجودگی میں مجوزہ بل نفاذ شریعت کے کاز کو آگے بڑھانے کی بجائے رجعت قہقری بنے گا۔اسی طرح شریعت بل آئین کے متضاد بھی ہوجائے گا۔لہذا مجوزہ شریعت بل میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
نفاذ شریعت کے بارے میں تیسرا مسئلہ جو حکومت کی مسلسل غفلت کی وجہ سے اس لئے پریشانی کا سبب بن رہا ہے کہ 30 مئی 1990ء کو وہ مہلت بھی ختم ہورہی ہے جو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے دوسری دفعہ حکومت کو دی تھی۔اس سے قبل سپریم کورٹ نے اپنے حکم جولائی 1989ء کی ر ُو سے تعزیرات پاکستان کی جسمانی نقصانات سے متعلق چالیس دفعات کو غیر اسلامی قرار دے کر حکومت کو 23 مارچ 1990ء تک اسلامی قانون لانے کی ہدایت کی تھی۔حکومت نے ان نو ماہ میں بھی کوئی کام نہ کیا۔جس طرح کے وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ کی نظر ثانی تک کی درمیانی مدت میں اس طرف توجہ ہی نہ کی گئی ۔بے توجہی کی انتہاء دیکھئے کے حکومت ہر دفعہ مدت مہلت ختم ہونے سے صرف ایک دن پہلے پھر مزید مہلت لینے سپریم کورٹ سے رجو ع کرتی ہے۔اور اسے قانون ضرورت کا احساس دلاتی ہے۔لیکن اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں سنجیدہ نہیں ہورہی اگر حکومت کا یہی ر ویہ رہا تو ملک میں اہم قانونی مسئلہ یہ درپیش ہوگا کہ قوانین کے کالعدم قرار پانے کے بعد نئے قوانین کے دفعہ وار وضع ہونے تک کی درمیانی مدت میں جرائم کے لئے کونسا قانون ہو؟یہ مسئلہ اگرچہ عالم اسلام میں نیا نہیں لیکن پاکستان جس کا قانونی مزاج ہی قوانین کی دفعہ وار تدوین ہے۔اور قانون دان اسی کے تربیت یافتہ ہیں۔وہ اسی طرح خلاء میں کس طرح کام کریں گے؟اصولاًاگرچہ یہ بات طے ہے۔کہ جس طرح قدرتی انصاف کے اصولوں سے قانونی خلاء پر کیے جاتے ہیں۔اسی طرح اسلام کے فطری قانون شریعت سے یہ خلاء خود بخود ہوجاتاہے۔[1]
لیکن وکلاء کی رہنمائی کے علاوہ عدلیہ کے ارکان کی تربیت کے لئے بھی تو مدت کی ضرورت ہے۔مشکل یہ ہے کہ حکومت نفاذ شریعت کے لئے مخلص نہیں۔اس لئے وہ نیا قانون لاتی ہے۔اور نہ قانونی اداروں سے متعلقہ حضرات کی مناسب تربیت کا انتظام کرتی ہے۔بہر صورت یہ مسئلہ قانونی اُلجھن سے زیادہ حکومت کی سنجیدگی سے متعلق ہے جس کا فیصلہ عدالت عظمیٰ کرے گی۔
ہم نے نفاذ شریعت کے ضمن میں جن مذکورہ بالا تین مسائل کا ذکر کیا ہے اُن کا باہمی گہرا ربط ہے۔متحدہ شریعت محاذ /متحدہ علماء کونسل وغیرہ باہمی رابطہ کی تنظیموں کو دینی مکاتب فکر کے پریشر کے علاوہ پارلمینٹ میں بھی اپنا اثر ورسوخ بڑھانا چاہیے کہ بہت سی مذہبی تنظیمیں اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل ہیں یا اُس کی حلیف ہیں۔اس وقت عوامی دباؤ کے ساتھ اصل معرکہ بیورو کریسی اور پارلمینٹ میں سیکولر اور اشتراکی ذہن کو سرکرنے کا ہے۔
(عربی)
سینیٹ کا منظورکردہ شریعت بل
