مسئلہ رؤیتِ ہلال اور رؤیتِ ہلال کمیٹی کا

(وزارتِ مذہبی امور کی نئی تجاویز کا ایک جائزہ)

ایک عرصے سے پاکستان میں رویتِ ہلال کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ آئے دن اس سلسلے میں نئی تجاویز سامنے آتی ہیں اور بحث کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے اور اس کے لئے جو ضروری باتیں تھیں، وہ شریعت نے ہمیں بتا دی ہیں۔ مثلا یہ کہ:
(1)ہلال کا دیکھا جانا ضروری ہے، یعنی اس کے لیے رؤیتِ بصری ضروری ہے، محض سائنسی آلات سے اس کے وجود و عدمِ وجود کا علم کافی نہیں۔
(2) ایک جماعت کا دیکھنا ضروری نہیں، ایک یا دو یا چند افراد کا دیکھ لینا کافی ہے، اگر دیکھنے کی گواہی دینے والے معتبر ہوں تو ان کی رؤیت پورے ملک کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔
(3) عیدیں یا رمضان یا حج، جن کی بنیاد رؤیتِ ہلال پر ہے، ان کی حیثیت ملکی تہواروں یا جشنوں کی نہیں ہے، بلکہ دراصل یہ سب ملت اسلامیہ کے شعائر ہونے کے ناطے عبادات میں شامل ہیں۔ اس لیے ان میں وحدت (یعنی پورے عالم اسلام میں ایک ہی دن اِن کا آغاز ہو) مطلوب نہیں ہے، بلکہ ان میں اصل چیز اخلاص اور خشوع و خضوع ہے۔ اور اس کے لیے ہر جگہ علاقائی اجتماعات کافی ہیں جو مسلمانوں کی شان و شوکت کا مظہر ہوں، عالمی وحدت قطعا ضروری نہیں (جیسا کہ ہم محدث، مارچ 99ء کے "فکرونظر" میں اس نکتے کی وضاحت کر چکے ہیں)
(4) اختلافِ مطالع کا اعتبار ہے اور اسے نظر انداز کر کے پورے عالم اسلام میں ایک ہی قمری تاریخ کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ (اس کی بھی وضاحت مارچ اور اپریل کے "محدث" میں کی جا چکی ہے۔)
نئی نئی تجاویز پیش کرنے والے حضرات مذکورہ ثابت شدہ اور متفق علیہ اُمور کو نظرانداز کر دیتے ہیں یا ان کی تجاویز سے یہ نظر انداز ہو جاتے ہیں، اس لیے ان کی تجاویز علمی اور دینی حلقوں میں بجا طور پر پذیرائی سے محروم رہتی ہیں۔ اور یہ ایک نہایت مستحسن اَمر ہے کہ عملی انحطاط کے باوجود مسلمانوں کا ضمیر کسی بھی ایسی تجویز کو قبول نہیں کرتا جس میں شرعی اُصول و قواعد سے انحراف پایا جاتا ہو۔
مارچ کے "محدث" میں ایک ایسی ہی تجویز پر ہم اظہارِ خیال کر چکے ہیں جس کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔ اور اب وفاقی وزارتِ مذہبی اُمور کی طرف سے بعض نئی تجاویز سامنے آئی ہیں۔ اِن تجاویز کا تعلق مسئلہ رؤیتِ ہلال سے بھی ہے اور رؤیتِ ہلال کے لیے جو رؤیتِ ہلال کمیٹی بنی ہوئی ہے، اس سے بھی ہے ۔۔ ان تجاویز کا خلاصہ یہ ہے:
(1)مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کا وجود ختم کر دیا جائے (اس کے ماتحت علاقائی کمیٹیاں اَزخود ختم ہو جائیں گی) اور یہ معاملہ خود وزارتِ مدینی اُمور سنبھال لے اور وہی علماء کے فیصلے کے بغیر رؤیت اور عدمِ رؤیت کا اعلان کرے۔ البتہ ایک اطلاعاتی مرکز قائم کیا جائے جس میں تمام جدید سائنسی آلات اور سہولیات موجود ہوں۔ وزارت مذہبی اُمور اس کی مدد سے چاند کے دیکھنے اور اس کا فیصلہ کرنے کا اہتمام کرے۔
(2) سعودی عرب کو حرمین مقدسین کی وجہ سے پورے عالم اسلام میں عزت و احترام کا ایک خاص مقام حاصل ہے، پاکستان میں اس کی رؤیت اور فیصلہ کو بنیاد بنا لیا جائے اور اس کے مطابق ہی یہاں رمضان کے آغاز کا اور عیدین منانے کا اہتمام کیا جائے۔ یہ اتحادِ اُمت کی اچھی مثال بھی بن سکتی ہے
(3) یا پھر ااُن علماء میں سے کسی ایک ممتاز عالم دین کو رؤیتِ ہلال کمیٹی کی سربراہی سونپ مدی جائے، جو ہر سال مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے فیصلے سے اختلاف کرتے اور اُسے نظرانداز کر کے اپنے طور پر سعودی عرب کی تقلید میں عیدین منانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ہمارے خیال میں وزارت مذہبی اُمور کی تینوں ہی تجویزیں نہ صرف درست نہیں بلکہ کوئی ایک تجویز قابل عمل بھی نہیں!!
