شیخ ابن باز ممتاز فقیہ اور محدثِ دوراں

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ
(ایک ممتاز عالم دین، محدث اور فقیہ)


یوں تو محدث کے موجودہ شمارے میں مفتی مرحوم کے بارے میں دو تفصیلی مضامین شامل اشاعت ہیں جن میں ایک مضمون ہمارے محترم مدیر حافظ صلاح الدین یوسف نے بطورِ خاص محدث کے لئے تحریر کر کے دیا ہے جو بہت ہی جامع پیرائے میں شیخ مرحوم کی شکصیت، خدمات کا ایک جامع جائزہ پیش کرتا ہے۔ لیکن شیخ ابن باز کی ذاتِ مبارکہ اور ان کی مساعی دین کو جاننے والا ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ چند ایک مضامین میں آپ ایسی عہد ساز شخصیت کی خدمات کا احاطہ ؎کیا جانا مشکل امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو مضامین کی اشاعت کے باوجود بھی ہمیں یہ تشنگی محسوس ہوتی تھی کہ ابھی اس موضوع پر مزید روشنی ڈالی جانی چاہئے۔
شیخ ابن باز کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ آپ خود نمائی یا ذاتی ستائش کو کبھی پسند نہ فرماتے، یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کی اس نامور شخصیت پر ان کی زندگی میں بہت کم لکھا گیا۔ وگرنہ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ آپ کے کام کے ہر ہر پہلو پر مفصل تحریریں سامنے آئیں تاکہ ایسی مبارک ہستیوں کی زندگی سے دوسرے بہت سے حق کے متلاشی اپنی زندگیوں میں ایسے خصائل کو اَپنا کر امت کے لئے خیروبرکت پھیلائیں۔ بہرحال ایسی شخصیات کی خدمات کا اعتراف اور ان کے حسن کردار کی عکاسی قوموں میں زندگی کے آثار کی نشاندہی کرتی ہے۔
چنانچہ اس تشنگی کو کچھ کم کرنے کے لیے ہم ذیل میں آج سے 5 برس قبل تحریر ہونے والا مضمون بھی شائع کر رہے ہیں۔ جس میں شیخ کی روزمرہ کی مصروفیات کا ایک خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ پہلے دو مضامین اگر شیخ کے بارے میں کچھ اچھے جذبات اور تذکروں پر مشتمل ہیں تو یہ مضمون ان تذکروں کی عملی رنگ میں تائید اور مثالیں ہیں جن سے آپ کی حیاتِ طیبہ کے خوبصورت پہلو جا بجا نمایاں ہوتے ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ آپ بھی اس تذکرہ خیر سے اپنی معمولات کو سنوارنے اور مفید بنانے میں مدد لیں گے۔ وما ذلك على الله بعزيز (حسن مدنی)
یہ دسمبر 1994ء کی ایک جمعرات کی صبح تھی۔ مجھے فجر کی نماز ریاض کی سب سے بڑی مسجد جامع الامام ترکی (جو دیرہ والی مسجد کے نام سے مشہور ہے) میں ادا کرنا تھی۔ فجر کی نماز ختم ہوئی تو عالم اسلام کی نامور شخصیت سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز حفظہ اللہ نے درس دینا شروع کیا۔ دلوں میں اُترنے والا درس اور حاضرین ہمہ تن گوش۔ شیخ قرآن پاک کی آیات پڑح رہے ہیں، حدیث شریف سے استدلال ہو رہا ہے، حاضری دم بدم بڑھ رہی ہے۔ میری نگاہیں دروازوں کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ طلباء کے گروہ در گروہ کتابیں اٹھائے مسجد میں داخل ہو رہے ہیں۔ پندرہ بیس منٹ کا درس ختم ہوا۔ اب طلباء کے ہجوم میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔ دس منٹ کے وقفے میں شیخ کے ارد گرد بے شمار طلباء کا ہجوم اکٹھا ہو گیا ہے۔ مسجد کے دروازوں سے طلباء یوں کشاں کشاں داخل ہو رہے ہیں گویا پروانے اپنی شمع کی تلاش میں آ رہے ہیں۔ اچانک شیخ ابن باز اپنی مسند پر تشریف لاتے ہیں۔ حاضرین پر سناٹا طاری ہو جاتا ہے۔ طلباء نے صحیح البخاری کھول لی ہے۔ ایک طالب علم نے حدیث پڑھنا شروع کی۔ شیخ سماعت فرما رہے ہیں۔ حاضرین کی نگاہیں بدستور کتب پر ہیں۔ کہیں زیر و زبر کی غلطی ہو گئی۔ شیخ نے فورا سر اوپر اٹھایا۔ طالب علم نے حدیث پڑھنا بند کر دی۔ شیخ نے اصلاح کی اور پھر اس حدیث کی شرح بیان ہونا شروع ہو گئی۔ شیخ علم کے دریا بہا رہے ہیں۔ اب طلباء کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہاں بڑے بڑے اُستاد، مدرس، پروفیسر، یونیورسٹی کے اساتذہ ہیں۔ ان کےہاتھوں میں قلم، سامنے صحیح بخاری کا نسخہ اور کاغذ ہیں۔ دھڑادھڑ نوٹس لئے جا رہے ہیں۔ پندرہ بیس منٹ تک درس جاری رہتا ہے اور شیخ فرماتے ہیں ۔۔ حسبك الله
اب دوسرا شاگرد مائیک سنبھال لیتا ہے۔ صحیح مسلم شریف کا درس شروع ہوا۔ احادیث پڑھی جا رہی ہیں۔ شیخ ابن باز حفظہ اللہ جہاں ضروری ہوتا ہے، وہاں تشریح فرما رہے ہیں۔ اب تفسیر ابن کثیر کی باری ہے۔ شاگرد جو پڑھ رہا تھا، بدل گیا ہے مگر استاد وہی ہے۔ اپنی جگہ پر، اپنی مسند پر براجمان۔ میں ورطہ حیرت میں ڈوبا ہوا ہوں۔ میں نے تاریخ میں علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں کا حال پڑھا، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ پڑھی۔ ان کے شاگردوں کی تعداد سینکڑوں ہزاروں تک پہنچتی تھی۔ آج اپنی نگاہوں سے دیکھ رہا ہوں۔ حدِ نگاہ تک چاروں طرف ہجوم، طالبانِ حق جو ریاض کے کونے کونے سے تشریف فرما ہیں۔ تفسیر ابن کثیر کا دور بھی ختم ہوتا ہے اب امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سامنے ہے۔ پڑھنے والا جہاں کہیں غلطی کرتا ہے، شیخ فورا ٹوکتے ہیں۔ اب باری صحیح ترمذی کی ہے۔ احادیث کا دور ہو رہا ہے۔ سننے والے علم و عرفان کے موتی اپنے دامن میں سمیٹ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ابوداؤد کی باری ہے۔ پھر صرف و نحو کا دور چلنے والا ہے۔ علم کی بارش ہو رہی ہے۔ مجھے پتہ چلتا ہے کہ یہ سلسلہ برس یا برس سے جاری ہے۔ ہر جمعرات کو یہ سلسلہ ہوتا ہے۔ لوگ دور دور سے بطور خاص درس میں شرکت کے لئے آتے ہیں۔ یقینا علمائے سلف کا یہی طریق رہا ہے وہ علم کی مجالس میں بڑی لذت محسوس کرتے اور سارا سارا دن حدیث پڑھتے پڑھاتے گزر جاتا۔
اب میں تصور کی آنکھ سے شیخ ابن باز کو دیکھ رہا ہوں۔ بڑے بڑے علماء دیکھے مگر قارئین! عصر حاضر میں ان جیسا عالم دین، محقق، محدث، مفتی نہ دیکھا، نہ سنا، میں علیٰ وجہ البصیرت یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس دور میں جتنا فائدہ عالم اسلام کو شیخ ابن باز سے پہنچا، شاید ہی کسی اور سے پہنچا ہو، بلاشبہ شیخ اس دور میں اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔ شیخ کی عمر 85 سال سے تجاوز کر گئی ہے مگر اب بھی خلق خدا کو اپنے علم، عمل اور اخلاق سے مسلسل فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
کم و بیش سات آٹھ سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آتا ہے، میں وزارۃ الدفاع والطیران کے مذہبی اُمور کے وفد کے ساتھ بطورِ مترجم کی ڈیوٹی پر تھا۔ منیٰ اور عرفات میں بڑا کیمپ تھا۔ اس حج وفد کے سربراہ جنرل عبدالمحسن آل الشیخ تھے۔ میدانِ عرفات میں سورج غروب ہونے میں تھوڑا وقت باقی تھا۔ وفد کے تمام اراکین قبلہ رو اپنے بازو پھیلائے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ میرے بائیں ہاتھ جنرل عبدالمحسن اپنے ہاتھ اٹھائے مصروفِ دعا ہیں۔ یہ آل الشیخ سے ہیں، خود بھی عالم دین ہیں، عمر کم و بیش ساٹھ سال کی ہے۔، میرے کان ان سے ایک عجیب دعا سن رہے ہیں۔ جنرل صاحب دعاء کر رہے ہیں: "اے اللہ میری زندگی شیخ عبدالعزیز بن باز کو عطا فرما دے ۔۔"
