اکیسویں صدی میں امتِ مسلمہ کو درپیش چیلنچ
اکیسویں صدی کے آغاز میں امت مسلمہ مختلف النوع مسائل کاشکار ہے۔مسلمان دانشوروں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف ان مسائل کا معروضی اور حقیقت پسندانہ جائزہ لیں بلکہ نشاۃ ثانیہ کی جدو جہد میں امت مسلمہ کودرپیش چیلنجزکا سامناکرنےکے لیے مؤثر عقلی فکری اور عملی قیادت کا اہم فریضہ بھی انجام دیں۔ملت اسلامیہ کو اس وقت جن چیلنجزکاسامنا ہے ان میں سے نمایاں ترین کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
1۔دوسری جنگ عظیم کے بعد بیشترمسلمان ملکوں کو یورپ کی سیاسی استعماریت سے توآزادی ملی مگراس سیاسی غلامی سے نجات پانے کے باوجود ابھی تک مغرب کی فکری محکوی کا طوق اتارپھینکنےمیں کامیاب نہیں ہوئے ،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یورپی استعمارنے جانے جاتے ایک بات کو یقینی بنایا کہ آزاد کردہ مسلمان ملکوں میں اقتداراس طبقہ کے حوالے کر گئےجو مغربی تہذیب کے پروردہ اور ستارتھے انھوں نے ان ملکوں میں قرآن و سنت کے نفاذ کی بجائے نو آبادیاتی قوانین کو جاری رکھا ۔وہ جس نظام تعلیم کی خود پیداوار تھے اسی کو انھوں نے جو ں کا توں برقراررکھتے ہوئے مسلمانوں کی نئی نسل کی ذہن کوسازی مغربی سانچوں کے مطابق کی، ان مسلم ممالک کا برسر اقتدار طبقہ اگر چہ نسلی طور پر تو مسلمان ہی تھا مگر ان کی فکر سیکولر(لادینی )تھی۔
وہ اسلامی نظام کو ایک ایسا دقیانوسی نظام سمجھتے ہیں جو عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا ۔لہٰذاانھوں نے بھرپور کوشش کی کہ مسلمان اسلام سے دور رہیں یورپ کی بھونڈی نقالی کو یہ طبقہ ماڈرن ازم (جدیدیت پسندی ) کا نام دیتا ہے چونکہ یہ طبقہ مقامی تہذیب و تمدن کے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہے اسی لیےمغربی تہذیب کی اندھی تقلید ہی ان کے نزدیک ترقی پسندی اور روشن خیالی کی دلیل ہے مغربی دانشوورں نے بھی مغرب کی ثقافتی استعماریت (کلچرلامپریلزم)کومسلط کرنے کے لیے مسلمان ممالک میں برسر اقتدارطبقہ کو اپنے مؤثر ہتھیار بلکہ ایجنٹ کے طور پر استعمال کیا۔مسلمان حکمرانوں کے تہذیب مغرب سے اس والہانہ شغف نے نئی نسلوں کا رابطہ مسلمانوں کے شاندار ماضی نے منقطع کردیا جس کے نتیجے میں مغرب کی بھونڈی نقالی کو ہی انھوں نے اپنا مقصود بنا لیا آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کے بڑے بڑے شہر اسلامی ثقافت کی بجائے مغربی ثقافت کا نمونہ پیش کرتے ہیں مسلمان ممالک کے تعلیمی اداروں کا موحول وہاں کے طلبہ کی تراش خراش اور بودو باش دیکھ کر یہی احساس ہو تا ہے کہ یہ کسی یورپی تعلیمی ادارے کے طلباءہیں۔مغرب کی ثقافتی استعماریت اور عقلی نو آباد یت سے چھٹکارا حاصل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو مسلم امہ کو درپیش ہے۔
2۔عصر حاضر میں مادیت اور روحانیت کے درمیان توازن برقرار رکھنا ایک عظیم چیلنج ہے جس کا جرات مندانہ مقابلہ ضروری ہے مسلمان ممالک میں ایک منصوبہ بندی کے ساتھ یہ سوچ پھیلائی جارہی ہے کہ اگر مادی ترقی کا حصول مقصودہے تو وہ سیکولر معاشرے کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ان کے خیال میں مذہب ہمیشہ رجعت پسندی کو پروان چڑھاتا ہے سیکولر دانشور الہامی تعلیمات کی بجائے عقل کو ہی انسانی ترقی کے لیے قابل اعتماد ذریعہ ہدایت سمجھتے ہیں ۔چونکہ یورپ نے صنعتی ترقی میں جو کمال حاصل کیا ہے اس کی سر اسربنیاد سیکولرازم اورمادہ پرستی ہے لہٰذا یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ بنیادی و مادی ترقی کے لیے یورپی ماڈل کے علاوہ کوئی دوسرا ماڈل قابل عمل نہیں ہے۔یورپ کے بارے میں تو شاید تجزیہ درست ہو مگر اسلامی معاشرے کے بارے میں اس طرح کی مطلق رائے کا اظہار اسلامی تاریخ کے بارے میں صریحاً عدم واقفیت ہی کہا جا سکتا ہے۔
