تیمم کا طریقہ ازروئے قرآن و حدیث
(تقریباًدو ہفتہ قبل ایک ہینڈ بل نظر سے گذرا تھا جس میں "تیمم کرنے کا طریقہ " درج تھا۔ یہ طریقہ چونکہ قرآن و سنت کے صریح اور واضح احکا م کے خلا ف تھا لہٰذا "الدین النصیحة " کی اتباع میں تقسیم کنندہ کو متنبہ کرنا ضروری سمجھا گیا ۔۔لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ سیدھی سادی بات کو سمجھنے کے بجا ئے قرآن و سنت کے مقابلہ میں برصغیر کے چند معروف علماء کے اقوال کو بطور سند پیش کیا گیا فإنا اللہ وإنا إلیه راجعون ۔۔۔اس سلسلہ کی آخری کو شش اور اتمام حجت کے طور پر یہ مختصرمضمون قلمبند کر رہا ہوں ۔شاید کہ بعض بھا ئیوں کو عبرت اور قبول حق کی تو فیق ہو جا ئے ۔۔۔مرتب)تقسیم شدہ ہینڈ بل کی عبارت حسب ذیل ہے۔
"10۔تیمم کرنے کا طریقہ :اول نیت کرے پھر دونوں ہاتھ مٹی (کے بڑے ڈھیلے)پر مار کر دونوں ہاتھ اس طرح منہ پر پھیرے کہ کو ئی جگہ باقی نہ رہ جا ئے پھر دوسری مرتبہ دونوں ہاتھ مٹی پر مارے ،پہلے بائیں ہاتھ کی چار انگلیاں سیدھے ہاتھ کی انگلیوں کے سرے کے نیچے رکھ کر کھینچتا ہوا کہنی تک لے جا ئے (اس طرح لے جا نے پر سیدھے ہاتھ کے نیچے کی طرف پھر جائے گا )پھر بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سیدھے ہاتھ کے اوپر کی طرف کہنی سے انگلیوں تک کھینچتا ہوا لا ئے۔ بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے اندر کی جانب کو سیدھےہاتھ کے انگوٹھے کی پشت پر پھیرے ۔پھر اسی طرح سیدھے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر پھیرے پھر انگلیوں کا خلال کرے ۔(انگوٹھی یا چھلہ پہنے ہو ئے ہو تو اسے اتارنا ہلا نا ضروری ہے ،دونوں ہاتھ جب مٹی پر ماریں گے تب اگر ہاتھوں پر زیادہ مٹی لگے تو جھا ڑدیں یا منہ سے پھونک دیں ۔ہاتھوں کو بالکل وضو کی طرح تمام منہ اور کہنیوں سمیت ہاتھوں پر اس طرح پھیریں کہ کو ئی جگہ چھوٹنے نہ پا ئے ،اگر بال برابر بھی جگہ باقی رہ جا ئے گی تو تیمم صحیح نہ ہو گا ۔
تقریباً یہی بات جناب ایم۔ ایس چوہدری قادری صاحب (چیرمین یورپین )اسلامک مشن ڈان کا سٹر ۔انگلینڈ) اپنی کتاب "نماز وادعیہ "میں یوں لکھتے ہیں :
"تیمم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ پاک زمین پر مارے اور سارے منہ کو مل لیوے پھر دوسری مرتبہ زمین پر دونوں ہاتھ مارے اور دونوں ہاتھوں پہ کہنی سمیت مل لیوے۔اگر ناخن برابر بھی کو ئی جگہ چھوٹ گی تو تیمم نہ ہو گا ۔انگوٹھی چھلہ اتارلے تاکہ کو ئی جگہ چھوٹ نہ جا ئے، انگلیوں میں خلال بھی کرے ،جب یہ دونوں چیزیں کرلیں تو تیمم ہو گیا "(1)
تیمم کا طریقہ قرآن وکریم میں :۔
قرآن کریم میں "تیمم "کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے۔وہ حسب ذیل ہے۔
1۔ ﴿وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ﴿٤٣﴾...النساء
ترجمہ:اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کو ئی شخص رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہواورپھر پانی نہ ملے تو پا ک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو۔بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرما نے والا ہے۔
2۔ایک اور مقام پر وضو اور تیمم دونوں کے احکا م بیان کرتے ہو ئے ارشاد ہو تا ہے۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿٦﴾...المائدۃ
ترجمہ: "اے لوگو! جو ایمان لا ئے ہو"جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چا ہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو،سروں پر ہاتھ پھیر لواور پاؤں ٹخنوں تک دھولیا کرو۔اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جا ؤ ،اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کو ئی شخص رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگا یا ہوا ور پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کا م لو۔پس اس پر ہا تھ مار کر اپنے منہ اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو ۔اللہ تعالیٰ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چا ہتا مگر وہ چا ہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردے ،شاید کہ تم شکر گزار بنو۔
مذکورہ بالا دونوں آیات کا ترجمہ آپ نے جناب مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی زبانی ملا حظہ فر ما یا ،اب چند اور معروف علماء کے ترا جم بھی ملا حظہ فرمائیں ۔
شاہ عبدالقادر صاحب یوں ترجمہ فر ما تے ہیں :
"اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں یا آیا ہے کو ئی شخص تم میں جا ئے ضرورت سے یا لگے ہو عورتوں سے پھر نہ پا یا پا نی تو ارادہ کرو زمین پاک کا ،پھر ملو اپنے منہ کو اور ہاتھ کو"(6)
"اور اگر تم بیمارہو یا سفر میں یا ایک شخص تم میں آیا ہے جا ئے ضرورت سے یا لگےہو عورتوں سے پھر نہ پا ؤ پانی تو قصد کرو زمین پاک کا اور مل لو اپنے منہ اور ہا تھ اس سے۔"(7)
جناب محمود الحسن نے بھی آیا ت کا ترجمہ تقریباً شاہ صاحب والا ہی کیا ہے۔(9،8)
اسی طرح جناب عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ صاحب یو ں فرما تے ہیں ۔
"اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی استنجا سے آیا ہو یا تم نے اپنی بیویوں سے قربت کی ہو ،پھر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ پھیر لیا کرو "( 10)
اور۔۔۔
"اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی استنجا سے آئےیا تم نے عورت سے صحبت کی ہو پھر تم کو پا نی نہ ملے تو پا ک مٹی سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر اس سے مسح کر لیا کرو"(11)
جناب اشرف تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب فر ما تے ہیں ۔
"اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی استنجا سے آیا ہو یا تم نے اپنی بیویوں سے قربت کی ہو ،پھر تم کو پانی نہ ملے تو پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو ۔یعنی (اس زمین پر دوبار ہاتھ مار کر ) اپنے چہروں اور ہاتھوں پر(ہاتھ)پھیر لیا کرو۔(12)
اور۔۔۔
پھر تم کو پانی نہ ملے تو پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو ۔یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پرہاتھ پھیر لیا کرو۔اس زمین پر سے"(13)
نوٹ:واضح رہے کہ بریکٹ کے اندر کی عبارت قرآن کے کسی لفظ کا ترجمہ نہیں ہے مترجم موصوف نے اسے وضاحت کے لیے از خود درج فر ما یا ہے۔
"اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں یا آیا ہے تم میں سے (کوئی)جائے ضرورت سےیا پا س گئے ہوں عورتوں کے پھر نہ ملا تم کو پا نی تو ارادہ کرو زمین پاک کا پھر ملو اپنے منہ کو اور ہاتھوں کو"(14)
اور۔۔۔
"اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں یا کوئی تم میں سے آیا ہے جائے ضرورت سےیا پا س گئے ہو عورتوں کے پھر نہ پاؤ تم پانی تو قصد کرو مٹی پاک کا اور مل لو اپنے منہ اور ہاتھ اس سے "(15)
جناب احمد حسن دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (1338ھ)یوں ترجمہ فرما تے ہیں :
"اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں یا آیا ہے تم میں سے کوئی شخص تم میں سے جائے ضرورت سےیا لگےہو عورتوں کے پھر نہ پایا تو پا نی تو ارادہ کرو زمین پاک کا پھر ملو اپنے منہ کو اور ہاتھوں کو"(16)
اور۔۔۔
"اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں یا آیا ہے تم میں سے کوئی شخص تم میں سے جائے ضرورت سےیا لگےہو عورتوں کے پھر نہ پاؤ تم پانی تو قصد کرو زمین پاک کا اور مل لو اپنے منہ اور ہاتھ اس سے"(17)
اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے استاد ڈاکٹر محمد تقی الدین الہلالی المراکشی اور ڈاکٹر محمد محسن خان صاحب اپنی انگلش تفسیر میں یو ں ترجمہ فرما تے ہیں ۔
If you are ill or on jourey or one of you comes form answering the call of nature or you have been in contact with women( ie.Sexual intercourse) and you find no water then go to clean earth and rub there with your faces and hands(i.e.Strike your hand on the earth and then blow off the dust from them and then rub them on your face(i.e.Tayammum.)