جہاں تک پہلی تجویز کا تعلق ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مسئلے سے علمائے کرام کا تعلق ختم کر دیا جائے اور یہ معاملہ کلیتا حکومت کے ہاتھ میں چلا جائے۔ لیکن اس سے مسئلہ سلجھے گا نہیں، مزید اُلجھے گا۔ اس لیے کہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے جس میں رہنمائی کے لیے عوام دینی رہنماؤں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور کریں گے کیونکہ وہ شرعی مسئلے میں حکومت پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔
خود مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے قیام کے پس منظر بھی یہی ہے کہ ایوب خاں کے دور میں ایک دو مرتبہ حکومت نے اپنے اعلان کے مطابق عید منوانے کی کوشش کی جو بری طرح ناکام ہوئی اور عوام نے علماء کی رائے پر ہی مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ اس تجربے کی روشنی میں بالآخر حکومت نے رؤیتِ ہلال کمیٹی قائم کی اور یہ معاملہ کلیتا اس کمیٹی کے ذریعے سے علماء کے سپرد کر دیا۔ رؤیتِ ہلال کمیٹی کے قیام کے بعد یہ معاملہ نہایت خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔ کمیٹی کے فیصلے میں بعض دفعہ تاخیر ہو جاتی ہے یا اس کا فیصلہ ہدفِ تنقیف بنتا ہے، تو اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ یا تو حکومت کے ناقص انتظامات تاخیر کا سبب بنتے ہیں یا ناقص اطلاعات اس کا باعث ہیں۔ اصل ضرورت اُن وجوہات کا خاتمہ ہے جن سے تاخیر ہوتی ہے یا اگر فیصلہ ہدفِ تنقید بنتا ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ رؤیتِ ہلال کمیٹی کا وجود ہی تحلیل کر دینا چاہئے جس کا کوئی قصور نہیں، کیونکہ کمیٹی کا کام صرف چاند دیکھنا نہیں ہے، بلکہ "چاند دیکھے جانے یا نہ دیکھے جانے کا فیصلہ کرنا ہے۔" اور کمیٹی اپنا یہ کام یعنی رؤیتِ کا فیصلہ کرنے میں دستیاب وسائل کی حد تک اپنی ممکنہ مساعی بروئے کار لاتی ہے، اس میں بالعموم کوتاہی نہیں کرتی۔ اس تاخیر کے خاتمے یا غلط فیصلے کے ازالے کے لیے ہم نے اپریل 1999ء کے ادارتی شذرے میں حکومت کے سامنے چند تجاویز پیش کی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اس کی روشنی میں ضروری اقدامات بروئے کار لائے، تاکہ کمیٹی کی راہ میں جو مشکلات ہیں، وہ دور ہوں اور اس کی کارگردگی کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔
علامہ قرافی رحمۃ اللہ علیہ نے رؤیتِ ہلال کے مسئلہ پر بہت تفصیل سے لکھا ہے اور یہ بحث ان کی مشہور تصنیف الفروق کے صفحہ 8 تا 15 میں پھیلی ہوئی ہے۔ جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ رؤیتِ ہلال کے دو پہلو ہیں: ایک خبر کا اور دوسرا شہادت کا، اس اعتبار سے اس میں قضاء (فیصلہ) کا پہلو نمایاں ہے۔
خبر کی حد تک، تمام انتظامات کی ذمے دار حکومت ہے (ان میں جو کمی اور کوتاہی ہے، اس کے لیے ہم محولہ بالا شمارے میں تجاویز پیش کر چکے ہیں۔ حکومت اس کا اہتمام کرے) کہ ہر ممکنہ طریقے سے، سائنسی آلات وغیرہ کی مدد لے کر یا عوام میں شعوراور رؤیت کا اہتمام پیدا کر کے کمیٹی کو چاند کے بارے میں تمام خبریں بروقت پہنچائی جائیں۔