یورپ میں جس وقت کلیسا کی حکومت تھی تہذیب وتمدن کے اعتبار سے یورپ وحشی اقوام کا ہی مسکن تھا مگر مسلمانوں نے جس دور میں سائنسی ترقی اور تہذیبی ترفع کی شاندارمثالیں قائم کیں اس وقت مسلمانوں کی اسلام سے وابستگی بھی نہایت گہری تھی۔عالم اسلام کے مشہور تہذیبی مراکز دمشق ،بغدادقرطبہ اصفہان بصرہ غرناطہ اشبیلہ فاس قاہرہ وغیرہ جس زمانے میں مادی ترقی کے اعتبار سے پورے عالم میں معروف تھے اسی زمانے میں یہ شہر قرآن و سنت اور مذہبی تعلیمات کے عظیم مراکزبھی تھے جس دور میں ابن سینا ابن حیان الخواروزمی ابن یعقوبی ،ابن طفیل ابن رشد محمد بن زکریا رازی البہیثم ابن بیطار،یعقوب بن اسحاق جیسے عظیم سائنسدان اور مسلم فلسفی پیدا ہوئے اسی دور میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ ،علامہ طبری رحمۃ اللہ علیہ ،علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ ،علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ،حافظ ابن حجر، امام فخر الدین رازی ،شمس الائمہ سرخی ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے نابغہ عصر آئمہ محدثین و فقہاء نے بھی عالم اسلام کو اپنے علمی کارناموں سے منورکیا۔یورپ کے سائنس دانوں نے عقلی انکشافات اور حواسی اکتشافات کے زیر اثر نہ صرف مذہبی تعلیمات سے اعلان بریت کیا بلکہ وجودباری تعالیٰ سے انکارجیسے ملحدانہ افکارکا پر چاربھی کیا، مگر مسلمان سائنس دانوں نے سائنسی انکشافات و ایجادات کو خالق کائنات کے عظیم رازوں کی دریافت قرار دیتے ہوئے حق الیقین کے ساتھ ساتھ عین الیقین کا ذریعہ سمجھا ۔
جدید مغرب کے سائنسی علوم میں ملحدانہ فکر کے جراثیم پائے جا تے ہیں مثلاً ڈارون نے نوع انسانی کے ارتقا کی جو منزلیں بیان کی ہیں دین و ایمان کا نقصان کئے بغیر ان کی صداقت پر ایمان لانا ممکن نہیں ہے مغربی سائنس کے اس خطرناک پہلو کی وجہ سے ہی بعض علماء جدید سائنسی علوم کی تحصیل کے بارے میں ذہنی تحفظات اور خدشات کا شکار بھی ہیں دوسرے یہ کہ وہ چونکہ یورپی معاشرے میں سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ مذہب سے دوری کے جو نتائج دیکھ چکے ہیں اسی لیے ان کے خدشات کچھ بے جا بھی نہیں ہیں دوسری طرف سیکولرطبقہ علماء کے ان خدشات کو ان کی سائنس دشمنی سے تعبیر کرتا ہے اور انہیں امت مسلمہ کے زوال و پسماندگی کا سبب بتاتا ہے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم معاشروں میں ایسی علمی اقدار کو فروغ دیا جا ئے جو مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی ترفع پر بھی فتح ہوں ۔یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا مقابلہ کوئی ایک ملک نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ اجتماعی جدو جہد کے ساتھ ہی کر سکتی ہے۔
3۔غربت و جہالت ایک دوسرے کے حق میں علت ومعلول Cause and Effectکا در جہ رکھتی ہیں ترقی پذیر ممالک کے متعلق ایک دانشور کا قول ہے ۔
“ They are poor,because they are poor.”