اور۔۔۔۔(19)
If you are ill, or on a journey, or one of you comes after answering the call of nature,or you have been in contact with women (Sexual r elation) and you find no water then take for your selves clean earth and rub there with your faces and hands.
حتیٰ کہ بریلوی مکتب فکر کے سرخیل جناب احمد رضا خان بریلوی بھی یوں ترجمہ فرما تے ہیں ۔
"اوراگر تم بیمار ہو یا سفر میں سے کو ئی قضائے حاجت سےآیایا تم نے عورتوں کو چھوااور پانی نہ پا یا تو پاک مٹی سے تیمم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا مسح کرو۔(20)
اور۔۔۔
"اوراگر تم بیمار ہو یا سفر میں سے کو ئی قضائے حاجت سے آیا یا تم نے عورتوں سے صحبت کی اور ان صورتوں میں پا نی نہ پا یا تو پاک مٹی سے تیمم کرواپنے منہ اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو۔(21)
خلا صہ:قارئین کرام!آپ نے بچشم خود ملا حظہ فرما لیا کہ ان تمام حضرات میں سے کسی بھی شخص کو کلام اللہ میں "تیمم "کا وہ طریقہ نظر نہیں آیا جو کہ تقسیم شدہ ہینڈ بل میں مذکورہے بالخصوص دو بار زمین پر مارنا اور کہنیوں تک مسح کرنا ۔
مذکورہ بالا حکم قرآن کے متعلق بعض مفسرین کی آراء :۔
لیکن باوجوداس کے ہمارے بعض مفسرین مذکورہ بالا آیا ت قرآن کی شرح و تفسیر میں کتاب اللہ کے انتہا ئی واضح اور صریح حکم کے خلا ف یوں تحریر فرماتے ہیں ۔
شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ صاحب کا قول ہے۔
"فائدہ : اب تیمم کا طریق یہ ہے کہ زمین پا ک پر دونوں ہاتھ مارے پھر منہ کو مل لیا پھردونوں ہاتھ مارے پھر ہاتھوں کو مل لیا کہنیوں تک "(22)
شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب فر ما تے ہیں :
"فائدہ: تیمم کی صورت یہ ہے کہ زمین پا ک پر دونوں ہاتھ مارے پھر منہ پر اچھی طرح مل لیوے پھردونوں ہاتھ مارکر دونوں ہاتھوں کوکہنیوں تک مل لے"(23)
اور عبد الماجد دریا بادی رحمۃ اللہ علیہ صاحب فر ماتے ہیں :
"یعنی ایسی مٹی ہو جو خود غیر طاہر یا گندی نہ ہو دو دو بار ہاتھ مار کر پہلی بار پورے چہرہ اور دوسری بار ہاتھوں پر کہنیوں تک پھیر لیا کرو"(24)
لیکن جنا ب مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے کہنیوں تک مسح کا کو ئی تذکرہ نہیں کیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں :
"خلاصہ تفسیر ۔۔۔تم کو پانی (کے استعمال کا موقع ) نہ ملے (خواہ تواس وجہ سے کہ مرض میں اس سے ضرrر ہو تا ہو خواہ اس لیے کہ وہاں پانی مو جو د نہیں خواہ سفر ہو یا نہ ہو) تو (ان سب حالتوں میں) تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو (یعنی اس زمین پر دوبارہاتھ مار کر ) اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ ) پھیر لیا کرو۔(الخ"(25)
اور "خلاصہ تفسیر ۔۔۔تو ان سب حالتوں میں تم پاک زمینوں سے تیمم کر لیا کرو۔یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پرپھیرلیا کرو ۔اس زمین (کی جنس )پر سے (ہاتھ مار کر)"(26)
اسی طرح بریلوی مکتب فکر کے عالم جناب محمد نعیم الدین مراد آبادی بھی فرماتے ہیں ۔
"تیمم میں دو ضربیں ہیں ایک مرتبہ ہاتھ مار کر چہرہ پر پھیر لیں دوسری مرتبہ ہاتھوں پر"(27)
جبکہ جناب سید ابو الاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب فر ما تے ہیں :
"تیمم کے طریقے میں فقہاء کے درمیان اختلا ف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر منہ پر پھیر لیا جا ئے پھر دوسری دفعہ ہاتھ مار کر کہنیوں تک ہاتھوں پر پھیر لیا جا ئے۔امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور اکثر فقہاء کا یہی مذہب ہے اور صحابہ و تابعین رحمۃ اللہ علیہ میں سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ شعبی رحمۃ اللہ علیہ اور سالم بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرھا اس کے قائل تھے۔دوسرے گروہ کے نزدیک صرف ایک دفعہ ہی ہاتھ مار نا کا فی ہے وہی ہاتھ منہ پر بھی پھیر لیا جا ئے اور اسی کو کلائی تک ہاتھوں پر بھی پھیر لیا جا ئے کہنیوں تک مسح کرنے کی ضرورت نہیں ۔یہ عطاء اور مکحول رحمۃ اللہ علیہ اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ اور احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے اور عموماً حضرات اہل حدیث اسی کے قائل ہیں۔(28)
لیکن حق بات یہ ہے کہ اگر تیمم میں بھی کہنیوں تک مسح کرنا ضروری ہو تا تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وضو کی تفصیلا ت بیان کرتے ہوئے بصراحت کہنیوں تک ہا تھ دھونے کا حکم نازل فرما یا ہے۔ اس طرح تیمم کے حکم میں بھی بصراحت اس کا تذکرہ فرما تا تیمم کے بیان میں اللہ تعالیٰ کے کہنیوں کے تذکرہ سے سکوت فرما نے کی وجہ اس کے سوا کو ئی اور نہیں ہو سکتی کہ کہنیوں تک مسح کرنا اللہ عزوجل کو سرے سے مطلوب ہی نہ تھا اس امر کی تائید حقیقی شارح و مفسر قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح و صحیح اور ثابت شدہ احادیث سے بھی ہو تی ہے جیسا کہ آگے بیان کیا جا ئے گا ۔پس جب کلام اللہ اور صحیح احادیث نبوی میں ایسی کو ئی چیز مو جود نہیں ہے تو کسی مولوی یا عالم کو از خود کلام اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں اضافہ کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے؟
افسوس تو جناب مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی منقولہ عبارت پر ہو تا ہے کہ جس میں آنجناب نے انتہا ئی صاف اور واضح حکم قرآن کو "فقہاء کے درمیان "اختلا فی بتا کر اپنی جان چھڑانی چا ہی ہے۔ یہ درست ہے کہ فقہاءکے درمیان تیمم کے طریقہ میں اختلا ف پا یا جاتاہے۔لیکن قرآن میں کسی کو کو ئی اختلا ف نہیں ہے پس بحیثیت مفسر قرآن آں موصوف پر لا زم تھا کہ اللہ کے حکم کو فقہاء کے اختلا فات پر ترجیح دیتے اور جس چیز کو انھوں نے حق سمجھا یا پا یا تھا صرف اسے ہی بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ۔شاید اس طرح تفہیم القرآن کا حقیقی یا کم از کم لغوی تقاضا ہی پوراہو جا تا ۔یہ اقتباس دیکھنے سے تو تفہیم القرآن "تفسیر کی کتاب سے زیادہ تقابلی فقہ کی کو ئی کتاب نظر آتی ہے ،بہر حال اگر آں محترم کی نگاہ میں فقہاء کے اختلا فات کو نقل کرنا اتنا ہی نا گزیر تھا تو پھر اس پر محاکمہ بھی فر ما یا گیا ہو تا۔
محترم مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی عبارت میں ایک افسوسناک بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ فریق اول (کہ جس سے خود جناب مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کا بھی تعلق تھا )کی صف میں چند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے نام بھی گنوائے گئے ہیں جبکہ فریق ثانی کے مو قف کو کمزور ثابت کرنے کی غرض سے ان کی صف میں ایک دو تابعین رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کرنا ہی ضروری سمجھا گیا ہے اگر حق و انصاف کی نگا ہ سے دیکھا جا ئے تو جناب مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کو فریق اول کی صف میں شمار کرنا ہی خلا ف واقعہ ہے۔۔۔کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف وہ نہیں تھا جو کہ جناب مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے فریق اول کا ہے آں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قطعی را ئے فریق ثانی کے حق میں ملتی ہے۔جہاں تک امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق ہے تو اس ضمن میں حسب صراحت امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ (456ھ)ان سے دو مختلف اقوال منقول ہیں ۔پس کسی ایک صف میں ان کو شمار کرنا بعید از انصاف ہے جناب مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے اس دعویٰ کے بطلا ن پر ہم ذیل میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ (279ھ)کا یہ قول پیش کرتے ہیں ۔