(((نفاذ شریعت بل ابتداء 13 جولائی 1985ء کو سینیٹ میں پیش ہوا جو تقریبا پانچ سال تک سینیٹ کی کئی کمیٹیوں کے زیرغور آکر مختلف شکلیں اختیار کرتا رہا۔لیکن جس طرح اصل بل عوام کی نظروں سے آج تک اوجھل ہے۔کیونکہ جس مسودہ بل پر سینیٹ نے 26 جنوری 1986ء تا 25 اپریل 1986ء عام وخاص کی ر ائے طلب کی تھی۔وہ اصل بل کی بجائے سیلیکٹ کمیٹی کی ترمیم کردہ شکل میں تھا۔جو اخبارات میں شائع کیاگیا۔اسی طرح 18 مئی 1990ء کے روزنامہ "جنگ" لاہورنے جو سینیٹ کا پاس کردہ بل شائع کیا ہے اور وہیں سے ہفت روزوں اور ماہناموں نے بھی نقل کیا ہے۔در اصل سینیٹ کی ایک مخصوص کمیٹی کی رپورٹ ہے۔جو بعد ازاں آٹھ ترمیمات کے ساتھ سینیٹ سے پاس ہوئی۔ہم ذیل میں نفاذ شریعت بل 1990ء کو سینیٹ کی پاس کردہ ترمیمات کے ساتھ مکمل صورت میں ہدیہ قارئین کررہے ہیں۔(ادارہ)))
ہرگاہ کہ قرارداد مقاصد کو،جو پاکستن میں شریعت کو بالادستی عطا کرتی ہے۔دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973ء کے مستقل حصے کی حیثیت سے شامل کرلیاگیاہے۔
اور ہر گاہ کہ مذکورہ قرار داد مقاصد کی اغراض کو بروئے کار لانے کے لئے ضروری ہے کہ شریعت کے فی الفور نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔لہذا حسب ذیل قانون بنایا جاتا ہے۔
1۔مختصر عنوان وسعت اورآغاذ نفاذ:یہ ایکٹ نفاذ شریعت ایکٹ 1990ء کے نام سے موسوم ہوگا۔
2۔یہ پورے پاکستان پر و سعت پزیر ہوگا۔
3۔یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا۔
4۔اس میں شامل کسی امر کا اطلاق غیر مسلموں کے شخصی قوانین پر نہیں ہوگا۔
تعریفات:۔ اس ایکٹ میں تاوقتیکہ متن سے اس سے مختلف مطلوب ہو مندرجہ ذیل عبارات سے وہ مفہوم مراد ہے جو یہاں ترتیب وار دیا گیا ہے۔
الف۔حکومت" سے مراد:
(اول)۔کسی ایسے معاملے سے متعلق جسے د ستور میں وفاقی قانون سازی کی فہرست یا مشترکہ قانون سازی کی فہرست میں شمار کیا گیا ہو۔یا کسی ایسے معاملے کے بارے میں جس کا تعلق وفاق سے ہو۔"وفاقی حکومت" ہے۔
(دوم)۔کسی ایسے معاملے سے متعلق جسے مذکورہ فہرستوں میں سے کسی ایک میں شمار نہ کیاگیا ہو یا کسی ایسے معاملے کے بارے میں جس کا تعلق صوبے سے ہو"صوبائی حکومت" ہے۔
(ب)"شریعت' سے مراد وہ احکام اسلام ہیں۔جو قرآن وسنت سے ثابت ہیں۔
تشریح:شریعت کی تشریح وتفسیر کرتے وقت قرآن وسنت کی تشریح وتفسیر کے مسلمہ اصول وقواعد کی پابندی کی جائے گی اور راہنمائی کے لئے اسلام کے مسلمہ فقہاء کی تشریحات اورآراء کا لحاظ رکھا جائے گا۔جیسا کہ دستور کی دفعہ 227 شق(1)کی تشریح میں ذکر کیا گیا ہے۔
(ج)۔"عدالت" سے کسی عدالت عالیہ کے ماتحت کوئی عدالت مراد ہے اس میں وہ ٹریبونل یا مقتدر ہ شامل ہے۔جسے فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کی رُو سے یا اس کے تحت قائم کیا گیا ہو۔
(د)۔"قرارداد مقاصد"سے مراد وہ قرارداد مقاصد ہے جس کا حوالہ دستور کے آرٹیکل 2(الف) میں دیا گیا ہے اور جس کو دستور کے ضمیمے میں درج کیا گیا ہے۔
(ھ)۔"مقررہ" سے مراد اس ایکٹ کے تحت مقررہ قواعد ہیں۔
(و)۔"مستند دینی مدرسہ"سے مراد پاکستان یا بیرون پاکستان کا وہ دینی مدرسہ ہے جسے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن یا حکومت قواعد کے مطابق تسلیم کرتی ہے۔
