خاندانی منصوبہ بندی !

(((سیکولرزم انسانی زندگی کو چھ حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔
1۔افکارونظریات۔2۔پوجا پاٹ۔3۔رسوم ورواج۔4۔معاشرت۔5۔معیشت۔6۔سیاست
پہلے تین حصوں میں وہ مذہبی آزادی کا قائل ہے۔جبکہ بقیہ تین حصوں:معاشرت ،معیشت،اور سیاست میں وہ انسانیت کے نام پر سختی سے الہامی ہدایات کو مسترد کرنے پر زور دیتا ہے۔اس وقت عالمی سطح پر اسلام اورسیکولر ازم کی فکری کشمکش چل رہی ہے،چونکہ زیادہ تر  رسوم ورواج کا  تعلق خاندان سے ہے۔ جو معاشرت کی بنیادہے۔ لہذا یہ مرحلہ سیکولرازم اور اسلام کے درمیان پل بن گیا ہے۔جس نے یہ پل پار کرلیا وہ جنگ جیت گیا۔خاندانی منصوبہ بندی کا مسئلہ درحقیقت زیادہ تر فقہی نہیں ہے بلکہ عائلی تصورات کے نام پر اسلامی عقائد پر حملہ ہے۔اسی وجہ سے اسلامی مفکرین اس کی مخالفت میں شدت اختیار کرتے ہیں لیکن اس کے بالمقابل سیکولرازم اسے چند فقہی مجبوریوں کی صورت میں سامنے لاتا ہے،جو عورت کی صحت وآسائش کو بسا اوقات پیش آسکتی ہیں۔ظاہر ہے کہ اسلامی  طرز عمل کی روح اسلامی عقائد ہی ہوتے ہیں،اسی بناء پر اسلام کافقہی رجحان ہر اس صورت میں اس طرز عمل کی حوصلہ شکنی ہےجس کی زد اللہ کی رزاقی او توکل پر پڑتی ہویا انسان کی موت وحیات سے متعلق ہوکہ اس میں تدبیر پر تقدیر کی بالادستی مسلمہ اسلامی عقیدہ ہے۔

ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل جو وفاقی شرعی عدالت کے ذریعہ پاکستان میں اسلامائزیشن کے کام میں کئی بڑی کامیابیاں حاصل کرچکے ہیں،اس سلسلہ میں حکومت کے اقدامات پر بندشیں لگانے میں کوشاں ہیں۔اگرچہ ان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اسے وفاقی شرعی عدالت میں ایک عملی مسئلہ(فقہ) کی صورت میں پی پیش کر سکتے ہی۔بہرحال انہوں نے اس بارے میں جودرخواست وفاقی شرعی عدالت میں دائر کررکھی تھی،اس کو بہانہ بنا کر ڈاکٹر رشید جالندھری نے قومی اخبارات کے ذریعے قاہرہ کانفرنس اوراس میں وزیر اعظم کی شرکت کی حمایت کی راہ نکالنے کی کوشش کریں۔اس پس منظر میں ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل کی وضاحتیں ہدیہ قارئین ہیں۔۔۔(محدث)۔)))

اس موضوع پر روزنامہ جنگ(3۔ستمبر) کے صفحات میں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر رشید جالندھری نے پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت میں راقم الحروف کی جانب سے ضبط ولادت کے خلاف دائر کردہ درخواست پر جو آراء ظاہر کی ہیں ،وہ محل نظر ہیں ۔سب سے پہلے انہوں نے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ  مرحومسے منسوب ایک تحریر اپنے حق میں پیش کی جس کے آخری الفاظ یہ ہیں:

"جو میں نے  رائے دی ہے وہ ماہر شریعت کی حیثیت سے نہیں محض اپنے علم اور مطالعہ  کی بنا پر دی ہے۔"

گویا انہیں اپنی ذاتی رائے کو شرعی نقطہ نظربنانے پر اصرار نہیں تھا۔لیکن فاضل مضمون نگار نے اسے زبردستی شرعی معنی پہنانے اور ان کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے۔اس کے بعد انہوں نے اس مسئلہ پر سرکاری پالیسی کے حق میں درباری علماء کانقطہ نظر واضح کر تے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت کی ہے۔لیکن اس کے حق میں وہ چند سطحی دلائل کے علاوہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکے۔