وقد روي عن عمار من غير وجه وهو قول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم منهم علي وعمار وابن عباس وغير واحد من التابعين منهم الشعبي وعطاء ومكحول قالوا التيمم ضربة للوجه والكفين وبه يقول أحمد وإسحق وقال بعض أهل العلم منهم ابن عمر وجابر وإبراهيم والحسن قالوا التيمم ضربة للوجه وضربة لليدين إلى المرفقين وبه يقول سفيان الثوري ومالك وابن المبارك والشافعي (29)
یعنی" یہ قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں متعدد اہل علم صحابیوں مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اور تابعین میں سے متعدد تابعیوں مثلاً امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ ،امام عطاء رحمۃ اللہ علیہ اور امام مکحول رحمۃ اللہ علیہ کا تھا یہ لو گ کہتے تھے کہ تیمم میں چہرہ اور پہنچوں تک مسح کے لیے صرف ایک بار مٹی پر ہاتھ مارنا کا فی ہے ۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی کے قائل ہیں لیکن بعض اہل علم مثلاً ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابرا ہیم رحمۃ اللہ علیہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ایک بار چہرہ مسح کے لیے ہاتھ مارنا ہے اور دوسری بارہاتھوں کے کہنیوں تک مسح کے لیے ہا تھ مارنا ہے اور یہی بات سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی منقول ہے"
یہاں واضح رہے کہ حسب تصریح امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ (456ھ)۔۔۔جو لو گ تیمم میں صرف چہرہ اور ہتھیلیوں کا (پہنچوں تک) مسح ضروری سمجھتے ہیں ان میں حضرت عروۃ بن الزبیر رحمۃ اللہ علیہ قتادۃ رحمۃ اللہ علیہ سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ داؤد ظا ہری رحمۃ اللہ علیہ اور جمیع محدثین رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں اسی طرح چہرہ اور کہنیوں تک مسح کے لیے علیحدہ علیحدہ دو ضربوں کے قائلین میں ابن ابی لیلیٰ حسن بن حنی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ کا شمار بھی ہو تا ہے۔(30)
تیمم کا طریقہ صحیح احادیث نبوی میں :۔
1۔سعید بن عبد الرحمٰن بن ابزی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :
جاء رجل إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنه فقال : إني أجنبت فلم أصب الماء ، فقال عمار بن ياسر لعمر بن الخطاب رضي الله عنه: أما تذكر أنا كنا في سفر أنا وأنت ، فأما أنت فلم تصل ، وأما أنا فتمعكت فصليت. فذكرت للنبي صلى الله عليه وسلم ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : "إنما كان يكفيك هكذا ، فضرب النبي صلى الله عليه وسلم بكفيه الأرض ونفخ فيهما ثم مسح بهما وجهه وكفيه" (31)
یعنی " ایک شخص حضرت عمرو بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پا س آیا اور عرض کیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی ہے اور پانی نہیں ملا (تو کیا کروں؟)اس پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا : آپ کو یا د نہیں کہ جب میں اور آپ سفر پر تھے (اور دونوں جنبی ہو گئے۔)تو آپ نے نماز نہیں پڑھی تھی لیکن میں زمین میں لو ٹ پوٹ گیا اور نماز پڑھ لی۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : تجھے بس اتنا ہی کرنا کا فی تھا :اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر انہیں پھونکا اور ان سے اپنے چہرہ اور پہنچوں کا مسح فر ما یا "
2۔ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ ملتے ہیں ۔
وَعَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:{ بَعَثَنِي اَلنَّبِيُّ صلي الله عليه وسلم ) فِي حَاجَةٍ, فَأَجْنَبْتُ, فَلَمْ أَجِدِ اَلْمَاءَ, فَتَمَرَّغْتُ فِي اَلصَّعِيدِ كَمَا تَمَرَّغُ اَلدَّابَّةُ, ثُمَّ أَتَيْتُ اَلنَّبِيَّ r فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ, فَقَالَ: "إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ بِيَدَيْكَ هَكَذَا" ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدَيْهِ اَلْأَرْضَ ضَرْبَةً وَاحِدَةً, ثُمَّ مَسَحَ اَلشِّمَالَ عَلَى اَلْيَمِينِ, وَظَاهِرَ كَفَّيْهِ وَوَجْهَهُ } (32)
یعنی" حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کا م سے بھیجا میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہ ملا تو میں پاک مٹی میں اس طرح لوٹ پوٹ ہو گیا جس طرح کہ جانور لو ٹ پوٹ ہو تا ہےجب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : تجھے اپنے ہاتھ سے اس طرح کرلینا کا فی تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر ایک بار مارے اور بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ اور ہتھیلیوں کی پشت نیز چہرہ پر مسح فرما یا ۔"
واضح رہے کہ مشہور اور جلیل القدر بدری صحابی حضرت عمار بن یا سر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (37ھ)کی متفق علیہ حدیث کی تخریج امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "مسند "(33)میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "الجامع الصحیح "(34)میںامام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "الصحیح "(35)میں امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "سنن "(36)میں امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "سنن "(37)میں امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "سنن" (38)میں امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "سنن"(39) میں امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے "السنن الکبریٰ "(40) میں امام ابن حزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "صحیح " (41)میں اور امام ابو عوانہ رحمۃ اللہ علیہ (42) اور امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ (43)وغیرہ نے بھی کی ہے ۔
امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ مقدسی (م620ھ)حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی متفق علیہ حدیث نقل کرنے کے بعد اس روایت میں "ضرب بیدیہ " کے لفظ "ید"پر بحث کرتے ہو ئے فر ما تے ہیں :
"چونکہ یہ حکم مطلق دونوں ہاتھوں پر معلق ہے لہٰذا اس میں ذراع (یعنی بازو ) داخل نہیں ہیں ۔یہاں اس سے وہی عضو مراد ہے جو چوری کی سزا میں کاٹا جا تا ہے یا جس پر شرمگا ہ چھونے کا اطلا ق ہو تا ہے"(44)
3۔سنن ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ میں ہے :
عن عمار بن ياسر رضي الله عنه سألت النبي صلى الله عليه وسلم عن التيمم فأمرني ضربة واحدة للوجه والكفين (45)
