فحاشی ایک معاشرتی برائی
اہم معاشرتی برائی کے سد باب کی ایک جھلک
معاشرتی برائیوں میں سے بڑی برائی"مردوزن کے ناجائز تعلقات" ہیں۔سورہ بنی اسرائیل میں اس مسئلہ کی بابت احکام نازل ہوئے ہیں جس میں خالق کائنات نے ارشاد فرمایا:"زنا کے قریب مت جاؤ،یہ بے حیائی کی دعوت ہے اور نہایت برراستہ ہے"اس سے منع کرنے کی دو وجوہات ہیں:
اول:۔
یہ حیا کی ضد ہے جبکہ اسلام حیا کاعلمبردار ہے اور وہ حیا کو ایمان کا جزو عظیم قرار دیتاہے۔ جب بے حیائی کافتنہ کسی انسان کو اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ لیتا ہے تو اس کے نتیجہ میں وہ کسی بھی قسم کے جرم کے ارتکاب میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر تا۔پیغمبر کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب حیا کاجذبہ تمہارےاندر سے ختم ہوجائے تو پھر تم جو چاہے کرتے پھرو،تمھیں کوئی روکنے والا نہیں"
جہاں حیا کےخاتمے سے انسان کا ضمیرمردہ ہوجاتا ہے ،وہاں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں۔انسان کے افعال اسکے کنٹرول سے باہر ہوجاتے ہیں۔نتیجۃً تباہی اور بربادی اسکا مقدر ٹھہرتی ہے۔
دوم:۔
وجہاس کی یہ ہے کہ قبیح فعل معاشرے میں فساد اوربگاڑ کاباعث ہے۔یہی فساد بسا اوقات قبیلوں اورقوموں کی تباہی کاپیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
اسلام معاشرے میں پاکیزگی کے پھیلاؤ کاخواہشمند ہے جبکہ یہ برائی معاشرے میں پراگندگی کی علمبردار ہے۔اسلام میں جزا وسزا کابہترین تصور موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ جن برائیوں کے ارتکاب پر اسلام نے سخت سزائیں تجویز کی ہیں،ان میں سب سے سخت سزا زنا کی ہے تاکہ اس برائی کاقلع قمع کیاجاسکے۔دنیا امن وآشتی کاگہوارہ بن جائے۔اسلام ایک صالح معاشرے کو بے حیائی اور اس کے محرکات سے پاک رکھنا چاہتا ہے۔
سورہ نورمیں خالق کائنات نے اس جرم کی جو سزا مقرر کی ہے اس کے مطابق "زانی مرد ہویاعورت اسے سو کوڑے مارے جائیں"احادیث مبارکہ میں اس کی جوتفصیل مذکور ہے اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کافرق ملحوظ رکھا گیاہے۔غیر شادی شدہ جوڑا اگر اس قبیح فعل کاارتکاب کر بیٹھے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں۔شادی شدہ اگراس جرم میں ملوث ہو اور اس پر یہ جرم ثابت ہوجائے تو ان کی یہ سزا ہے کہ ان کو سنگسار کیا جائے،اس جرم کی سزا کے نفاذ میں کسی کےدل میں ذرا سا بھی رحم،نرمی کامادہ پیدا نہ ہو۔مبادا کہیں دل کی نرمی ایمان میں بگاڑ پیدا کردے۔
تعلیمات اسلامیہ اس بات کی متقاضی ہیں کہ جب اس جرم کے ملزمان پرحد نافذ ہونے لگے تو اہل ایمان کی کثیر جماعت اس منظر کوچشم بینا سے دیکھے۔اس سے جہاں عبرت حاصل ہوگی ،وہاں کوئی انسان اس فعل کا ارتکاب کر نے سے قبل ہزار بار اس کے نتیجہ کے بارے میں سوچے گا۔شادی شدہ بدکار کو سنگسار کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ ایسے مردوزن پر پتھروں کی اس طرح بارش کی جائے کہ وہ پتھروں کی چوٹ کھاتے کھاتے مرجائیں۔اسلام نے اس جرم پر پھانسی تجویز نہیں کی یا گردن اڑادینا قبول نہیں کیابلکہ حکم دیا کہ غیر شادی شدہ کو سو کوڑے لگانے اور شادی شدہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیاتاکہ دیکھنے والوں کو عبرت حاصل ہو۔