یعنی "چونکہ وہ غریب ہیں اسی لیے وہ غریب ہیں"
اس مکتبہ فکر کے دانشوروں کا خیال ہے کہ غربت ایک منحوس چکرہے اس میں ایک دفعہ کوئی پھنس جا ئے تو پھر خود بخود اس سے نکلنا محال ہوتا ہے اسی فلسفہ کی بنیاد پر یہ دانشور ترقی پذیر ممالک کے لیے غیر ملکی امدادکو ضروری قرار دیتے ہیں ان کے خیال میں ترقی پذیر ممالک میں پائی جانے والی جہالت کی بنیادی وجہ بھی وہاں غربت کا پا یا جا نا ہے مگر ان کے برعکس دانشوروں کا ایک گروہ یہ خیال رکھتا ہے کہ علمی پسماندگی (جہالت)معاشی پسماندگی کا باعث بنتی ہے۔مؤخر الذکر کردہ کے خیالات حقیقت سے زیادہ قریب ہیں ۔یورپ نے گذشتہ تین سوسالوں میں جو ترقی کی ہے اس کی وجہ علمی ترقی ہے سائنس اور ٹیکنالوجی نے انہیں دولت و خوشحال بنادیا ہے۔
ایک سروے کے مطابق 54مسلمان کی سالانہ خام قومی پیداوار(GDP )کا تخمینہ 2400/ارب ڈالر ہے اس میں ملائشیا انڈونیشیا کے علاوہ تیل پیدا کرنے والے مسلمان ممالک بھی شامل ہیں ۔مگر یورپ کے صرف ایک ملک فرانس کی سالانہ خام قومی پیداوار 2800/1رب ڈالر کے لگ بھگ ہے جاپان کی(GDP ) کا اندازہ 5400/ارب ڈالر ہے اس سروے میں امریکہ کے متعلق اعداد و شمار نہیں تھے لیکن اندازہ ہے کہ اس کی خام قومی پیداوار 9000/ارب ڈالر کے برابر ہے(روزنامہ ڈان ) پاکستان کا سالانہ بجٹ 640/ارب روپےہے۔اس سروے سے پاکستان ایک بھی طیارہ بردارسمندری جہاز (بحری بیڑہ) نہیں خرید سکتا ،جو امریکہ کے پاس سینکڑوں کی تعداد میں ہیں ایک ایف 16لڑاکا جہاز کی قیمت 50کروڑ روپے سے زیادہ ہے پاکستان جیسے زرعی ملک کپاس کی لاکھوں گانٹھیں بیچ کر بھی ایک ایف 16بڑی مشکل سے خرید کر سکتے ہیں صنعتی اشیا اور زرعی اشیا میں اس عظیم فرق کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کو بنی بنائی اشیا فروخت تو کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں ٹیکنا لوجی منتقل کرنے کو تیار نہیں ہیں ٹیکنا لوجی کی یہ برتری ہی دراصل مغربی ممالک کی پورے عالم کی قیادت کرنے کا اصل راز ہے مسلمان ممالک میں سائنسی تحقیق کا معیار بے حد پست ہے تیل پیدا کرنے والے مسلمان ممالک تیل کی کھربوں ڈالر کی آمدنی کو مغربی ممالک سے اشیا درآمدکرنے میں صرف کردیتے ہیں۔دولت کی ریل پیل نے انہیں تحقیق سے بے خبر دے پروا کر رکھا ہے انھوں نے سائنسی تحقیق کے لیے تجربہ گاہوں کا نیٹ ورک قائم کرنے میں کسی قسم کی دلچسپی کا ظہار نہیں کیا۔ اگر خدانخواستہ کچھ عرصہ کے بعد ان ممالک سے تیل نکلنا بند ہو جا ئے تو ان کے لیے موجودہ ترقی کی سطح کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہو گا۔ عرب ممالک جس قدر سرمایہ یورپی ممالک سے اشیا کی درآمد پر خرچ کرتےہیں اس کا عشر عشیر بھی تحقیق پر خرچ کریں یا اس کا ایک معمولی حصہ بھی غریب مسلمان مملکوں کی مالی امداد کے طور پر مختص کر دیں تو نہ صرف عالم اسلام سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں یورپ سے آنکھ ملا سکتا ہے بلکہ عالم اسلام کے بعض خطہ جات میں بد ترین غربت اور معاشی مسائل میں بھی قدرے کمی لائی جاسکتی ہے ٹیکنالوجی کے میدان میں خود کفالت بھی ایک زبردست چیلنج ہے جو امت مسلمہ کو درپیش ہے۔