دفاعی شرعی عدالت میں راقم الحروف نے ان صدارتی احکامات کو چیلنج کیاتھا جن کے ذریعہ خاندانی  منصوبہ بندی کے لئے ایک ﷫﷫ڈویژن کا قیام عمل میں آیا اور اس کے بعد اسے وزارت بہبود آبادی کانام دیا گیا۔درخواست میں معاشی وسائل کی کمی کی بناء پر ضبط ولادت کرنے اور بچوں کی نسل کشی کے خلاف آیات قرآنی پیش کی گئیں۔ان میں سے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 31 کاانگریزی  ترجمہ اسقاط حمل کی مخالفت میں محترمہ بے نظیر بھٹو نےبھی آبادی اوروسائل کی قاہرہ کانفرنس میں پیش کیا۔حالانکہ خود وزارت بہبودآبادی کے مراکز اور پرائیویٹ اداروں میں نہ صرف اسقاط حمل بلکہ نس بندی(Sterilizatiion) اور نل بندی(Tubal Ligation) بھی کی جاتی ہے۔جس نے ایک منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔درخواست میں ضبط ولادت پر بے دریغ اخراجات کرنے کی بجائے یہ رقم وسائل کی تلاش کے لئے صرف کرنے پر زور دیا گیا اور تائیدمیں یہ آیات پیش کی گئیں:

"کوئی ایسی شے نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔"(الحجر:21)

"اللہ کے ہاں رزق تلاش کرو۔"(العنکبوت:17)

سائنسی عروج کے اس دور میں جبکہ سمندروں میں کاشت کاری قاور آبی حیات سے غذائی اجزاء کی تیاری آسان ہوگئی ہے۔خوراک کی نئی اقسام کی دریافت اور پیدا وار کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔خوراک کے بعد تعلیم،رہائش،علاج اوردیگر ضروریات زندگی دنیا بھر میں ماضی کی نسبت اب بہتر انداز میں پوری کی جارہی ہیں۔کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہمارے ادارے اور حکومتیں اس  پہلو پرزور دیں تو وہ مذکورہ مقاصد حاصل نہ کرسکیں۔خاندانی منصوبہ بندی کی بجائے وسائل کی بہتر منصوبہ بندی کی جائے نظام میں موجودہ خرابیوں کا ازالہ کیاجائے۔قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ بند کرکے غیر ضروری اخراجات پر پابندی لگائی جائے ۔نظام معیشت سے سود کا خاتمہ کیا جائے۔انفرااسٹرکچر کا فقدان دور کیا جائے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم عمل میں لائی جائے۔

سورہ بنی اسرائیل کی آیت6 میں مال واولاد اور کثرت عددی کو اللہ تعالیٰ کاانعام قراردیاگیا ہے۔لیکن تنقید نگار نے اسے ایک وقتی ضرورت سے تعبیر کیا ہے۔جس کی اہمیت بعد میں ختم ہوگئی تھی۔یہاں انہوں نے دیگر دو مواقع پر نازل ہونے والی آیات کو نظر انداز کردیا جو مندرجہ ذیل ہیں:

"اس نے چوپایوں اوراولاد کی بخشش کے ذریعہ تمہاری مدد کی۔"(شعراء:133)

"وہ اموال اور اولاد عطا کرکے تمہاری مدد فرمائے گا۔"(نوح:12)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوم نوح علیہ السلام  سے احکامات خداوندی پر عمل کرنے کی جزا کے طور پر انہیں مال واولاد کی کثرت عطا فرمانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کے انکار کے سبب نافرمانی کی سزا کے طور پر انہیں غرق کرکے ہلاک کردیا۔بہ الفاظ دیگر ان کی"فیملی پلاننگ" کرکےانہیں رہتی دنیاتک  عبرت کا نشان بنادیا۔یہ واقعہ اللہ کے عذاب کی ایک مثال تھا۔جب فرعون نے بنی اسرائیل کے لئے عذاب بن کر ان کے بچوں کو قتل کرکے اور بچیوں کو زندہ رکھ کر اپنی دانست میں ان کی خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام بنایا تو اللہ نے انھیں اس عذاب سے نجات دلانے کی خاطر اپنی نعمت کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام  اور حضرت ہارون علیہ السلام  کو ان کی مددکے لئے مبعوث فرمایا۔آج بھی کشمیر ،فلسطین،بوسنیااور افریقی ممالک میں نسلی تطہیر(Ethnic Cleansing) عالم اسلام کے خلاف ایک فرعونی حربہ کے طور پر کی جارہی ہے ۔خوداسلامی ممالک میں خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر نسل کشی کاآغاز ہوچکا ہے۔ اسی طرح عالم اسلام سے پرانی صلیبی جنگوں میں ناکامی کابدلہ لیا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک کی آبادی کم کرنے پر آنے والے اخراجات کابڑاحصہ مغربی حکومتیں اور ادارے ادا کرتے ہیں۔جہاں تک مال اوراولاد کو آزمائش قرار دیئےجانے کا تعلق ہے،اس کامقصد اہل ایمان کو ان کی بے جامحبت میں مبتلا ہوکر اسلام کی دعوت،اور احکامات الٰہی کے نفاذ کی راہیں کوتاہی سے ر وکنا ہے اسے ضبط ولادت کی حمایت میں پیش کرنا قرین انصاف نہیں ہے۔

