امام ترمذی اور ’’الجامع‘‘

ولادت اور نام و نسب:۔
امام ترمذی 210ھ کے حدود میں پیدا ہوئے بعض نے 209ھ ذکر کیا ہے۔کیونکہ وفات بالاتفاق 279ھ ہے امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے میزان الاعتدال میں 279ھ وفات ذکر کی ہے اور لکھا ہے:
"وكان من ابناء سبعين"
یہی الفاظ علی القاری نے شرح الشمائل میں ذکر کیے ہیں،پس ان جملہ اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ امام موصوف 209ھ میں پیدا ہوئے لہذا ان کی ولادت 210ھ ہی ہے۔(1)
امام ترمذی کا نام محمد،باپ کا نام عیسیٰ اور کنیت ابو عیسیٰ ہےاور  پورا نسب یہ ہے:
محمد بن عیسیٰ بن سورۃ بن موسیٰ بن الضحاک اور نسبت اسلمی الترمذی ہے بعض نے البوغی کی نسبت بھی ذکر کی ہے کیونکہ آپ قریہ بوغ میں مدفون ہیں جو کہ ترمذ سے چھ فرسخ کی مسافت  پر واقع ہے۔(2)لیکن ترمذی کی نسبت زیادہ مشہور ہے اور اسی نسبت سے معروف ہیں۔(3)
ترمذ کی حیثیت:۔
خراسان اور ماوراء النھر کا خطہ مردم خیز ہے۔اور ہمیشہ علم وفن کا مرکز رہا ہے۔اور امام ترمذی کا تعلق بھی اسی خطہ علم وفن سے ہے۔یہاں سے بہت سے ارباب کمال اٹھے یاقوت حموی لکھتے ہیں:
ترمذ مدينة مشهورة من امهات المدن راكبة علي نهر جيحون من جانبه الشرقي متصلة العمل بالصغافياں والمشهور من اهل هذه البلدة ابوعيسي صاحب الجامع والعلل وابو اسماعيل السلمي وغيرهم
ابتدائی تعلیم:۔
ترمذ اس زمانے میں علوم وفنون اسلامیہ کا مرکز بن چکا تھا،امام بخاری جیسے محدث عظیم کی سند علم وہاں بچھ چکی تھی اور دیگر اہل حدیث نے وہاں رہائش اختیار کرلی تھی لہذا قرین قیاس یہی ہے کہ امام ترمذی کی ابتدائی تعلیم بھی اسی شہر میں ہوئی ہوگی۔
رحلات:۔
اولاً اپنے شہر کے شیوخ سے علم حاصل کیا اس کے بعد خراسان اور ماوراء النھر کے شیوخ سے کسب فیض کیا،چنانچہ امام اسحاق بن راھویہ نیسا بوری(238ھ) اور محمد بن عمرو السواق سے تحصیل کے بعد پر دوسرے اسلامی مراکز حدیث کی طرف ر حلت کی چنانچہ اولاً عراق میں شیوخ حدیث اور حفاظ سے سما ع کیا پھرحجاز اوردیگر بلاد کی طرف چلے گئے ۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:(4)
طاف البلاد وسمع خلقاً كثيراً من الخراسانيين، والعراقيين، والحجازيين،
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام  ترمذی مصر اور شام نہیں گئے کیونکہ وہاں  کے شیوخ سے بالواسطہ روایت کرتے ہیں۔(5) اور غالباً بغداد بھی نہیں گئے کیونکہ وہاں جاتے تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  سے ضرور ملاقات اور سماع کرتے لیکن امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے چنانچہ خطیب نے تاریخ بغداد اور زہبی نےسیر اعلام النبلاء میں اس سماع کا ذکر نہیں کیا۔
تاریخ رحلت:
تتبع اور استقراء سے پتہ چلتا ہے کہ امام ترمذی نے 235ھ کے قریب رحلت شروع کی،جبکہ ان کی عمر بیس سال کے قریب تھی اس لحاظ سے امام ابو داود سے  دو سال بعد رحلت شروع کی،کیونکہ اس سے پہلے جو شیوخ فوت ہوگئے ہیں،امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے ان سے روایت بالواسطہ کی ہے جیسے علی بن المدینی المتوفی 234ھ ،ومحمد بن عبداللہ بن نمیر الکوفی المتوفی 234ھ اور ابراہیم بن المنذر المتوفقی 236 ھ وغیرھم۔
جبکہ امام ترمذی کے سب سے پہلے شیوخ میں محمد بن عمرو السواق البلغی 236ھ پھر محمود بن غیلان مروزی 239ھ پھر قتیبہ بن سعید المتوفی 240ھ نظر آتے ہیں۔(6)
خراسان کو واپسی:۔
پھر ایک طویل مدت کے بعد 250ھ کو واپس خراسان پہنچ گئے اہل علم نے ان سے استفادہ شروع کردیا اور امام ترمذی نے شیوخ سے مذاکرات شروع کردیے بہت سے مذاکرات اور مناقشات مشہور ہیں جو العلل الکبیر میں انہوں نے ذکر کیے ہیں۔(7)
امام ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  نے النبلاء میں اور امام مزی نے تہذیب الکمال میں امام ترمذی کے شیوخ کی مفصل فہرست شائع کی ہے ان میں کچھ شیوخ وہ ہیں جن سےشیوخ صحاح ستہ نے روایت کی ہے۔
(1)ابوبکر محمد بن بشار بندار،بصرہ کے بہت بڑے محدث تھے۔167ھ میں پیدا ہوئے اور 252ھ کو فوت ہوئے۔بخاری اور مسلم نے ان سے  روایت لی۔
2۔محمد بن المثنیٰ ابو عیسیٰ(م252ھ) المولود 167ھ۔
3۔زیاد بن یحیٰ المملانی 254ھ۔
4۔ابو العباس عبدالعظیم العنبری 246ھ۔
5۔ابو سعیدالاشیخ عبداللہ بن سعید الکندی 257ھ۔
6۔ابو حفص عمرو بن علی الفلاس 249ھ۔
7۔یعقوب بن ابراہیم الدورتی (166ھ۔252ھ)
8۔محمد بن معمر القیسی البحرانی 256ھ۔
9۔نصر بن علی الجحضمی 250ھ۔
مذکورہ شیوخ سے کچھ اقدم شیوخ بھی ہیں ۔جن سے امام  ترمذی نے سماع کیا ہے اور اپنی الجامع میں ان سے روایت بھی کی ہے۔علامہ ذہبی نے النبلاءمیں ان کی  فہرست پیش کی ہے جن میں قتیبہ بن سعید الثقفی ابوالرجال المتوفی 242ھ محمد بن عبدالعزیز رزمہ المروزی 241ھ،اسحاق بن راھویہ 238ھ،ابو بکر محمد بن العلاء248ھ،ابواسحاق ابراہیم بن عبدالرحمان الھروی،ابومحمد اسماعیل بن موسیٰ الغزاری 245ھ وغیرھم شامل ہیں۔
طبقات شیوخ:۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کے شیوخ کو طبقات میں تقسیم کیا ہے۔(9)اسی طرح امام ترمذی کے شیوخ کو بھی تین طبقات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
(الف) وہ جن کو سماع  میں تقدم حاصل ہے جسےقتبہ بن سعید،علی بن حجر وغیرھم جو کبار طبقہ عاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔(10) اور اس طبقے کے رواۃ شیوخ بخاری کے طبقہ وسطیٰ میں شمار ہوتے ہیں۔
(ب) جو سن واسناد میں ان سے متصل ہیں ا ور اکثرشیوخ  ترمذی اسی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جن سے امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی الجامع میں روایت کی ہے جسے احمد بن متبع البغوی 244ھ ،عمرو بن علی الفلاس،محمد بن ابان المستعملی 244ھ وغیرھم۔
(ج) گیارہویں طبقہ کے شیوخ جیسے الحسن بن احمد بن ابی شعیب 250ھ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  ومسلم بلکہ امام ترمذی اس طبقہ سے نزول کے ساتھ روایت کرتے ہیں جیسے ہشام بن عمار الدمشقی 245ھ وغیرہ ان بلاد کے شیوخ جہاں امام ترمذی نہیں گئے اور بالواسطہ ان سے روایت کی ہے بایں وجہ امام ترمذی کی اسناد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  اور مسلم رحمۃ اللہ علیہ  سے نازل ہوگئی ہے اور الجامع للترمذی میں عوالی بہت کم نظرآتے ہیں ،اس نزول کےتین اسباب بیان کیے گئے ہیں:
1۔تاخر طلب ورحلت:۔
2۔بعض بلاد کی طرف عدم رحلت۔
3۔طلب حدیث میں توسیع۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جامع ترمذی میں صرف ایک ثلاثی روایت ہے۔یعنی حدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (باقی علی الناس زمان)الخ(11)پس ملا علی قاری  نے شرح المشکواۃ میں جو لکھا ہے۔
اعلي اسانيد الترمذي ما يكون واسطتان بينه النبي صلي  الله عليه وسلم (12)
یہ مبنی برمسامحت ہے۔
ایک باب کے تحت متعدد احادیث:۔
امام ترمذی اس میں منفرد ہیں کہ وہ ایک باب کے تحت متعدد احادیث کی طرف اختصار کے ساتھ "وفی الباب عن فلان وفلان"کہہ کر اشارہ کردیتے ہیں،لیکن امام مسلم اپنے قاعدہ کے مطابق تمام احادیث کو ذکر کرتے ہیں،تاہم اختصار کے لئے متن کوبار بار ذکر نہیں کرتے بلکہ مثلہ ونحوہ سے اشارہ کردیتے ہیں مثلاً قصة ذي اليدين  في سجود السهو میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی  روایت متعدد طرق سے ذکر کی ہے تمام طرق میں"سلم سهوا في ركعتين وسجد للسهو بعد السلام" مشترک ہے۔تاہم نماز کی محسین میں اختلاف ہے۔کہ بعض میں احدی صلاتی العشی شک کے ساتھ ہے،اور بعض میں صلاۃ الظھر اور بعض میں صلاۃ العصر ہے،پھر عمران والی حدیث لاتے ہیں جس میں مسلم نے ثلاث رکعات اور صلاۃ العصر کو بالجزم ذکر کیا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے مختلف ابواب میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت مختلف طرق سے ذکر کی ہے۔مگر عمران والی روایت اختلاف کی وجہ سے نہیں لائے تاہم باب میں مَن سَلمَ فی رکعتیں اوثلاث کہہ کر عمران والی حدیث کی طرف  اشارہ کردیاہے۔(13)
ثلاثیات اور کتب الستۃ:۔
الجامع للترمذی کے علاوہ کتب الستہ میں ثلاثیات کے متعلق علماء نے لکھا ہے:
صحیح بخاری میں 23 ثلاثیات ہیں جو الگ شرح کے ساتھ بھی مطبوع ہیں۔لیکن صحیح مسلم میں ایک بھی ثلاثی روایت نہیں ہے یہی حال نسائی اور ابو داود کا ہے ،ترمذی میں صرف ایک حدیث ثلاثی ہے،وہاں ابن ماجہ میں پانچ ثلاثیات جبارۃ بن مفلس کے طریق سے مروی ہیں تاہم جبارہ ضعیف اور متکلم فیہ ہے اور مسند دارمی میں 15 ثلاثیات ہیں جو امام دارمی نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کی ہیں۔البتہ مسند احمد میں 332ثلاثیات ہیں جو شیخ محمد السفارینی کی شرح کے ساتھ مطبوع ہیں(14)
بعض علماء نے موطا اور مسند ابی حنیفہ کا مقابلہ کرکے لکھا ہے کہ مسند ابی حنیفہ میں وحدان ہیں اوراس پر فخر کیا ہے تاہم علماء نے ان وحدانی کے متعلق لکھا ہے:"بالمسانيد غير ثابتة"
یعنی یہ اسانید غیر ثابتہ کے ساتھ ہیں۔علی القاری نے مرقاۃ میں دعویٰ کیاہے کہ ترمذی میں ایک حدیث ثنائی بھی ہے مگر یہ صاحب مرقاۃ کا وہم ہے کیونکہ مذکورہ حدیث ثلاثی ہے اور جامع ترمذی میں صرف یہ ایک حدیث ہی ثلاثی ہے۔
امام ترمذی اور علم حدیث:۔
امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  کو علم حدیث میں رسوخ حاصل تھا اور یہ رسوخ ائمہ کبار حدیث سے رسوخ اور ابن سے استفادہ کیوجہ سے حاصل ہوا تھا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  سے خصوصی تلمذ اور امام مسلم اور  ابوداود سے بھی لقاء کا شرف حاصل تھا۔
تاہم امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  سے صرف ایک حدیث(أحصوا هلال شعبان لرمضان ) روایت کی ہے۔اور ابو داود  رحمۃ اللہ علیہ  سے بھی اپنی الجامع میں روایت لی ہے۔(15)یعنی عبداللہ بن زید بن اسلم کی امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  سے تعدیل نقل کی ہے عن طریق ابی داود السجستانی اور علل الحدیث والرجال اور فنون الحدیث میں امام دارمی اور ابو زرعۃ الرازی سے بھی استفادہ کیا  ہے،تاہم فنون حدیث کے اصل مربی امام بخاری ہیں،چنانچہ جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  250واپس وطن آئے اور پانچ سال نیسا پور میں قیام کیا توامام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے امیر المومنین فی الحدیث کی قدروقیمت کا اندازہ لگایا اور ان سے تلمذ اختیار کرلیا۔علامہ ذہبی لکھتے ہیں۔(16)
"تفقه في الحديث بالبخاري"
علل الحدیث،جرح وتعدیل اور تاریخ رجال میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  سےخوب استفادہ کیاجس کا عکس الجامع میں نظر آتا ہے۔شیخ احمد شاکر لکھتے ہیں:
الترمذي تلميذ البخاري وخريجه، وعنه أخذ علم الحديث وتفقه فيه ومرن بين يديه، وسأله واستفاد منه،
درحقیقت امام ترمذی خراسان میں امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ کے بہترین خلف ہیں انہوں نے اپنی الجامع میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کے علم حدیث کو خوب شہرت دی ہے چنانچہ کتاب العلل میں اعتراف کیا ہے کہ میں نے اپنی الجامع میں علل وتاریخ کا زیادہ  تر حصہ محمد بن اسماعیل سے حاصل کیا ہے اوراپنے شیخ کے علم وفضل کااعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لم أر بالعراق ولا بخراسان في معنى العلل والتاريخ  ومعرفة الاسانيد كثير احداعلم من محمد بن اسماعيل
اور استاذ نے بھی تلمیذ کی حوصلہ افزائی کی اور ان کےعلم وذکاوت کا اعتراف کرتے ہوئے ترمذی کو اپنے شیوخ اور اساتذہ میں شامل کرلیا اور ان سے بعض احادیث کا سماع کیا چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے مناقب میں حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  والی حدیث:
لا يحل لأحد أن يجنب في هذا المسجد غيري وغيرك (17)
 ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
قد سمع متي محمد بن  اسماعيل هذ الحديث
اس میں امام ترمذی کی تکریم اور ان کے علم وفضل کی وسعت کی دلیل ہے نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اعتراف کیا ہے:
ما انتفعت بك أكثر مما انتفعت بي 
امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ   کاتفقہ:۔
علم حدیث کی روایت کے ساتھ  امام ترمذی کو تفقہ اور مذاہب علماء کی معرفت میں بھی عبور حاصل تھا فقہ الحدیث میں ماھر تھے اور یہ چیز بھی انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  جیسے حاذق استاذ سے حاصل کی تھی چنانچہ امام ترمذی اپنے دور کے فقہی سرمایہ ہیں ،اختلافات کو خوب سلیقہ سے اپنی جامع میں سمو دیا ہے۔
امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ اہل الرای تو اس وقت کے مشہور فقیہ الرازی سے حاصل کی اورفقہ مالکی اسحاق بن موسیٰ انصاری اور امام مالک کے تلمیذ ابو مصعب الزھری سے اخذ کی،اور امام شافعی کا مذہب قدیم حسن بن محمد زعفرانی اور قوسل جدید ربیع بن سلیمان تلمیذ الشافعی سے اخذ کیا،اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ،اسحاق بن راھویہ وغیرھم کے اقوال وفتاویٰ کی دراست کی ،اور فقہ الحدیث میں بڑا ذخیرہ جمع کرلیا،اور اس کے ساتھ بہت سے دیگر اقوال ومذاہب بھی جمع کردیے اس طرح یہ کتاب"معلمہ الفقہ السلامی" بھی بن گئی ،جب کہ حدیث علل الحدیث ،اسانید اور تمام فنون حدیث کی معلمہ تھی ،الحاصل مصنف کی کتاب الجامع ان کی تفقہ فی الحدیث اور مذاہب پر اطلاع کی بہت بڑی دلیل ہے۔ہر حدیث کے بعد  علماء کے اقوال پیش کرکے ان میں سے ایک کو ترجیح دیتے ہیں جس سے قاری یہ تاثر لیتا ہے کہ وہ فقہ اور حدیث کے بہت بڑے امام تھے۔
اخلاق اور حفظ وضبط:۔
محدثین اور فقہاءکے حالات زندگی پڑھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ اخلاق اسلامیہ اور صفات صالحہ کے پیکر تھے قیام لیل اور تلاوت قرآن ان کی زندگی کے پروگرام میں شامل رہتا تھا اور کتاب وسنت کے صدق دل سے خدمت گزارتھے ان کےاندر حسد وبغض نہیں تھا اور مسلمان کی غیبت کو قبیح ترین گناہ سمجھتے تھے۔
امام ترمذی بھی اخلاق حسنہ کے پیکر تھے اور حفظ وضبط میں ممتاز تھے۔(18) وہ خود ہی بیان کرتے ہیں کہ کسی شیخ نے بطور امتحان میرے سامنے چالیس حدیثیں پیش کیں تو میں نے ان کو اول تا آخر زبانی پڑھ کر سنادیں اور ایک بھی غلطی نہیں کی تو اس نے مجھ سے کہا:" ما رايت مثلك. "(19)
اور ورع واحتیاط دینی میں بے مثل تھے جو کہ محدثین کی امتیازی شان ہے،ادنیٰ شبہات سے بھی دوررہتے ،گویا حدیث(فقد استبرأ لدينه وعِرضه  الخ)پرعمل پیرا تھے،ان کےقلوب خشیت الٰہی سے لبریز تھے اور بہت روتے تھے،امام ترمذی ان صفات میں اپنے شیخ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  کانمونہ تھے،حافظ عمربن ملک نے کیا خوب کہا ہے:
مات البخاري فلم يخلّف بخراسان مثل أبي عيسى، في العلم والحفظ والورع والذهد بكي حتي عمي وبقي ضرير اسنين (20)
طلب علم میں محنت اور مذکورہ صفات عظیم کی وجہ سے امام  ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  مشہور ہوگئے اور بہت سے  شیوخ ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا اور جم  غفیر نے استفادہ کیا۔
مشاہیر تلامذۃ:
ابو بکر اسماعیل بن عامر سمرقندی،ابو حامد احمد بن عبداللہ بن داود المروزی التاجر،احمد بن علی المقری،احمد بن یوسف النسفی،ابو الحارث اسد بن حمدویہ النسفی،حسین بن یوسف الغریری،حماد بن شاکر الوراق،داود بن نصر بن سہیل الیزوی،عبدبن محمد بن محمود النسفی،ابو الحسن علی بن عمر بن کلثوم السمرقندی،فضل بن عمار الصرام،ابو العباس محمد بن احمد بن محبوب المحبوبی المروزی۔راویۃ الجامع ۔ابوجعفر محمد بن سفیان بن النصر النسفی المعروف بالامین،ابوالفضل محمد بن محمود بن العنبر النسفی،علی بن نوح النسفی المقری،محمد بن مکی،الہثیم بن کلیب الشاشی الحافظ راویۃ الشمائل۔وغیرھم(21)
امام تر مذی اور معاصرین:۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کے معاصرین ان کی امامت فی الحدیث ،تقدم اور حفظ واتقان  پر متفق ہیں حافظ ابو سعید کابیان ہے۔
أحد الأئمة الذين يقتدى بهم في علم الحديث ، صنف الجامع والتواريخ والعلل تصنيف رجل عالم متقن ، كان يضرب به المثل في الحفظ. (22)
اس طرح المزی نے تہذیب الکمال میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کی تعریف کی ہے اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے سیر النبلاء تذکرہ میں "حافظ ثقۃ مجمع علیہ" کہا ہے الغرض امام ترمذی حدیث وفقہ کے مسلم امام ہیں اورجامع ترمذی ان کی مشہور ومعروف تصنیف ہے۔
ابن حزم نے محلی اور کتاب الفرائض من الایصال میں ان کو مجہول کہا ہے۔(23) لیکن علماء نے ابن حزم کے اس قول کو شذ وذ پر محمول کیا ہے لہذا امام ترمذی پر اس کا کچھ اثر نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن حزم کی زندگی میں جامع ترمذی کانسخہ مغرب میں نہیں پہنچا تو اس عدم علم کی وجہ سے ابن حزم  نے مجہول کہہ دیا ہے۔(24) چنانچہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  کے الفاظ ہیں:
"وقداعتذرإنه ماعرفه ولادرى بوجود الجامع، ولا العلل اللذَين له لا نهالم تكن دخلت الاتدليس اذ ذالك "
 بعض نے اس اعتذار کو رد بھی کیا ہے کہ جامع ترمذی کے اندلس میں نہ پہنچنے کا یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ امام  ترمذی سے ابن حزم واقف نہیں تھے کیونکہ ابن  الفرضی الندلسی نے اپنی کتاب الموتلف والمختلف میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کا تذکرہ کیاہے۔اور وہ کتاب ابن حزم کے سامنے ہے۔(25)
اصل میں ابن حزم نے بعض ائمہ کے علم وفضل اور فقہی مقام سے عدم واقفیت کی وجہ سے ان کو مجہول کہہ دیا جیسے ابو القاسم البغوی(317ھ) اسماعیل بن محمد الصفار،ابوالعباس الاصم(346ھ) وغیرہ،چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:(26)
وجهالة ابن حزم لابي عيسي لاتضره حيث قال  في محلاه ومن محمد ابن عيسي بن سورة؟
"جامع ترمذی"
مصنف کے مختصر حالات پیش کرنے کے بعد اب ہم ان کی جا مع کو موضوع سخن بنا تے ہیں جو اس ترجمہ سے اصل مقصود ہے۔
الجامع للترمذی:۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کے حالات میں ہم بیان کرآئے ہیں کہ اس دور میں جمع حدیث کے سلسلہ میں محدثین کے سامنے دوطرح کاکام ہو چکا تھا اول مساسد کے مجموعے مرتب ہو چکے تھے اور بعض اصحاب مسانید نے انتقاء سے کام لیا تھا اور کانٹ چھا نٹ کر احادیث صحیحہ کو جمع کرنے کی کو شش کی تھی مگر اس میں سہولت اور نرمی سے کام لیا گیا تھا ۔
دوم:مؤطا امام مالک نمونہ موجود تھا جس میں احادیث صحیحہ درج کی گئی تھی مگر صحابہ و تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے اقوال کے ساتھ مخلوط کر دی گئی تھیں۔
آئمہ ستہ کی مساعی:۔
آئمہ ستہ نے اپنے دور میں مبوب کتابیں لکھیں اور تحت التراجم احادیث درج کر کے ایک طرح فقہ الحدیث مرتب کر دی اور ان کے سرخیل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے ابواب اور تجرید صحیح کی پہلی کو شش کی اورشیوخ کے مشورہ سے اس کام کو پا یہ تکمیل تک پہنچا دیا جیسا کہ گذر چکا ہے۔
آئمہ ستہ کے دور میں حدیث صحیح و مقیم مخلوط تھی اور بعض محدثین نے منکرروایات بغیر تمییزو بیان کے جمع کرنے سے بھی گریز کیا تھا لہٰذا ضرورت تھی صرف ان احادیث کو مرتب کیا جا ئے جو صحت کے اعتبار سے معیار ی ہوں اور ان کو ابواب پر مرتب کیا جائے تا کہ استفادہ آسان ہو۔
چنانچہ محدثین نے کمر ہمت باندھی اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  اور مسلم نے اس کام میں پہل کی اور صرف حدیث صحیح کو ابواب پر مرتب کیا تا کہ  عوام کے لیے استفادہ میں آسانی ہو اس طرح انھوں نے مصنفات اور مسانید دونوں طریقوں کو جمع کردیا مصنفات ابواب پر مرتب تھیں اور امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  نے تجرید صحیح کا نمونہ پیش کر دیا تھا ۔پس اس امور میں محدثین کا اولین مقصد صحیح اور منکر میں تمیز دینا تھا امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے مقدمہ میں اس کی تصریح کی ہے چنانچہ محدثین کی ان کتابوں کے مرتب ہو نے پر دوطریقےسامنے آئے ہیں :
(1لف)فقہ اور استنباط احکام پر احادیث مرتب کی گئی جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کا طریق ہے اور اس سے پیشتر مؤطاکا نمونہ موجود ہے مگر مؤطا مختصر تھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے ابواب و متراجم کو وسعت دے کر استنباط میں تفنن سے کام لیا حتی کہ کامل نمونہ بن گیا اور اس طریقہ   میں اصل کی حیثیت اختیارکر لی۔
(ب)فن اسناد کا اہتمام کیا گیا اور اسانید حدیث کے ساتھ فوائد حدیث کو جمع کر دیا گیا جو امام مسلم  رحمۃ اللہ علیہ  کا طریق ہے۔
حدیث کے جمع کرنے کے ساتھ علوم الحدیث میں اضافہ ہو تا رہا اور اس طبقہ کے علماء نے علوم الحدیث میں ہر فن پر شاندار کتابیں تا لیف کیں۔
چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے "تواریخ ثلاثہ " کتاب الضعفاء اور کتاب العلل وغیرھا کتابیں تالیف کیں اور امام مسلم نے کتاب الاسماء والکنی ،کتاب الافراد، والتمسییز وغیرہ کتابیں تحریر کر کے اس فن کو ترقی دی۔العلامۃ العجلی ،اسحاق الکوسج نے جرح وتعدیل پر مختلف کتابیں تا لیف کیں جو بعد کے علماء کے لیے مراجع کی حیثیت  رکھتی ہیں (27)علماء کی ان مساعی جملہ سے علوم الحدیث کی انواع متمیز نظر آنے لگیں اور قبول ورد کے لحاظ سے حدیث کے صحیح حسن اور ضعیف تین اقسام ہو گئے۔
ابن المدینی سے ا مام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  اور یعقوب بن شیبہ وغیرہ نے اس فن کو حاصل کیا (28)اس کی خوب نشرو اشاعت کی اور اس کے مطا بق عمل کیا اور احادیث پر صحت و حسن اور صنعف کے احکا م صادر کئے امام مسلم نے مقدمہ الصحیح میں اس کی تو ضیح کی اور احادیث و رجال کے تین طبقے ترتیب دئیے ۔
(1)حفاظ متقنین کی احادیث (2)ھل الستر والصداق اور طالب علم کے ساتھ متصنف ہیں (3)وہ رواۃ جو متہم با لکذب ہیں اور ان کی احادیث اکثر طور پر منکر ہیں ۔
پہلی اور دوسری قسم کی روایات کو قبول کیا اور تیسری قسم کو ترک کر دیا امام مسلم کی یہ اقسام بھی تقسیم ثلا ثی کے مطابق تھیں ،علاوہ ازیں بعض مرکب اصطلا حات بھی استعمال کی گئیں مثلاً حسن صحیح"جو امام ترمذی سے پہلے بھی مام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  یعقوب بن شیبہ (262ھ)اور امیر علی الطوسی استعمال کرتے رہے (29)ان کے بعد امام ترمذی آئے اور تقسیم میں ان کا راستہ اختیار کیا اور ایک ایک حدیث کے فوائد و احکام پر مفصل گفتگو کی اور اساتذہ سے استفادہ کیا۔
تالیف امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  :۔
 امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سی تالیفات کے مجموعے چھوڑے ہیں جن میں سے حسب ذیل کے نام مل سکےہیں ۔