(ز)۔"مفتی"سےمراد شریعت سے کما حقہ واقف وہ مسلمان عالم ہے جو کسی باقاعدہ مستند دینی مدرسہ کا سند یافتہ اورتخصیص فی الفقہ کی سند حاصل کرچکا ہو۔اور پانچ سال کسی دینی علوم اسلامی کی تدریس یا افتاء کا تجربہ رکھتا ہو یا جو دس سال تک کسی مستند دینی مدرسے میں علوم اسلام کی "تدریس یا افتاء کا تجربہ رکھتا ہو،اور جسے اس قانون کے تحت شریعت کی تشریح اور تعبیر کرنے کے لئے عدالت عظمیٰ کسی عدالت عالیہ یا وفاقی شرعی عدالت کی اعانت کے لئے مقرر کیا گیا ہو۔
3۔شریعت کی بالادستی:
شریعت پاکستان کا اعلیٰ ترین قانون ہوگی اور اسے مذکورہ ذیل طریقے سے نافذ کیا جائے گا۔اور کسی دیگر قانون ،رواج یا دستور العمل میں شامل کسی امر کے علی الرغم مؤثر ہوگی۔
4۔عدالتیں شریعت کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کریں گی:
(1)۔اگر کسی عدالت کے سامنے یہ سوال ا ٹھایا جائےگا کہ کوئی قانون یا قانون کا کوئی حکم شریعت کے منافی ہے توعدالت ،اگر اسے اطمینان ہوکہ سوال غور طلب ہے ایسے معاملات کی نسبت جو دستور کے تحت وفاقی شرعی عدالت کےاختیار سماعت کے اندر آتے ہوں۔وفاقی شرعی عدالت سے استصواب کرے گی اور مذکورہ عدالت مقدمہ کا ریکارڈ طلب کرسکے گی اور اس کا جائزہ لے سکے گی۔اور امر تنقیح طلب کا ساٹھ دن کے اندر اندر فیصلہ کرے گی۔
مگر شرط یہ ہے کہ اگر سوال کا تعلق کسی ایسے مسئلے سے ہو جو دستور کے تحت وفاقی شریعت کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہوتو دستور امر تنقیح طلب کو عدالت عالیہ کے حوالے کر دے گی جو اس کا ساٹھ دن کے اندر اندر فیصلہ کرے گی۔
مزید شرط یہ ہے کہ عدالت کسی ایسے قانون یا قانون کے حکم کی نسبت اس کے شریعت کے منافی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کسی سوال پر غور نہیں کرے گی جس کا وفاقی شرعی عدالت یا عدالت عظمیٰ کی شرعی مراقعہ بنچ پہلے ہی جائزہ لے چکی ہو اور اس کے شریعت کے منافی ہونے کا فیصلہ کرچکی ہو۔
(2)۔زیلی دفعہ (1) کا دوسر افقرہ شرطیہ وفاقی شرعی عدالت یا عدالت عظمیٰ کی شرعی مراقعہ بنچ کی جانب سے دئیے گئے کسی فیصلے یا صادر حکم پر نظر ثانی کرنے کے اختیار پر اثر انداز نہیں ہوگا۔
(3)۔عدالت عالیہ،خود اپنی تحریک پر پاکستان کے کسی شہری یا وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت کی در خواست پر یا ذیلی دفعہ (1) کے پہلے فقرہ شرطیہ کے تحت ا س سے کئے گئے کسی استصواب پر اس سوال کا جائزہ لے سکے گی اور فیصلہ کرسکے گی کہ آیا کوئی مسلم شخصی قانون کسی عدالت یا ٹربیونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون یا کوئی اور قانون جو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہو کر مذکورہ قانون کا کوئی حکم شریعت کے منافی ہے یا نہیں۔
مگر شرط یہ ہے کہ سوال کا جائزہ لیتے ہوئے عدالت حالیہ تو ضیح طلب سوال سے متعلقہ شعبہ کا تخصیصی ادراک رکھنے والے ماہرین میں سے ،جن کو وہ مناسب سمجھے،کو طلب کرے گی۔اور ان کے نطقہء نظر کی سماعت کرے گی۔