اسقاط حمل کو قتل  اولاد سےتشبیہ دے کرحقیقت کااعتراف کرلیاگیا ہے۔لیکن عملی طور پر اسقاط کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر حاملہ کے پیٹ میں موجود بچہ ضائع کرنا قتل اولاد کے مترادف ہے۔تو کیا اس سے قبل ابتدائی مراحل میں موجود نسل انسانی کے انقطاع کاعمل قابل معافی ہے؟

 عورت کے بیضہ یامرد کے مادہ تولید کے سوتوں کو خشک کرنے،ان کا راستہ بند کرنے یا ان کے ملاپ سے وجودمیں آنے والے جنین کا قتل مختلف نہیں ہے۔سائنس نے ایسے جدید طریقے اختیار کرلیے ہیں جن پر عمل  کرنے سے حمل قرار نہیں پاسکتا۔لہذا کوشش جاری ہے کہ معاملہ پہلے ہی کنٹرول کرلیا جائے تاکہ اسقاط حمل کی نوبت ہی نہ آئے اور خاندانی منصوبہ بندی کے بزریعہ قتل اولاد کے الزام سے بچ سکیں۔قاہرہ کانفرنس میں امریکی نائب صدر"الگور" کی تقریر میں بھی اس حکمت عملی کی جانب اشارہ کیا  گیا ہے۔اس خطرناک رجحان کا سدباب نہ کیا گیا توت عاقبت نااندیشی کے ہاتھوں پوری نسل انسانی کامستقبل معدوم ہونے کا اندیشہ ہے ۔یہ وجہ ہے کہ فقہاء نے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کرنے کی سزا،قتل کی  دیت کے برابررکھی ہے ۔شیخ عائش مکی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"شریعت اسلامیہ میں،اگر کوئی  مردیا عورت کی قوت نسل وحمل ختم کردے تو اس پر دیت واجب ہوجاتی ہے ۔اسلام جرم قتل اورقتل پیدائش ضائع کرنے کے درمیان فرق نہیں کرتا۔"(فتح العلی للمالک:ص190 ج2)

شیخ عبدالرحمان الجزیری  فرماتے ہیں:

"عورت یامرد کی حمل کی قوت ضائع کرنے پرنسل کے فوات ہونے کی وجہ سے دیت واجب ہوتی ہے۔"(الفقہ علی المذہب الاربعہ:ص 341،ج5)

علامہ علاء الدین کاسانی فرماتے ہیں:

"کان،آنکھ،زبان اور قوت اولاد وحمل ختم کرنے پر دیت واجب ہوتی ہے۔"

بدائع الصنائع: ص743،ج10)

علی ھذ القیاس اگر کوئی شخص بذات خوداپنی قوت کاخاتمہ اور انقطاع کروائے ،وہ بھی جرم  خود کشی کی طرح سزا کا مستحق ہے۔نسل انسانی کو اجتماعی خود کشی سے باز رکھنے کےلیے ان سزاؤں کا نفاذ ازحد ضروری ہے۔

یہ بات طے ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسان ایک ہی جان حضرت آدم علیہ السلام  کی اولاد ہوں گے اور یہ کہ ان کے جسم میں قیامت تک پیدا ہونے والے انسان کاجو ہر اصلی موجود تھا۔سورہ طارق کی آیات 5۔7 میں فرمایا گیا ہے:

"انسان کو دیکھنا چاہیے کہ و ہ کاہے سے پیدا ہوا۔وہ اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے بیچ میں سے نکلتا ہے۔"

اس مضمون کو ذہن میں ر کھتے ہوئے اگر سورہ اعراف کی آیت 172 کا مطالعہ کیاجائے جس میں "پیمان الست" کا ذکر ہے تو یہ نکتہ مزیدواضح ہوجاتاہے:

"اور جب تمہارے  پروردگار نے بنی آدم  علیہ السلام  سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی اورانہیں خودان کے نفوس پر گواہ ٹھہراتے ہوئے پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟وہ کہنےلگے کیوں نہیں۔ہم گواہ ہیں کہ توہمارا پروردگار ہے ۔یہ اقرار  اس لیے کرایا تھا تاکہ قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہمیں تو اس کی خبر ہی نہ تھی!"

گویاانسان کے صلب میں انسانی روحوں کاانقطاع اوران کے معرض وجودمیں آنے کافطری راستہ روکنا خواہ وہ کسی بھی ذریعہ سے ہو،انسانیت کی ہلاکت کے جرم سے کم نہیں۔

