غیرت کا قتل: قانونی و اسلامی نقطہ نظر

جنسی آوارگی کو انسانی جبلت قرار دینے والا مغرب، اسلامی اور ایشیائی معاشروں میں غیرت و حمیت کے تصور کے معروضی اِدراک سے اگر معذور ہے تو یہ امر تعجب کا باعث نہیں ہونا چاہئے کیونکہ رویپ کی زبانوں میں کوئی بھی لفظ ایسا نہیں ہے جسے صحیح معنوں میں "غیرت" کا مترادف قرار دیا جا سکے۔ لیکن پاکستان میں انسانی حقوق کے انتھک منادوں کی طرف سے "غیرت کے نام پر قتل" کے لئے سزائے موت کا اگر مطالبہ کیا جاتا ہے تو یقینا اسے ان کی مریضانہ مغرب زدگی سے تعبیر کیا جانا چاہئے۔
گذشتہ کئی برسوں سے مغرب کے سرمائے سے پاکستان میں چلائی جانے والی انسانی حقوق کی علمبردار NGOs کی طرف سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے لئے سزائے موت کا قانون تشکیل دیا جائے۔ اگست 1997ء میں سپریم کورٹ کے معزز جج اسلم ناصر زاہد کی سربراہی میں قائم کردہ "خواتین حقوق کمیشن" نے مفصل سفارشات پیش کیں تو اس میں ایک سفارش یہ کی گئی:
"غیرت کے مسئلہ پر قاتلانہ واردات کو قانون کے تحت "قتل عمد" قرار دیا جائے اور اس کے لئے مناسب قانون بنایا جائے" (رپورٹ، باب نمبر 6)
یادش بخیر، مذکورہ خواتین کمیشن کی اصل روح رواں عاصمہ جہانگیر اور NGOs کی مغرب زدہ بیگمات تھیں۔ عاصمہ جہانگیر اس مسئلہ کو ہمیشہ ذرائع اَبلاغ میں اٹھاتی رہی ہیں۔ لیکن ان کے اس مسئلہ پر احتجاج کو نقطہ عروج (کلائمکس) اس وقت ملا جب 6 اپریل 1999ء کو "دستک" میں پشاور سے آئی ہوئی سمیعہ عمران کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔ اس قتل کے واقعہ کی آڑ میں NGOs کے پورے نیٹ ورک نے اس قدر شدید ہنگامہ اور دھماچوکڑی برپا کی کہ الامان! ۔۔ ان کا جارحانہ احتجاج کا اسلوب بتا رہا تھا کہ وہ "غیرت کے نام پر قتل" کے خلاف احتجاج نہیں کر رہی تھیں بلکہ خود غیرت کا "قتل" ان کا مقصود و مطلوب تھا۔ وہ پاکستانی کلچر سے غیرت و حمیت پر مبنی اقدار کو جڑ سے اُکھاڑنا چاہتی ہیں تاکہ ہمارا معاشرہ بھی مغرب سے ثقافتی مساوات کا دم بھر سکے۔ 15 اپریل 1999ء کو پریس کلب لاہور میں "غیرت کے نام پر قتل" کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں NGOs کی بیگمات اور ان کے ہم خیال دانشوروں نے غیرت کے خلاف خوب بھڑاس نکالی۔ 16 اپریل کے "دن" میں اس سیمینار کے حوالہ سے حنا جیلانی کا جو بیان چھپا، اس کی سرخی یہ تھی:
"غیرت! غیرت! غیرت! خواتین کو بھی جینے کا حق دیا جائے ۔۔!"
اسی خبر کے متن میں حنا جیلانی کے بیان کا بقیہ حصہ یوں شائع ہوا:
"سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عورت کے متعلق عدالتوں کا رویہ امتیازی ہے۔ عدالتوں کو چاہئے کہ وہ عورت کو عزت و وقار سے جینے کا حق دیں۔ انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل، مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کی اصلاح ہے اور آج ہمیں سٹیٹ کے تمام اِداروں کو اس سوچ کے خلاف جھنجھوڑنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمعیہ عمران کے قتل کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔"
حنا جیلانی کا مندرجہ بالا بیان غیرت کے مسئلہ پر NGOs کی حقیقی سوچ کا آئینہ دار ہے۔ نفسیاتی تشنج اور اختلاج میں مبتلا عورتوں کے حقوق کی نام نہاد علمبردار عورتیں اعلیٰ عدالتوں کے متعلق، اہانت آمیز الفاظ کی ادائیگی سے نہ خوف کھاتی ہیں اور نہ ہی غیرت کے مسئلہ پر انتہائی اقدام اٹھانے والوں کو "مجرمانہ ذہنیت" کا حامل قرار دینے میں انہیں کوئی جھجک محسوس ہوتی ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے ادارے "دستک" میں قتل ہونے والی سمیعہ کی ذمہ داری حکومت پر ڈالتے ہوئے بھی ان کے ضمیر کو ہلکی سی خلش بھی محسوس نہیں ہوتی۔ عدالتوں کے رویہ کو "امتیازی" قرار دینا نہ صرف توہین عدالت کے زمرے میں شامل ہے بلکہ اس سے پاکستان کے پورے عدالتی نظام کے خلاف عدمِ اعتماد اور نفرت انگیز جذبات کو بھڑکانے کی مذموم تحریک کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ مغرب کی تنخواہ دار NGOs کی طرف سے ہمارے عدالتی نظام اور سماجی اقدار کے خلاف یہ انتہائی خطرناک پیش قدمی ہے جس سے چشم پوشی ایک قومی سطح پر کوتاہی اور بالآخر پچھتاوا پر منتج ہو گی۔ امریکہ اور یورپ خاندانی نظام کی تباہی کی صورت میں ان نتائج کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ نتائج بتدریج سامنے آئے ہیں اگر شروع میں اس "فتنہ" کے سامنے بند باندھ دیا جات تو اس سے بچاؤ ممکن تھا۔
مغرب کے ایجنڈے پر عمل پیرا انسانی حقوق کے باطل مبلغین کی طرف سے "غیرت کے نام پر قتل" کو قتل عمد قرار دینے کا مطالبہ نہ صرف شرانگیز بلکہ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کے اصل اسباب و محرکات کا معروضی جائزہ لیا جائے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے مجموعہ ہائے قوانین میں "غیرت کے جرائم" کے بارے میں سزاؤں کا کون سا معیار برقرار رکھا گیا ہے؟ اس مسئلے کا اس پہلو سے جائزہ لینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا اور پھر آخر میں اس مسئلہ کے متعلق اسلامی احکامات کی روح کی نشاندہی بھی ضروری معلوم ہوتی ہے۔