(4)۔جبکہ عدالت عالیہ ذیلی دفعہ (3) کے تحت کسی قانون یا قانون کے حکم کا جائزہ لینا شروع کرے اور اسے ایسا قانون یا قانون کا حکم شریعت کے منافی معلوم ہوتو عدالت عالیہ ایسے قانون کی صورت میں جو دستور میں وفاقی فہرست قانون سازی یا مشترکہ فہرست قانون سازی میں شامل کسی معاملے سے متعلق ہو وفاقی حکومت کو یا کسی ایسےمعاملے سے متعلق کسی قانون کی صورت میں جو ان فہرست میں سے کسی ایک میں بھی شامل نہ ہو۔صوبائی حکومت کو ایک نوٹس دے گی۔جس میں ان خاص احکام کی صراحت ہوگی۔جو سے بایں طور پر منافی معلوم ہوں۔اور مذکورہ حکومت کو اپنا نقطہ نظر عدالت عالیہ کے سامنے پیش کرنے کے لئے مناسب موقع دے گی۔
(5)اگر عدالت عالیہ فیصلہ کرے کے کوئی قانون یا قانون کا کوئی حکم شریعت کے منافی ہے تو وہ اپنے فیصلے میں حسب ذیل بیان کرے گی:۔
الف۔اس کی مذکورہ رائے قائم کرنے کی وجوہ۔
ب۔وہ حدبہاں تک ایسا قانون یا حکم بایں طور پر منافی ہے ،اور
ج۔اس تاریخ کا تعین جس پر وہ فیصلہ نافذ العمل ہوگا۔
مگر شرط یہ ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ اس معیاد کے گزرنے سے پہلے جس کے اندر عدالت عظمیٰ میں اس کے خلاف اپیل دائر ہوسکتی ہو یا جبکہ ا پیل بایں طور داخل کردی گئی ہو۔اس اپیل کے فیصلے سے پہلے نافذ العمل نہیں ہوگا۔
6۔عدالت عالیہ کو اس دفعہ کے تحت اپنے دیئے ہوئے کسی فیصلے یا صادر کردہ کس حکم پرنظر ثانی کرنے کا اختیار ہوگا۔
(7)۔اس دفعہ کی رو سے عدالت عالیہ کو عطا کردہ اختیار سماعت کم از کم تین ججوں کو کوئی بنچ استعمال کرے گی۔
(8)۔اگر ذیلی (1) یا ذیلی دفعہ( 2) میں محولہ کوئی سوال عدالت عالیہ کی یک رکنی بنچ یا دو رکنی بنچ کے سامنے اٹھے تو اسے کم از کم تین ججوں کی بنچ کے حوالے کیا جائے گا،
(9)۔اس دفعہ کے تحت کسی کاروائی میں عدالت عالیہ کے قطعی فیصلے سے ناراض کوئی فریق مذکورہ فیصلے سے ساٹھ دن کے اندر عدالت عظمیٰ میں اپیل داخل کرسکے گا۔
مگر شرط یہ ہے کہ وفاق یا کسی صوبے کی طرف سے اپیل مذکورہ فیصلے کے چھ ماہ کے اندر داخل کی جاسکے گی۔
(10)۔اس قانون میں شامل کوئی امر یا اس کے تحت کوئی فیصلہ اس قانون کے آغاذ نفاذ سے قبل کسی عدالت یا ٹریبونل یا مقتدرہ کی طرف سے کسی قانون کے تحت دی گئی سزاؤں ،دئیے گئے احکام یا سنائے ہوئے فیصلوں ،منظور شدہ ڈگریوں ،ذمہ کیے گئے واجبات حاصل شدہ حقوق،کی گئی شخصیات ،وصول شدہ رقوم ، یا اعلان کردہ قابل ادا رقوم پر اثر انداز نہیں ہوگا۔
تشریح:اس ذیلی دفعہ کی غرض کے لئے "عدالت"یا "ٹریبونل" سے مراد اس قانون کے آغاذ نفاذ سے قبل کسی وقت کسی قانون یا دستور کی رو سے یا اس کے تحت قائم شدہ کوئی عدالت یا ٹریبونل ہوگی اور لفظ " مقتدرہ" سے مراد فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت قائم شدہ کوئی مقتدرہ ہوگی۔
