اکتوبر 1994ء

مولانا مقبول احمد

تاریخ سازشخصیت
حضرت حافظ مقبول احمد تقسیم ہند سے قریباً نو سال قبل متحدہ ہندوستان میں کھیم کرضلع لاہور سے شمال مغرب میں واقع گاؤں"کلس" میں زمیندار راجپوت گھرانہ میں تولد ہوئے۔آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے:مقبول احمد بن میاں رحیم بخش بن اسماعیل خاں بن بہاول خاں بن بلند خاں بن وسن خاں۔۔۔یہ نسب نامہ کلس کی اولاد سے حکیم خان تک منتہی ہے۔اور کلس کا اصل جنڈیالہ کلساں ضلع شیخو پورہ سے تھا،حافظ صاحب نے بیوہ کےعلاوہ دو بچے چھوڑے ہیں،جو شارجہ میں مقیم ہیں۔بڑا عبدالمنان مدنی اس کی عمر قریباً چوبیس سال ہے چھوٹا عبدالحنان مکی  ہے۔اس کی عمر اندازاً بائیس سال ہوگی عبدالحنان چونکہ مدینہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  میں پید اہوا۔اس لئے اسے مدنی کہاجاتا ہے۔اورعبدالحنان مکہ مکرمہ میں پیدا ہوا چنانچہ اسی مناسب سے اسےمکی کہاجاتا ہے۔دینی ضروری معلومات کے ساتھ ثانوی تعلیم انہوں نے شارجہ سے حاصل کی۔والد کی بیماری کی وجہ سے شارجہ میں سرکاری ملازمت کرنے لگے ہیں۔

مرحوم کی عمود نسبی میں علمی روشنی کا اگرچہ فقدان تھا۔لیکن اہل علم سے الفت ومحبت اور ملاقات اور تعلقات کی بناء پرعلم دوستی ضرورتھی۔ہمارے دادا جان گاؤں کے نمبردار ہونے کے باوجود مسجد سے قلبی تعلق رکھتے تھے۔یہاں تک کہ رات مسجد میں ہی بسر کرتے۔بسا اوقات تہجد کے وقت جنات پاؤں کا انگوٹھا پکڑ کر جگا دیاکرتے تھے تاکہ قیام اللیل کے سرور سے مستفید ہوں،ہمارے عمر رسیدہ بزرگ بیان کر تے ہیں کہ گاؤں میں سب سے پہلے شرک وبدعت سے مبرا ومنزہ صحیح عقیدہ اختیار کرنے والے حافظ صاحب کے نانا جان میاں محمود مرحوم تھے۔جن کو یہ توحیدی روشنی میر محمد کے اہل اللہ سے حاصل ہوئی تھی۔ہماری مسجد کے اندرونی حصے میں ایک پکی قبر تھی جس کی پو جا پاٹ کی جاتی تھی صاحب قبر کے نام پر نذرنیاز کے علاوہ اسے محل استغاثہ اور  قاضی الحاجات سمجھا جاتا تھا مشار الیہ بزرگ نے اسے گرا کر زمین کے برابر کردیا اور فصلی بٹیر جو وقتاً فوقتاً محض حصول زر کے لیے جمع ہوتے تھے ان کا راستہ مسدود کردیا اس طرح گاؤں کو شرکیات سے پاک کردیا۔پھر علماء کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہوگیا ہر طرف توحیدی روشنی پھیلنے لگی بعد ازاں مولانا اللہ بخش مرحوم کی علمی دوستی اور فن طبابت نے چار چاند لگادیے اس سے مزید منزل مقصود قریب تر ہوتی گئی اور اس دوران ہمارے ہی خاندان سے منسلک مولانا محمد عبداللہ کلسوی مرحوم نے مدرسہ غزنویہ امرتسر اور ویرووال سے سند فراغت حاصل کرکے واپس آکر قوم میں دعوت وتبلیغ کے فریضہ کاآغاز پورے انہماک سے کردیا۔روزانہ بعد از نماز فجر قرآنی دروس کا اہتمام فرمایایہاں تک کہ پورا قرآن ختم کرڈالا تقسیم کے بعد بھی اس مبارک عمل کو جاری رکھا ان کی جہد مسلسل کے نتیجے میں سرہالی کلاں میں مدرسہ  تحفیظ القرآن کاقیام عمل میں آیا جو چشمہ سیرابی آج تک جاری ہے۔ اس کے مدرس اعلیٰ قاری خدا بخش مقرر ہوئے۔