یعنی "حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرما یا :میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تیمم کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چہرے اور دونوں پہنچوں تک (ہتھیلیوں کے لیے صرف ایک ضرب کا حکم فرما یا "
4۔عن عمار أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول في التيمم ضربة للوجه والكفين (46)
یعنی"حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما تے تھے کہ تیمم میں چہرہ اور ہتھیلیوں کے لیے صرف ایک ضرب ہے"
5۔عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى عن أبيه عن عمار بن ياسر أن النبي صلى الله عليه وسلم أمره بالتيمم للوجه والكفين وقال الترمذي حديث عمار رضي الله عنه حديث حسن صحيح (47)
یعنی" سعید بن عبد الرحمٰن ابزی رحمۃ اللہ علیہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تیمم میں صرف چہر اور دونوں پہنچوں (تک مسح کا ) حکم فرما یا :امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے"
امام اسحٰق بن ابرا ہیم رحمۃ اللہ علیہ بھی فرما تے ہیں کہ: حديثُ عَمّارٍ فِي التّيَمّمِ لِلْوَجْهِ وَالْكَفّيْنِ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ (48)
یعنی چہرہ اور پہنچوں (تک مسح) کی تیمم کے بارے میں حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث صحیح ہے۔
6۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (م652ھ)فرما تے ہیں :
وفي لفظ : ( إنما كان يكفيك أن تضرب بكفيك في التراب ، ثم تنفخ فيهما ، ثم تمسح بهما وجهك وكفيك إلى الرصغين ) (49)
یعنی" ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ تمھیں پاک مٹی پر دونوں ہاتھ مار کر ان میں پھونک مار کر انہیں منہ اور ہاتھوں مع پہنچوں کے پھیر دینا ہی کا فی تھا"سید المحدثین امام ابو عبد اللہ محمد بن اسمٰعیل البخاری رحمۃ اللہ علیہ (م256ھ)نے اپنی "الجامع الصحیح " اس بارے میں قوی دلا ئل کے سبب بصیغہ جزم دو ابواب یوں قائم فرمائے ہیں :
1۔باب التيمم للوجه والكفين (50)
یعنی "تیمم چہرہ اور پہنچوں (ہتھیلیوں تک) کے لیے ہو نے کا باب "
2۔باب التيمم ضربة (51)
یعنی" تیمم کے لیے صرف ایک ضرب ہو نے کا باب "
اس بارے میں اور بھی متعدد صحیح روایا ت کتب حدیث میں وارد ہیں لیکن ہم بخوف طوالت صرف انہی چند احادیث کو پیش کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں ۔
تیمم کے طریقہ میں اختلا ف اور ان کے اسباب کا جا ئزہ:۔
یہاں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ جب دوبار مٹی پر ہاتھ مارنا اور کہنیوں تک مسح کرنے کا حکم نہ قرآن کریم میں ہے اور نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو آخر اس بارے میں یہ اختلا ف کیوں کر پیدا ہوا ؟تو اس کا جواب یہ ہے ۔کہ اس اختلا ف کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں
1۔لفظ "ید" کی تحدید میں لغوی موشگافیاں کرنا۔
2۔صحیح سنت نبوی کی عدم معرفت اور بعض ضعیف احادیث پر تکیہ کرنا
3۔صحیح سنت نبوی کی مو جو دگی میں بعض آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو دلیل بنا لینا 4۔تیمم کو وضو پر قیاس کرنا۔
ذیل میں اختلا ف کے ان تمام اسباب کا مفصل جا ئزہ پیش خدمت ہے۔
(الف ) لغوی موشگافیاں :۔
علامہ محمد بن احمد المعروف بابن رشد القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (م595ھ)فرما تے ہیں :
"اللہ تعا لیٰ نے تیمم میں جن ہاتھوں کے مسح کا حکم فرما یا ہے ان کی حد کی تتبین میں فقہاء کا اختلا ف ہے اس بارے میں چار اقوال پا ئے جا تے ہیں :
1۔اس بارے میں حد واجب بعینہ وہی ہے جو کہ وضو میں ہے یعنی کہنیوں تک۔۔۔یہ مذہب مشہور ہے اور فقہاء امصار کا یہی قول ہے۔
2۔صرف ہتھیلی (پہنچوں ) تک مسح فرض ہے ۔یہ قول اہل ظاہر اور محدثین کا ہے۔
3۔کہنیوں تک مسح مستحب ہے اور ہتھیلیوں کا فرض ۔۔۔یہ امام مالک کا قول ہے۔
4۔کندھوں (52)تک مسح فرض ہے۔۔۔یہ مذہب شاذہے اور امام زھری رحمۃ اللہ علیہ و محمد بن مسلمہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے۔
اس اختلا ف کا سبب عربی زبان میں اسم "ید" کا مشترک ہو نا ہے۔ اہل عرب کے کلام میں "ید"(یعنی ہاتھ)تین معانی پر بولا جا تا ہے۔
1۔فقط کف (ہتھیلی )کے لیے ۔۔۔اس کا یہ استعمال ظاہر و مشہور ہے۔
2۔کف و ذراع (یعنی ہتھیلی اور بازو ) کے لیے۔
3۔کف،ساعد اور عضد (یعنی پنجہ سے شانہ تک) کے لیے "(53)
لیکن حق یہ ہے کہ قرآن میں اسم "ید"سے اللہ تعا لیٰ کی مراد بازو کا صرف وہ حصہ ہے جو کہ چوری کی سزا کے طور پر کا ٹا جاتا ہے(یعنی پنجہ ) چنانچہ قرآن کریم ہی کے ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہو تا ہے ۔
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا (54)اگر اسم "ید" سے مراد کہنیوں تک ہاتھ لیا جا ئے تو چوری کی سزا پر بھی کہنیوں تک ہاتھ کا ٹنا لا زم ہو گا ۔حالانکہ کو ئی بھی شخص سرقہ کی سزا پر کہنیوں تک ہاتھ کاٹنا درست نہیں سمجھتا ۔اگر بفرض محال "ید " سے کہنیوں تک ہاتھ مراد لیا جا ئے تو پھر آیت وضو میں (إِلَى الْمَرَافِقِ) کا وارد ہو نا بے معنی قرار پا تا ہے ۔(نعوذ بالله من ذلك)پس معلوم ہوا کہ اسم "ید " خواہ عربی میں مشترک ہو یا اہل عرب کے کلام میں مختلف معانی پر بو لا جاتا ہو لیکن قرآن کی زبان میں اس سے مراد بازو کا صرف وہ حصہ ہے جو انگلی ،ہتھیلی اور پہنچوں پر مشتمل ہو تا ہے اردو زبان میں اسے پنجہ بھی کہا جا سکتا ہے۔
حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ مشہور صحابی رسول اور مفسر قرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب تیمم کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فر ما یا:
( إن الله قال في كتابه حين ذكر الوضوء في سورة المائدة / 6 : ((فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ)) وقال في التيمم في سورة النساء / 43 : ((فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ)) وقال في سورة المائدة / 38 : )وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا( وكانت السنة في القطع : الكفين، وإنما هو الوجه والكفين ([4]) يعني التيمم . (55)
یعنی" بیشک اللہ تعا لیٰ نے قرآن کریم میں وضو کا ذکر کرتے ہو ئے فرما یا ہے" پس دھولو اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک" لیکن تیمم کے بارے میں فرما یا :" پس مسح کرو اپنے چہروں اور ہاتھوں پر اس سے" مزید ایک مقام پر فرما یا :اور چور مرد اورچور عورت کے ہا تھ کا ٹ دو پس جس طرح (چوری میں) ہتھیلیوں (یعنی پہنچوں ) تک ہاتھ کا ٹنا سنت ہے اسی طرح تیمم میں بھی چہرے اور پہنچوں تک مسح کرنا سنت ہے"
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ" یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے"(56)
امام ابو بکر ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ (م542ھ)حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس اثر کے تحت فر ما تے ہیں ۔
هذا ما لفظه: هذه إشارة حبر الأمة وترجمان القرآن وكان كلام المتقدمين من قبل إشارة وبسطه: أن الله حدد الوضوء إلى المرفقين فوقفنا عند تحديده وأطلق القول في اليدين فحملت على ظاهر مطلق اسم اليد وهو الكفان كما فعلنا في السرقة، فهذا أخذ للظاهر لا قياس للعبادة على العقوبة انتهى (57)
امام ابی محمد اللہ بن احمد بن محمد قدامہ رحمۃ اللہ علیہ المقدسی (م620ھ)فرما تے ہیں۔
