نکاح میں والدین کا کردار...
نکاح میں والدین کا کردار اور اولاد کے فرائض
حالیہ چند دنوں بعض اسلام بیزار خواتین کے اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے اور اسلام کے خاندانی نظام پر حملہ کرنے کی مذموم کوششوں کے بعد مسئلہ نکاح کے اسلامی احکام نمایاں کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ عدالتِ عالیہ کے مسلسل فیصلہ جات نے بھی اس ضرورت کو اجاگر کیا ہے ۔۔ اس خاص مرحلہ پر چند مخصوص احکامِ اسلامیہ کی بجائے بیسیوں ایسے عوام اور رویے ہیں جن کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے جن میں اسلامی دلایت عامہ و خاصہ کا تصور، حضانت و کفالت کے مسائل، صلہ رحمی اور اطاعتِ والدین کے احکام، اولی الامر کی ذمہ داریاں اور اولاد کے فرائض کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشروں میں صدیوں سے چلے آنے والی قدروں کو بھی اہم حیثیت حاصل ہے۔
زیر نظر مضمون یوں تو خواتین کے ایک اسلامی جریدہ میں چھپنے والی ایک مختصر تحریر کے ردعمل میں لکھا گیا لیکن حسن اتفاق سے اس میں مرحلہ نکاح پر اسلامی تقاضوں کے متعدد اہم گوشے، خاص موزونیت کے ساتھ اجاگر ہو رہے ہیں اور یہ بذات خود ایک مستقل مضمون کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ چونکہ معاملہ بڑا وسیع الاطراف اور سنجیدہ نوعیت کا ہے لہذا اس میں طوالت سے بچنے کے لئے زیادہ تر اشاروں اور حوالہ جات ذکر کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے ۔۔ محدث کے قارئین کے اعلیٰ علمی معیار اور خاص علمی ذوق کی بنا پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس سے بخوبی استفادہ کر سکیں گے، ان شاءاللہ، اسی مسئلے کے چند ایک مزید مباحث کو طوالت کے خوف سے کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھا گیا ہے ۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔ آمین!
خواتین میگزین، مارچ 99ء کا شمارہ میرے پیش نظر ہے جس میں نکاح میں "ولی کے کردار اور اولاد کی ذمہ داری" کے موضوع پر محترمہ امِ عمارہ صاحبہ نے روشنی ڈالی ہے۔ یہ موضوع اسلامی معاشرے کا ایک سنجیدہ اور دقیق تر موضوع ہے۔ جس میں اگر اسلام کے متوازن و معتدل رویے کو دِقت نظر سے نہ سمجھا جائے تو لامحالہ افراط و تفریط پر مبنی صورت حال سے دوچار ہونا پڑے گا۔ خواتین میگزین میں جو تعلیم یافتہ خواتین میں اسلامی جذبے کی آبیاری اور اسلامی حمیت و غیرت کی خوب خوب پاسداری کر رہا ہے اور دورِ حاضر کے الجھے مسائل میں خاتونِ مسلم کو اسلام کی سچی تعبیر کی روشنی مہیا کر رہا ہے، اس موضوع پر ضروری ہے کہ تفصیل سے، آزادانہ بنیادوں پر بحث و تمحیص کی جائے اور اس کے تمام پہلو زیر بحث لائے جائیں تاکہ اس حوالے سے جہاں اسلام کے قابل فخر خاندانی نظام کے مخفی گوشے اُجاگر ہو سکیں وہاں یہ روحانی تعلیمات پاکستانی قوم کے گھریلو اطمینان و سکون اور خواتین میں دلی اطمینان و ایقان کا بھی باعث ہوں۔ مجھے بڑے افسوس سے اس اَمر کا اظہار کرنا پڑ رہا ہے کہ اس موضوع پر زیرنظر مضمون میں پیش کردہ رائے ایک طرف توازن و اعتدال سے عاری ہے تو دوسری طرف اس گھمبیر موضوع کے ضروری تقاضے بھی پورے نہیں کرتی۔ عجب بات یہ ہے کہ خواتین میگزین جس مخصوص طرزِ فکر کی ترجمانی کرتا ہے، اس کے اکابر کی آراء بھی اس مضمون میں پیش کردہ رائے سے مختلف ہیں۔ نہ معلوم اس تضاد کو کیوں محسوس نہیں کیا گیا ۔۔ نکاح میں ولی کا کردار ایک کثیر الجہت موضوع ہے جس کے مختلف پہلوؤں کو ہی سامنے رکھ کر اس معاملے میں اسلامی نقطہ نظر سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ موضوع خواتین میگزین کی فکری عمارت کا بنیادی اینٹ ہے، جس کے ماننے یا نہ ماننے سے خواتین میں اباحیت پسندی یا اسلام پسندی کا امتیاز ہو جاتا ہے۔
وَلی کون؟
سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ وَلی کا مفہوم سمجھا جائے۔ انگریزی میں چونکہ اس کا ترجمہ Gaurdian کیا جاتا ہے اور عربی میں بھی یہ لفظ مختلف سابقوں، لاحقوں کے ساتھ بعض اوقات غلام و آقا کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ اس لفظ کو پڑھتے ہی یہ تصور اُبھرتا ہے جیسے ایک سخت گیر شخص اپنے زیردست خواتین کے اُمور میں آزادانہ تصرف کا اختیار رکھتا ہے۔ جب کہ ولی سے مراد اس موقعہ پر وہ سب سے قریبی مرد ہے جو خون، نسب، جذبات اور ذمہ داری ہر لحاظ سے کسی عورت کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے عورت کے والدین، ان کی عدم موجودگی میں چچا، ماموں، حتیٰ کے بعض صورتوں میں عورت کی اولاد وغیرہ بھی عورت کے ولی ہوتے ہیں۔ چونکہ فی زمانہ تحریکِ نسواں اپنے بامِ عروج پر ہے اور اس کے افکار کی ہر آزاد خیال دانشور جگالی کر رہا ہے، اس لیے انہی مفروضوں کو بار بار سننے کی بنا پر کسی عورت پر اس کے صنفِ مخالف کے کسی فرد کی ذمہ داری چاہے وہ اس کا والد یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو، فورا ہمارے ذہنوں میں صنفی جبرواستبداد کو تازہ کر دیتی ہے۔ چنانچہ مردوں کی اس ذمہ داری کو اچھے رنگ میں لینے کی بجائے فورا منفی تاثرات جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب کہ اس قدر قریبی خونی رشتہ داروں کی بابت رحم دلی اور خلوص و محبت کے ماسوا دوسرے غاصبانہ کردار کی توقع عام مشاہدے کی رو سے بہت کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں والدین کا مشفقانہ کردار دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
عورت کو ولی کی ضرورت کیوں؟
اس امر کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ ۔۔ اس سوال کے جواب سے پہلے مرد و عورت کے صنفی تجزیے کو سامنے رکھنا اور کارزارِ حیات میں ان کے کردار کو پیش نظر رکھنا اشد ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تجزیے اکثریت اور عام مشاہدے کی بنا پر ہی حاصل ہوتے ہیں، استثنائی مثالوں یا نوادرات سے عام رویے اور مزاج نہیں بدلا کرتے۔