جہاں تک شہادت کا معاملہ ہے، اس کی جانچ پرکھ کا کام علماء کا ہے، وہی اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں کہ رؤیت ہلال کی جو شہادتیں میسر آئی ہیں، وہ کسی حد تک قابل قبول یا قابل رد ہیں اور آیا ان کی بنیاد پر رؤیت کا فیصلہ صحیح ہے یا غلط؟ ۔۔ حکومت کا کوئی انتظامی ادارہ شہادتوں کی جانچ پڑتال کا اہل نہیں۔ کیونکہ اس میں حکومت کی سیاسی مصلحتیں اور مفادات درمیان میں آ سکتے ہیں جو اس سارے کام کو مشکوک بنا دیں گے اور اسی وجہ سے عوام ان معاملات میں حکومت کے فیصلوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ جب کہ علماء کے سامنے اس قسم کے کوئی مفادات نہیں ہوتے، وہ تو صرف لوجہ اللہ عوام کی دینی رہنمائی کا فرضِ منصبی ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بنا بریں رؤیت ہلال کمیٹی کے ختم کرنے کی تجویز، غیر معقول اور ایک بنے بنائے نظم کو بگاڑنے کی مذموم سعی ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اس کم یٹی کو زیادہ مؤثر اور قابل اعتماد بنایا جائے اور اس کی صورت یہ ہے کہ اس میں علماء کو صرف میرٹ کی بنیاد پر شامل کیا جائے یعنی ان علماء کو کمیٹی کا ممبر بنایا جائے جو مستند عالم اور عوام کے معتمد ہوں۔ محض سیاسی رشوت کے طور پر حکومت کی حلیف مذہبی جماعتوں کے نمائندوں اور ان کے تجویز کردہ علماء کو ہی شامل نہ کیا جائے (جیسا کہ عام طور پر معمول ہے) بلکہ حکومت کی حمایت یا مخالفت سے قطع نظر اہل تر افراد کو نامزد کیا جائے۔
(2) سعودی عرب، بلاشبہ حرمین شریفین کے خادم ہونے اور دیگر بہت سی امتیازی خصوصیات کا حامل ہونے کی وجہ سے نہایت قابل احترام ہے، لیکن پاکستان اور سعودی عرب کے مطلع میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اس لیے سعودی عرب کی رؤیت کو پاکستان کے لیے بھی قابل اعتبار گرداننا شرعی لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہو گا۔ شرعی نصوص کا تقاضا اور اکثر علماء کا فیصلہ یہی ہے کہ ایک علاقے کی رؤیت دوسرے علاقوں کے لیے کافی نہیں ہے الا یہ کہ مطلع کا زیادہ فرق نہ ہو۔ اس اعتبار سے سعودی عرب کے فیصلے کو پاکستان کے لیے بھی لازمی قرار دینا شرعی نصوص کے خلاف ہو گا۔ نیز پاکستان سعودی عرب کے انتظامی کنٹرول میں نہیں ہے۔ سعودی فیصلہ کا دائرہ کار صرف سعودی عرب کی حدود ہیں۔ کیا عیدین کے علاوہ محرم الحرام اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی عوام سعودی حکومت کے فیصلے پر مطمئن ہو جائیں گے؟ ۔۔۔ گویا یہ تجویز بھی ناقابل عمل ہے۔
(3) وزارتِ مذہبی امور کی تیسری تجویز کی ناعیت بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی صاحب کہیں کہ اپوزیشن لیڈر کو ہی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز کر دیا جائے، تاکہ سیاست دانوں کی کِل کِل ختم ہو جائے۔ اگر قائدِ حزبِ اختلاف کی ہنگامہ آرائیوں اور تنقیدی بیانات کا یہ علاج صحیح ہے، پھر تو وزارتِ مذہبی اُمور کی یہ تجویز درست ہے کہ اختلاف کرنے والے علماء میں سے کسی عالم کو ہی مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا چئیرمین بنا دیا جائے، تاکہ وہ زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرے۔ اگر وزارتِ مذہبی اُمور نے واقعی پوری سنجیدگی سے یہ تجویز پیش کی ہے تو اس کا تجربہ سب سے پہلے ایوانِ اقتدار میں کیا جانا چاہئے، تاکہ اقتدار کی یہ رسہ کشی ختم ہو جائے جس نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ وہاں یہ تجربہ کامیاب ہو گیا، تو پھر یقینا اسے رؤیتِ ہلال کمیٹی کے لیے بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ (حافظ صلاح الدین یوسف)
﴿وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ ﴿٢١﴾...الحجر