4۔اتحاد ملت اسلامیہ ایک دیرینہ خواب ہے جو عرصہ درازسے شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ خلافت عثمانیہ جب تک قائم رہی پورے عالم اسلام کی نگاہیں اس پر جمی رہیں ۔عالمی استعمار کی سازشوں سے جب 1924ءمیں خلافت کا خاتمہ کیا گیا تو ساتھ ہی ملت اسلامیہ کا شیرازہ بھی منتشر ہوگیا اہل مغرب ترکی کو یورپ کا مرد بیمار تو کہتے تھے مگر یہ ان آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا بھی تھا لارنس آف عریبیہ کے ذریعے انگریزوں نے خطہ عرب میں نیشنلزم کا ایسا فسوں پھونکا کہ لسانی وعلاقائی تعصبات پیدا ہوئے ۔شریف حسین آف مکہ جیسے نادان مسلمان ترکوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے پنجہ یہود کی گرفت میں آگے ادھر اتارترک جیسے ملحد اسلام دشمن ،مغرب زدہ جرنیل نے خلافت عثمانیہ پر الحاد کا ایسا کلہاڑا چلایا کہ خلافت کا خاتمہ کر کے رکھ دیا جس سے مسلمانوں کی مرکزیت ریزہ ریزہ ہو گئی آج صورت یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں زیادہ تر وہ لوگ اقتدار پر قابض ہیں جن کی رگوں میں اسلام کی بجائے اتاترک ازم کا خون جوش مار رہاہے ترکی کی ملحد فوجی جنتا کا تو ذکر کیا کیجئے صدام حسین بشیر الاسد ،یمن کے حکمران ،مصر کے حسنی مبارک اُردن کے شاہ عبد اللہ مراکش کے شاہ محمد خامس لیبیا کے قذافی ،انڈونیشیا و ملا یشیا کے حکمران وغیرہ سیکولر نظریات کے حامل ہیں پاکستان میں بھی صدر ضیاء الحق کے علاوہ کسی حکمران نے بھی اسلام سے وابستگی کا کا کھلم کھلا اظہار کبھی نہ کیا۔آزادی حاصل کرنے کے بعد مسلمان ممالک پر سیکولراور اشترا کی حکمرانوں کا قبضہ ہو گیا ۔ان حکمرانوں کی اکثریت اپنے اقتدار کو دوام دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے بلکہ یہ اتحاد اُمہ کے تصور سے ہی بیزار ہیں۔ ان میں سے بعض نے اپنا قبلہ ماسکوکو بنائے رکھا تو کچھ واشنگٹن کو پنا قبلہ سمجھتے ہیں بعض لندن اور پیرس میں جبین نیاز جھکانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ایسے عالم میں اتحاد ملت اسلامیہ کا پرچم کون اٹھائے ۔۔۔؟؟
اہل مغرب جمہوریت کے بہت راگ الاپتے ہیں مگر جن ممالک میں اسلام پسند انتخاب کے ذریعہ اقتدار میں آسکتے ہوں وہاں ان کی جمہوریت پسندی قائم نہیں رہتی ۔الجزائر میں مغربی ممالک نے اسلامک فرنٹ کو انتخابات میں واضح کامیابی کے باوجود اقتدار پر قابض نہیں ہونے دیا۔ عالم اسلام میں جب بھی کوئی راہنما اسلام کی بات کرتا ہے مغربی ابلاغ اسے بنیاد پرست قراردے کر اس کی مذمت کی مہم برپاکردیتے ہیں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اتحاد امت کا مسلمان حکمرانوں میں اس قدر احساس بھی نہیں ہے جو آج سے تیس سال پہلے تھا آج پوری اسلامی دنیا میں ایک بھی شاہ فیصل جیسا راہنما نہیں ہے جو سنجیدگی سے امت میں اتحاد پیدا کرنے کی کاوش کرے ۔