مجھے اپنی سماعت پر یقین نہیں آتا میں دوبارہ غور سے سنتا ہوں۔ جنرل صاحب یہی دعا بار بار فرما رہے ہیں۔ یوں تو بحیثیتِ عالم دین شیخ ابن باز حفظہ اللہ سے ایک دلی تعلق تھا۔ اس واقعہ نے دل میں محبت کو اور نقش کر دیا۔ شیخ صاحب سے ملنا کوئی مشکل کام نہیں۔ ذرا دل میں آیا اور شیخ صاحب کی مسجد کے امام قاری حافظ محمد الیاس صاحب کو فون کر دیا۔ بس ملاقات ہی نہیں، کھانے کی دعوت بھی مل گئی۔ الحمدللہ نجانے کتنی بار اس ناچیز کو ان کے دسترخوان پر طعام سے فیض یاب ہونے کا موقعہ ملا ہے۔ مگر کبھی کبھی قسمت زیادہ ہی مہربان ہو جاتی ہے۔
دو سال قبل 1413ھ کی بات ہے۔ میں نے "دی نوبل قرآن" کے نام سے انگلش زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ شائع کیا تو اس کے مترجم ڈاکٹر محمد محسن خان صاحب کے ساتھ جا کر سماحۃ الشیخ کو ایک نسخہ پیش کیا۔ شیخ صاحب نے تحسین فرمائی۔ اور ارشاد ہوا کہ کل دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھائیے۔ میری قسمت کہ نام لے کر فرمایا: "عبدالمالک بھی آئے۔"۔ اگلے دن حسبِ پروگرام دو بجے ہم ان کے گھر جا پہنچے۔ عموما بیرونِ ملک سے وفود آئے ہوتے ہیں مگر میری خوش قسمتی کہ مہمان کچھ زیادہ نہ تھے
دسترخوان پر بیٹھے، کھانا شروع ہوا تو اچانک شیخ نے مجھ سے نشرواشاعت سے متعلق سوال کرنا شروع کر دئیے۔ اب کھانا کس کو سوجھے! عصر حاضر کے سب سے بڑے امام، مفتی عالم دین اور ولی کامل مجھ ایسے عاصی سے سوال کر رہے ہیں مجھے حیرت انگیز خوشی ہو رہی ہے کہ شیخ کو نشرواشاعت کی تمام تر جزئیات کا علم ہے۔ میں آہستہ آہستہ جواب دے رہا ہوں۔ کون کون سے کتب شائع کی ہیں؟ کہاں کہاں پہنچ گئی ہیں؟ تصحیح کا کیا انتظام ہے؟ کاغذ کیسا لگایا ہے؟ تجلید کیسی ہے؟ کون کون سی کتب ترجمہ کی ہیں؟ کھانے کا بیشتر وقت مجھ سے سوال و جواب میں گزر گیا۔ شیخ خود بے حد کم کھانا کھاتے ہیں۔ ڈاکٹر محسن خان صاحب حسبِ ضرورت میری مدد فرما رہے ہیں۔ شیخ نے کھانا مکمل کیا اور ہمیں حکم دیا کہ تم لوگ کھانا ختم کرو، یہی ان کی عادت ہے۔ میں  نے ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا کہ شیخ کا خادمِ خاص دوڑتا ہوا آیا۔ وہ آواز لگا رہا ہے: يا عبد المالك ۔۔۔ يا عبد المالك
میں نے اس کی طرف دیکھا، تو کہنے لگے۔ "شیخ تمہیں یاد فرما رہے ہیں" میں دوڑتا ہوا گیا۔ ڈاکٹر محسن خان نے مجھے اشارہ کیا کہ ایسے مواقع بار بار نہیں آتے۔ میں شیخ کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ اب باری شیخ حفظہ اللہ کی نصیحتیں کرنے کی ہے۔ فلاں فلاں کتب چھاپنا۔ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا۔ عقیدہ واسطیہ کے بارے میں فرمایا کہ نہایت عمدہ کتاب ہے۔ اب دستِ شفقت میرے سر پر ہے۔ میں التجا کرتا ہوں کہ شیخ میرے لئے دعا فرمائیں۔ ڈاکٹر محسن خان میری سفارش کر رہے ہیں اور پھر اس ولی کامل نے اس گناہگار کو بے شمار دعائیں دے ڈالیں۔ میں اخلاصِ عمل کی التجا کرتا ہوں۔ وہ بار بار فرما رہے ہیں کہ " الله ينفع المسلمين " اللہ تمہیں صحیح کتب نشر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تجھ سے عالم اسلام کو فائدہ پہنچائے۔ میری آنکھوں میں آنسو ہیں، تشکر کے آنسو۔ آج واقعی میرا رب مجھ پر بڑا مہربان ہوا ہے کہ اس کے خاص بندے نے میرے لئے بہت دعائیں فرمائی ہیں اور آج جب میں اپنے کام کی طرف نظر ڈالتا ہوں تو اس ولی کامل کی دعاؤں کی قبولیت کے آثار نظر آتے ہیں۔
