قؤآن مجید اور عذلب قبر
برصغیر(پاک وہند) کی ملت اسلامیہ کی بدقسمتی یا آزمائش کہہ لیجئے کہ یہ پورا خطہ پرسوز طرح طرح کے دینی فتنوں کی آماجگاہ ہے اور یہاں خودمسلمان کے اندرسے اسلام دشمن فتنے جنم لیتے رہتے ہیں۔کوئی صدی بھر سے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو دین سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں تشکیک کے نت نئے پہلو سامنےآتے رہتے ہیں۔کچھ دنوں سے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ قبر کےعذاب وثواب کاعقیدہ غلط اور قرآن کے خلاف ہے۔
پیش نظر کتابچہ میں اسی خیال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ عقیدہ حدیث ہی کی طرح قرآن سے ثابت ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس عقیدہ کو نہ ماننے والے حدیث کے تو منکر ہیں ہی،قرآن کے بھی منکر ہیں۔یعنی ایسے لوگ نہ قرآن کو سمجھتے ہیں اور نہ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیجے کہ عذاب وثواب قبر کامطلب ہے :مردے کو برزخ میں(موت کے بعد) اورقیامت سے پہلے کی مدت میں عذاب یاثواب ملنا۔اتنی سی بات ذہن میں رکھ کر قرآن مجید سے اس کا ثبوت سنیے:
پہلی دلیل:۔
قرآن مجید میں شہیدوں کی بابت ارشاد ہے:
﴿وَلا تَقولوا لِمَن يُقتَلُ فى سَبيلِ اللَّـهِ أَموٰتٌ ۚ بَل أَحياءٌ وَلـٰكِن لا تَشعُرونَ ﴿١٥٤﴾...البقرة
"اللہ کی راہ میں قتل کردیئے جانےوالوں کو یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم لوگ نہیں سمجھتے"(سورۃ البقرہ:154)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿وَلا تَحسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلوا فى سَبيلِ اللَّـهِ أَموٰتًا ۚبَل أَحياءٌ عِندَ رَبِّهِم يُرزَقونَ ﴿١٦٩﴾ فَرِحينَ بِما ءاتىٰهُمُ اللَّـهُ مِن فَضلِهِ وَيَستَبشِرونَ بِالَّذينَ لَم يَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم أَلّا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿١٧٠﴾ يَستَبشِرونَ بِنِعمَةٍ مِنَ اللَّـهِ وَفَضلٍ وَأَنَّ اللَّـهَ لا يُضيعُ أَجرَ المُؤمِنينَ ﴿١٧١﴾...آل عمران
"وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں قتل کردیئے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں۔اپنے رب کے پاس رزق دیئے جاتے ہیں،جو کچھ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے دیاہے،اس سے یہ خوش ہیں اور جو لوگ ابھی ان کے پیچھے ہیں(یعنی دنیا میں ہیں اور) ان سے ملے نہیں ہیں،ا ن کے بارے میں خوش ہیں(اور اس پر خوش ہیں کہ) اللہ ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا"
ان آیات سے واضح اور دو ٹوک طور پرثابت ہوتا ہے کہ شہدائے کرام کو اللہ کی راہ میں قتل کئے جانے کے بعد پھرزندگی عطا کردی جاتی ہے اور یہ زندگی ہماری دنیاوی زندگی کی طرح نہیں ہوتی،بلکہ ایسی ہوتی ہے جسے ہم سمجھ نہیں سکتے۔لیکن بہرحال مرحلہ شہادت سے گزارنے کے بعد ان کے لیے زندگی ملنا اس قدر پختہ طور پر یقینی ہےکہ انہیں مردہ کہنے سے روک دیاگیا ہے۔
ان آیات پر ایک بار پھر نظر ڈالیے اور دیکھئے کہ ان آیات سے شہیدوں کے لیے صرف زندگی ہی عطا کیاجانا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہائے گوناگوں سے بہرہ ور اور سرفراز کیا جانا بھی ثابت ہوتا ہے۔پھر یہ نعمتیں جو دنیاسے تشریف لے جاتے ہیں انہیں ملتی ہیں۔صرف انہی کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس طرح کی نعمتوں کی خوش خبری وہ ا پنے ان مومن بھائیوں کے حق میں بھی جانتے ہیں جوابھی دنیا سے گزرے نہیں ہیں اور ان شہیدوں کو یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ ان نعمتوں کا سبب ایمان ہے۔کیونکہ آیت کے آخر میں(أَنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ) کہا گیاہے۔(اجر الشهداء) یا (اجر المقتولين في سبيل الله) نہیں کہاگیا ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ ان آیات سے برزخ۔۔۔اور بلفظ دیگر قبر میں اہل ایمان کو ثواب ملنے کا پورا پورا ثبوت فراہم ہورہاہے۔
