شیخ ابن باز مختصر سوانح اور علمی خدمات

سماحته الشيخ عبدالعزيز بن باز
(مفتی اعظم رحمۃ اللہ علیہ سعودی عرب کے مختصر سوانح حیات)


شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کی عظیم المرتبت شخصیت عالم اسلام میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ مملکت سعودی عرب کے مفتی اعظم، دارالافتاء کے رئیس اور بے شمار اسلامی اداروں کے سربراہ تھے۔ عصر حاضر میں شیخ ابن باز سے عالم اسلام کو جتنا فائدہ پہنچا ہے شاید ہی کسی اور عالم دین سے پہنچا ہو۔ پوری دنیا میں ان کے مقررہ کردہ داعی، ان کے مبعوث علماء کرام، اور ان کے قائم کردہ مدارس و اسلامی مراکز کام کر رہے ہیں اور اسلام کی شمع کو دنیا بھر میں روشن کئے ہوئے ہیں۔
شیخ ابن باز کی زندگی پر جب انسان نظر ڈالتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ وہ حیات، مستعار کی 90 سے زائد بہاریں دیکھنے کے باوجود انتہائی مصروفِ کار تھے اور ان کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے دین کو پھیلانے کے لئے وقف تھا۔ اسلام سے متعلق تقریبا تمام ہی موضوعات پر شیخ کی تصانیف موجود ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ کہا:
"میں نے شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ (خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد کے والدِ گرامی) کے دور سے لکھنا شروع کیا۔ اللہ کی قسم! میں نے آج تک جو بھی لفظ لکھا یا لکھوایا، وہ صرف اللہ کی رضا کے لئے تھا" ۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جتنی پذیرائی ان کی کتب کو حاصل ہوئی ہے، عصر حاضر میں کسی مؤلف کے حصے میں کم ہی آئی ہے۔
اپنے تمام علمی اور ادارتی مناصب کے ساتھ ساتھ انہوں نے بے شمار مسائل پر قرآن و سنت کی روشنی میں فتوے دئیے ہیں۔ ان فتوؤں میں انہوں نے ہمیشہ محدثین کے مسلک کو پیش نظر رکھا ہے۔ ان کے فتوے مختلف کتابوں اور جرائد میں چھپتے رہتے ہیں، حال ہی میں مجلہ "الدعوۃ" نے ان کے فتاویٰ کو کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ یاد رہے کہ شیخ مرحوم کے مطبوعہ فتاویٰ اب تک گیارہ ضخیم جلدوں میں سمائے ہیں اور ابھی سینکڑوں فتاویٰ ایسے ہیں جو زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوئے ۔۔ ذیل میں مفتی مرحوم کے مختصر سوانح حیات اور بعض علمی کارناموں کو بالاختصار پیش کرنے کی ہم سعادت حاصل کر رہے ہیں (حسن مدنی)
آپ کا پورا نام عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن بن محمد بن عبداللہ آلِ باز ہے۔
مقام و تاریخ پیدائش
آپ 12 ذی الحجہ 1330 (1911ء) کو ریاض میں پیدا ہوئے۔ آپ بینا اور صحیح النظر تھے۔ لیکن 1346ھ کو آپ کی آنکھوں میں کوئی بیماری لاحق ہو گئی، جس کی وجہ سے آپ کی نظر کمزور ہو گئی اور 1350ھ کو آپ کی نظر کلی طور پر ختم ہو گئی اور آپ نابینا ہو گئے۔
حصولِ تعلیم
آپ نے بالغ ہونے سے پیشتر ہی قرآنِ کریم کا حفظ مکمل کر لیا، پھر آپ ریاض کے علماء کے پاس تحصیل علم کے لئے کوشاں ہو گئے اور جب آپ نے شرعی علوم اور لغت میں نمایاں مقام حاصل کر لیا تو 1357ھ (1938ء) کو محکمہ قضاء میں آپ کا تقرر کر دیا گیا۔ طلبِ علم کا یہ سلسلہ وفات تک جاری رہا اور آپ نے اس سے اپنا ناطہ نہیں توڑا۔ آپ رات دن تحقیق و تدریس کے کام میں مشغول رہتے مختلف حکومتی عہدوں/ذمہ داریوں کی وجہ سے آپ اس سے غافل نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے علوم میں آپ کی بصیرت ار پختگی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ علومِ حدیث کے سلسلے میں آپ نے خاص اہتمام کیا۔ اس سلسلے میں آپ کو اس قدر مہارت اور رسوخ حاصل ہوا کہ کسی حدیث کی صحت و سقم کے بارے میں آپ کا فیصلہ انتہائی معتبر سمجھا جاتا اور یہ وہ علمی مقام ہے جو خاص طور پر موجودہ زمانے میں کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ آپ کی تحریروں اور فتوؤں میں اس کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں، کیونکہ آپ ہمیشہ انہی اقوال اور آراء کو اختیار کرتے ہیں جن کی تائید کسی مسلمہ دلیل سے ہوتی ہو۔
شیوخ اور اَساتذہ
آپ نے بہت سے علماء سے علم حاصل کیا جن میں سے چند معروف اساتذہ کے نام یہ ہیں:
(1)الشیخ محمد بن عبداللطیف بن عبدالرحمٰن بن حسن بن الشیخ محمد بن عبدالوہاب (قاضی ریاض)
(2) الشیخ صالح بن عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن بن حسن بن الشیخ محمد بن عبدالوہاب
(3) الشیخ سعد بن حمد بن عتیق (قاضی ریاض)
(4) الشیخ حمد بن فارس (سیکرٹری خزانہ)
(5) سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم بن عبداللطیف آلِ الشیخ جو تاحیات مملکتِ سعودی عرب کے مفتی رہے۔ آپ نے عرصہ دس سال (1347ھ تا 1357ھ) ان کے حلقہ درس کا التزام کیا اور ان سے تمام شرعی علوم سیکھے۔
(6) الشیخ سعد وقاص بخاری جو مکہ مکرمہ کے علماء میں سے تھے۔ ان سے آپ نے 1355ھ میں علمِ تجوید سیکھا۔
علمی خدمات
جب آُ 1357ھ (1938ء) کو منطقہ خَرَج میں قاضی کے عہدہ پر فائز ہوئے، اس وقت سے لے کر آج تک اشاعتِ علم کے لئے آپ مسلسل تدریسی حلقوں کا باقاعدہ التزام کرتے رہے۔ خرج میں آپ منگل اور جمعہ کے علاوہ ہفتہ کے دیگر تمام دنوں میں علمی مجالس کا اہتمام کرتے۔ طلباء کی ایک جماعت مستقل طور پر آپ کی خدمت میں موجود رہتی تھی، جنہوں نے اپنے آپ کو حصولِ علم کے لئے وقف کر رکھا تھا، ان میں سے چند معروف سعودی اور پاکستانی شاگردوں کے نام یہ ہیں:
(1)الشیخ عبداللہ کنھل
(2) الشیخ راشد بن صالح الخنین
(3) الشیخ عبدالرحمٰن بن ناصر البراک
(4) الشیخ عبداللطیف بن شدید
(5) الشیخ عبداللہ بن حسن بن قعود
(6) الشیخ عبدالرحمٰن بن جلال
(7) الشیخ صالح بن ہلیل
(8) ڈاکٹر ربیع بن ہادی المدخلی
(9) پروفیسر یوسف کاظم، اسلام آباد
(10) مولانا بشیر احمد گوہڑوی، قصور
(11) حافظ عبدالرحمٰن مدنی پرنسپل شریعت کالج، لاہور
(12) حافظ ثناءاللہ مدنی، سربراہ (پاکستانی) سعودی مشن
(13) ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، ناظم جامعہ عربیہ، کراچی
(14) ڈاکٹر صہیب حسن، سربراہ ادارۃ القرآن، لندن
(15) پروفیسر عبدالسلام کیلانی، یوگنڈا
(16) شیخ الحدیث مولانا حسن جان سابق MNA، پشاور
(17) پروفیسر عبداللہ کاکاخیل، اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد
(18) پروفیسر ابراہیم خلیل، نیروبی (کینیا)
(19) حافظ محمد سلفی، مہتمم جامعہ ستاریہ، کراچی
(20) ڈاکٹر صدیق الحسن خان، مجلس تحقیق اسلامی، لاہور
1372ھ کو آپ ریاض منتقل ہو گئے، جہاں آپ ریاض کے معہدِ علمی میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے اور جب 1373ھ کو کلیۃ الشریعہ کا قیام عمل میں آیا تو وہاں آپ فقہ، حدیث اور توحید کے علوم پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد 1381ھ کو آپ کا تبادلہ مدینہ منورہ ہو گیا اور آپ کو مدینہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ جب آپ ریاض منتقل ہوئے تھے تو آپ نے ریاض کی بڑی جامع مسجد میں ایک تدریسی حلقے کی بنیاد رکھی، یہ تدریسی حلقہ آج بھی قائم ہے اور وہاں درس و تدریس کا کام بدستور جاری ہے، تاہم ریاض میں قیام کے آخری سالوں میں آپ کی مصروفیات بڑھ گئیں اور اس تدریسی حلقے کا دائرہ عمل ہفتے کے بعض ایام تک محدود ہو کر رہ گیا۔ طلباء کی ایک کثیر تعداد اس علمی حلقے سے وابستہ رہی۔