اسلامی معاشرہ اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ اہل ایمان اس قبیح جرم میں ملوث ہوں جو لوگ یہ حرکت کر بیٹھیں اور ان پر یہ جرم ثابت ہوجائے تو وہ اس قابل نہیں کہ انہیں اسلامی برادری میں اعلیٰ مقام دیا جائے بلکہ ان پر حدود اللہ کا مکمل طریقے سے نفاذ کیا جائے۔
خاتم النبیین رحمۃ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے مماثل کوئی رحمدل انسان اس روئے زمین پر نہ پیدا ہوا اور نہ ہوگا۔ اس تمام تر رحمدلی کے باوجود بدکاری جیسے قبیح فعل کے ارتکاب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے جو اس برائی میں شامل ہوتے تھے،کسی قسم کی رورعایت نہیں کرتے تھے۔
بدکاری کامرتکب ایک شخص بذات خود خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ سے یہ قبیح حرکت سرزد ہوگئی ہے،مجھے پاک کردیجئے ۔مجھ سے وہ جرم سرزد ہوا ہے جس کے نتیجے میں مجھ پر حدود اللہ کا نفاذ لازمی ہوگیاہے۔میں آ پ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھ پر اللہ کی حد نافذ کرکے مجھے اس گندگی ،نجاست اور ناپاکی سے پاک کردیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا کہ اس کے ذہن اور دماغ میں کوئی فتور یا خلل ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا۔وہ پھر سامنے آیا اور بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا کہ مجھے پا کردیجئے۔مجھ سے واقعی یہ جرم سرزد ہوا ہے۔آپ نے تفصیلاً اس سے پوچھا کہ واقعی یہ جرم تم نے کیا بھی ہے یا نہیں؟ کیا تم اس جرم کی آخری حد تک پہنچ چکے ہو۔اس نے عرض کیا کہ ہاں! میں نے آخری حد تک اس جرم کاارتکاب کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔(اوکمال قال)
یہ ان لوگوں کااعتراف جرم ہے جن کے ضمیر زندہ ہوتے ہیں اور کوئی غلط کام کرنے کے بعد ان کو ملال ہوتاہے کہ آج اگر دنیا میں اس جرم کی سزا نہ بھگتی توکل روزقیامت بارگاہ الٰہی میں اللہ اس سزا کو شدید بنا کر دے گا۔وہ جب تک اس جرم کی تلافی نہ کرلیں اس وقت تک وہ اطمینان کی وادی میں داخل نہیں ہوتے۔
ایک دوسری روایت میں اس عورت کا تذکرہ ہے جو اس جرم کا ارتکاب کر بیٹھی۔جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہوگئی۔وہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی ،جرم کااقرار کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جاؤ جب بچہ پیداہوجائے تب آجانا۔اس وقت کوئی پولیس نہ تھی جو بچے کی پیدائش کے بعد اس عورت کو پکڑ کر پھر لے آتی لیکن فکر آخرت کا جذبہ ان کے اندر ضرور موجزن تھا۔ا س عورت کے دل میں اللہ کا ڈر اور خوف تھا کہ کہیں میں اس حال میں اللہ کے پاس چلی گئی تو میں بارگاہ الٰہی میں کیا منہ دکھاؤں گی۔اس جرم کی بابت اگر مجھ سے سوال کیا گیا تو میں کیا جواب دوں گی۔جب بچہ پیدا ہواتو وہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا آئی اور کہا کہ مجھے پا ک کردیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جاؤ اس بچے کی پرورش کرو،اسے دودھ پلاؤ۔جب یہ روٹی کھانے کے قابل ہوجائے تب آنا۔دو سال بعد جب بچہ روٹی کھانے کے قابل ہوا،روٹی کاٹکڑا بچے کے ہاتھ میں تھماکر امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر عرض کیا:اب یہ بچہ ر وٹی کھانے کے قابل ہے اور آ پ کے سامنے یہ روٹی کھا بھی رہاہے اب تو مجھے اس گناہ سے پاک کردیں۔
امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسے لے جاؤ اور سنگسارکردو۔ سنگساری کے عمل کے دوران جب وہ بھاگنے لگی تو خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُونٹ کی ہڈی اٹھا کر اسے دے ماری۔خون کے چند چھینٹوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دامن کو سرخ کردیا اور حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے برا بھلا کہنا شروع کردیا۔جب ان بدعائیہ کلمات کی بازگشت بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"خالد! تمھیں اس عورت کی برائی اور خامی تو نظر آرہی ہے لیکن تم اس حقیقت سے بے خبر ہو کہ اس نے کس قدر پکی اور سچی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ پر اس کی توبہ تقسیم کردی جائے تو مدینہ کے تمام گناہ گاروں کے لیے ا س عورت کی توبہ کافی ہے لہذا اس کے بارے میں ہلکے کلمات مت ادا کرو اور ا پنی زبان کو روکو۔"(اوکماقال)
اسلام اس جرم کو کسی صورت برداشت نہیں کرتا اور اس کی جو سزا کتاب وسنت میں تجویز کی گئی ہے،اس پر عملدرآمد سے معاشرہ تباہی وبربادی کے عمیق گڑھوں میں گرنے سے بچ جاتا ہے۔یہ جرم جہاں خاندانوں اور اقوام کی تباہی کاپیغام ہے ،وہاں یہ حسب ونسب کو بھی خراب کردینے کاباعث ہے۔
امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عورتوں کے مجمع میں شامل ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں ان کاموں کے بارے میں بعیت لے رہا ہوں جو تم کرسکو"میں نے عرض کیا:
"اللہ اور اس کارسول ہم پر ہماری نسبت زیادہ مہربان ہیں"پھر میں نے عرض کیا:" اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے بیعت لیجئے"یعنی مصافحہ کیجئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میرا زبانی سوعورتوں سے بیعت لے لینا ایسا ہی ہے جیسا میرا ایک عورت سے زبانی بیعت لے لینا"(او کماقال)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ رحمۃاللعالمین ہیں لیکن آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باوجود عورتوں سے مصافحہ کرنے سے پرہیز کیاتاکہ قیامت تک غلط قسم کے مذہبی پیشوا اس کی آڑ میں سنت کے نام سے بے شرمی اور بے حیائی کاطوفان اٹھانے میں دلیر نہ ہوجائیں۔(مشکواۃ)
ترمذی اور مشکواۃ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ" کوئی مرد کسی(اجنبی نا محرم) عورت کے ساتھ تنہا نہیں رہتا مگر یہ کہ ان میں تیسرا نہ ہو وہاں شیطان کی مراد برآتی ہے اور ہر وقت یہ خطرہ پیدا ہوجاتا ہے کہ کہیں یہ کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
اسلام چونکہ معاشرے میں پاکیزگی کا خواہشمند ہے اس لیے اس نے مرد وعورت کے آزادانہ میل جول پر پہرہ لگا دیاہے جہاں مرد کوغض بصر کاحکم ہے۔ وہیں خواتین کے لیے پردہ کے لازوال احکامات نازل کئے گئے تاکہ فنتہ کا کوئی سامان باقی نہ رہے۔کسی مرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی اجنبی محرم نا محرم عورت کی آمد پر اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہے۔