عشرہ پچاس کے اوائل میں مرحوم نے سرہالی کلاں میں دیگر شرکا درسہ سمیت حفظ کاآغاز کیاجو تین سال کی حدود میں اختتام پزیر ہوا آپ کی ذہانت وفطانت کی بناء پر محترم قاری صاحب کو ہونہار شاگرد سے بہت زیادہ پیار ومحبت تھا۔حضرت و سفر میں اسے اپنے اپنے ساتھ رکھتے تلمیذ اطاعت گزار نے بھی اپنے نابینے استاد کی خدمت اس حد تک کی کہ ناشتہ اور کھانا گھر میں تیارکروانا اور کپڑے بذات خود دھو کر دینا اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔

پھر ہمارے گاؤں کے ایک نیک صالح بزرگ مسمی حاجی عبدالعزیز  جن کے روپڑی خاندان سے بڑے اچھے مراسم تھے انہوں نے ہمارے والدین کو راغب کیا کہ ان بچوں کو عالم بنانا چاہیے چنانچہ ان کی اجازت سے وہ ہم دونوں کو حصول علم کی خاطر مسجد قدس چوک دالگراں لاہور لےآئے اس وقت جامعہ اہلحدیث کا بڑا شہرہ تھا کیونکہ اساطین العلم اور شیوخ الشیخ یہاں جمع تھے عالم ان سے متعارف اور وہ سند کی حیثیت رکھتے تھے۔مثل شیخنا مجتہد العصر حافظ محمد عبداللہ محدث روپڑی اور ان کے برادر حقیقی حافظ محمد حسین امرتسری رحمۃ اللہ علیہ (والد مدید اعلیٰ"محدث") جن کو علوم وفنون میں بالخصوص ملکہ تامہ حاصل تھا،نیز شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ الفلاح،مولانا قادر بخش بہاول پوری،مولانا عبدالجبار،اور مولانامحمد کنگن پوری معاون  تحفۃ الاحوذی وغیرھم بھی لائق ترین اساتذہ شمار ہوتے تھے۔حضرت العلام محدث روپڑی نے مرحوم کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ فرمائی میزان الصرف سے لے کر اختتامی دروس تک اکثر اسباق ودروس انہی کے مرہون منت تھے۔دوسری جانب شاگرد نے بھی اپنے شیخ کی خدمت میں کوئی کمی نہ اٹھا رکھی ہر چند مسابقت کے لیے کوشاں رہتے تھے۔

یہاں تک کہ سن 1961ء میں سند فراغت حاصل کی۔محدث روپڑی کے چونکہ سعودی  عرب کے ممتاز علماء مثل محمد بن ابراہیم آل الشیخ  مفتی اعظم سعودی عرب اور سماحۃ الشیخ ابن باز سے مثالی تعلقات تھے۔اس بناء پر ان کے دو شاگردوں ثناء اللہ(راقم الحروف) اور عبدالسلام کیلانی کوبڑی آسانی سے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔پھر سن 1963ء کے کوٹہ میں حافظ صاحب مرحوم شامل ہوئے آپ نے تعلیم کا آغاز چونکہ ثانوی سے کیا تھا اس بناء پر آپ کو مدینۃ الرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں قیام کا ایک لمبا عرصہ میسر آگیا بلکہ بعد میں بھی اپنےتعلقات کی بناء پریہاں مقیم رہے حتیٰ کہ دارالافتاء کی طرف سے بصورت ابتعاث تقرری معرض وجود میں آئی تو آپ متحدہ عرب امارات منتقل ہوئے۔وہاں مدیر مکتب الدعوۃ والارشاد شیخ عمر بن عبدالعزیز العثمان تھے ان کے ساتھ مل کر دعوت وتبلیغ کے پروگرام کو مرتب کیا جو تھوڑا ہی عرصہ بعد نتیجہ خیز ثابت ہونا شروع ہوگیا۔انہی دنوں ایک پاکستانی بدعتی نے دوبئی میں پکی قبر کھڑی کردی۔مدیر اور حافظ صاحب کے علم میں جب یہ بات آئی توانہوں نے جذبہ جہاد کے  پیش نظر راتوں رات اس کو اکھاڑپھینکا اس کے بعد سے آج تک  پورے امارات میں کوئی ایک بھی پکی قبر موجود نہیں بلکہ داعیان شرک وبدعت کے لیے آج بھی دروازے بند ہیں سرعام خرافات کی تبلیغ نہیں کرسکتے بالخصوص شارجہ وغیرہ جہاں موحدین کی اکثریت ہے۔

