حافظ عبد الرحمن مدنی کے وضاحتی بیانات

حافظ عبدالرحمٰن مدنی، معاونِ سپریم کورٹ کے وضاحتی مراسلات اور بیانات


سپریم کورٹ (شریعت اپلیٹ بنچ) میں زیرسماعت مشہور مقدمہ سود میں حافظ عبدالرحمٰن مدنی عدالتِ عظمیٰ کے معاون کی حیثیت سے پیش ہو رہے ہیں۔ آپ نے 3 مئی اور 6 مئی کے دوران مکمل مذکورہ موضوع پر اپنی بحث پیش کی لیکن بعض اخبارات کے نمائندوں کی غفلت یا کم علمی کی وجہ سے رپورٹ نہ صرف خلط ملط ہوئی بلکہ موقف کچھ کا کچھ بن گیا۔ حافظ صاحب موصوف نے اسلام آباد سے ان خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے دو مراسلات اور اپنا وضاحتی بیان دفتر محدث کے ذریعے روزنامہ اخبارات کے نام جاری کیا جو شاید اخبارات نے اپنے بعض صحافتی مصالح کی بنا پر تفصیل سے شائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ لہذا ہم ادارہ محدث کی طرف سے اخباروں کے مدیران کے نام دونوں مراسلات اور وضاحتی بیان شائع کر رہے ہیں ۔۔ (حسن مدنی)
مکرمی جناب میر شکیل الرحمٰن صاحب چیف ایڈیٹر روزنامہ جنگ لاہور
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مؤقر روزنامہ جنگ کا ملکی اور بین الاقوامی سطح پر جو مقام ہے وہ وضاحت کا محتاج نہیں، اس لیے ملک و ملت کو درپیش مسائل کے بارے میں اس کی خبریں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ میں سپریم کورٹ (شریعت اپلیٹ بنچ) کا عدالتی معاون ہوں اور اس مشہور کیس میں عدالتِ عظمیٰ کے روبرو اپنے دلائل اور موقف پیش کر رہا ہوں۔ روزنامہ جنگ میں آج (7 مئی 99ء) شائع ہونے والی خبر کے حوالے سے آپ سے مخاطب ہوں۔ اور سپریم کورٹ 0شریعت بنچ) میں زیرسماعت مشہور "سود کیس" کے بارے میں روزنامہ پاکستان، اسلام آباد کی آج کی خبر (بھی) آپ کو بھیج رہا ہوں تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ (روزنامہ جنگ کا) متعلقہ رپورٹر کس غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہے۔
بالخصوص اس کیس کے بارے میں مؤرخہ 4 مئی کے روزنامہ جنگ میں جو رپورٹ شائع ہوئی وہ تو حقائق کے بھی منافی تھی۔ اس میں "میری طرف یہ بات منسوب کی گئی کہ جس اقدام کے بارے میں واضح احکامات نہ ہوں تو ملک کے مروجہ قانون پر عمل کرنا چاہئے" یہ چونکہ نہ صرف میرے اس عدالتی بیان کے منافی ہے بلکہ مجھ پر ایک تہمت بھی ہے جس میں، میں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے اس واقعہ سے جس میں انہوں نے اپنے بھائی بنیامین کو حاصل کرنے کے لئے ملکی قانون کی بجائے حضرت یعقوب علیہ السلام کے علاقہ میں مروجہ قانون کا سہارا لیا تھا، استدلال کرتے ہوئے یہ بتلایا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا قانون، ابراہیمی شریعت تھی لہذا حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بادشاہ کے قانون کی بجائے ربانی شریعت سے استفادہ کیا۔ یہ بات شریعت کے لئے زبردست تائید بنتی ہے لیکن اس کے برعکس مجھے شریعت کا مخالف قرار دے دیا گیا اور مروجہ قانون کا حامی دکھایا گیا۔
میں آپ سے اُمید رکھتا ہوں کہ آپ نہ صرف 4 مئی کی رپورٹ کی تصحیح فرمائیں گے بلکہ 7 مئی 99ء کی رپورٹ بھی تفصیل سے دیں گے، خواہ اسے آج کی سپریم کورٹ کی کاروائی جو کل 8 مئی کو شائع ہو گی، کا ہی حصہ بنا دیں۔
میں اس تصحیح پر آپ کا شکرگزار ہوں گا ۔۔ والسلام!