(11) کوئی عدالت یا ٹربیونل بشمول عدالت عالیہ کسی زیر سماعت یا اس قانون کے آغاذ نفاذ کے بعد شروع کی گئی کسی کاروائی کو محض اس بناء پر موقوف یا ملتوی نہیں کرے گی کہ یہ سوال کہ آیا کوئی قانون یا قانون کا حکم شریعت کے منافی ہے یا نہیں،عدالت عالیہ یا وفاقی شرعی عدالت کے سپرد کردیا گیا ہے۔یا یہ کہ عدالت عالیہ نے اس سوال کا جائز ہ لینا شروع کردیا ہے اور ایسی کاروائی جاری رہے گی اور اس میں امر دریافت طلب کا فیصلہ فی الوقت نافذ العمل قانون کے مطابق کیا جائے گا۔
بشرط یہ کہ عدالت عالیہ ابتدائی سماعت کے بعد یہ فیصلہ نہ دے دے کہ زیر سماعت مقدمات کو عدالت۔۔کے فیصلے تک روک دیا جائے۔
5۔شریعت کے خلاف احکامات دینے پر پابندی انتظامیہ کا کوئی بھی فرد بشمول صدر مملکت ،وزیر اعظیم اور وزیر اعلیٰ شریعت کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکے گا اور اگر ایسا کوئی حکم دے دیا گیا ہو تو اُسے عدالت عالیہ میں چیلنج کیاجاسکے گا۔
6۔عدالتی عمل اور احتساب:حکومت کے تمام عمال دستور کے تابع رہتے ہوئے اسلامی نظام انصاف کے پابند ہوں گے اور شریعت کے مطابق عدالتی احتساب سے بالاتر نہیں ہوں گے۔
7۔علماءکرام کو جج اور معاونین عدالت مقرر کیا جاسکے گا:۔(1) ایسے تجربہ کار اور مستند علماء جو اس قانون کے تحت مفتی مقرر کئے جانے کے اہل ہوں،عدالتوں کے ججوں اور معاونین عدالت کے طور پر مقرر کئے جانے کے بھی اہل ہوں گے۔
(2) ایسے اشخاص جو پاکستان یا بیرون ملک اس مقصد کے لئے متعلقہ حکومت کے تسلیم شدہ اسلامی علوم کے معروف اداروں اور مستند دینی مدارس سے شریعت کا راسخ علم رکھتے ہوں،فی الوقت نافذ العمل کسی دیگر قانون میں شامل کسی امر کے باوجود شریعت کی تشریح اور تعبیر کے لئے عدالت کے سامنے اس مقصد کے لئے وضع کئے جانے و الے قواعد کے مطابق پیش ہونے کے اہل ہوں گے۔
(3)۔صدر چیف جسٹس عدالت عالیہ کے مشورے سے ذیلی دفعہ (1) کی غرض کے لئے قواعد مرتب کرے گا،جن میں ججوں اورعدالتوں میں معاونین عدالت کے حیثیت سے تقرر کے لئے مطلوبہ اہلیت اور تجربہ کی وضاحت ہوگی۔
(4)۔ایسے اشخاص جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹیوں ،اسلام آباد یا کسی دیگر یونیورسٹی سے قانون اور شریعت میں گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ڈگریاں رکھتے ہوں فی الوقت نافذ العمل کسی دیگر قانون میں شامل کسی امر کے باوجود اس غرض کے لئے حکومت کے وضع کردہ قواعد کے مطابق ایڈوکیٹ کی حیثیت سے اندراج کے اہل ہوں گے۔
(5)۔اس دفعہ کے احکام کسی طور پر بھی قانون پیشہ اشخاص اور مجالس وکلاء سے متعلق قانون کے تحت اندراج شدہ وکلاء کے مختلف عدالتوں اور ٹریبونل اور دیگر مقتدرات بشمول عدالت عظمیٰ کسی عدالت عالیہ یا وفاقی شرعی عدالت میں پیش ہونے کے حق پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔
8۔مفتیوں کا تقرر:(الف)صدر ،چیف جسٹس پاکستان یا چیف جسٹس وفاقی عدالت اورچئیرمین ا سلامی نظریاتی کونسل کے مشورہ سے جس طرح وہ مناسب تصور کرے،ایسے اور اتنے مفتیوں کا تقرر کرے گا جو عدالت عظمیٰ ،عدالت عالیہ اور وفاقی شرعی عدالت کی شریعت کے احکام کی تعبیر وتشریح میں اعانت کے لئے مطلوب ہوں۔
