اسلام اور مشتسرقین
فرمان باری تعالیٰ ہے:۔
﴿إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴿١٩﴾...آل عمران
" بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے، اور اہل کتاب نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالیٰ اس کا جلد حساب لینے والا (اور سزا دینے والا)ہے "
"اسلام اور مستشرقین" سے معنون میں نے اپنے گزشتہ مقالہ میں (جو اپریل 93ء میں شائع ہوا تھا) لفظ"استشراق(Orientalism) یامستشرقین" کا لغوی واصطلاحی معنی،نیز اس کی صفحہ ہستی پر ابتداء اور تاریخی پس منظر کی ایک جھلک ہدیہ قارئین کی۔متذکرہ مقالہ جہاں اپنے مرکزی کردار اور موضوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت وافادیت کا حامل تھا، وہاں موضوع کو اس قدر اختصار سے ذکر کرنے سے یک گونہ تشنگی اور کمی کا احساس بھی پیدا ہوا۔میں بھی اپنی بعض گوناگوں مصروفیات کی بناء پر اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی سعادت سے محروم رہا،لہذا اس کے کئی گوشے وضاحت طلب ہونے کے باوجود احاطہء تحریر میں نہ لائے جاسکے۔اب اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایک بار پھر اس موضوع سے متعلق کچھ نکات کا مجموعہ ذہن کی تختی پر منقش ہوا تو ساتھ ہی انہیں قارئین کے گوش گزار کرنے کے لئے سپرد قلم کیا تاکہ کسی حد تک سابقہ کمی کا ازالہ ہوسکے۔(والله تعالى ولى التوفيق عليه توكلت واليه انيب)
اس حقیقت کو کوئی بھی عقلمند اور ذی شعور تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرسکتا کہ دین اسلام اور حاملین دین اور اس کے پاسبانوں کو جس قدرنقصان اور خسارہ یہودونصاریٰ کے ہاتھوں اٹھانا پڑا کسی اور اسلام دشمن طاغوتی طاقت سے نہیں،اور اس بات کی تائید کے لئے وحی الٰہی(قرآن و حدیث) کی بے شمار نصوص شاہد ہیں ،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار اہل کتاب(یہودیوں اور عیسائیوں) کی اسلام دشمنی اور ان کے پیغمبر اسلام کے بارے میں بغض وعناد رکھنے اور دین کے ساتھ مذاق اور ٹھٹھہ کرنے کو عیاں کرتے ہوئے ،اہل ایمان کو ان کے ساتھ کسی قسم کا میلاپ،مجالست ومعاشرت نیز ان کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے سے منع فرمادیا ہے،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘبَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ...﴿٥١﴾...المائدة
"اے ایمان والو! تم یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں کسی سے دوستی کرے وه بےشک انہی میں سے ہے۔۔۔"
بلکہ ایک مقام پر تو حق تعالیٰ جل شانہ نے ایمان والوں کو شرف مخاطبت بخشتے ہوئے والدین اور بہن بھائیوں سے بھی قطع رحمی کا واضح حکم فرمایا ہے۔جب وہ ایمان اور اہل ایمان کے بالمقابل کفر اور اہل کفر کو پسند کریں،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴿٢٣﴾يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴿٢٣﴾...التوبة
"اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وه کفر کو ایمان سے زیاده عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وه پورا گنہگارظالم ہے"
اور ان سے دوستی اور اخوت ومحبت ومودت سے ممانعت اس لیے ہے کہ ان لوگوں نے آسمانی کتابوں اورصحیفوں کو ا پنی حرص وہویٰ اورخواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بناتے ہوئے اسلام اور اسلام کے نام لیوا ومبلغین اسلام نیز انبیاء ورسل علیھم السلام کی مقدس ہستیوں کو ہنسی،مزاح اور طعن وتشنیع کانشانہ بنایا۔اسی لئے خصوصا مسلمین کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٥٧﴾...المائدة
"مسلمانو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں (خواه) وه ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ "
کتاب اللہ کی ان آیات مبارکہ کی روشنی میں اہل کتاب(یہودونصاریٰ) کی اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ عداوت ودشمنی ،اورمسلمانوں کا کفار کے ساتھ میل جول اور راہ رسم بڑھانے اور ان سے تعلقات قائم کرنے سے کلی ممانعت کے ذکر سے مقصود یہ ہے کہ کہیں مسلمان اسلام دشمن قوتوں اور لادین عناصر سے دوستی گانٹھ کر،اور اسی طرح دنیا کی محبت اور مادیت پرستی میں پڑھ کر ایمان کی حقیقی نعمتوں اور اس روحانی طاقتوں(Spirtual Forces) سے تہی د امن نہ ہوجائیں۔جس خدشے کا اظہارمحسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے تقریباً پندرہ سو قبل فرمایا تھا۔جیسا کہ صحیحین میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
"لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى قَالَ فَمَنْ "(متفق علیہ بحوالہ مشکوۃ المصابیح کتاب الرقاق)
"البتہ ضرور تم پہلے لوگوں کے طریقوں کی پیروی(میں) بالشت کے ساتھ بالشت اور ہاتھ کے ساتھ ہاتھ پورے اتروگے،یہاں تک کہ اگر کوئی(ان میں سے) گوہ کے بل میں گھسا تھا،تو تم بھی گھسو گے،عرض کی گئی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہودونصاریٰ ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اور کون ہوسکتا ہے"
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی من وعن سچ ثابت ہوئی،جس کا واضح مظہر یہ ہے کہ آج کا مسلمان ایک اسلامی ودینی معاشرے(Islamic Society) میں ایک مہذب شہری کی طرح شرعی وضع قطع اور چال ڈھال اپنا کر چلنے سے جھجکتا اور شرماتا ہے جبکہ مغربی تہذیب(Westren Civilization) میں پنپنے والے کا روپ دھارکر فخر کرتا اور اتراتا ہے۔ایک اسلامی ریاست میں متشرع اور متدین آدمی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور بنیاد پرست کے لقب سے نوازاجاتا ہے جبکہ ایک بدکرداار،لادین اورپینٹ شرٹ میں ملبوس شخص کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا اورترقی یافتہ گردانا جاتا ہے۔
خرد کا نام جنوں پڑ گیا اور جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
حتیٰ کہ مسلمانوں کی اخلاقی پستی اورذہنی وفکری انحطاط کی نوبت یہاں تک جاپہنچی ہے کہ عصرحاضر کا خبیث ترین اورشریر ترین صیہونی بھی مسلمانوں کی اس دو روی طرز فکر اور ظاہری شکل وشباہت کو دیکھ کر شرم سے گردن جھکا دیتا ہے اور شاعر بھی اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے پکار اٹھتا ہے۔
وضع میں تم ہونصایٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود!