1۔الجامع جو"سنن ترمذی" کے نام سے مشہور ہے۔

2۔الشمائل النبویۃ معروف بہ شمائل الترمذی ۔

3۔کتاب" العلل المفرد"اور"العلل الکبیر"۔

4۔العلل جو جامع کے آخر میں منضم ہے(30)

5۔کتاب الزهد(المفرد) قال ابن حجر : لم یقع لنا (31)

6۔التاریخ (32۔

7۔اسماء الصحابۃ (33)

8۔الاسماء والکنی (34)

9۔کتاب "الاثار الموقوفۃ"

الجامع للترمذی رحمۃ اللہ علیہ :۔اس کے بعد اب ہم الجامع للترمذی رحمۃ اللہ علیہ  پر بحث کرتے ہیں اور اس پر اپنا جا ئزہ پیش کرتے ہیں ۔ الجامع للترمذی"اصول خمسہ" میں شمار ہو تی ہے جو ابواب پر مرتب ہے اور ان کے تحت احادیث صحیحہ مرتب ہیں ہر حدیث کے بعد و حسن اور ضعف میں اس کا درجہ بیان کر دیا ہے اس طرح یہ ایک بڑی کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے مو جو دہے۔

اس کتاب کا نام "الجامع "ہے جو ایک اصطلا حی نام ہے کیونکہ حدیث کی اصناف ثمانیہ اس میں جمع کر دی گئی ہیں ،خاص طور پر مواعظ و آداب تفسیر اور مناقب پر نہایت تفصیل سے کام کیا ہے اور امام ترمذی کے اس اعتناء پر مقالہ نگا روں نے کتاب کی بہت تعریف کی ہے اور اسے قدر کی نگا ہوں سے دیکھا ہے۔(35)

خطیب نے الجامع کو صحیح ترمذی کے نام سے ذکر کیا ہے اور امام حاکم نے الجامع الصحیح کہا ہے (36)

لیکن ان ہر دواسامی میں تجویز ہے، کیونکہ جامع ترمذی میں صحیح حسن اور ضعیف روایات بھی بکثرت ہیں بلکہ حسن اور ضعیف کے مقابلہ میں الصحاح کم ہیں ۔

الکتانی نے الرسالۃ المسطرفۃ میں "الجامع الکبیر"کا عنوان ذکرکیا ہے (37)لیکن یہ نام قلیل الاستعمال ہے زیادہ مشہور نام السنن للترمذی "ہے کیونکہ یہ کتاب احکام فقہی پر مشتمل ہے اور ترتیب فقہی پر ابواب قائم کئے گئےہیں ۔لہٰذا اس کو سنن کہنا انسب ہے ،جیسا کہ الکتانی نے المستطرفۃ میں ذکر کیا ہے مگر چونکہ اس میں احکام کے علاوہ دیگر مضامین بھی موجود ہیں اس لیے یہ الجامع ہے جو علماء کے نزدیک مشہور تر اور اصطلا حی نام ہے جیسا کہ ہم الجامع الصحیح للبخاری میں مفصل ذکر کر آئے ہیں (38)اور پھر یہ نام کتاب کی حالت اور واقع کے بھی مطابق ہے اور جن اصحاب نے صحیح ترمذی یا الجامع الصحیح کے عنوان سے اس کو طبع کیا ہے وہ مناسب نہیں ہے ۔