عورت کی آبرو اور خاندان کی آبرو اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہی چیز ہیں، خاندانی ادارے کا استحکام اور بقا اس اہم مسئلہ سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الہامی مذاہب اور قدیم معاشروں نے عورت کی 'آبرو' کو بے حد اہمیت دی۔ مردوزن کے اختلاط میں توازن اور اجتماعی معاشرت میں حسن و اعتدال کے قیام کے لئے ایسے ضابطوں کی تشکیل ضروری تھی جو ان تعلقات کو منضبط کر سکیں۔ مذہب، اختلاقیات اور سماجی و ثقافتی روایات نے ہزاروں سال کے تہذیبی ارتقا کے بعد عورت کی عصمت کو قیمتی ترین متاع بنا دیا۔ خاندان اور معاشرہ انسانی تہذیب کے آغاز ہی سے اس قیمتی متاعِ آبرو کے تحفظ کو اپنی ذمہ داری سمجھتا رہا ہے۔
غیرت، آبرو، حمیت اور عزت کے معاملات کے بارے میں پاکستانی معاشرہ اور یورپی معاشرہ میں ثقافتی سطح پر بعدِ مشرقین ہے۔ ہماری سماجی اقدار کی میزان میں عورت کی آبرو کا پلڑا اس قدر بھاری ہے کہ یہ پورے خاندانی نظام کو اپنے پلڑے میں جھکا دیتا ہے۔ عورت کی آبرو ایک خاندان کا اجتماعی اَثاثہ تصور کیا جاتا ہے، یہ محض ایک عورت یا فرد کا ذاتی اَثاثہ نہیں ہے۔ اس لئے قیمتی ترین متاع پر جب کوئی ڈاکہ خاندان کے باہر کے افراد کی طرف سے ہو تو دونوں خاندانوں میں دشمنی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ آبرو پورے خاندان کی متاع سمجھی جاتی ہے لہذا کسی عورت کو اپنے ہاتھوں بھی اپنی آبرو کا جنازہ نکالنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ خاندانی ماحول میں ایک عورت اپنے باپ کا فخر، اپنے بھائیوں کا مان اور اپنے خاوند کی شان سمجھی جاتی ہے۔ جب وہ اس آبرو پر ہاتھ صاف کرنے کا ارادہ کرتی ہے، تو سمجھا جاتا ہے کہ باپ کے سر کا تاج خاک آلودہ ہو گیا ہے، بھائیوں کا غرور خاک میں مل گیا ہے اور خاوند کی شان کا جنازہ نکل گیا ہے۔ اہل مغرب کو ہمارے سماج میں مردوں کے خاک آلودہ سروں کی ذلت کا ادراک نہیں ہو سکتا  کیونکہ ہزاروں سال کی بے پردگی نے ان کے غیرت اور حمیت کے معیارات کو متاثر کیا ہے ۔۔ درحقیقت غیرت اور پردہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
اسلامی، ایشیائی اور بالخصوص قبائلی معاشروں میں عورت کو حیا کا مجسمہ، عفت کی تصویر اور عصمت کی محافظ خیال کیا جاتا ہے۔ عورت کے احترام کا تناسب عفت و عصمت کے انہی معہارات سے وابستہ سمجھا جاتا ہے۔ اس حیاءِ مجسم سے کسی قسم کی بے اعتدالی کی توقع نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک عورت کسی اخلاقی جرم کی مرتکب ہوتی ہے یا گھر سے فرار ہو جاتی ہے تو غیرت اور حمیت کا احساس اس خاندان میں جذباتی ہیجان خیزی کا طوفان برپا کر دیتا ہے۔ آبرو کے نقصان کی تلافی یہی سمجھی جاتی ہے کہ اس آبرو کی تباہی کے ذمہ دار افراد کو کیفرکردار تک پہنچا دیا جائے۔ ورنہ معاشرہ اس خاندان سے غیرت مند خاندان کے طور پر زندہ رہنے کا حق چھین لیتا ہے۔
ممکن ہے بعض روشن خیال افراد سے آبرو کے متعلق مبالغہ آمیز حساسیت کا نام دیں، لیکن ایسی حساسیت کا تعین ایک اضافی ثقافتی معاملہ ہے جس کے متعلق صحیح رائے اس مخصوص سماجی اور ثقافتی تناظر سے مورا ہو کر قائم نہیں کی جا سکتی۔ ہر سماج کو اپنی اَقدار کے تعین کا آزادانہ حق حاصل ہے۔ اگر یورپ نے بے حیائی اور آوارگی اور جنسی باؤلا پن کو سندِ پذیرائی عطا کر دی ہے اور وہ اسے جدید ترقی یافتہ سماج کی ا؟قدار کے طور پر اپنا چکے ہیں تو انہیں روایتی اسلامی یا ایشیائی معاشروں میں عفت و آبرو کے متعلق اس حساسیت کے بارے میں اعتراض کا اصولی طور پر کوئی حق نہیں ہونا چاہئے۔ انسانی حقوق کے مغربی معیارات کو قبول کرنے پر اصرار کی بجائے اہل مغرب اور ان سے مرعوب افراد کو دوسرے معاشروں کو اپنی ضروریات کے مطابق ااَقدار کی پاسداری کا کھلے دل سے حق عطا کرنا چاہئے اور یہ جدید روشن خیالی اور رواداری کا عین تقاضا بھی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک باپ کا اپنی بیٹی، ایک خاوند کا اپنی بیوی اور ایک بھائی کا اپنی بہن کو آبرو کے ناگزیر تقاضوں سے مجبور ہو کر قتل کرنا کسی "مجرمانہ ذہنیت" کا نتیجہ ہے؟ مندرجہ بالا اُمور کو ذہن میں رکھا جائے تو اس سوال کا جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ اپنی عزیز از جان ہستیوں کو اپنے ہاتھوں کر دینا انسانی زندگی کے مشکل ترین فیصلوں میں سے ایک ہے۔ یہ کسی پرندے کا شکار نہیں ہے۔ اس انتہائی اقدام تک پہنچنے کے لئے جس جذباتی شکست و ریخت، ہیجان خیزی اور اعصاب زدگی کے جگر پاش دھچکوں سے گزرنا پڑتا ہے، اس کا صحیح احساس ان بدنصیب افراد کو ہی ہو سکتا ہے جو بالآخر اپنے ہاتھ سے اپنے عزیزوں کا قتل کر گزرتے ہیں۔ وہ یہ سب کچھ محض شغل یا اپنی مجرمانہ ذہنیت کے ہاتھوں مجبور ہو کر نہیں کرتے۔ کاش کہ انسانی حقوق کے علمبردار حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے انسانی فطرت کے اس جبر کا ادراک بھی کریں ۔۔!!