نیز پورے کا پورا مسلم معاشرہ شاعر کے اس قول کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔
ایمان مجھے روکے ہے،تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
قارئین کرام!دولت حاضر میں ملت اسلامیہ جن نازک دور سے دو چار ہے نیز کفر وشرک کی تیز و تند آندھیوں بدعات وخرافات کے مہیب طوفانوں،اور ملحدانہ نظریات وافکار کے جن خطرناک چیلنجوں (Challenges) کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ایک قلم کی نوک اسے رقم کرنے سے عاجز اور بے بس ہے۔امت مسلمہ کی اس بے بسی اور پستی وذلت کا تذکرہ آج سے کچھ عرصہ پہلے مولانا الطاف حسین حالی نے اپنے ان الفاظ میں کیاتھا۔
یہی حال اس دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آکے جس کا گھر اہے
کنارہ ہے دور اورطوفاں بپا ہے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہل کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہل کشتی
مسلمانوں کی اس موجودہ حالت زار کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے،ہر جگہ سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستانیں سننا اور بیان کرنا روزانہ کا معمول بن چکاہے اوراب تو ایک مسلمان کی داستان المناک سن کر دوسرے مسلمان بھائی کے دل سے حرارت ایمانی اورایثار وقربانی کی اٹھنے والی لہر بھی سرد ہوچکی ہے ،اور بقول شاعر۔
حیف ہے قانع غلامی پہ مسلمان ہوگئے
جوہر غیرت سے خالی ان کے ایماں ہوگئے
یہ ساری سزا ہمارے اپنےہی بد اعمال کی شامت ہے (1)کے شیطان صفت دشمن اپنے لاؤ لشکر کے سمیت نیز مادی وفکری اسلحہ سے پوری طرح لیس ہوکر عالم اسلام پر چہار سو یلغار کرتا ہوا بڑھتا چلا آ رہا ہے،اور مسلمان"بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے والے کبوتر کی طرح"دشمن کا ترنوالہ بننے کےلیے بے بس ولاچار سہمے بیٹھے ہیں، اس پر طرہ یہ کہ ہم اپنے بدطینت دشمن کے زرخریر غلام کی طرح اس کے حکم کی بجاآوری اور اس کے نقش قدم پر چلنے کو ہی اپنی زندگی کی اصل کامیابی اور سب سے بڑی سعادت خیال کرتے ہیں،مغربی آقاؤں کی یہ ذہنی وفکری غلامی کی زنجیریں اور طوق اپنے گلے میں پہننا اپنے مستقبل کے سہانے خوابوں کی سچی تعبیر اور عظیم مقاصد کی تکمیل گردانتے ہیں ،یہی وہ مہلک صلیبی وصہیونی پھندہ تھا جس میں آج ہم جکڑ دیئے گئے ہیں،یہی وہ مسموم ومذموم تہذیب تھی جس کا آج ہم "جزولانیفک"بن چکے ہیں اور جس کی نشاندہی شاعر ملت علامہ اقبال مرحوم نے اپنے ان الفاظ میں کی تھی۔۔۔ع
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار
یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سے منور کئے افکار
جلتا ہے مگر شام وفلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
ترکان "جفا پیشہ" کے پنچے سے نکل کر
بے چارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
اور یہی وہ دشمنان دین بالخصوص یہود ونصاریٰ اور بالعموم دیگر کفار ومشرکین کی اسلام اور اہل اسلام سے بیزاری،نفرت اورعداوت ہے جس کا اظہار"اللہ رب العالمین" نے اپنے کلام مقدس میں ان الفاظ میں فرمایا ہے:
﴿مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ ... ﴿١٠٥﴾...البقرة
"جو لوگ کافر ہیں اہل کتاب(یہودونصاریٰ) یامشرک،وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے خیر(وبرکت) نازل ہو"
قارئین کرام! مندرجہ بالا کلام سے کتاب وسنت کی واضح نصوص کی روشنی میں بخوبی واضح ہوتا ہے کہ اعداء دین اسلام خاص طور پر یہودی عیسائی کس حد تک عالم اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں،اورجب حقیقت کے صاف اور شفاف آئینے میں ان کا اصل رو پ دیکھیں گےتو بقول۔
"جو ہے پردوں میں پنہاں چشم بینا دیکھ لیتی ہے"
ان میں سے ہر کوئی اسلام کے استیصال کے لئے جو بھی گھناؤنا کردارادا کرتا ہے،آپ کو دجال کذاب سے کم نظر نہیں آئے گا،اور اسی طرح مغربی مفکرین اور دانشور اپنی کامل استعداد اور پورے مادی وفکری وسائل(استعمار،تبشیر،استشراق اور تغریب وغیرہ) کو بروئے کار لاتے ہوئے جس طرح مسلمانوں کی دینی واخلاقی رگ حیات کواپنے خونی پنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور پھر اپنے ہی اختراع کردہ نظام کفر(جمہوریتDemocracy) کوپوری اسلامی دنیا(Muslim World) میں نافذ کرنے کےلئے جو خوفناک سکیمیں اور(Plans) بنارہے ہیں،وہ ایک انتہائی باریک بین اور صاحب عقل وخرد شخص ہی جان سکتا ہے۔جبکہ ایک ظاہربین اورمعمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا کم عقل اے"آزادی کی نیلم پری"قرار دیتے ہوئے اس ظاہری طور پر خوبصورت،شیریں،دلفریب اور اندر سے انتہائی بدصورت،کڑوے اور تلخ نعرے کا بڑی آسانی سے شکار ہوجاتاہے اور اسی"دیو استبداد" (جمہوری نظام) کا اصل مہیب چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ مرحوم نے کہا ہے"
تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر!
مغربی اقوام(بالخصوص یہودی وعیسائی) اور ان کے مذہبی مفکرین ومحققین نے عالم اسلام (Muslim World) کے خلاف جو خطرناک کھیل شروع کررکھا ہے، اس کی ایک لہر میں مسلمانوں کو خس وخاشاک کی طرح اپنےساتھ بہا کر لے جاسکتی ہے،جبکہ اس سلسلے میں استعمال ہونے والے دیگر جملہ ذرائع ووسائل کی فہرست اتنی طویل ہے کہ بیان سے باہر ہے،لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان(الدين النصيحة)(2) کہ دین میں سراسر خیر خواہی ہے"کہ مصداق اور اس رحیم وکریم اورعلیم وحکیم ذات اقدس جو کہ اپنی جملہ صفات میں(وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ) ہےکی توفیق سے چند ایک ان امور اور وسائل کی طرف اپنے اہل ایمان(اورخاص طور پر اپنے اہل وطن مسلمان پاکستانی) بھائیوں کی توجہ مبذول کرانا اپنا اخلاقی ودینی فریضہ سمجھتاہوں جن وسائل وذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے د نیائے کفر کے سرکش شیطان اور طواغیت شمع الٰہی کو بجھانے اورامت مسلمہ( کی وحدت) کا شیرازہ بکھیرنے کے درپے ہیں۔
گر قبول اُفتد زہے عز وشرف!
ایک مسلمان ہونے کے ناطے سے ہماری یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہم صرف جوشیلےنعروں اورجذباتی کیفیات کی رو میں بہہ کر اپنے حوش وحواس ہی نہ کھو بیٹھیں کہ مبادا ہمارا دشمن ہمیں آسانی سے نگل کر ہضم ہی نہ کرجائے،بلکہ پوری احساس ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے اور دینی تڑپ اور ایمانی جزبہ سے سرشار ہوکر اپنے حقیقی دشمن کی شناخت کریں،نیز اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے بھی اس کی اصل قوت کے سرچشمہ،مادی وفکری ہتھیاروں کا سنجیدگی سے کھوج لگائیں تاکہ اسلام اور حامیان اسلام کے سد باب کےلیے تیار کردہ خطرناک جال کاٹے جاسکیں اور غلامی کی زنجیریں توڑی جاسکیں اور ساتھ ہی ان دو طرح کے مہلک ترین اسلحہ کاتوڑ پیش کرتے ہوئے ان سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ومامون رہاجاسکے۔اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہم جذبہ جہاد سے بھر پور اور ایمان وایقان کی قوت سے معمور ،دشمنان دین کی اصل قوت وطاقت پر مطلع ہونے میں کامیاب ہوں،اسی چیز کی اہمیت کو کسی شاعر نے اپنے ان اشعار میں خوب اجاگر کیا ہے۔
عَرَفْتُ الشّرَّ لا لِلشّرِّ, لَكِنْ لِتَوَقّيهِ.
وَمَنْ لَمْ يَعْرِفِ الشّرَّ, منَ الناسِ يقعْ فيهِ .