جامع ترمذی اور فنون حدیث:۔

جامع ترمذی اھادیث مرفوعہ اور اقوال صحابہ و تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے بہت سے فوائد حدیثیہ اور فقہ المذاہب سے مملو ہے ہر باب کے تحت ایک دو احایث کو درج و تحسین اور تضعیف کے لحاظ سے احادیث کی درجہ بندی کی ہے ۔پھر رجال واسانید پر بحث کر کے اسانید کے علل ذکر کئے ہیں اور اس باب میں اگر دوسری احادیث ہوں جو ترجمۃ الباب کے مناسب ہوں تو (فی الباب عن فلان وفلا ن) سے ان کی طرف اشارہ کر دیا ہے اور خاص مسائل میں اپنی رائے بھی ذکر کر دی ہے اس بناء پر علماء نے "الجامع للترمذی "کے فوائد و مقاصد ذکر کئے ہیں ابن رشید لکھتے ہیں ۔

إن كتاب الترمذي تضمن الحديث مصنفًا على الأبواب وهو علم برأسه ، والفقه وهو علم ثان ، وعلل الحديث ويشتمل على بيان الصحيح من السقيم وما بينهما من المراتب وهو علم ثالث ، والأسماء والكنى وهو علم رابع ، والتعديل والتجريح وهو علم خامس ، ومن أدرك النبي صلى الله عليه وسلم ومن لم يدركه ممن أسند عنه في كتابه وهو علم سادس ، وتعديد من روى ذلك وهو علم سابع ،

لیکن جامع میں ان علوم کا بیان اجمالی طور پر ذکر کیا گیا ہے اب رہے تفصیلی علوم تو وہ بہت زیادہ ہیں ۔(39)

ابو بکر ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ  نے عارضۃ الاحوذی کے نام سے ترمذی کی شرح لکھی ہے جس کے مقدمہ میں فوائد الکتاب کے لیے ایک فصل قائم کی ہے اس کی افادیت کے پیش نظر ہم کچھ تلخیص کے ساتھ یہاں پر درج کرتے ہیں ۔

وليس  فيها-يعني كتب الحديث –مثل كتاب ابي عيسي  حلاوة مقطع ونفاسة منزع وعذوية مشرع وفيه اربعة عشر علما  فهو قد صنف واسند وصحح واسقم وعدد الطرق وجرح وعدل واسمي واكني ووصل وقطع واوضع المعمول به والمتروك وبين اختلاف العلماء  في  الردو القبول لا شاره وذكر اختلافهم في تاويله وكل علم من هذه العلوم اصل في بابه وفرد في نصابه فا لقاري له لا يزال في رياض مونقة وعلوم متفقة منقة(40)

1۔موضوع الکتاب:۔

ان امور کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ الجامع کا موضوع دو چیزیں ہیں " الصناعۃ الحدیثیہ" اور "الفقہ اجتہاد و استنباطاً "دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں ۔

ان موضوع الجامع للترمذي هو الحديث صناعة وفقها

اور یہی بات امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ نے الجامع کے سبب تالیف میں ذکر کی ہے ۔(41)

چنانچہ لکھتے ہیں ۔

قال أبو عيسى وإنما حملنا على ما بينا في هذا الكتاب من قول الفقهاء وعلل الحديث لأنا سئلنا عن هذا فلم نفعله زمانا ثم فعلناه لما رجونا فيه من منفعة الناس لأنا قد وجدنا غير واحد من الأئمة تكلفوا من التصنيف ما لم يسبقوا إليه منهم هشام بن حسان وعبد الملك بن عبد العزيز بن جريج وسعيد بن أبي عروبة ومالك بن أنس وحماد بن سلمة وعبد الله بن المبارك ويحيى بن زكريا بن أبي زائدة ووكيع بن الجراح وعبد الرحمن بن مهدي وغيرهم من أهل العلم والفضل صنفوا فجعل الله في ذلك منفعة كثيرة فنرجو لهم بذلك الثواب الجزيل عند الله لما نفع الله به المسلمين فهم القدوة فيما صنفوا 

اس میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے وضاحت کی ہے کہ میں نے اقوال الفقہاء اور علل الحدیث کو اپنی کتاب میں کیوں جگہ دی ہے جبکہ اس سے قبل کسی نے بھی ان پر بحث نہیں کی۔چنانچہ لکھتے ہیں ۔

مجھ سے پہلے بھی بہت سے علماء فحول اچھوتے موضوع پر کتابیں لکھ چکے ہیں اور ان کی مسا عی سے لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے پس میں نے بھی وہ کام کیا جو پہلے کسی نے نہیں کیا ،اس سے بھی لوگوں کو فا ئدہ پہنچے گا ۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کے اس ابتکار (جدت ) کا اعتراف بہت سے ان علماء نے کیا ہے جنہوں نے جامع ترمذی   رحمۃ اللہ علیہ پر تحقیقی کام کیا ہے علامہ احمد شاکر مصری رحمۃ اللہ علیہ   لکھتے ہیں

وقال العلامة المحقق الشيخ أحمد محمد شاكر

كتاب الترمذي يمتاز بأمور ثلاثة، لا تجدها في شيء من كتب السنة الأصول الستة أو غيرها :

أولا : أنه بعد أن يروى حديث الباب يذكر أسماء الصحابة الذين رويت نهم أحاديث فيه، سواء أكانت بمعنى الحديث الذي رواه، أم بمعنى آخر أم بمعنى ما يخالفه، أم بإشارة إليه ولو من بعيد .

وثانيا : أنه في أغلب أحيانه يذكر اختلاف الفقهاء وأقوالهم في المسائل الفقهية، وكثيرا يشير إلا دلائلهم، ويذكر الأحاديث المتعارضة في المسألة، وهذا مقصد من أعلى المقاصد وأهمها إذ هو الغاية الصحيحة من علوم الحديث، تمييز الصحيح من الضعيف، للاستدلال والاحتجاج ثم الإتباع والعمل .

وثالثها : أنه يعني كل العناية في كتابه بتعليل الحديث فيذكر درجته من الصحة أو الضعف، ويفصل القول في التعليل والرجال تفصيلا جيدا، وعن صار كتابه هذا كأنه تطبيق عملي لقواعد علوم الحديث، خصوصا علم العلل، وصار أنفع كتاب للعالم والمتعلم، وللمستفيد والباحث في علوم الحديث . أ . هـ. (42)

دائرۃ المعارف میں صاحب مقالہ لکھتے ہیں ۔

دو خصوصیات کی بنا ء پر جامع ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ ممتاز ہے ایک اسناد پر تنقید (یعنی علل الاسناد بیان کرنا) اور دوسرے فقہی مذاہب کے مواضع خلا ف کی تفصیل اس دوسری خصوصیات کے لحاظ سےجامع ترمذی   رحمۃ اللہ علیہ ہمارے پاس وجوہ خلا ف میں قدیم ترین مرجع ہے جو ہم تک پہنچا ہے، اس سے پہلے امام شافعی   رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الام میں کچھ وجوہ خلا ف بیان کئے تھے لیکن اس کثرت سے نہیں جو کتاب ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  میں مذکور ہیں :

2۔صحیح بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  اورصحیح مسلم رحمۃ اللہ علیہ  سے موازنہ :۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  کی صحیحین پر نظر ڈالی جا ئے اور ان کے اغراض و مقاصد کو تامل سے دیکھا جا ئے تو معلوم ہو تا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  بھی انہی کے طریق پر چلے ہیں ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب کی بنا ء فقہی ابواب پر رکھی ہے اور ہر حدیث سے مختلف مسائل اور نکا ت نکا لے ہیں اورترا جم میں ودیعت کر دئیے ہیں اورتراجم میں آیات و احادیث اور اقوالصحابہ و تابعین  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کثرت سے پیش کئے ہیں تا کہ فقہی مسئلہ مدلل ہو جائے۔

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے مقدمہ میں احادیث و رجال کے تین اصناف بنا ئے ہیں چنانچہ وہ پہلے طبقہ کی احادیث اصول میں ایک دوسرے طبقہ کی احادیث شواہد و متابعات میں لا ئے ہیں اور تیسرے طبقے کو چھوڑ دیا ہے۔اس طرح انھوں نے ایک ہی مقام پر احادیث اور طرق کو جمع کر دیا ہے اور عمدہ اختصار کے ساتھ جمع کر دیا ہے اس طریق سے حدیث میں شاذیا زیادہ وقف یا علت کو ظاہر کر دیا ہے۔

ان کے بعد امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کا دور آتا ہے جو کہ شیخین کے تلمیذ ہیں تو انھوں نے اپنی کتاب میں دو نوں کے فوائد کو جمع کر دیا ۔فقہی مسائل جمع کرنے میں صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کے طریق کو اپنا یا اور اسانید و طرق حدیث کو جمع کرنے میں امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  کی تقلید کی اور اپنی کو شش سے اسے نیا لبا س پہنادیا کہ دوسری کتابوں سے ممتاز نظر آنے لگ گئی چنانچہ جامع کے آخر کتاب العلل میں وہ اصول و مسائل بیان کر دیتے ہیں جو بیان فقہ اور انواع حدیث کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان سب کا مرجع چھ امور کی طرف ہے۔

(الف)اجمالی طور پر جامع کی تمام احادیث ماء کے نزدیک معمول بہا ہیں ماسوا دوحدیثوں کے اور مرسل احادیث کے متعلق احادیث کے متعلق لکھتے ہیں ۔

"اکثر اہل حدیث کے نزدیک مرسل حدیث حجت نہیں ہے "اس مرسل میں منقطع بھی شامل ہے۔

(ب)جو فقہ اور فن حدیث حاصل کئے ہیں ان کی اسانید بیان کر دی ہیں اور فنون حدیث علل ،جرح و تعدیل اور تاریخ جن سے اخذ کئے ہیں ۔ ان کے نام ذکر کر دئیے ہیں جیسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ   ،داری رحمۃ اللہ علیہ  ،ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ  اور کتب تا ریخ رجال جس سے جامع کے محتویات کو قوت حاصل ہو گئی ہے ۔(43)

(ج)علوم الرجال کے سلسلہ کے اہم قواعد ذکر کئے ہیں ۔مثلاً:

1۔جرح و تعدیل مشروع ہے اور اس کی مشروعیت پر آئمہ کے بلاٹوک اس پر عمل اور عقلی و شرعی دلا ئل سے استدلال کیا ہے کیونکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے رجال پر کلام کیا ہے اور بہت سی احادیث کو ضعیف کہا ہے پھر جرح و تعدیل کے سلسلہ میں سلف کے اقوال ذکر کئے ہیں ۔(44)

2۔رواۃ کے تین اقسام ذکر کئے ہیں اور چوتھے طبقہ سے سکوت اختیار کیا ہے وہ تین اقسام یہ ہیں ۔

1۔۔۔جو متہم بالکذب ہے یا مغفل ہے اور اکثر خطا کرتا ہے اکثر اہل حدیث کے نزدیک اس سےروایت میں سرو کارنہ رکھا جا ئے۔

2۔۔۔ جو متہم بالکذب ہویا غفلت اور کثرت خطا کی وجہ سے ضعیف ہو ایسا راوی اگر کسی روایت میں منفرد ہو تو اس سے احتجاج نہ کیا جا ئے ۔

3۔۔۔رواۃ میں سے ایک جماعت وہ ہے جو اہل علم وصداقت اور جلا لت ہے اور ان کے جلالت و صدق کی وجہ سے ان کی توثیق بھی کی گئی ہے اور ایک گروہ نے ان کے حفظ میں کلام کیا ہے جیسے ابن ابی لیلیٰ وغیرہ قسم کے لوگ تو ان میں سے اگر کو ئی منفرد ہو اور کسی نے اس کی متابعت نہ کی ہو تو اس سے احتجاج نہیں کیا جا ئے گا ۔

4۔۔۔حفاظ ثقات اور اہل اتقان جن کی حدیث میں وہم و خطا کو بہت کم دخل ہے اور ان سے احتجاج پر سب متفق ہیں ان کا ذکر نہیں کیا۔

(د)تحمل داداء:۔

1۔۔۔روایت بالمعنی اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ اسناد پر اثر نہ پڑے اور بدن تغیر کے صحیح معنی ادا کیا جا ئے لیکن بہتر یہ کہ روایت بلفظہ کی جا ئے اس کے بعد روایت بالمعنی ہے۔

2۔۔۔اہل حدیث کے نزدیک تحمل بالعرض اور تحمل بالسماع دونوں جائز ہیں ۔

3۔۔۔اگر تحمل بالعرض کی ہو تو اکثر اہل علم کے نزدیک ادا کے وقت حدثنا اور اخبر نا کہہ سکتا ہے لیکن بعض اہل علم یہ صغیے صرف سماع صورت کے ساتھ خاص کرتے ہیں

4۔۔۔اجازۃ کے ساتھ روایت میں اختلا ف ہے بعض اہل علم اسے جائز رکھتے ہیں اس کے بعد بہت سے آثار ذکر کئے ہیں جن سے جواز ثابت ہو تا ہے ۔اور تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے دلائل بھی درج کئے ہیں ۔

لیکن متاخرین کے دور میں سلسلہ اسناد کو باقی رکھنے کے لیے اس کی اجازت دی گئی کہ بالا جازۃ روایت جا ئز ہے۔

  5۔۔۔ بعض اصطلا حات کی تشریح کی ہے مثلاً حسن غریب وغیرہ

کتاب العلل:۔

 کتاب العلل کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس کو ایک گونہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  کے مقدمہ کے ساتھ مشابہت ہے جس طرح امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے مقدمہ میں بعض آراءذکر کی ہیں جو اصل کتاب سے مناسبت رکھتی ہیں اسی طرح امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے کتاب العلل میں بہت سے مسائل ذکر کئے ہیں جن کو جامع کے ساتھ مناسبت ہے اور علم حدیث میں ان کی اہمیت ہے اس لیے علماء نے کتاب العلل کو جا مع کے محاسن میں شمار کیا ہے چنانچہ ابن الاثیر لکھتے ہیں ۔

وفي آخره كتاب(العلل) وقد جمع فيه فوائد حسنة لا يخفى قدرها على من وقف عليها.