دوسری طرف مرحوم نے دیکھا کہ ہمارے علاقوں(ہندوستان ۔پاکستان وغیرہ) کے رہائشی یہاں منتشر ہیں ان کا نہ کوئی نظم ہے اور نہ کوئی صالح قیادت جو سب کو یکجا جمع کرسکے تو آپ نے موضوع ہذا پر غور وخوض شرو ع کردیا۔اس اثناء میں اللہ  رب العزت نے مجھے وہاں دورہ کرنے کی توفیق بخشی تو میں نے  اکثر وپیشتر پروگراموں میں اسی فکر کو موضوع بحث بنائے  رکھا"یداللہ علی الجماعۃ" جس سے ساتھیوں کو ذہن سازی میں معاونت حاصل ہوئی میرے بعد سید بدیع الدین صاحب شارجہ تشریف لے گئے انہوں نےمزید اس کام کو آگے بڑھایا بلکہ اسی مساعی کے نتیجہ میں جماعت اہل حدیث کی تشکیل ہوئی جس کا امیر حافظ مقبول احمد مرحوم ومغفور کومنتخب کرلیا گیا۔موصوف نے رات دن محنت شاقہ سے جماعت کوترقی کے زینہ تک پہنچایا پورے متحدہ عرب امارات میں مدارس کا جال بچھا دیاگیا اور جگہ جگہ دعوتی وتبلیغی حلقہ جات قائم کردیے گئے جہاں ہر ہفتے دعاۃ مبلغین   کے منعقد اجتماع میں دعوتی  امور کا جائزہ لیا جاتا اور عوام سے رابطہ میں استحکام پر تدبر وتفکر کیا جاتا دوسری طرف دارالضیافہ(مہمان خانہ) کا اہتمام دو طرح سے کیا گیا ایک عمومی دوسرا خصوصی،عام مہمانوں کے لیے انتظام وانصرام شارجہ کے  جماعتی مرکزی دفتر میں ہوتا اور خصوصی وفود اور اہل علم کے لیے اہتمام حافظ صاحب کے گھر پر ہواکرتاتھا۔موصوف مہمان نوازی کرکے خوشی کا اظہار فرماتے،ان لمحات کو ذخیرہ عقبی تصور کرتے پھر سفراء مدارس ومساجد اور محتاجوں کا تعاون خود کرتے حکومت اور اہل خیر سے بھی کراتے۔مالی اعانت میں علماء اور دانشور حضرات کی خصوصی حوصلہ افزائی فرماتے جسے مقدور بھر مخفی رکھنے کی سعی بھی کرتے تاکہ علماءکے وقار کو آنچ نہ آنے پائے۔

ارباب حل وعقد کے ہاں آپ کے توصیہ(سفارشی لیٹر) کی حیثیت سند کا درجہ رکھتی تھی طویل اور شدید بیماری کے باوجود ارباب اقتدار بسلسلہ تذکیہ اور توثیق آپ ہی کی طرف رجوع کرتے۔