شیخ ابن باز حفظہ اللہ آنکھوں سے نابیان ہیں مگر ہزاروں لاکھوں بینا اُن کے جوتے اٹھانے میں اپنے لئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔۔ شیخ کے مختصر حالات زندگی کچھ یوں ہے:
شیخ کا پورا نام عبدالعزیز بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن باز ہے۔ اپنے بڑے بیٹے کے نام پر ابوعبداللہ کنیت کرتے ہیں۔ عجب اتفاق ہے کہ تمام بڑے بڑے ائمہ اور محدثین کی کنیت بھی ابوعبداللہ ہی تھی۔ مثلا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ابوعبداللہ تھی، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور امامُ الوقت احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت بھی ابوعبداللہ تھی۔ آپ ریاض میں 12 ذی الحجہ 1330ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے خاندان میں بعض افراد صنعت و حرفت اور بعض زراعت کے پیشوں سے منسلک اور بعض تعلیم اور قضاء کے عہدوں پر فائز ہیں۔ آپ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں مجددِ دعوتِ اسلامیہ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کا خاصا اثر تھا۔ یہ دعوت بعد ازاں رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیلی اور اس کے واضح اثرات ہوئے۔
آپ نے بچپن میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا۔ ہر چند کہ آنکھوں سے نابیان ہو گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل و دماغ اور سینے کو علم کی روشنی سے منور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے عجب کمال حافظہ عطا فرمایا، وہ حد درجہ ذہین اور فطین تھے۔ علم دین سیکھنا شروع کیا۔ علم حدیث سے گہرا تعلق تھا۔ سند اور متن کو بھی دماغ میں محفوظ کر لیتے۔ جن بڑے علماء کرام سے علمی استفادہ کیا اور جن کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ان میں الشیخ محمد بن عبداللطیف آلِ شیخ سرفہرست ہیں۔ آلِ شیخ کا گھرانہ محمد بن عبدالوہاب کی اولاد ہے اور ایں خانہ ہمت آفتاب است کے مصداق، آج تک ان کے یہاں علم و فضل، تقویٰ اور خیر موجود ہے۔ ان کے علاوہ شیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ، قاضی ریاض اور شیخ سعد بن احمد آل عتیق قاضی ریاض ہیں۔
شیخ سعد بن احمد آلِ عتیق علم حدیث حاصل کرنے کے لئے دہلی تشریف لائے اور شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث رحمۃ اللہ علیہ دہلوی کی شاگردی اختیار کی۔ یہ ایک سلسلة الذهب ہے جو آج سے سو ڈیڑھ سو سال قبل علمائے ہند سے علم حدیث کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا سبب بنا۔ یہ ایک لمبی بحث ہے اور علم حدیث کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جس کا یہاں محل نہیں تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ محض اس رابطہ کی بنا پر جس کا اوپر ذکر ہوا، شیخ ابن باز علمائے ہندوپاکستان کے بڑے قدردان ہیں اور ان سے گہری محبت و شفقت فرماتے ہیں۔ مکہ مکرمہ کے شیخ سعد وقاص بخاری سے علم تجوید سیکھا۔ آپ نے دس سال تک مفتی دیار السعودیہ شیخ محمد بن ابراہیم آلِ شیخ کے دروس میں شرکت کی اور ان سے علمی استفادہ کیا۔ شیخ ابن باز کی ساری زندگی ہی علم سیکھنے، سکھانے میں گزر گئی، دن رات علمی مجالس میں شرکت کرتے۔ شیخ کوئی امیر کبیر آدمی نہ تھے اور یوں بھی ناب ینا۔ مگر اس کے باوجود بچپن سے علم و عمل سے محبت اور لگن کا یہ عالم کہ ہکتائے روزگار اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کے لئے اپنے فضل وکرم کے دروازے کھول دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وہ لوگ جو ہمارے راستہ میں کوشش کرتے ہیں پھر ہم ان کو اپنے راستہ کی طرف رہنمائی دیتے ہیں۔ یقینا اللہ تعالیٰ محسنین کے ساتھ ہے" (العنکبوت: 69)
شیخ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1937ء سے 1960ء تک ریاض کے المهد العلمى میں تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ بعد ازاں انہیں مدینہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا اور 1970ء میں ان کو اداره البحوث العلمية والافتاء والدعوة والارشاد کا رئیس عام بنا دیا گیا۔
شیخ کئی ایک علمی مجالس اور دینی اداروں کے رکن اور رئیس ہیں جن میں سعودی عرب کے اکابر علماء بورڈ کے رکن، رابطہ اسلامی کی مجلس تاسیسی کے چئیرمین، رابطہ عالم اسلام کے زیرانتظام عالمی مساجد کمیٹی کے چئیرمین، مدینہ یونیورسٹی کی سینٹ کے ممبر، رابطہ عالم اسلامی کی فقہِ اسلامی اکیڈیمی کے چئیرمین، سعودی عرب میں دعوۃ اسلامیہ کمیٹی کے رکن اور دوسری اصلاحی اور خیراتی کمیٹیوں کے سرپرست اور رکن ہیں۔
علاوہ ازیں دنیا بھر میں بے شمار اسلامی مراکز اور مدارس میں شیخ کی جانب سے مقرر کردہ علماءِ کرام دین کی دعوت کا کام کر رہے ہیں۔ پوری دنیا میں جہاں بھی مجاہدین اسلام جہاد کر رہے ہیں، ان کے قائدین کا عموما شیخ سے رابطہ ہے۔ جہادِ افغانستان میں شیخ صاحب کے مستقل نمائندے پشاور میں مقیم رہے۔ اس مضبوط رابطہ کی بدولت جہاد کی خبریں مسلسل ملتی رہیں۔ آپ جہاد کے بارے میں ہدایات دیتے رہے اور شیخ کی جانب سے سامانِ حرب اور دیگر لوازمات مسلسل پہنچائے جاتے رہے۔ جہادِ افغانستان میں بھرپور مالی اور اخلاقی تعاون اور رہنمائی کی بدولت شیخ ابن باز کا نام جہادِ افغانستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ افغانستان کی جنگ کے دوران مختلف گروہوں اور گروپوں کے درمیان مفاہمت کروانے میں شیخ صاحب اور ان کے نمائندوں کا قابل تحسین کردار رہا۔ علاوہ ازیں فلسطین، برما، کشمیر، فلپائن، صومالیہ، بوسنیا، ایریٹریا، چچنیا غرض جہاں جہاں مسلمان دشمنانِ اسلام کے خلاف صف آرا ہیں، شیخ کا دل اُن کے لئے دھڑکتا ہے۔ آپ دنیا کے مختلف علاقوں میں قرآن پاک کے معلم بھجواتے ہیں اور ان کی ماہانہ تنخواہوں کی فراہمی کا اہتما کرتے ہیں۔ بڑے بڑے تاجر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے اپنے عطیات پیش کرتے ہیں۔ جنہیں پوری دنیا تک پہنچانے کے لئے باقاعدہ ایک عظیم سیکرٹریٹ کام کر رہا ہے۔
پچاسی سال ہو جانے کے باوجود شیخ کی زندگی انتہائی مصروف ہے۔ آپ انتہائی استقامت کے ساتھ دعوتِ دین کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ اگر ہم تھوری دیر کے لئے ان کے روزانہ کے معمولات پر نظر ڈالیں تو عقل محوِ حیرت رہ جاتی ہے۔