خاندانی منصوبہ بندی کے حامیوں کو قرآن کریم سے کوئی دلیل اپنے حق میں نہیں ملتی لہذا وہ ذخیرہ احادیث پر طبع آزمائی شروع کردیتے ہیں۔سب سے زیادہ تختہ مشق عزل(Coitius Interruptus) کے بارے میں ملنے والی روایات کو بنایا گیا ہے۔عزل کارواج زمانہ جاہلیت میں تھا،یہ طریقہ دور جہالت میں لونڈیوں کے ساتھ اختیار کیا جاتاتھا تاکہ وہ"ام ولد" نہ بن جائیں اور پیدا ہونے والی اولاد کے حقوق اور وراثت کے مسائل پیدا نہ ہوں۔جبکہ آزاد عورت کی صورت میں اس کے حقوق کی فوقیت مد نظر رکھتے ہوئے اس کی اجازت کے بغیر عزل نہیں کیا جاتا تھا۔آج کل عزل کی جگہ کنڈوم نے لے لی ہے۔اسلام نے جس  طرح بتدریج غلامی کا خاتمہ کردیا اسی طرح عزل کا طریقہ کار بھی ترک کردیاگیا۔متعدد احادیث میں بالواسطہ طور پر عزل سے منع کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے کہ"جس جان نے قیامت تک پیدا ہوناہے وہ ہوکر رہے گی"جبکہ مندرجہ ذیل حدیث میں عزل کرنے سے سختی سے منع فرمادیا گیا ہے۔

"حضر ت جذامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بنت وھب سے روایت ہے کہ"لوگوں نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سےعزل کاحکم دریافت کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ یہ پوشیدہ طریقہ سے قتل کرنے یازندہ گاڑنے کے مترادف ہے۔اور یہ خصلت اس قرآنی آیت کے زمرہ میں شامل ہےکہ زندہ درگور کی جانے والی جان سے سوال کیا جائے گا۔"(صحیح مسلم ،مشکوۃ المصابیح:باب المباشرہ)

عزل کی ممانعت قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔البقرہ آیت 187 میں اپنی بیویوں کے ساتھ اختلاط کاحکم دیتے ہوئے فرمایا گیا:

(وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ)

"اللہ تعالیٰ نے تمہارے نصیب میں جو لکھ دیا ہے ،اسے تلاش کرو۔"

گویاازدواجی زندگی صرف حصول لذت کے لئے نہیں بلکہ بقائے نسل انسانی کے لئے ہے۔جو اصل منشائے ایزدی ہے۔" وَابْتَغُوا "سے صاف اشارہ نکل  رہا ہے کہ اس سے افزائش نسل مراد ہے نہ کہ عزل۔علامہ زمخشری نے  الکشاف میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے: " وقيل: هو نهى عن العزل"یعنی یہ آیت عزل کی ممانعت کا حکم رکھتی ہے ۔بیضاوی نے بھی اس آیت کو عزل کے ناجائز ہونے کی دلیل بنایا ہے۔

ایک اور آیت جس میں عورتوں کو کھیتی قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا" نساؤكم حرث لكم "(البقرہ :223) کی  تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

"عورتوں کے لئے کھیتی کے استعارے میں ایک سیدھا سادا پہلو تو یہ ہے کہ جس طرح کھیتی کےلیے قدرت کا بنایا ہوایہ ضابطہ ہے کہ تخم ریزی ٹھیک موسم میں مناسب وقت پر کی جاتی ہے۔نیز بیج کھیت میں ڈالے جاتے ہیں کھیت سے  باہر نہیں پھینکے جاتے،کوئی کسان اس ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔"

ایک اور آیت( وَلا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ مِنْ إِمْلاقٍ) "اپنی اولاد کو رزق کے اندیشہ سے قتل نہ کرو(الانعام:152) کی تفسیر میں علامہ قرطبی"احکام القرآن" میں لکھتے ہیں:

"اس سے عزل کی ممانعت پر استدلال کیاجاتا ہے کیونکہ زندہ درگور کرنے سے موجودہ اولادبھی ختم ہوجاتی ہے اور آئندہ آنے والی نسل کا راستہ بھی مسدود ہوجاتا ہے۔اور عزل آئندہ آنے والی نسل کو روکنے کی ایک شکل ہے ،لہذا دونوں صورتیں ایک طرح کی ہیں۔فرق اتنا ہے کہ کسی جان کاقتل کبیرہ گناہ ہے ۔جبکہ یہ قبیح ترین فعل ہے۔"

مولانا وحید الدین خان تفسیر"تذکیر القرآن میں اس آیت کی  تشریح میں لکھتے ہیں:

"انسان اپنے حرص اور ظلم کی وجہ سے خدا کے پیداکیے ہوئے رزق کو  تمام بندوں تک منصفانہ طورپر پہنچے نہیں دیتا۔اور جب اس کی وجہ سے قلت کے مصنوعی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ کھانے والوں کو قتل کردو یا پیدا ہونے و الوں کو پیدا نہ ہونے د و۔اس قسم کی باتیں خدا کے نظام رزق پر بہتان کے ہم معنی ہیں۔"

سید ابو الاعلیٰ مودودی نے تفہیم القرآن میں مذکورہ بالاآیت کی تفسیر میں لکھا:

"یہ آیت ان معاشی بنیادوں کوقطعی منہدم کردیتی ہے جن پر قدیم زمانے سے آج تک مختلف ادوار میں  ضبط ولادت کی تحریک اٹھتی رہتی ہے۔افلاس کا خوف،قدیم زمانےمیں قتل اطفال اوراسقاط حمل کامحرک ہوا کرتا تھا اور آج وہ ایک تیسری تدبیر،یعنی منع حمل  کی طرف دنیا کو دھکیل رہا ہے۔لیکن منشور اسلامی کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ کھانے والوں کوگھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر ان تعمیری مساعی میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کرے جس سے اللہ کے بنائے ہوئے قانون فطرت کے مطابق رزق میں افزائش ہوا کرتی ہے۔اس دفعہ کی رو سے یہ بات انسان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ وہ باربار معاشی ذرائع کی تنگی کے اندیشے سے افزائش نسل کا سلسلہ روک دینے پر آمادہ ہوجاتاہے۔یہ انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رزق رسانی کاانتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ اس اللہ کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے جس طرح وہ پہلے آنے والوں کوروزی دیتا رہا ہے بعد کے آنے والوں کو بھی دے گا۔تاریخ کاتجربہ یہی بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں  میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی ہے،اتنے  میں بلکہ بارہا اس سے بہت زیادہ معاشی ذرائع  وسیع ہوتے چلے گئے ہیں۔لہذا خداکے تخلیقی انتظامات میں انسان کی بے جا دخل اندازیاں حماقت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔"

رزق کی بہم رسانی اللہ تعالیٰ کی  صفت ربوبیت کے ساتھ مختص ہے جب کہ بارہا مقتدر افراد نے اسے اپنا کمال بنا کر اللہ تعالیٰ کو اس کے درجہ ر بوبیت سے معزول کرنے کی کوشش کی ہے۔اس طرح وہ خدا کی صفت رزاقیت میں شرک کے مرتکب ہوئے ہیں۔فرمان خداوندی ہے:

((وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ))

"کوئی شے ایسی  نہیں جس کے  ہمارے پاس خزانے نہ ہوں۔"(الحجر:21)

((مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ ۖ وَمَا عِندَ اللَّـهِ بَاقٍ))

"جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجاتا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔"(النحل:96)

((وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا ))

"زمین میں کوئی جانور ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔"(ھود:6)

مندرجہ بالا آیات میں پیٹ کے پجاریوں اور فلسفہ زندگی کی بنیاد شکم پرکھنے والے دانشوروں کو شرم دلائی گئی ہے کہ انسان تو انسان جانور بھی خدا کی نعمتوں سے محروم نہیں ہیں۔لیکن ایمان کی کمی انہیں ان یقین دہانیوں پر باور کرنے سے روکتی ہے۔کیونکہ دوسری طرف"شیطان"انہیں مفلسی سے ڈراتا  اورانہیں بے حیائی کا حکم  دیتا ہے۔وسائل کی ازسر نو منصوبہ بندی پر زور دیتے ہوئے مولانا محمد تقی عثمانی رقمطراز ہیں:

"خاندانی منصوبہ بندی کی خالص احمقانہ تحریک نے بھی ہماری معیشت کو نقصان پہنچایا ہے تیسرے پنج سالہ منصوبہ میں اس تحریک کے فروغ کے لئے 284 ملین روپیہ کی رقم مخصوص کی گئی ہے(جبکہ سماجی بہبود کے لئے مخصوص کی جانے والی رقم کل 125 ملین ہے)۔

یہ بات  پوری طرح ثابت ہوچکی ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی شرعی،عقلی ،سماجی اور معاشی غرض ہر اعتبار سے پاکستانی عوام کے لئے ناقابل قبول ہے۔اس صورت میں قومی دولت کااتنا بڑاحصہ اس پر صرف کرنے کی بجائے زراعت کی ترقی اور کاشکاروں کی پیداواری قوت بڑھانے پر صرف کیا جائے۔"(عصرحاضر میں اسلام کیسے نافذ ہو؟

پروفیسر کولن کلارک نے"پاکستان کے کچھ معاشی مسائل پر عمومی تبصرہ" کے عنوان سے لکھا ہے:

"کچھ لوگ کہتے ہیں کہ معاشی وجوہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ آبادی کے اضافہ کی رفتار کو کم کیا جائے یا یہ کہ ایک جامد اور محدود آبادی اصل مطلوب ہے ۔مجھے ان میں سے کسی تجویز سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔میرے خیال میں معاشی مفکرین کا کام یہ ہے کہ وہ بتائیں کہ معیشت کو آبادی کی ضرورتوں کے مطابق کیونکر ڈھالا جائے نہ یہ کہ آبادی کو معیشت کے مطابق کس  طرح تراشاخراشا جائے۔والدین اپنے ضمیر اور اپنی پسند کے مطابق بچے پیداکرتےہیں اور انھیں مستقبل میں بھی ایساہی کرنا چاہیے ۔کسی معاشی مفکر کو خواہ وہ کتنا ہی عالم فاضل کیوں نہ ہو،اور کسی وزیر اعظم کو خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو،یہ حق نہیں ہے کہ وہ والدین سے یہ کہے کہ ایسا کرو۔ہرگز نہیں بلکہ سارے حقوق دوسرے پلڑے میں ہیں۔ہر باپ کو ضرور یہ حق حاصل ہے کہ وہ ماہرین معیشت اور وزرائے اعظم سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ معیشت کو اس طرح منظم کریں کہ تمام لوگوں کو ان کی بنیادی  ضروریات فراہم ہوجائیں۔"(کولن کلارک رپورٹ:ص2)

ضبط ولادت کی تحریک کے پس پردہ عالمی سیاست کے مخصوص عوامل کارفرما ہیں۔یورپ میں جب اس کا آغاز ہوا تو جلد ہی منفی نتائج آنا شرو ع ہوگئے اور معاشرتی نظام میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں تو اقبال رحمۃ اللہ علیہ  کو کہنا  پڑا۔

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال؟

مرد بے کار وزن تہی آغوش!

چنانچہ جنگ عظیم دوم کے دوران اتحادیوں نے جون 1940 کو ہزیمت کے بعد اقرار کرلیاکہ یہ ان کی نفس پرستیوں اور شرح پیدائش میں کمی کانتیجہ ہے۔خود مارشل پتیاں نے شکست کا ایک بنیادی سبب قلت اطفال(Too few children) کوقراردیا۔برطانوی وزیر اعظم چرچل کے صاحبزادے اینڈ ولف چرچل نے کہا؛" میں نہیں سمجھتا کہ ہماری قوم بالعموم اس خطرے سے آگاہ ہوچکی ہے کہ اگر وہاں شرح پیدائش یوں گرتی رہی تو ایک صدی کے اندر جزائر برطانیہ دنیامیں ایک بڑی طاقت نہ رہ سکے گا"(بحوالہ اسلام اور ضبط ولادت۔ص8)

اس  تناظر میں اگر پاکستان کی دفاعی صورت حال کو مد نظر رکھا جائے جسے اپنے خطے میں اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن کا سامنا ہے تو اصل خطرے کا احساس کر تے ہوئے تحدید نسل کے حامیوں کو اپنی غلطی کا اعتراف کرلیناچاہیے۔مشہور فلسفی اور مفکر برٹرینڈرسل نے تحدید نسل پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ:

"اس طرح ہنر مند کاری گروں ،متوسط اوراعلیٰ خاندانوں کی تعداد میں کمی ہورہی ہے جبکہ غریب کند ذہن،اور جمود زدہ طبقات میں اضافہ ہورہا ہے۔اس طرح طبقاتی عدم توازن اور مصنوعی بانجھ پن پیدا ہورہاہے۔مغرب میں شرح پیدائش میں کمی کے باعث بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ سے سفید بالوں والا معاشرہ(Grey People Society) وجود  میں آرہا ہے۔جو نوجوانوں کے معاشرےکی نسبت کم پیدا آور ہوتا ہے۔طلاق کی کثرت ہے کیونکہ لاولد شادیوں میں وقت گزرنے کے ساتھ بدمزگی اور بے کیفی پیدا ہوجاتی ہے۔ گویا کہ وہ اپنے سفر کے اختتام تک  پہنچ گئے ہیں۔طلاق حاصل کرنے والے جوڑوں میں دو تہائی بے اولاد ہوتے ہیں۔عورت کی زندگی پر اس کے برے اثرات زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔اس کی ماں بننے کی خواہش کاگلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔لہذا اس کے اعصابی اور جسمانی نظام میں منفی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔"صرف دو بچے" کانعرہ انتہائی گمراہ کن ہے۔میاں بیوی دو بچے پیدا کرکے صرف اپنا متبادل  چھوڑتے ہیں۔نسل کو آگے بڑھانے کے لئے معاشرے کو کچھ نہیں دیتے۔"

ڈاکٹرفریڈرک کے بقول:۔

"ایسی آبادی کے لئے،جس میں دو بچوں کا رواج ہو،یاجس میں بالاخر ہر شادی پر دو بچے زندہ رہیں،نیست ونابود ہوجانا مقدر ہے۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ ایک ہزار افراد جن میں دو بچوں کا رواج ہو پہلے تیس سال کے بعد صرف 631 رہ جائیں گے۔60 سال کے بعد 386 اور ڈیڑھ سو برس کےبعد صرف 92 رہ جائیں گے"(بحوالہ میرج اینڈفیملی:ص239)

ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آبادکے مجلہ فکرونظر جولائی۔ستمبر 1990ء کے مطابق کینیڈا میں ایک جوڑے کی طبعی عمر کے دوران اوسطاً(107) بچے پیدا ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں ایک نسل کے دوران اوسطاً 3 افراد کی کمی واقع ہونے سے سالانہ ساٹھ ہزار افراد کم ہورہے ہیں۔یہ کمی فی الحال دیگر ممالک سے ہونے والی نقل مکانی کے ذریعہ پوری کی جاتی ہے۔اہل مغرب نے طویلے کی بلابندر کے سر ڈالنے کافیصلہ کرلیاہے۔اور اس کے لئے ایشیا،افریقہ اور لاطینی امریکہ کا انتخاب کیاہے،ڈارون کے فلسفہ ارتقاء کو بنیاد بنا کر"تنازع للبقاء"(Struggle for Existence) کی جدوجہد میں یورپ کی بزعم خود بالاتر اقوام،غیر ترقی یافتہ اقوام کا خاتمہ چاہتی ہیں اوراپنے آپ کو "بقائے اصلح" (Survival of the fifttest) کا مستحق سمجھتے ہوئے نام نہاد ارتقائی مراحل تنہا طے کرناچاہتی ہیں۔اس بات کا ذکر میک کارک نے اپنی کتاب  میں ان الفاظ میں کیا ہے:

"ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے لئے اس بات میں ایک فطری پسند یدگی ہے کہ کم ترقی یافتہ ممالک میں انسانوں کی تعداد کم ہوجائے اور یہ اس لئے ہے کہ وہ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد میں ا پنے اعلیٰ معیارزندگی اور  پھر خود اپنی سلامتی کے لیے مستقل خطرہ دیکھتے ہیں۔۔۔یہ ایک نئی قسم کا سامراج ہے جس کا مقصد غیر ترقی یافتہ اقوام کو پست  تر کرنا ہے۔خصوصیت سے سیاہ فام نسلوں کو تاکہ سفید فاموں کی بالادستی قائم رہے۔"(پیپل سپس ،فوڈ:ص77،78)

اس کے مقابلے میں اسلام دنیا کو کالے او گورے ،امیر اورغریب کی تفریق سے نکال کر امن کا گہوارہ بنانا اور خدا پرست معاشرہ تشکیل دیناچاہتاہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے امت مسلمہ کی تعداداور کثرت میں اضافہ ایک منطقی ضرورت ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

«تزوّجوا الْوَدُود الْوَلُود؛ فَإِنِّي مكاثرٌ بكم الْأُمَم يَوْم الْقِيَامَة».

"زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے شادی کرو  تاکہ قیامت کے دن میں تمہاری کثرت کی وجہ سے تمام امتوں میں زیادہ تعداد والا ہوسکوں ۔"(احمد وابن حبان ،بلوغ المرام)

دور حاضر میں انسانیت کے مستقبل اور بقا کی یہ جنگ اسلام اور کفر کے معرکہ کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کے بقول:

"دشمنان اسلام بظاہر خوبصورت ناموں اور پردوں میں چھپا کر ضبط ولادت کا پروگرام مختلف حیلوں اور بہانوں سے امت پر نافذ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کی قوت کمزور اور شان وشوکت ماند پڑ جائے۔تحدید نسل کے ان پروگراموں کو مختلف نام دیئے گئے ہیں۔مثلاً خاندانی منصوبہ بندی،بہبود آبادی،منظم ،والدیت،منظم امومت وغیرہ سب ایک ہی شے کے مختلف نام ہیں۔"(تنظیم النسل،ریاض:ص7)

پاکستان میں سرکاری طور پر جب اس محکمہ کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کانام"خاندانی منصوبہ بندی ڈویژن"رکھا گیا۔اس کا نوٹس لیتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک جامع رپورٹ شائع کی جس کا پیش لفظ اس کے دو چیئر مینوں جسٹس ریٹائرڈ تنزیل الرحمان اور جسٹس ریٹائرڈ محمد حلیم نے لکھا:رپورٹ میں کونسل کی حتمی رائے ظاہر کر تے ہوئے لکھا گیا:

"ضبط تولید کاجسے خاندانی منصوبہ بندی(اور اب آبادی کی منصوبہ بندی ) کہا جاتا ہے ریاست کی باقاعدہ پالیسی کے طور پر اپنانا اسلامی شریعت کی روح کے خلاف ہے۔ضبط تولید کی وجہ سے معاشرہ اعتقادی ارتداد، بے حیائی ،قومی سطح پر جنسی بے راہ روی ،ملکی دفاع اور اقتصادی ترقی کے لئے درکار افرادی قوت میں کمی کا شکار ہوجاتاہے۔نیز اس سےنفسیاتی واعصابی تناو کے سبب بسا اوقات ماؤں اور بچوں کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے ۔کونسل نے اس دلیل کو رد کرتے ہوئے کہ آبادی میں اضافہ سے قومی  وسائل کم پڑ جائیں گے۔رائے ظاہر کی کہ یہ دلیل اعداد وشمار کی  روسے غلط ثابت ہوچکی ہے۔لیکن مغرب کے پروپیگنڈہ باز اپنی بدنیتی کے باعث اسے  تیسری دنیا کے ممالک واقوام کے سامنے برابر پیش کیے جارہے ہیں۔ لہذا کونسل سفارش کرتی ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے  پروگرام کو حکومتی سطح پر ترک کیا  جائے۔"(رپورٹ خاندانی منصوبہ بندی:ص81)

