ترجمان القرآن

﴿وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّـهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿١١٨﴾...البقرة
"اور جولوگ کچھ نہیں جانتے(مشرکین) وہ کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے گفتگو کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی۔اس طرح ان سے پہلے لوگ بھی انہی کی سی باتیں کیا کرتے تھے۔ان لوگوں کے  دل آپس میں ملتے جلتے ہیں،جولوگ صاحب یقین ہیں ان کے لئے ہم نے نشانیاں بیان کردی ہیں۔"
تشریح:۔
یہاں پہلے لوگوں سے مراد یہودی ہیں،وہ لوگ بھی اپنے نبی  علیہ السلام  سے یہی کہتے تھے جو مشرکین مکہ کہہ رہے ہیں۔ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے  فرمایا:رافع بن حرملہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا:اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اگر آپ اللہ کے رسول ہیں جیسا کہ آپ کہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ سے کہیں کہ وہ ہم سے باتیں کرے،ہم اس کی گفتگو کو سُنیں اس پر آیت نازل ہوئی۔
مجاہد رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا کہ یہ قول نصارٰی کا  تھا۔اسے ابن جریر نے بھی اختیار کیا ہے،اس لئے کہ آیت کا سیاق انہیں کے حق میں ہے،لیکن ابن کثیر  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ اس میں کلام ہے۔قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا معنی یہ ہے۔اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ تمہاری نبوت کے بارے میں ہم سے مخاطب کیوں نہیں ہوتا؟سو ظاہر سیاق یہی ہے۔ابو العالیہ رحمۃ اللہ علیہ ،ربیع رحمۃ اللہ علیہ ،انس رحمۃ اللہ علیہ ،قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ،مشہدی نے کہا یہ کفار عرب کا قول تھا۔اور"ان سے پہلے"سے مراد یہودونصاریٰ  ہیں،جس کی دلیل یہ ہے:
﴿وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ الله...﴿١٢٤﴾...الأنعام
"اور جب ان کے پاس کوئی آیت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ جس طرح کی رسالت اللہ کے  پیغمبر کو ملی ہے جب تک اس طرح کی رسالت ہمیں نہ ملے ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے"۔
﴿وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا ﴿٩٠﴾...الإسراء
﴿قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا ﴿٩٣﴾...الإسراء
"اور کہتے ہیں:ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ ہمارے لئے زمین سے چشمہ جاری نہ کردیں۔"
"آپ  کہہ دیجئے میرا پروردگارپاک ہے،میں تو صر ف پیغام  پہنچانے والا انسان ہوں۔"
تیسرےمقام پر یوں ہے:
﴿وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا...﴿٢١﴾...الفرقان
"اور جو لوگ ہم سے ملنے کی اُمید نہیں رکھتے ،کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہ نازل کیے گئے یا ہم آنکھ سے اپنے پروردگار کو دیکھ لیں۔"
چوتھے مقام پر اس طرح ہے:
﴿بَلْ يُرِيدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ أَن يُؤْتَىٰ صُحُفًا مُّنَشَّرَةً ﴿٥٢﴾...المدثر
"اصل یہ ہے کہ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھلی ہوئی کتاب آئے۔"
اسی  طرح کی اور بھی بہت سی آیات ہیں،جو مشرکین عرب کے کفر اوران کے عناد وسوال پر دلالت کرتی ہیں،ان کا یہود ونصاریٰ کے مثل کہنا کفروعناد کی وجہ سے تھا،جیسے اللہ نے فرمایا:
﴿يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚفَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَكْبَرَ مِن ذَٰلِكَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّـهَ جَهْرَةً ....﴿١٥٣﴾...النساء
"(اےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) اہل کتاب آپ سے درخواست کر تے ہیں کہ آ پ ان پر ایک لکھی کتاب آ سمان سے نازل کردیں۔یہ لوگ تو موسیٰ علیہ السلام  سے اس سے بڑی بڑی درخواستیں کرچکے ہیں اور ان سے کہتے تھے کہ ہمیں اللہ کو ظاہر کرکے(یعنی آنکھوں سے) د کھا دو۔"
دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّـهَ جَهْرَةً ﴾(البقرہ:55)
"اور وہ  وقت یاد کرو جب تم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام  سے کہا کہ اے موسیٰ علیہ السلام !جب تک ہم اللہ کو سامنے نہیں دیکھ لیں گے اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔"