مزید آنکہ آپ نے جدید تقاضوں کے پیش نظر شارجہ میں دو مدرسے کھول رکھے ہیں۔ایک لڑکوں کے لئے جبکہ دوسرا لڑکیوں کے لئے مخصوص ہے ان میں جدید وقدیم علوم کے امتزاج کا عملی تجربہ شروع ہے جو نہایت کامیابی سے جاری وساری ہے ان سے مسلم قوم کے ہزاروں بچے اور بچیاں مستفیض ہورہے ہیں۔پھر سلفی دنیا سے رابطے کےلیے سالانہ عالمی کانفرنس کااہتمام فرماتے۔پاک وہند سے اہل علم اور دانشوروں کو خصوصی دعوت پر بلایاجاتا جس میں ہر مبلغ کے لیے کم از کم بارہ مختلف موضوعات پر بارہ مقامات پر لیکچر دینے ضروری ہوتے جن کی پیشگی اطلاع ہر مبلغ کو کردی جاتی تاکہ وہ مکمل تیاری کے سے پروگرام میں شریک ہوسکے اور اہل ذوق کما حقہ مستفید ہوں۔ایک انتہائی مبارک سلسلہ تھا جس سے رشک پیدا ہوتا ہے کہ کاش ہمارے ہاں پاکستان میں بھی ایسی  توفیق میسر آئے،یہ بات بھی ذہن نشین رہے دنیا کے اکناف واطراف میں بندگان اللہ کی ایک معقول تعداد ایسی بھی موجود ہے جو آپ کی دعوت وتبلیغ سے متاثر ہوکر مشرف باسلام ہوئے یا خرافات وبدعات سے تائب ہوکر داعیان اسلام بن کر اپنے علاقوں کو واپس لوٹے آج کے پرفتن دور میں وہ علم توحید بلند کئے ہوئے ہیں اور بہت ساری مخلوق کے لیے ہدایت کا سبب بن رہے ہیں۔مرحوم کے خصائل حسنہ سے مابہ الامتیاز یہ ہے کہ آپ بڑے ملنسار خندہ پیشانی سے پیش آنے والے حلیم البطع جو دوسخاء کے پیکر ،دوستی کاحق ادا کرنے والے ریاء اور سمہ سے بعید،صاحب عقل وشعور سراپا حیاء،صاحب عزم بالجزم وارادہ،مصائب ومشکلات وبلایا میں ثابت قدمی کے پہاڑ حوصلہ مندی سے حوادث کا سامنا کرنے والے تھے۔اہل توحید سے والہانہ عقیدت ومحبت اور اہل شرک وبدعت سے اظہار بیزاری ان کا خاص شعار تھا۔

یاد رہے کہ موصوف 17جنوری 1992ء سےفالج کی مرض میں مبتلا تھے۔یکم اگست 1994ء میں بروز سوموار صبح چار بج کر چالیس منٹ پر اتفاق ہسپتال لاہور میں خالق حقیقی سے جا ملے۔

انا لله وانا اليه راجعون ان الله ما اخذ وله ما اعطي وكل شئي عنده باجل مسمي اللهم اغفرعبدك مقبول احمد وارفع درجته في المهدين واخلفه في عقبه في الغابرين واغفرلنا وله يارب العالمين وافسح له في قبره ونورفيه

غنچے غنچے کی زباں پر ہے حکایت تیری



عبدالرحمان عاجز مالیر کوٹلوی:

آنکھ کے سامنے ہر سمت ہے قدرت تیری  دل میں عظمت ہے تیری،آنکھ میں حسرت تیری
بحروبر،برگ وشجر، کو ہ وحجر ،دشت وچمن سب کا خلاق ہے تو اور بہ خلقت تیری
یہ بدلتے ہوئے موسم یہ غروب اور طلوع اہل دل کے لئےیہ بھی تو ہیں حجت تیری
تو نے پتھر کی چٹانوں سے بہائے دریا اور دریاؤں میں طوفان ہیں قدرت تیری
برق وباد ومہ وخورشید وسحاب وانجم ترے شاہکار ہیں دیتے ہیں شہادت تیری
تیرے محکوم ہیں ہم،تو ہے ہمارا حاکم فرش تو فرش سرِعرش حکومت تیری
خواب وبیداری شب وروز کا آناجان چشم بینا کے لیے یہ بھی ہے نعمت تیری
بے شبہ خاک کا ہر ذرہ ہے اعجاز ترا اورہر قطرہ باراں ہے کرامت تیری
لہلاتے ہوئے کھیتوں کا یہ منظر دلکش ایک ناظر کی نظر  میں ہے علامت تیری
چشمہ آب ،سر کوہ رواں تو نے کیا موج دریا سے عیاں شان جلالت تیری
تیرے ہی دم سے ،دم دور بہاراں کا وجود باغ میں حسن تراگل میں ہے نگہت تیری
رزق تیراتو ہی کھاتے ہیں،ترے منکر بھی اللہ اللہ میرے اللہ سخاوت تیری
دور دل سے ہوا جاتا ہے تعیش کا  فتور  راحت روح ہوئی جاتی ہے ،قربت تیری
کوئی مخدوم ہے دنیا میں کوئی خادم ہے ترے ہر کام میں پوشیدہ ہے حکمت تیری
ترے نغمات میں سرمست ہیں مرغان چمن غنچے غنچے کی زبان پر ہے حکایت تیری
چند اشعار تری حمد میں لب پر آئے
یہ ترا لطف ہے ،عاجز پہ عنایت تیری