خواتین میں عموما جذبات کا غلبہ ہوتا ہے، وہ جذباتیت پسند واقع ہوئی ہیں اور یہ ان کی فطرت کا خوبصورت پہلو ہے۔ یہی وہ غلبہ ہے جو انہیں ماں بننے اور دوسروں کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے پر آمادہ رکھتا ہے۔ قرآن کریم خواتین کی ایک دوسری صفت یہ بیان کرتا ہے اور وہ یہ کہ خواتین مردوں کی بنسبت اپنی جبلت و فطرت کی بنا پر بیک وقت ایک معاملے میں منفی اور مثبت پہلوؤں پر معتدلانہ نظر نہیں رکھ سکتیں، جھگڑا یا اختلاف کے موقع پر بھی دو ٹوک انداز میں مسئلہ کا ادراک کر کے اپنے موقف کو پیش کرنے کی بجائے غیر واضح تر اور جذبات سے مغلوب ردعمل پیش کرتی ہیں۔ (الزخرف: 18)
اسی طرح مردوں کے اس معاشرے میں جہاں اسلام دو اصناف کو ایک خاص فاصلے پر رہنے کی تلقین کرتا ہے، مرد کی بنسبت خواتین صنفِ مخالف کی پوری پوری چھان پھٹک کرنے پر قادر نہیں ہو سکتیں۔ علاوہ ازیں خواتین میں فطری شرم و حیا کے سبب اپنے آپ کو نکاح کے لیے پیش کرنا بھی شدید معیوب سمجھا جاتا ہے اور بالفرض اس وقت جبکہ عورت کی طرف سے نکاح کی پیشکش پر مرد اسے قبول نہ کرے تو اس عورت کا رد عمل اور استعال پردہ تخیل میں بھی بآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ خواتین کے بارے میں یہ امر بھی معروف ہے کہ ان میں مردوں کے مقابلے میں خاندانی غیرت و حمیت بھی کم ہوتی ہے کیونکہ اپنے نسبی خاندان سے انہیں جلد ہی سسرالی خاندان کی طرف منتقل ہونا ہوتا ہے اگر ان میں نسلی خاندان سے لگاؤ زیادہ ہو تو نئے گھر اور خاندان میں ان کا بس جانا ایک ناممکنُ الوقوع امر متصور ہوتا۔ بالخصوص رشتہ نکاح کے بارے میں خواتین شدید جذباتی ہوتی ہیں اور ان ے مرد کے دامِ فریب میں بآسانی آنے کے امکانات بہت قوی ہوتے ہیں ۔۔ یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں کہ اسلام نے اس معاملے میں ان کے قریب ترین مرد حضرات کو ان کی مدد کا حکم دیا ہے کہ عورتیں اپنا معاملہ خود طے کرنے کی بجائے اپنے والدین کے توسط سے طے کرائیں۔ اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ مرد کے توسط سے ہونے والے معاملے میں آئندہ بصورتِ اختلاف عورت کو قانونی و معاشرتی جنگ لڑنی آسان ہو جائے گی۔ خدانخواستہ اگر اسے واپس طلاق یافتہ صورت میں لوٹنا پڑتا ہے تو اپنے والدین کے دامِ عافیت میں وہ دوبارہ سر چھپا سکے گی۔ یہی والدین دوبارہ اس کے نان و نفقہ اور مناسب بر کی تلاش میں اس کی مدد کریں گے۔
ولی/والدین کے کردار کی حد بندی
"حیاتِ انسانی کی فلاح" کا عادلانہ تعین، انسان کے بس سے باہر کی چیز ہے۔ انسان اپنے تجربے و مشاہدے کی بنیاد پر اگر ایک پہلو کو ترجیح دیتا ہے تو دوسری طرف دوسرا پہلو بالکل نظر انداز کر دیتا ہے، یورپ اور امریکہ کی کہانی اسی پریشان فکری کی مظہر ہے۔ انہوں نے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا محتاج اور غلام دیکھا اور ان کے معاشرے نے صدیوں اس کی بھیانک مثالیں پیش کیں تو انہوں نے افراط و تفریط کا شکار ہو کر دوسری جانب حقوقِ انسانی کا ڈھونڈورا پیٹ دیا۔ جس کے شور میں فرائض کا تذکرہ فکروذہن سے اوجھل ہو گیا۔ آج حقوقِ انسانی کے بلند بانگ دعوؤں اور نعروں میں مغرب ایک دوسری انتہا کو چھو رہا ہے۔ اور جلد ہی یہ انتہا بھی ایک نئی منزل کی راہ دکھانے والی ہے۔ جس کے بعد پریشان فکر عالم جدید پھر انسانی تجربہ اور مشاہدے کی کسوٹی پر پورا اُترنے والی کسی اور منزل کی طرف گامزن ہو جائے گی۔ لیکن افسوس کہ قوموں اور نظریات کے سفر صدیوں پر محیط ہوتے ہیں اور ہر دو انتہاؤں میں ہزاروں مظلوم کچلے جاتے ہیں۔ انسان کے قلب و ذہن اور فکر و تخیل میں وسعت اور قوت نہیں کہ وہ ہمہ گیر اور جامع تر نظامِ عدل و انصاف پیش کر سکے۔ ہر موقع محل کے اعتبار سے مختلف رویہ اور طرزِ فکر اپنے کی ضروت ہوتی ہے۔ یہی جامعیت اور ہمہ گیریت اسلام کا امتیاز ہے جو کون و مکان میں ہر ہر جگہ قابل عمل اور مسائل کا حل ہے۔ اسلام میں ہی وہ وسعت ہے جو ہر مسئلے کا حل نورِ الہیٰ سے کشید کر سکتی ہے۔ "اللہ کا بہت بڑا احسان ہے مسلمانوں پر کہ اس نے حیاتِ انسانی کی فلاح کا معجزہ نما دین ہمیں عطا فر دیا۔" (آل عمران: 164)
اگر ہمارے ذہن ہی لادین افکار کی بوچھاڑ سے متاثر ہو کر اور ان کے اٹھائے اعتراضات سے آلودہ ہو کر اسلام کی بھی اسی رنگ میں تعبیر شروع کر دیں تو یہ ملتِ اسلامیہ کی بدبختی ہو گی۔ اسلام سے مستفید ہونے کے لیے سب سے پہلے یہ اعتماد و ایقان ضروری ہے کہ ۔۔ "اسلام ہی فلاحِ کل ہے۔"
ہمارے پیش نظر موضوع، نکاح کے بارے میں والدین اور اولاد کے کردار کی حدبندی ہے۔ حقوقِ نسواں کے علمبردار عورت کو یوں ہی مظلوم ٹھہراتے ہیں۔ اسلام میں تو جہاں عورت اپنا شوہر تلاش نہیں کر سکتی وہاں مرد بھی یہ کام خود نہیں کر سکتا۔ اگر مردوعورت میں اس مرحلہ نکاح پر انتخابِ زوج کی ذمہ داری ادا کرنے نکلیں تو لامحالہ ہر دو، صنفِ مخالف کے عشق میں گرفتار ہوئے بغیر انتخاب کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے۔ دونوں صنفوں کے درمیان کشش کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ بالخصوص عمر کے اس موڑ اور زندگی کے خاص مرحلے پر غیر اسلامی پیارومحبت کے سوا یہ کام ہونا ممکن نہیں۔ اور "اسلام نے تو جہاں مردوعورت ہو دو کے لئے عشق بازی اور خفیہ دوستیوں پر مبنی نکاح حرام کر دئیے ہیں۔" (سورۃ المائدہ: 5) وہاں اس سے پہلے "مردوعورت کی آزادانہ ملاقاتیں بھی صریحا ممنوع ہیں" (حدیث صحیح مسلم: 9/144)
اسلامی نظامِ معاشرت میں مرد بھی اس بارے میں اپنی ماں اور بہنوں وغیرہ کا اس قدر زیادہ محتاج ہے کہ ان کے بغیر کوئی واضح اور ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکتا۔ ہاں اگر زوج کی تلاش جان پہچان والے عزیز و اقارب میں ہو تو بہرحال یہ ضرورت لڑکے اور لڑکی ہر دو کے لیے نسبتا کم ہو جاتی ہے۔ اس آزمائش و انتخاب کے مرحلے میں ہر دو کی برابری کے بعد فرق پیش آتا ہے تو انتخاب کی تکمیل کے موقع پر ۔۔ اس موقعہ پر بھی شریعت ہر دو سے اطاعتِ والدین کا تقاضا کرتی ہے۔