ترجمہ:کہ میں نے شر(کے ماخذ) کی معرفت شر اپنانے کےلیے نہیں بلکہ شر سے بچنے کے لئے حاصل کی ہے اور جو کوئی لوگوں میں سے شر(کے مصادر) پر مطلع نہیں ہوپاتا وہ(عام طور پر) شر میں خود مبتلا ہوجاتا ہے۔
(اعاذنا الله من شرور انفسنا ومن شرور اعدائنا۔۔۔(آمین)
وسائل استشراق:۔
قبل اس سے کہ قارئین کی خدمت میں مستشرقین (قائدین یہود ونصاری اور مغربی مفکرین) کے اصل اہداف ومقاصد کی نشاندہی کروں،مناسب سمجھتا ہوں کہ پہلے ان چند وسائل پر بھی ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے جن کی وساطت سے یہ اعداء اللہ(اللہ تعالیٰ کے دشمن) اسلام کی شمع حیات کوگل کرنے کی ناپاک سازش کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے ہمہ وقت سرگرداں رہتے ہیں اور اس لیے بھی کہ یہ متعدد وسائل اورذرائع اپنے مقاصد کے حصول کے اعتبار سے ان کے لئے ایک پل(Bridge) کا کام دیتے ہیں۔جس کو عبور کرکے منزل مقصود تک پہنچنا ان کے لئے اور آسان ہوجاتا ہے۔
1۔تصنیف وتالیف:۔
اللہ تعالیٰ کے دین کے دشمنوں اور لادین قوتوں نے ایسا کوئی ہتھکنڈہ اور پروپیگنڈہ نہیں چھوڑا،جس سے انہوں نے مسلمانوں کی اخلاقی وروحانی اقدار کو پامال نہ کیا ہو اور سب سے بڑھ کر جس چیز کی طرف ان کی نظرملتفت ہوئی،وہ دینی افکار ونظریات کاحامل وہ لٹریچر(Literature) ہے جس کو خود مغربی علماء ومفکرین نے بڑی بسط وتفصیل کے ساتھ مرتب کرنے کے بعد یورپی ممالک میں بالخصوص اور بین الاقوامی سطح پر بالعموم شائع کیا ہے۔
یہاں تک کہ ایک اندازے کے مطابق اُنیسیویں صدی کے اوائل سے لے کر بیسیوں صدی کے وسط تک مستشرقین کےہاتھوں لکھی جانے والی اور مرتب ہونے والی کتابوں کی تعداد ساٹھ ہزار سے بھی متجاوز ہے،یہ تالیف شدہ جملہ کتب خالص دینی واسلامی موضوعات مثلاً:تاریخ عرب،تاریخ اسلام،اسلامی فلسفہ،تاریخ تصوف،حقیقت تصوف،عربی ادب،اور کتاب وسنت کی تعلیمات پر مشتمل ہیں۔اوراس حقیقت کے اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ مغربی اقوام کے زعماء وقائدین نے اس میدان میں دن رات کی مسلسل محنت وکاوش کے بعد جو علمی خزینہ جمع کیاہے وہ قابل صدستائش ہے ان میں اکثر وبیشتر تالیفات اہل وعلم فن کےلیے قیمتی سرمایہ بھی ہیں،لیکن ایسی لا تعداد اکاذیب واباطیل سے بھر پور کتب کا سلسلہ بھی موجود ہے۔ جو صرف اور صرف مسلمان سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہ پر طعن وتشنیع اور عامۃ المسلمین کی کردار کشی،نیز اسلام کی اصل صورت کو مسخ کرنے اور بگاڑنے کےلیے لکھی گئی ہیں،ذیل میں ہم عامۃُ المسلمین کے استفادہ کے لئے بعض اہم کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو کہ علمی وفنی لحاظ سے نہایت اہمیت وافادیت کی حامل ہیں اور اپنے اغراض ومقاصد کے حصول کے اعتبار سے مستشرقین کی امہات والکتب میں سے شمار کی جاتی ہیں۔
تاریخ عربی ادب:۔
یہ کتاب مشہور مولف المانی مستشرق کارل برکلمان(م۔1986ء) کی تالیفات میں سے ہے اور یہ صرف عربی ادب پر ہی مشتمل نہیں جیسا کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے بلکہ یہ کتاب بے شمار دیگر عربی کتب اور ان کے مصنفین کے حالات کا مرقع ہے۔یہ کتاب اَن گنت خوبیوں کا بیک وقت مجموعہ ہے جوکہ موصوف مصنف کی جہد مسلسل اور عمل پہیم کا ایک عظیم شاہکار اور منہ بولتا ثبوت ہے ،اس نہایت ضخیم اور مفید کتاب کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی ابتدا ڈاکٹر عبدالحلیم نجار رحمۃ اللہ علیہ نے کی اور اس کا پہلا حصہ 1959ء کو شائع ہوا،ابھی اس کتاب کے ترجمہ ک صرف چھ حصے ہی مکمل ہوپائے تھے کہ موصوف مترجم رحمۃ اللہ علیہ اس عالم فانی سے عالم جادوانی کی طرف کوچ کرگئے۔
بعد میں اس ترجمہ کی تکمیل کا اہتمام ایک"تربیت ثقافت وعلوم" نامی عرب تنظیم نے کیا،اور متعدد محققین سے اس کا ترجمہ کرواکر اسے بیک وقت شائع کیا،اس کتاب کے علاوہ بھی موصوف مولف"بروکلمان" کے ہزاروں کی تعداد میں متنوع دینی واسلامی موضوعات پر مشتمل مخطوطات اور قلمی نسخے منظر عام پر آچکے ہیں جن کی بازیابی کا سہرا مشہور مسلمان ترک عالم دین(Scholar)"فوادسیزکین" کے سر ہے۔جس نے براہ راست المانی مستشرق"ھیلموٹ ریٹر"سے علمی استفادہ کیا ہے،بعد میں"فواد سیزکین" نےانہی قلمی نسخوں اور مخطوطات پر مشتمل اپنی مشہور کتاب"تاریخ تراث عربی" تصنیف کی اور اسے"المانی زبان" میں شائع کیا،اسی کتاب کے کچھ حصے کا عربی زبان میں بھی ترجمہ کیاگیا ،جس پر مولف موصوف رحمۃ اللہ علیہ کو اس علمی وتحقیقی تک ودود کے نتیجے میں شاہ فیصل مرحوم کے ایواڈ سےنوازا گیا۔(3)
ب۔دائرۃ المعارف الاسلامیہ(Encyclopedia of Islam):۔
علمائے یہود ونصاریٰ کی ملی بھگت اور مشترکہ جدوجہد کا دوسرا بڑا شاہکار"اسلامی انسائیکلو پیڈیا" ہے اور باوجود یہ کہ اس میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف خوب ہرزہ سرائی کی گئی ہے لیکن اس قباحت کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر مستشرقین علماء ومفکرین کے درمیان باہمی روابط اور معلومات فراہم کرنے کا ایک گرانقدر مجموعہ ہے،جو بلاشک مسلمان علماء محققین کے لیے بھی افادیت کے اعتبار سے خاصا اہمیت کا حامل ہے۔یہ"انسائیکلوپیڈیا(Encyclopedia of Islam) مختلف مراحل سے گزرتا ہوا 1913ء اور 1938ء کے درمیانی عرصہ میں انگریزی،فرانسیسی اور المانی زبانوں میں شائع ہوا ،نیز بعد میں حرف"ع" تک اس کاعربی ترجمہ بھی کیا گیا،مزید برآں بعض مستشرقین نے طویل بحث وتمحیص اور دقیق نظر ثانی کے بعداسے دوسری بار شائع کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بے شمار نئے مقالات اور جدید معلومات وفوائد کا اضافہ بھی کیا جو چند نامور جدیدعلماء ومفکرین کی کوششوں کا مرہون منت تھیں،اورکچھ بعد میں دستیاب ہونے والے مخطوطات اورقلمی نسخوں کا ثمرہ تھیں۔(4)
ج۔المعاجم(حروف ابجد کی ترتیب پر تالیف شدہ لغوی،ادبی اور فنی کتب)
تصنیف وتالیف سے متعلق ایک اور اہم شعبہ"معاجم" کی ترتیب وتستیق اور علم وادب اور فن لغت پر مشتمل کتب کی نشرواشاعت کا بھی ہے یہ بھی مستشرقین کا دائرہ عمل اور ان کے مقاصد کی تکمیل میں نہایت اہم کردارادا کرتا ہے۔اس میدان میں اترنے کے بعد بعض مغربی مفکرین ومحققین نے جنون کی حد تک دلچسپی لیتے ہوئے،طویل جدوجہد کے نتیجے میں بڑی بڑی ضخیم خصوصا عربی،انگریزی،فرانسیسی،المانی اور دیگر یورپی زبانوں میں کتابیں مرتب کیں اور اس طرح اس سلسلہ کی سب سے پہلی قاموس(Dictionary) عربی اور لاطینی زبان میں بارھویں صدی میلادی میں طبع ہوکر منظر عام پر آئی،پھر یہ لامتناہی سلسلہ پھیلتا اور بڑھتا چلاگیا،سینکڑوں چھوٹی بڑی لغوی وادبی کتابیں اور"معاجم" مدون کی گئیں جنھیں مرتب کرنے والے مولفین میں سے ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے پوری زندگی کاعرصہ اسی کام میں کھپادیا۔
"معاجم" کی وہ طویل فہرست جو غیر مسلم(یہودی وعیسائی) مشنری کےہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچی،ان میں سب سے بڑی اورعالمی شہرت یافتہ کتاب"المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث الشریف" ہے ۔جو بیک وقت حدیث وسنت کی نو مشہور کتابوں( صحاح ستہ،سنن دارمی،موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور مسند احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ) کو شامل ہے،اور موجودہ دور میں ہر صاحب علم وفن کےلیے اس کا حصول ناگزیر ہوگیا ہے،یہ کتاب پہلی بار سات جلدوں میں چھپ کر1936ءمیں شائع ہوئی۔(5) اس سلسلے کی دوسری اہم ترین کتاب"المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم" ہے۔ان ہر دو کتابوں کی اہمیت وفضیلت اس اعتبار سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ شریعت طاہرہ کے دو سب سے بڑے اساسی ورئیسی مصادر(کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ اصل شریعت اور وحی الٰہی ہیں) پر مشتمل ہیں،کیا ہی خوب قدرت ہے اس علیم وقدیر ذات کی اور کیا ہی اچھافیصلہ ہے اس"عزیز وحکیم"ہستی کا،جس نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے اس دین حق کا استیصال کرنے والوں کو ان کے اپنے ہاتھوں ناکام ونامراد بنادیا جن اغراض ومقاصد کی تکمیل کے لیے ان دسیسہ کار ،فریب کار، دھوکے باز،اور شاطر اللہ تعالیٰ کے دشمنوں نے اپنی زندگی کی پوری توانائیاں صرف کردیں،یہ مساعی وجمہود ان کی اپنی ناکامی ومایوسی کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں،
آج یہی کتب ہر مسلمان عالم،فاضل،محقق،مفسر،محدث،مورخ اور فقیہ سب کے لیے(اسلام کی ترویج واشاعت کی خاطر یکساں طور پر) ایک بنیادی ضرورت بن چکی ہیں ،سچ ہے جو احکم الحاکمین نے(فرقان حمید میں) فرمایا ہے۔
﴿يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّـهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴿٣٢﴾ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ﴿٣٣﴾...التوبة
"وه چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منھ سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر نا خوش رہیں (32) اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب کر دے اگر چہ مشرک برا مانیں"
اور اسی بات کی وضاحت "الصادق والمصدوق" نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے:
" ان الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر" (6)
"بے شک اللہ تعالیٰ اس دین کی تائید(اور اس کی آبیاری) کے لیے کسی (نافرمان اور) فاجرآدمی سے بھی کام لے لیتا ہے ۔"
نیز اسی حقیقت کو اصحاب ذوق شعراء(ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا ظفر علی خان رحمۃ اللہ علیہ ) نے بھی اپنے کلام میں خوب اجاگر کیا ہے۔
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانےسے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے!