مغربی استعمار نے شروع سے ہی منصوبہ بندی کی کہ امت مسلمہ میں اتحاد نہ ہونے پائے۔ یہاں ایک چشم کشا واقعہ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جنگ عظیم اول میں جب ترکوں شکست ہوئی تو فرانس میں ورسلیز کے مقام پر ترکی کے حصے بخرےکرنے کے لیے یورپی قائدین جمع ہوئے۔اس اجلاس میں تشریف حسین آف مکہ کا بیٹا فیصل بھی شریک ہوا جو بعد میں اعراق کا بادشاہ بنا ۔شریف حسین آف مکہ کو یہ پریشانی تھی کہ انھوں نے ترکوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا تھا مگر وہ انہیں اقتدار دینے میں ہچکچارہے تھے بحرحال جب کافی بحث و تمحیص کے بعد شریف حسین آف مکہ حجار و عراق میں حکومت منتقل کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے جانے لگے تو اس معاہدہ کی ایک شق یہ بھی تھی کہ شریف حسین آف مکہ کی اولاد میں سے صرف وہ شہزادے عراق اُردن وغیرہ میں حکمران بن سکیں گے جن کی تعلیم و تربیت انگلستان کے رائل تعلیمی اداروں میں ہوئی ہوگی۔یہ بات برطانوی وزیر اعظم چر چل نے اپنی سوانح عمری میں لکھی ہے۔ اس وقت چرچل انگلینڈکا وزیر داخلہ تھا۔ بظاہر یہ ایک معمولی سی شرط لگتی ہے مگر گہرائی میں جاکردیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انگریز عالم اسلام میں اپنے جانشینوں کے بارے میں کتنی طویل منصوبہ بندی کر چکے تھے آج عالمی اسلامی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ شعوری یا لاشعوری طور پر انگریزوں کی سازش کو یونہی عملی جامہ پہنانےرہیں گے یا پھر ملت اسلامیہ کے اتحاد پر غور و فکر کرتے ہوئے کوئی مناسب لائحہ عمل تیار کریں گے۔
5۔گلو بلائز یشن (گلوبیت)ایک نیا فریب اور دم ہے جس میں دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ عالم اسلام کوکسا جارہا ہے اہل مغرب عالمی بستی کا نعرہ لگا رہے ہیں امت مسلمہ کے فریب خوردہ دانشو بھی اس عالمی بستی کے گن گارہے ہیں ۔مگر انہیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اس عالمی بستی میں امریکہ اور یورپی ممالک اپنے آپ کو ظالم جاگیر دار کے مرتبہ پر فائز سمجھتے ہیں وہ مادی ترقی کے بعد سیاسی و تہذیبی رعونت میں مبتلا ہیں ان کے خیال میں عالمی بستی کے دیگر مکینوں کایہ فرض ہے کہ وہ ان کی ثقافت اور اقدار کو اپنائیں۔ اس عالمی بستی میں غیر یورپی اقوام کے تہذیب و تمدن یا انفرادی سطح پر ثقافتی تشخص کی کوئی اہمیت نہیں ہے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کےذریعے عالمی تجارت کے وہی اصول وضع کئے جارہے ہیں جو یورپی ممالک کے مفاد میں ہیں ۔