بعینہ اسی طرح کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی اجنبی نامحرم مرد کو اسی انداز میں دیکھے ۔آنکھوں کا اس طرح دیکھنا در اصل برائی کی طرف پہلاقدم ہے یہیں سے برائی کاراستہ ہموار ہوجاتاہے۔یہ آنکھوں کاگنا ہ ہے۔ناشائستہ گفتگوکرنا زبان کاگناہ ہے۔اس کاسننا کانوں کاگنا ہ ہے۔اس برائی کے ارتکاب میں ہاتھوں کااستعمال ہاتھوں کاگناہ ہے۔اس برائی کی طرف بڑھنے والے قدم پاؤں کاگناہ ہے جو بالآخر برائی کی دلدل میں پھنسا کر ہی دم لیتا ہے۔
غلط خیالات پر مبنی گانے،ڈرامے وغیرہ دراصل شیطانی راہ کے بہت بڑے حمایتی ہیں۔ان کو فروغ دینے کے لیے ٹیلی ویژن اور ریڈیو کا کردار بہت گھناؤنا ہے۔سنسر کی پابندیاں محض مذہبی پروگراموں کے لیے ہیں۔ان پروگراموں کے لیے ان کی قینچیاں ہر وقت تیز رہتی ہیں مگر بے ہودہ خیالات پر مبنی گانے اور ڈرامے بلاتوقف نشر ہوتے رہتے ہیں۔
انسان کی تخلیق اور اسے دنیا میں مبعوث کرنے کے بعد اللہ نے دین اسلام کے ذریعے اسے تمام تر تعلیم سے آراستہ کیاکہ تو نے آنکھوں سے کیا کام لینا ہے ،کانوں سے کیا سننا ہے،زبان سے کیا بولنا ہے،ہاتھوں سے کیاکام لینا ہے۔اپنے قدم کن راہوں میں اٹھانے ہیں۔اسلام نے برائی تک پہنچنے کے یہ تمام دروازے پوری طرح بندکردیئے ہیں۔
بخاری شریف اور مشکواۃ شریف میں حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کون ہے جو مجھے(دو چیزوں) زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے،میں اس کے لیے جنت کاضامن ہوں گا"
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھیں،اسی وقت ابن ام مکتوم پہنچ گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" ان سے پردہ کرو"میں نے کہا:کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ یہ تو ہمیں دیکھ بھی نہیں سکتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ان سے پردہ کرو" میں نے کہا:کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟یہ تو ہمیں دیکھ بھی نہیں سکتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم دونوں بھی نابینا ہو،کیا تم اس کو نہیں دیکھ رہی ہو؟
ابن اُم مکتوم ایک برگزیدہ صحابی ہیں پھر یہ کہ نابینا ہونے کے باوجود ازواج مطہرات جیسی پاکباز خواتین کو ان سے پردہ کرنے کاحکم دیا جارہا ہے۔اس سے انداز ہوسکتا ہے کہ آج کل جو بہت سی خواتین غلط عقیدت یا توہم پرست میں مبتلا ہوکر نامحرم پیروں مردوں کے سامنے بے پردہ آجاتی ہیں ،وہ اسلام کی روح سے کس قدر بیگانہ ہیں۔
کل روز قیامت ہمارے تمام تر اعضاء سے بارگاہ الٰہیہ میں سوال ہوگا کہ انسان نے تمھیں کس مقصد کے لیے استعمال کیا؟۔۔۔ایک دفعہ ایک شخص نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوکرعرض کیا:"میں اپنے جذبات کے بارے میں اس قدر مغلوب ہوں کہ زنا سے بچنا میرے لیے ناممکن ہے اس لیے مجھے اس کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس آدمی کے بے ادبی او گستاخی پر شدید غصہ آیا کہ وہ کس بات کا اذن طلب کررہاہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اسے مارنے کے لیے لپکے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو تم اس شخص کی نفسیات سے ناواقف ہو۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے قریب بلا لیا۔شفقت بھرے انداز میں اسے کہا جس برائی کی تم مجھ سے اجازت طلب کررہے ہو اگر وہ برائی کوئی تمہاری ماں کے ساتھ کرے،کیاتم برداشت کرلوگے؟ وہ کہنے لگا:نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم جس کے ساتھ برائی کرو گے وہ کسی کی ماں نہیں ہوگی۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی خالہ،خالہ اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے نام لے کر اس سے پوچھا کہ اگر اس کے ساتھ کوئی غلط فعل کرے تو کیاتم اسے برداشت کرلوگے وہ کہنے لگا نہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم جس کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتے تو ہو وہ کسی کی ماں ،بہن ،بیٹی نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے حق میں دعائے خیر کی اور فرمایا:اللہ اس کی عفت کو پاک کردے ا س کی شرمگاہ کومحفوظ کردے۔اس برائی سے اس کے اندر نفرت پیدا کردے۔ا س کےدل میں اپنا خوف اور ڈر پیدا کردے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ا س دعا سے اس شخص کی زندگی میں اتنا انقلاب اور تبدیلی آئی کہ اسکے بعد یہ صحابی کبھی گھر سے باہر نکلتے تو ا پنی نگاہوں اور اعضاء پر اتنا کنٹرول کرتے تھے کہ کسی غیر عورت کی طرف نگاہ بھی نہ پڑنے دیتے۔اسلام ہم سے اس بات کامتقاضی ہے۔کہ ہم اپنے ضمیر کوجھنجوڑیں اور اس برائی سے نفرت کریں۔کبھی ہم یہ نہیں سوچتے کہ جس برائی کاہم ارتکاب کررہے ہیں اگر یہی حرکت اور عمل کوئی ہمارے گھرآکر کرے تو کیا ہم اسے گوارا کرلیں۔یہ ذہن اگر بن جائے کہ دوسرے کی عزت کو اپنی عزت سمجھیں تو برائی کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں گے۔
اس برائی کے پھیلانے میں ویڈیوں کاکردار انتہائی گھناؤنا ہے۔ویسے تو ہمارے دل بھارت کے خلاف اورکشمیری مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں دھڑکتے ہیں۔لیکن نوجوان نسل پاکستان کی ازلی دشمن اور بے گناہ کشمیریوں کے قاتل بھارت کی فلمیں بڑے ذوق وشوق سے بلا ناغہ دیکھتے ہیں۔یہ ہمارا دورُخا کردار ہے۔ جس پر تاریخ شاید ہمیں کبھی معاف نہ کرے مجھے کس کام سے لاہور جانے کا اتفا ق ہوا۔واپسی پر کوچ سوارہونے لگا دیکھا کہ وہ گاڑی خالی ہے لیکن دوسری گاڑیوں کے گرد لوگوں نے جھمگٹا لگایا ہوا تھا۔اس خالی گاڑی میں بیٹھنے کے لیے کوئی تیا ر نہیں تھا۔ڈرائیور شریف النفس تھا۔میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ ان گاڑیوں میں وی سی آرہے جبکہ میری گاڑی وی سی آر سے محروم ہے۔اس وجہ سے میری گاڑی میں بیٹھنے سے لوگ کتراتے ہیں میں نے اس بات کا تہیہ کیا ہوا ہے کہ اپنی گاڑی میں اس برائی کو نہیں آنے دوں گا۔رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔وہ میری مشکلات کو ضرورآسان کرے گا۔خواہ کوئی میری گاڑی میں بیٹھے یا نہ بیٹھے!
حکومت وقت کو اس برائی کے سد باب کے لئے ٹھوس اقدامات کے طور پر حدود اللہ کا نفاذ کرنا چاہیے تاکہ من حیث القوم ہم اس برائی سے بچ سکیں۔لیکن حکومت اس سلسلے میں کسی قسم کا اقدام کرنے سے یکسر گریزاں ہے۔اسے دوسے مسائل سے ہی فرصت نہیں۔ جو وہ اس طرف نظر دوڑا سکے۔اللہ سے دعاہے کہ اگر موجودہ قیادت اس برائی کے خاتمے کی اہل نہیں تو اس کی جگہ ہمیں بہتر قیادت عطا کرے۔آمین!