نور اللہ ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!!
د۔متنوع مجلات ورسائل اور لٹریچر(Literature) کی اشاعت:۔
مستشرقین(یہودی وعیسائی مشنری) نے اپنے مذموم اور خطرناک نصب العین میں سرخرو ہونے کی خاطر جس قدر مختلف نوعیت ور خاص قسم کے لاتعداد جرائد ومجلات اور پمفلٹوں کا استخدام کیا ہے اس کا ذکر ناگزیر ہے،یہ تمام قسم کامواداسلام،اہل اسلام کے احوال،مسلم علاقوں اوراسلامی ممالک سے متعلق معلومات پر مبنی ہوتاتھا،علوم شرقیہ(اسلامی تعلیمات) سے بھرے ہوئے رسائل وجرائد کی مجموعی تعدادجو کہ خاص"استشراق(Orientalism) کی خدمت اور اہل استشراق کی طرف سے متعین کردہ طرق کو ہموار کرنے کےلیے بین الاقوامی سطح پر نشر کیے جاتےتھے تقریباً تین ہزار(3000 ) تھی،یہ تعداد ان سینکڑوں رسائل واخبارات اور اشتہارات کے علاوہ ہے جو مستشرقین کی اعانت وتعاون کے علاوہ دیگر مصلحتوں کی خاطر شائع کیےجاتے اور مختلف زبانوں طبع ہونے کے ساتھ ساتھ عام موضوعات پر بھی محیط ہوتے تھے،یہ جملہ رسائل وجرائد اور ذرائع ابلاغ عام طور پرشرقی علوم(اسلامی افکار ونظریات) اور خاص طور پر عالم اسلام اور مسلمانوں کے ہاں مروجہ زبانوں،ان کے مذاہب وفرق،ان کے قدیم وجدید علوم وفنون اور بین الاقوامی سطح پر ان کے اثرات ونفوذ کا جائز لیتے ہوئے ان کے خلاف ردعمل ظاہر کرتے،بلکہ بسا اوقات شریعت طاہرہ کی اصل روح اور ہیت کو مسخ کرنے کے لیے اور وحی الٰہی(کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) میں تشکیک پیدا کرتے ہوئے خوب کھل کر اسلام سے بیزاری اور نفرت کا برملا اظہار بھی کرتے،چند ایک مشہور مجلات ورسائل کاتعارف افادیت کے پیش نظر ہدیہ قارئین کرام ہے:
1۔1787ء میں فرانس کے عیسائیوں نے مستشرقین کے زیر نگرانی ایک تنظیم تشکیل دی اور ساتھ ہی استشراقی مشن کو پروان چڑھانے کےلیے ایک مستقل مجلہ"الاسبویۃ" کا اجراء کیا۔
2۔اسی طرح 1823ء کو لندن میں"جمعیۃ تشجیع الدراسات الشرقیۃ"(تنظیم برائے اشاعت مشرقی علوم) کی حاکم وقت کے زیر سایہ بنیاد رکھی گئی،جس کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کےلیے ایک باقاعدہ رسالے"مجلۃ الجمیعۃ السبیویۃ الملکیۃ" کی اشاعت کا آغا ز کیاگیا۔
3۔1842ء کو امریکی،یہودی اور عیسائی مبلغین نے ایک تنظیم قائم کی،جس کاترجمان اس وقت کامعروف رسالہ"مجلۃ الجمیعۃ الشرفیہ الامریکیۃ"تھا،تقریبا اسی سال مستشرقین نے اپنے خاص ا غراض ومقاصد اور پروگراموں میں کامیابی پانے کی خاطر ایک"الالمان" نامی مجلہ کی نشر واشاعت کا اہتمام کیا۔جس کے فروغ کے لیے مزید مراکز اور دفاتر اٹلی،روس اور دیگر بڑے ممالک میں بھی کھولے گئے،علاوہ ازیں وہ مجلات ورسائل جن کی طباعت واشاعت کا انتظام امریکی مستشرقین نے پورے جوش وولولے اور محبت وعقیدت سے کیا،ان میں سب سے معروف رسالہ"مجلۃ الجمعیۃ الدراسات الشرقیۃ" ہے جس کی کئی ایک فروعات دوسرے یورپی وامریکی ممالک مثلاً لندن،پیرس،اور کینیڈا وغیرہ میں بھی قائم کی گئیں،اوراسی طرح عصرحاضر میں "مجلۃ شئون الشرق الاوسط"اور" مجلۃ الشرق الاوسط" کی اشاعت عروج پر ہے۔(7)
4۔مندرجہ بالا تمام مجلات(رسائل) میں سب سے زیادہ خطرے کا باعث اوردنیائے اسلام کے لئے زہرقاتل"مجلۃ العالم السلامی"(Muslim World) ہے ۔جسے پہلی بار ایک انتہائی متعصب مستشرق ومبشر"صمویل زویمر"(Zweimer۔ت 1952م) نے اپنی زیر نگرانی 1011ء کو برطانیہ سے شائع کیا۔اور یہ وہی"زویمر"( Zweimer) ہے جسے:"شرق اوسط" میں رئیس المبشرین (عیسائی مبلغین کے قائد) کے لقب سے نوازا گیا۔
5۔اسی طرح 1912ء کو ایک اوررسالہ"مجلۃ عالم الاسلام" مغربی شہر"بطرہرج" میں ظاہر ہوا،لیکن یہ رسالہ جلد ہی اپنی موت آپ مرگیا۔
6۔ایک اور رسالہ"مجلۃ الاسلام" کے نام سے 1895ء کو پیرس میں زبان زد خاص وعام ہوا پھر اس کے فوراً بعد ایک دوسرا رسالہ"مجلۃ العالم السلامی" مغرب میں فرانسیسی جمعیت"البعث العلمیۃ الفرنسیہ" کی جانب سے شائع ہوا۔جس نے بعد میں"مجلۃ الدراسات العلمیۃ الاسلامیۃ کا روپ دھار لیا۔
7۔مزید برآں 1910ء کو ایک اور رسالہ"مجلۃ الاسلامیہ الالمانیۃ"(Der Islam) نامی نے کافی شہرت حاصل کی۔(8)
2۔متفرق اسلامی کتب کے تراجم کا اہتمام:۔
مغربی علماء ومفکرین نے عربی علم وادب اور اسلامی تعلیمات کی تہہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے صرف دینی موضوعات اور اسلامی افکار ومتعقدات کے بارے تتبع واستقراء پر ہی اکتفا نہیں کیا،بلکہ لا تعداد شرعی احکام ومسائل پر مبنی کتب اور جرائد ومجلات کی نشرواشاعت کے انتظام وانصرام کے ساتھ ساتھ سینکڑوں عربی،فنی،ادبی اور تاریخی اسلامی کتابوں کا یورپی زبانوں میں ترجمہ بھی کیا،ان گنت"دیوان ابیات" اور معطقات کے علاوہ" تاریخ ابی الفداء رحمۃ اللہ علیہ "،تاریخ ابی جعفر الطبری رحمۃ اللہ علیہ ،مروج الذھب " مسعودی رحمۃ اللہ علیہ کی،"تاریخ ممالیک"مقریزی کی"تاریخ الخلفاء امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی،"الاحیاء والمنقذ" امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی ان سب علمی وتاریخی کتب کے بھی متعدد زبانوں میں ترجمے کئے گئے اور یہ تراجم ان کتابوں کے تراجم کے علاوہ ہیں جو"قرون وسطی" میں عرب مسلمان علماء وفضلاء کی مختلف علوم وفنون مثلاً:فلسفہ طب،علم ہیت وفلکیات"وغیرہ میں تالیف کردہ کتابوں کے تھے۔
اور جیسا کہ ہم اس مضمون کی پہلی قسط میں اس بات کو احاطہ تحریر میں لاچکے ہیں کہ"قرآن مجید" کا سب سے پہلا ترجمہ بارہویں صدی میلادی میں"لاطینی زبان"میں شائع ہوا ہے،جب کہ اس وقت سے اب تک مستشرقین علماء نے بے حد وحساب قرآن کریم کےتراجم متعدد یورپی زبانوں میں شائع کرنے کابیڑہ اٹھایا،ذیل میں ہم ان چند اجنبی اور یورپی زبانوں کاذکر کرتے ہیں،جن میں استشراقی واستعماری قوتوں کے قائدین(پوپوں اور پادریوں) کے ایماء پر کتاب اللہ کا ترجمہ کرکے شائع کیا گیا۔