طبعی عذر کی بناء پر انفرادی استثناء کےعلاوہ ضبط ولادت کو ایک تحریک کی شکل میں رواج دینا معاشرتی فساد کا باعث بن سکتاہے۔قرآن کریم میں مفسدین کی یہ نشانی  بتائی گئی ہے کہ وہ"اللہ کی تخلیق میں تبدیلیاں پیدا کریں گے"یہ پیشن گوئی اس تحریک پر  پوری طرح صادق  آتی ہے۔مانع حمل طریقوں کے طبعی نقصانات کی فہرست بہت طویل ہے۔جس سے استعمال کنندگان کو اکثر بے خبر رکھا جاتاہے۔ان طریقوں پر عمل کرنے و الے مردوں کو جسمانی نظام میں برہمی پیدا ہوسکتی ہے۔وہ مردانہ کمزوری کا نامردی کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔عورتوں میں بدمزاجی،چڑچڑاپن اور دیگر اعصابی تکالیف پیدا ہوجاتی ہیں ۔جن سے زوجین کے آپس کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔افسردگی،اشتعال انگیزی،بے خوابی،دوران خون کی کمی،ایام ماہواری کی بے قاعدگی،چہرہ کی بے رونقی،سینے کی نامکمل نشونما غدودوں اور ہارمون کے نظام میں خرابی اور مصنوعی ہارمون کے استعمال سے کینسر لاحق ہونے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔

اتنے نقصانات کے باوجود لادینیت او سیکولرازم کے پرچارک اس بات پر مصر ہیں کہ اسلام کو صرف نظریہ،عبادات اور رسومات تک حد تک مانا جائے۔لیکن معاشرت ،معیشت،اور سیاست میں اس کے عمل دخل کی اجازت نہ دی جائے۔ایسے ہی انسانوں کے بارے میں حکم ربی ہے:

"اورجب وہ صاحب اختیار ہواتو اس نے زمین میں فساد  پھیلانے اور کھیتی اور نسل کو ہلاک کرنے کی تدبیریں شروع کردیں۔"(البقرہ:205)

جنگ،آلام،آفات سماوی وارضی سے ہونے والی تباہی اور ہلاکت ،انسانی آبادی کو خود بخود کنٹرول کرتی ہے۔ذرائع ابلاغ سے کی جانے والی تشہیری مہم سے بے حیائی ،فحاشی،اخلاقی بے راہ روی،زنا اور بدکاری میں اضافہ ہورہا ہے ۔لہذا ضبط ولادت کی تحریک کافی الفور خاتمہ ہی انسانیت کے بہترین مفاد میں ہے۔

عبدالرحمان عاجز مالیر کوٹلوی

زندگی تھی پرسکوں جب تک کہ میں گمنام تھا

کلفتوں میں راحتیں تھیں،رنج میں آرام تھا بات ہے اس وقت کی جب غلبہ اسلام تھا

جب میں مفلس تھا اسیر گردش ایام تھا ہر طرح بدنام تھا میں،مجھ پر ہر الزام تھا

صرف ایک لغزش سے مردود خلائق ہوگیا ورنہ شیطان بھی کبھی مرہون صد اکرام تھا

تیرے در  پر جب بھی جو آیا،ہوا وہ نیک نام اس سے  پہلے گو زمانے بھر میں وہ بدنام تھا

آدمی کاکیوں نہ مذھب  مذھب ِاسلام ہو حضرت آدم علیہ السلام  کامذھب مذھبِ اسلام تھا

پوچھتے ہو کیوں ہوا ناکامیوں کاسامنا  کچھ نہ  پوچھو اصل میں اپنا ہی عزم خام تھا

جب کسی بھی وصف کے قابل نہ تھے اس وقت بھی اے خدا ہم پر تیرے اکرام تھے انعام تھا

یاد آتے ہی بڑھاپے میں،لڑکپن کے وہ دن  بے خبر تھا غم سے،جب ناواقف آلام تھا

حشمت دنیا تھی اس دم،گر د میری راہ کی  میں چلا جب سوئے بطحا،زیب ِتن احرام تھا

میری شہرت بن گئی ہے ،درد سر میرے لئے  زندگی تھی پرسکوں،جب تک کہ میں گم نام تھا

وقت تھا عہد جوانی کا،وہی تو کام کا

جب تجھے  عاجز،نہ کچھ لہو ولعب سے کام تھا