تعریفی کلمات:۔

حافظ ابو الفضل المقدسی شروط الائمہ میں لکھتے ہیں ۔(45)

وقال الحافظ أبو الفضل بن طاهر: سمعت أبا إسماعيل عبد الله بن محمد الأنصاري، وجرى بين يديه ذكر أبي عيسى وكتابه فقال: كتابه ـ عندي ـ أنفع من كتاب البخاري ومسلم؛ لأن كتابي البخاري ومسلم لا يقف على الفائدة منهما إلا المتبحِّر العالم، وكتاب أبي عيسى يَصِلُ إلى فائدتِهِ كلُّ أحد من الناس

اور ابن الاثیر جامع الاصول میں لکھتے ہیں ۔

وقال ابن الأثير: هذا كتاب "الصحيح" أحسن الكتب، وأكثرها فائدة، وأحسنها ترتيباً، وأقلها تَكراراً، وفيه ما ليس في غيره من ذكر المذاهب، ووجوه الاستدلال، وتبيين أنواع الحديث من الصحيح، والحسن، والغريب، وفيه جرح وتعديل وفي أخره كتاب العلل ...الخ

شیخ ابرااہیم الباجوری رحمۃ اللہ علیہ (1277ھ) نے شرح الشمائل کے شروع میں لکھا ہے ۔

وناهيك بجامعه الصحيح الجامع للفوائد الحديثية والفقهية . والمذاهب السلفية والخلفية  فهو كاف للمجتهد

3۔شروط الترمذی  رحمۃ اللہ علیہ فی جامعہ :۔

کسی کتاب پر بحث کے لیے اس کے شروط کا جاننا ضروری ہے آئمہ حدیث نے آئمہ ستہ کے شروط سے بحث کی ہے اور ان کتابوں کے تتبع اور گہری نظر سے مطا لعہ کے بعد ان کے شروط بیان کئے ہیں ان میں دو کتابیں زیادہ اہم ہیں یعنی شروط الائمہ السنۃ للمقدسی اور شروط الخمسۃ للحازمی علاوہ ازیں اصول حدیث کی کتابوں سے رہنما ئی ہو تی ہے چنا نچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کی شروط پر بحث کرتے ہو ئے مقدسی لکھتے ہیں ۔

امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے علل الجامع میں بعض اشارات دئیے ہیں جن سے ان کی شروط کے جا ننے میں مدد ملتی ہے۔

چنانچہ لکھتے ہے۔

1۔"قال الترميذي: "" وجميع ما في هذا الكتاب من الحديث فهو معمول به، وقد أخذ به بعض العلماء ما خلا حديثين"

اس سے معلوم ہوا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے وہ احادیث جمع کی ہیں جو فی الجملہ معمول بہا ہیں یعنی ہر وہ حدیث جس سے کسی مستدل نے استدلال کیا ہے ،یا کسی عالم نے احتجاج کیا ہے وہ امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  کی شرط پر ہے اس شرط میں وسعت ہے لیکن واھی اور موضوع حدیث سے اجتناب کیا ہے کیونکہ آئمہ ان سے احتجاج نہیں کرتے ۔

2۔استقراء سے پتہ چلتا ہے امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  کی شرط یہ ہے کہ:

"وہ طبقہ رابعہ اور خامسہ کی احادیث بھی لے آئے ہیں یعنی جن کو اپنے شیوخ کی احادیث سے ممارست نہیں ہے اور غائلہ جرح سے بھی محفوظ نہیں ہیں ۔(46)

گو یا امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  پہلے اور دوسرے طبقہ کی روایت لا نے میں بخاری رحمۃ اللہ علیہ  اور مسلم رحمۃ اللہ علیہ  کے ساتھ شریک ہیں اور تیسرے طبقہ کی حدیث لا نے میں بھی جن کے بعض رجال سے امام مسلم نے بھی روایت کی ہے۔

لیکن امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نزول کے ساتھ تیسرے طبقہ کی روایات بکثرت لا تے ہیں اور پھر ایک درجہ اورنزول کر کے چوتھے طبقہ کی روایات بھی درج کی ہیں ۔

کتب ستہ میں جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کا مقام :۔

اس سے معلوم ہو ا کہ جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کا مرتبہ صحیحین سے کم ہے یعنی اول بخاری  پھر مسلم اور اس کے بعد ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کا مقام ہے اور ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  صحیحین کے بعد تیسری کتاب ہے لیکن بعض نے طبقہ رابعہ کی احادیث پر مشتمل ہو نے کی وجہ سے ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  اور نسائی رحمۃ اللہ علیہ  کو تیسرا درجہ اور ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کو چوتھا درجہ پر  رکھا ہے امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  سے نقل کرتے ہیں ۔

"انحطت رتبة جامع الترمذي عن سنن أبي داود والنسائي لإخراجه حديثَ المصلوبِ والكلْبِيِّ  وامثالهما"

یعنی متہم بالکذب رواۃ کی حدیث درج کی ہے ۔لیکن یہ اعتذار تو ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ  میں بھی مو جو د ہے جیسا کہ بیان کر آئے ہیں ۔یعنی طبقہ رابعہ کے علاوہ الکلی اور المصلوب جیسے رواۃ سے حدیث لا تے ہیں اور پھر اس پر تنبیہہ بھی نہیں کی اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  جب اس قسم کے رواۃ سے حدیث لا تے ہیں تو اس پر تنبیہہ بھی کردیتے ہیں اور بیان کے ساتھ ایسی روایات لانا کو ئی عیب نہیں ہے چنانچہ ابن رجب شرح علل میں لکھتے ہیں ۔

"وقد شاركه أبو داود في التخريج عن كثير من هذه الطبقة ، مع السكوت على حديثهم ، كإسحاق بن ابي فروة وغيره"

حالانکہ اس اسحاق کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے تاریخ کبیر میں لکھا ہے۔(47)

"ترکوہ"

اور ابن ابی حاتم  رحمۃ اللہ علیہ  نے احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا:

لا تحل الرواية عندي عن إسحاق بن أبي فروة.

یحییٰ بن معین  رحمۃ اللہ علیہ اسےکذاب اورابو حاتم نے متروک الحدیث کہا ہے۔(48)اور تقریب میں ہے "متروک من الرابعة"۔۔۔!

اس اعتبار سے یہ دونوں کتابیں برا بر کی حیثیت میں ہیں لیکن امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کو ایک دوسری جہت سے ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ  پر فوقیت حاصل ہے ۔

"امام ترمذی  ان رواۃ پر تنبیہہ کر دیتے ہیں اور ان کا ضعف بیان کر دیتے ہیں ۔لیکن ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ  نے اس قسم کے بہت سے رواۃ سے سکوت کیا ہے ۔"

لہٰذا اس کو تیسرے درجہ پر رکھنا قرین قیاس ہے جیسا کہ حاجی خلیفہ لکھتے ہیں وهو ثالث كتب الستة في  الحديث

جامع ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  کے رواۃ :۔

 علماء حدیث کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کتب حدیث کو ان کے مصنفین سے اسناد کے ساتھ نقل کرتے جب کہ ایک حدیث عن فلاں عن فلاں نقل کی جا تی ہے اور قبول حدیث کے لیے جو شروط مقرر ہیں نقل کتب کے لیے بھی وہی شرط لگا تے ۔

اس میں کتب حدیث کو ان کے مصنفین کی طرف نسبت میں بہت بڑا احتیاط اور تحفظ تھا اور کو ئی بھی کتب مصنفہ کو خراب نہیں کر سکتا تھا ۔

شیوخ اور تلا مذہ کا بھی علوم اسلامیہ کی حفاظت کا یہ بڑا ذریعہ بھی تھا اور اس سے سلف کی کتابوں کو غلط نسبت اور تحریف سے بچا ؤ کی صورت تھی۔

پھر جب کتب حدیث نقل تواتر کے ساتھ نشر ہو گئیں اور شرح وضبط کے ساتھ متداول ہو گئیں تو اسناد سے بے نیاز ہو گئےاور ان کی روایت کے لیے صرف اجازہ پر اکتفاء کر لیا گیا اور اب تک علماء بطریق اجازہ ہی روایت کرتے چلے آئے ہیں ،اس سے ایک تو اسناد کاسلسلہ قائم ہے اور دوسرے سلف صالحین کی اتباع ہے۔(49)

اس رسم اجازہ اور اسناد کی ظاہری حیثیت کو قائم رکھنے کے لیے روایت الکتب بالاسانید کی شکل کو قائم رکھا گیا چنانچہ جیسا کہ ہم نے صحیحین اور ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  کے نسخوں پر بحث کی ہے جو اصحاب کتب سے بروایت صحیحہ ثابت ہیں اس طرح ہم جامع ترمذی کے نسخوں کا جا ئزہ لیتے ہیں ۔

تذکروں کے تتبع سے پتہ چلتا ہے کہ الجامع للترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  کے چھ رواۃ ایسے ہیں جنہوں نے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  سے کتاب کا سماع کیا اور اس کی روایت کی اور وہ بالا سناد ہم تک پہنچی ہے حافظ ابو جعفر بن زبیر نے اپنے "بر نامچہ" میں ان کا ذکر کیا ہے۔(50)

چنانچہ لکھتے ہیں ۔

"روي هذا الكتاب عن الترمذي الستة رجال فيما علمته :ابو العباس محمد بن احمد بن محبوب وابو سعيد الهشيم بن كليب الشاشي وابو ذر محمد بن ابراهيم وابو محمد الحسن بن ابراهيم القطان وابو حامد احمد بن عبدالله التاجر وابو الحسن الواذري"

1۔ابو العباس المحبوبی کی روایت مشہور اور متداول ہے اور جامع کے مطبوعہ نسخے اسی کے ساتھ شروع کئے گئے جب کہ ہم نے شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتاب "الاشاوالی مہمات الاسناد" میں اس کو مفصل ذکر کیا ہے ۔

2۔روایۃ الہشیم بن کلیب الثاشی ،ابو بکر محمد بن خیر الاشیلی نے اس سند کے ساتھ جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کی بعض احادیث اور کتاب العلل کو روایت کیا ہے اور ترمذی تک اپنی اسناد ذکر کی ہے ۔

3۔روایۃ ابی ذر محمد بن ابرا ہیم  رحمۃ اللہ علیہ  :

علامہ محمد مرتضیٰ زبیدی نے اپنی کتاب "اسانید الکتب السنۃ الصحاح "میں ذکر کیا ہے کہ انھوں نے جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  ابو ذر  رحمۃ اللہ علیہ  کے طریق سے روایت کی ہے۔

4۔روایۃ الحسن بن ابرا ہیم القطان رحمۃ اللہ علیہ  ابن خیرا شیلی نے اپنے فہرسہ میں اس روایت کا ذکر کیا ہے ۔(51)اور ابی محمد بن عتا ب کے طریق سے ان تک اپنی اسناد ذکر کی ہے ۔

5۔ابو حامد التاجر۔ ابن خیر نے فہرسہ میں اپنی اسناد کے ساتھ اس روایت کا ذکر کیا ہے  اورزبیدی نے "اسانید الکتب الستہ" میں اس کو ذکر کیا ہے لیکن زبیدی نے اپنی اسناد ذکر نہیں کی۔

6۔ابو الحسن الواذری ۔۔ان روایات سے ثابت ہو تا ہے کہ مصنف سے اس کتاب کی نفل صحت اسناد کے ساتھ ثابت ہے اور اس سے ابو عبد اللہ الفسوی کے اس قول کا رد ہو جا تا ہے ۔

لايصح سمع احد في المصنف عن ابي عيسي ولا  روايته عنه

یہ روایت ابو محمد بن عتاب کے طریق سے مروی ہے تو اس کی تر دید کے لئے یہی کا فی ہے کہ ابو عبد اللہ بن عتاب اور اس  کے والد ابو محمد نے جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کی روایت اسناد متصل کے ساتھ ذکر کی ہے اور اس قسم کی کو ئی چیز ذکر نہیں کی لہٰذا انقطاع کا دعویٰ باطل ہے خواہ اس کا قائل کسے باشد(54)

4۔جامع ترمذی کے معروف نسخے:۔

اب ہم الجامع للترمذی کی روایات اور اس کے مشہور نسخوں کا ذکر کرتے ہیں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  سے بہت سے علماء اور محدثین نے حدیث میں ان کی  تالیفات کا سماع کیا مگر چھ تلامذہ خاص طور پر وہ ہیں جو جامع  ترمذی کےرواۃ کی حیثیت سے ذکر کیے جاتے ہیں۔ان نسخوں کاتذکرہ ابو جعفر ابن الزبیر نے اپنے برنامچہ میں کیا ہے،اور علامہ سیوطی نے قوت المقتذی میں ان سے نقل کیا ہے۔محدث مبارک پوری شارح ترمذی نے مقدمہ تحفۃ الاحوذی(ص178) میں امام سیوطی کے حوالہ سے ان کا ذکر کیاہے۔

1۔ابو العباس محمد بن احمد بن محبوب المحبوبی المتوفی 346ھ۔

2۔ابوسعید الہشیم بن کلیب الشاشی 335ھ۔

3۔ابو ذر محمد بن ابراہیم بن محمد الترمذی۔

4۔ابو محمد الحسن بن ابراہیم القطان۔

5۔ابومحمد الحسن بن ابراہیم القطان۔

5۔ابو حامد احمد بن علی التاجر۔

6۔ابوالحسن الواذری۔اب ہم ان کے تراجم اور ان کے سماعات کا ذکر کرتے ہیں۔

1۔ان روایات میں سب سے زیادہ مشہور اور متد اول روایت محبوبی کی ہے ابو العباس محمد بن احمد بن محبوب بن نفیل المعروف بہ محبوبی مرو کے مشہور تاجرتھے اور انہوں نے امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  سے الجامع کا سماع کیا۔علامہ سمعانی لکھتے ہیں:

 واشتهو من اهل مرو  برواية كتاب الجامع للترمذي ابوالعباس محمد بن احمد بن محبوب التاجر شيخ اهل الثروة من التجار بخراسان واليه كانت الرحلة لسماع الترمذي(53)

اور النجوم الزاھرۃ میں ہے:

محدث وسماعاته مضبوطة وكان ذائروة ومال

علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے "تذکرہ الحفاظ" میں ان کو"مسند مرو"درئینہ لکھا ہے(54)اور العبر میں ہے  کہ انہوں نے 97سال عمر پائی،امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کے علاوہ سعید بن مسعود صاحب نضر بن شمیل اور ان کے ہم طبقہ سے روایت کا شرف حاصل ہے 346ھ میں وفات پائی۔

علامہ ذہبی اعلام النبلاء(ج15رقم 315) میں لکھتے ہیں:

"وكانت رحلته إلى ترمذ للقي أبي عيسى في خمس وستين ومائتين ، وهو ابن ست عشرة سنة . "

اور پھر الجامع کے سماع کے لئے طلبہ نے ان کی طرف رحلت کی اور ان سے ابو عبداللہ الحاکم،ابن مندہ،عبدالجبار الجراحی اور ان کے مولی اسماعیل بن نیال نے سماع کیا،اور ان کے اصحاب میں سے اسماعیل بن نیال نے سب سے آخر میں وفات پائی اور ابن نیال نے اپنی مرویات کی ابو الفتح الحداد کو اجازت دی(55) محبوبی سے جامع ترمذی روایت ابو محمد عبدالجبار اور ان کے لڑکے ابو محمد عبداللہ بن ابی العباس نے کی۔

2۔جامع ترمذی کے دوسرے راوی ابو سعید الہشیم بن کلیب بن سریج بن معقل الشاشی الترکی صاحب المسند الکبیر"ہیں۔

ذہبی لکھتے ہیں:

ان کو ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی،زکریا بن یحییٰ المروزی،ابو جعفر محمد بن عبداللہ المنادی،ابراہیم بن عبداللہ القصار اور ان کے ہم طبقہ سے سماع حاصل  ہے  اور ان سے ابن مندہ اور منصور بن نصر الکاغدی،حمدان بن علی الوراق اور دیگر محدثین کو سماع حاصل ہے۔اصل میں مروکے رہنے والے تھے سمر قند میں 335ھ میں فوت ہوئے۔

3۔ابو ذر محمد بن ابراہیم بن محمد الترمذی۔

4۔ابو محمد الحسن بن ابراہیم القطان۔

5۔پانچویں راوی ابو حامد احمد بن علی التاجر ہیں۔

ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے ابن حسنویہ کے ترجمہ میں لکھا ہے۔(56)

الشيخ المعمر الشهير أبو حامد أحمد بن علي بن الحسن بن شاذان  النيسابوري التاجر السفارابن حسنويه . قال الحاكم : سمع من أبي عيسى الترمذي جملة من مصنفاته وقال ابن عساكر وروي عن مسلم بن الحجاج

6۔ابو الحسن الواذری۔

نسخہ محبوبی:۔

یہاں ہم تفصیل سے نسخہ محبوبی کی روایت اور سلسلہ سند شاہ ولی اللہ دہلوی تک ذکر کریں گے،آئندہ 8،9 صفحات کو یہی بحث محیط ہے۔

پھر محبوبی سے بہت سے رواۃ ملتے ہیں ان میں ابو محمد عبدالجبار بن عبداللہ بن ابی الجراح الجراحی(331۔412) کی روایت معروف ہے جو جامع ترمذی کے دیباچہ میں مذکور ہیں۔

ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:(57)

شیخ صالح اور ثقہ تھے،ھراۃ میں سکونت اختیار کی اور ابو العباس محبوبی سے جامع ترمذی روایت کی ان سے بہت سے لوگوں نے روایت کی جن میں مندرجہ ذیل معروف ہیں۔

1۔ابو عامر محمود بن القاسم الازدی۔

2۔احمد بن عبدالصمد الغورجی۔

3۔عبدالعزیز بن محمد التریاقی۔

4۔شیخ الاسلام ابو اسماعیل عبداللہ بن محمد

5۔محمد بن محمد العلائی وغیرھم

چنانچہ ابو محمد عبدالجبار بن عبداللہ بن ابی الجراح الجراحی 412ھ کے بارے میں ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:( 58)الشيخ الصالح الثقة مسند مرو

ھراۃ میں سکونت اختیار کی اور ابو العباس محبوبی سے ترمذی کی  روایت کی،ان پر بہت سے علماء نے اس کتاب کی قراءۃ کی جن میں خاص طور پر حسب ذیل محدثین قابل ذکر ہیں:

1۔ابو عامر محمود بن القاسم الازدی

2۔احمد بن عبدالصمد الغورجی

3۔عبدالعزیز بن محمد التریاقی۔

4۔شیخ الاسلام ابو اسماعیل عبداللہ بن محمد

5۔محمد بن محمد العلائی وغیرھم

ہمارے ہاں متد اول ترمذی کے دیباچہ میں پہلے تین رواۃ مذکور ہیں۔موتمن بن احمد ساجی کا بیان ہے کہ حسین بن احمد الصغار نے اس جامع کو ابو علی محمد بن محمد بن یحییٰ القراب عن المولف روایت کیا ہے جن سے قاضی ابو منصور محمد بن محمد الازدی اور ان کے ہم مثل محدثین نے سماع کیا۔ابو عامر الازدی کا بیان ہے۔

سمعت جدي أبا منصور القاضي يقول : اسمعوا فقد سمعنا هذا الكتاب منذ سنين ، وأنتم تساوونا فيه الآن . 

شیخ الاسلام انصاری نے بھی الجراحی سے جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کا سماع کیا اور یہ سماع410ھ حدود میں ہے اور یہ شیخ الاسلام انصاری ہیں جنھوں نے ابو محمد الجراحی سے بالا جازۃ روایت کی ہے ۔

اب ہم جامع ترمذی کو روایت کرنے والے پہلے راوی ابو العباس محبوبی،ان سے روایت کرنے والے الجراحی کے تین  رواۃ کا تذکرہ کرتے ہیں،جو درج ذیل ہیں:

1۔ابو عامر محمود بن القاسم الازدی۔یہ قاضی کبیر ابو منصور محمد بن محمد الازدی الھلی کے مفید ہیں،جو کہ مہلب بن ابی صخرۃ المہلبی کی اولاد سے تھے،اور ابو محمد الجراحی سے جامع تر مذی کے راوی ہیں ۔اور ان کے اپنے جد محترم قاضی ابو منصور سے بھی سماع حاصل ہے ۔سبکی لکھتے ہیں:(59)

وكانت الرحلة إليه من الأقطار والقصد لأسانيده.

اور ابو جعفر بن ابو علی الہذانی(531ھ) بھی ان سے راوی ہیں(60) 487ھ میں  فوت ہوئے۔ پھر ابو عامر الازدی سے موتمن ساجی،محمد بن طاہر ،ابو نصر البونارتی،ابوالعلاء صاعد بن سیار،زاھر الشحامی ،اور ابو عبداللہ الفرادی نے روایت کیا ہے ان میں ابو الفتح نصر بن سیار سب سے آخر میں فوت ہوئے ہیں۔

3۔احمد بن عبدالصمد الغورجی(61) ابوبکر التاجی المتوفی 481ھ۔

موصوف ابو محمد عبدالجبار سے دوسرے راوی ہیں ،ذہبی نے ان کو المحدث الصادق لکھا ہے ان سے موتمن ساجی اور ابو الفتح کروخی وغیرھما نے الجامع روایت کی ہے۔

3۔عبدالعزیز بن محمد التریاقی 483ھ ابو نصر(62)

علامہ ذہبی لکھتے ہیں:

 سماع أﺑﻲ ﻋﻴﺴﻰ عن الجراحي. ﺳﻮى اﻟﺠﺰء اﻷﺧﻴﺮ ﻣﻨﻪ،( أوﻟﻪ. : ﻣﻨﺎﻗﺐ اﺑﻦ ﻋﺒﺎس) فانه سمعه من ابي المظفر عبيد الله بن علي الدهان بسماعهم من الجراحي 

پھر تریاقی سے موتمن ساجی اور ابو الفتح عبدالمالکالکروخی نے جامع ابی عیسیٰ روایت کی اور تریاقی نے قاضی ابو منصور الازدی اور افظ ابو الفضل الجارودی سے بھی روایت کی ہے۔

چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  سے تریاقی تک کا سلسلہ روایت یوں ہے:

ابو العباس محمد بن احمد المحبوبی،ان سے ابو محمد عبدالجبار بن عبداللہ الجراحی،ان سے عبدالعزیز التریاقی نے روایت کی ہے۔تریاقی سے ابو الفتح عبدالمالک الکروخی اور موتمن ساجی نے روایت کی ہے۔جس میں سے ابوالفتح کا تذکرہ ذیل میں دیاجاتاہے:

4۔ابو الفتح عبدالمالک بن ابی القاسم عبداللہ بن ابی سہل بن القاسم بن ابی منصور الکروخی الھروی(548ھ)(63)

علامہ ذہبی لکھتے ہیں:

حدث ب " جامع " أبي عيسى عن القاضي أبي عامر الأزدي ، وأحمد بن عبد الصمد الغورجي ، وعبد العزيز بن محمد أبي نصر الترياقي سوى الجزء الآخر فليس عند الترياقي ، فسمعه من أبي المظفر عبيد الله بن علي الدهان بسماعهم من الجراحي 

اس ابو الفتح کو ابو اسماعیل انصاری،محمد بن علی العمیری وغیرھما سے بھی سماع حاصل ہے ان سے جماعت کثیرہ نے روایت کی ہے جن میں سمعانی ،ابن طرز وغیر ھما بھی شامل ہیں۔

علامہ سمعانی لکھتے ہیں:

 قرأت عليه " جامع " الترمذي ، وقرئعليه عدة نوب ببغداد ، وكتب به نسخة بخطه ، ووقفها 

ا س کے بعد مکہ میں مجاورت اختیار کرلی ترمذی کے نسخے اُجرت پر لکھ کر فروخت کرتے اور روزی کماتے،نیز علامہ ذہبی لکھتے ہیں:

وهو ممن أجاز في إجازة النشتبري .

ہمارے شیخ ابن الظاہری نے (لفظ واضح نہیں ) پر جامع ابی عیسیٰ کی قراءۃ کی ہے اور "جامع"ترمذی کو عمر ابن کرم نے بالاجازۃ کروخی سے روایت کی ہے پس کروخی جامع ترمذی کی روایت میں حافظ ابوعلی بن سکرۃ کے طبقہ میں شمار ہوتے ہیں۔ابو الفتح الکروخی سے روایت کرنے والے دو راوی یہ ہیں:

الف۔ابو المنطفر عبیدللہ بن علی الدھان

ب۔ابن طبرزز۔عمر بن محمد بن معمر بن احمد بن یحییٰ بن حسان ابو حفص المعروف بابن طبرذز البغدادی(516۔607)

مشہور محدث تھے سماع حدیث میں عالی الاسناد تھے ،ابن خلکان لکھتے ہیں(63)

طاف البلاد وافاد اهلها وطبق الارض بالسماعات والاجازات،

تواس طرح حافظ ابن کثیر"البدایۃ"میں لکھتے ہیں:(65)

"سمع الكثير واسمع"

علامہ ذہبی لکھتے ہیں۔(66)

ابن طبرزذ الشيخ المسند الكبير الرحلة أبو حفص عمر بن محمد بن معمر بن أحمد بن يحيى بن حسان البغدادي الدارقزي المؤدب ويعرف بابن طبرزذ .وحصل اصولا وحفظها"

ابن نقطہ التقید میں لکھتے ہیں:

قال ابن نقطة سمع "السنن" من أبي البدر الكرخي بعضها ومن مفلح الدومي بعضها ، قالا : أخبرنا الخطيب ، وسمع "الجامع" من أبي الفتح الكروخي . ثم قال : وهو مكثر ، صحيح السماع ، ثقة في الحديث.

ابن الدبیشی لکھتے ہیں:

وجمعت له "مشيخة" عن ثلاثة وثمانين شيخا ، وحدث بها مرارا ، وأملى مجالس بجامع المنصور ، (67)

ابن النجار ،المنذری الزکی عبدالعظیم وغیر ھما نے ان  سے  روایت کی ہے۔

پھر ابن طبرزذ سے الفخر بن احمد البخاری نے بھی الجامع  للترمذی روایت کی،بعد کی سند شاہ ولی اللہ تک یوں ہے:

1۔الفخر بن احمد البخاری 690ھ

2۔عمر بن الحسن المراغی 768ھ

3۔العز عبدالرحیم بن محمد الفرات ابو محمد(م870ھ)

4۔الزین زکریا الانصاری 926ھ

5۔ابو بکر محمد بن احمد النجم الغیطی 984ھ

6۔الشہاب احمد بن خلیل السبکی 1032ھ۔

7۔سلطان بن احمد بن سلامۃ المزاحی المصری 1075ھ۔

8۔ابراہیم بن حسن الکردی الکدرانی المتوفی 1101ھ۔

9۔ابو طاہر محمد المدنی الکردی 1145ھ

10۔شاہ ولی اللہ الدھلوی رحمۃ اللہ علیہ  1176ھ۔

ان دس رواۃ کا تذکرہ مختصرا مندرجہ ذیل ہے:

1۔ابو الحسن فخر الدین علی بن احمد بن عبدالواحد ابن قدامہ المقدسی الحنبلی 556ھ میں پید اہوئے،حافظ ابن کثیر نے البدایہ (13/324) میں لکھا ہے:

هوالمسند المعمر الرحالة فخر الدين سمع الكثير وتفرد بروايات كثيرة لطال عمرة وخرجت له مشيخات  توفي 690ھ

ان کی"معجم اشتی المقاصد واعظم الموارد"معروف ہے جس میں 25 محدثین اور محدثات کا ذکر ہے۔(68)

2۔عمر بن حسن بن مزید بن امیلہ المراغی ثم العجلی(679ھ۔778)

حافظ ان حجر،ان کے متعلق لکھتے ہیں:

عمر  بن حسن المعروف بابن اميلة مسند العصر كان صبورا علي الاسماع وحدث بالكثير نحوا من خمسين سنة تفرد بكثير من مروياته كتب عنه الذهبي في معجمه(69)

3۔ابو محمد عبدالرحیم بن ناصر الدین علی بن الحسین ابن الفرات

القاضي عزالدين عبد الرحيم الامام لمسند المعمر المحدث الرحلة المورخ المعروف بابن الغراب حديث سنين وتفرد بعوال وسمع منه الاعيان والفضلاء

ابن تغری بردی النجوم الزاھرۃ میں لکھتے ہیں:

 وأجاز لي بجميع مسموعاته ومروياته، توفي سنة 851 ھ (70)

4۔الزین زکریا بن محمد بن احمد زکریا الانصاری الخزرجی القاھری(820ھ۔924ھ)

قال الغيطي هو شيخنا وشيخ مشائخ الاسلام بقية العلماء الاعلام ابو يحيي زكريا الانصاري

موصوف کثیر اندازہ تھے جن میں شہاب الدین احمد الرملی(957ھ) شہاب الدین احمد بن حجر الہشیمی المتوفی 973ھ،عبدالوہاب الشعرانی المتوفی 973ھ محمد بن احمد الرملی 943ھ وغيرهم وله تصانيف منها شرح مسلم بن الحجاج وشرح الحجامع الصحيح للبخاري فتح الباقي شرح الفية العراقي وغيرها

ترجمته في البدر الطالع 252/2 فهرس الفهارس 342/1الضوء اللامع 234/3

5۔محمد بن احمد علی بن ابی بکر الغیطی الکندری ثم المصری(910ھ۔981ھ)

افتي ودرس في حيات مشائخه ومعجم شيوخه يتضمن سبعا وعشرين (71)

6۔شہاب الدین احمد بن خلیل السبکی المصری الشافعی:۔

شیخ شمس الدین صفوی مقدسی کے زیر تربیت رے،شیخ شمس الدین الرملی سے تحصیل علوم کی اور شیخ نجم الدین غیطی اور ان کے ہم طبقہ سے حدیث اخذ کی۔132ھ میں رحلت فرمائی جبکہ آپ کی عمر93 سال کے قریب تھی شیخ سلطان مزاحی،(لفظ مٹا ہوا ہے)شمس الدین بایلی تلامذہ میں مشہور ہیں،قاضی عیاض کی "الشفا"پر شرح لکھی ہے۔

حالات کےلیے خلاصہ الاثر ،ج1ص 185 ہدیہ العارفین ج1ص 479۔

7۔سلطان بن احمد المزاحی،مصر میں قریہ منیہ مزاح میں پیدا ہوئے،حدیث کی تحصیل شیخ نورالدین زیادی اور حمد بن خلیل سبکی سے کی،مجی کے والد شیخ فضل اللہ اپنی رحلۃ میں لکھتے ہیں:

شيخ القراءبا لقاهرة علي الاطلاق ومرجع الفقهاء بالاتفاق

خلاصہ اثر میں مجی لکھتے ہیں:

"الامام الائمة بحر العلوم وسيد الفقهاء خاتمة الحفاظ"

تاج العروس میں مرتضیٰ لکھتے ہیں:

حدثنا عنه شيوخ مشائخنا  توفي 1075ھ

علامہ شمس الدین باہلی اور عبدالباقی زرقانی وغیرھما نے ان سے اکتساب فیض کیا"رسالۃ القراءت الاربعۃ علی العشرۃ"ان کی تالیف ہے(72)

خلاصہ الاثر 210/2 ،ہدیہ العارفین 394/1،تاج العروس ماوہ(م ز ح)

8۔الشیخ ابراہیم بن حسن بن شہاب الدین الثر زوری الکردی الکورانی ولادت 1025ھ اپنے پدر بزرگوار کے علاوہ دیگر شیوخ سے علوم دینیہ حاصل کیے،دو سال بغداد میں رہے پھر چار سال شام میں گزار کر مصر ہوتے ہوئے حرمین پہنچ گئے اور  یہاں شیخ قشاشی سے ر وابط قائم کرلیے شیخ نے ان کو تمام مرویات کی اجازت دی اور اپنی دختر صالحہ کا ان سے عقد کردیا،شاہ ولی اللہ دہلوی نے انتباہ میں اور زبیدی نے تاج العروس (ش ھ ر) میں ان کے حالات جمع کیے ہیں۔

ومن المتاخرين شيخ مشائخنا ابوا لعرفان ابراهيم بن حسن الكردي...قدم المدينة ولازم! لقشائي واجتمع في مصر  عند مروره بها مع الشهاب الخفاجي والشيخ سلطان وغيرهم وقد حدثنا عنه شيخنا محمد بن علاء الدين الزبيدي بالكتابة واحمد بن علي الدمشقي بالا جازة العامة توفي بالمدينة سنة 1101ھ

نیز مادہ(کور) میں لکھتے ہیں:

كوران من الاكرادخرج منهم طائفةكثيرة من العلماءوالمحدثين خاتمتهم شيخ شيوخنا العلامة ابوالعرفان ابراهيم بن حسن نزيل المدينة الطيبة 

ترجمہ کے لیے خلاصہ الاثر للجی 345/1 ،سلک الدر آفندی 6،5/1

حصر الشارد میں شیخ عابد سندھی لکھتے ہیں:

اخذ العلوم العقلية والنقلية والتفسير والفقه في بلده وغالب اخذه علي  الملا محمد شريف الكوراني ثم رحل الي العرب واخذ الحديث من اهله كالشيخ العلامة سلطان ا لمزاحي واستوطن المدينة واخذ التصوف عن الشيخ احمدا لقشاشي

قاضی شوکانی نے البدر الطالع(12/1) میں ان کےحالات جمع کیے ہیں۔ان کی کتاب الامم لایقاظ الھم معروف ہے جو در اصل ان کی معجم ہے شیخ ابو طاہر الکورانی کا قول ہے۔

عن الأمم والكفاية للعجيمي إن كلا منهما كاف لوصل أسانيد غالب الكتب المسند اولة وفيهما الغنية لا هل زماننا

علاوہ ازیں ان کی  پچاس کتب اور ہیں دیکھئے انسان العین فی مشائخ الحرمین،الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ۔

سلک الدرد،البدر الطالع 12،11/1 تا ج العروس مادہ"کور"فہرس للکتانی 229/1 ھدیۃ العارفین ج1ص 35۔

9۔شیخ محمد عبدالسمیع ابو طاہر الکردی جمال الدین:۔

1081ھ کو مدینہ منورہ میں مولود ہوئے تمام علوم عقلیہ ونقلیہ اپنے پدر بزرگوار سے اخذ کیے اور محدث محمد بن عبدالرسول بزرنجی ابو الاسرار حسن بن علی عجمی اور عبداللہ بن سالم بصری سے حدیث کا سماع کیا اور حرم میں در دینا شروع کردیا۔شاہ ولی اللہ نے انسان العین میں ان کے حالات درج کیے ہیں وہ لکھتے ہیں:

(منجملہ شیخ محمد بن سلیمان مغربی اخذ کرد نیز کتب ادبیہ ازسید احمد بن ادریس مغربی خواند وفقہ شافعی از شیخ علی طوبونی مصر گرفت وعلم حدیث ازوالد خودوحسن عجمی گرفت بعد ازاں ازاحمد نخلی وبینم بصری شمائل خواند واذدے مسند احمد استماع کردد  از شیخ عبداللہ لاہوری وکتب ملا عبدالحکیم سیالکوٹی از دے روایت کنند عن الشیخ عبداللہ للیت عن الشیخ عبدالکلیم وکتب شیخ عبدالحق دہلوی الیمیس واسطہ از مولانا عبدالحکیم روایت کرواز شیخ سعید کو کنی بعض کتب وفتح البخاری خواند)

اور سلک الدرد میں مرادی نے بھی ان کو(كان عالما فقيها) لکھا ہے اور شیخ عابد سندھی نے حضرات رد میں ان کو(الشیخ العلامۃ) لکھا ہے دیکھئے فہرس الغمارس 373/1 ،الیانع الجنی ص20،حصر الشارد اتحاف النیہ،سلک الدرد 27/2 ،انسان العین فی مشائخ الحرمین ص13۔14۔

10۔احمد ولی اللہ بن عبدالرحیم بن وجیہ الدین العمری الدھلوی (1114ھ۔1176ھ)

تمام علوم اپنے والد محترم عبدالرحیم سے حاصل کیے اور 1144ھ میں مدینہ النبی پہنچ کر علماء حرمین سے علوم حدیث حاصل کیے جن میں سب سے بڑے شیخ محمد ابو طاہر الکردی تھے اور آپ کے رفیق سفر شیخ محمد عاشق پہلتی بھی تھے،چنانچہ شاہ صاحب کی سند میں ان کا نام بھی درج ہے،اور آپ کے خالو شیخ عبداللہ کا نام بھی مذکور ہے۔آپ کی تالیفات میں فتح الرحمٰن فی  ترجمۃ القرآن،الفوز الکبیر فی اصول التفسیر والمسوی،والمصفی فی شرح الموطا وحجۃ اللہ البالغہ وغیرھا تقریباً 25کتابیں ہیں۔حیات و لی از رحیم بخش دہلوی میں آپ کے خاندان کا تعارف بتمامہ موجود ہے۔فہرس الفہارس 437/2 والفرقان شاہ ولی اللہ نمبر،ابجد العلوم ص912 اور اتحاف البلاء ص428 میں آپ کے حالات قلمبند ہوئے ہیں۔

2۔شاہ عبدالرحیم دہلوی ۔شاہ عبدالرحیم بن وجیہ الدین عمری دہلوی المتوفی 1131ھ ابتدائی کتابیں اپنے چچا شیخ ابو الرضا محمد دہلوی سے پڑھیں پھر علامہ محمد زاہد بن قاضی محمد اسلم الھروی کے معقولات کا درس لیا یہ محمد زاہد اپنے والد کے تلمیذ تھے اور مرزا احمد فاضل بدخشی سے حدیث کا درس لے چکے تھے۔

مرزا محمد فاضل بدخشی ثم لاہوری عین القضاۃ ہمدانی کی نسل سے تھے اور کابل میں ملا محمد صادق حلوانی اور مرزا جان شیرازی سے(مرزاجان شیرازی کا پورا نام شمس الدین حبیب اللہ بن عبداللہ علوی دہلوی ہ اور مرزا جان شیرازی کے عرف سے معروف ہیں) یہ شیخ محمود شیرازی 932ھ کے تلمیذ تھے اور علامہ جلال الدین دوانی کی کتابوں کے بیک واسطہ راوی ہیں اور علامہ دوانی کا پورا نام محمد بن اسعد بن محمد بن عبدالرحیم البکری الدوانی المتوفی 928ھ

علامہ شوکانی نے البدر الطالع (13/2) میں ان کے حالات درج کیے ہیں نیز دیکھئے النور السافر عید روسی،تاج العروس(دون) الفوائد البھیۃص89 اور علامہ الکتانی کی فہرس الفہارس

شیخ محمد افضل بن محمد معصوم بن احمد سیالکوٹی ثم الدہلوی

مجدد الف ثانی سے حدیث کا علم حاصل کیا اور حرمین  پہنچ کر محدث سالم بن عبداللہ بصری سے حدیث کی سند حاصل کی اور دہلی میں سکونت اختیار کی شاہ ولی اللہ دہلوی شیخ مظہر جانجاناں وغیر ھما نے ان سے روایت حدیث کی سند لی ہے۔مقامات مظہریہ میں ان کےحالات مذکور ہیں نیز سید عبدالحئی نے بھی نزحۃ الخواطر(280/6)میں ان کا ترجمہ لکھا ہے۔

یہاں تک تو ترمذی کے نسخہ محبوبی کی سند کے متعلقات ذکر ہوتے ہیں باقی پانچ نسخوں کے متعلق مختصرا عرض ہے۔

2۔الہشیم بن کلیب الشاشی(73) ان کی روایت فھرسۃ ابن خیر میں مذکور ہے ۔الجامع اور کتاب العلل کی بعض احادیث ذکر کی ہیں اور الترمذی تک اپنی سند بیان کی ہے۔علامہ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ نے النبلاء(272/13) میں الہشیم کوراوی الشمائل عن الترمذی قرار دیا ہے یعنی روای راوی نہیں کہا تذکرہ (848/3) میں لکھا ہے۔

"سمع اباعيسي الترمذي المتوفي 335ابو سعيد الهشيم بن كليب بن شريع بم معقل المعقلي الشاشي محدث ماوراء النهر ومولف المسند الكبير

3۔ابو ذر محمد بن ابراہیم :ابو زر کی  روایت علامہ مرتضیٰ زبیدی نے اپنی کتاب"اسانید" الکتب الستۃ الصحاح" میں ذکر کی ہےاور فہرسہ ابن خیر میں بھی لکھا ہے:

"وانا اروي الجامع للترمذي عن ابي ذر"

4۔حسن بن ابراہیم القطان:ابن خیر نے الفہرسۃ میں ذکر کیا ہے بواسطہ ابی محمد بن عتاب  راجع،ص121۔

5۔ابو حامد التاجر:ابن خیر الفہرسۃ والزبیدی اسانید الکتاب الستۃ الصحاح میں یہ روایت ابو زید محمد بن احمد مروزی کے طریق سے ذکر کرتے ہیں۔

6۔ابو الحسن  الوازری:نور الدین عتر ا پنے رسالہ"الامام الترمذی والموازنہ بین الصحیحین"میں لکھتے ہیں:

لم اجد الرواية من طريق الي الان ولعل في بعض المراجع التي لم يتيسر لنا الان

بہرحال الجامع للترمذی کی صحت نقل اور سلاحت اسناد کےلیے یہی بہت کافی ہے اور اس سے ابو  محمد بن ماب عن ابی عمرو الفاتی عن ابی عبداللہ القسوی سے جوقول مروی ہے اس کی تردید ہوجاتی ہے کہ قسوی نے کہا۔

لايسح سماع احد في هذا المصنف من ابي عيسي ولا روايته عنه

 اور اس کی  تردید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابو عبداللہ ابن عتاب اور اس کے والد ابو محمد نے اس کتاب کی اسناد ذکر کی ہے اور کسی نے بھی اس وہم کو ذکر نہیں کیا لہذا انقطاع کا یہ دعویٰ باطل ہے،ہاں یہ صحیح ہے کہ محبوبی کی روایت کے سوا مذکورہ روایات صحت سند سے ہم تک نہیں پہنچ سکیں اور اس شہرت اور تواتر کے بعد ان کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

حافظ ابن حزم کی تنقید:۔

اس سلسلہ میں ابن حزم پر تعجب ہے کہ انھوں نے امام  ترمذی کو ہی مجہول کہہ دیاہے جسے محدثین نے بالاتفاق رد کردیا ہے۔حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں:

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کی ثقاہت مسلم اور متفق علیہ ہے اوران کے متعلق حافظ ابن حزم کا قول کہ وہ مجہول ہیں،ناقابل التفات ہے ۔درحقیقت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  کو ان کی کتاب جامع اور علل کا علم نہیں ہوسکا(74) اسی طرح حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی ابن حزم کا رد کیا ہے اور لکھا ہے کہ حافظ ابن الفرضی نے المختلف والموتلف میں امام ترمذی کا تذکرہ لیا ہے اس پر حافظ ابن حزم کی نظر کیوں نہیں پڑی جبکہ وہ بھی مغربی ہیں(75)

جامع ترمذی کی دراست

فنُ الاسناد اور جامع ترمذی:۔

ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ جامع  ترمذی کو دوسری کتب حدیث سے دو چیزیں میں امتیاز حاصل ہے فن الاسناد یا ضاعۃ الاسناد اور فقہ الحدیث

اب ہم ان دونوں کی وضاحت کرتے ہیں،پہلے فن الاسناد کو لیتے ہیں جسے علوم الحدیث میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے روایت حدیث میں محدثین کا طریق اختیار کیا ہے اور اپنی کتاب میں احادیث کو اسانید کے ساتھ ذکر کیا ہے اصطلاح میں اس کو اخراج الحدیث کہا جاتا ہے کیونکہ حدیث کی مسند روایت حدیث کے مخرج کو واضح کردیتی ہے(ای الطریق الذی اتی منہ الحدیث وردی بہ)(76)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب میں حق اسناد ادا کیا ہے ایک تو طُرق شمار کیے ہیں ،رواۃ کا اختلاف اور اتفاق بتایا ہے،جس سے طرق میں تنوع اور تعدد نظر آنے لگتا ہے۔الجامع میں متعدد طرق کے ساتھ ایک حدیث کی اسانید جمع کرنے کا کام مصنف نے چار طریقوں سے سر انجام دیا  ہے۔

الف۔جمع اسانید الحدیث المتعدد ۃ فی سیاق واحد۔

ب۔تعدد الاسانید وذکر المتن عقب الاسناد  الاول

ج۔افراد کل اسناد مع متنه بالرواية

د۔الاشارة الی الاسانید

پہلی تین صورتیں تو صحیح مسلم اور دوسری کتب حدیث میں بھی پائی جاتی ہے لیکن چوتھی صورت میں امام ترمذی منفرد ہیں۔

1۔پہلا طریق یعنی سیاق واحد میں طرق حدیث کو جمع کرنا۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  یہ اس وقت کرتے ہیں جب رواۃ الحدیث کے مراتب ایک سطح کے ہوں اور ان کی روایات میں لفظاً ومعنی اتفاق ہو تو ان کو ایک سیاق میں جمع کردیتےہیں اور یہ دو طریق سے کرتے ہیں:

الف۔جب امام کے متعدد شیوخ ہوں اور سب کی اسناد ایک ہوں تو عطف کے ذریعے شیوخ کو جمع کردیتے ہیں مثلاً

"حدثنا هناد ويوسف بن عيسي قالاحدثنا وكيع الخ"

اس میں امام کے دونوں شیخ ثقہ ہیں اس لئے عطف کے ساتھ دونوں کو جمع کردیا ہے۔(77) پھر اسناد اور متن ذکر کردیا ہے۔

طُرق کوایک سیاق میں جمع کرنے کا یہ اسلوب صحیح مسلم میں بہت زیادہ ہے اور صحیح بخاری میں بھی پایا جاتا ہے لیکن خاص مواضع اور خاص مقاصد کےپیش نظر،جس کی تفصیل ہم الجامع الصحیح میں بیان کرچکے ہیں۔

ب۔جب کسی حدیث کے متعدد طرق ہوں اور وہ اوپر جا کر کسی ایک راوی پرجمع ہوتے ہوں تو تحویل بین  الاسانید سے کام لیتے ہیں(78)اور تحویل بین الاسانید کا یہ طریق تقریباً صحیحین اور سنن دونوں میں پا یا جاتا ہے اور اس طریق سے اسانید کو جمع کرکے بیان کرنے میں محدثین کے درمیان اتفاق پایا جاتا ہے۔

اختلاف اللفظ:۔

لیکن جب رواۃ کے مابین الفاظ میں کچھ اختلاف ہوتو امام ترمذی  پھر بھی جمع کردیتے ہیں بشرط یہ کہ معنی میں تغیر نہ آتا ہواور کتاب العلل میں روایت بالمعنی کے جواز کو محدثین سے نقل کیا ہے تاہم اما م ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے نہایت احتیاط سے کام لیا ہے اور نہایت یسیر اختلاف کی طرف بھی اشارہ کردیا ہے یہی حال امام مسلم کا ہے مثلاً

حدثنا فلان وفلان(المعني واحد)فقالا حدثنا فلان

اور کبھی درمیان میں(والفظ لفلان) کہہ کر تعین کردیتے ہیں اور کبھی تمام رواۃ کے الفاظ ذکر کردیتے ہیں(79) اسی طرح بعض مواضع میں صیغ ادا پر تیہ کردی ہے۔مثلا حد ثنا فلان واخبرنافلان ۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے کتاب العلل میں(حدثنا واخبرنا) میں اختلاف ذکر کردیا ہے کہ کیا دونوں کا مفہوم ایک ہے یا ان میں فرق پایا جاتا ہے جو محدثین فرق کے قائل ہیں وہ حدثنا کو سماع من الشیخ اور اخبرنا کو قراءۃ علی الشیخ کے ساتھ خلاص کرتے ہیں لیکن اکثر محدثین کے نزدیک ایک ہی ہیں اورفرق کے قائل نہیں ہیں۔

2۔ایک طریق اورمتن کو ذکر کردیتے ہیں پھر دوسرے طریق کو ذکر کرکے کہہ د یتے ہیں۔

نحو او مثله

جب لفظ میں اختلاف نہ ہوتو(مثلہ) اور اگر لفظ میں اختلاف ہو لیکن معنی ایک ہوتو(نحوہ) کہہ دیتے ہیں۔(80)

3۔ہر متن کو اسناد کے بعد ذکر کردیاہے اور پھر طریق سے اس متن کو اعادہ کیا ہے اور ایسا یا توالفاظ میں اختلاف کی وجہ سے کیاجاتاہے اور یا حدیث میں کوئی علت بیان کرنے کے لیے،یہی طریق امام مسلم  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنایا ہے چنانچہ رحمۃ اللہ علیہ  باب الرخصة فی الصوم فی السفر"(81) میں ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  والی حدیث ترمذی اور مسلم دونوں تقابل کرکے دیکھ لیں کہ دونوں نے ایک ہی طریق کو اپنایا ہے۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ   ایک ترجمہ کے تحت  پہلے معطل  روایت کو لاتے ہیں اورپھر صحیح الاسناد حدیث کو ذکر کرتے ہیں،ایسا تعلیل کو بیان کرنے کے لئے کرتے ہیں(82) چنانچہ حافظ اس پر جب شرح العلل میں لکھتے ہیں۔

وقد اعتُرض على الترمذي -رحمه الله- بأنه في غالب الأبواب يبدأ بالأحاديث الغريبة الإسناد غالبا. وليس ذلك بعيب، فإنه -رحمه الله- يبيّن ما فيها من العلل، ثم يبيّن الصحيح في الإسناد،

گویا مقصود علل کو بیان کرنا ہے اس لئے امام نسائی  رحمۃ اللہ علیہ  کو دیکھئے کہ جب وہ طرُق کا استیعاب کرتے ہیں تو ابتداء معلل طرق سے کرتے ہیں اس کے بعد صحیح طریق کو ذکر کرتے ہیں۔

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  کاطریق:،۔

اس کے برعکس امام مسلم  رحمۃ اللہ علیہ  اپنے قاعدے کےمطابق ثقات اہل اتقان کی احادیث کو مقدم رکھتے ہیں۔اور پھر کم درجہ کی روایات کو لاتے ہیں  اگر کسی روایت میں علت ہوتو  اس کو موخر کردیتے ہیں ،اور اکثر طور پر موضع علت کو حذف کرکے اختصار سے کام لیتے ہیں۔(83) مثلا کتاب القسامۃ میں بشیر بن یسار والی حدیث،جس میں خیبر میں عبداللہ بن سھل کے قتل کاواقعہ ہے کہ اس میں تمام حفاظ نے بشیر بن سھل سے(خمسین یمینا)ذکر کیا ہے مگر سعید بن عبید کہ اس نےتمام حفاظ کی مخالفت کی ہے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کی روایت اخیر میں ذکر کی ہے اور مختصر کرکے(وساق الحدیث) کہہ کر موضع علت کو حذف کردیا ہے۔(84) اور اس کی علت کو کتاب التمیز میں واضح کردیا ہے۔(85)

4۔چوتھا طریق بعض اوقات امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  شہرت کی بنا پر اسانید کی طرف اشارہ کردیتے ہیں مثلاً کبھی ایک سند سے حدیث کا اخراج کرکے دوسرے طرق معلق کرکے صرف موضع الاستشھاد کرذکر کرتے ہیں۔(86)

اور کبھی حدیث کوسند کے ساتھ ذکر کرکے آخر میں(وقد روی من غیر وجہ نحوہ) کہتے ہیں اور یہ طریق تعداد اسانید صرف ترمذی میں پایا جاتا ہے ۔تاہم صحیح مسلم میں تعداد الاسانید کی کثرت ہے،لیکن وہ اسی اشارہ پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ کچھ اسناد اول سے ذکر کرکے پھر"مثلہ" او"نحوہ" کہہ دیتے ہیں۔

الغرض امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  پہلے تین طریق میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کے ساتھ مشترک ہیں،لیکن تعداد اسانید کے چوتھے طریق میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  منفرد ہیں۔

حدیث حسن اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ

ابن الصلاح "علوم الحدیث" میں لکھتے ہیں:(87)

علامہ الخطابی نے حدیث کی تین قسمیں بیان کی ہیں :صحیح ،حسن اور ضعیف حدیث حسن کی تعریف میں لکھتے ہیں:

والحسن منه: ما عرف مخرجه واشتهر رجاله

اور امام ترمذی"العلل الصغیر" میں لکھتے ہیں:(88)

1۔ كل حديث يروى لا يكون في إسناده من يتهم بالكذب

2۔ ولا يكون الحديث شاذا

3۔ ويروى من غير وجه نحو ذاك فصاعداً,

جو حدیث ان شروط"ثلاثہ" پرمشتمل ہو وہ حدیث حسن ہے لیکن واضح رہے کہ تمام حسن حدیث ایک ہی مرتبہ کی نہیں ہیں بلکہ بعض سے بعض اقوی ہیں۔

علامہ خطابی اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کی حسن میں فرق پایا جاتا ہے علامہ خطابی نے تو اہل حدیث کے نزدیک انواع"ثلاثہ"(صحیح وحسن وضعیف) کی اصطلاحی تعریف کی ہے اور حدیث المستور جو(من غیر وجہ) مروی ہو اس کو خطابی نے ذکر نہیں کیاکیونکہ خطابی کے نزدیک وہ من قبیل الحسن نہیں ہے کیونکہ خطابی نے تصریح کی ہے کہ مجہول کی روایت میں قبیل ضعیف ہے اور مجہول میں مستور بھی داخل ہے۔(89)

اس کے برعکس امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے متفق علیہ یعنی حسن اصطلاحی کی تعریف نہیں کی بلکہ اپنی جامع میں جس حدیث کو حسن کہا ہے اس کی وضاحت کی ہے جو مستور کی حدیث کو بھی شامل ہے اور اس ضعیف کی روایت کو بھی جوسوء حفظ کی وجہ سےضعیف ہو اور اس کو بھی جوغلط اور خطاء کے ساتھ متصف ہو بلکہ روایۃ مختلط بعد از اختلاط اور مدلس کی عنعنہ اور جس کی اسناد میں انقطاع خفیف ہو اس کوبھی شامل ہے۔کیونکہ یہ اقسام متھم بالکذب سے خارج ہیں۔

اسکی تقویب اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے اتصال اسناد کی قید نہیں  لگائی اس بناء پر بہت سی احادیث منقطعہ کو حسن کہہ دیاہے(المنکت لابن حجر)

یہی وضاحت نور الدین عتر نے اپنے رسالہ میں کی ہے،جو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  کی النکت سے ماخوذ ہے اور ابن الصلاح کی تعبیر پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں ان کےجوابات بھی دیئے ہیں۔(90)

2۔دوسری شرط یہ ہے کہ وہ حدیث شاذ نہ ہو اور شاذ سے یہاں پر وہ حدیث مراد ہے جو ثقات کے خلاف ہے۔پس مطلب یہ ہے کہ وہ حدیث معارضہ سے سالم ہو۔

3۔( أن يروى من وجه آخر نحوه) یعنی وہ حدیث دوسرے طریق ایک یا زیادہ سے مروی ہو لیکن شرط یہ ہے کہ طریق اُخری اس کی مثل یا اس سے اقوی ہو یعنی کم درجہ نہ ہو اور دوسرے طریق سے بعینہ اسی لفظ کے ساتھ مروی ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ بمعناہ مروی ہونا ہی کافی ہے چنانچہ شرح العلل میں لکھتے ہیں:

(أن يروى معناه من غير وجه لا نفس لفظه)(91)

اس بنا پر امام ترمذی نے (نحوہ) کہا ہے اور(مثلہ) نہیں کہا،اب ہم ترمذی سے حسن حدیث کی ہر نوع کے امثلہ ذکر کرتے ہیں تاکہ مذید وضاحت ہوجائے،حافظ ابن الحجرالنکت میں لکھتے ہیں:مستور کی روایت کی امثلہ تو بکثرت ہیں اس لئے طوالت سے بچنے کے لئے ان کو چھوڑ دیتے ہیں اور باقی اقسام کے کچھ امثلہ ذکر کرتے ہیں:

1۔رواية الضعيف سئي الحفظ:

رواية من عن شعبة عن عاصم بن عبيد الله عن عبد الله بن عامر بن ربيعة عن أبيه : أن امرأة من فزارة تزوجت على نعلين فقال لها الخ قال الترمذي:هذا حديث حسن(92)

اس میں عاصم بن عبداللہ ضعیف ہے۔(93)

امام ترمذی نے اس حدیث کو"حسن"محض اس لئے کہا ہے کہ متعدد طرق سے مروی ہے چنانچہ امام ترمذی ہی اس کے بعد لکھتے ہیں:

وفي الباب عن عمر، وأبي هريرة، وعائشة، وأبي حدرد، رضي الله عنهم، وذكر جماعة

2۔ رواية الضعيف الموصوف بالغلط والخطأ::

اخرج من طريق عيسى بن يونس عن مجالد عن أبي الوداك عن أبي سعيد قال كان عندنا خمر ليتيم فلما نزلت المائدة سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عنه وقلت إنه ليتيم فقال أهريقوه قال وفي الباب عن أنس بن مالك قال أبو عيسى حديث أبي سعيد حديث حسن صحيح (94)

اس میں مجالد ضعیف ہے اور غلط اور خطاء کے ساتھ متصف ہے مگر چونکہ یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے اس بناء پر حسن کہہ دیا ہے اس سے بھی بڑھ کر حدیث :

عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، رضي الله عنه في الامر بقتل الكلاب ہے۔لکھتے ہیں:

واسماعيل انفقوا علي لضعيفه ووصفوه بالغلط وكثرة الخطاء

تاہم اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے حسن کہا ہے کیونکہ وہ یہ متعدد طرق سے مروی ہے یعنی الحسن سے اسماعیل بن مسلم کی متابعت پائی جاتی ہے۔(95)

اس کی تیسری مثال حافظ نے یہ پیش کی ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عُبَيْدَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كُنَّا نَحِيضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ نَطْهُرُ فَيَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصِّيَامِ وَلاَ يَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّلاَةِ ‏.‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ ‏.

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:

وعبيدة ضعيف جداً قد اتفق أئمة النقل على تضعيفه إلا أنهم لم يتهموه بالكذب ليكن لحديثه اصل من  حديث معاذة  عن عائشة مخرج في الصحيح فلهذا وصفه بالحسن

پھر اس کی تائید میں حافظ نے ابو زرعۃ کا قول نقل کیا ہے کہ ابو صالح کاتب اللیث کے متعلق انھوں نے لکھا:

لم يكن ممن يتعمد الكذب ، ولكنه كان يغلط وهو عندي حسن الحديث

لیکن حافظ کا یہ استدلال محل نظر ہے ،فتامل!

4۔روایت ضعیف کو حسن کہنے کی چوتھی مثال حدیث ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

(لا يحل لأحد أن يجنب في هذا المسجد......)(385/4)

اس میں عطیہ بن سعید العوفی ضعیف ہے،اس کے باوجود امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  کا اس حدیث کو حسن غریب  کہنا دوسرے شواہد کی بنا پر ہے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں انماحسنه بشواهده

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:

ولحديث ابي سعيد شاهد نحوه من حديث سعد بن ابي وقاص ورواته لقات فتح الباري 13/7

3۔ومن أمثلة ما وصفه بالحسن وهو من رواية من سمع من مختلط بعد اختلاطه ، ما رواه من طريق يزيد بن هارون عن المسعودي عن زياد بن علافة قال :صلى بنا المغيرة بن شعبة رضي الله تعالى عنه فلما صلى ركعتين قام فلم يجلس فسبح به من
خلفه ، فأشار إليهم أن قوموا ، فلما فرغ من صلاته سلم وسجد سجدتي السهو وسلم  وقال : هكذا صنع رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم

قال : هذا حديث حسن . (96)

اس کی اسناد میں مسعودی(عبدالرحمان) ہےوالمسعودي اسمه : عبد الرحمن وهو ممن وصف بالاختلاط وكان سماع يزيد منه بعد أن اختلط(97)

ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے کیونکہ دوسرے طرق سے مروی ہے،

كما صرح به وقال:وقد روي هذ الحديث من غير وجه عن المغيرة

4۔رواية المدلس قدعنعن:

 رواه من طريق يحيى بن سعيد عن المثنى بن سعيد عن قتادة عن عبد الله بن بريدة عن أبيه رضي الله تعالى عنه عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم قال : المؤمن يموت بعرق الجبين .

الف۔قال : هذا حديث حسن . وقد قال بعض أهل العلم : لم يسمع قتادة من عبد الله بن بريدة رضي الله تعالى عنه قلت : وهو عصرية وبلدية كلاهما من أهل البصرة ولو صح أنه سمع منه فقتاد مدلس معروف بالتدليس وقد روى هذا بصيغة العنعنة ، وإنما وصفه بالحسن لأنه له شواهد من حديث عبد الله بن مسعود وغيره رضي الله عنهم .(98) وغیرہ۔

ب۔ومن ذلك ما رواه من طريق هشيم عن يزيد بن أبي زياد عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن البراء بن عازب رضي الله تعالى عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم : إن حقاً على المسلمين أن يغتسلوا يوم الجمعة وليمس أحدهم من طيب أهله فإن لم يجد فالماء له  (99)

طيب قال : (( هذا حديث حسن  ).

قلت : وهشيم موصوف بالتدليس ، لكن تابعه عنده أبو يحيى التيمي . وللمتن شواهد من حديث أبي سعيد الخدري وغيره رضي الله تعالى عنهم

5۔منقطع الاسناد:

رواه ترمذي من طريق ابي يحيي اسماعيل بن ابراهيم التيمي عن يزيد بن ابي زياد ومن طريق هشيم عن يزيد بمعناه وقال حسن ورواية هشيم احسن من رواية اسماعيل واسماعيل يضعف في الحديث

پھر اس کو حسن کہنا شواہد مشہورہ کی بناء پر ہے اس نوع کی امثلہ ترمذی میں بہت زیادہ ہیں مثلاً ابو عبیدۃ بن عبداللہ بن مسعود عن ابیہ کی متعدد روایات کو حسن کہا ہے حالانکہ جمہور کے نزدیک ابن مسعود سے سماع حاصل نہیں ہے یہی حال حدیث:

"ابو قلابه الحجرمی عن عائشه ورواية عبدالجبار بن وائل بن حجر عن ابیه کا ہے مگر امام ترمذی نے مجموعہ طرق کے  پیش نظر ان کو حسن کہہ دیا ہے۔

بہرحال اس قسم کی احادیث کو حسن کہنا امام ترمذی کی اپنی اصطلاح اور اپنا اجتہاد ہے عین ممکن ہے کہ کوئی دوسرا اس سے اتفاق نہ کرے۔چنانچہ امام ترمذی العلل کے آخرمیں لکھتے ہیں:(100)

وما ذكرنا في هذا الكتاب"حديث حسن" انما اردنا به حسن اسناده عندنا...الخ

اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ حسن اصطلاحی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ"حسن" ہے جسے امام  ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے ا پنی جامع میں حسن کہا ہے۔

حسن کی جو تعریف خطابی نے کی ہے وہ حسن اصطلاحی ہے اور وہ بالاتفاق حجت ہے اور جو علماء تقسیم ثنائی کے قائل ہیں، ان کے نزدیک صحیح میں داخل ہے مگرامام ترمذی کی حسن کےحجت ہونے پر اتفاق نہیں ہے۔

ابو الحسن ابن القطان اپنی کتاب بیان الوھم والا یہام میں لکھتے ہیں:

هذا القسم لا يحتج به كله ، بل يعمل به في فضائل الأعمال ، ويتوقف عن العمل به في الأحكام ، إلا إذا كثرت طرقه ، أو عضده اتصال عمل ، أو موافقة شاهد صحيح ، أو ظاهر القرآن

اور خود امام ترمذی کے نزدیک بھی اس قسم کی ہرحسن قابل حاجت نہیں ہے مثلاً خیثمہ البصری کے طریق سے عن الحسن عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے لاتے ہیں اور پھر اس کے بعد کہا ہے:(101)

"هذا حديث حسن وليس إسناده بذلك"

اور کتاب العلم فضل العلم ایک حدیث کے بعد،( هذا حديث حسن) کہا ہے۔(102)

اور لکھا ہے کہ ہم نے اس حدیث کو:"صحیح" نہیں کہا کیونکہ اعمش نے اس میں تدلیل کی ہے چنانچہ بعض طرق میں اس نے کہا ہےحدثنا  عن ابی صالح عن ابی ہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پس  اس تردد کی بنا پر اس  پر "حسن" کہا ہے۔

حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:

ابن القطان کی ان دونوں مثالوں میں نظر ہے ممکن ہے دوسرے طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے حسن" کہا ہو۔

اصل بحث:

لیکن یہاں بحث کا تعلق اس بات سےہے کہ کیا امام ترمذی کے کسی حدیث کو حسن کہنے سے وہ حدیث حجت ہوسکتی ہے یا نہیں؟سو اس میں توقف ہے اور ابن القطان نے جو کچھ لکھا ہے وہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔(103)

6۔اورامام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کبھی کسی صحیح حدیث کو صرف حسن کہہ دیتے ہیں جبکہ وہ اصح کے معارض ہو مثلا مسح ر اس کے متعلق ربیع بنت معوذ کی صحیح حدیث کو حسن کہہ دیا ہے کیونکہ امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  کے خیال میں یہ حدیث عبداللہ بن زید کی حدیث کے معارض ہے۔

حاشیہ جات:۔

1۔سیراعلام النبلا ء 11/271۔ونکت الحمیان للصفدی ص170و شرح الشمائل الحبوس ج1 ص4،ومیزان الاعتدال ج3 ص117۔

2۔المراجع السابقہ ۔                                                             

3۔الانساب و معجم البلدان ج2ص382۔

4۔تہذیب التہذب ۔

5۔سرا اعلام النبلا ء ۔

6۔دیکھئے تذکرہ الحفاظ 2ص/207،وکتاب الانساب  سمعانی ۔

7۔نیز کتاب العلل فی آخر الجامع ج4 ص385۔

8۔مقدمۃ الجامع لا حمد شاکر ص81۔

9۔ہدی الساری ج2ص194۔

10۔طبقات الرواۃ کے لیے دیکھئے تقریب التہذیب (ج1ص6۔5)۔

11۔مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ص172۔

12۔شرح المشکاۃ ج1ص21ومقدمۃ تحفۃ الاحوذی 173۔172۔

13۔فتح الباری ج3 ص338۔

14۔تحفۃ الاحوذی ج2 البدایۃ 11/23و تہذیب التہذب 126،/10(14ب) مقدمۃ تحفۃ الاحوذی  ۔172۔

15۔ماجاء فی الرجل بنا عن الوتر  تحفۃ الاحوذی (ج1ص343)۔

16۔کتاب العلل آخر الجامع و تذکرہ الحفاظ ص634،و سیرااعلام النبلا ء (ج11ص)۔ مقدمۃ تحفۃ الاحوذی  ۔172۔انظر  الترمذی مع التحفۃ ج1 ص343۔

17۔ تحفۃ الاحوذی  (ج4ص 385)وفیہ عطیہ بن سعد العوفی ضعیف و مع ذالک قال الترمذی ھذا حدیث حسن غریب لا نعرفہ الامن ھذا الواجہ قال النووی انما حسن الترمذی بشواحدہ قال ابن حجر :ولحدیث ابی سعید شاھد نحو من حدیث سعد بن ابی وقاص ورواۃ ثقات ،النظر الفتح 7/13۔

18۔شروط الائمہ السنۃ للمقدسی ص17تذکرۃ الحفاظ ص634، تہذیب التہذب

ج9ص388۔

19۔المراجع السابق ۔

20۔تذکرۃ ص234۔و تہذیب 9/ 389۔وفیہ عمران بن علان بدل عمر بن ملک ۔

21۔تہذیب الکمال اعلام النبلا تہذیب التہذب ۔9/387۔والحلی ۔(295/9)ضعف حدیث الترمذی لکن  لم یذ کر مطعنافی الترمذی ۔

22۔اللباب ج1 ص184۔

23۔میزان الاعتدال 117/3و تہذیب اور ابن حزم کے لیے تذکرۃ 1146۔

24۔راجع المیزان والرفع والتکمیل لکھنوی ص124حاشیہ و مقدمۃ الجامع لا حمد شاکر مصری۔

25۔راجع البدا یۃ ج11ص 67علامہ احمد شاکر لکھتے ہیں ۔حافظ ابن حجر نے ذہبی سےنقل کر کے لکھ دیا ہے ورنہ حافظ نے یہ کتاب التصال دیکھی ہے۔

26۔ المراجع السابق ۔

27۔راجع توجیہ النظر للجزائری والرسالۃ المستطرفۃ  للکتانی ۔

28۔قوت المفتذی ج1 ص8ومقدمۃ ابن الصلاح ص15۔

29۔شرح الالفیۃ للبخاری 35و شرح الترمذی لا بی الطیب ج1 ص12۔

30۔النھرست لا بن الندیم ج1 ص233۔ والبدایۃ ج11ص66 کشف الظنون ج2 ص1440 والرسالۃ المستطرفۃ ص111۔

31۔ تہذیب التہذب۔

32۔ النھرست لا بن الندیم۔

33۔البدایۃ ۔

34۔الجامع وفیہ :وقد بینا ھذا علی وجہہ فی الکتاب الذی فیہ الوقوف ۔

35۔دائرہ المعارف الاسلامیہ ج5ص220۔مجلہ المجمع  العلمی دمشق جلد 32ص314۔

36۔تدریب الراوی للسیوطی ص95۔والبلدان للیاقوت المحموی (ترمذ)۔

37۔النظر ص9۔

38۔ النظر تحفۃ الاحوذی ص24،

39۔ قوت المفتذی ج1ص15۔مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ص175۔ 174۔

40۔عارضۃ الاحوذی ج1 ش6، قوت المفتذی ج1ص6،

41۔ مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ج4ص۔

42۔ مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ص178 احمد شاکر ج1 ص۔

43۔ تحفۃ الاحوذی ج4 ص۔

44۔ تحفۃ الاحوذی ج4 کتاب العلل ۔

45۔ص16والبدایۃ والنھار لا بن کیثر ج11 ص67۔

46۔طبقات رواۃ کی تفصیل کے لیے دیکھئے شروط صحیح للبخاری شروط المحسۃ للبخاری 43۔

47۔ج1/ص396۔

48۔الجرض والتعدیل ج1 ق1ص 227۔

49۔لیکن فی زمانہ ہمارے مدارس حدیث بھی ناظمین کے تحت آگئے ہیں اور تلا مذہ کو شیوخ سے دور کر دیا گیا ہے اب تلا مذہ اجازہ سے بھی بے نیا ز ہیں اور الاماشاء اللہ اپنے شیخ الشیخ کا نام تک نہیں جا نتے سلف کے اس طریق کو ختم کرنے کی ذمہ داری مدارس کے ناظمین پر جنہوں نے اصل اجازہ کی شکل کو ختم کر کے اپنے دستخطوں سے بطاقات تقسیم کرنے شروع کر دئیے اور شیوخ الحدیث کے اجازت کو نسیا منسیا کر دیا گیا فوا اسفا۔ یہ صرف اہل حدیث مدارس کا المیہ ہے دیوبندی اور بریلوی مدارس پر اب بھی علماء کی حیثیت مسلم ہے۔

50۔دیکھئے الغتذی ج1ص 16مقدمۃ تحفۃ الاحوذی فہرسۃ ابن خیر 119۔121۔

52۔قوت المغتذی مقدمۃ تحفۃ الاحوذی۔

53۔الانساب ص511۔

54۔تذکرۃ ج3ص863۔العبر272/2،الوافی 40/2 مرآۃ الجنان 340/2شذرات 373/2۔

55۔الانساب 246/7۔تذکرۃ الحفاظ 848/3العبر 42/2شذرات الذھب المسطرفۃ ص373 النبلا ء 359/15۔

56۔النبلا ء 549،548،/15۔

57۔الانساب 214/3۔اللباب1/268۔العبر 3/108،تذکرۃ 1052،النبلا 258/17۔

58۔۔الانساب 214/3۔اللباب1/268۔العبر 3/108،تذکرۃ 1052،النبلا 258/17

59۔طبقات سبکی328/5ش شذرات382/2۔العبر 318/3۔

60۔النجوم الزاھر ۃ 260/5۔شذرات 97/4العبر 85/4النبلا ء 101/20۔

61۔المستطم 44/9معجم البدلدان 216/4اللباب 393/2۔الکامل فی التاریخ 168/10۔العبر 297/3شذرات365/3،

62۔الانساب معجم البلدان 28/2العبر 302/3اللباب 204/1 شذرات365/3۔

63۔ الانساب409/10۔ المستطم 154/10۔ معجم البلدان 458/5۔اللباب 95/3العبر 131/4۔تذکرۃ 1313/4۔العقدۃ الثمین 501/5۔ذیل تاریخ بغداد 83/1۔

64۔وفیات 125/3۔ابن کثیر 61/3۔

65۔للبدایہ لا بن ابن کثیر 61/3۔النبلاء 507/21۔

66۔ترجمہ البدایۃ 61/13۔النجوم الزاھر ۃ 201/6۔شذرات 26/5۔والتاج المکلل95۔94۔والنبلا ء 507/3۔

67۔البدایۃ 314/13۔وشذرات 414/5۔والیانع 48۔وذیل طبقات الحنا بلۃ 325۔2 وتعلیق  الکوثریعلی ذیل الحسینی ص17۔

68۔الدررالکامنہ 141/3۔وشذرات الذھب 286/6۔

69۔ وشذرات الذھب 269/7 الضوء اللمع 187/4فہرس الضہارس 274/2۔

70۔قدمر۔

71۔الکواکب السائرۃ 52/3۔تاج العروس مادہ (غ و ط) وشذرات 406/8۔الکتانی 255/2۔

72۔دیکھئے القراء ت والقراء ۔

73۔المتوفی 335تذکرۃ 348/3۔

74۔میزان الاعتدال 117/3۔

75۔تہذیب التہذیب 388/9۔

76۔قال ابن العربي مخرج الحديث بان يكون عن رواية واوقد اشتهر  برواية حديث اهل البلده كقتادة في البصرين وابي اسحاق السبيعي في الكوفيين وعطاء في المكيين وابن شهاب في المدينيين وغيرهم عارطة الاحوذي 15.14/1) فان حديث البصرين مثلا اذا جاء عن قتاده ونحوه كان مخرجة معروفا واذاجاء عن غير قتاده ونحوه كان شاذا والله اعلم انظر النكت علي ا بن الصلاح للحافظ ابن حجر ..ج1ص 415

77۔باب ماجاء فی بیان الفجرج 2 ص39۔

78۔مثلاً باب ماجاء ان مفتاح الصلاۃالطحور اس (حاء ) کو (ح)تحویل کہتے ہیں بعض کے نزدیک یہ بمعنی صح ہے اور بعض نے حائل کے معنی میں لیا ہے اس کے تلفظ میں (حا)کہہ کر آگے قراءت جاری رکھے تفصیل کے لیے مقدمۃ ابن الصلاح ص80۔81۔وشرح العراقی علی الالفیۃ ج2 ص41۔

79۔ مقدمۃ ابن الصلاح ص90۔کذا مسلم شیرالی اختلاف الالفاظ تارہ بقولہ (والفاظھم متقاربۃ )وتارۃبقولہ (نحوہ)وان کان اللفظ واحد ابقول (مثلہ)۔

80۔ مقدمۃ ابن الصلاح ص 94،وتدریب الراوی ص328۔

81۔ج2 ص41۔حدیث ثالث عن ابی سعید الخدری  رحمۃ اللہ علیہ ۔

82۔مثال ذالک (باب فضل تطوع شتی عشرةرکعة كل یوم) کہ اس میں پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  والی حدیث "من ثابر علی شتی عشرةرکعة "لا تے ہیں جو کہ من طریق المغیر ۃبن زیاد عن عطاءعنھا ہے اور اس پر کلام کیا ہے (حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  حدیث غریب من ھذا الوجہ)والمغیر ۃ بن زیاد قد فکلم فیہ اھل العلم من قبل حفظہ ) اس طرح اس کا ضعف بیان کیا ہے پھر اس کے بعد حدیث ام حبیبہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  لا تے ہیں پھر لکھا ہے حدیث عنبۃ عن ام حبیبہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فی ھذا والباب حدیث جس صحیح وقد راوی عن عنبہ من غیرو جہ (تحفۃ الاحوذی ج1ص319۔)

83۔ملا حظہ ہو صحیح مسلم کتاب القسامۃحدیث بشیر عن یسار عن سھل بن ابی حثمۃ الخ۔

84۔جائزہ صحیح مسلم ۔

85۔دیکھئے۔کتاب التمییز ص12۔

86۔كما في مواقيت الصلاة:حدثنا احمد بن منبع والحسن بن الصباح البزار واحمد بن محمدبن موسي المعني واحد قالوا حدثنا اسحاق بن يوسف الازرق عن سفيان الثوري عن علقمة فذكر الحديث ثم قال:وقد رواه شعبة عن علقمة بن مرثد ايضا فذكر متابعة شعبة لسفيان الثوري معلقة هكذا(تحفۃ الاحوذی ج1ص)

87۔ص26۔

88۔العلل  الصغیر 4/۔

89۔المستعرا من روي عنه اكثر من واحد والمجهول من لم يروعنه غير واحد ولم يوثق (تقريب 5/1)

90۔راجع الرسا لۃ ص62163۔

91۔شرح العلل

92۔کتاب النکا ح

93۔تقریب 384/1لیکن ترمذی کے اکثر نسخوں میں "حسن صحیح "ہے دیکھئے الاحوذی و تحفۃ الاشراف222/4۔

94۔كتاب  البيوع باب النهي ان يتخذا الخمر خلاليكن  في الجامع:هذا حديث حسن صحيح والحديث في مسلم كتاب الاشربه

(95)كتاب الاحكام باب ما جاء من امسك كليا الخ تحفة ا لاحوذي

96۔ترمذي ابواب الصلاة باب ماجاء في الامام يتهض في الركعتين ناسيا وفي الترمذي هذا حديث حسن صحيح كذفي نسخة ا حمد شاكر والنسخة الهندية والنسخة التي حققها الدعا س طبعة حمص واشارالمحدث احمد شاكر الي اختلاف النسخ والمعلوم  ان الاستاذ احمد شاكر قد اعتمد في تحقيقة سبع نسخ عند التحقيق كما ذكر في المقدمة وفيها حسن صحيح ا لاواحدة تحفة الاحوذي ج1 ص 289.290

97۔قال في التقريب عبد الرحمن المسعودي صدوق اختلط ومن سمع منه ببغداد فبعد الاختلاط والله اعلم

98۔راجح لحديث عبد الله بن مسعود مجمع الزوائد 325/2)

99۔تحفة الاحوذي ج 1 ص 373 با ب في السواك والطيب يوم الجمعة وتحفة الاشراف 2/29.30والحديث رواه احمد في المسند(283/4) وابن ابي شيبة  في المصنف كما في التحفة ج1ص356)

100۔ الاحوذی و تحفة شرح العلل  ج4 ص والتقید والا بضاح ص45 والنکت لا بن حجر ج1 ص399۔

101۔ترمذی کتاب فضائل القرآن من طریق الاعمش عن خثیمة قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم یقول من قراء القرآن فلیمال الله به (الاحوذی و تحفة 55/4حدیث عمران بن الحصین و خیثمة  هذا خیثمة البصری الذی روی عنه جابر الجعنی یکنی ابانصر ۔

102۔باب فضل طلب العم (369/3تحفة حدیث ابی ہريرة رضي الله عنه من سلک طریقا یلتمس فیه علما وفی مسلم مطولا لیکن حسن کے بعد (وانما لم نقل ) الخ کے الفاظ ترمذی میں نہیں ہیں ہو سکتا ہے ممکن ہے ابن القطان نے کسی نسخہ میں یہ الفا ظ دیکھئے ہوں ۔واللہ اعلم ۔

103۔دیکھئے توضیح الافکا ر180/1۔