دوسری دلیل:۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ بتایا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو خدا کی بندگی کی دعوت دی،فرعون نہ مانا ،بہت سے نشانات دیکھا دیئے گئے۔تب بھی نہ مانا،آخر موسیٰ علیہ السلام بنو اسرائیل کوساتھ لے کرنکل پڑے۔فرعون نے اپنے لاؤ لشکر سمیت ان کا پیچھا کیا۔اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے دریا میں راستہ بنادیا۔وہ پار ہونے لگے تو فرعون بھی اپنے لشکر سمیت اسی راستے پر چل پڑا اور اسرائیل پار نکل گئے اور فرعون اپنے لشکر سمیت ڈبو دیا گیا۔اسی و اقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورہ مومن میں فرمایا گیا:
﴿فَوَقىٰهُ اللَّـهُ سَيِّـٔاتِ ما مَكَروا ۖ وَحاقَ بِـٔالِ فِرعَونَ سوءُ العَذابِ ﴿٤٥﴾ النّارُ يُعرَضونَ عَلَيها غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَومَ تَقومُ السّاعَةُ أَدخِلوا ءالَ فِرعَونَ أَشَدَّ العَذابِ ﴿٤٦﴾...غافر
"اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو ان بری تدبیروں سے بچا لیا جو فرعون اور اس کی قوم نے کی تھیں اور قوم فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا۔یہ لوگ آگ پرصبح وشام پیش کیے جاتے ہیں اورجس دن قیامت قائم ہوگی تواللہ حکم دے گا کہ قوم فرعون کو نہایت سخت عذاب میں داخل کردو"(غافر:45۔46)
یہ تو معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام اور بنواسرائیل کو بچا کر فرعون اور اس کی قوم کو جس عذاب میں گھیرا گیا تھا وہ دریا میں ڈبوئے جانے والاعذاب ہے جس سے پورا فرعونی لشکر مرکر ختم ہوگیا ۔اب سوال یہ ہے کہ ان کے مرجانے کے بعد اورقیامت قائم ہونے سے پہلے انکے بارے میں جو ذکر کیاگیاہے کہ ان کو صبح وشام آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر یہ عذا ب برزق نہیں ہے تو کون سا عذاب ہے؟؟
یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ فرعون اور اس کی قوم کو یہ عذاب کیوں دیا جارہا ہے؟جواب صاف ہے کہ ان کا قصور قرآن میں جگہ جگہ یہ بتایاگیاہے کہ انہوں نے سرکشی کی،یعنی اللہ اور اس کے نبیوں پر ایمان نہیں لائے۔ان کی اطاعت وپیروی نہیں کی۔شرک وبت پرستی اور نافرمانی وتکبر کی راہ پر چلے رہے ۔اب سوال یہ ہے کہ ان برائیوں اور ان جرائم کی وجہ سے جب فرعون اور اس کی قوم کو عالم برزخ میں عذاب ہورہا ہے تو جو لوگ اور جو قومیں ہی تصور کرکے دنیا سے جائیں گے،انہیں عالم بر زخ میں عذاب کیوں نہیں ہوگا؟کیا اللہ بے انصاف ہے کہ قوم فرعون نے ایک جرم کیا تو انہیں عذاب دے رہا ہے لیکن وہی جرم دوسری قومیں کریں گی تو انہیں عذاب نہیں دے گا؟
تیسری دلیل:۔
عام کفار کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
﴿وَلَو تَرىٰ إِذِ الظّـٰلِمونَ فى غَمَرٰتِ المَوتِ وَالمَلـٰئِكَةُ باسِطوا أَيديهِم أَخرِجوا أَنفُسَكُمُ ۖ اليَومَ تُجزَونَ عَذابَ الهونِ بِما كُنتُم تَقولونَ عَلَى اللَّـهِ غَيرَ الحَقِّ وَكُنتُم عَن ءايـٰتِهِ تَستَكبِرونَ﴿٩٣﴾...الأنعام
"اور اگر آپ دیکھ لیں جبکہ ظالمین موت کی سختیوں میں ہوں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھائے ہوئے ہوں کہ تم اپنے نفسوں کو نکالو۔ آج تمھیں اس سبب سے ذلت کا عذاب دیاجائے گا کہ تم اللہ پر ناحق بولتے تھے اور اس کی آیتوں سے استکبار کرتے تھے"