اللہ کے اس قول تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗسے مراد یہ ہے کہ مشرکین عرب کے دل کفر وعناد  اور فساد میں یہود ونصاریٰ کی مانند ہوگئے ہیں ،جیسے اللہ نے فرمایا:
﴿كَذَٰلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ﴿٥٢﴾ أَتَوَاصَوْا بِهِ ...﴾(الذاریات:52)
"اس طرح ان سے  پہلے لوگوں کے پاس جو پیغمبر آتا ہو اس کو جادو گر یا دیوانہ کہتے۔کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آتے ہیں؟"
اس کے بعد فرمایا:ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے حق اورسچ ہونے پر کھول کر دلائل بیان کردیئے ہیں ،اب کسی  اور سوال کی حاجت نہیں،جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر یقین لایا اس نے انہیں سچا جانا،ان کی پیروی کی،اللہ کی باتوں کو سمجھتا ہے اور جن کےدل اور کانوں پر اللہ نے مہریں لگادیں،آنکھوں پر  پردے ڈال دیے،سوان کے حق میں فرمادیا:
﴿إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٩٦﴾ وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ﴾  (یونس96۔97)
"جن لوگوں کے بارے میں اللہ کا حکم(عذاب) قرار پاچکا ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے،جب تک کہ عذاب الیم نہ دیکھ لیں،خواہ اُن کے پاس ہرطرح کی نشانی آجائے۔"
آیت نمبر۔119:
 إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۖ وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ 
"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم :ہم نے آپ کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کربھیجاہے اوراہل دوزخ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پرسش نہیں ہوگی۔
تشریح:
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مرفوعاًآیا ہے،خوشخبری دینے والا سے مراد جنت کی خوشخبری اور ڈرانے مراد دوزخ کے عذاب سے ڈرانے والا(ابن ابی حاتم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عدم سوال کامطلب یہ ہے کہ کافر کے کفر کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے باز پرس نہیں ہوگی۔جیسے فرمایا:
فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (الرعد:40)
"تو پس آپ کا کام تو صرف ہمارے احکام کا پہنچادینا ہے اور ہمارا کام حساب لیناہے۔"
دوسری جگہ فرمایا:
فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ ﴿٢١﴾ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ (الغاشیہ:21۔22)
"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نصیحت کرتے رہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا کام نصیحت کرنا ہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان پر  داروغہ نہیں ہیں۔"
تیسری جگہ فرمایا:
نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ ۖ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ  (ق:45)
"یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہیں ،پس جو ہمارے عذاب کی وعید سے ڈرے تو اس کو قر آن سے نصیحت کرتے رہیے"
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں:"ولاتسئل"کے معنی میں جب"تسئل"کی"ت"کو"پیش"(مضموم) پڑھا جائے تو مذکورہ بالا مفہوم ہوگا۔اور اگر زبر کے ساتھ(مفتوح) پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ ان کا حال کچھ نہ پوچھیں،جس طرح کہ عبدالرزاق نے محمد قرطبی سے مرفوعاً روایت کیاہے کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے والدین:۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتھا:"کاش میں جانتا کہ میرے ماں باپ کا انجام کیسا ہوا؟"
اس پر یہ آیت نازل ہوئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی زندگی بھر کبھی ان کا ذکر نہ کیا۔