واضح رہے کہ اطاعتِ والدین، اللہ کی اطاعت کے بعد دین کا دوسرا اہم ترین تقاضا ہے (سورہ بنی اسرائیل: 23) یہ صرف احسان و تلقین سے ہی عبارت نہیں بلکہ "والدین کی نافرمانی اکبرُالکبائر میں سے ہے" (صحیح بخاری و مسلم) شریعت ہر دو سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے والدین کی رضامندی بجا لائیں حتیٰ کہ بعض صورتوں میں خلفاءِ راشدین کے ایسے فیصلے بھی موجود ہیں کہ انہوں نے والدین کی ناراضگی کے باعث شادی شدہ جوڑوں کو طلاق کا حکم صادر فرمایا (سنن ابن ماجہ: ص 145) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مشہور واقعے کو ذہن میں لائیے جو انہوں نے برسوں بعد اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے گھر تشریف لانے پر اس کی بیوی کو چھوڑ دینے کا حکم (گھر کی چوکھٹ بدلنے کا کہہ کر) دیا تھا ۔۔ شریعت اطاعتِ والدین، صلہ رحمی اور احسان سلوک کے ٹھوس نظام پر مبنی ہے۔
دوسری طرف والدین کو بھی حکم دیا گیا کہ بلاوجہ اپنی من مانیاں نہ کرتے رہیں بلکہ لڑکے اور لڑکی (اولاد) کو اس کا جائز حق استعمال کرنے دیں اگر والد اس کے باوجود اپنی من مانی پر مصر ہے تو عدالت میں جا کر جج، والد سے جواب طلبی اور اظہارِ وجوہ کا تقاضا کر سکتا ہے۔
اس کے بعد اسلام نے بطورِ قانون لڑکے کو تو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے نکاح کی بات چیت خود چلا سکتا ہے کیونکہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے فطری طور پر بعض خصوصیات اور صنفی رجحانات اس کو اجازت دیتے ہیں۔ لیکن عرف کی رو سے (جس کی اسلامی قانون میں مسلمہ حیثیت ہے) مرد کے لیے بھی یہ امر معیوب ہے کہ وہ اپنے نکاح کی بات چیت خود چلائے۔ دوسری طرف لڑکی کا معاملہ ہے تو یہاں اسلام والدین (وَلی) کو اس کی مدد اور اس کی پسند نافذ کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں عورت کا نکاح اس کی مرضی سے والدین کے توسط سے انجام پاتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم (جس کے الفاظ کلامِ الہیٰ ہیں اور علماء نے اس کے ایک ایک گوشے سے اور طرزِ تکلم سے بیسیوں مسائل اَخذ کیے ہیں) میں کسی مقام پر بھی نکاح کرنے کی نسبت خواتین کی طرف نہیں کی گئی۔ بلکہ واضح فرق کے ساتھ مردوں کے نکاح کے موقع پر وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ "تم مشرکہ عورتوں سے نکاح مت کرو" اور عورت کے نکاح کے موقع پر لَا تَنكِحُوا "اُن کے مرد اُن کا نکاح مر کتیں" اور وَأَنكِحُوا "مردو! تم ان کا نکاح کرو" وغیرہ کے الفاظ ہی ہمیشہ استعمال کیے ہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں تفاسیر قرطبی، ابن کثیر، مراغی، طبری اور تفسیر المنار وغیرہ زیر آیات: البقرہ:221 و 232، النور: 32، قصص:27، احزاب: 50)
صیغہ نکاح یعنی عقدِ نکاح کے الفاظ بھی اسی اسلامی ضابطے کی تائید کرتے ہیں۔ نکاح، ایجاب و قبول سے عبارت ہے۔ ايجاب کا مطلب ہوتا ہے کہ "ایک کو دوسرے شخص پر واجب کرنا" یعنی والد اپنی بیٹی کی ذمہ داری، دوسرے شخص پر ڈالتا ہے اور شوہر اس کو قبول کرتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ عقدِ نکاح یعنی معاہدہ میں مرد اور عورت فریق نہیں ہوتے بلکہ عورت کی طرف سے اس کا وَلی اور دوسری طرف شوہر ہوتا ہے جب کہ اسرہ نکاح کے فریق مرد اور عورت ہوتے ہیں اور جو ایجاب و قبول کے بعد وجود میں آتا ہے۔
عقدِ نکاح میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت نہ اپنا نکاح خود کرے اور نہ دوسری عورت کا کروائے" (سنن ابن ماجہ: ص 317) یعنی اس کام کی انجام دہی متعدد حکمتوں کی بنا پر صنفِ نازک پر ڈالی ہی نہیں گئی۔ اسی طرح حضرت عائشہ جو بزرگ ترین ہستی اور ام المومنین ہیں کا رویہ بھی یہی تھا کہ نکاح کی تمام بات چیت بے کر کے عقدِ نکاح کے وقت پیچھے ہٹ جاتیں اور ولی اور شوہر کو عقدِ نکاح منعقد کرنے دیتیں اور فرماتیں ان المراة لاتلى عقدة النكاح ۔ (دارقطنی، سنن الکبریٰ، تفسیر قرطبی، نصب الرایہ) یہی معمول ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر الخطاب کا بھی تھا (مصنف عبدالرزاق: 6/200) امام زیلعی کے مطابق "دیگر ازواجِ مطہرات کا طریقہ بھی یہی تھا اور ایسی تمام احادیث صحیح ہیں" (نصب الرایہ: 3/184)
اسلام کے اس حکم کے پس پشت کیا مصلحتیں کارفرما ہیں، یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن لگے ہاتھوں اُمت کے علمی سرمائے سے اس رائے کا استدلال بھی بالاختصار ملاحظہ فرما لیجئے:
قارئین کرم! آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس موضوع کی تائید کرنے والی احادیث کی تعداد 200 سے زائد ہیں، حتیٰ کہ ائمہ محدثین نے لا نكاح الا بولى (ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا) کی حدیث کو متواتر احادیث کی فہرست میں شمار کیا ہے۔ (احادیثِ متواترہ پر مبنی کتب: الازهار المتناثرة اور نظم المتناثر) صحیح بخاری میں بھی یہ الفاظ موجود ہیں۔ ایسی ضخیم کتب بھی موجود ہیں جو صرف اس حدیث کی تمام اسناد کے ذکر پر مبنی ہیں۔ خلفاءِراشدین، صحابہ کرام، مفسرین و محدثین عظام اور ائمہ اربعہ کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ نکاح میں والدین کی رضامندی ضروری ہے۔
راقم نے اس موضوع پر اپنی ضخیم کتاب میں، جس میں تمام امہاتِ کتب سے کم و بیش 500 حوالہ جات کی عبارتیں جمع کی گئی ہیں، تفصیل سے ان تمام آراء کو قلمبند کیا ہے اور اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کی واضح اور دو ٹوک وضاحت کی ہے۔