"ہاتھوں پر مسح اس مقام تک کرنا واجب ہے جہاں سے کہ چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے جب تیمم کے متعلق سوال کیا گیا تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے صرف پہنچوں تک بتایا اور اس سے آگے تجاوز نہ کیا اور فرما یا کہ اللہ تعا لیٰ فرماتاہے ۔
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا (38:5)اور پوچھا کہ چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹا جا تا ہے؟کیا یہاں سے نہیں کاٹا جا تا ؟اور پہنچوں تک اشارہ فرما یا ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔۔۔ابن عقیل رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ہاتھ کا ٹنے کی جگہ تک ہی مسح کیا جا ئے ۔اور بیان کیا ونص عليه أحمد لأن الرسغين في التيمم كالمرفقين في الوضوء یعنی تیمم میں پہنچوں کا حکم وہی ہے جو کہ کہنیوں کا وضو ء میں ہے"(58)
اور علامہ ابی اللطیب السندی "شرح الترمذی رحمۃ اللہ علیہ " میں فر ما تے ہیں۔
أي الطريقة في الدين قطع الكفين للسرقة يعني بسبب إطلاق اليد في آية السرقة فكذا التيمم يكفي فيه مسح الوجه والكفين لإطلاق اليد في التيمم، ومطلق اليد الكفان بدليل آية السرقة انتهى. (59)
جہاں تک لغوی مو شگافیوں کا تعلق ہے تو اس بارے میں خود علامہ ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ (م595ھ)فرما تے ہیں :
"پس اگر اسم " ید" مشترک بھی ہوتو حقیقتاًیہ "کف"ہی ہے اور جو کچھ اس سے اوپر ہے وہ مجا زا "ید"کہلا تا ہے"(60)
اسی طرح ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
"ہم نہیں جا نتے کہ لغت میں "کفین " کو "ذراعین "سے عبارت بتا یا جا تا ہو "(61)پس معلوم ہوا کہ یہ تمام لغوی موشگافیاں ناقابل التفات ہیں ۔۔۔واللہ اعلم بالصواب۔
(ب)احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :۔
اس بارے میں عموماً جن احادیث سے استدلال کیا جا تا ہے ان کا سند و متن کے اعتبار سے یہ مقام نہیں کہ انہیں قابل حجت سمجھا جا ئے ۔محدثین نے ان پر تنقید کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ ان سے گریز ہی بہتر ہے۔اختصار کے پیش نظر یہاں صرف ان احادیث کے بارے میں مجتہد آئمہ محدثین کی آراء ذکر کی جا تی ہیں ۔[1]امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ مقدسی (م620ھ) فر ما تے ہیں ۔
"(دو ضربوں اور کہنیوں تک مسح کی )سب حدیثیں ضعیف ہیں خلال کا قول ہے کہ اس بارے میں تمام احادیث انتہائی ضعیف ہیں ان میں سے ابن عمر کی حدیث کے سواکسی بھی حدیث کو اصحاب السنن میں سے کسی بھی امام نے روایت نہیں کیا ہے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث صحیح نہیں ہے ۔(62)
ان روایات کے متعلق آئمہ فن کی آراء:۔
امام ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (م852ھ)فرما تے ہیں :
"تیمم کی صفت کے بارے میں جو احادیث وارد ہیں ان میں سوائے ابن تیمم اور عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کے کو ئی دوسری حدیث صحیح نہیں ہے جو احادیث بھی ان دونوں حضرات کی حدثیوں کے خلا ف وارد ہیں یا تو وہ ضعیف ہیں ان کے مرفوع و موقوف ہونے میں اختلا ف ہے بلکہ ان کا عدم رفع ہی راجح ہے۔ابن جہیم کی حدیث میں مجملا "یدین"کا ذکر ہے اور عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث جو صحیحین میں ہے،میں "الکفین "تذکرۃ ہے اور جو روایات سنن میں ہیں ان میں "المرفقین "ذکر ہے،ایک روایت میں "نصف ذراع "(یعنی آدھا بازو )اور ایک میں "الی"الاباط"بھی مذکور ہے۔لیکن المرفقین اور نصف ذراع والی روایات میں ضعف ہے اور "الی الاباط"والی روایت کا حکم بقول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ بعد میں منسوخ ہو گیا تھا صرف چہرہ اور پہنچوں تک مسح پر اقتصارکرنے والی صحیحین کی روایت کو جو چیز مزید تقویت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسی بات کا فتویٰ (63)دبا کرتے تھے اور راوی حدیث اپنی حدیث کا مطلب دوسروں سے بہتر طور پر سمجھتا ہے۔بالخصوص جب کہ وہ صحابی مجتہد بھی ہو "(64)
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ (م1250ھ)فرما تے ہیں :
احاديث ضربتين لا تخلو جميع طرقها من مقال، ولو صحت لكان الأخذ بها متعيِّنًا؛ لما فيها من الزيادة، فالحق الوقوف ما ثبت في الصحيحين من حديث عمار من الاقتصار على ضربة واحدة حتى تصح الزيادة على ذلك المقدار (65)
علامہ ابو الحسنات عبد الحئی لکھنؤی حنفی (م1304ھ) فر ما تے ہیں ۔
روايات المرفقين والمنكبين مرجوحة ضعيفة بالنسبة إلى غيرها فسقط الاعتبار بها، وروايات الآباط قصتها مقدمة على قصة روايات الكفين فلا تعارضها فبقيت روايات الكفين سالمة عن القدح والمعارضة . (66)
علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ (م1353ھ) اس باب میں وار متعد ضعیف روایات پر نقد و بحث کرتے ہو ئے فر ما تے ہیں :
وفي الباب أحاديث أخرى غير هذه الأحاديث المذكورة وكلها ضعيفة. (67)
آں رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر فر ما تے ہیں :
أحاديث الضربتين والمرفقين ضعيفة أو مختلفة في الرفع والوقف والراجح هو الوقف، ولم يصح من أحاديث الباب سوى حديثين أحدهما حديث أبي جهيم بذكر اليدين مجملاً وثانيهما: ... حديث عمار بذكر ضربة واحدة للوجه والكفين وهما حديثان صحيحان متفق عليهما (68)
لیکن افسوس کہ شاہ عبد الحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م1052ھ) نے "اللمعات" میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ دہلوی نے "المسویٰ شرح الموطا" میں بعض ایسے عقلی دلا ئل پیش کئے ہیں جو نہ یہ کہ اصول فن سے بالکل ہٹ کر ہیں بلکہ انتہا ئی مضحکہ خیز بھی ہیں شارح ترمذی علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے ان پیش کردہ تمام دلائل پر خوب عالمانہ اور لا ئق مراجعت (69)گرفت فرما ئی ہے۔فجزا ہ اللہ احسن الجزاء ۔
پس معلوم ہوا کہ اس بارے میں وارد روایات باتفاق محدثین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں ۔لہٰذاان سے حجت پکڑنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
(ج)آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین :۔
بعض لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقوال باافعال سے بھی استدلال کرتے ہیں کیونکہ مشہورہے کہ حضرت عمر کی را ئے یہ تھی کہ "تیمم میں دومرتبہ ہاتھ مارا جا تا ہےایک مرتبہ چہرے کے لیے اور دوسری مرتبہ ہاتھوں اور کہنیوں کے لیے"(70)۔۔۔لیکن یہ ااستدلال بھی درست نہیں ہے کیونکہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول بھی ثابت ہے کہ "
"جنبی تیمم نہ کرے خواہ وہ مہینہ بھر پانی نہ پا ئے"(71)بلکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ "جنبی کو اگرمہینہ بھر پانی نہ ملے تو وہ نماز ہی نہ پڑھے "چنا نچہ آں رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے :
فإذا لم أجد الماء لم أكن لأصلي
(72)یعنی" اگر مجھے ایک ماہ تک پانی نہ ملے تو نماز نہ پڑھوں گا " بعض دوسری روایات میں آپ کے یہ الفاظ بھی ملتے ہیں ۔ لا يصلي حتى يجد الماء (73)اور "لايقيم وان كان لم يجد شهرااور"لو اجنبت ولم اجد الماء شهر اما صليت(74)پس اگر ان حضرات کا وہ قول قبول کیا جا تا ہےتو انہی حضرات کا یہ قول قبول کرنے میں کیا امر مانع ہے؟