ان اصولوں کو تسلیم کرلینے کے بعد اسلامی ممالک کی رہی سہی برآمدات کابھی بیڑہ غرق ہوجائے گا۔ ابھی تک جو شرائط سامنے آئی ہیں اس کی روسے امریکہ و یورپ تو اپنا ساز و سامان بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی پذیر ممالک میں بھجوا سکیں گے مگر ترقی پذیر ممالک کی مصنوعات کو 9000ISOکےمعیارات پر جانچےبغیر یورپ و امریکہ انہیں قبول نہیں کریں گے،گو یا گلوبیت ایک فریب ہے جس کے پردے میں مغرب نے ترقی پذیر ممالک کے استحصال کی نئی شکلیں دریافت کر لی ہیں۔ یورپ و امریکہ کے اس دام فریب سے بچ نکلنا بھی ایک چیلنج ہے جس کا سامنا عالم اسلام کو کرنا ہے۔
6۔1999ء میں ایک کتاب منظر عام پر آئی تھی جس کا عنوان ہے۔”The debt trap”یعنی قرض کا پھندا ۔پاکستان جیسے غریب مسلمان ممالک اس قرض کے پھندے میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔آئی ایف اور عالمی بنک کے قرضوں پر اٹھنے والی سود کی رقم پاکستان کے بجٹ کا تقریباً 3/1حصہ ہے ۔قرضوں کے عظیم بوجھ تلے دبے رہنے کی وجہ سے مسلمان ممالک میں ترقیاتی فنڈز نہ ہونے کے برابر بچتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی عالمی سودی بینکاری نظام کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوکر غیر سودی بینکاری نظام کا قیام ایک بہت بڑا چیلنج ہے جب تک مسلمان ممالک اس استحصالی سودی نظام سے نجات نہیں پائیں گے ان کے اندر معاشی استحکام پیدا نہیں ہو سکتا ۔اس وقت سعودی عرب ،ملائیشیا مراکش وغیرہ میں بھی کئی یورپی بینکوں نے عرب سرمایہ داروں کو اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے غیر سودی بینکاری کو متعارف کرایا ہے۔ مذکورہ مالیاتی اداروں میں مروج غیر سودی بینکاری کی شرعی حیثیت کے بارے میں تو معروضات پیش کی جاسکتی ہیں البتہ اس سے یہ ضرور ظاہر ہو تا ہے کہ اسلامی بینکاری کی ضرورت کا احساس پا یا جا تا ہے ۔ابھی حال ہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بنچ نے پاکستان میں ہر طرح کی سودی بینکاری کو حرام قرار دیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ جون 2001ءتک اپنے تمام اداروں میں غیر سودی بینکاری کو رائج کرنے کے اقدامات کرے۔حکومت پاکستان نے اس ضمن میں ایک کمیشن بھی قائم کردیا ہے جو غیر سودی نظام کے نفاذ کے لیے قابل عمل سفارشات مرتب کرنے میں مصروف ہے ملت اسلامیہ کے ماہرین معاشیات کے لیے بہر حال یہ ایک چیلنج ہے کہ وہ دور حاضر میں بلا سود بینکاری کے نظریہ کو عملی جامہ کیسے پہناتے ہیں۔