(2)ذیلی دفعہ(1) کے تحت مقرر کردہ کوئی مفتی صدر کی رضا مندی کے دوران اپنے عہدے پر فائز رہے گا۔اور اس کا عہدہ فی الوقت کسی نائب اٹارنی جنرل برائے پاکستان کے برابر ہوگا۔
(3) ۔مفتی کا یہ فرض ہوگا کہ وہ حکومت کو ایسے قانونی امور کے بارے میں جن پر شریعت کی تشریح وتعبیر درکار ہومشورہ دے اور ایسے دیگر فرائض انجام دے جو حکومت کی طرف سے اس کے سپرد یا اس کو تفویض کئے جائیں اور اسے حق حاصل ہوگا کہ اپنےفرائض کی بجاآوری میں عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں جب کہ وہ اس قانون کے تحت اختیار سماعت استعمال کررہی ہوں اور وفاقی شرعی عدالت میں سماعت کے لئے پیش ہو۔
(4)۔کوئی مفتی کسی فریق کی وکالت نہیں کرے گا بلکہ کاروائی سے متعلق اپنی دانست کے مطابق شریعت کا حکم بیان کرے گا۔اس کی توضیح ،تشریح وتعبیر کرے گا اور شریعت کی تشریح کے بارے میں اپنا تحریری عدالت میں پیش کرے گا۔
(5) حکومت پاکستان کی وزارت قانون وانصاف مفتیوں کے بارے میں انتظامی امور کی ذمہ دار ہوگی۔
9۔شریعت کی تدریس وتربیت:(1) مملکت اسلامی قانون کے مختلف شعبوں میں تعلیم وتربیت کے لئے موثر انتظامات کرے گی تاکہ شریعت کے مطابق نظام عدل کےلئے تربیت یافتہ افراد دستیاب ہوسکیں۔
(2) مملکت ماتحت عدلیہ کے ارکان کے لئے وفاقی جو ڈیشنل اکادمی اسلام آباد اور اس طرح کے دیگر اداروں میں مسلمہ مکاتب فکر کے فقہ اور اصول فقہ کی تدریس وتربیت نیز باقاعدہ وقفوں سے تجدیدی پروگراموں کے انعقاد کے لئے مؤثر انتظامات کرے گی۔
(3)مملکت ،پاکستان کے لاکالجوں میں مسلمہ مکاتب فکر کے فقہ اور اصول فقہ کے جامع اسباق کو نصاب میں شامل کرنے کےلئے موثر اقدامات کرے گی۔
10۔معیشت کو اسلامی بناناL1) مملکیت،اس امر کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرے گی کہ پاکستان کے معاشی نظام کی تعمیر اجتماعی عدل کے اسلامی معاشی اصولوں،اقدار اور ترجیہات کی بنیاد پر کی جائے اور دولت کمانے کے ان تمام ذرائع پابندی ہو،جو خلاف ِ شریعت ہیں۔
(2)۔صدر،اس قانون کے آغاذ نفاذ کے ساٹھ دن کے اندر،ایک مستقل کمیشن مقر ر کرے گا۔جو ماہرین معاشیات ،علماء اور منتخب نمائندگان پارلیمنٹ پر مشتمل ہوگا جس کو وہ موزوں تصور کرے اور ان سے ایک کو اس کا چئیرمین مقرر کرے گا۔
(3) کمیشن کے چیئرمین کو حسب ضرورت مشیر مقرر کرنے کا اختیار ہوگا۔
(4) کمیشن کے کارہائے منصبی حسب ذیل ہوں گے:
الف۔معیشت کو اسلامی بنانے کے عمل کی نگرانی کرنا اور عدم تعمیل کے معاملات وفاقی حکومت کے علم میں لانا۔
ب۔کسی مالیاتی قانون یا محصولات اور فیسوں کے عائد کرنے اور وصول کرنے سے متعلق کسی قانون یا بنکاری اور بیمہ کے عمل اور طریقہ کار کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کے لئے سفارش کرنا۔
ج۔دستور کے آرٹیکل 38 کی روشنی میں عوام کی سماجی اور معاشی فلاح وبہبود کے حصول کے لئے پاکستان کے معاشی نظام میں تبدیلیوں کی سفارش کرنا،اور