پھر اس مسئلہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس مجتہدانہ شاذ رائے کی مخالفت بھی محض دوسرے ذی علم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مثلاًً:حضرت علیبن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابن مسعود ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمار بن یا سر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرھا نے کی ہے چنانچہ بطریق : عن عطاء بن السّائب، عن أبي البختريّ، قال: دخل عليّ بن أبي طالبٍ روایت ہے کہ "تیمم میں ایک ضرب چہر ہ کے لیے اور دوسری ضرب پہنچوں تک ہاتھوں کے لیے ہے۔(75)اسی طرح بطریق احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ مسكين بن بكير ثنا الاوزاعي عن عطاء روایت ہے کہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں فرما یا کرتے تھے کہ "تیمم ہتھیلیوں اور چہرے کے لیے ہے۔(76)امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ (456ھ)بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تیمم کے متعلق را ئے یہ تھی کہ اس کے لیے دو دفعہ ہاتھ مارنا ضروری ہے۔ایک دفعہ ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں پر پہنچوں تک ہتھیلیوں کو مل لیا جا ئے کہنیوں تک مسح کی ضرورت نہیں ہے پھر دوسری دفعہ ہاتھ مار کر ہتھیلیوں کو چہرے پر پھیر لیا جا ئے "(77)۔۔۔اور بطریق محمد بن ابی عدی عن شعبہ عن حصین بن عبد الرحمٰن عن ابی مالک روایت ہے کہ "انھوں نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطبہ میں ارشاد فرما تے ہو ئے سنا کہ تیمم اس طرح ہوتا ہے اور چہرہ اور ہاتھوں کے لیے صرف ایک ہی ضرب لگا ئی"(78)
امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ (456ھ)فرماتے ہیں کہ: "حضرت عمار بن یا سر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی مو جو د گی میں خطبہ میں ارشاد فرما یا اور مو جو د صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی"(79)
اس سلسلہ میں صاحب السعایۃ ،علامہ ابو الحسنات عبدالحئی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (1304ھ)نے نہا یت منصفانہ بات فر ما ئی ہے ۔فر ما تے ہیں کہ:
"آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی طرف رجوع کرنا تو اس وقت مفید ہو سکتا تھا جن کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے درمیان اس معاملہ میں اتفاق را ئے پا یا جا تا ہو جو کہ یہاں نہیں ہے۔الخ "(80)
خلا صہ یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اقوال وافعال سے استدلال بھی ساقط قرار پایا
(د)قیاس :۔
بعض لو گ یہ عقلی دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ تیمم چونکہ وضو کا بدل ہے لہٰذا جب وضو میں چہرہ اور ہاتھوں کے لیے الگ الگ پا نی لیا جا تا ہے تو تیمم میں بھی ضربیں اسی طرح واجب ہو ئیں ۔علامہ ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ (م595ھ)فر ما تے ہیں ۔
"تیمم میں کتنی بار پاک مٹی پر ہاتھ مارا جا ئے اس بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ ایک بار اور بعض دو بار ہا تھ مارنا بتا تے ہیں ۔جو دوبار ہا تھ مارنے کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک مار منہ پر مسح کے لیے اور دوسری بار ہاتھوں پر مسح کے لیے ۔یہ جمہور یعنی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے"(81)
اسی طرح یہ لو گ کہتے ہیں کہ چونکہ وضو میں کہنیوں تک ہاتھ دھونا فرض ہے لہٰذا تیمم میں بھی کہنیوں تک مسح ہو نا چا ہیے اس بارے میں علا مہ ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ (595ھ)فر ما تے ہیں ۔
"جمہور فقہاء یعنی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ،امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تیمم کو وضو پر قیاس کرتے ہو ئے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ثابت حدیث پر دوسری احادیث کو ترجیح دیتے ہیں ۔اور اسم"ید" کا اطلا ق کف اور ساعد دونوں پر یکساں کرتے ہیں ۔الخ"(82)
لیکن یہ عقلی استدلال بھی درست نہیں ہے کیونکہ جو لو گ یہ تمام دلیلیں پیش کرتے ہیں خود ان کے پا س اس بات کی کیا دلیل ہے کہ بدل لا زماً بدل منہ کی صفت کے مطا بق ہی ہو ؟اگر بفرض محال ان کے قول کو درستمان بھی لیا جا ئے تو یہ سوال پیدا ہو گا کہ وضوءمیں تو سر کا مسح اور پا ؤں کا دھو نا بھی فرض ہے پھر تیمم میں ان چیزوں کو کیوں ساقط کیا گیا ؟ اسی طرح غسل جنابت کے لیے تمام جسم کو دھونا فرض ہےلیکن تیمم میں جسم کے دوسرے تمام اعضاء کو کیوں ساقطکر دیا گیا ؟ لا محالہ یہی جواب دنیا ہو گا کہ بدل کا بد منہ کی صفات کے عین مطا بق ہو نا ضروری نہیں ہے۔پس یہ عقلی استدلال خود بخود ناقابل اعتبار قرار پا یا ۔
یہاں یہ امر بھی قابل غورہے کہ اللہ عزوجل نے جس طرح تیمم کے بیان میں سر اور پیروں سے سکوت فر ما یا ہے اسی طرح کہنیوں سے بھی سکوت فر ما یا ہے پس جب سراور پیروں کے متعلق اللہ تعا لیٰ کے سکوت کو تیمم میں ان اعضاء کے ساقط ماننے کی دلیل سمجھا جا تا ہے تو آخر کیوں کہنیوں کے متعلق بھی اللہ عزوجل کے سکوت کو ان کے سقوط کی دلیل نہیں مانا جا تا ہے؟
امام ابن حجرعسقلانی (م856ھ)اس طرح ے قیاسی استدلال پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
"جو کہنیوں تک مسح کو تیمم میں اس لیے شرط سمجھتے ہیں کہ وضو میں کہنیوں تک ہاتھ دھونا شرط ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نص صریح کے مقابلہ میں قیاس محض ہے پس فاسد الاعتبار ہے پھر یہ قیاس خود ایک دوسرے قیاس کے خلا ف بھی ہے یعنی آیت سرقہ کے اطلا ق پر قیاس کرتے ہو ئے کہنیوں تک مسح شرط سمجھنا (پس جب وہ دو قیاس باہم متعارض ہوں تو ان میں سے کسی قیاس کو درست سمجھا جا سکتا ہے؟)اور حق تو یہ کہ جب نص مو جو د ہے تو ان قیاس آرائیوں کی سرے سے کو ئی ضرورت ہی نہیں ہے"(83)
پس اس بارے میں پیش کئے جا نے والے دلا ئل عقلاً و نقلاً ناقابل بحث قرار پا ئے۔
"تیمم میں ایک ضرب اور پہنچوں تک مسح "۔آئمہ امت و مشاہیر کی نظر میں ۔
اس ضمن میں تمام ائمہ امت اور مشاہیر علمائے اسلام کے اقوال کا یہاں نقل کرنا تو ممکن نہیں،لیکن پھر بھی تسکین الصدور کی خاطر ان میں سے بعض مشاہیر کے اقوال ذیل میں پیش خدمت ہیں:
امام ابو سلیمان الخطابی رحمۃ اللہ علیہ (م388ھ) فرماتے ہیں:
" ذهب جماعة من أهل العلم إلى أن التيمم ضربة واحدة للوجه والكفين، وهو قول عطاء بن أبي رباح ومكحول، وبه قال الأوزاعي وأحمد بن حنبل وإسحاق وعامة اصحاب الحديث وهذا المذهب اصح في الرواية "(84)
یعنی"اہل علم حضرات کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ تیمم میں چہرے اور ہتھیلیوں کےلیے فقط ایک بار ہاتھ مارنا ہے۔یہ قول عطاء رحمۃ اللہ علیہ ابن ابی رباح،مکحول رحمۃ اللہ علیہ ،اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ،امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ،اور عام محدثین کا ہے اور روایۃ یہی مذہب زیادہ صحیح ہے۔"
امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ مقدسی(م620ھ)"التيمم ضربة واحدة" کے زیر عنوان لکھتے ہیں:
" امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ ہے کہ تیمم میں صرف ایک بار ہاتھ مارنا ہے،پس اگر دو بار ہاتھ مار کر تیمم کیا جائے تو بھی جائز ہے،قاضی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک ضرب سےحصول اجزاء ہوجاتا ہے لیکن کمال دوضربوں سے حاصل ہوتا ہے لیکن منصوص وہی چیز ہے جس کا ہم ذکر کرچکے ہیں۔امام اثرم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ سےپوچھا کہ کیا تیمم میں صر ف ایک ہی ضرب ہے؟تو انھوں نے جواب دیا:ہاں،ایک ہی ضرب ہے چہرے اور پہنچوں کے لئے۔۔۔الخ"(85)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (م652)"منتقی الاخبار"میں"باب صفۃ التیمم"(86) میں صرف ایک ہی ضرب اور پہنچوں تک ہاتھوں کے مسح کی احادیث کو نقل کرکے گویا اس موقف کی تائید فرمائی ہے۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ (م752ھ) فرماتے ہیں:
"( كان صلى الله عليه وسلم يتيمم بضربة واحدة للوجه والكفين) ولم يصح عنه أنه تيمم بضربتين ولا إلى المرفقين "(87)
یعنی"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چہرے اور ہتھیلیوں کے لئے فقط ایک ضرب سے تیمم فرماتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیمم میں دو بار ہاتھ مارنا یا کہنیوں تک مسح کرنا ثابت نہیں ہے"
امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ عسقلانی(م852ھ) صحیح البخاری کے"باب التیمم ضربۃ" کے تحت حدیث سے فائدہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"وفيه الاكتفاء بضربة واحدة في التيمم ، ونقله ابن المنذر عن جمهور العلماء واختاره "(88)
یعنی"اس حدیث میں صرف ایک ضرب کا تیمم میں کافی ہونابیان ہوا ہے۔ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ نے جمہور علماء سے اس کا اختیار کرنا نقل کیا ہے"
آں رحمۃ اللہ علیہ ہی تیمم کے بارے میں واردایک حدیث کے ٹکڑے"بكفيك الوجه والكفان"سے فائدہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اس لفظ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ہتھیلیوں سے جو کچھ زائد ہے اس کا مسح کرنا فرض نہیں ہے۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ،امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن خذیمہ رحمۃ اللہ علیہ اسی طرف گئے ہیں۔ابن الجھم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے اور امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ نے اصحاب الحدیث(محدثین) سے بھی ایسا ہی نقل کیا ہے۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ "شرح المھذب" میں فرماتے ہیں کہ امام ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے قدیم مسلک کے مطابق روایت کی ہے لیکن ماوردی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا انکار کیا ہے۔پھر فرماتے ہیں :لیکن یہ انکار مردود ہے کیونکہ ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ امام ثقہ ہیں۔مزید فرماتے ہیں:اگر یہ قول مرجوح ہو تو بھی دلیل میں قوی ہے"(89)
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ (م1250ھ) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کے تحت رقمطراز ہیں:
"والحديث يدل على أن التيمم ضربة واحدة للوجه والكفين ، وقد ذهب إلى ذلك عطاء ومكحول والأوزاعي وأحمد بن حنبل وإسحاق والصادق والإمامية ، قال في الفتح : ونقله ابن المنذر عن عن جمهور العلماء واختاره وهو قول عامة أهل الحديث ."(90)
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تیمم میں چہرے اور پہنچوں کے لیے صرف ایک ضرب ہے۔عطاء رحمۃ اللہ علیہ ،مکحول رحمۃ اللہ علیہ ،اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ،احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ،اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ،جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ حتیٰ کی شیعوں کے امامیہ فرقے سے تعلق رکھنے والے علماء بھی اسی طرف گئے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے "فتح الباری" میں ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ سےجمہور علماء کا اسے اختیار کرنا نقل کیا ہے اور یہی قول عام محدثین کا بھی ہے"
اور مشہور عرب عالم شیخ عبدالعزیز لمحمد السلمان(مدرس مھد امام الدعوۃ بالریاض) فرماتے ہیں:
"سوال نمبر92: ماصفة التيمم:ج: صفته: أن ينوي ثم يسمي ويضرب الصعيد بيديه، ثم يمسح بها وجهه وكفيه، لما ورد عن عمار بن ياسر عن النبي قال في تيمم ضربة للوجه والذين رواه احمد وابوود وفي لفظ"ان النبي صلي الله عليه وسلم امره بالتيمم للوجه والكفين"رواه ترمذي وصححه"(91)
حاصل کلام:۔
تیمم خواہ کسی بھی مقصد کے لیے ہو(یعنی وضو یا جنابت یا حیض یانفاس یا کسی اور فرض غسل کے لئے) ہر طرح کے تیمم کا طریقہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اول تیمم کی نیت کی جائے پھر اپنی دونوں ہتھیلیوں کو پاک مٹی پر مارا جائے اگر ان مٹی یا غبار زیادہ لگ گیا ہو تو ان پر پھونک ماردی جائے پھر ان ہتھیلیوں سے چہرہ اور ہتھیلیوں کے باہری حصہ(یا ہتھیلیوں کی پشت) پر پہنچوں تک ایک بار مسح کرلیا جائے،انگلیوں کے خلال کرنے یا پہنے ہوئے چھلے کو اتارنے یا اسے ہلانے یا یہ سمجھنے کہ مسح کرنے میں چہرے یا ہاتھ میں اگر بال یا ناخن برابر بھی اگر جگہ چھوٹ جائے گی تو تیمم درست نہ ہوگا یا اور دوسرے تمام افعال تیمم،کہ جن کی ترتیب وکیفیت تقسیم شدہ ہینڈ بل میں مذکور ہے ،کا قرآن وسنت میں قطعاً کوئی وجود نہیں ہے،نہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا،نہ ہی صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کسی کو ان امور کی تعلیم دی اور نہ ہی ان چیزوں کو پسندفرمایا۔یہاں پر یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انگشتری پہنا کر تے تھے لیکن تیمم کے بارے میں جتنی بھی احادیث ملتی ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ ذکر موجود نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ختم مبارک کواتارا یا ہلایا ہو،جبکہ بیت الخلاء جاتے ہوئے اس کا اتارنا صحیح طور پر ثابت ہے۔اسی طرح انگلیوں میں خلال کرنا بھی کسی صحیح حدیث میں مروی نہیں ہے ۔امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ (م752ھ) تیمم کی مزعومہ ترکیب پر تعصب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأما ما ذكر في صفة التيمم من وضع بطون أصابع يده اليسرى على ظهور اليمنى ، ثم إمرارها إلى المرفق ، ثم إدارة بطن كفه على بطن الذراع وإقامة إبهامه اليسرى كالمؤذن إلى أن يصل إلى إبهامه اليمنى فيطبقها عليها ، فهذا مما يعلم قطعا أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يفعله ، ولا علمه أحدا من أصحابه ، ولا أمر به ، ولا استحسنه ، وهذا هديه ، إليه التحاكم(92)
اسی طرح امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ (م620ھ) اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ (م752ھ) وغیرھما امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے ناقل ہیں:" من قال: إن التيمم إلى المرفقين فإنما هو شيء زاده من عنده"(93) یعنی"جو کہتا ہے کہ تیمم کہنیوں تک ہے تویہ وہ چیز ہے جسے اس نے از خود دین میں بڑھا لیا ہے"۔۔۔بلاشبہ ان افعال کا از خود اضافہ کرنا تشریع(شریعت سازی) کے حکم میں آتا ہے جو کہ دین میں ایک بڑی جسارت ہے، پس یہ چیزیں جس دینی کتاب میں بھی درج ہوں،اس لائق ہیں کہ انہیں جرات کے ساتھ ان کتب کے صفحات سے کھرچ پھینکا جائے۔اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو قرآن وسنت کے احکام کو سمجھنے اور ان کی کامل اتباع کی توفیق بخشے اور ابتداع کی راہوں پر چلنے سے محفوظ ومامون رکھے،آمین۔
وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام علي رسوله الكريم وعلي أله وصحبه ومن تبعهم باحسان الي يوم الدين
حواشی:۔
1۔نماز وادعیہ مرتبہ ایم ایس چوہدری قادری ص89/طبع فیصل آباد 1982ء۔
2۔النساء 43۔
3۔ترجمہ ازتفہیم القرآن للمودودی رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص355۔
4۔المائدۃ:6۔
5۔ترجمہ از تفہیم القرآن:ج1 ص448۔449۔
6۔القرآن الحکیم مع ترجمہ شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ ص138۔
7۔نفس مصدر ص176۔
8۔القرآن الحکیم مع ترجمہ محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ صاحب،ص ،146۔147۔
9۔نفس مصدر ص187۔189۔
10۔القرآن الحکیم مع ترجمہ عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ ص193۔
11۔نفس مصدر:ص240۔
12۔قرآن مع ترجمہ وتفسیر اختصار شدہ بیان القرآن:ص76۔
13۔نفس مصدر:ص97۔
14۔معارف القرآن :ج2 ص421۔
15۔نفس مصدر:ج3 ص73۔
16۔احسن التفاسیر:ج1 ص324۔
17۔نفس مصدر :ج2 ص32۔33۔
18.Explanatory English translation of “ Holy Quran :p.107,Chapter ,V,
19.Ibid.p.48 Chapter.iv.verse :43.Verse:6 Turkey
20۔القرآن الحکیم مع ترجمہ احمد رضاخاں:ص136۔
21۔نفس مصدر:ص 173۔
22۔القرآن الحکیم مع ترجمہ شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ :ص138۔
23۔القرآن الحکیم مع تفسیر شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ :ص148۔
24۔القرآن الحکیم مع تفسیر عبدالماجد دریا بادی رحمۃ اللہ علیہ :ص193۔
25۔معارف القرآن:ج2 ص422۔
26۔نفس مصدر:ج3 ص74۔
27۔القران الحکیم مع تفسیر مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ :ص136۔
28۔تفہیم القرآن للمودی رحمۃ اللہ علیہ :ج1ص356۔
29۔جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی:ج1 ص133۔
30۔المحلی لابن حزم مترجم غلام احمد حریری رحمۃ اللہ علیہ :ج2 ص46۔
31۔صحیح البخاری مع فتح الباری:ج1 ص443۔
32۔نفس مصدر وصحیح مسلم ۔
33۔ج4 ص265،320۔
34۔مع فتح الباری:ج1 ص456۔
35۔بشرح النووی:ج4
36۔مع عون:ج1ص 127۔
37۔ج1ص169۔170۔
38۔ص569۔
39۔ج1ص183،30،31،
40۔ج1 ص209۔
41۔266،268۔
42۔ج1 ص306۔
43۔المحلی:ج2 ص155۔
44۔المغنی لابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص245۔
45۔سنن ابی داود رحمۃ اللہ علیہ مع عون المعبود:ج1 ص128۔
46۔مسند احمد،ج4 ص263،المنتقی لابن جارود:ص67۔
47۔جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی:ج1 ص133۔
48۔نفس مصدر:ج1 ص136۔
49۔منتقی الاخبار لابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (مترجم):ج1 ص217،بحوالہ دارقطنی۔
50۔صحیح البخاری مع فتح الباری:ج1ص 444۔
51۔نفس مصدر:ج1 ص455۔
52۔ہم بخوف طوالت یہاں ان چیزوں پر بحث سے صرف نظر کرتے ہیں۔
53۔ہدایۃ المجتہد ونہایۃ المتقصد لابن رشد رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص68،69۔
54۔المائدۃ:38۔
55۔جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی:ج1 ص136۔
56۔نفس مصدر:ج1 ص136۔
57۔تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری:ج1 ص136،بحوالہ عارضۃ الاحوذی۔
58۔المغنی لابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص245 ،255،ملخصا۔
59۔تحفۃ الاحوذی:ج1 ص136،بحوالہ شرح الترمذی لابی لطیب المسندی۔
60۔ہدایۃ المجتہد لابن رشد:ج1 ص69۔
61۔المغنی لابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص246۔
62۔المغنی لابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص245۔
63۔جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے روایت کیا ہے:( والدليل عَلَى ذَلِكَ: مَا أَفْتَى بِهِ عَمّارٌ بَعْدَ النّبيّ صلى الله عليه وسلم فِي التّيَمّمِ أَنّه قَالَ: "الْوَجْهِ وَالْكَفّيْنِ ففي هذا دلالة على أنه انتهى إلى ما علمه النبي صلى الله عليه وسلم،")(جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی:ج1 ص136)
64۔فتح الباری لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص 444۔445۔
65۔کما فی تحفۃ الاحوذی:ج1 ص134۔
66۔نفس مصدر:ج1 ص135۔
67۔نفس مصدر ج1 ص134۔
68۔نفس مصدر ج1 ص135۔
69۔نفس مصدر:ج1 ص134۔135۔
70۔المحلی لابن حزم رحمۃ اللہ علیہ :ج2 ص148۔
71۔طرح التثریب:ج2 ص103،المحلی لابن حزم رحمۃ اللہ علیہ :ج2 ص144،ج7 ص491،نیل الاوطار لشوکانی رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص279،المغنی لابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ :ج15 7،المجموع:ج2 ص226۔مصنف ابن ابی شیبہ:ج1 ص25۔
72۔فتح الباری لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص455۔
73۔صحیح البخاری مع فتح الباری رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص455۔
74۔مصنف ابن ابی شیبہ:ج1 ص25،مصنف عبدالرزاق:ج1 ص242۔المحلی لابن حزم رحمۃ اللہ علیہ :ج2 ص144،مجمع الزوائد للشیمی :ج1 ص260،بحوالہ معجم الکبیر الطبرانی۔
75۔المحلی لابن حزم مترجم:ج2ص50۔
76۔نفس مصدر:ج2 ص50۔
77۔نفس مصدر(غیر مترجم) :ج1 ص156۔
78۔نفس مصدر(مترجم) :ج2 ص50۔
79۔نفس مصدر:ج2 ص50۔
80۔کمافی تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری :ج1 ص135۔
81۔ ہدایۃ المجتہد لابن ر شد رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص70۔
82۔نفس مصدر:ج1 ص69۔
83۔فتح الباری لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص446۔
84۔عون المعبود:ج1 ص128،بحوالہ المعالم السنن۔
85۔المغنی لابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص244۔
86۔منتقی الاخبار لابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ مترجم:ج1 ص217۔
87۔ زاد المعاد فی حدی خیر العباد لابن قیم رحمۃ اللہ علیہ :ج1ص103۔
88۔فتح الباری لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص456،45 7۔
89۔نفس مصدر:ج1ص445۔
90۔نیل الاوطار لشوکانی رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص33۔334۔
91۔ الأَسْئِلَة وَالأَجْوبَة الفِقْهيَّة المَقْرُونَة بِالأَدِلَة الشَّرْعِيَّة تَألِيفُ فَضَيلةِ الشَّيْخِ العَلاَّمةِ عَبدِ الْعَزِيزِ رحمة الله عليه:ج1 ص46۔
92۔زاد المعاد فی ھدی خیر العباد لابن قیم رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص103۔
93۔المغنی لابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص244،زاد المعاد لابن قیم رحمۃ اللہ علیہ :ج1 ص103۔
[1] ۔فاضل محقق نے یہاں ایسی تمام احادیث کو نقل کیا ہے جن سے اس بارے میں استدلال کیا جا تا اور بعد میں تفصیل کے ساتھ ہر حدیث کی علت اور سند میں پا ئی جا نے والی کمزوریاں بھی ذکر کی تھیں ۔لیکن اختصار کے پیش نظر انہیں یہاں نقل نہیں کیا جا رہا بلکہ صرف آئمہ کی ان کے بارے میں اجمالی را ئے اور تجزیہ شامل اشاعت ہے آئندہ کسی شمارے میں انہیں بھی مستقل حیثیت میں شائع کر دیا جائے گا۔ان شاء اللہ (ادارہ)