قرطبی  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ"فلاں شخص کا حال کیا پوچھتا ہے ،مت پوچھ"۔۔۔یعنی وہ تیرے گمان سے بھی آگے بڑھ گیا ہے ۔پھر کہتے ہیں کہ ہم نے تذکرے میں یہ بات ذکر کی ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ماں باپ کو زندہ کردیا تھا،وہ ایمان لے آئے اس حدیث کا کہ"میرا باپ،تیر اباپ جہنم میں ہیں"جواب دیا ہے۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  نے  فرمایا کہ جو حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاں ماں باپ کی حیات کے بارے  میں مروی ہے،وہ صحاح ستہ اور کسی دوسری کتاب میں نہیں ہے۔سوا بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  کی یہ بات صحیح ہے کہ یہ حدیث اور دوسری حدیثیں جو اس بارے میں آتی ہیں،جن سے سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے استدلال کیا ہے،سب بے اصل،منکر،شاذ،یا موضوع ہیں،اس میں کچھ شک وشبہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ماں باپ کے عدم ایمان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاک دامن ہونے پر،یاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت پر کوئی نقص نہیں آتا۔پھر اس قدرشور غوغا لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ماں باپ کے ایمان لانے پر کیوں کرتے ہیں؟ابن جریرنے جو قول،قرظی کا اس بنیاد پر رد کیا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا اپنے ماں باپ کے بارے میں شک کرنامحال ہے۔اس لئے" ولاتسئل "پہلی قراءت ہی ٹھیک ہے،سو اس کا رد ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے اور کہا"عین ممکن ہے کہ یہ بات اس وقت ہوئی ہو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے والدین کے لیے بخشش کی دعا مانگنا چاہی ہو،اس لیے کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ان کا حال معلوم نہ تھا۔اور جب حال معلوم ہوا تو ان دونوں سے براءت کا اظہار کیا اور یہ خبر دی کہ وہ "اہل نار" سے ہیں۔
صحیح بخاری میں بھی اس جیسی دوسری بہت سی احادیث ہیں۔

ابن جریر  رحمۃ اللہ علیہ  کا کچھ کہنا صحیح نہیں، ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  کی مذکورہ بالاتحریر سے معلوم ہوا کہ ابن کثیر  رحمۃ اللہ علیہ  نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے والدین کفر پر دنیا سے گئے اور اپنی زندگی میں یا موت کے بعد ایمان نہیں لائے۔یہی عقیدہ تمام مسلمانوں کا ہے اور مسلم شریف کی حدیث کے مطابق ہے۔اس عقیدے کا مخالف صحیح حدیث کا مخالف ہے۔لیکن ہمارے نزدیک تو یہ بات ہی سب سے بہتر ہے کہ ایسے مسائل میں سرے سے گفتگو دین برحق کے خلاف ہے اس لئے کہ قرآن نے یہ کہہ دیا ہے:
 تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (البقرہ:141)
"یہ جماعت گزر چکی ،ان کو وہ ملے گا جو انہوں نے کیا اور تمھیں وہ جو تم نے کمایا اور جو عمل وہ کرتے تھے ان کی پُرسش آپ سے نہیں ہوگی۔"
سو ہمیں اسی قاعدے پر جمے رہنا چاہیے۔لا یعنی باتوں سے بچنا اسلام کی خوبی ہے ،بے جاغور و خوض کرنے میں وقت کا ضیاع اورایمان کی تباہی ہے۔عطاء بن یسار نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے یہ کہا کہ توراۃ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کیا ہے انہوں نے کہا،اللہ کی قسم! ر سول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی توراۃ میں وہی صفت بیان ہے،جس طرح قرآن میں ہے:
" يا أيها النبي إنا أرسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا وحرزا للأميين أنت عبدي ورسولي سميتك المتوكل ليس بفظ ولا غليظ ولا سخاب في الأسواق ولا يدفع بالسيئة السيئة ولكن يعفو ويغفر ولن يقبضه الله حتى يقيم به الملة العوجاء بأن يقولوا لا إله إلا الله ويفتح بها أعينا عميا وآذانا صما وقلوبا غلفا" (مسند احمد،صحیح بخاری)
"اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ہم نے آ پ کو گواہ بنا کر خوشخبری دینے والا،ڈرانے والا،اُمی لوگوں کامحافظ بنا کربھیجا،آپ میرے بندے اور رسول ہیں۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا نام متوکل رکھاہے،نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ترش رو ہیں،نہ سنگ دل،نہ بازاروں میں پھرنے والے،نہ برائی کابدلا برائی سے دینے والے بلکہ آپ معاف کرنے والے ،درگزر کرنے والے ہیں،اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت تک وفات نہ دے گا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بھٹکی ہوئی ملت کو راہ راست پر نہ لے آئیں کہ وہ کلمہ طیبہ کا اقرار کریں،یہ کلمہ وہ ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی اندھی آنکھوں،بہرے کانوں اور بند دلوں کو کھول دیں گے۔"