غیرت کے نام پر قتل کی معدد وجوہ اور صورتیں ہو سکتی ہیں ۔۔ مثلا
(i)ایک مرد کا دوسرے مرد کو محض اس بنا پر قتل کر دینا کہ اس نے قاتل کی کسی عزیزہ سے چھیڑخانی کی ہو، یا اس کی آبرو پر حملہ کیا ہو ۔۔ اس میں عورت بے قصور ہوتی ہے۔
(ii) ایک مرد نے اپنی بیوی یا کسی قریبی عزیزہ کو کسی غیر محرم کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھا تو اس نے اس مرد کو تو قتل کر دیا، البتہ اس عزیزی کو تشدد کا نشانہ بنانے پر ہی اکتفا کیا۔
(iii) ایک مرد نے دوسرے مرد کو اپنی کسی قریبی عزیزہ کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھا، اور مردوعورت دونوں کو قتل کر دیا۔
(iv) ایک مرد نے اپنی بیوی یا قریبی عزیزہ کو غلط حرکتوں سے باز رہنے کی مسلسل تاکید کی، وہ باز نہ آئی تو اسے قتل کر دیا یا اپنی کسی عورت کو غیر مرد کے ساتھ دیکھا، مرد تو بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا، البتہ اس نے اپنی عورت کو اشتعال میں آ کر قتل کر دیا۔
غیرت کے نام پر قتل کی مؤخر الذکر صورت بعض NGOs کے پراپیگنڈہ اور احتجاج کی وجہ سے خبروں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
کیا غیرت کے نام پر قتل اور قتل عمد، شریعت اور قانون کی نگاہ میں برابر ہیں؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کو "قتل عمد" کے برابر رکھا جا سکتا ہے؟ جرم و سزا کے فلسفہ کے متعلق واجبی سا علم رکھنے والا شخص بھی اس سوال کی نا معقولیت کا ادراک کر سکتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی ریاست کا قانونی و عدالتی نظام، جرائم کے پس پشت محرکات اور اسباب کا تعین کئے بغیر ان کی سز اکے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی حمایت نہیں کر سکتا۔ مزید برآں فوری اشتعال (Sudden Provocation) کے نتیجہ میں کئے جانے والے جرائم کو عام جرائم سے ہمیشہ مختلف درجہ میں رکھا جاتا ہے۔ یہ معاملہ صرف قبائلی، روایتی یا اسلامی معاشروں کا نہیں، یورپی ممالک بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل اور قتل عمد کے عوامل و محرکات اور حالات و پس منظر یقینا یکساں نہیں ہوتے تو پھر ان کی یکساں سزا تقاضائے عدل کے منافی ہے۔ ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو ایک باپ اپنی بیٹی کے قتل کے بعد اپنے آپ کو بھی ایک ایسی اذیت ناک صورتحال بلکہ سزا سے دوچار کر دیتا ہے جو تمام عمر اس کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیتی، اندر سے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے یہ (Self-inflicted) سزا ہی کافی ہوتی ہے۔ اسی لئے پاکستانی عدالتیں حالات کا معروضی جائزہ لینے کے بعد اگر ایک باپ کو بیٹی کے قتل سے بری کرتی ہیں یا اس کی سزا میں تخفیف کرتی ہیں تو اسے بقول عاصمہ جہانگیر "قتل کا لائسنس" قرار دینا حقائق کا منہ چڑتا اور نظامِ عدل کے تقاضوں کا لحاظ نہ رکھنے کے مترادف ہے۔ جملہ معترضہ کے طور پر یہاں یہ نشاندہی کرنا بھی دلچسپی بلکہ تعجب سے خالی نہ ہو گا کہ عاصمہ جہانگیر کا انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے قوانین سے موت کی سزا کو سرے سے ہی ختم کرنے کا مطالبہ کئی برسوں سے کر رہا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کے متعلق عاصمہ جہانگیر کی طرف سے موت کی سزا کا مطالبہ ایک ایسے فکری تضاد کو ظاہر کرتا ہے جس کا شکار انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار بالعموم نظر آتے ہیں۔
عالم اسلام میں کسی بھی ملک میں "غیرت کے قتل" کو قتل عمد قرار نہیں دیا گیا۔ حتیٰ کہ وہ اسلامی ممالک جہاں مغرب زدہ طبقہ حکمران ہے، وہاں بھی غیرت کے قتل کو قتل عمد سے مختلف سمجھا جاتا ہے اور اس کی سزا میں تخفیف یا استثناء کے اصول کو تسلیم کیا گیا ہے، مثلا اُردن کے مجموعہ تعزیرات (Penalcode) 1960ء کے آرٹیکل 340 کے الفاظ یہ ہیں:
(i)"کوئی شخص جو اپنی بیوی یا محرمات میں سے کسی ایک کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ بدکاری (زنا) کرتے ہوئے اچانک پکڑ لے اور وہ ایک یا دونوں کو قتل، زخمی یا مجروح کر دے، تو وہ ہر طرح کی سزا سے مستثنیٰ ہے"
(ii) کوئی شخص جو اپنی بیوی یا ماں، دادی (Female Ascendants) میں سے کسی ایک کو یا پھر بیٹی پوتی (Female Descendants) جیسے وارثین میں سے کسی ایک کو یا اپنی بہن کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ بستر میں ناجائز حالت میں اچانک پکڑے اور اسے قتل، مضروب یا مجروح کر دے، تو وہ سزا میں کمی کی رعایت (فائدہ) کا مستحق ہو گا"
(Source: Islam and Feminism, Chapter Crime of Honour and the Construction of Gender in Arab Societies, By Lama Abu Odeh)
اُردن کے مجموعہ تعزیرات کا مذکورہ بالا آرٹیکل تاریخی اعتبار سے دو مختلف قانونی ماخذات سے اَخذ شدہ ہے
(i)سلطنتِ عثمانیہ کا مجموعہ تعزیرات 1858ء
(ii) فرانسیسی مجموعہ تعزیرات 1810ء (French Penal code)
سلطنتِ عثمانیہ کے مجموعہ تعزیرات کے آرٹیکل 188 کے الفاظ ملاحظۃ فرمائیے:
"کوئی شخص اپنی بیوی یا محرمات میں سے کسی ایک کو کسی دوسرے فرد کے ساتھ مکروہ زنا کی حالت میں دیکھے، پھر اس پر تشدد یا اسے زخمی کر دے، یا ان میں سے ایک یا دونوں کو قتل کر دے، وہ سزا سے مستثنیٰ سمجھا جائے گا۔ اور وہ جو اپنی بیوی یا محرمات میں سے ایک کو، کسی دوسرے فرد کے ساتھ ناجائز بستر پر دیکھے اور پھر اسے مار دے، زخمی کر دے یا ایک یا دونوں کو قتل کر دے، اسے معاف کر دیا جائے گا" (حوالہ: ایضا)
"اردو کے مجموعہ تعزیرات کے آرٹیکل 340 سے ملتی جلتی دفعات نہ صرف تمام عرب ممالک کے مجموعہ تعزیرات میں شامل ہیں، بلکہ ترکی اور بہت سے یورپی ممالک میں بھی یہی صورتحال ہے۔ مثلا سپین اور پرتگال میں ایسی دفعات اب تک ان کے قانونی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ اٹلی میں یہ دفعہ حال ہی میں یعنی 1979ء میں ختم کی گئی اور فرانس میں یہ شق مجموعہ تعزیرات سے 1975ء میں نکالی گئی" (حوالہ: ایضا)
"غیرت" کے سبب سے قتل کے نتیجہ میں قاتل کو سزا میں تخفیف یا استثنا کن صورتوں میں دیا جانا چاہئے؟ عرب ممالک کے مجموعہ ہائے تعزیرات میں ان اُمور کی تشریح میں معمولی سا اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ نے اس کے نفاذ کو بدکاری کی عملی صورتوں تک محدود کر دیا ہے۔ مثلا مصر، تیونس، لیبیا اور کویت وغیرہ۔ اور ایسی صورت میں وہ سزا میں صرف کمی کو ہی روا سمجھتے ہیں نہ کہ مکمل رعایت (Exemption) کو جبکہ بعض دوسرے اسلامی ممالک کے قوانین اس کے نفاذ کے لئے "ناجائز بستر" (Unlawful Bed) تک اس کو وسعت دیتے ہیں مثلا شام، لبنان وغیرہ۔ ان ممالک میں "ناجائز بستر" میں پکڑے جانے کی صورت میں قتل کرنے کی سزا میں "کمی" جبکہ زنا کی صورت میں مکمل استثنا کی بات کی گئی ہے۔ عراق کا "کوڈ" اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ دونوں صورتوں یعنی "زنا" اور "اپنے آشنا کے ساتھ بستر میں موجودگی" کے متعلق سزا میں صرف تین سال کی "کمی" کی رعایت دیتا ہے۔ مذکورہ اختلافات اپنی جگہ، لیکن یہ امر واضح ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک میں غیرت کی وجہ سے کئے جانے والے قتل کو قتل عمد سمجھتے ہوئے موت کی سزا نہیں دیتی۔
'عزت کے جرائم' کے متعلق ایک اور پہلو بھی اہم ہے۔ وہ یہ کہ ان جرائم میں فائدہ اٹھانے کا مستحق کون ہے؟ عرب ممالک میں اس مسئلہ کے متعلق ماہرین قانون، فاضل علماء اور عدالتوں کے قاضی صاحبان تواتر سے اظہارِ خیال کرتے رہتے ہیں۔ مختلف ممالک میں اس پہلو پر مختلف تشریحات ملتی ہیں۔ شام اور لیبیا کے قوانین کے مطابق خاوند، بیٹا، باپ اور بھائی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن اُردن کے مجموعہ تعزیرات میں چونکہ "محرمات" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور محرمات میں وہ تمام عورتیں شامل ہیں جن سے ایک مسلمان مرد کا نکاح نہیں ہو سکتا۔ لہذا اُردن میں مذکورہ بالا چار رشتوں کے علاوہ بھی دیگر محرم مرد "عزت کے جرائم" میں سزا کی کمی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مصر، کویت اور تیونس کے مجموعہ ہائے تعزیرات نے شادی شدہ عورت کی صورت میں اس رعایت کو صرف "خاوند" تک محدود رکھا ہے۔ الجیریا کے قانون میں 'عزت کے جرائم' کے ضمن میں "خاوند" کے ساتھ "بیوی" کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یعنی اگر ایک بیوی اپنے خاوند کو کسی دوسری عورت کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھے اور پھر اشتعال میں آ کر اسے قتل کر دے تو اسے بھی سزا میں 'کمی' یا استثنا کی رعایت ملے گی۔ (فیمنزم اینڈ اسلام، صفحہ 144)
غیرت کے جرائم میں سزا کی کمی یا مکمل رعایت حکمت سے خالی نہیں ہے۔ اسلام نے صرف قتل عمد میں 'حد' جاری کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ غیرت کے قتل میں صرف تعزیر کو ہی کافی سمجھا ہے اور اس صورت میں "مباح الدم' (جن کا خون جائز ہو) کی شرط بھی قائم کی ہے۔ عرب ممالک کے مبصرین نے مذکورہ بالا ضابطے کو پر از حکمت قرار دیتے ہوئے اسے عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق قرار دیا ہے۔ مصر، جس کی عدالتوں کے فیصلے بیشتر اسلامی ممالک میں بطورِ نظیر پیش کئے جاتے ہیں اور جہاں 'تجدد' بھی نسبتا زیادہ ہے، وہاں کی عدالتوں نے بھی اس ضابطے کو برقرار رکھنا مناسب سمجھا ہے۔ مصر کے معروف ماہر قانون شیخ عبدالحمید شاوربی نے 'غیرت کے جرائم' کے بارے میں مصری کوڈ کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے:
"مجلس قانون ساز نے ایسا خاوند جس کی آبرو کا جنازہ نکال دیا گیا ہو جو اس کی قیمتی ترین متاع تھی، کی نفسیاتی حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کی ہے۔ اس لمحے جب وہ اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے اچانک پکڑے گا، بلاشبہ اس کی عقل اور ہوش و حواس جاتے رہیں گے ۔۔ وہ اپنی بیوی اور اس کے آشنا کو قتل کر دے گا"
(Source: feminisom and Islam: Article “on Aggravating and extenuating circumstance, Alexendria)
بدکاری کے علاوہ ایک دوسرا جرم جو عرب ممالک میں بالخصوص اور بعض دیگر مسلم ممالک میں بالعموم "عزت کے جرائم" میں شامل سمجھا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ سہاگ رات کو لڑکی اگر کنواری (Virign) نہ پائی جائے، تو اس کا بھائی یا باپ اس کو قتل کر دیتا ہے۔ بعض ملکوں میں اسے صرف طلاق دے دی جاتی ہے، مثلا ایران میں۔ قدرت نے مرد کے ساتھ ساتھ عورت کی 'آبرو' کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ شادی سے پہلے اگر کوئی مرد بدکاری کا مرتکب ہوتا ہے، تو اس کا تعین مشکل ہے لیکن عورت کے ضمن میں ایسا نہیں۔ قدرت نے عورت کے جسمانی نطام میں ایک خاص حصے کو اس کی "کنوارگی" کے تحفظ کی علامت کے مؤثر "چیک" کی صورت میں رکھا ہے۔ اگرچہ جدید سائنس نے بعض استثنائی صورتوں کے اِمکان کو بھی ظاہر کیا ہے لیکن عام قاعدہ کلیہ وہی ہے ۔۔ اس ضمن میں عرب روایات اور مغرب زدہ خواتین دونوں کا طرز عمل انتہا پسندانہ ہے۔ ایک طرف عرب معاشرہ کسی کنواری لڑکی کو کوئی "الاؤنس" دینے کو تیار نہیں، دوسری طرف جدید طبقہ کنوارگی کے اس فطری "چیک" کو مکمل طور پر اُڑا دینا چاہتا ہے۔ اگر اولُ الذکر کے غیر لچکدار موقف کو درست تسلیم کر لیا جائے تو بعض بے قصور لڑکیوں کے قتل کا احتمال باقی رہے گا۔ اگر جدید طبقہ کی بات کو درست قرار دیا جائے تو پھر کنواری لڑکیوں میں جنسی بے راہروی کے روکنے کے لئے ایک مؤثر "چیک" سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ عرب ممالک کے قوانین نے مسلکِ اعتدال کو اپنایا ہے۔ چنانچہ وہاں "کنوارگی" کے بارے میں قتل کو "غیرت کے جرائم" سمجھ کر ملزم کو رعایت کا مستحق نہیں سمجھا جاتا۔ البتہ اس معاملے میں جسمانی تشدد، جارحانہ تنقید یا کسی بھی وجہ سے ایسی مشکوک لڑکی کا ناطقہ بند کرنے کو غیر قانونی یا برا عمل نہیں سمجھا جاتا۔
مندرجہ بالا تفصیلات کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالنا کہ جن کا جب جی چاہے، اس رعایت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، مغالطہ آمیز ہو گا۔ بعض مسلم ماہرین قانون نے مندرجہ بالا آرٹیکل کے عمل درآمد کے لئے تین شرائط کی تکمیل کو بھی ضروری قرار دیا ہے مثلا
(i)ملزم کا مقتولہ سے رشتہ (خاوند، بھائی، بیٹا)
(ii) عورت کا بدکاری کرتے ہوئے اچانک رنگے ہاتھوں پکڑا جانا۔
(iii) قتل کا اقدام بدکاری دیکھنے کے فورا بعد اور فوری اشتعال کا نتیجہ ہو۔
اگر کسی مقدمہ میں یہ شرائط پوری ہوتی ہوں تو عرب ممالک میں عام طور پر اسے "غیرت کا جرم" سمجھتے ہوئے ملزم کو رعایت کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ مصر کی عدالت نے ایک مقدمہ میں فیصلہ سنایا کہ "جب ایک بیوی اپنے خاوند کے ہاتھوں اس طرح پکڑی جائے کہ اس کا یر جامہ اس کے آشنا کے ساتھ پڑا ہو، اس حقیقت کے باوجود کہ خاوند نے ان دونوں کو عملا بدکاری کرتے نہیں دیکھا، پھر بھی خاوند کو سزا میں کمی کی رعایت دی جائے گی۔" (حوالہ: ایضا)
پاکستان کے مجموعہ تعزیرات کے مطابق بھی عزت کے قتل اور فوری اشتعال کے نتیجہ میں کئے جانے والے قتل کو "قتل عمد" کی بجائے "قتل خطا" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 1860ء سے لے کر اب تک ان قوانین کی تعبیر و تشریح اور اطلاق میں تسلسل پایا جاتا ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے سینکڑوں فیصلہ جات ریکارڈ پر ہیں جس میں غیرت کے قتل کو "قتل عمد" نہیں سمجھا گیا۔ ان فیصلہ جات میں سے ایک فیصلہ جو 26 نومبر 1997ء کے اخبارات میں رپورٹ ہوا، ملاحظہ فرمائیے:
"عدالتِ عالیہ لاہور کے مسٹر جسٹس خالد رانجھا اور مسٹر جسٹس افتخار چوہدری نے ایک شخص 'صاحب' کی سزائے موت ختم کر کے اسے مقتول کے ورثا کو دیت کی رقم ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ قصاص و دیت آرڈیننس کے تحت بھی ایسا قتل جو کسی منصوبہ بندی کی بنا پر نہ ہوا ہو اور جس میں غیرت کا معاملہ شامل ہو، 'قتل عمد' قرار نہیں پائے گا اور قاتل کو قتل خطا کے جرم کے تحت سزا دی جائے گی۔ ایڈووکیٹ سردار لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ملزم صاحب نے ایک شخص ملازم حسین کو اپنے گھر کے سامنے پیشاب کرنے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے بے پردگی ہوتی ہے جس پر اس شخص نے کان نہ دھرا ۔۔ ملزم نے فوری اشتعال کے تحت درانتی سے وار کیا، ایک وار سے ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔ یہ قتل عمد نہیں ہے، اس لئے اس کی سزا معاف کرتے ہوئے اسے رہا کر دیا جائے۔ عدالتِ عالیہ نے قرار دیا ہے کہ فوری اشتعال اور غیرت کے مسئلہ پر قتل قصاص و دیت آرڈیننس کے تحت بھی قتل عمد شمار نہیں ہو گا۔ عدالت نے ملزم کو دیت ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے بری کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں" (روزنامہ "خبریں"، "نوائے وقت" لاہور)