کونسی عقل یہ باور کرتی ہے کہ وہ اسلام جو اللہ کی اطاعت کے بعد والدین کی اطاعت کا حکم دیتا ہے، اولاد کے جان ومال پر والدین کا پورا حق تسلیم کرتا ہے (ترمذی 1/491، سنن ابن ماجہ 2/244) حتیٰ کہ صحیح حدیث کی رُو سے اولاد کے قتل پر بھی والدین کو قصاص کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا (جامع ترمذی: 2/57) اولاد کی زندگی کے اس اہم ترین موڑ پر ان کی رضامندی کو بیک قلم غیر ضروری قرار دے گا۔
تفصیلات کا یہ موقعہ نہیں لیکن تکمیل کی غرض سے چند گزارشات توجہ کی متقاضی ہیں:
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے اپنے ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل، باطل، باطل (یعنی کالعدم ) ہے۔" اس حدیث کو سنن ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی الام از امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر 10 کتبِ حدیث میں روایت کیا گیا ہے۔ اس صریح حدیث کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت عائشہ کا عمل اس کے خلاف تھا جب کہ ایسا نہیں ہے، حضرت عائشہ کا طرزِ عمل پیچھے گزر چکا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کی سند میں موجود امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی بابت یہ ذکر کیا ہے کہ انہیں اس کی روایت کرنا یاد نہیں رہا۔ جب کہ یہ حدیث دیگر ایسی سندوں سے بھی مروی ہے جن میں امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا واسطہ نہیں ہے۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی بابت یہ بات جس جگہ مذکور ہے، اس کی روایت بذاتِ خود بھی درست نہیں کیونکہ اس میں شاذ کونی نامی راوی ضعیف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ، ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ، حاکم رحمۃ اللہ علیہ، ابوعوانہ رحمۃ اللہ علیہ، ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ، علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (فتح الباری: 9/191)
تمام خلفاءِ راشدین اور صحابہ کرام کے فیصلے بھی اسی امر کی تائید کرتے ہیں۔ دیکھئے فقہ جات حضرت عمر رضی اللہ عنہ (ص: 658) و عثمان رضی اللہ عنہ (ص: 355) اور حضرت علی رضی اللہ عنہ (سنن کبریٰ 7/112)
نامور فقیہ علامہ ابن منذر کے مطابق "صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس امر پر اجماع ہے کہ والدین کی رضامندی نکاح میں ضروری ہے"۔ (نیل الاوطار: 6/119)
ائمہ اربعہ میں سے تین کا موقف اس ضمن میں بہت شدید ہے کہ وہ نکاح میں والدین کی رضامندی کو ازبس ضروری خیال کرتے ہیں جب کہ حنفی فقہ کے بارے میں کچھ تفصیل ہے۔ فی زمانہ حنفی فقہاء کا موقف، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے دونوں شاگردانِ رشید (صاحبین رحمۃ اللہ علیہم) سے قدرے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نامور حنفی علماء مثلا علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ، علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے جو دونوں حدیث نبوی کا خاص ذوق رکھتے تھے موجودہ حنفی موقف کی تردید کی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب جامع المسانید میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث درج کی ہے کہ "وَلی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ جو نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے"۔ یہی حدیث امام صاحب سے ان کے شاگرد حسن بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کی ہے (ملاحظہ ہو فتح القدیر: 3/255) ۔۔ جبکہ امام صاحب کے شاگردِ رشید امام محمد کا موقف حنفی فقہ کی معروف کتاب بدائع الصنائع میں یوں ہے:
"عورت کے لیے ولی کی اجازت (رضامندی) کے بغیر نکاح کرنا حرام ہے، اگر ایسا نکاح ہو جائے تو ولی کی اجازت سے قبل ملاپ حرام ہے، نہ ہی ان میں طلاق ہو گی، نہ ظہار و ایلاء۔ اگر ولی کی اجازت سے قبل زوجین سے کوئی مر جائے تو دوسرا اس کا وارث بھی نہ ہو گا"
حنفی فقہ کی نامور کتاب ہدایہ میں قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہ موقف ذکر کیا گیا ہے کہ "نکاح ولی کے بغیر منعقد ہی نہیں ہوتا"۔ ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو دو حنفی فقہا کرخی رحمۃ اللہ علیہ اور طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے قاضی ابویوسف کے بارے میں اسی رائے کو ترجیح دی گئی ہے۔ (ص 3/259)
بڑے اختصار کے ساتھ یہاں فقہ اسلامی کی بنیادی کتب کے حوالے درج کر دئیے گئے ہیں۔ عصر حاضر کے علماءِ اسلام کا موقف بھی اگر بالاختصار درج کر دیا جائے تو مفید ہو گا۔
شاہ ولی اللہ کا موقف بھی یہی ہے کہ نکاح میں والدین کی رضامندی ازبس ضروری ہے۔ آپ حجۃاللہ البالغۃ میں اس کی متعدد حکمتیں بھی بیان کرتے ہیں، حجۃ اللہ کا اقتباس ملاحظہ ہو:
"نکاح کے بارے میں صرف عورتوں کا فیصلہ اس لیے کافی نہیں کہ وہ بھرپور معلومات والی نہیں ہوتیں۔ غلط فہمی کا شکار ہو کر بہت دفعہ مصالح کو نظرانداز کر دیتی ہیں بالخصوص اکثر خاندانی وقار کا دھیان نہیں رکھتیں۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات وہ کم تر حسب و نسب میں دلچسپی بھی رکھ لیتی ہیں جو اس کی برادری کے لیے شرم و عار کا باعث ہوتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ نکاح میں ان کے اولیاء (سرپرستوں) کو دخیل کیا جائے تاکہ خرابی کا راستہ بند ہو جائے۔ نیز طبعہ تقاضوں کی بنا پر لوگوں کا یہ عام رواج بھی ہے کہ مرد عورتوں کے نگران و نگہبان ہوتے ہیں کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں برتری دی ہے، معاملات کے فیصلے بھی ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور اخراجات کے ذمہ دار بھی وہی ہوتے ہیں۔ عورتیں تو ان کے ماتحت ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مرد عورتوں کے نگران ہیں کیونکہ انسانوں میں سے بعض اصناف کو اللہ تعالیٰ نے دوسری اصناف پر (اس لحاظ سے) برتری دی ہے۔ (النساء: 34)