اس حدیث کو ابن مردودیہ نے بھی روایت کیا ہے ۔لیکن یہ الفاظ زائد ہیں کہ عطاء نے کہا:پھر میں کعب احبار سے ملا ان سے بھی سوال کیا تو کسی بھی حرف میں اختلاف نہ پایامگر  کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنی زبان میں یوں کہا: أعينا عميا وآذانا صما وقلوبا غلفا 

آیت نمبر۔120:
وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّـهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی ،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے مذہب کی پیروی کرنے لگیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان سے(یہودونصاریٰ) کہہ دیجئے اللہ کی ہدایت(دین اسلام) ہی اصل ہدایت ہے۔اور اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم  !اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے پاس علم(وحی الٰہی) کے آجانے کے بعد  ان کی خواہشات کی اتباع کریں گے،تو آپ کو بھی اللہ کے(عذاب) سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہوگا نہ کوئی مدد گار۔"
تشریح:۔
ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:اللہ کا مقصد یہ ہےکہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !یہ دونوں فریق آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کبھی راضی اور خوش نہ ہوں گے،سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی رضا مندی اور موافقت کو چھوڑ کر اس حق کی طرف دعوت دیجئے جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف بھیجا ہے۔اللہ کی رضا مندی طلب کیجئے،جو راہ اللہ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دکھا دی ہے،وہی صراط مستقیم صحیح دین اور کامل وشامل ہے۔قتادہ رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا یہ ایک ایسی مخالفت ہے جو اللہ نے اپنے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو سکھائی ہے کہ اصل ضلالت سے یوں نپٹا کرو۔پھر کہا مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا؛"میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر لڑتا رہے گا اورغالب آئے گا۔جو اس کی مخالفت کرے گا وہ اس گروہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے۔"
ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:یہ حدیث بخاری شریف میں ہے۔
اللہ کے ارشاد میں کہ"اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہل کتاب کا اتباع کیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو کوئی حامی وناصر نہ ہوگا۔"امت مسلمہ کے لئے بہت بڑی وعید ہے کہ کہیں وہ یہود ونصاریٰ کے قدموں پر نہ چلنے لگیں جبکہ انہیں قر آن وسنت کا علم ہوچکا ہے۔یہ خطاب اگرچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو ہے مگر یہ حکم امت مسلمہ کو دیا گیا ہے۔تفسیر"فتح البیان" میں ہے:اس آیت میں ایسی سخت وعید ہے کہ دل کانپتے ہیں ،دل بیٹھے جاتے ہیں اور اہل علم اور دین الٰہی کے ماننے والوں پر اس آیت نے یہ بات لازم کردی ہے کہ اصل بدعت اوردوسرے مذاہب کی برائیوں سے بچیں اور جو لوگ کتاب وسنت کے تارک اور قرآن وحدیث کے مقابلے پر صرف رائے کو اختیار کرتے ہیں ان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہ کریں کیونکہ یہ لوگ اگرچہ بظاہر دین کو مانتے ہیں۔نرم اخلاق سے  پیش آتے ہیں ،مگر انھیں بدعت وضلالت کے اتباع کے سوا کوئی بات پسند نہیں۔پس جو آدمی کتاب وسنت کا عالم ہو اور پھر اس بدعت وتقلید کو جاننے کے باوجود ان سے نرمی کرے تو سمجھ لو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ کوئی حامی ہے اور نہ کوئی ناصر۔
اکثر فقہاء نے اس آیت سے استدلال کیاہے کہ سارا کفر ایک ملت ہے کیونکہ لفظ ملت آیت میں مفرد آیا ہے جیسے اللہ کا فرمان ہے  لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ  اس بنیاد پر مسلمان وکافر ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے۔بلکہ کافر ہی اپنے ساتھی کاوارث ہوتا ہے خواہ ہم مذہب ہونہ ہو،کیونکہ سب ایک ہی ملت ہیں۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کا یہی مذہب ہے ،دوسرا قول امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  سے قول کے متعلق ہے کہ وہ اہل ملت متفرق ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے۔