شیخ کے بارے میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ شب زندہ دار ہیں۔ نماز فجر گھر سے قریب مسجد میں ادا کرنے کے بعد آپ سنت کے مطابق مسجد میں ہی تشریف رکھتے اور ذکر و اذکار میں مشغول رہتے ہیں۔ بعض اوقات نمازِ فجر کے دوران اگر امام قراءت کے دوران کوئی ایسی آیات کی تلاوت کرے جن کو سمجھنا لوگوں کے لئے بطور خاص مفید ہو تو شیخ نماز کے فورا بعد ان آیات کی تشریح فرماتے ہیں۔
سورج طلوع ہونے کے بعد شیخ سنت کے مطابق دو رکعت ادا فرماتے ہیں اور پھر گھر تشریف لے آتے ہیں۔ گھر آ کر ناشتہ کرتے ہیں، میری معلومات کی حد تک ناشتہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کرتے ہیں۔
آپ تقریبا نو بجے اپنے دفتر تشریف لاتے ہیں۔ مختلف ممالک اور سعودی عرب سے آئے ہوئے لوگ آپ کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ شیخ ان کا استقبال کرتے ہیں۔ ان کو پاس بٹھاتے اور ان کا احوال، مشکلات اور گزارشات سنتے ہیں۔ آپ کے دائیں اور بائین جانب کئی سیکرٹری بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک خط یا درخواست پڑھتا ہے، شیخ اس کا جواب لکھواتے ہیں۔ لوگ آتے ہیں سلام کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اپنی باری پر سوال و جواب ہوتے ہیں۔ ان کے سیکرٹری باری باری مسودات لکھتے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان خطابات اور جوابات کو کمپیوٹر پر لکھا جا رہا ہوتا ہے۔ شیخ کے سیکرٹری خاص ان پر شیخ کی مہر ثبت کرتے ہیں اور پھر معاملہ شعبہ بیرونی ڈاک میں یا متعلقہ شعبہ کے حوالہ ہو جاتا ہے۔ اس دوران دنیا بھر کے اسلامی اداروں، تنظیموں اور فتویٰ پوچھنے والوں کی جانب سے ٹیلی فون کالیں آتی رہتی ہیں۔ شیخ ساتھ ہی ساتھ ان کے جوابات دیتے جاتے ہیں۔ تاآنکہ ظہر کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے۔ شیخ مسجد میں تشریف لے جاتے ہیں۔ واپسی پر کبھی کبھار اکابر علمائے کرام کی مجالس ہوتی ہیں۔ شیخ ان میں بیٹھتے، فتویٰ دیتے اپنی آرا اور مشوروں سے نوازتے ہیں۔ بصورتِ دیگر دو اڑھائی بجے تک دفتری معاملات ہی چلتے رہتے ہیں۔ گھر واپس لاتے ہیں تو گھر کا بڑا ڈرائنگ روم ملاقاتیوں کے ہجوم سے بھرا ہوتا ہے۔ شیخ ابن باز انتہائی فیاض انسان ہیں۔ کبھی ملاقات کا شرف ہو تو آپ سے نام، آپ کا پیشہ، آپ کا ملک پوچھیں گے اور پھر عموما آپ کو کھانے کی دعوت دیں گے۔ ان کی فیاضی کا یہ عالم ہے کہ بعض لوگ ان کو "عصر حاضر کا حاتم طائی" کہتے ہیں۔
آپ کے دسترخوان پر امیر، غریب، علماء طلباء، مفکرین، ادباء، مسافر سب ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ شیخ کے گھر میں ایک بڑا سا کمرہ ہے جس میں دسترخوان لگا دئیے جاتے ہیں۔ خالص عربی انداز میں بڑے بڑے تھال جن میں چاول اور اوپر گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے ہوتے ہیں جن کے چاروں طرف سلاد کی کٹوریاں، سالن کی چھوٹی چھوٹی پیالیاں، روٹی اور پھل رکھ دیا جاتا ہے۔ مجلس عام میں چائے اوت قہوہ کا دور چلتا رہتا ہے۔ خادم آتا ہے اور آ کر اشارہ کرتا ہے۔ شیخ اٹھتے ہیں، ساتھ ہی شیخ کی آواز آتی ہے۔" تفضلوا، الله يحيكم " ۔۔ جو خاص مہمان ہوتے ہیں شیخ کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ شیخ کھانے کے دوران آنے والے وفود سے بھی گفتگو فرماتے اور احوال پوچھتے جاتے ہیں۔ پاکستانی باورچی کا کھانا انتہائی لذیذ ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا، اوسطا چالیس پچاس آدمی تو ہر روز ہی کھانے پر ہوتے ہیں۔ کھانے کے بعد دوبارہ قہوے اور چائے کا دور چلتا ہے۔ اتنے میں  عصر کی اذان ہو جاتی ہے۔ عصر کی نماز کے بعد بعض اوقات تھوڑی دیر کے لئے درس دیتے ہیں۔ اس کے بعد شیخ تھوڑی دیر کے لئے آرام فرماتے ہیں اور گھر والوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ بعض اوقات اس دوران شیخ کے سامنے مختلف کتب پڑھی جاتی ہیں۔ مغرب کے بعد سے عشاء تک پھر طالبانِ حق کا ہجوم آپ کی مجلس میں ہوتا ہے۔ لوگوں کے مسائل، درخواستیں، فتاویٰ، ریڈیو کے پروگرام اور مختلف مضامین پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ عشاء کے بعد اجتماعی طور پر کھانا ہوتا ہے۔ جتنے بھی حاضرین مجلس ہوں، سب کے سب کھانے میں شریک ہوتے ہیں۔ کھانے کے بعد عود کی خوشبو جلا دی جاتی ہے جس سے کمرہ معطر ہو جاتا ہے۔ کتب سننے اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ رات گیارہ بجے تک جاری رہتا ہے۔
شیخ صاحب مختلف علاقوں کی مساجد میں تبلیغ کے لئے تشریف لے جاتے ہیں۔ حج کے موسم میں شیخ کا پورا عملہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ دنیا بھر سے علمائے کرام اور معزز مہمانوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ تبادلہ خیالات ہوتا ہے اور امت مسلمہ کے مسائل کو حل کرنے کی کوششیں جاری و ساری رہتی ہیں
شیخ کی دیگر بے شمار خدمات میں جو چیز ان کو ممیز کرتی ہے، وہ ان کی انکساری اور عاجزی ہے۔ وہ بے حد متواضع شخصیت ہیں۔ دعوت کو قبول فرماتے ہیں۔ بعض اوقات غریب طلباء کے گھروں میں تشریف لے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ ساتھیوں سے مشورہ کرتے اور طے شدہ اُمور پر سختی سے کاربند رہتے ہیں۔
شیخ ابن باز اس وقت عالم اسلام کے سب سے بڑے مفتی شمار ہوتے ہیں۔ ہر چند کہ آپ کے اکثر اساتذہ حنبلی ہیں اور حنابلہ کے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، فقیہ سے بڑھ کر محدث ہیں مگر شیخ ابن باز پر کتاب و سنت سے گہری وابستگی کی بناء پر حنابلہ سے زیادہ توسع تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ تک اس کے نام کے ساتھ اثرى بھی لکھا جاتا رہا ۔۔ شیخ ابن باز اپنے وقت کے محدث ہیں، آپ کتب حدیث میں تصحیح فرماتے اور تخریج کرتے ہیں، ان پر احکامات لگاتے ہیں، آپ کو بلاشبہ بےشمار احادیث حفظ ہیں۔ علم حدیث میں آپ کی دسترس کا اندازہ آپ کے درس میں شرکت کرنے والوں کو خوب ہے۔ احادیث پڑھنے والوں کی جس انداز سے آپ تصحیح فرماتے ہیں اس سے ان کے مستحضر علم کا اندازہ ہوتا ہے۔ شیخ ابن باز ممتاز فقیہ ہیں۔ وہ بلاشبہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین ہیں۔ آپ کا طریقہ بڑا سہل ہے۔ فقہی موشگافیوں میں نہیں پڑتے بلکہ سیدھے سادھے انداز میں لوگوں کو مسائل کا حل بتاتے ہیں۔
شیخ ابن باز حفظہ اللہ نے ایک بڑی تعداد میں چھوٹی بڑی کتابیں تصنیف کیں۔ جن میں سے اکثر کے بے شمار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور ان کے مختلف زبانوں میں تراجم پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ ان کے فتاویٰ پر مشتمل کتاب کا اردو ترجمہ راقم الحروف (مکتبہ دارالسلام، الریاض) کی زیرنگرانی شائع ہوا ہے اور یہ شیخ کے فتوؤں کا مجموعہ ہے جو اردو زبان میں شائع ہوا ہے۔ واللہ الحمد!