7۔دور حاضر میں پیغام رسانی اور فکری انقلاب پیدا کرنے میں ذرائع ابلاغ اہم کرداراداکرتے ہیں مغرب کے پاس اپنی ثقافتی استعماریت اور تہذیبی یلغار برپا کرنے کے لیے مؤثر ترین ہتھیار مغربی ذرائع ابلاغ ہیں یہی ذرائع ابلاغ پوری دنیا میں تہذیب مغرب کو فروغ دینے میں مؤثر کردار ادا کررہے ہیں عالم اسلام میں فکری انتشارکو ہوادی جارہی ہے عالمی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کو پسماندہ جاہل اور تنگ نظر بنا کر پیش کر رہے ہیں۔مسلمان مجاہدین کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا جا رہا ہے مگر عالم اسلام کے پاس مغرب کی طرف سےوارد کردہ اس یکطرفہ نفسیاتی سرد جنگ کا کو ئی توڑ نہیں ہے مسلمان ممالک عرصہ دراز سے اپنا آزادانہ ابلاغی نیٹ ورک قائم کرنے کا سوچ رہے ہیں مگر اس پر عمل درآمد نہیں۔ ہوسکا آج سے تقریباً تیس برس قبل "مڈل ایسٹ نیوز ایجنسی (MENA)کے نام سے مصر میں ایک ادارہ قائم کیا گیا تھا جوتادیرنہ چل سکا۔دور حاضر میں سیٹلایٹ ٹیکنا لوجی میں اتنی ترقی ہو چکی ہے کہ اس طرح کا ادارہ قائم کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے اسلامی فکر کو عالمی سطح پررواج دینے کے لیے اس طرح کے اسلامی ادارے کی اشد ضرورت ہے۔
اس وقت مسلم ممالک کے ذرائع ابلاغ بھی مغربی ذرائع ابلاغ پر بری طرح انحصار کرنے پر مجبور ہیں ہمارے اخبارات عالم اسلام کے بارے میں جو خبریں شائع کرتے ہیں اس کاذریعہ مغربی ذرائع ابلاغ ہوتے ہیں مغربی ذرائع ابلاغ پر چونکہ یہودیوں کا قبضہ ہے اس لیے وہ مسلمانوں کے خلاف توڑ موڑ کر خبریں شائع کرتے ہیں آج کل فلسطین اور اسرائیل کے درمیان محاذ آرائی کی نئی صورت سامنے آئی ہے اس میں مغربی ذرائع ابلاغ فلسطینیوں کی طرف سے کی گئی معمولی مزاحمت کوبڑھا چڑھا کر دکھاتے ہیں اگر ایک یہودی مرجائے تو طوفان سر پر اٹھا دیتے ہیں مگر سینکڑوں فلسطینی شہید ہورہے ہیں تو ان کا یا تو تذکرہ ہی گول کردیا جاتا ہے یا پھر سرسری ذکر کیا جا تا ہے۔ان حالات میں عالم اسلام کے لیے ایک ابلاغی نیٹ ورک کاقیام انتہائی ضروری ہے۔
8۔امت مسلمہ اس وقت مختلف مسالک و فرقہ جات میں منقسم ہے فرقہ واریت کے جنوں نے پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں نہایت افسوسناک صورتحال کو جنم دیا ہے فرقہ وارانہ تعصب نے جہاں امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا ہے وہاں قرآن و سنت کی روشنی میں عصر حاضر میں اجتہاد جیسے اہم فریضہ سے بھی مسلمانوں کو غافل کردیا ہے۔
9۔عصر حاضر میں قرآن وسنت کی روشنی میں جدید پیش آمدہ مسائل کے متعلق اجتہاد کرنا بھی ایک بہت بڑا علمی چیلنج ہے۔ اس وقت امت متجدداور دین پسند طبقات میں بٹی معلوم ہوتی ہے جدید طبقہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہے اور دینی مدارس سے فارغ التحصیل علماء دور حاضر کے سیاسی و معاشی اداروں کی تنظیم و اصول سے واقفیت نہیں رکھتے ۔معلومات کی اس خلیج نے اجتہاد کے کام کو اور مشکل بنادیا ہے لہٰذا ضررورت اس امرکی ہے کہ دینی و دنیاوی تعلیم دینے والے اداروں میں ایسا متوازن نصاب متعارف کرایا جائے جو اس کمی کو دور کرنے میں ممدو معاون ثابت ہو۔ فقہی آراء وتشریحات کے متعلق صحیح طرز فکر رواج دینے کے لیے ضروری ہے۔کہ امت کے مختلف فرقوں میں تواتر سے تبادلہ خیال اور مکالمہ کی صورتیں پیدا کی جائیں۔