(د) ۔ایسے طریقے اور اقدامات تجویز کرنا جن میں ایسے موزوں تبادلات شامل ہوں جن کے ذریعے وہ نظام معیشت نافذ کیا جاسکے۔جسے اسلام نے پیش کیا ہے۔
(5)۔کمیشن کی سفارش پر مشتمل ایک جامع ر پورٹ اس کے تقرر کی تاریخ سے ایک سال کی مدت کے اندر وفاقی حکومت کو پیش کی جائے گی۔اور اس کے بعد کمشین حسب ضرورت وقتاً فوقتاً اپنی رپورٹیں پیش کرتا رہے گا۔البتہ سال میں کم از کم ایک رپورٹ پیش کرنا لازمی ہوگا۔کمیشن کی رپورٹ حکومت کے موصول ہونے کے 3 ماہ کے اندر پارلمینٹ کے دونوں ایوانوں اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے سامنے بحث کے لئے پیش کی جائے گی۔
(6)۔کمیشن کو ہرلحاظ سے جس طرح وہ مناسب تصورکرے اپنی کاروائی کے انصرام اور اپنے طریقہ ء کار کے انضباط کا اختیار ہوگا۔
(7)۔جملہ انتظامی مقدرات ،ادارے اور مقامی حکام کمیشن کی اعانت کریں گے۔
(8) وزارت خزانہ حکومت پاکستان اس کمیشن سے متعلق انتظامی امور کی ذمہ وار ہوگی۔
(11)۔زرائع ابلاغ عامہ اسلامی اقدار کو فروغ دیں گے:
مملکت کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ ایسے مؤثر اقدام کرے جن کے ذریعہ ابلاغ عامہ سے اسلامی اقدار کو فروغ ملے ۔یہ نیز نشر وابلاغ کے ہر ذریعے سے خلاف شریعت پروگرام فحش اور منکرات کو اشاعت پا پابندی ہوگی۔
(12)۔تعلیم کو اسلامی بنانا:(1)مملکیت اسلامی معاشرہ کی حیثیت سے جامع اور متوان ترقی کے لئے مؤثر اقدامات کرے گی تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کے پاکستان کے نظام تعلیم وتدریس کی اساس اسلامی اقدار پر ہو۔
(2)۔صدر مملکت ا س قانون کے آغاذ کے ساٹھ دن کے اندر تعلیم اور ذرائع ابلاغ کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے ایک کمیشن مقرر کرے گا جوماہرین تعلیم ،ماہرین ابلاغ عامہ،علماء اور منتخب نمائندگان پارلمینٹ پر مشتمل ہوگا۔جن کو وہ موزوں تصور کرے اور ان میں سے ایک کو اس کا چیئرمین مقرر کرے گا۔
3۔کمیشن کے چیئرمین کو حسب ضرورت مشیر مقرر کرنے کا اختیار ہوگا۔
4۔کمیشن کے کارہائے منصبی یہ ہوں گے:
الف۔دفعہ 11 اور اس دفعہ کی ذیلی دفعہ (1) میں متذکرہ مقصد کے حصول کے لئے پاکستان کے تعلیمی نظام اور ذرائع ابلاغ کا جائزہ لے اور اس بارے میں سفارشات پیش کرے۔
ب۔تعلیم اور ذرائع ابلاغ کو اسلام کے مطابق ڈالنے کے عمل کی نگرانی کرے اور عدم تعمیل کے معاملات وفاقی حکومت کے علم میں لائے۔
5۔کمیشن کی سفارشات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ اس کے تقرر کی تاریخ سے ایک سال کی مدت کے اندر وفاقی حکومت کو پیش کی جائے گی۔اور اس کے بعد کمیشن حسب ضرورت وقتا ً فوقتاً اپنی رپورٹیں پیش کرتا رہے گا۔البتہ سال میں ایک رپورٹ پیش کرنا لازمی ہوگا۔کمیشن کی رپورٹ حکومت کو موصول ہونے کے تین ماہ کے اندر پارلمینٹ کے دونوں ایوانوں اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے سامنے بحث کے لئے پیش کی جائے گی۔
6۔کمیشن کو ہر لحاظ سے جس طرح وہ مناسب تصور کرے۔اپنی کاروائی کے انصرام اور اپنے طریقہ ء کار کے انضباط کا اختیار ہوگا۔