1381ھ (1961ء) کو مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور 1390ھ سے لے کر 1395ھ تک چانسلر کی حیثیت سے جب آپ کا قیام مدینہ منورہ میں رہا تو اس دوران آپ نے مسجدِ نبوی شریف میں تدریس کا ایک حلقہ قائم کیا۔ علاوہ ازیں جب آپ اپنے مستقل رہائشی مقام سے عارضی طور پر کسی اور مقام کی طرف نقل مکانی کرتے جیسا کہ موسم گرما میں آپ کا قیام طائف وغیرہ میں ہوتا تھا تو وہاں بھی آپ اس تدریسی حلقے کو بدتور قائم رکھتے۔
تصنیفات
(1) فتح الباری شرح صحیح بخاری پر کتاب الحج تک مفید تعلیقات
(2) فتوؤں کا مجموعہ اور مختلف موضوعات پر مقالے (جن کی اب تک 11 جلدیں شائع ہو چکی ہیں)
(3) الفوائد الجلية فى المباحث الفرضية
(4) التحقيق والايضاح لكثير من مسائل الحج والعمرة والزيارة (توضیح المناسک) حج، عمرہ اور زیارت کے بہت سے مسائل کی وضاحت اور تحقیق۔
(5) التحذير من البدع ، یہ چار مفید مقالوں پر مشتمل ہے: (الف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدائش منانے کا مسئلہ (ب) شبِ معراج منانے کا حکم (ج) نصف شعبان کی رات یعنی شبِ براءت منانے کا حکم (د) حجرہ نبوی کے خادم شیخ احمد کے من گھڑت اور جھوٹے خوابوں کی وضاحت۔
(5) زکوٰۃ اور روزوں سے متعلق دو جامع اور مختصر رسالے۔
(6) العقيده الصحيحة وما يضادها (صحیح عقیدہ کی تعلیم اور جو کچھ اس کے برعکس ہے)
(7) وجوب العمل بسنة الرسول صلى الله عليه وسلم و كفر من انكرها (سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل واجب ہے اور جو اُس کا انکار کرے وہ کافر ہے)
(8) الدعوة الى الله و اخلاق الدعاة (دعوت الی اللہ ۔۔ اور داعیوں کے اوصاف)
(9) وجوب تحكيم شرع الله و نبذ ما خالفه (اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا واجب ہے اور جو بات اس کے خلاف ہو وہ ناقابل قبول ہے)
(10) حكم السفور والحجاب و نكاح الشغار (بے پردگی، حجاب اور وٹے سٹے کے نکاح کا حکم)
(11) نقد القومية العربية (عربی قومیت پر مبنی نظریات پر تنقید)
(12) الجواب المفيد فى حكم التصوير (تصویر کے مسئلہ پر مفید وضاحتیں)
(13) الشیخ محمد بن عبدالوہاب ۔۔ آپ کی دعوت اور سیرت
(14) نماز سے متعلق تین رسائل: (الف) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت (ب) باجماعت نمازس پڑھنے کا وجوب (ج) جب نمازی رکوع سے اٹھے تو ہاتھ کہاں رکھے؟
(15) جو شخص قرآن یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنہ زنی کرے، اس کے متعلق اسلام کا حکم کیا ہے؟
(16) سورج کے متحرک، زمین کے ساکن ہونے اور ستاروں تک پہنچنے کے سائنسی نظریات پر نقلی اور عقلی دلائل
(17) اقامة البراهين على من استغاث بغير الله و صدق الكهنة و العرافين (جو شخص اللہ کے سوا کسی سے فریاد رسی کرے اور جو کاہنوں اور نجومیوں کو سچا سمجھے اس کے کفر پر واضح دلائل)
(18) الجهاد فى سبيل الله
(19) الدروس الهمة لعامة الامة (اُمت کے عام لوگوں کے لئے ضروری اسباق)
(20) فتاوىٰ تتعلق باحكام الحج والعمرة والزيارة (حج، عمرہ اور زیارت کے احکام پر فتاویٰ)
(21) وجوب لزوم السنة والحذر من البدعة (سنت کو لازم پکڑنے اور بدعت سے بچنے کا وجوب)