راقم الحروف نے مندرجہ بالا فیصلہ کا انتخاب دو وجوہات کی بنا پر کیا ہے۔ اولا یہ کہ ملزم کے فوری اشتعال کا باعث مقتول کی طرف سے اپنے گھر کے سامنے پیشاب کرنے پر اصرار تھا، یہ عمل خواتین کی عملا بے آبروئی سے کہیں کمتر درجہ کا ہے۔ اگر محض گھر کے سامنے پیشاب کرنے والے شخص کے قتل کو قتل خطا قرار دیا جاتا ہے تو وہ شخص جو کسی غیر مرد کو اپنی کسی عزیزہ کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھ کر اسے قتل کر دیتا ہے، قتل خطا کی سزا کا کہیں  زیادہ مستحق ہے۔ ثانیا، یہ فیصلہ لاہور ہائیکورٹ کے جس ڈویژن بنچ نے دیا، اس میں جناب خالد رانجھا صاحب بھی شامل تھے، جو مختصر مدت کے لئے جج کے عہدہ پر فائز رہے۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ جب مارچ 1999ء کے پہلے ہفتے کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے غیرت کے مسئلہ میں ایک باپ کو اپنی بیٹی کے قتل کرنے کے جرم میں بری کرنے کا فیصلہ سنایا تو یہی خالد رانجھا صاحب، جو آج کل دوبارہ وکالت کر رہے ہیں، ہی تھے جنہوں نے عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلہ کو "قتل کا لائسنس" قرار دیا۔ انسانی حقوق کی نام نہاد علمبردار عاصمہ جہانگیر جو خالد رانجھا صاحب کے مذکورہ فیصلہ پر خاموش رہیں، تازہ ترین فیصلہ کے خلاف سراپا احتجاج بن گئیں۔ عاصمہ جہانگیر کے طرزِ عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیرت کے مسئلہ پر اگر مقتول مرد ہو اور اس کے قاتل کو بری کر دیا جائے تو اس پر بظاہر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا، البتہ اگر مقتولہ کوئی فیشن ایبل خاتون ہو تو یہ ایسا معاملہ ہے جس کے لئے آسمان سر پر اٹھا دیا جاتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر اور اس کی حواری بیگمات کا یہ دعویٰ بھی خلافِ حقیقت ہے کہ غیرت کے نام پر تمام جرائم صرف عورتوں کے خلاف جرائم ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کا انسانی حقوق کمیشن محض مقتولہ عورتوں کے اعداوشمار جمع کرنے میں ہی دلچسپی لیتا ہے ورنہ عام مشاہدہ اور اخباری رپورٹیں یہی بتاتی ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والوں میں مردوں کا تناسب عورتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ مقتول مردوں کی اچھی خاصی تعداد تو وہ ہوتی ہے جنہیں محض عورتوں کو چھیڑنے سے منع کرنے پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں بھی غیرت کے نام پر قتل کا زیادہ تر شکار مرد ہی ہوتے ہیں۔ عورتوں کی عزتوں پر حملے کے بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن میں عورت کی رضا کو قطعا دخل نہیں ہو گا، ایسے معاملات میں عورتوں کو کچھ نہیں کہا جاتا۔
مزید برآں یہاں یہ وضاحت بھی اَشد ضروری معلوم ہوتی ہے کہ غیرت کے قتل کے متعلق سزا میں تخفیف یا استثنا کا فائدہ صرف مردوں کو ہی نہیں ملتا، اس سے الزام علیہ عورتیں بھی فائدہ اٹھاتی ہیں۔ 15 مارچ 1998ء کو ہدایت بی بی نامی ایک عورت نے پشاور میں اپنی عزت کے تحفظ کے لئے اپنے شوہر اور ایک پولیس افسر کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ یہ معروف واقعہ شہ سرخیوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنا رہا۔ 25 اکتوبر 1998ء کو عدالت نے اس مشہور واردات قتل کا فیصلہ سنایا۔ 26 اکتوبر کے اخبارات نے اسے یوں رپورٹ کیا:
"عدالت نے عزت بچانے کی خاطر پولیس افسر اور شوہر کو فائرنگ سے ہلاک کرنے والی غریب آباد (پشاور) کی ہدایت بی بی کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے اسے باعزت طور پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ ایک عورت کے پاس عزت سے بڑی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جب اس کی عزت پر انچ آ رہی ہو تو پھر وہ اس کے بچاؤ کے لئے ہر اقدام کر سکتی ہے" (جنگ، لاہور)
اس معاملے کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھنا مفید ہو گا ۔۔ بالفرض غیرت کے قتل کو اگر قتل عمد قرار دئ دیا جائے، تو اس کا زیادہ تر نقصان عورتوں کو ہی ہو گا۔ بہت سے مرد سزائے موت کے خوف سے اپنی عورتوں کی حفاظت کے لئے حملہ آور مردوں کو قتل کرنے سے باز رہیں گے جس سے عورتوں کی آبرو پر  حملہ کی واردات میں اضافہ ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔ ہدایت بی بی جیسی بہت سی عورتیں جو اپنی آبرو کی حفاظت کی خاطر حملہ آور مردوں کو قتل کر دیتی ہیں، وہ بھی اس رعایت سے محروم رہیں گی ۔۔ عاصہ جہانگیر نے ہدایت بی بی کے اس جراءت مندانہ اقدام کو سراہا نہ ہی اس کے باعزت رہا ہونے پر کوئی اعتراض کیا۔ ہدایت بی بی جیسی غیور، اسلامی مزاج رکھنے والی غریب عورتیں انسانی حقوق کمیشن کی توجہ کی مستحق کم ہی سمجھی جاتی ہیں۔ اس کمیشن نے تو صرف گھر سے فرار ہونے والی آبرو باختہ لڑکیوں کے حقوق کا مغرب سے ٹھیکہ لے رکھا ہے۔
عاصہ جہانگیر کا نام نہاد انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے اندرونی سندھ اور جنوبی پنجاب کے بعض قبائلی علاقوں کے متعلق "کاروکاری" کے واقعات مبالغہ آمیز اعدادوشمار شائع کرتا رہتا ہے۔ ان کی رپورٹ پڑھ کر تو گماں گزرتا ہے گویا 'کاروکاری' کے واقعات ایک دن میں کئی کئی مرتبہ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِکا دُکا واقعات کو تشہیر دے کر عاصمہ جہانگیر پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم چلا رہی ہیں۔ "کاروکاری" کو ذیرہ غازی خان اور راجن پور کے قبائل علاقوں میں "کالا کالی" کی رسم کہا جاتا ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ ماضی میں ان علاقوں کی عورت اور مرد کو بدکاری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جاتا، تو عورت کا خاندان اسے "کالی" قرار دے کر قتل کر دیتا اور مجرم مرد کے خاندان سے مطالبہ کیا جاتا کہ وہ اسے "کالا" قرار دے کر قتل کر دے۔ اگر وہ اپنے مرد کو قتل نہ کرتے تو عورت کا متاثرہ خاندان موقع پا کر اسے بھی قتل کر دیتا۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں "کالا کالی" کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اندرونِ سندھ میں بھی اس کا تناسب وہ نہیں ہے جس کا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ "کالا کالی" کے حق میں اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ یہ رسم محض عورتوں کے خلاف نہیں ہے، مردوں کو بھی اس قبائلی سزا سے گزرنا پڑتا ہے۔ دراصل بعض قبائل نے بدکاری کی لعنت کے خاتمہ کے لئے صدیوں سے اس سزا کے رواج کو برقرار رکھا ہے۔ اس کا اصل جذبہ محرکہ عورت کی آبرو کا تحفظ ہی ہے۔ قبائلی روایات کا یہ خودکار نظام ہے جو پولیس کے بغیر ایسے علاقوں میں اخلاقی جرائم کی روک تھام کے لئے مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔
اب آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ مسئلہ زیر بحث کے متعلق اسلامی احکامات کی نوعیت کیا ہے؟
اس میں شک نہیں غیرت کے جوش میں آ کر اپنی عورتوں کو قتل کر دینے کا اسلام حکم نہیں دیتا۔ لیکن یاد رہے کہ اسلام حمیت کے جوش میں کئے جانے والے قتل اور قتل عمد میں فرق روا رکھتا ہے۔ اسلامی فقہاء کی عظیم اکثریت غیرت کے فوری اشتعال کے نتیجے میں ہونے والے قتل کو عام قتل کی طرح قابل مؤاخذہ نہیں سمجھتی ۔۔ تمام دنیا میں فوری اشتعال (Sudden Provocation) کے نتیجہ میں کئے جانے والے جرائم بالخصوص عزت کے جرائم کو بالکل مختلف تناظر میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں ایک باپ یا خاوند کو اپنی بیٹی یا بیوی کو قابل اعتراض حالت میں دیکھ کر قتل کئے جانے والے واقعات میں نرم سزا دیتی یا بری کر دیتی ہیں، تو یہ اسلام کے جرم و سزا کے نظام کے عین مطابق ہے۔ ایسے فیصلہ جات کے خلاف NGOs یا عاصمہ جہانگیر کا واویلا بے بنیاد ہے۔
غیرت کے جوش میں آ کر اپنی عورتوں کو قتل کر دینے کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ خود حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے دوران بھی یہ مسئلہ بڑے شدومد سے زیر بحث رہا ہے۔ اسلام نے پاکدامن عورتوں پر بے جا الزام تراشی کرنے والوں پر حدِ قذف جاری کرنے کا حکم دیا۔ قذف کا مسئلہ عام طور پر دوسری عورتوں کے لیے تھا۔ اچانک یہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ ایک خاوند اپنی بیوی کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھے تو اس کا کیا حکم ہے۔ اس وقت تک آیتِ لعان ابھی نازل نہیں ہوئی تھی۔ جیسا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ سورہ نور کی آیت نمبر 10 کی تشریح کرتے ہوئے رقم طرز ہیں:
"حدِ قَذَف کا حکم جب نازل ہوا تو لوگوں میں یہ سوال پیدا ہو گیا کہ غیر مرد اور عورت کی بدچلنی دیکھ کر تو آدمی صبر کر سکتا ہے، گواہ موجود نہ ہون تو زبان پر قفل چڑھا لے اور معاملے کو نظر انداز کر دے۔ لیکن وہ اگر اپنی بیوی کی بدلچنی دیکھ لے تو کیا کرے؟ قتل کر دے تو الٹا سزا کا مستوجب ہو۔ گواہ ڈھونڈنے جائے تو ان کے آنے تک مجرم کب ٹھہرا رہے گا۔ صبر کرے تو آخر کیسے کرے۔ طلاق دے کر عورت کو رخصت کر سکتا ہے، مگر نہ اس عورت کو کسی قسم کی مادی یا اخلاقی سزا ملی، نہ اس کے آشنا کو۔ اور اگر اسے ناجائز حمل ہو تو غیر کا بچہ الگ گلے پڑا۔ یہ سوال ابتداء تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے ایک فرضی سوال کی حیثیت میں پیش کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں اگر خدانخواستہ اپنے گھر میں یہ معاملہ دیکھو تو گواہوں کی تلاش میں نہیں جاؤں گا بلکہ تلوار سے اسی وقت معاملہ طے کر دوں گا (بخاری و مسلم) لیکن تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ بعض ایسے مقدمات عملا پیش آ گئے جن میں شوہروں نے عملا یہ معاملہ دیکھا ۔۔ ہلال بن اُمیہ نے آ کر اپنی بیوی کا معاملہ پیش کیا جسے انہوں نے بچشم خود ملوث دیکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ثبوت لاؤ، ورنہ تم پر حدِ قذف جاری ہو گی" صحابہ رضی اللہ عنہم میں اس پر عام پریشانی پھیل گئی۔ اور ہلال نے کہا: اس خدا کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے! میں بالکل صحیح واقعہ عرض کر رہا ہوں جسے میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ میرے معاملے میں ایسا حکم نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ بچا دے گا اس پر آیتِ " لعان " نازل ہوئی ۔۔" (بخاری، ابوداود)
لعان اسلامی شریعت میں قانونی اصطلاح ہے جس کی روشنی میں الزام لگانے والے خاوند اور الزام علیہ بیوی کو، خدا کو گواہ بنا کر پانچ پانچ مرتبہ اپنی بات کے ثبوت میں قسمیں کھانی پڑتی ہیں۔ اگر دونوں پانچ پانچ قسمیں کھا لیں تو ان میں جدائی کرا دی جاتی ہے۔ ہلال بن اُمیہ کی بیوی کے معاملے میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی طریقہ اختیار فرمایا تھا۔ تفریق کے بعد وضع حمل کی صورت میں پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ ہلال بن امیہ کی بیوی کے وضع حمل کے بعد دیکھا گیا کہ اس کے بچہ کی صورت اس شخص سے ملتی تھی جس کے بارے میں اس پر الزام لگایا گیا تھا۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر قسمیں نہ ہوتیں (یا خدا کی کتاب ہی فیصلہ نہ کر چکی ہوتی) تو میں اس عورت سے بری طرح پیش آتا"