دیکھئے! کتنی صراحت اورصفائی کے ساتھ کہا گیا ہے کہ کفار کو ان کی عین وفات کے وقت یہ خبر سنائی جاتی ہے کہ آج تمھیں عذاب دیاجائے گا۔ظاہر ہے کہ یہ عذاب قیامت کےدن کاعذاب نہیں ہے،کیونکہ جس دن کسی کافر کی موت واقع ہورہی ہے وہ قیامت کے دن نہیں۔ورآنحالے کہ عذاب اسی دن آپڑنے کی خبر دی جارہی ہے اور یہ عذاب دنیا کاعذاب بھی نہیں ہے۔کیونکہ جس وقت ان کی روح کھینچی جارہی ہے عین اس وقت انہیں یہ بتایا جارہا ہے کہ آج تمھیں عذاب یا جائے گا یعنی جس عذاب کے دیئے جانے کی خبردی جارہی ہے۔ابھی وہ شروع نہیں ہواہے درآنحالے کہ روح نکالی جارہی ہے۔پس یہ عذاب مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے کا عذاب ہوا۔لہذا قطعاً عذاب برزخ ہوا۔
چوتھی دلیل:۔
سورہ طہٰ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اہل مکہ کی چہ میگوئیوں اور نکتہ چینیوں کا جواب دینے کے بعد فرمایا ہے:
﴿فَذَرْهُمْ حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ ﴿45﴾ يَوْمَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ﴿46﴾ وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَلِكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴿47﴾...الطور
"انہیں چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن سے دو چار ہوں جس میں وہ بے ہوش کردیئے جائیں گے۔جس دن ان کا داؤ کچھ کام نہ دے سکے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی اور یقیناً ظالموں کےلیے اس کے علاوہ بھی عذاب ہے اور لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے"
غور فرمائیے کہ ظالمین مکہ کے لیے قیامت کے دن کے علاوہ جو عذاب ہے ،اس سے کون سا عذاب مراد ہوسکتا ہے۔جبکہ تاریخی شہادتوں سے یہ بات معلوم ہے کہ ان میں سے بہت سے افراد اس دنیا سے عذاب پائے بغیر ہی گزر گئے تھے۔لہذا اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ اسے عذاب برزخ تسلیم کیاجائے۔
پانچویں دلیل:۔
تقریباً اسی سے ملتے بات سورہ توبہ میں منافقوں کے متعلق کہی گئی ہے ،ارشاد ہے:
سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ(التوبه:101)
"ہم انہیں عنقریب دو مرتبہ عذاب دیں گے ،پھر انہیں زبردست عذاب کی طرف پلٹا یا جائے گا"
زبردست عذاب سے مراد حتمی طور پر قیامت کے بعد کا عذاب ہے۔اب اس سے پہلے دو مرتبہ کا عذاب تو اس میں سے ایک تو اس دنیائے فانی کی ذلت ورسوائی ہےجس سے منافقین کو دوچار ہونا پڑااور دوسرے مرنے کے بعد کا عذاب قبر ہے۔کیونکہ بہت سے منافقین کو اس دنیا میں انہیں ایک ہی عذاب دیا گیا دو نہیں۔اس کے برعکس بعض منافقین کو بار بار ذلت ورسوائی سے دوچار ہونا پڑا۔اب اگر ہر مرتبہ کی ذلت کو ایک بار کا عذاب کہیں تو انہیں دنیا میں دو مرتبہ کے بجائے کئی مرتبہ عذاب ہوگیا۔اس لیے ان کے حق میں دو مرتبہ عذاب دینے کی بات بے معنی ہوجاتی ہے۔البتہ دنیا کی ساری رسوائیوں کو ایک عذاب اور قبر کی سختیوں اور گرفتوں کی دوسرا عذاب قرار دیں تو یہ عین تاریخی شہادت اور واقعات کے مطابق ہے۔
قرآن مجید کی ان آیات اور بیانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس حقیقت اور عقیدے کے ثبوت میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی کہ اللہ اپنے نیکو کار اور صالح بندوں کو موت کے بعد اور قیامت سے پہلے یعنی عالم برزخ اور قبر میں اپنی نعمتوں سے نوازتاہے اور بد عمل اور گمراہ لوگوں کو عالم برزخ اور قبر میں سزا اور عذاب دیتا ہے۔یعنی عذاب قبر اور ثواب قبر کا عقیدہ بالکل صحیح اور برحق ہے ۔اور اس کا انکار صاف طور پر قرآن کا انکار ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور سارے مسلمانوں کو حق قبول کرنے کی توفیق دے۔اور اپنے عذاب اور گرفت سے محفوظ رکھ کر ا پنی نعمتوں سے نوازے۔
اللهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه