لاؤس ، میں اسلام اور اس کی تبلیغ
(گزشتہ سال جامعہ لاہورالاسلامیہ کے استاذقاری محمد فیاض صاحب کو تبلیغی مقاصد کے تحت لاؤس میں کام کرنے والے اسلامی مشن کی معاونت کے لیے بھیجا گیا تھا موصوف وہاں دوسال سے مسلم اقلیت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں امسال موسم گرم میں جب وہ وطن عزیز میں چھٹیاں گزارنے کے لیے آئے تو انھوں نے اپنے مختصر تاثرات میں انداز ہو تا ہے کہ انفارمیشن کے اس دور میں بھی زمین کے ایسے حصے موجود ہیں جن تک اسلام کا مبارک پیغام پہنچانے کی شدید ضرورت ہے ۔)
چند دن قبل لاؤس سے میری واپسی ہوئی ۔مجھے وہاں ایک سال گزارنے کا موقعہ ملا۔ اس ایک سال کے دوران بے شمار چیزیں ان کے کلچر اور ان کی تہذیب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ میری زندگی کا پہلا تجربہ ہے کہ غیر مسلموں کو اتنی قریب سے دیکھا۔اس طرح مسلمانوں کی بے کسی اور بےبسی کا بھی مشاہدہ کیا اور اسلام کو انتہائی مشکل صورت میں پایا۔یہاں اسی سفر کے حوالہ سے چند مشاہدات کا تذکرہ کروں گا۔ تاکہ وہاں کے حالات سے باقی دنیا بھی باخبر ہو جا ئے۔
لاؤس کے حدودواربعہ اور بنیادی معلومات وغیرہ کا تذکرہ کیے بغیر قارئین صحیح سمجھ نہیں پا ئیں گے۔
لاؤس کا نام:۔
لاؤس کا اصل نام اس طرح ہےLaos Peoples Democredit Repubuildلاؤس پیپلزڈیموکریڈٹ ریپبلک جس کو مختصر کر کے LAO.P.D.Rکہتے ہیں ۔
یہ ملک ایشیا کے جنوب مشرقی حصہ میں واقع ہے جس کے شمال کی طرف چین اور برما ہے۔جنوب کی طرف کمبوڈیا مشرق کی طرف و یتنام اور مغرب کی طرف تھا ئی لینڈ واقع ہے۔
تقریباً دو لاکھ مربع میل پر یہ ملک مشتمل ہے آبادی تقریباً ساٹھ لاکھ نفوس ہے۔مشہور شہروں میں:وین چن (دارالحکومت) لو پھر ابانگ پکسہ لکساؤ سوانح کھیت وغیرہ ہیں لاؤس میں پہنچنے کے لیے تھا ئی لینڈ جا نا پڑتا ہے کیونکہ پاکستان سے ڈائریکٹ لاؤس کی فلائٹ نہیں ہے اور اسی طرح پاکستان میں اس کی ایمبسی بھی نہیں ہے۔ اس طرح لاہور سے بنکاک (تھائی لینڈ کا دارالخلافہ) تقریباً چار گھنٹے کی فلائٹ ہے۔پھر بنکاک سے ہائی روڈ بھی راستہ ہے اس صورت میں تھائی لینڈ کے اس بارڈر پر پہنچ جائیں جو لاؤس کے قریب ہے اس کا نام Nong Khiہے۔
سرکاری مذہب اور کلچر:۔
لاؤس کا سر کاری کوئی مذہب نہیں ہے جبکہ ملک میں اکثر یت کا مذہب"بدھ مت"ہے ان کا کلچر رہن سہن عام کفار سے بھی ہے خنزیراتنا عام ہے کہ حیران ہو تے تھے کہ اتنا زیادہ خنزیر تو انگریز بھی نہیں کھاتے لیکن ان کے رہنے کا طریقہ بہت سادہ ساہے زیادہ ٹھا ٹھ باٹھ کے قائل معلوم نہیں ہوتے
زیادہ تر چاول کھاتے ہیں گندم وہاں نہیں ہے اور سبزیاں بھی زیادہ تر ان کی خاص ہیں جو ہم لوگ نہیں کھا سکتے،اور اخلاقی لحاظ سے انتہائی بد تر قوم ہے شراب نوشی جسم فروشی وغیرہ بہت عام ہے موجودہ وزیراعظم کا نام نوہاق فوم سادان ہے۔
نام نہاد جمہوریت : لاؤس شروع ہی سے غیروں کے ہاتھوں میں رہا ہے ۔کبھی اس پر امریکہ حکومت کرتا ہے تو کبھی فرانس ۔1975ء میں فرانس کے قبضہ سے آزادی ملی۔ پھر مقامی لوگوں نے زمام حکومت سنبھال لی۔اب وہاں بقول بعض افغانستان جیسی صورتحال پیدا ہو رہی ہے کیونکہ فرانس کے پنجہ سے آزاد کرانے میں کئی ایک تنظیمیں اس سے برسر پیکار ہیں اس وجہ سے آج کل وہاں کا امن تباہ ہو کررہ گیا ہے بم دھماکے عام ہو گئے۔جس کی وجہ سے سیکورٹی بہت بڑھا دی گئی ہے۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ بظاہر لاؤس کی حکومت جمہوری ہے مگر فی الحقیقت ایک کیمونسٹ حکومت ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ 1975ء کے قبضہ کے بعد آج تک وہاں انتخابات کا انعقاد نہیں ہوا۔حالانکہ جمہوریت کی بنیاد ووٹنگ ہے اور بقول بعض یہاں کسی شخص کو مسلمان ہونے کی اجازت نہیں ہے اور اس طرح اسلامی کتب کا داخلہ ممنوع ہے جبکہ تبلیغی جماعت کا داخلہ چند سال قبل کھولا گیا مگر پھر بھی بارڈر پر ان کو گھنٹوں کھڑا کیا جا تا ہے مختلف طریقوں سے تنگ کیا جا تا ہے۔
لاؤس میں اسلام :۔
تقریباً چالیس سال پہلے لاؤس کی طرف مسلمانوں کے دو گروہوں نے ہجرت کی۔ایک گروہ کا تعلق کمبوڈیا سے تھا جوتاحال جاری رہنے والی خانہ جنگی سے بھاگ کر آئے تھے اور دوسرے کا تعلق پاکستان ،ہندوستان اور بنگلہ دیش کے ممالک سے ہے ان دونوں گروہوں نے دارالحکومت وین چن میں ڈیرہ لگایا ۔پھر آہستہ آہستہ 1973ء کے لگ بھگ ان دونوں نے مل کر ایک ایسیوسی ایشن قائم کی۔ اس ایسوسی ایشن نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی جس کا نام "جامعہ مسجد ویلچن" رکھا گیا جب فرانس کی حکومت قائم ہوئی تو مقامی لوگوں نے اس مسجد کا کنٹرول سنبھالا ۔چونکہ اس وقت نظام حکومت کیمونسٹ تھا لہٰذالوگ گھبرا گئے اور انھوں نے لاؤس سے بھاگنا شروع کر دیا۔ کوئی امریکہ کوئی سویڈن بھاگ گیا اور بہت تھوڑے مسلمان باقی رہ گئے ایک دن حکومتی اہلکار مسجد میں بھی آگئے سب لوگ گھبرا رہے تھے کہ اب یہ مسجد کو شہید کردیں گے مگر اللہ نے اسلام کی حفاظت فرمائی۔وہ کچھ دیر بیٹھے رہے پھر پوچھا:تم لوگ یہاں کیا کرتے ہو ۔مسلمانوں نے کہا: نماز پڑھتے ہیں اللہ کی عبادت کرتے ہیں انھوں نے نماز دیکھنے کا مطالبہ کیا۔ پھر نماز دیکھنے کے بعد خاموشی سے واپس چلے گئے۔
کئی سال سب مسلمان اسی مسجد میں نمازیں ادا کرتے رہے یہی کل اسلامی اثاثہ تھا ۔پھر چند سال کے بعد کمبوڈیا کے مسلمانوں نے دوری کی وجہ سے ایک الگ مسجد قائم کر لی ۔جس کا نام "جامعہ مسجد اظہر"رکھا گیا پھر آہستہ آہستہ اس ایسوسی ایشن کی شاخیں بنادی گئیں اب پاکستانیوں کی ایک شاخ ہے اس طرح ایک شاخ ہندوستان اور کمبوڈیا والوں کی ہے پاکستانیوں کے چیئرمین عبد الرحمٰن سلاپا ہےاور کمبوڈین تنظیم کے سربراہ یحییٰ اسحاق ہیں یعنی پورے ملک میں مسلمانوں کے پاس یہی دو مسجدیں ہیں اس کے علاوہ کوئی مکتب مدرسہ یونیورسٹی وغیرہ نہیں ہے۔
مسلمانوں کی معیشت:۔
مسلمان مجموعی طور پر معیشت کے لحاظ سے معمول میں اکثر پاکستانی کپڑے کا کاروبارکرتے ہیں جبکہ اکثر ہندوستانی میک اپ وغیرہ کا سامان بیچتے ہیں اس طرح کمبوڈیا کے رہنے والے مختلف کام کرتے ہیں لیکن چونکہ ان کی کرنسی Kipپاکستان سے بھی زیادہ کمزور ہے یعنی ایک پاکستانی روپیہ وہاں تقریباً 250روپے میں فروخت ہوتا ہے کرنسی کے اس تفاوت کی وجہ سے مقامی لوگ پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کو بہت امیر سمجھتے ہیں۔لیکن مجموعی صورتحال کو دیکھا جائے تو میرے خیال کے مطابق پاکستانی اہل ہند سے مضبوط ہیں ویسے پورے ملک کے لحاظ سے نارمل پوزیشن میں آتے ہیں۔
مسلمانوں میں اسلام :۔
اس لحاظ سے مسلمان بہت پیچھے ہیں دینی تعلیم کا شوق اور ولولہ بہت کم پایا جاتا ہے اسلامی تعلیمات پر عمل مفقود ہو چکا ہے اسلام انتہائی دگرگوں حالات کا شکار ہے راقم کے علاوہ پورے ملک میں صرف ایک شخص نے داڑھی رکھی ہوئی تھی مسجد یں نمازیوں سے خالی ہیں بہت کم لوگ قرآن پڑھنا جانتے ہیں اور ان کی اولا دیں اس سے بھی زیادہ جاہل ہیں صرف ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔
ایک دفعہ میں ظہر کی نماز پڑھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا ایک لڑکا جس کی عمر تقریباً25سال تھی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ"قاری صاحب آپ اتنی آہستہ آواز سے قرآءت کیوں کرتے ہیں؟آج میں نے بہت کوشش کی مگر آپ کی آواز سنائی نہ دی ۔ پھر میں نے اس کو آرام سے سمجھا یا کہ بھائی ظہر کی نماز میں قرآءت اونچی نہیں ہوتی بلکہ آہستہ آہستہ قرآءت ہوتی ہے جو صرف خود کو ہی سنائی دے سکتی ہے تو وہ بہت حیران ہوا کہنے لگا کیوں؟میں نے اس کو کچھ تفصیل بھی بتلائی ۔اس واقعہ سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مسلمانوں کا کیا حال ہے؟
لاؤس میں تبلیغ:۔
لاؤس میں تبلیغ کا صرف نام ہے جیسا کہ میں نے پچھلے صفحات میں ذکر کیا کہ کیمونسٹ حکومت کی وجہ سے تبلیغ میں بہت زیادہ رکاوٹیں ہیں چند ایک درج ذیل ہیں۔
1۔حکومت باقاعدہ تبلیغی جماعت کی نگرانی کرتی ہے۔
2۔حکومت مساجد کو کھل کر کام نہیں کرنے دیتی۔مثلاً۔
(1)مسجد کی چھت پر لاؤڈ سپیکرز پر بھی بہت زیادہ اعتراضات کئے جاتے ہیں۔
2۔اندورنی سپیکرز پر بھی بہت زیادہ اعتراضات کئے جاتے ہیں ۔
3۔کسی عالم کا ویزہ حاصل کرنا بہت مشکل ہے مجھے بھی اس وقت تک ویزہ نہیں ملا جب تک میں نے ٹائی نہیں لگائی۔
3۔اسلامی کتب کا داخلہ قطعاً منع ہے۔
4۔بقول بعض عرب حضرات کو اسلامی مرکز قائم کرنے کی اجازت نہیں۔
5۔1992ء سے پہلے تبلیغی جماعت کا داخلہ ممنوع تھا۔
6۔اب بھی تبلیغی جماعت کو بہت تنگ کیا جا تا ہے۔
افسوس کہ انہی وجوہات کی بنا پرایک بھی مقامی شخص مسلمان نہیں ہے اس سے زیادہ افسوس کیا ہو گا ان حالات کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے مگر سوائے کف افسوس ملنے کے ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ان کو یا ان کی نسلوں کو اسلام کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ آمین!