المانی زبان میں چودہ (14) تراجم
اطالوی زبان میں دس(10) تراجم
فرانسیسی زبان میں نو(9) تراجم
لاطینی زبان میں سات(7) تراجم
انگلش زبان میں دس(10) تراجم
رشین زبان میں دس(10) تراجم
ہسپانوی زبان میں نو(9) تراجم
ھولنڈی زبان میں چھ(6) تراجم
اور اس امرکا تذکرہ خالی از فائدہ نہیں ہوگا کہ مشہور عالم اور محقق ڈاکٹر حسن المعایرجی جو کہ قرآن مجید کےتراجم وتفاسیر کے بارے میں خاصا ذوق رکھتے ہیں،انہوں نے اب تک عالمی سطح پر"کتاب اللہ" کے متفرق زبانوں میں ہونے والے ترجمات کا شمار کیا ہے اوردعویٰ کیا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں ایک سو اکیس زبانوں میں قرآن مجید کاترجمہ دستیاب ہے۔(9)
3۔قلمی نسخوں کی تحقیق اور ان کی نشر واشاعت:۔
اعداء دین اسلام نے عام طور پر اور مستشرقین(عیسائی ویہودی مشنریوں) نے خاص طور پر "اسلامی نظام حیات"کا حلیہ بگاڑنے اور"عامۃ الناس" کے سامنے "مکمل ضابطہ حیات" اور اسکے سنہری ہمہ گیر اور عالمگیری اصولوں کو بے کار اور فرسودہ سسٹم(Worth Less System) باور کرانے کے لیے جہاں دیگر بہت سے وسائل اور(Sourcs) کا سہارالیا ہے،وہاں ان کے مسلمان ائمہ مجتہدین رحمۃ اللہ علیہ وسلف صالحین رحمۃ اللہ علیہ کی چھوڑی ہوئی علمی ورثہ"مخطوطات"(قلمی نسخوں) اور مختلف علوم وفنون پر مبنی قدیم کتب کے عظیم سرمائے سے استفادہ کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا،مغربی مفکرین اور دانشوروں نے مسلمانوں کے اس فراموش کردہ"کنز العلوم"(علمی خزانے) کو ہر جائز ،ناجائز ذرائع سے خوب لوٹا،تمام دنیا کے مسلم علاقوں خصوصاً "اسلامی مشرقی ممالک" سے جہاں کہیں بھی انہیں اس علمی سرمائے کی موجودگی کا احساس ہوا وہاں کے مسلمان تاجروں سے اس شرط پر کاروباری لین دین جاری رکھا،کہ اس کے عوض وہ ان کی ممکنہ حد تک مخطوطات(قلمی نسخوں) کی بازیابی میں معاونت کریں گے،لہذا مغربی اور یورپی ممالک میں عربی وادبی اور فنی معلومات کی فراہمی نیز اسلامی ودینی احکام ومسائل کی تشہیر میں مسلمان ائمہ مجتہدین کی چھوڑی تالیفات وتصنیفات اور قلمی نسخوں کا ایک بڑا کردار ہے۔
ان مخطوطات اور قلمی نسخوں کی دستیابی اور جمع کرنے کا عمل 1798ء میں مغربی استعمار کے لئے اور بھی آسان ہوگیا جب مصر پر"نابلیوں" نے اپنا تسلط قائم کرلیا،اس عرصہ کو یہودی وعیسائی اور دیگر مغربی تنظیموں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے دینی قدیم وجدید قلمی وغیر قلمی(مطبوعہ) مواد کو چرایا،اور اس کی حفاظت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،مثال کے طور پر ایک مستشرق محقق"الوارڈ"(Ahlwardt) نے "برلین" کے کتب خانے(Library) میں عربی مخطوطات(قلمی نسخوں) کی دس جلدوں پر مشتمل ایک کتاب میں طویل فہرست جاری کی اور اس میں خوب چھان پھٹک سے کام لیا،بعد میں یہی فہرست پچھلی صدی کے آخر میں دس ہزار(10000)قلمی نسخوں پر مبنی شائع ہوئی،مغربی علماء نے صرف انہی مخطوطات کے عظیم ذخیرے کو ایک جگہ جمع کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا۔بلکہ خوب چھان بین اور تحقیق وتوثیق کے بعد کی فہرستیں تمام مغربی ویورپی یونیورسٹیوں اورعلمی وادبی مراکز اور ان کی بڑی بڑی لائبریریوں کو بھی مہیا کیں،اور اب تک مغربی کتب خانوں اور لائبریریوں میں عربی ادب اوراسلامی علوم وفنون پر مشتمل مخطوطات اور قلمی نسخوں کی کل تعداد لاکھوں سے بھی متجاوز ہے۔
پھر اس بحث کے ضمن میں یہ بات بھی ذکر کردینے کے قابل ہے کہ مستشرقین(یہودی وعیسائی لابی) مسلمان علماء اور ائمہ مجتہدین کی اس علمی ودینی وراثت کا استعمال محدود دائرے میں نہیں کرتے،بلکہ اس میدان میں ان کا خاص ہدف(Target) وحی الٰہی(کتاب اللہ اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوتاہے،اور اس بات کی واضح دلیل سولہویں صدی کی ایک مستشرقہ عورت"کراتشکوفسکی" ہے۔جس نے کلام اللہ سے متعلقہ نادر مخطوطات کی تحقیق(Research) کے دوران ایک علمی مقالہ تیار کیا جس کا ذکر معروف عالم دین شیخ محمد امین الخولی نے بھی کیا ہے،کہ انہیں اتفاق سے ایک مستشرقین علماء ومفکرین کی ملکی سطح پر منعقد کردہ سالانہ پچیسویں کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔جس میں مذکورہ محققہ مستشرقہ عورت کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا:
( لقد قدمت السيدة كراتشكو فسكي بحثاً عن نوادر مخطوطات القرآن في القرن السادس عشر الميلادي. وإني أشك في أن الكثيرين من أئمة المسلمين يعرفون شيئاً عن هذه المخطوطات. وأظن أن هذه مسألة لا يمكن التساهل في تقديرها)(10)
"یقیناً محترمہ سیدہ"کراتشکو فسکی" نے سولہویں صدی میلادی میں قرآن کریم کے نادر(اورنایاب) نسخوں کے بارے میں ایک مقالہ(Thseis) پیش کرنے کااعزاز حاصل کیا ہے،اور(جہاں تک محسوس کرتا ہوں) مجھے شک گزرتا ہے کہ مسلمان ائمہ کی ایک بڑی تعداد کو ان مخطوطات کے بارے میں ایک حد تک علم ہے اور میرا یہ گمان ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس کی تہہ تک پہنچنے کے لئے تساھل نہیں برتنا چاہیے"
اور سچی بات یہ ہے کہ جسے کہہ دینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہونی چاہیے"کہ اتنی بڑی تعداد میں امت مسلمہ کا علمی سرمایہ جو کہ نایاب مخطوطات اور نادر دینی واسلامی لٹریچر(Literature) کی شکل میں کافر یونیورسٹیوں(Universities) اور کتب خانوں(Libraries) کی زینت بنا ہوا ہے۔اور جو مغربی اقوام کو زندگی کے ہر شعبہ میں ارتقائی منازل طے کرنے میں کافی حد تک ممدو معاون ثابت ہوا ہے ۔اس قیمتی علمی سرمائے سے تہی دست ہونے کی بناء پر عالم اسلام کو جن موجودہ"لادین طاغوتی قوتوں" کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،اور جس کی وجہ سے مسلمان بتدریج پستی وذلت کے عمیق کھڈ میں گرتے چلے جارہے ہیں اور زوال وانحطاط کی نگل جانیوالی دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ملت اسلامیہ کے روبہ زوال ہونے کے اسی تدریجی مراحل کومحسوس کرتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی خون کے آنسو روتے ہیں اور اس تکلیف دہ اورتلخ حقیقت کو اپنے ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سےزمین پر آسمان نےہم کو دےمارا
مگر وہ علم کےموتی کتابیں اپنےآباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتاہے سی پارا
اور اسی حقیقت کا اظہار مولانا الطاف حسین حالی رحمۃ اللہ علیہ نے اندلس کے مسلمان امراء وحکمرانوں کی عظمت وسطوت اورشان وشوکت کے خاتمے اور پھر کفر کے تسلط کو بیان کر تے ہوئے اس انداز میں کیا ہے۔
کوئی قرطبہ کےکھنڈرجاکے دیکھے
کوئی قرطبہ کے کھنڈر جاکے دیکھے
مساجد کےمحراب ودر جاکےدیکھے
حجازی امیروں کے گھر جا کے دیکھے
خلافت کو زیروزبر جا کےدیکھے
جلال ان کے کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا
کہ ہوخاک میں جیسے کندن ودمکتا
4۔بین الاقوامی یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی مراکز میں تقاریر وخطابات کا اہتمام:۔
منج جملہ استشراقی مہم کے وسائل میں سب سے موثر ،دلکش اورمثبت نتائج کے حصول کے اعتبار سے مستشرقین علماء اور مبشرین مبلغین کا ہر علمی وثقافتی مقامات پر تقاریر وخطابات کا وسیع پیمانے پر اہتمام کرنا ہے اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تقریباً ہر مغربی یا امریکی یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے میں اسلامی تعلیمات اورعربی ادب کا ایک مستقل شعبہ قائم کیا گیا ہے۔بلکہ بعض جامعات اور مدارس میں ایک سے زیادہ شعبے(Departments) استشراقی تحریک کی خدمت کےلیے کوشاں ہیں،ان میں سب سے زیادہ مشہور"جامعہ میونیخ" ہے۔جہاں بیک وقت سامی(عربی ادب کی)زبانوں اور اسلامیات نیزاہل مشرق کی تہذیب وتمدن اور ان کے تاریخی پس منظر سے متعلقہ پڑھائے جانے والے علوم کے دو شعبے کام کررہے ہیں،ان ہر دو طرح کے شعبوں میں ایک(Specialist teacher) استاد اور کئی اس کے معاونین ومساعدین لیکچرار(Assistant Lecturers) بھی متعین کئے جاتے ہیں۔اس قبیلے کے خاص شعبوں کے ذریعے عربی ادب اور دیگر علوم وفنون ،طلباء کے اذھان میں راسخ کیے جاتے ہیں،اور یہ طلبہ پورے ذوق وشوق اور محنت ولگن سے ایم۔اےاورپی۔ایچ۔ڈی کی اسناد اور ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد پورے مذہبی مولویوں کے روپ میں استشراقی مہمات کو سر کرنے کے لئے چہار دانگ عالم میں بکھر جاتے ہیں،پھر اسپر مستزاد یہ کہ ہرجامعہ اور مدرسہ میں ایک خاص کتب خانہ بھی قائم کیا گیا ہے۔جس سے حسب ضرورت فارغ البال حضرات عموماً،جبکہ استشراقی دانشور اور مفکرین خصوصاً مستفید ہوتے اور ساتھ ہی ساتھ اشاعت اسلام کی غرض سے قائم کردہ مسلمانوں کے دینی مراکز کی نشاندھی کرکے،انہیں مسمار کرنے کے نت نئے منصوبے(Plans) بھی تشکیل دیتے ہیں۔
لیکن ان انتہائی تاریک اور منفی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ یہاں کچھ مثبت پہلوؤں کا ہونا بھی لابدی امر ہے اور وہ یہ کہ،مستشرقین (یہودی وعیسائی مبلغین) کےزیر نگرانی جاری وساری ان بین الاقوامی یونیورسٹیوں اور تعلیمی وثقافتی اداروں میں جہاں اسلام کاقلعہ منہدم کرنے کے لئے دشمنان دین اور طاغوتی قوتوں کی کھیپ تیار کی جاتی ہے ،وہاں پوری دنیا کے متفرق علاقوں سے آئے ہوئے مسلمان طلبہ اور تشنگان علم کی بھی ایک بڑی تعداد عصرحاضر کی تمام تر سہولتوں(Facilities) سے مکمل طورپر استفادہ کرتے ہوئے علم کی پیاس بجھاتے ہیں۔اور سند فراغت پانے کے بعد اپنے اپنے مسلم ممالک میں بڑی بڑی جامعات میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے بیک وقت عصری ودینی علوم میں تدریسی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔اس طرح مسلم امہ کا ایک طبقہ مسلمانوں کو عالمی سطح پر درپیش کفار کے بڑے چیلنجوں کاسامنا کرنے کے لیے ہر وقت مستعد رہتاہے اور مسلم ملک وملت دونوں کادفاع کرنےکی اپنے اندر پوری طرح صلاحیت رکھتا ہے۔
لہذا اسلام اور مسلمانوں کی بقاء کے لئے،ملک وملت کے استحکام کے لئے نیز مسلمان سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہ اورائمہ مجتہدین کی چھوڑی ہوئی علمی وراثت کو مغربی اقوام اوراغیار سے محفوظ رکھنے کےلیے،ایسے مسلمان علماء کی جمیعت ناگزیر ہے جو رہتی دنیا تک پوری امت مسلمہ کے قائد اعظم ،امام اعظم،امام الانبیاء اور خاتم المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب،مھبط وحی کی گود میں پرورش پانے والی صفوۃ الخلق صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی جماعت اور پھر ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے کبار تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام اور سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ،بدلتے ہوئے حالات کے رخ کے ساتھ ساتھ چلنے کی صلاحیت رکھتے ہوں،اور اس طرح کفر والحاد ،اورجبراستبداد کی خوفناک استشراقی ،تبشیری ار استعماری قوتوں کے ظالم پنجوں میں سسکتی اور تڑپتی ہوئی مسلم امہ کو نجات دلاسکیں جس ظلم وجور اوروحشت وبربریت کامشاہدہ آج ہم کشمیر،فلسطین،بوسنیا،بلغاریہ اور دوسرے مسلم مقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے اور ان کے ساتھ روارکھے گئے انسانیت سوز سلوک سے کرسکتے ہیں،عالمی سطح پر مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم کی آندھیوں نے اور مسلمان قوم کے خون کے پیاسے درندوں کی درندگی اور دہشت گردی نے پوری دنیا کے ماحول کو اس قدرخوفناک اور مکدر کردیا ہے کہ لامحالہ کہنا پڑتا ہے۔ع
بجھے بجھے سے ہیں ماہ انجم
فضاؤں میں زہر گھل گیا ہے
چلی ہے بادسموم ایسی
در جہنم بھی کھل گیا ہے!!
اورستم بالائے ستم یہ کہ ایک طرف غیر مسلم ممالک میں قائم کردہ بڑے بڑے تعلیمی مراکز میں احبار ورھبان کی رہنمائی میں استشراقی قوتیں متحرک ہیں،جہاں سے باقاعدہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف گمراہ کن منصوبے تشکیل پاکر"مبشرین"(یہودی وعیسائی مبلغین) کو نام نہاد ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔جب کہ دوسری طرف کافر مبلغین کی راہ ہموار کرنے کے لیے استعماری طاقتیں حرکت میں آجاتی ہیں،ان ہر دو فکری مادی طریقوں کو عمل میں لاتے ہوئے خاص طور پر مسلم آبادی والے خطوں میں مسلم کش پروگراموں کو عملی جامعہ پہنایا جاتا ہے،اور عام طور پر ایسے منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے ان علاقوں کا انتخاب کیا جاتا ہے،جہاں مسلمان زیادہ تر علمی،مذہبی،سیاسی اور اقتصادی بحران کا شکار ہیں اور بتدریج روبہ تنزل ہیں،بلکہ اب تو ایسے قحط زدہ مسلم علاقوں میں علی الاعلان جبراً عیسائی،یہودی اور کافر بنانے کا سلسلہ عروج پر ہے۔یہ کافر لوگ بظاہر"عالمی انسانی حقوق کے تحفظ" کے اصل علمبردار ہونے کا جعلی راگ الاپ کر اور"انسانی ہمدردی وبقاء" کا روپ دھارکر پس پردہ انسانیت کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دور حاضر میں اس قسم کے مشن کو پروان چڑھانے میں سب سے زیادہ پیش پیش اقوام متحدہ(United Nations) کا ادارہ ہے۔جس کےسربراہان براہ راست صلیبی وصہیونی تحریکوں اور تنظیموں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ظاہری طور پر پوری دنیا کے سب سے بڑے خیر خواہ،ہمدرد اور مصلح بنے ہوئے ہیں جبکہ اندرون خانہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو خانہ جنگی کی بھٹی میں جھونک کر اور ان کا قتل عام کراکے لادین اور غیر مسلم قوتوں کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں،اور ان کا یہ کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں،عالمی بدامنی،ہرجگہ قتل وغارت اور فساد،دہشت گرد بین الاقوامی تنظیموں کا وجود،مسلمان امت کا انتشار وافتراق اور مسلمان جماعتوں کا باہم دست وگریبان ہونا،مسلم خون کی ارزانی غرض یہ کہ پوری دنیا کا انتہائی تکلیف دہ حالات کا سا منا کرنا اور مضطرب وبے چین ہونا،یہ سب کچھ اس نام نہاد،مکار اور شاطر اقوام متحدہ کا مرہون منت ہے،بالفاظ دیگر اقوام متحدہ کا یہ ادارہ ،جو آج کل اللہ کے دین کے دشمنوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔بلاشبہ یہودیت وعیسائیت کے فروغ اور اسلام اور مسلمانوں کے سد باب کےلیے باقاعدہ منظم سازش کے تحت قائم کیا گیا سچ ہے جو کسی نے کہا۔ع
بادہ عصیان سے دامن تر بہ تر ہے شیخ کا
پھر بھی دعویٰ ہے کہ اصلاح دو عالم ہم سے ہے!
ہیں یہ سارے کچھ ،نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا!!
کفار اور دشمنان دین کی اسی دوغلی پالیسی کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا ہے:
وَدَّت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يُضِلُّونَكُمْ(آل عمران:69)
"آرزو ہے بعضے اہل کتاب(یہود ونصاریٰ) کو کہ کسی طرح گمراہ کریں تم کو"
اسی سورہ مبارکہ میں ایک اورمقام پر اللہ تعالیٰ کایوں ارشاد ہے:
وَقَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ(آل عمران:72)
"اور اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا کہ جو کچھ ایمان والوں پر اتارا گیا ہے اس پر دن چڑھے تو ایمان لاؤ اور شام کے وقت کافر بن جاؤ، تاکہ یہ لوگ بھی پلٹ جائیں"
ان آیات بینات کا شان نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ یہود کی ایک ٹولی نے آپس میں صلاح کی کہ ہم میں سے کچھ آدمی صبح کے وقت بظاہر اسلام قبول کر لیاکریں اور مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھیں، اور شام کو یہ کہہ کر اسلام سے پھر جایاکریں کہ ہمیں تحقیق کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ یہ وہی نبی نہیں ہیں جن کی ہماری آسمانی کتابوں میں بشارت دی گئی تھی اور تجربہ سے بھی پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اہل حق کے افعال وکردار سے مطابقت نہیں رکھتے،نتیجہ یہ ہوگا کہ بہت سے نئے مسلمان ہماری دیکھا دیکھی اسلام سے پھر جائیں گے اور دوسرے لوگ بھی سمجھیں گے کہ دین اسلام میں ضرور کوئی خرابی تھی جو یہ ہے لوگ داخل ہونے کے بعد اس سے نکلے ہیں لیکن وحی الٰہی نے معاً اہل ایمان کو ان کے اصل دجل فریب سے مطلع کردیا اور اس فریب کا ری کا جا بجاچرچا ہونے لگا۔(11)
قرآن کریم کے پیش کردہ یہی دو متضاد چہرے دکھلا کر صلیبی وصہیونی طاغوت اہل اسلام کے ایمان وایقان پر کاری ضرب لگاتے ہیں،وہ ہر جگہ موقع کی مناسبت سے گفتگو کا موضوع بدلتے،اور حالات ےموافق کمزور اور ضعیف والاعتقاد مسلمانوں کو ور غلانے کے لئے ان کے مزاج اور طبیعت کے مطابق ایسے پینترے بدلتے ہیں کبھی اسلام کے بہی خواہ اور مسلمانوں کے مویدین بن کر،کبار مبلغین اور واعظین کا لبادہ اوڑھ کر ہر بڑی اسلامی یونیورسٹی اور مسلمانوں کے بڑے بڑے دینی مراکز،(مثلاً جامعہ ازھر ،جامعہ دمشق ،جامعہ بغداد،جامعہ رباط،جامعہ کراچی اورجامعہ پنجاب وغیرہ) میں علمی وفکری محاضرات کے لئے خاص اہتمام سے پہنچتے ہیں، اسلام کے خلاف ان کی اسی تگ ودود کو قرآن حکیم اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے۔
﴿وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿٧٨﴾ ...آل عمران
"یقیناًان میں ایسا گروه بھی ہے جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان مروڑتا ہے تاکہ تم اسے کتاب ہی کی عبارت خیال کرو حالانکہ دراصل وه کتاب میں سے نہیں، اور یہ کہتے بھی ہیں کہ وه اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے حالانکہ در اصل وه اللہ تعالی کی طرف سے نہیں، وه تو دانستہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں"
اس سلسلے کی ایک کڑی مستشرقین کے ہاں بڑی تعداد میں تبلیغی ودعوتی مجلسوں کا قیام اور عظیم الشان کانفرنسوں کا انعقاد ہے ،جہاں مغربی اقوام کے قائدین وراہنما(اخبار ورھبان) بمع اپنے متبعین اور چیلوں چانٹوں کے ،پورے ولولے اور جوش وجذبہ سے سرشار شریک ہوتے ہیں اور اپنے نام نہاد (اسلام اور مسلم کش)مشن(Mission) سے متعلق لائحہ عمل مرتب کرتے ہیں،ایسے سینکڑوں پروگرام ہمہ وقت جاری رہتے ہیں اور عیسائی ویہودی مشنری(Missionary)ان متعین کردہ خطوط کے مطابق مادی وفکری ہر قسم کے وسائل وذرائع استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی،قارئین کرام کی افادیت کی خاطر ذیل میں چند معروف جلسوں(Meetings) اور کانفرنسوں(Conferences) کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن کا انعقاد خصوصی طور پر مستشرقین کی جانب سے ہوا۔
1۔سب سے پہلی ملک گیر کا نفرنس 1883ء کو پیرس میں منعقد کی گئی بعد میں اسی کانفرنس کے نام پر کئی ایک دوسری کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا،حتیٰ کہ اب تک ان کی تعداد تیس سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور یہ سلسلہ اجتماعات ان کانفرنسوں(Conferences) اور جلسوں(Meetings) کے علاوہ ہے جو دیگر ممالک میں علاقائی سطح پر منعقد کی جاتی ہیں ،جیساکہ"المان "کی" استشراقی کانفرنس"جو 1849ء کو المانی شہر" درسدف" میں منعقد ہوئی اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