عورتوں کے نکاح میں ولی کی شرط مردوں کے اختیارات پر زور دینے کے لیے وہی ہے کیونکہ اگر عورتیں کپڑے جھاڑ کر اس کام کو خود کرنے کے درپے ہو جائیں تو یہ بے شرمی کی بات ہو گی اور مردوں کی پروا کیے بغیر ان پر چڑھ دوڑنا ہو گا۔ نیز نکاح کو شہرت دے کر بدکاری سے ممتاز کر دکھانا بھی ضروری ہے اور تشہیر کی بہترین صورت یہ ہے کہ نکاح کے وقت سرپرست (ولی) موجود ہوں۔" (حجۃ اللہ البالغہ: ج2، ص 127)
جماعتِ اسلامی کے قائد سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ملاحظہ فرمائیے:
وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ "مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کے نکاح نہ کرو"
اس سے یہ قاعدہ معلوم ہوا کہ مرد تو اپنا نکاح خود کر لینے کا مختار ہے لیکن عورت اس معاملہ میں بالکل آزاد نہیں ہے۔ اسے کسی کے نکاح میں دینا اس کے اولیاء کا کام ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حدیث " الأيم أحق بنفسها دون وليها ولا تنكح البكر حتى تستأذن " کی رو سے نکاح کے لیے عورت کی رضامندی ضروری ہے اور کسی کو اس کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کر دینے کا حق حاصل نہیں۔ مگر چونکہ عورت کے نکاح کا مسئلہ خاندان کے مفاد سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید یہ چاہتا ہے کہ شادی کے معاملہ میں تنہا عورت کی پسند اور خواہش کافی نہ ہو بلکہ ساتھ ساتھ اس کے رشتہ دار مردوں کی رائے کو بھی اس میں شریک کیا جائے" (حقوقُ الزوجین، ص98)
معروف مفسر قرآن مولانا عبدالماجد دریاآبادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا
"اور اپنی عورتوں کو مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں"
"لَا تُنكِحُوا" خطاب مردوں سے ہے کہ تم اپنی عورتوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو۔ غور کریں کہ حکم خود عورتوں کو براہِ راست نہیں مل رہا ہے کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جاؤ۔ یہ طرزِ خطاب بہت پر معنی ہے اور صاف اس پر دلالت کر رہا ہے کہ مسلمان عورت کا نکاح مردوں کے واسطے سے ہی ہونا چاہئے" (ترجمہ و تفسیر: ص 89)
اصل بات یہ ہے کہ نکاح میں والدین کی رضامندی اسلام کے خاندانی نظام کی ایک بنیادی کڑی ہے۔ اسلامی خاندان ایک نظم و ضبط میں پرویا ہوا ہے، جس کا سربراہ مرد ہے۔ وہ معاشرے کے ابتدائی یونٹ (خاندان) میں ہر سیاہ و سفید کا ذمہ دار ہے اور گھر کا ہر ایک فرد اس کا پابند ہے۔ (دیکھئے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔ والد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے، صحیح بخاری: 3/115) یہ کوئی جابرانہ تقاضا نہیں بلکہ نظم و ضبط کا فطری نظام ہے جس کو خالق کائنات نے توازن و اعتدال کے ساتھ انسانی فطرت میں سما کر لاگو فرمادیا ہے۔ جبکہ حقوقِ انسانی کے خوشنما نعرے میں ایک ایسے مکمل نظام کو سندِ جواز مل جاتی ہے جو والدین کے احترام و اطاعت اور رشتہ داریوں میں قرب و صلہ رحمی اور ذمہ داری کے تصورات سے بالکل عاری ہے۔
لیکن یہاں والدین پر بھی چند ذمہ داریاں لاگو ہوتی ہیں۔ یوں تو ایسے معاملات میں والدین کی ذاتی پسند و ناپسند کا شکار لڑکے اور لڑکیاں ہر دو ہی ہوتے ہیں۔ لیکن لڑکیاں اس معاملے میں خاموشی اختیار کرنے اور فطری کمزوری و شرافت کی بنا پر اس سے زیادہ متاثر دکھائی دیتی ہیں۔ والدین یا تو انسان ہونے کے ناطے اولاد کی بابت زیادہ توقعات وابستہ کر کے ان کے حق میں دخیل ہو جاتے ہیں یا اپنی اعلیٰ بصیرت و دانائی کی وجہ سے وہ جس کو پسند کرتے ہیں، اولاد اس سے مطمئن نہیں ہوتی۔
اولاد کی طرف سے بھی ایک سنگین غلطی اکثر اس بدمزگی اور حکم عدولی کی وجہ بنتی ہے اور وہ ہے عشق بازی کی تربیت اور مواقع فراہم کرنے والا ہمارا معاشرہ اور ثقافت۔ جوان لڑکے لڑکیاں بھی اکثر عشق و محبت کے چکر میں پڑ کر ظاہری آسائش و آرائش اور حسن و زیبائس کے دامِ فریب میں آ کر خیالوں کی جنت بسا بیٹھتے ہیں، بس یہیں سے تناؤ اور کشمکش کی کیفیت شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن شریعت کی تعلیمات ہمارے لیے اصل کسوٹی اور نشانِ راہ ہیں۔ شریعت ایک خاص مرحلہ عمر کے بعد ہر انسان کو ایک مخصوص خود اعتباری اور شناخت عطا کرتی ہے جس کو عموما والدین کو بھی ملحوظ نہیں رکھتے۔شریعت اگر کسی انسان کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنا اختیار بروئے کار لا سکتا ہے تو واقعتا شریعت اس وقت اس میں مطلوبہ اہلیت پاتی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکے۔ شریعت کے دئیے گئے اختیارات اور حقوق و فرائض ہی اصل انصاف و عدل ہیں، باقی سب انسان کے افراط و تفریط کے پروردہ جذبات و احساسات ہیں جنہیں شریعت کی حد بندیوں سے مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ شریعت ایک طرف عشق و محبت کے نام پر بپا بدمستیوں کی بھی شدید مخالف ہے بلکہ مردوعورت کے آزادانہ میل ملاپ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو دوسری طرف ہر ایک کو جائزہ طور پر اپنے دائرہ کار میں مصروف اور مفید ہونے کی تعلیم بھی دیتی ہے۔
راقم اس بارے میں انصاف کے ساتھ جو کچھ سمجھ سکا ہے، وہ یہ ہے کہ شادی بیاہ جس لڑکے اور لڑکی کا ہونا ہے، اصل اہمیت بھی اسی کی پسند و ناپسند کو حاصل ہے۔ لازمی ہے کہ وہ اپنے احساسات و جذبات کو خلافِ شریعت امور سے آلودہ کر کے فیصلہ نہ کرے۔ والدین کو اس موقعہ پر لڑکے کے لیے کچھ کم اور لڑخی کے لئے قدرے زیادہ طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ان کی پسند کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ مخلص و مربی ہونے کے ناطے وہ اُسے زمانے کی اونچ نیچ سے آگاہ کر سکتے ہیں، اس کی نوآموز نگاہوں کو ان مناظر سے بھی آشنا کرا سکتے ہیں جو ایک حقیقت بن کر دنیا میں موجود ہیں اور شادی شدہ زندگی میں سامنے آنے والے ہیں لیکن فیصلے کا مدار لڑکی اور لڑکے کی پسند پر ہونا چاہئے کہ زندگی انہیں گزارنا ہے۔ یہاں یہ بھی واضح ہے کہ یہ شرعی حق اس صورت میں اولاد کو حاصل ہوتا ہے جب وہ بھی شرع کے تقاضے پورے کرتے ہوں۔ اگر وہ عشق و محبت اور بے راہ روی کے مرتکب ہوئے ہیں تو قوتِ نافذہ شریعت نے والدین کے حق میں رکھی ہے، چیک اینڈ بیلنس کا نظام والد کے ہاتھ میں ہے جو ادارہ خاندان کا سربراہ منصف ہے۔ شریعت نے بھی زوج کے انتخاب کے لیے زبانِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واضح ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ "نکاح، مال و دولت، حسب و نسب، حسن و جمال اور خلق و دینداری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ کامیاب ہونا چاہتے ہو تو دینداری کی بنا پر فیصلہ کرو۔" (صحیح بخاری: 5090) ایک اور حدیث میں یوں ہے کہ "جس کے تم خلق اور دینداری پر راضی ہو، اس سے نکاح کر دو۔" (ترمذی: 1004)
ان شرعی مصالح و مقاصد کی تکمیل کرانے کا ذمہ دار بھی گھر میں والد ہی ہے۔ غرض اولاد کا یہ حق شرعی حدود کا پابند ہے ۔۔ شریعت ایک مکمل نظامِ حیات کا نام ہے، ایک شرعی تصور اگر یہاں واضح نہ ہوا تو بات ادھوری رہ جائے گی:
اسلام نے ہر شعبہ زندگی میں ایک مربوط نظام دیا ہے، جس کی رو سے بعض لوگ سربراہ ہیں اور بعض ماتحت۔ یہ اصول دنیا میں بھی ہر ہر جگہ کار فرما نظر آتا ہے۔ نظم و ضبط کا والہ و شید اسلام زیر دستوں کو جہاں بیسیوں ہدایات دیتا ہے وہاں حکام اور بااختیار افراد کو بھی بڑی تنبیہات دیتا ہے۔ مثال کے طور پر خاندان (جو معاشرہ، حکومت اور ریاست کا بنیادی یونٹ ہے) میں اولاد اور والدین، شوہر اور بیوی اور حاکم و رعایا کے مابین ایک سے اسلامی اصول کارفرما ہیں۔ اولاد کو ہر حال میں والدین کی اطاعت گزاری کرنا ہے حتی کہ اگر وہ زیادتی بھی کریں تو اُف نہیں کہنا، شرک کا تقاضا کریں تو شرک تو نہ کیا جائے لیکن باقی ہر طرح ان کی اطاعت بجا لائی جائے۔ (سورہ لقمان: 15) بیوی کے لیے خاوند کو سجدہ کرنے کی حد تک اطاعت کی مشروط تلقین موجود ہے۔ (ترمذی: 1079) اسی طرح رعایا کو اپنے حاکم کی ہر امر میں اطاعت ضروری ہے۔ حاکم کو اس وقت تک شریعت کا دیا گیا یہ حق فرمانروائی حاصل رہے گا جب تک وہ اس شریعت کے بعض مخصوص شعارات کی پیروی کرتا رہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام ماتحتوں کی طرف سے کسی حکم عدولی یا بدنظمی کا روادار نہیں ہے۔ اور یہاں حکام و ذمہ دار کو قوتِ نافذہ اور ظاہر میں تائید عطا کی گئی ہے۔ ذمہ داری کا یہی نظام اس حدیثِ نبوی میں بیان کیا گیا ہے۔ "تم میں ہر شخص مسئول ہے اور اس کی مسئولیت کی بابت اس سے پوچھا جائے گا ۔۔" (صحیح بخاری: 3/115)
دوسری طرف مسئولین اگر زیادتی کریں تو ان کے احتساب کا معاملہ اللہ نے عموما روزِ قیامت پر اُٹھا رکھا ہے۔ ان کے لئے ایسی شدید تنبیہات ہیں جو رونگھٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔ ذرا جج حضرات کے لیے اس تنبیہ کو ذہن میں لائیے: "جو شخص لوگوں کے درمیان قاضی بنا دیا گیا گویا وہ بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا" (ترمذی: 1247) ۔۔ ذرا حکام کی مسئولیت کا خیال ذہن میں لائیے جس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رُواں رُواں کانپ اُٹھتا، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "جو حاکم اس حالت میں فوت ہوا کہ وہ لوگوں کے حق میں ناانصافی کا مرتکب تھا تو اس پر جنت حرام کر دی گئی" (مسلم: 203) ۔۔ ذرا اُن نام نہاد ریاکار علماء کا تصور ذہن میں لائیں جن کو جہنم کے سب سے نچلے طبقے وَيل میں پھینکے جانے کی نوید دی جا رہی ہے ۔۔ لیکن نظم و ضبط پر مبنی اسلامی معاشرہ میں مسئول کو ایک ظاہری تائید سے نوازا گیا ہے اور اس کا محاسبہ شدید اور کڑی دھمکیوں سے کیا گیا ہے۔ یہ ضرور ممکن ہے کہ ظلم روا رکھنے پر ذرا کم تر درجے کے مسئول کے خلاف اس کے ماتحت، عدالتِ اسلامیہ سے دادرسی کر کے کچھ مداوا کر سکتے ہیں لیکن نہ ہی ہر معاملہ عدالت میں لے جایا جاتا ہے، نہ ہی یہ اسلام کا منشا ہے۔اسلام داخلی خود احتسابی کا پروگرام پیش کرتا ہے، اس میں یوں بھی نہیں کہ اہل مغرب کی طرح ہر چیز کی ذمہ دار حکومت ہے بلکہ ہر ہر فرد اپنے آپ پر اور اپنے ماتحتوں کا خود ذمہ دار ہے اور ہر نچلی اکائی کامل تر ہو کر بڑی اکائی میں داخل ہوتی ہے۔
نکاح کے معاملے میں لڑکی (اولاد) کے حقوق
میرے پیش نظر مضمون جسے اُم عمارہ نے تحریر کیا ہے، میں اکثر مواد اور بحث اسی موضوع سے کی گئی ہے اور یہی وہ عدمِ توازن ہے جو محترمہ کے مضمون کا صحیح تاثر پیش کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ جب معاملہ پیچیدہ ہو اور اس میں ایک سے زیادہ فریق ہوں، بیسیوں دیگر عناصر و عوامل کارفرما ہوں اور اس کا دائرہ کار اجتماعی حیاتِ انسانی کو شامل ہو اور موضوع کا تعلق بھی ایسے کلیدی مسئلے سے ہو جس پر کسی فکر کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے تو وہاں تشنہ مباحث کی اشاعت پریشان فکری کی طرف لے جاتی ہے۔
غالبا محترمہ نے یہ تحریر کسی ایک طرف سے متاثر ہو کر لکھی ہے یا محترمہ رد عمل کا شکار ہیں تب ہی ان کی تحریر میں جانبداری کا عنصر قدرے نمایاں ہے۔ انہوں نے بعض احادیث کے ترجمے اور متن میں ایسی باتیں شامل کر دی ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔
اسلام میں جہاں یہ امر متفقہ ہے کہ نکاح میں والدین کی رضامندی ضروری ہے، وہاں اس سے بھی زیادہ اس امر پر اتفاق موجود ہے کہ نکاح میں لڑکی (اور لڑکے) کی رضامندی ازبس ضروری ہے اور زبردستی کیا جانے والا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اس موضوع پر بھی حدیثِ نبوی کے ذخیرے میں متعدد احادیث ملتی ہیں جن میں سے بعض کا ذکر محترمہ نے اپنے مضمون میں کیا ہے۔ لیکن ان احادیث سے یہ مطلب اَخذ کر لینا بھی سراسر انتہاپسندی ہے کہ لڑکی کی رضامندی کے نام پر والدین کی یا وَلی کی شرکت کوئی ضروری امر نہیں اور یہ محج اضافی تکلف ہے یا والدین کی شرکت نکاح میں فقط پسندیدہ امر ہے اور لڑکی کو اپنے نکاح کرنے کے جملہ حقوق خود حاصل ہیں۔ بیان کردہ احادیث سے قطعا یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔ احادیث اور دیگر نصوصِ شریعت کے بارے میں یہ بات ملحوظ رکھنا اشد ضروری ہے کہ شریعت ہر معاملے میں ایک مستقل نظام دیتی ہے جو صرف ایک یا دو عبارتوں میں مکمل نہیں ہو جاتا۔ بلکہ کسی موضوع پر تمام ذخیرہ احادیث و قرآن کو جمع کر کے ہی ایک صحیح رائے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ دوسری طرف کی احادیث کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔ ورنہ یہ اسلام کی درست ترجمانی نہیں بلکہ شریعت کے نام پر افراط و تفریط ہو گا۔ یہاں علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت کا تذکرہ مناسب ہو گا جس میں امام ابوحنیفہ کے موقف کی شرح کرتے ہوئے انہوں نے اسی رائے کی تائید کی ہے:
"امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ جب ولی اور عورت کی رائے میں تضاد پایا جائے تو عورت کی رضامندی کی اہمیت ہو گی۔ اگرچہ عورت اپنی ولی کی رضامندی حاصل کرنے کی پابند ہے، اس طرح ولی عورت کی رضامندی حاصل کرنے کا بھی پابند ہے۔ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر دونوں کی رضامندی انتہائی ضروری ہے اور کسی کی ہٹ دھرمی قابل قبول نہیں۔
مزید لکھتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ حدیث لا نكاح الا بولى حسن (معتبر) ہے اور کئی محدثین نے اس کو صحیح کہا ہے۔ اس مسئلہ میں تحقیق پر مبنی رائے یہ ہے، جو بحث و تمحیص کے بعد ثابت شدہ ہے کہ شریعت میں ہر وہ کام جو جماعت سے تعلق رکھتا ہو اس میں طرفین کی احادیث کو جمع کر کے دونوں کے مقصود پر عمل کیا جائے۔ ایسی صورتوں میں سے ایک نکاح بھی ہے۔ اس میں دونوں طرح کی احادیث وارد ہیں جب عورتوں کو مخاطب کیا تو انہیں بتایا کہ ان پر ان کے اولیاء کا حق ہے۔ حتیٰ کہ یہ خطرہ ہو گیا کہ عورتوں کا کوئی حق باقی نہیں رہا، جیسا کہ اس حدیث میں ہے " أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل ، فنكاحها باطل" اس تکرار کا مقصد ولی کی اجازت کی ضروری تاکید اور مبالغہ ہے اور جب اولیاء کی طرف توجہ فرمائی تو انہیں فرمایا کہ " الأيم أحق بنفسها من وليها " گویا کہ ولی کا کوئی جبر نہیں۔ تو ان دونوں طرح کی حدیثوں میں ہر ایک میں ایک حصہ بیان ہوا اور اصل مقصد دونوں پر اکٹھا عمل کرنا ہے ۔۔ دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ولی عورت کی رضامندی کو پیش نظر رکھے اور عورت ولی کی اجازت اور نکاح میں ولی کی شراکت کا اہتمام کرے۔ نہ عورتیں مردوں کی حدود سے آگے جائیں اور نہ مرد عورتوں پر زیادتی کریں۔
کیا ولی کی اجازت بطور مصلحت پیش نظر ہے یا عورت کے حق میں خیال رکھا گیا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ ولی کا حق ہے اور اسی کی مصلحت کے پیش نظر ہے۔ جب کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ عورت کی مصلحت کے لیے ہے کیونکہ عورت ناقص معلومات والی اور کمزور سوچ والی واقع ہوئی ہے، اکثر اپنی مصلحت نہیں سمجھتی اور نہ ہی حسب و نسب کی حفاظت کر سکتی ہے۔ غیرکفو (مرتبہ میں کمتر) کی طرف راغب ہو جاتی ہے جس سے اس کے ولی کو عار لاحق ہوتی ہے لہذا ولی کو شرط قرار دیا گیا ہے تاکہ یہ دروازہ بند ہو جائے۔" (فیض الباری شرح البخاری 4/282 تا 287)
اس ضمن میں چند ایک اُمور خاص طور پر قابل توجہ ہیں:
1۔ محترمہ نے لکھا کہ "والدین/ولی کی نکاح میں شرکت ہونی چاہئے۔" یہ تائیدی جملہ ان شرعی مقاصد کی قطعا تکمیل نہیں کرتا جو اس موقع پر والدین کی شرکت کے بغیر پورے نہیں ہوتے۔ یہ مان لئے بنا چارہ نہیں کہ جس طرح لڑکی (اور لڑکے) کی رضامندی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا، اسی طرح والدین یا ولی کی عدمِ شرکت بھی نکاح کو باطل کر دینے کو کافی ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی دلائل پیچھے گزر چکے ہیں۔
2۔ محترمہ اُم عمارہ نے اپنے مضمون میں سنن ابن ماجہ سے حضرت بریدہ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ ایک عورت نے اپنے والد کے کروائے نکاح پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو آپ نے نکاح کو باقی رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار عورت کے ہاتھ میں دے دیا تو یہ سن کر عورت نے اطمینان کا سانس لیا اور کہا کہ "میں عورتوں کو بتا دینا چاہتی ہوں کہ نکاح کے معاملے میں باپ دادا کا کوئی ہاتھ نہیں"
یہ حدیث صحیح بخاری میں مروی ہے اور ابتدائی حصے تک درست ہے لیکن آخری جملہ "میں بتا دینا چاہتی ہوں ۔۔" ابن ماجہ میں ہے لیکن یہ جملہ صحتِ سند کے ساتھ ثابت نہ ہو سکا ہے۔ (ضعیف سنن ابن ماجہ: ص 145) چنانچہ آخری ٹکڑا حدیثِ نبوی کے الفاظ نہیں یعنی حدیثِ تقریری کا جز نہیں۔
3۔ مضمون کی ابتدا میں صحیح مسلم کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا خلاصہ ذکر کیا گیا ہے کہ "مطلقہ اور بیوہ عورت سے زیادہ ولی کا اختیار نہیں ہے۔ اور کنواری عورت کی اجازت ضروری ہے"
اس حدیث سے ولی کے اختیار کو کمتر قرار دینا بھی درست نہیں۔ اول یہاں مطلقہ اور بیوہ کے لئے أيم کا لفظ ہے جو شوہر دیدہ عورت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جس کے مقابلے میں، بعد میں کنواری کا تذکرہ بھی حدیث میں موجود ہے ۔۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کنواری اور شوہر دیدہ (مطلقہ یا بیوہ) عورت کے احکامات میں قدرے فرق ہے:
پہلا فرق یہ ہے کہ أيم عورت کی رضامندی فقط خاموشی سے کافی نہیں۔ جبکہ کنواری کے زیادہ حیادار ہونے کی وجہ سے اس کی خاموشی جو اثبات کی مؤید ہو، سے ہی نکاح کی رضامندی سمجھی جا سکتی ہے۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ یہاں أيم کے لئے أحق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ أيم ، ولی سے زیادہ حقدار ہے۔ اس کا مطلب اس کتابِ صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی زبانی سنیے:
" أحق کا لفظ أيم اور وَلى دونوں کے حق کو بیان کر کے أيم کے حق کی فوقیت کو بیان کر رہا ہے۔ یعنی اس میں ولی کے حق کی نفی نہیں بلکہ کمتری واضح کی جا رہی ہے"
مشہور حنفی محدث علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"نبی کریم نے أيم کے لئے حق ٹھہرایا ہے اور اسے زیادہ حقدار کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ نکاح کروانا ولی کی ہی ذمہ داری ہے اور اسے عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہیں کرنا چاہئے"
مطلب یہ ہوا کہ أيم عورت چونکہ تجربہ کار ہوتی ہے اور معاملے کو سمجھتی ہے لہذا اب ولی پر اس کی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔ جبکہ کنواری کے بارے میں ولی اجازت لینے کے بعد قدرے زیادہ حق رکھتا ہے۔
خلاصہ کلام
اس سارے بحث سے یہ بات بالکل سامنے آ جاتی ہے کہ نکاح میں والدین کا کردار یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کے نکاح کو منعقد کروائیں یعنی اولاد کی مرضی پر مبنی نکاح والدین کے توسط سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچے تاکہ بالخصوص لڑکی کسی وقتی جذبے یا بے وقوفی کا شکار ہو کر غلطی نہ کر بیٹھے اور والد بھی اپنی لڑکی کے نفع و نقصان کا خود خوب تجزیہ کر لے کیونکہ بصورتِ طلاق یا خاوند کی وفات کے بعد اس کی بیٹی کی کفالت اور رہائش وغیرہ کی ذمہ داری والد کی طرف ہی لوٹنے والی ہے۔ زندگی کا یہ اہم ترین معاملہ والدین اور اولاد کی باہمی رضامندی سے ہی طے پانا ضروری ہے اور شریعت نے ہردو کے حقوق کو اس میں پوری طرح محفوظ کر دیا ہے ۔۔ اس بحث کا خلاصہ ہم ایک جملہ میں یوں نکالتے ہیں کہ "اسلام میں اولاد کا نکاح، ان کی رضامندی سے والدین کے ذریعے منعقد ہوتا ہے"۔ رضامندی کا مطلب قطعا یہ نہ سمجھا جائے کہ اولاد انتخاب کے مراحل سے خود گزر کر آخر میں والدین کو شامل کر لے۔ یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ عرف روایت اور اسلام کی رُو سے زوج کی چھان پھٹک اور اس حوالے سے مختلف امکانات کا جائزہ والدین کی ذمہ داری ہے جس کو حتمی نتیجے پر پہنچانے سے قبل وہ اولاد سے بھی رضامندی حاصل کرنے کے پابند ہیں۔
یہ تو وہ تمام قانونی بحث ہے جس کی حدبندی شریعتِ مطہرہ نے اختلاف پڑنے کی صورت میں واضح کر دی ہے، لیکن اگر اولاد اور والدین میں اعتماد کا رشتہ ہے اور جیسا کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے تو ان باریکیوں میں پڑے بغیر بھی یہ مرحلہ نکاح خوش اسلوبی سے انجام پا سکتا ہے۔ لیکن ہر دو فریق کے سامنے شرعی تقاضے واضح رہنے چاہئیں اور انہیں دوسرے کی حق تلفی سے ازخود گریز کی راہ اپنانی چاہئے۔
اس موضوع پر جناب نعیم صدیقی کا معاشرتی تجزیہ پر مبنی ایک خوبصورت کتابچہ ہے جس کے ایک اقتباس پر میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔ جناب صدیقی نے یہاں لڑکی کے لئے حق قبول کر کے اس حق کی استعمال دہی پر ولی کو نگران بتایا ہے کہ یہ حق اس کے ذریعے استعمال کیا جائے:
والدین اور اولاد کے اشتراک کی نوعیت اس مثال سے سمجھئے ۔۔ "مثلا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک فرم کے ملازم کا یہ قانونی طور پر طے شدہ حق ہے کہ وہ پندرہ دن کی بلاتنخواہ چھٹی ہر سال لے سکتا ہے یا ایک سے زائد سالوں کی چھٹیاں اکٹھی کر سکتا ہے۔ مگر طریقہ یہ نہیں کہ وہ چھٹی کا فیصلہ گھر بیٹھے یکایک کسی بھی تاریخ کو کر لے اور اپنے کسی افسر یا منیجر کو اس کی ہوا بھی نہ لگنے دے، کیونکہ یہ اس کا حق ہے جسے کوئی شخص منسوخ نہیں کر سکتا۔ بلکہ اس کے لیے لازم ہے کہ وہ منیجر کو درخواست دے اور چھٹیوں کی تاریخیں لکھے اور پھر اس کی منظوری ملنے پر چھٹیاں منائے۔ منیجر یا اس کا سیکرٹری اس سے بات کرے گا کہ خاص ان تاریخوں میں مشکلات یہ ہیں کہ 22 افراد پہلے ہی چھٹی پر ہیں۔ بروئے قواعد افراد کو اکٹھے چھٹی نہیں مل سکتی۔ (سوائے کسی خاص ہنگامی حادثے یا قومی ضرورت کے) دوسرے، ہمیں چند دن غور کر کے پندرہ دن کے لیے دفتر یا فرم کا انتظام سوچنا ہے، ابھی دو چار دن تم ٹھہر جاؤ۔
دیکھئے اس ملازم کا حق بھی واضح طور پر تسلیم شدہ ہے، مگر وہ منیجر سے بالا اقدام نہیں کر سکتا بلکہ دونوں میں مشورہ ہوتا ہے اور کوئی درمیانی صورت طے ہو جاتی ہے۔ مثلا تم 10 دن بعد رخصت شروع کرو، یا فی الحال تو ایک ہی ہفتہ کی چھٹی لو، باقی پھر لے لینا۔
ملازم کا حق قطعی ہے اور فائق، مگر اس پر عمل منیجر کے مشورے سے ہی ہو گا اور بغیر کسی نزاع کے ہو گا۔ لڑکی اور ولی کے باہمی حقوق کی نوعیت بھی یوں ہی ہے۔
یہی بات ہے کہ جب کہا جاتا ہے کہ الأيم أحق بنفسها اس حقیقت کے باوجود وَلی کی حیثیت ہے اور قائم ہے اور دونوں کو أيم کے اختیار، انتخابِ شوہر میں آزادی کے ساتھ ساتھ ان يستامر کا حکم ولی کو ہے، یعنی ولی "پارٹ اینڈ پارسل" ہے نکاح کی کاروائی کا، اگرچہ أيم کی رائے کو جبرا وہ بدل نہیں سکتا ہے۔ لیکن نکاح سے پہلے ہفتہ، مہینہ یا کچھ عرصہ وہ اس مسئلے پر مشورہ کریں گے اور مجوزہ شوہر کے متعلق یہ اندازہ کرنے کے بعد کہ اس کے کیا کیا اثرات خاندان پر یا گھر پر پڑیں گے، یہ بھی معلوم کرنا ہو گا کہ اس کے گھر کا نقشہ کیا ہے اور اس کے خاندان کے حالات کیا ہیں۔ ولی تعاون کرے گا، جبر نہیں کرے گا۔ مگر عقل یہ کہتی ہے کہ شریعت ایسا ہی چاہتی ہے۔"