آیتِ لعان کے ضمن میں شریعت کے اصولوں پر بحث کرتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"جو شخص بیوی کی بدکاری دیکھے اور لعان کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے قتل کا مرتکب ہو جائے، اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل کیا جائے گا کیونکہ اس کو بطورِ خود حد جاری کرنے کا اختیار نہ تھا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے فعل پر کوئی مواخذہ ہو گا بشرطیکہ اس کی صداقت ثابت ہو جائے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اسحٰق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس اَمر کے دو گواہ لانے ہوں گے کہ قتل کا سبب یہی تھا۔ لعان سے پہلوتہی کرنے والی عورت کے بارے میں ائمہ کی رائے یہ ہے کہ اسے سنگسار کر دیا جائے۔"
اسلام کے نظامِ عفت و عصمت کا مطالعہ کیا جائے تو اسلامی معاشرے میں غیرت و حمیت کے معاملہ میں جذباتی ردِ عمل ایک فطری بات نظر آتی ہے۔ خاندانی آبرو کی تلافی یا تباہی کا احساس ایک غیور انسان کو اندر سے ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں بھی اسلام کی منشا اور ترجیح عورتوں کے فوری قتل کی بجائے اسلام کے بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق عمل کرنا ہے۔ لیکن جذبات کی شدت میں ہر آدمی سے صبروتحمل کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ واقعہ اِفک کے معاملہ میں رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تقریبا ایک ماہ تک شدید متاثر رہے تھے۔ جب تک کہ آیاتِ براءت نازل نہ ہوئیں حالانکہ آپ کو ان الزامات کے غلط ہونے پر سو فیصد یقین تھا۔ آپ نے صبروتحمل فرمایا لیکن ایک عام مسلمان کا رویہ بالکل وہی ہوتا ہے جس کا اظہار سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں کا ایک اہم سبب شرعی حدود کے نفاذ میں موتاہی بھی ہے۔ جب لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ ریاستی مشینری بالکل غیر مؤثر ہے تو وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔
غیرت کے جرائم (Crime of Honour) کا ارتکاب مختلف تناسب کے ساتھ تقریبا ہر معاشرہ میں کیا جاتا ہے۔ یورپ و امریکہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ آج سے دو سال قبل امریکہ میں مشہور کھلاڑی او۔جے سمپسن (O.J. Simpson) کا مقدمہ بنیادی طور پر "غیرت کا قتل" کا مقدمہ تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو ایک دوسرے شخص کے ساتھ دیکھا تو غصہ پر قابو نہ پاتے ہوئے دونوں کو ڈھیر کر دیا۔
ایک معروف امریکی رسالہ میں امریکی فلمی ہیرو (Van Dam) کا ایک انٹرویو شائع ہوا جس میں ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ "اگر وہ اپنی بیوی کو کسی مرد کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھے، تو یا تو اپنی بیوی کو قتل کر دے گا یا اپنے آپ کو" ۔۔ دراصل غیرت کے معاملے میں اشتعال میں آنا انسانی فطرت میں شامل ہے۔ اس معاملہ کو سماجی اقدار کا حصہ کبھی نہ بنایا جاتا اگر یہ انسانی فطرت سے متصادم ہوتا۔
یورپ و امریکہ میں اگر غیرت کے جرائم مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے تو پاکستانی معاشرت میں ان کے صدور کے امکانات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ غیرت کے نام پر قتل دراصل ردعمل ہے ایک ناپسندیدہ عمل کا۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جب تک ایک عمل کو ختم نہیں کر لیا جاتا، اس کے ردعمل پر قابو پانا ممکن نہیں ہوتا۔
پاکستان کی NGOs کی بیگمات اگر غیرت کے نام پر قتل کی واردات کی روک تھام میں کسی بھی اعتبار سے سنجیدہ ہیں تو انہیں اس کے اسباب و عوامل پر غور کرنا چاہئے۔ انہیں غیرت و حمیت کا جنازہ نکالنے کی بجائے پاکستانی معاشرہ سے فحاشی، عریانی اور شہوت رانی کے سدباب کے لئے کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں۔ انہیں گھر سے فرار ہو کر آنے والی لڑکیوں کو تحفظ دینے کی بجائے نوجوان لڑکیوں کی اخلاقی تربیت کے مراکز قائم کرنے چاہئیں۔ ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ وہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف چلائی جانے والی مہم کی آڑ میں درحقیقت "غیرت" کو ہی "قتل" کرنے کے درپے ہیں۔
آخر میں ہم حکومت پاکستان سے گزارش کریں گے کہ وہ مغرب زدہ بیگمات کے مٹھی بھر ٹولہ کے اس مطالبہ کو درخور اعتباہی نہ سمجھے کہ غیرت کے نام پر قتل کو "قتل عمد" قرار دیا جائے۔ پاکستان کے محب، وطن دانشوروں کو پاکستانی عوام کو بے حمیت بنانے کی خطرناک سازش کو ناکام بنانے کے لئے جوابی مزاحمتی تحریک برپا کرنی چاہئے۔ پاکستانی عدلیہ کے فاضل جج صاحبان مغربی سرمایہ سے چلنے والے ملک دشمن NGOs کے دباؤ سے آزاد رہتے ہوئے خالصتا اسلامی تعلیمات اور ہماری شاندار سماجی اقدار کی روشنی میں عدل و انصاف کا پرچم  بلند رکھیں۔