۔۔ یہ تو تھیں آپ کی وہ تصنیفات جن کی طباعت مکمل ہو چکی ہیں اور ان کے علاوہ آپ نے بعض کتابوں پر تعلیقات بھی لکھی ہیں، جو یہ ہیں:
(1) بلوغ المرام
(2) تقريب التهذيب للحافظ ابن حجر (غیر مطبوعہ)
(3) تحفة الاخيار ببيان جملة نافعة مما ورد فى الكتاب والسنة الصحيحة من الادعية والاذكار (نیک لوگوں کو کتاب و سنت میں مفید ادعیہ و اذکار کا خوبصورت ہدیہ)
(4) التحفة الكريمة فى بيان كثير من الاحاديث الموضوعة والسقيمة (متعدد موضوع و سقیم احادیث کے تذکرہ پر مبنی تحفہ)
(5) تحفة اهل العلم والايمان بمختارات من الاحاديث الصحيحة والحسان (اہل علم و ایمان کو منتخب صحیح و حسن احادیث پر مبنی عظیم تحفہ)
علمی خدمات کے علاوہ سماحۃ الشیخ کی دیگر مصروفیات
(1) شاہی فرمان کے ذریعے آپ کو ادارہ برائے بحوث علمیہ، افتاء و دعوت و ارشاد کے چئیرمین کے منصب پر فائز کیا گیا۔ واضح رہے کہ اب چند سال قبل ادارہ دعوت و ارشاد سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور کو منتقل کر دی گئی تھی۔ علاوہ ازیں آپ درج ذیل مناصب پر کام کر رہے تھے:
(2) هيئة كبار العلماء (کبار علماء کے بورڈ) کے سربراہ
(3) شعبہ بحوثِ علمیہ اور افتاء کی مستقل کمیٹی کے بھی سربراہ
(4) رابطہ عالم اسلامی مجالس تاسیس کے ممبر بھی ہیں اور چئیرمین بھی
(5) مکہ مکرمہ میں مساجد کی اعلیٰ عالمی مجلس کے چئیرمین
(6) رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی فقہی اسلامی اکیڈمی کے چئیرمین
(7) مملکتِ سعودی عرب کی دعوتِ اسلامیہ کی اعلیٰ کمیٹی کے ممبر کے طور پر
آپ کی علمی اور دینی سرگرمیوں کا دائرہ مذکورہ خدمات تک ہی محدود نہیں بلکہ آپ علمی مجلسوں میں شرکت فرما کر اہم موضوعات پر لیکچر دیتے اور علمی، تنقیدی تبصروں میں شرکت بھی فرماتے۔ عام و خاص محفلوں میں شریک ہو کر قراءت اور تنقیدی تبصروں کے ساتھ ان کی رونق کو دوبالا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ امر بالمعروف اور نهى عن المنكر کے فریضے کا بھی خاص اہتمام کرتے اور یہ ایک ایسا وصف ہے جو آپ کی شخصیت کا ایک لازمی حصہ بن چکا تھا۔
آپ کی وفات سے عالم اسلام اور ایک عظیم علمی اور فقہی بصیرت کی حامل شخصیت سے محروم ہو گیا۔ یہ آپ کی ذاتِ ستودہ صفات کا اثر تھا کہ سعودی عرب میں اب تک بیسیوں منکرات کے دروازے بند تھے۔ سعودی فرمانروا آپ کے فرامین کو حکم ناموں کی سی اہمیت دیتے، اور آپ سے ملاقات کے لئے خود حاضری دیا کرتے۔ واقعتا آپ کا مقام مفتی اعظم کے سرکاری منصب سے بہت بلند و بالا تھا۔
سعودی عوام میں آپ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص انہیں سماحة الوالد کے عقیدت بھرے خطاب سے یاد کرتا تھا۔ اور آپ کا نام سنتے ہی احترام و عقیدت کے جذبات سے مغلوب ہو جاتا۔ آپ کے نام سے کسی مسئلے پر آ جانے والا فتویٰ سعودی عرب میں حرفِ آخر سمجھا جاتا اور حکومتیں اس کے مطابق قانون سازی کرنے پر مجبور ہوتیں۔ واقعتا آپ ایسے مخلص، پرہیزگار اور نمونہ اسلاف شخصیت کے چلے جانے سے سعودی عرب میں بالخصوص اور عالم اسلام میں بالعموم عظیم خلا پیدا ہو گیا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے چھوڑے ہوئے علمی ذخیرے سے مستفید ہونے کی توفیق بخشے اور آپ کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین!                (ادارہ "محدث")
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ﴿٢٦﴾ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ﴿٢٧﴾...رحمن