7۔جملہ انتظامی مقتدرات ،ادارے اور مقامی حکام کمیشن کی اعانت کریں گے۔
8۔وزارت تعلیم حکومت پاکستان اس کمیشن سے متعلق انتظامی امور کی ذمہ دار ہوگی۔
13۔عمال حکومت کے لئے شریعت کی پابندی:۔ انتظامیہ ،عدلیہ،وار مقننہ کے تمام مسلمان ارکان کے لئے فرائض شریعت کی پابندی اور کبائر سے اجتناب لازم ہوگا۔
14۔قوانین کی تعبیر شریعت کی روشنی میں کی جائے گی:اس قانون کی غرض کے لئے:
اول:۔قانون موضوعہ کی تشریح وتعبیر کرتے وقت ،اگر ایک سے زیادہ تشریحات اور تعبیرات ممکن ہوں ،تو عدالت کی طرف سے اس تشریح وتعبیر کو اختیار کیا جائے گا جو اسلامی اصولوں اور فقہی قواعد وضوابط اور اصول ترجیح کے مطابق ہو اور :
(دوم) جب کہ دو یا دو سے زیادہ تشریحات وتعبیرات مساوی طور پر ممکن ہوں عدالت کی طرف سے اس تشریح وتعبیر کو اختیار کیا جائے گا۔جو اسلامی احکام اور دستور میں بیان کردہ حکمت عملی کے اصولوں کو فروغ دے۔
15۔بین الاقوامی مالی ذمہ داریوں کا تسلسل:
اس قانون کے احکام یا اس کے تحت دیئے گئے کسی فیصلے کے باوجود اس قانون کے نفاذ سے پہلے کسی قومی ادارے۔۔۔اور بیرونی ایجنسی کے درمیان عائد کردہ مالی ذمہ داریاں اور کئے گئے معاہدے مؤثر لازم اور قابل عمل رہیں گے۔
تشریح:اس دفعہ میں"قومی ادارے" کے الفاظ میں وفاقی حکومت یاکوئی صوبائی حکومت کوئی قانونی کارپوریشن ،کمپنی،ادارہ،ہیت ،تجارتی ادارہ اور پاکستان میں کوئی شخص شامل ہوں گے۔اور "بیرونی ایجنسی" کے الفاظ میں کوئی بیرونی حکومت،کوئی بیرونی مالی ادارہ بیرونی سرمایہ منڈی،بشمول بنک اور کوئی بھی قرض دینے والی بیرونی ایجنسی بشمول کسی شخص کے شامل ہوں گے۔
16۔موجودہ زمہ داریوں کی تکمیل:
اس قانون میں شامل کوئی امر یا اسکے تحت کوئی دیا گیا فیصلہ کسی عائد کردہ مالی ذمہ داری کی باضابطگی پر اثر انداز نہیں ہوگا۔بشمول ان ذمہ داریوں کے جو وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت یا کسی مالی یا قانونی کا رپوریشن یا دیگر ادارے نے کسی دستاویزات کے تحت واجب کی ہوں یا اس کی طرف سے کی گئی ہوں،خواہ وہ معاہداتی ہوں یا بصورت دیگر ہوں یا ادائیگی کے وعدے کے تحت ہوں اور یہ تمام ذمہ داریاں ،وعدے اور مالی پابندیاں قابل عمل لازم اور مؤثر رہیں گی۔
17۔قواعد:۔
متعلقہ حکومت سرکاری جرید ے میں اعلان کے ذریعے اس قانون کی اغراض کی بجا آوری کے لئے وضع کرسکے گی۔
بیان اغراض وجودہ
مملکت خُدادا پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔
اس کی بنیاد اسلام کے نظریہ پر قائم ہے۔
اس مسودہ قانون کی غرض و غایت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اورملک کے اسلامی نظریہ کا استحکام ہے۔
اہل ملک کو جو بلاامتیاز عرصہ سے اس نظام کے لئے بے چین ہیں،مطمئن کرنا چاہیے ملک میں صحیح اسلامی معاشرہ کے ذریعے امن وامان اور اسلامی مساوات قائم کرنا ہے۔
مولانا سیمع الحق(رکن انچارج) قاضی عبداللطیف (رکن انچارج)
[1] ۔تفصیل کے لئے دیکھئے محدث ج8۔عدد 10۔11۔