نیازمند
حافظ عبدالرحمٰن مدنی از اسلام آباد، 7 مئی 99ء
D.G. انسٹیٹیوٹ آف ہائر سٹڈیز (شریعت و قضاء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (2) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم جناب مجید نظامی صاحب چیف ایڈیٹر روزنامہ "نوائے وقت"، لاہور
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
گزارش ہے کہ میں سپریم کورٹ (شریعت اپلیٹ بنچ) کا عدالتی معاون ہوں اور مشہور سود کیس میں عدالتِ عظمیٰ کے روبرو اپنے دلائل اور موقف پیش کر رہا ہوں۔ آج (7 مئی 99ء) کے نوائے وقت، لاہور میں صفحہ 3 پر اس کیس کی مطبوعہ رپورٹنگ پڑھ کر ضروری سمجھا کہ چند باتوں کی طرف آپ کو توجہ دلاؤں ۔۔
نوائے وقت نے جو سرخی اور سرخی سے متعلقہ خبر کا حصہ شائع کیا ہے، اس کا گذشتہ روز فاضل اراکین بنچ میں سے کسی نے تذکرہ بھی نہیں کیا۔ پھر بھی اس بے پرکی بات کو خاص طور سے نمایاں کیا گیا جس سے قارئین میں مایوسی پھیلی۔ اسی طرح خبر میں مثبت امور کی رپورٹنگ کے بجائے منفی تاثر کو زیادہ اُچھالا گیا ہے، جبکہ عدالتِ عظمیٰ میں ایسا ماحول اور تاثر بھی پیدا نہیں ہوا۔
علاوہ ازیں خبر کے متن میں بھی جا بجا تضادات موجود ہیں، عین ممکن ہے کہ رپورٹر کی ان علمی مسائل تک ذہنی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ مثبت باتوں کی تو درست رپورٹنگ نہ کر سکے ہوں اور ادھر ادھر کی باتوں کو انہوں نے خبر میں شامل کر دیا۔ نوائے وقت ایسے مؤقر جریدے میں جو قومی صحافت میں اسلام پسند اور محبِ وطن عناصر کے لئے اُمید کی واحد کرن ہے، اس اہم ترین قانونی مسئلہ پر رپورٹنگ میں جو تجادات دکھائی دے رہے ہیں، ان سے جہاں میری علمی ساکھ متاثر ہوئی ہے وہاں محب اسلام طبقوں میں بھی اس کیس کے حوالے سے تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
یہ بھی وضاحت ہو جائے کہ یہ خبر محترم محمد اسمعیل قریشی ایڈووکیٹ کے حوالہ سے جس تردیدی واقعہ کے گرد گھومتی ہے، افسوس کہ عدالت میں تو ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا بلکہ عدالتی کاروائی کی تکمیل کے بعد بعض حضرات نے آپ کے رپورٹر کو اضافی بریفنگ دیتے ہوئے بعض علمی نکات کی وضاحت کی جو کسی بھی طرح خبر میں پیش کردہ منہ در منہ تردید کے سیاق میں نہیں آتے۔ اس پر طرہ یہ کہ رپورٹر صاحب اس کو سمجھنے میں بھی غلطی کا شکار ہو گئے۔ محترم قریشی صاحب میرے بہت قریبی دوست ہیں اور اُن کی یہ وضاحتی بریفنگ بھی میرے موقف کی تائید کرتی ہے۔ جس کو قدرے مکمل انداز میں روزنامہ پاکستان نے رپورٹ کیا ہے۔
جناب اسمعیل قریشی کے حوالہ سے جو روایت، "مصنف عبدالرزاق" سے پیش کی گئی ہے وہ بھی میرے اس موقف کی تائید کرتی ہے نہ کہ مخالفت۔
بات کو لمبا کرنے کی بجائے میں آپ کو روزنامہ پاکستان کی مکمل رپورٹنگ بھی ارسال کر رہا ہوں جس میں عدالتی کاروائی کی اچھی تفصیلات آ گئی ہیں۔آپ کی علم دوستی اور مجھ سے تعلق خاطر ہونے کے ناطے یہ توقع رکھتا ہوں کہ آپ اپنے موقر روزنامہ میں اس کی تصحیح فرمائیں گے۔ اور آئندہ سے اس کیس کی رپورٹنگ میں بھی خصوصی توجہ فرمائیں گے۔