10۔کشمیر بوسنیافلسطین فلپائن ،چیچنیا وغیرہ میں مسلمانوں کو وحشیانہ بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔امت مسلمہ ان علاقوں کے مظلوم مسلمانوں کی اب تک عملی امداد سے قاصر رہی ہے۔ عالمی سطح کے ان مسائل کے متعلق واضح حکمت عملی اپنانااور مظلوم مسلمانوں کی عملی امداد کے لیے پروگرام مرتب کرنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
مؤرخہ 3/نومبر2000ء کے دوران ایوان اقبال لاہور میں بین الاقوامی اسلامی کانفرنس منعقد کی جارہی ہے جس میں تقریباً 40/ممالک سے عالم اسلام کے رہنما شریک ہورہے ہیں امام کعبہ سماحۃ الشیخ محمد بن عبد اللہ السبیل مسجد نبوی کے امام جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ بوسنیا کے صدر عالیجاہ عزت بیگو وچ شارجہ کے سلطان محمد القاسمی سعودی عرب کے وزیر عدل عالی مرتبت شیخ ڈاکٹر خالد عبد اللہ بن ابراہیم آل شیخ اہم علمی و سیاسی شخصیت ڈاکٹر صلح غانم سدلان ایوان شاہی کویت سے ڈاکٹرخالد مذکوراردن سے شیخ البانی کے علمی جانشین شیخ علی حسن حلبی مختلف اسلامی ممالک کے وزراءعدل و انصاف امریکہ و یورپ میں مقیم معروف اسلامی دانشورپاکستان کے ممتاز اہل فکرو نظر اور تحقیقی اداروں کے ذمہ داران اس تین روزہ کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں جبکہ صدر مملکت گورنر سندھ اور گورنرپنجاب چیف جسٹس آف پاکستان کے علاوہ متعدد اسلامی ممالک کے وزراء عدل و قانون وغیرہ حضرات کانفرنس کے مختلف اجلاسوں کی صدارت کریں گے۔
مجلس التحقیق الاسلامی:۔کے شعبہ رابطہ فلاح فاؤنڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام منعقد کی جانے والی اس کانفرنس کا مرکزی موضوع "نئےہزار یے میں امت مسلمہ کو درپیش چیلنج "ہے
اس کانفرنس کے انتظامات میں سپریم کورٹ کے جسٹس (ر)خلیل الرحمٰن خاں جو کانفرنس کی آرگنا ئزنگ کمیٹی کے صدر بھی ہیں فلاح فاؤنڈیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی اور بیت الحکمت کے ڈائر یکٹرپرو فیسر عبد الجبار شاکر وغیرہ فلاح فاؤنڈیشن کے ذمہ داران اور دیگر بہت سے معاونین علماء اور دانشوران دنوں سر گرمی سے مصروف ہیں۔
چند دن بعد منعقد ہونے والی اس کانفرنس سے جہاں بہت سی اہم شخصیات خطاب کر رہی ہیں وہاں اہل پاکستان اور امت کے سر کردہ افراد کو اس سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں کہ یہ فاضل مدیر شخصیات بہت سے ایسے بنیادی امور کی نشاندہی کریں گے۔جس سے آئندہ ہزاریے میں امت کے لیے کھویا ہوا وقار حاصل کرنا ممکن ہو سکے اور درپیش مسائل کے حل کے لیے کوئی مؤثرحکمت عملی اور لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے۔