"مستشرقین" کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ان کانفرنسوں کے سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان جیسی مجالس اور پروگراموں(Programmes) میں سینکڑوں مستشرق علماء ومفکرین دور دراز کے ممالک سے سفر کی صعوبتوں کو جھیل کر شرکت کرتے ہیں۔مثال کے طور پر"آکسفورڈ کانفرنس" جس کو رونق بخشنے کے لئے۔دنیا بھر کے پچیس ممالک،اسی(80) یونیورسٹیوں اورانہتر علمی ونظری تنظیموں کی طرف سے تقریباً نو سو مذہبی قائدین(Religious Scholars) شریک ہوئے،اس فقید المثال اجتماع میں شریک ہونے والے افراد کو آئندہ کے لئے استشراقی تحریک کو کامیاب ترین طریقے سے چلانے کے لئے اوراس کےاچھے اوردیرپا نتائج حاصل کرنے کے لیے مختلف ذمہ داریاں سونپی گئیں، نیز اس پروگرام کا جملہ پہلوؤں سے بھی جائزہ لیاگیا۔اور پھر اس تمام کاروائی کا قابل اشاعت حصہ عالمی سطح پر پھیلانے کے لئے اورعامۃ الناس کو اس سے روشناس کرانےکے لیے متعدد قومی جرائد اور عوامی مجلات میں شائع کیا گیا،جس نے تھوڑے ہی عرصہ بعد ایک خاص طبقہ میں جذاب اورپر لطف فن کی شکل اختیار کرلی اور غیر مسلم محققین وباحثین(Research Scholars) کےلیے علمی میدان میں اصول ومبادیات کی حیثیت سے پرکھی جانے لگی۔(12)
2۔یہودی وعیسائی لابی کے زیر نگرانی ایک دوسری بڑی عالمی کانفرنس(World Conference) 1906ء/1323ھ کو مصر کے عظیم شہر قاہرہ میں منعقد ہوئی جس کاموضوع خاص "الدين لله" و"الوطن للجميع" (دین صرف اللہ تعالیٰ کا اور وطن سب کا)تھا،اس کانفرنس میں جن اہم موضوعات اور مسائل کو زیر بحث لایا گیا اس سے اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،چند اہم موضوعات اورنکات درج ذیل ہیں۔
1۔پوری دنیا میں بسنے والی مسلم آبادی کی مجموعی تعداد۔
2۔افریقہ میں اسلام کی نشرواشاعت۔
3۔عثمانی امراء وسلاطین کے زیر قیادت اسلام کی نشر واشاعت اور ترقی۔
4۔ہندوستان میں اسلام کی اشاعت وترویج۔
5۔ایران میں اسلام کی حالت۔
6۔چین میں اسلام کی ترقی اور اس کے اسباب۔
7۔عام اور خاص ہردوقسم کے مسلمانوں میں مناسب مواد(Literature) اور رسائل وجرائد کی تقسیم اور حکمت عملی۔
8۔مسلمانوں میں ارتداد کے رجحان کو عام کرنا۔
9۔اسلام اوراحکام اسلام سے متنفر کرنے کے لیے جملہ طبی وسائل وذرائع(Medical Sources) کااستعمال۔
10۔خواتین مسلم تنظیموں کا جائزہ اور کئی دیگر موضوعات جو مبشرین(مغربی مدرسین ومبلغین) کی تربیت وراہنمائی اور ان کے باہمی روابط وتعلقات نیز دینی موضوعات پر تعلیم دینے کی کیفیات پر مبنی تھے۔
3۔"بیت المقدس کانفرنس"جو1343ھ/1923ء کو منعقد ہوئی،اس اجتماع میں جہاں کئی دوسرے بے شمار مسائل پر گفتگو کی گئی،وہاں"فلسطین" میں یہودی آباد کاری کے حق میں صلیبی وصہیونی قوتوں نے متفقہ قرار داد پیش کی اور پھر اس قرار داد کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے مختلف پروگرام اور اسالیب ترتیب دیے گئے۔بلامبالغہ یہ کانفرنس جو یہودی وعیسائی کے زیر اہتمام وقوع پزیر ہوئی،ایک طرح سے اس صہیونی اجتماع(Gathering) کے اہداف کا تتمہ تھی۔جو1897ء کو" سویسرا" میں بلایا گیا تھا،اورجس میں حتمی طور پر فلسطین پر یہودی تسلط،اورقدس میں یہودی آباد کاری بلکہ خاص طور پر افریقی وایشیائی مسلم آبادی والے علاقوں کوآپس میں بانٹنے کی منظوری دی گئی تھی۔
4۔"الحادی تعلیم وتربیت کا اجتماع عظیم" جو1383ھ/1963ء کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں بلایاگیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجتماع تھا،جس میں خاص کر مسلمانوں کے افکار ونظریات کو ہدف بنا کر ان کوبے دینی اور ملحد بنانے کی آراء وتجاویز پیش کرنے کو کافی سمجھا گیا۔اورجس کاپہلانتیجہ بیسویں صدی کے اوائل میں اس وقت سامنے آیا،جب زیادہ تر لوگوں کامیلان لا دینیت(Secularism) کی طرف بڑھ گیا اور باطل افکار ونظریات"مارکسزم" اور "کمیونزم" کی صورت میں پروان چڑھنے لگے، اس کے ساتھ محولہ بالا کانفرنس میں اس نقطہ نظر کو خاص طور پراہمیت دی گئی کہ بین الاقوامی سطح پرایسے علمی وادبی اور تدریسی مراکز قائم کیے جائیں جہاں مسلمانوں کی عالمی شہرت یافتہ شخصیات ،علماء ،دانشوروں اور مذہبی قائدین معیاری تعلیم پا کر اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں کے حصول پر انگیخت دلائی جائے، جس کے پس پردہ انہیں"مارکسزم" اوراشتراکیت" جیسے نظریات سے متعارف کرایا جاسکے،تاکہوہ متعلقہ اداروں سے سندفراغت پا کر مسلمانوں کو تعلیم وتعلم کے بہانے"مارکسنزم"(Markism) اور اشتراکیت(Comunism) جیسے باطل نظریات کی طرف آسانی سے راغب کرسکیں۔
5۔اسلامی ممالک میں بھیجنے کے لئے مبشرین(مبلغین) کے وفود اورجماعات کی تشکیل:۔
اس قسم کے وفود اور منظم گروہوں کو استشراقی مشن کی خدمت کے لئے اور مختلف مہمات سر کرنے کے لئے ترتیب دیا اور تیار کیاجاتا ہے۔ان کے ذمے بے شمار کام ہوتے ہیں ،یہ وفود چہار سو پھیل جاتے ہیں اور جہاں کہیں بھی اپنے موافق حالات پاتے ہیں،اورفاسد افکار وخیالات کے بیج بونے کے لیے زمین زرخیز اور راہ ہموارپاتے ہیں وہاں مستقل رفاہی ادارے(ہسپتال،سکول،مسافرخانے،یتیم خانے اور دیگر عوامی فلاح وبہبود کے مراکز) قائم کرکے اپنے ڈیرے جمالیتے ہیں اور اندرون خانہ مغربی فضاء اورتہذیب وتمدن(Westren Civilization) کے غلبہ کے لئے انسانی زندگی کے شعبہ ہائے حیات علمی،اخلاقی مذہبی،سیاسی اوراقتصادی ہر اعتبار سے بنیادی تبدیلی لانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے،ان کی یہ ساری جدوجہد اورمحنت صرف اور صرف پوری دنیا کواہل مغرب کی غلامی زنجیروں میں جکڑنے کے لئے اور خصوصاً اہل اسلام کی گردنوں میں مغربی(یہودی وعیسائی) عادات وتقلید کاطوق ڈال کر تدریجاًلادینیت(Secularism) اوراخلاقی بےراہ رویکے عمیق گڑھوں میں گرانے کے لیے ہوتی ہے جبکہ ان کی اصل زمام" مستشرقین" کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور جب وہ چاہیں اور جس طرف چاہیں ان کا رخ پھیر کر اہل اسلام کو نیست ونابود کرنے کے لیے اوراستعماری قوتوں کو حرکت میں لاتے ہوئے ہو وہ گھناؤنا کردار ادا کرتے ہیں جن کی تفصیلات نقل کرنے کی یہاں گنجائش نہیں۔کیا ہی خوب اور سچ کہا ہے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس فرنگی تہذیب کی ناپائیداری اور ضلالت پر:
یہ عیش فراواں،یہ حکومت،یہ تجارت
دل سینہ بے نور میں محروم تسلی
تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے
یہ وادی ایمن نہیں شایان تجلی
ہےنزع کی حالت میں یہ تہذیب جوانمرگ
شاید ہوں کلیسا کےیہودی متولی!
(اللهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنااجتنابه) آمین یا رب العالمین!
حوالہ جات:۔
1۔اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف(وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ)الایۃ سورۃ الشوریٰ:30۔
2۔پوری حدیث کامتن یوں ہے۔ عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الدِّينُ النَّصِيحَةٍُ
3۔مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ کیجئے کتاب" الاستشراق والخلفية الفكرية للصراع الحضاري "مصنف
4۔ایضاً۔ص68۔69۔
5۔اﻟﻤﻮﺳﻮﻋﺔ اﻟﻤﻴﺴﺮة ﻓﻲ اﻷدﻳﺎن واﻟﻤﺬاهﺐ واﻷﺣﺰاب اﻟﻤﻌﺎﺻﺮة."ص 37 مطبع الریاض
6۔صحیح بخاری کتاب الجہاد المغاذی ،صحیح مسلم کتاب الایمان۔
7۔الاستشراق والمستشرقون مصنف:ڈاکٹر مصطفیٰ السباعی رحمۃ اللہ علیہ ص28۔29۔
8۔ایضاً۔
9۔الاستشراق والخلفية الفكرية للصراع الحضاريص65۔
10۔دیکھیےالعقیق"3/352 اور3/598 اور Fvech of City,191,189,بحوالہ"الاستشراق والخليفة الفكرية "ص 62۔
11۔ترجمہ القرآن الکریم۔مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ ۔
12۔اﻟﻤﻮﺳﻮﻋﺔ اﻟﻤﻴﺴﺮة ﻓﻲ اﻷدﻳﺎن واﻟﻤﺬاهﺐ واﻷﺣﺰاب اﻟﻤﻌﺎﺻﺮة.ص38۔