میں اس تعاون پر صمیم قلب سے آپ کا شکرگزار ہوں ۔۔ والسلام
حافظ عبدالرحمٰن مدنی (ڈائریکٹر جنرل انسٹیٹیوٹ و مدیر اعلیٰ ماہنامہ 'محدث')
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  (3) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اگلے روز دفتر نوائے وقت لاہور سے رابطہ کرنے پر صرف وضاحتی نوٹ بھینے کو کہا گیا جو حسب ذیل الفاظ میں بھیجا گیا لیکن نوائے وقت نے اِسے چند الفاظوں کی صورت میں ہی تردید کی صورت میں شائع کرنے پر اکتفا کیا (10 مئی، ص 10 پر)
حافظ عبدالرحمٰن مدنی کا وضاحتی بیان
سپریم کورٹ (شریعت اپلییٹ بنچ) میں زیر سماعت مشہور سود کیس میں عدالتِ عظمیٰ کے معاون مولانا حافظ عبدالرحمٰن مدنی نے اپنے بیان کے سلسلے میں جو نوائے وقت میں شائع ہوا ہے وضاحت کی ہے کہ انہوں نے یہ قطعا نہیں کہا اور نہ ان کا یہ موقف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سود کی بعض شکلوں کو اپنی زندگی میں واضح نہ کر سکے کیونکہ اس سے اسلامی عقیدہ پر زبردست زد پڑتی ہے، لہذا ایسی گمراہ کن بات کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے عدالتِ عظمیٰ کے روبرو پرزور دلائل سے یہ ثابت کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سود کی تمام قسموں کی تشریح اپنی زندگی میں ہی کر گئے تھے جیسا کہ خود نوائے وقت کی مذکورہ رپورٹ میں مدنی صاحب کی دلیل کے طور پر اس قرآنی آیت کا حوالہ بھی دیا مگیا ہے کہ "رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دین پہنچانے کا حکم تھا اور آپ نے مکمل دین پہنچا دیا۔" مولانا مدنی نے یہ وضاحت کی کہ یہ مسئلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک قول کے حوالے سے ان کے عدالت میں موقف پیش کرنے سے پہلے ہی زیر بحث تھا۔ وہ قول یوں ہے کہ: "ربا کی آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور میں نازل ہوئیں۔ اس لئے رسول کریم نے سود کی زیادہ تفصیلات پیش نہ فرمائیں لہذا سود کے علاوہ مشکوک باتوں سے بچو" مدنی صاحب نے مسند احمد میں مروی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کی یہ توجیہ پیش کی کہ اس سے مراد سود کے بعض نئے پیش آنے والے واقعات تھے۔ ان اشکالات سے نکلنے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ احتیاط کی تلقین کر رہے ہیں، جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام دین مکمل صورت میں اُمت کو پہنچا گئے تھے اگرچہ عدالتِ عظمیٰ میں کسی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کے مخالف مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے کوئی حدیث پیش نہ کی تھی لیکن عدالتی کاروائی کے بعد بعض حضرات نے مصنف عبدالرزاق کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول اخباری نمائندوں کو تقسیم کیا جو اسی مفہوم کی تائید کرتا ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زیربحث قول کے بارے میں جو سند پر تنقید شائع ہوئی ہے وہ خود مدنی صاحب نے کی تھی کہ مشہور تابعی سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہوئی تاہم اس انقطاع کے باوجود انہوں نے اس قول کی سند اس بنا پر معتبر قرار دی کہ محدثین کا اتفاق ہے کہ سعید بن مسیب  رحمۃ اللہ علیہ کی مرسل احادیث حجت ہیں۔ لہذا مناسب یہی ہے کہ اس حدیث کا انکار کر دینے کی بجائے اس کی صحیھ تعبیر سمجھی جائے۔ اسی سلسلے میں انہوں نے سند کے بغیر متن کی تحقیق کے نظریے کی تردید کرتے ہوئے عدالتی کاروائی کی مثال بھی دی کہ جج اپنی اعلیٰ بصیرت اور بھرپور تجربے کے باوجود جس طرح گواہی کے بغیر کیس کا فیصلہ نہیں کر سکتا، اسی طرح احادیث کا متن بھی اسناد کے بغیر پرکھا نہیں جا سکتا۔ احادیث کا متن پرکھنے کا واحد ذریعہ بھی سند ہے۔ چونکہ یہ بات علمی اعتبار سے دقیق فنی بحث ہے، اس لیے رپورٹر اسے سمجھ نہیں سکا۔ اس وجہ سے اس وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی۔
جہاں تک سورہ بقرہ کے بارے میں آیات کا تعلق ہے، اس کے بارے میں قرآن کی آخری اترنے والی آیتوں میں ان کے شامل ہونے سے اس لیے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس وغیرہ حجۃ الوداع 10 ہجری یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے 3 ماہ قبل تک سودی معاملوں میں ملوث رہے اور رسول کریم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگون پر ان کا سود معاف کر دیا۔ سورہ بقرہ کی آیات کو قرآن کی آخری اترنے والی آیات میں شمار کرنے سے کوئی اشکال لازم نہیں آیا۔ کیونکہ قرآن مجید میں وارد دیگر آیات سے سود کی حرمت بہت پہلے ثابت ہو چکی تھی۔ لیکن شراب کی طرح یہ ماننا پڑے گا کہ سود کی حرمت کا معاملہ بھی تدریجی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے قبل اور ہجرت کے بعد برابر سود کی طرح طرح کی اقسام حرام قرار دیتے رہے بالآخر آپ نے سود مفرد بھی حجۃ الوداع کے موقع پر حرام کر دیا اس طرح سود کی تمام قسمیں حرام قرار پائیں۔ اگر یہ موقف اختیار کیا جائے کہ سود غزوہ احد 3 ہجری سے قبل مکمل طور پر حرام ہو چکا تھا تو حضرت عباس وغیرہ کے معاملات کے علاوہ سن 4 ہجری میں بنونضیر سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ جس سے سود کی ایک مخصوص صورت کا جواز نکلتا ہے، معارضہ لازم آتا ہے۔
اسی طرح جن حضرات نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے "ربا الفضل" (سونا، چاندی اور بنیادی غذائی اشیاء کا کمی بیشی سے اُدھار پر تبادلہ) مراد لیا ہے، مدنی صاحب نے اپنے اس بیان میں اس کی بھی تردید کی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے کئی سال قبل غزوہ خیبر 7 ہجری میں اسے بھی حرام قرار دے چکے تھے۔ لہذا یہ کہنا کہ حجۃ الوداع کے بعد سود کی کوئی ظاہری یا باطنی شکل مشکوک رہ گئی تھی، درست نہیں بلکہ یہی موقف صائب ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں سود کی تمام شکلیں صراحت سے حرام قرار دے چکے تھے۔ پھر ربا (سود) کوئی شرعی اصطلاح نہیں بلکہ عربی زبان میں بھی اس کا مفہوم واضح ہے، اس کے بارے میں کسی شک و شبہ کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ (سیکرٹری اسلامک ریسرچ کونسل، پاکستان)