ٹیلی فون پر گفتگو کے آداب
مقدمہ از شیخ بکر بن عبد اللہ ابو زید حفظہ اللہ :۔
حمد وثنا کے بعد۔۔۔ٹیلی فون کے آداب کے بارے میں ہم کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں اس لیے کہ شریعت مطہرہ نے ہمارے لیے میل جول ملاقات اور ایک دوسرے سے ملاقات اور ہم کلام ہونے کے آداب کسی کے پاس آنے جانے اور کسی کے گھر میں داخل ہونے کے آداب بھی بیان فرمائے ہیں ٹیلی فون بھی چونکہ ملاقات کی ایک صورت ہے اسی پر قیاس کرتے ہوئے ہم ٹیلیفون کے آداب بیان کریں گے کیونکہ اگر مذکورہ کاموں یعنی کسی سے ہم کلام ہوتے وقت کسی کی زیارت کے لیے آتے جاتے وقت کسی سے بات چیت اور ملاقات کرتے وقت ہم شرعی آداب کو اپنائیں اور شرعی طریقہ ملحوظ خاطر رکھیں گے تو اس سے معاشرہ میں باہمی بھائی چارے اور امن و سکون کو فروغ ملے گا۔ایسے مواقع پر اسلامی آداب کو اپنانا انسان کے اخلاق کوبلند و بالااور اعلیٰ کردیتا ہے اخلاق عالیہ حامل انسان تب ہی ہوگا کہ ان عمدہ خوبیوں کو اپنا یا جائے جن کی اسلام نے رہنمائی کی ہے۔بات چیت میں لطف و شائستگی تب ہی آئے گی اگر ہماراطرز تکلم بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ہوجائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق ہو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"نرمی جس چیز میں بھی آئے گی اسے مزین کردے گی اور جس چیز سے نرمی ولچک ختم ہو گی۔وہ عیب دار بن جائے گی۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو لطف و شفقت سے محروم کردیا گیا وہ بہت بڑی بھلائی سے محروم کر دیا گیا" بہر حال ٹیلیفون کے آداب کال کرنے والے اور جس کو کال کی جارہی ہے ان دونوں کے لیے ہیں لیکن کال کرنے والے پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونہ وہ آغاز کرتا ہے اور غرض مند ہوتا ہے۔
اگر ہم کال Callیا ٹیلی فون اٹنیڈ کرتے وقت ان آداب کو پیش نظر رکھیں گے تو یہ بات معاشرہ میں باہمی الفت و محبت کو فروغ دینےکا وسیلہ و ذریعہ بن جائے گی اور جس معاشرہ میں یہ آداب پائے جائیں وہ ایک کامیاب معاشرہ کہلائے گا اسی بات کا اسلام پیغام لے کر آیا ہے۔
یہ آداب اگرچہ موقع و مناسبت کے اعتبار سے یا فرد اور افراد کے اعتبار سے اور اہمیت و ضرورت کے اعتبار سے بعض مقامات پر مختلف ہو جاتے ہیں اور عقلمندوہی ہے جو تمام امور کو شریعت مطہرہ کی روشنی میں اپناتا ہے عقلمند اور کامیاب آدمی بھی وہی ہے جو دوسروں سے سامان عبرت حاصل کر لے کیونکہ لوگ عقل و فہم میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ کئی ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں سے ہی سامان عبرت حاصل کر لیتے ہیں اور کئی ایسے ہوتے ہیں جب تک ان سے واسطہ نہ پڑے ان کے لیے سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔
ٹیلی فون پر گفتگو کے آداب:۔
ذیل میں ایسی باتوں کا تذکرہ کیا جائے گا جن کو اپنانے سے بے شمار فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
1۔صحیح نمبر کی تسلی:۔
ضروری ہے کہ آپ جہاں فون کرنا چاہتے ہیں مطلوبہ نمبر کی اچھی طرح پڑتال کر لیں اگر نمبر آپ کے پاس لکھا ہوا ہے تو کھول کر اپنے سامنے رکھ لیں تاکہ کہیں غلط جگہ پر کال نہ ہوجائے ۔ممکن ہے آپ کی تھوڑی سی لاپرواہی اور سستی سے کوئی سویا بیدار ہو جائے یا کسی مریض کے ہاں گھنٹی اس کےلیے پریشانی و کوفت کا ذریعہ بن جائے ،اس لیے کال کرنے سے پہلے نمبرکو اچھی طرح چیک کر لیں اگر پھربھی کہیں غلط مل جائے تو آپ معذرت کریں تاکہ جہاں رابطہ ہوا ہے انہیں یقین ہوجائے کہ آپ نے عمداً انہیں تنگ نہیں کیا۔
ایسے ہی رانگ نمبر ملنے خندہ پیشانی سے جواب دیں اور آرام سے کہیں کہ یہ آپ کامطلوبہ نمبر نہیں آپ دوبارہ صحیح نمبر پر ٹرائی کریں کیونکہ اگر کال کرنے والے سے بھول ہوئی ہے تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں اور اگر اس نےجان بوجھ کر آپ کو تنگ کرنے کے لیے فون کیا ہے تو آپ تحمل و بردباری سے جواب دے کر سرخروہوں گے اور اسے بلاوجہ تنگ اور ناحق پریشان کرنے کا گناہ ہو گا۔
وتغافــل عـن أمـور إنه
لم يفز بالحمد إلا من غفل "
معمولی معاملات سے درگزر کرنا سیکھو بے شک قابل تعریف وہی ہے جو درگزرکرے
2۔فون کرنے کے لیے موزوں وقت کا انتخاب :۔
اگر آپ کہیں فون کرنا چاہیں تو یاد رہے کہ جس طرح آپ کی ضروریات اور ٹائم ٹیبل ہے اسی طرح ہر شخص کی اپنی نجی مصروفیات اور ٹائم ٹیبل ہے کیونکہ ہر انسان کے کھانے آرام اور کام کے اوقات و دیگر مصروفیات اور اسی طرح انسان کو کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں جن کی بنا پر ضروری نہیں کہ آپ جب بھی فون کریں متعلقہ آدمی آپ کو دستیاب ہوسکے بلکہ بعض دفعہ انسان اپنی ذاتی مصروفیات کی بنا پر دوسروں کے لیے وقت نہیں نکال پاتا۔شریعت مطہرہ نے ایسے آدمی جس کی زیارت و ملاقات کے لیے کوئی دوسرا شخص آئے اس کو یہ حق دیا ہے کہ وہ جھوٹ اور دروغ گوئی سے بچتے ہوئے صاف لفظوں میں اچھے اسلوب سے ملاقات سے معذرت کر سکتا ہے قرآن میں ہے:
﴿وَإِن قيلَ لَكُمُ ارجِعوا فَارجِعوا ۖ هُوَ أَزكىٰ لَكُم ...٢٨﴾..النور
"اللہ تعالیٰ سورۃ النور میں میل ملاقات کے آداب بیان کرتے ہوئے فرمارہے ہیں کہ گھر والے اجازت نہ دیں۔اور اگریہ کہہ دیا جا ئے کہ لوٹ جاؤپس لوٹ آؤ یہ تمھارے لیے بہتر ہے اس لیے فون کرتے وقت ایسے ٹائم کا انتخاب کرنا چاہئے جس سے دوسروں کی ضروریات ومصروفیات کومدنظر رکھا جائے۔ مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ اگر فون وصول کرنے والا اپنی کسی مصروفیات کی وجہ سے اس وقت فون وصول نہ کرے اور کسی دوسرے وقت فون کرنے کا کہے تو اسے یہ حق حاصل ہے لیکن یہ معمول نہیں بنالینا چاہئے ۔بلکہ ہر ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی کا جذبہ پیش کرنا چاہئے اور ایسے اوقات منتخب کرنا چاہئیں جس میں دوسرے کے لیے فون کی وصولی آسان ہو۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور میں فرمایاہے۔"کہ اے لوگو! کسی کے ہاں بلااجازت نہ جاؤ لیکن پھر ان میں سے گھر کا غلام اور وہ بچہ جوابھی بلوغت کو نہیں پہنچا تو وہ بلا اجازت آجاسکتے ہیں لیکن بعد میں تین مخصوص اوقات میں ان پر بھی پابندی لگادی کہ یہ بھی بلااجازت آئیں نہ جائیں "ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لِيَستَـٔذِنكُمُ الَّذينَ مَلَكَت أَيمـٰنُكُم وَالَّذينَ لَم يَبلُغُوا الحُلُمَ مِنكُم ثَلـٰثَ مَرّٰتٍ ۚ مِن قَبلِ صَلوٰةِ الفَجرِ وَحينَ تَضَعونَ ثِيابَكُم مِنَ الظَّهيرَةِ وَمِن بَعدِ صَلوٰةِ العِشاءِ ۚ ثَلـٰثُ عَورٰتٍ لَكُم ۚلَيسَ عَلَيكُم وَلا عَلَيهِم جُناحٌ بَعدَهُنَّ ۚ طَوّٰفونَ عَلَيكُم بَعضُكُم عَلىٰ بَعضٍ ۚ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الـٔايـٰتِ ۗ وَاللَّـهُ عَليمٌ حَكيمٌ﴿٥٨﴾...النور
"مومنو!تمھارے غلام و لونڈیوں اور وہ بچے جو بلوغت کو نہیں پہنچے تین اوقات میں تم پر داخل ہوتے وقت اجازت لیا کریں ۔ایک صبح سے پہلے دوسرا دوپہر کو جب تم کپڑے اتارتے ہو اور تیسرے عشاء کی نماز کے بعد تین اوقات تمھارے پردے کے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اوقات میں تم پر گناہ نہیں کہ وہ بلااجازت بھی آجایا کریں ۔اسی طرح اللہ کریم اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں"(سورہ نور:58)
جب تمھارے لڑکے بالغ ہوجائیں تو ان کو بھی اسی طرح اجازت طلب کر کے گھر میں داخل ہونا چاہئے جیسے بڑے اجازت طلب کرتے ہیں اسی طرح مسافر اگر طویل سفر اور مدت کے بعد واپس لوٹا ہے تو اس کو بھی اجازت نہیں کہ وہ رات کے وقت گھر میں داخل ہوتا کہ بلاوقت گھروالوں کوپریشان نہ کرے ۔اگر پیشگی اطلاع دے رکھی ہوتو پھر کوئی حرج نہیں کہ جب واپس لوٹے تو اسی وقت گھر داخل ہو سکتا ہے۔فون کے آداب کے سلسلہ میں مناسب اوقات کا ذکر ہوا ہے تو ایسے آداب مخصوص جگہوں کے لیے ہیں جبکہ ایسے مقامات جہاں عوام 24گھنٹےرابطہ کر سکتے ہیں جنہیں پبلک مقامات کہا جا تا ہے ان کے لیے ایسا ضروری نہیں ان مقامات میں ہوٹل ہسپتال کرایہ کی بلڈنگ تجارتی مراکزکاروباری و دیگر ادارے جوپبلک کے لیے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں جہاں آمدو رفت کے مخصوص اوقات نہیں ہیں بلکہ ہمہ وقت سروس ہے آپ وہاں رات اور دن جب چاہیں فون کرنے کے مجاز ہیں اور یہ بات ہمیں قرآن مجید کی سورہ نور کی آیت نمبر29بتلا رہی ہے ۔اللہ کریم فرماتے ہیں۔
"لَّيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ "
"(ہاں ) اگر تم ایسے مکان میں جاؤ جہاں کوئی مستقل رہائش پذیر ہو اور اس میں تمھارے فائدے کا سامان ہوتو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ تم وہاں بلا اجازت آجاسکتے ہو۔ اور اللہ تمھارے ظاہری اور پوشیدہ تمام اعمال کی خبر رکھتا ہے۔
اس لیے ایسے مقامات جو عوام کے لیے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں اور وہاں آنے جانے میں کو ئی پابندی نہیں اسی طرح وہاں فون کے بھی معین اوقات نہیں ۔ان مقامات میں انکوائری آفس فائر بریگیڈ ایئرپورٹ ہسپتال ایمرجنسی ،ریسٹورنٹ اور دیگرعوامی مراکز جہاں عوام کے لیے اپنی ضروریات کی فراہمی اور آمد ورفت چوبیس گھنٹے جاری رکھ سکتے ہیں وغیرہ شامل ہیں۔
3۔گھنٹی ( Bell)بجنے کا دورانیہ : ٹیلی فون پر نمبر ڈائل کرنے کے بعد اس کی بیل بجنے کا دورانیہ بھی مناسب ہونا چاہیے۔اس قدر لمبا نہ ہوکہ سننے والا تنگ آجائے اور نہ اس قدرجلد ختم کردیا جائے کہ مطلوبہ آدمی ریسیورتک بھی نہ پہنچ پائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات کرنے والے کے لیے دروازہ کھٹکھٹانے کی تین مرتبہ اجازت دی ہے اور اگر تین مرتبہ کھٹکھٹا نے کے بعد بھی اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانے کا حکم ہے۔
"إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَلْيَرْجِعْ"
"جب کوئی تم میں سے تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور پھر بھی اجازت نہ ملےتو اس کو چاہئےکہ وہ واپس پلٹ جائے"
اور دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اجازت کا مقصد ہی یہ ہے کہ کسی پر بلا اجازت نگاہ نہ پڑے۔معلوم ہوا کہ آنے والے کو تین مرتبہ اجازت طلب کرنے کا جواز ہے اس کے بعد واپس چلے جانے کا حکم ہے۔ اس لیے ٹیلی فون کرتے وقت ہمیں ہمیشہ میانہ روی اور اعتدال کی راہ اپنانی چاہیے کیونکہ ٹیلی فون کی گھنٹی کو تین گھنٹیوں تک محدود نہیں رکھ سکتے ۔فون کرنے والے کو چاہیے کہ نہ تو اس قدر بار بار لمبی گھنٹی دے کہ متعلقہ شخص اکتاہٹ اور تکلیف محسوس کرے اور نہ ہی بالکل مختصرہونا چاہیے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے ایک عورت نے آکر امام صاحب کے گھر کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹا یا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے باہر آکر اس کو ناپسند فرمایا اور اس عورت کو ڈانٹا کہ ایسا طریقہ تو پولیس اختیار کرتی ہےجبکہ عام آدمی سکون اور وقارسے دروازےکو کھٹکھٹاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے کیا کہنے وہ نفوس قدسیہ آپ کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ حدیث میں آیا کہ:
كانوا يقرعون أبواب النبي - صلى الله عليه وسلم – بالأظافير
کہ"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا دروازہ انگلیوں کے ناخنوں سے کھٹکھٹا تے تھے "آج کے دور میں ہمارے ہاں دروازے پر موجود برقی گھنٹی کا استعمال بھی میانہ روی سے کرنا چاہئے بلاوجہ اور فضول بیل نہیں بجاتے رہنا چاہئے۔
ہمارے ہاں دیکھنے میں آیا کہ بعض لوگ بلاوجہ کھڑے کھڑے بار بار گھنٹی کے بٹن پر عادتاً ہاتھ لگاتے رہیں گے حالانکہ ایک مرتبہ گھنٹی دے کر دوچارمنٹ انتظار کرنا چاہئے ہوسکتا ہے گھروالے کہیں باہر گئے ہوں یا کسی ضروری کام میں مصروف ہوں یا بیت الخلاوغیرہ میں ہوں ۔فون کی گھنٹی کی آواز ان کے معمولات کو ڈسٹرب کرے گی تو دل میں نفرت جنم لے گی۔اسی طرح ڈوربیل کو بھی اعتدال سے استعمال کرنا چاہئے۔
4۔کال کی مقدار:
عربی کا ایک مقولہ ہے کہ:
"لكل مقام مقال ولكل مقام مقدار"
کہ ہر گفتگو کا کوئی موقع ہوتا ہے اور ہر بات کا کوئی وقت ہوتا ہے اس لئے آپ کا ل کر کے نہ بات اس قدر لمبی کریں کہ سننے والا اکتاہٹ محسوس کرے اور نہ اتنی مختصر ہو کہ سننے والے کو آپ کی بات بھی سمجھ میں نہ آسکے۔
بعض اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ جسے فون کیا گیا ہے وہ اکتاہٹ سے بات چیت کے سلسلہ کو ختم کرنے کے لیے کہتا رہتا ہے یعنی اچھا پھر کسی وقت کھل کر باتیں کریں گے وغیرہ جبکہ کال کرنے والا اپنی ہی دھن میں مگن آج ہی اسے ساری باتیں سناناچاہتا ہے اس لیے ہر دو فریق کو ایک دوسرے کا لحاظ و پاس رکھنا چاہئے ۔
5۔فون ڈائل کرنے والے کو اسلام علیکم کہنا چاہئے۔
ٹیلی فون ملانے والا آنے والے کے حکم میں ہے ۔ اس لیے کہ جیسا آنے والے کی ذمہ داری ہے کہ جب کسی دوسرے فرد کے ہاں یا مجلس میں جا ئے تو آغاز السلام علیکم کہہ کر کرے ۔اسی طرح ٹیلی فون کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ گفتگو کا آغاز اور گفتگو کا اختتام السلام علیم سے کرے کیونمہ السلام علیکم امت محمد یہ کا شعار اور ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے لیے ہدیہ تحفہ سلامتی ہے کیسا کہ کال کرنے والا آغاز السلام علیکم سے کرے گا۔ایسے ہی فون ریسیوکرنے والے بھی آغاز و علیکم السلام سے کرے گا کیونکہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہی تعلیم فرمائی ہے ۔حضرت ربعی سے روایت ہے کہ:
"رجل من بني عامر استأذن على النبي صلى الله عليه وسلم وهو في بيت، فقال: ألج؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم لخادمه: اخرج إلى هذا فعلمه..........الحديث"
"حضرت ربعی کہتے ہیں کہ ہمیں قبیلہ بنی عامر کے آدمی نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف فرماتے اور میں نے اپنے مخصوص انداز میں گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم کو حکم دیا کہ باہر جاؤ اور اس کو اجازت طلب کرنے کاطریقہ سکھلاؤ اور اسے کہوکہ پہلے السلام علیکم پکارے اور پھر پوچھے : کیا میں اندر آسکتا ہوں۔ اس آدمی نے باہر سے ہی یہ طریقہ سنا اور عرض کیا: السلام علیکم کیا میں اندر آسکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تب اسے اجازت دی اور پھر وہ گھر میں داخل ہوا ۔(رواہ ابو داؤد)
اس لیے کال کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ رابطہ ہونے پر سب سے پہلے السلام علیکم کہہ کہ گفتگو کا آغاز کرے، ہمارے ہاں اکثر یوں ہوتا ہےکہ فون ڈائل کرنے والا رابطہ ہونے پر اس وقت تک گفتگو کا آغاز نہیں کرتا جب تک یہ پتہ نہ چل جائے کہ دوسری طرف کون ہے ۔حالانکہ یہ بات اسلامی آداب کے منافی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ قَالَ تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ (متفق علیہ)
"عبد اللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کونسا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا :تو کھاناکھلائے اور اسلام کہے جس کو تو جانتا ہواورجس کو نہ جانتا ہو"
ہمارے ہاں اکثر لوگ السلام علیکم کی بجائے غیر مسلموں کی دیکھا دیکھی ماڈرن بنتے ہوئے گفتگو کا آغاز ہیلو (Hello)سے کرتے ہیں اسی طرح گڈمارننگ اور گڈ ایوننگ کے الفاظ بولےجاتے ہیں حالانکہ اسلام نے گفتگو کے آداب کے سلسلہ میں مسلمان کی رہنمائی کی ہے کہ وہ اپنی گفتگو کا آغاز السلام علیکم سے کرے۔
بعض اسلام پسند اور سلجھے لوگ جنہوں نے اپنی غیر موجود گی میں آنے والے فون کو ریکارڈ کروانے کا بندوست کیا ہے انھوں نے السلام علیکم کے لفظ کو بھی ریکارڈ کروا رکھا ہے جو ایک قابل ستائش قدم ہے اسی طرح محکمہ ٹیلی فون نے بھی انکوائری آفس میں السلام علیکم ریکارڈ کر رکھا ہے۔ اللہ کریم اس کا انہیں نیک صلہ عطا فرمائے۔یہ طریقہ آداب کے خلاف ہے کہ کال کرنے والا فون ریسیو کرنے والے کی آواز سن کر اپنی گفتگو کا آغاز کرے بلکہ فون کرنے والے کاحق ہے کہ گفتگو کا آغاز وہی کرے جس کی چند وجوہات ہیں۔
1۔اگر فون ریسیو کرنے والا گفتگو کا آغاز کرتا ہے تو یہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔حکم یہ ہے کہ آنے والا السلام علیکم کہہ کر آمد کی اطلاع دے اسی طرح ڈائل کرنے والے کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ گفتگو کا آغاز السلام علیکم سے کرے اور یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض شر پسند اور گھٹیا کردار کے لوگ فون کر کے محض چیک کریں گے اگر تو فون ریسیو کرنے والا کوئی مرد ہو تو بغیر گفتگو کئے لائن منقطع کردیں گے۔ اور اگر فون ریسیو کرنے والی کو ئی عورت ہوئی تو کال کرنے والا بے جا گفتگو اور سفلہ پن کا مطاہرہ کرتے ہوئے خواتین کو تنگ کرے گا ۔یہ مشغلہ اپنانے والے یاد رکھیں کہ اگر وہ کسی کے ہاں مردو ں کی عدم موجودگی میں فون کر کے خواتین کو تنگ کرتے ہیں اوران سے لایعنی گفتگو کر کےراہ و رسم بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تو بہت امکان ہے کہ کوئی دوسرا شخص ان کی عدم موجودگی میں ان کے ہاں فون کر کے ایسا ہی کرے۔اللہ کریم ایسے لوگوں کی اصلاح فرمائے۔اور صحیح راستے پر رہنمائی کرتے ہوئے انہیں اس بدعات سے محفوظ فرمائے۔ آمین!
7۔فون کر نے والے کو اپنے تعارف سے سلسلہ کلام کی ابتداء کرنی چاہئے:۔
اسی طرح اگر فون ریسیو کرنے والا استفسار کرے کہ کون صاحب بات کر رہے ہیں بات کریں گے تو اس نام سے تعارف کروائیں جس نام سے آپ اپنے دوست احباب کے ہاں معروف ہیں بعض لوگ اپنا تعارف غیر واضح اور مبہم کرواتے ہیں یا فون پر غلط بیانی کرکے اپنا غلط تعارف کروائیں گے جو کہ گناہ ہے یا فون پر ایسا طریقہ اپنائیں گے کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔۔۔پہچانوذرا۔۔۔آپ کیسے پہچانیں گے۔۔۔دماغ پر زور دے کر پہچانو، میں کو ن ہوں۔۔۔؟
بہتر یہی ہے کہ ایسی باتوں سے گریز کرتے ہوئے اپنا صاف اور معروف نام لینا چاہیے۔اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہماری رہنمائی کرتاہے جسے امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نےروایت کیا ہے:
"عن جَابِر رضي الله عنه قال : أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِي دَيْنٍ كَانَ عَلَى أَبِى ، فَدَقَقْتُ الْبَابَ فَقَالَ : " مَنْ ذَا " ، فَقُلْتُ : أَنَا ، فَقَالَ : " أَنَا ، أَنَا " ، كَأَنَّهُ كَرِهَهَا" ( متفق علیہ)
"حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے داخل ہونے کی اجازت طلب کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:اجازت طلب کرنےوالا کون ہے؟ میں نے کہا: میں ہوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں کیا ہوا"
گویاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تعارف کو ناپسند فرمایا۔جس سے متکلم کی مکمل پہچان نہ ہوتی ہو اس لیے ضروری ہے کہ فون پر تعارف کے لیے ا پنا مکمل نام کی وضاحت کرنی چاہیے کہ میں فلاں بن فلاں بات کررہاں ہوں یا کہ کرنا چاہتا ہوں۔
عام طور پر دیکھا گیا کہ فون کرنے والا مطلوبہ آدمی کی عدم دستیابی پر اپنا تعارف نہیں کراتا۔گھر والے پوچھیں گے کہ آ پ کون صاحب بول رہے ہیں تو بعض زیادہ عقل مند اس کاجواب د ینا پسند نہیں کرتے اور بلا تعارف ہی لائن منقطع کردیں گے۔جس سے گھر والوں کو کوفت ہوتی ہے۔ ہونا چاہیے کہ اگر مطلوبہ شخص میسر نہ بھی ہو تو فون کرنے والے کو چاہیے کہ فون پر اپنا مکمل نام تعارف کر وائے تاکہ گھر والوں کو کسی قسم کی پریشانی لاحق نہ ہو۔
8۔گفتگو کا اختتام کیسے کریں؟آپ نے اپنی مطلوبہ جگہ پر کال کی اور کال ملنے پر بات کاآغاز السلام علیکم کہہ کر کیا اور آپ جب گفتگو اور سلسلہ کلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تب بھی آپ پر لازم ہے۔ کہ السلام علیکم کہہ کر گفتگو کوختم کریں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إذا انتهى أحدكم إلى مجلس فليسلم فإن بدا له أن يجلس فليجلس ثم إذا قام فليسلم فليست الأولى بأحق من الآخرة"
"تم میں سے جب کوئی کسی مجلس میں جائے تو سلام کرے اور جب ہاں سے و اپسی کا ا رادہ کرے تب بھی سلام کہہ کر واپس ہوکیونکہ پہلی مرتبہ کا سلام آمد پر تھا اور دوسرا اسلام بوقت روانگی۔
یاد رہے کہ پہلا سلام د وسری جگہ پر کفایت نہیں کرسکتا۔"
اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلا کہ گفتگو کے آغاز میں جب السلام علیکم کہا جائےگا تو اختتام پر وہی کفایت نہیں کرے گا بلکہ سلسلہ کلام کے اختتام پر پھر اسی تحفہ کو دوسرے کی نذر عقیدت کرکے ہی ختم کرنا اسلامی آداب کی رو سے ضروری ہے۔
9۔دوران گفتگو آواز کی کیفیت:۔
مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ گفتگو کے دوران اپنی آواز کو پست اور لہجہ دھمیار رکھے بلاوجہ بلند سے بولنے کو ناپسند کیا گیاہے۔اسی طرح فون کرتے ہوئے بھی آواز کو میانہ روا اور پست رکھا جائے۔آواز نہ اس قدر دھیمی ہو کہ مخاطب کوسمجھ نہ آئے اور نہ اس قدر بلند ہوکہ مخاطب فون کو کان سے لگاتے ہوئے خوف محسوس کرے اور متکلم کے اردگرد کے لوگ اس کی گفتگو اور آواز کی بلندی کو سن کرطنزاً مسکرائیں۔قرآن مجید میں اللہ کریم نے حضرت لقمان علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا جب انہوں نے اپنے بیٹے کی وصیت کی:
"وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ "(سورہ لقمان:19)
"اے بیٹا! اپنی آواز کو پست رکھ کیونکہ سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے"
اس لئے ضروری ہے کہ درجہ بدرجہ مخاطب کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی آواز کو کنٹرول میں رکھنا چاہیے اگر مخاطب فون پر آہستہ آواز سے بات کرنے سے اور سننے کا عادی ہے تو ویسا ہی طریقہ اپنانا چاہیے اور اگر کوئی بلند آواز کا محتاج ہے تو پھر ویسا ہی طریقہ اپنانا ہوگا لیکن اس کے لیے میانہ روی بہترین چیز ہے جس کی شریعت نے ہر کام میں تعریف فرمائی ہے۔
10۔ٹیلی فون اور عورت:۔
اگر فون کرنے والی یاسننے و الی کوئی خاتون ہو اور دوسری طرف مخاطب مرد ہوتو اس عورت کو چاہیے کہ اپنی آواز میں لچک پیدا نہ کردے۔بلکہ جچے تلے انداز میں ضروری گفتگو کرے اور گفتگو کا اندازہ سنجیدہ اور کھرا ہونا چاہیے کیونکہ اللہ کریم نے امام الانبیاء علیہ السلام کی بیویوں کو غیر مردوں کے ساتھ گفتگو میں اسی طرح رہنمائی فرمائی ہے:
"يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفًا" (سورہ احزاب)
"اے پیغمبر( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویو!تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیز گار رہنا چاہتی ہوتو کسی اجنبی سے نرم نرم باتیں نہ کیاکرو تاک وہ شخص جس کے دل میں کسی قسم کا کوئی مرض ہووہ کوئی امید نہ پیدا کرلے اور ان سے عام دستور کے مطابق بات کیاکرو"
مذکورہ فرمان الٰہی پر غور فرمائیں کہ اللہ کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجات جو مومنوں کی روحانی مائیں بھی ہیں یعنی امہات المومنین کو حکم دے رہاہے کہ جب تم صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے گفتگو کر وتو اپنی آواز میں مٹھاس اور لچک پیدا نہ کرو بلکہ گفتگو میں ٹھہراؤ اورانداز سادہ ہونا چاہیے تاکہ کہہں کوئی بیمار دل آدمی کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائے۔مقام غور ہے کہ کہاں وہ پاکباز ہستیاں اور کہاں دیگر عورتیں!! اس لیےموجودہ دور کی عورت کو بھی چاہیے کہ وہ غیر مردسےگفتگو کرتے ہوئے بلاوجہ بات کو طول نہ دے اور نہ ہی گفتگو سریلی اور نرم ہونی چاہیے بلکہ اجنبی مردوں سے گفتگو کر تے ہوئے عورت کی آواز ٹھوس،مضبوط،ترش اور بے لچک ہونی چاہیے۔
دوران گفتگو کسی بھی ذریعہ سے مخاطب کو یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ بات کرنے والی بلاوجہ بات کو طول دینا چاہتی ہے۔اور گفتگو میں کسی قسم کی ہنسی مذاق اور مسکراہٹ نہیں ہونی چاہیے بلکہ باضرورت اور مناسب طریقے سے فون موصول کرکے بند کردینا چاہیے۔اندازگفتگو ایسا ہو کہ سننے والے کو یہ تاثر ملے کہ اس نے بحالت مجبوری فون وصول کیا ہے اگر کوئی مرد گھر میں ہوتا تو کبھی بھی یہ عورت آن لائن(On line) نہ ہوتی۔اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ فون کرنے والے مرد کو بھی بلاضرورت گفتگو کو طول دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔اور اگروہ کسی اجنبی عورت کی گفتگو کو ذریعہ تسکین نفس بناتا ہے یا اس کی باتوں سے لذت حاصل کرتاہے تو ایسا کرنا بلاشبہ حرام ہے۔ہاں اگر عورت کے نوٹس میں آجائے یا اسے شک ہوجائے کہ مخاطب مرد اس کی گفتگو کر غلط رنگ دے رہا ہے۔ یا اسکی گفتگو سے غلط مطلب حاصل کررہا ہے ۔تب عورت کے لیے بھی سلسلہ کلام جاری رکھناحرام قرار پائے گا۔گھر کے سربراہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ا پنے گھر میں اسلامی ماحول اور اسلامی تربیت کا اہتمام کرے اور مردوں کی موجودگی میں فون آنے پر کسی عورت کوچاہے وہ بیوی ،بیٹی یابہن کوئی بھی اس کو قطعاً اجازت نہ ہوکہ وہ مرد کی موجودگی میں فون آنے پر کسی عورت کو چاہے وہ بیوی،بیٹی،یا بہن کوئی بھی ہو اس کو قطعاً اجازت نہ ہوکہ مرد کی موجودگی میں فون اٹینڈ کرے۔یہ پابندی ہو کہ مردوں کی غیر موجودگی میں جو بھی فون اٹھائےگی۔وہ ضروری پیغام وصول کرکے فون بند کردے گی۔مردوں کی موجودگی میں مرد خود فون ریسیو کرےگا۔دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی گھرانوں میں مردوں کی موجودگی میں بھی فون نے پر عورت بلا جھجک فون اٹینڈ کرتی ہیں بلکہ بعض گھرانوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر مرد فون پر نہ آناچاہتا ہوتو عورت کو فون ریسو کرنے کاکہے گا۔آہستہ آہستہ یہ بات معاشرہ کی خرابی کا سبب بنتی ہے۔
2۔مراتب کالحاظ:۔
ٹیلی فون پر گفتگو کرتے وقت مخاطب کے شایان شان انداز اپنانا چاہیے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"انزلوا الناس منازلهم "
لوگوں سے معاملات ان کی حیثیت کے اعتبار سے کرو۔دوران گفتگو بھی انداز مخاطب کی حیثیت ومرتبہ اور مقام کے مطابق ہونا چاہیے ،ایسا نہ ہوکہ کسی چھوٹے یا جاہل سے گفتگو کرتے ہوئے جو انداز اپنایاجائے ،بڑے اور عالم دین یعنی پڑھے لکھے آدمی سے گفتگو کر تے وقت بھی ایسا ہی انداز ہو بلکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یاد ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا (رواہ احمد)
"جو آدمی بڑوں کا احترام،چھوٹوں پرشفقت اور علماء کا قدردان نہ ہو،وہ ہم سے نہیں"
اسلیے گفتگو کرتے وقت مخاطب کے مرتبہ اور حیثیت کا لحاظ رکھ کرگفتگو کرنا چاہیے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی دن وہ فون کرنے اور سننے والے بڑی دلچسپی اور خوش دلی ومحبت اور اپنائیت سے باتیں کریں گے۔ لیکن کسی اور دن فون کرنے والا خوشگوار موڈ میں فون کرتاہے اور فون وصول کرنے والا اپنی نجی ضروریات یا ذاتی مسائل کی بنا پر اس دفعہ سابقہ خوش دلی سے بات چیت میں حصہ نہیں لے سکتا۔ اس سے یہ مفہوم اور مطلب اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ اس کے دل میں پہلی والی قدر اور محبت نہیں رہی بلکہ یہ سوچ پیدا کرلینی چاہیے کہ وہ اپنی ذاتی مصروفیت اور ضروریات کی بناء پر پہلے والی پرتپاک کا مظاہرہ نہیں کرسکا،آئندہ پھر کبھی فون کرکے اس کا ازالہ ہوجائے گا۔
ٹیلی فون کرنے کے آداب میں سے یہ بھی ملحوظ خاطررہے کہ آپ کال کرتے وقت کسی الگ تھلگ کمرے میں ہوں۔عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے جہاں تمام گھر والے بیٹھے ہوں،بچے کھیل کرکود میں مصروف اور چیخ وپکار اور گپ شپ لگارہے ہوں وہاں سے فون کیا جارہا ہوتاہے جس سے فون کرنے اور سننے والے دونوں کوفت وتنگی محسوس کر تے ہیں،اس لیے فون کرتے وقت حتیٰ الامکان تنہائی اپنانی چاہیے۔
یاد رہے کہ کسی خاص الخاص دوست سے بھی فون پر باتیں کرتے ہوئے کھلکھلا کر ہنسنا نہیں چاہیے کیونکہ ممکن ہے کہ آپ اس چیز کے عادی ہوجائیں اور کسی عام آدمی کا فون ریسیو کرتے ہوئےبھی آپ ویسا ہی انداز اپنا لیں جس سے آپ کی شخصیت مجروح ہو۔
12۔انتظار کے دوران ساز وغیرہ:۔
دیکھنے میں آیا ہے ہے کہ بعض لوگ فون آنے پرہولڈ کرواکر کوئی سازیا گانوں کی ریکارڈنگ لگا دیتے ہیں۔یاد رہے کہ یہ قطعی طور پر حرام ہے اور بعض لوگ انتظار کے دورانیہ میں تلاوت کی ٹیپ جاری کردیتے ہیں اور جب دو بارہ لائن جاری ہوتی ہے تو کئی دفعہ آیت کو مکمل کئے بغیر گفتگو کا آغاز ہوجاتا ہے۔بلا موقعہ آیت کو ختم کرکے بات چیت کااگر آغاز کردیاجائے تو اس سے بھی گناہگار ہونے کا اندیشہ ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ آپ ریسیور کو بغیر کسی سازوآواز کے خالی انتظار میں رکھیں،اس میں کوئی حرج نہیں۔اس مقصد کے لیے بعض جگہ ٹیلی فون کی انتظاری ٹون بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔
13۔کسی دوسرے کافون استعمال کرنا:۔
معاشرہ میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض لوگ جب کسی کے ہاں میل وملاقات یا کسی دوسری ضرورت کے لیے گئے ہوں اور وہاں فون کی سہولت نظر آئی تو فوراً ہی فون کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔اور فون کرنے کی درخواست کردی جاتی ہے۔ حتیٰ الوسع کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی دوسرے کا فون بالکل استعمال نہ کریں اور مانگنے سے بھی حتیٰ الوسع گریز کرنا چاہیے۔کیونکہ بعض تنگ ظرف لوگ بادل نخواستہ اجازت تو دے دیتے ہیں۔لیکن ان کے دلوں میں آپ کی قدر ومنزلت کم ہوجائےگی اور بعض لوگ منہ توڑ جواب دے دیں گے جس سے آپ کی سبکی ورسوائی کاسامنا کرنا پڑے گا۔اور یہ دونوں صورتیں ہی اچھی نہیں،اس لیے حتیٰ الوسع کسی غیر کے فون کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
ٹیلی فون واہل خانہ:۔
وہ گھر کتنا خوش قسمت ہے جس کا ایک کنٹرول ونگران اور سربراہ ہے جو خود بھی اسلامی آداب اور شرعی احکامات کی پاسداری کرتا ہے۔اور ا پنی بیوی بچوں کی صحیح نگہداشت اور اسلامی تربیت کا اہتمام وبندوبست کرتا ہے اور پھر ایسے گھر میں ٹیلی فون کے بارے میں درج ذیل باتوں کا اہتمام ہوتا ہے:
1۔مرد کی موجودگی میں کسی بھی عورت کو قطعاً فون اٹینڈ کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔
2۔بلااجازت فون کرنے کی قطعاً اجازت نہ ہوگی۔
دوسری طرف وہ گھرانہ کتنا بدنصیب ہے۔جس کے ہاں فون استعمال اوراٹینڈ کرنے کی کوئی پابندی نہیں اور جن کے ہاں فون کی گھنٹی ہونے پر ہر چھوٹے بڑے مرد وعورت کی خواہش ہوکہ وہ سبقت کرتے ہوئے فون ریسیو کرے،ایسے گھروں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ مردوں کی موجودگی میں بھی اگر عورت فون اٹینڈ کرے گی تو اجنبی مردوں کے فون کو بھی ایسے ریسیو کیا جائے جیسے کسی قریبی رشتہ دار محرم کا بڑی مدت کے بعد فون آیا ہے۔
ایسے گھرانوں میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ کہ جوان لڑکیاں بلا اجازت وبلاروک ٹوک فون کو استعمال کر تی ہیں اگر کبھی گھر کاسربراہ پوچھ ہی لے کہ فون کہاں کہاں جارہا ہے تو سہیلی کا لفظ ہی کافی ہے۔حالانکہ گھر کی جوان اور بالغ بچیوں کو اس فتنہ پرور اور بے راہ روی کے دور میں تو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ فون بلااجازت استعمال کرسکیں ہاں اگر انہوں نے کسی اپنی سہیلی دوست کو فون کرنا ہوتو والدہ کوچاہیے خود فون ملا کہ متعلقہ دوست کے آنے پر بچی کی بات کروارہے اور اچھاہے کہ دوران گفتگو بھی ان کے پاس رہے۔نوجوان لڑکیوں کی فتنوں سے بچانے کے لیے آپ محسوس کریں کہ آپ کی یہ نگرانی آخر کار گھریلو استحکام اور معاشرتی امن وسکون کاباعث بنے گی،ان شاء اللہ
ٹیلی فون اور دفتر:۔
دفتر اگرچھوٹا ہواور اسکے ذمہ دار اور متعلقہ شخص خود ہی فون وصول کرے تو بہت اچھا ہے۔بعض دفعہ دیکھنے میں آیاہے۔ کہ چھوٹی سی دکان یا دفتر بھی مالک نے ملازم بٹھا رکھا ہے جو پہلے فون اٹینڈ کرے گا پھر متعلقہ شخص سے بات کر وائے گا کوشش یہ ہونی چاہیے کہ متعلقہ شخص خود ہی فون اٹینڈ کرے اور یہ جھوٹا پروٹوکول چھوڑ دیا جائے۔ہاں اگر واقعی دفتر اس قدر بڑا ہے وہاں بیسیوں ملازم کام کرتے ہیں یا کوئی کارخانہ اور فیکٹری وغیرہ ہے جہاں ایکسچینج کے بغیر کام نہیں چل سکتا تو وہاں استقبالیہ بنا کر آ پریٹر رکھا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں غرض یہ ہوتی ہے کہ آنے والے فون کوجلد از جلد متعلقہ آدمی تک پہنچایا جاسکے۔لیکن بعض لوگ جھوٹی نمائش کے طور پر خود فون اٹینڈ نہیں کریں گے بلکہ دوسروں پر رعب اور نمود ونمائش کے لئے ایسا طریقہ اختیار کریں گے جو اچھا نہیں۔اگر مقصود سہولت ہوتو اس سے استفادہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ورنہ اس سے پرہیز ہی بہتر اور صاحب فون کو خود ہی ون ریسیو کرنا چاہیے۔
ٹیلی فون اور مفتی:۔
ٹیلی فون کو جہاں انسان اپنی دیگر ضروریات اور کاروباری امورمیں استعمال کرکے اس نعمت سے فائدہ اٹھاتاہے۔ وہاں انسان بوقت ضرورت کسی عالم دین مفتی سے پیش آمدہ کسی شرعی مسئلہ کے لیے رجوع بھی کرسکتا ہے۔لیکن یاد رہے کہ فون کر تے وقت اس عالم دین کے علم کو پرکھنا اور آزمائش کرنا مقصود نہ ہو اس لیے فون پر عالم دین یا مفتی صاحب سے اگر کسی مسئلہ کی وضاحت مطلوب ہوتو آپ غرض مند اور سائل ہیں۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ فون کریں اور اپنا مختصر فون کرواکر عالم دین کے سامنے اپنا مسئلہ اور فتویٰ رکھیں۔اور اس سے پوچھیں کہ اگر تو آپ مجھے ابھی بتاسکیں تو آپ کی مہربانی ورنہ مجھے ٹائم دیں میں دوبارہ فون کرکے جواب و صول کروں گا اور جواب ملنے پر مفتی کا شکریہ ادا کریں۔ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ عالم دین کو فون کیا اس کے سامنے اپنا حل طلب مسئلہ رکھا،اس کی مصروفیات کو جانے بغیر سائل کی خواہش ہوگی کہ مجھے ابھی جواب دے دیاجائے اور اگر عالم دین اپنی کسی مجبوری کی بنا پر اسی وقت جواب دینے سے گریز کرے تو طرح طرح کی باتیں بنائی جائیں گی۔"دیکھو جی علماء سے مسائل پوچھنا کو ن سا آسان ہے۔میں نے فلاں عالم دین سے مسئلہ دریافت کیا،اس نے کہا :میں فارغ نہیں دوبارہ فون کرو"ایسے ہی بدظنی رکھنا اچھا نہیں۔حالانکہ ممکن ہے جس وقت آپ نے اس عالم دین سے رابطہ کیا اس کے تدریس کے اوقات یاوہ کھانے کے موڈ یا دیگر کسی ضرور کام میں مشغول ہو،اس لیے اس کو حق حاصل ہے کہ آپ کو دوبارہ وقت دے دے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر آپ نے کسی عالم دین سے کسی مسئلہ پر بات چیت کی تو آپ اس کی اجازت کے بغیر اس کی گفتگو کو ریکارڈ نہیں کرسکتے اور ایسے بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کو کسی مسئلہ میں صحیح جواب مل گیا اور جواب ملنے کے بعد کسی دوسرے عالم دین کو فون کرکے اس عالم کے علم کاامتحان لے گا۔مقصد یہ ہوگا تاکہ وہ اپنی بے بسی اور عاجزی کا اظہار کرے یاد رہے جب شک اوراشکال دور ہوجائے تو پھر کسی کے علم کے معیار کو پرکھنے کے لیے سوال کرنا بالکل صحیح نہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ فون پر دینی مسئلہ پوچھنے کے لیے مناسب وقت کاانتخاب انتہائی ضروری ہے۔
فون نعمت کب ہوگا؟۔۔۔ ہر وہ فون جو بامقصد ہوجس سے دونوں فریقین آسانی سمجھیں وہ نعمت متصور ہوگا کیونکہ جب تک آپ فون کااستعمال صحیح کریں گے،تب تک یہ نعمت رہے جیسا کہ اگر آپ کاروبار سے منسلک ہیں اور آپ فون کرکے مارکیٹ سے کاروبار کے اُتار چڑھاؤ یاکسی عزیز واقارب کی خیروعافیت یادیگر ضروری بامقصد کام کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ نعمت ہے ۔
فون زحمت کب ہوگا؟۔۔۔کسی مسلمان کو بلا وجہ تنگ کرنا حرام ہے اس کی باتیں چوری چھپے سننا حرام ہے۔اب وہ صورتیں بیان کی جاتی ہیں جن میں فون رحمت کی بجائے زحمت محسوس ہوتا ہے:
1۔کسی دو کی گفتگو کو بلا اجازت سننا حرام ہے کیونکہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"ولا تَحَسَّسُوا، ولا تَجَسَّسُوا،"
"جاسوسی مت کرو ،ٹوہ مت لگاؤ"
اس لیے کسی آدمی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی کی بات چیت خود دنیاوی ہو یادینی ہو،گھریلو ہو یا کمرشل بلااجازت ریکارڈ کرے یا سنے۔ایک اور حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں:
" ان النبي صلي الله عليه وسلم قال إذا حدَّث الرجل التفت فهي أمانة"
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب دو آدمی آ پس میں گفتگو کررہے ہوں اور دوران گفتگو وہ آگے پیچھے دیکھیں تاکہ کوئی ان کی بات سن نہ سکے تو ان کی وہ گفتگو امانت سمجھی جائےگی"
اور جب بات کرنے والے صرف مخاطب اور سامع کو ہی بتلانا چاہیے تو سننے والے کے پاس یہ بات امانت متصور ہوگی اور اس کے لیے بھی لائق نہیں کہ وہ بلااجازت کسی اور کے سامنے بیان کرے۔یہ حدیث کس قدر فصاحت وبلاغت اپنے اندرسموئے ہوئے ہے کہ متکلم اگر دوران گفتگو ادھر ادھر اس غرض سے دیکھتا ہے تاکہ مخاطب کےعلاوہ کوئی اور نہ سن سکے تو یہ امانت سمجھی جائے گی اور اس کی حفاظت کرنا مخاطب پر فرض ہوگا اور اگر وہ ایسا کرے گا تو اس سے ان دونوں میں محبت پروان چڑھے گی اور اگر وہ اس ذمہ داری کو پورا نہیں کرتا اور بلااجازت کہیں اور بیان کرے گا تو وہ خیانت کامرتکب ہوگا اور ان کے درمیان نفرت پیدا ہوگی۔امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ" کسی کے راز کو نہ چھپانا جرم ہے اور اگر اس راز میں کوئی نقصان والا پہلو ہو تو پھر اس کی اصلاح پر قدرت رکھنے والے کے سامنے ظاہر کیاجاسکتا ہے۔"
امام ماوردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں"کسی کےراز کو ظاہر کرنا اپنے راز کو ظاہر کرنے سے بدترہے کیونکہ اس سے دوہرے جرم یعنی خیانت کے ساتھ ساتھ چغلی جیسے قبیح فعل کا بھی ارتکاب ہوتا ہے۔"
امام راغب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:راز دو قسم کا ہوتاہے ایک یہ کہ متکلم مخاطب کو تاکید کرے کہ جو میرے اور تیرے درمیان بات چیت ہوئی ہے ،یہ میرے اور تیرے درمیان رہے کسی تیسرے کی اس تک رسائی نہ ہو اور دوسری قسم یہ ہے کہ متکلم بات کرتے وقت ایسا انداز اختیار کرے کہ مخاطب سمجھ جائے کہ اس کا مطلب اور فرض یہ ہے کہ ہمارے علاوہ کوئی تیسرا ہماری بات چیت سن نہ سکے۔
اس لیے اگر آپ ٹیلی فون پر کسی دو افراد کی بات چیت بلا اجازت سنیں یا اس کو ریکارڈ کریں تو یہ خیانت اور دھوکہ ہے اور اگر ریکارڈ کرکے اس کو شائع کریں اور اس کو افشا کریں تو یہ خیانت درخیانت ہے ۔اس لیے کسی مسلمان کے لائق نہیں کے وہ فون پر یا عام دوآدمیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو بلااجازت سنے یا ریکارڈکرے کیونکہ ایسا کرناامانت ودیانت کے خلاف ہے۔ امانت اور دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر آپ نے بوقت ضرورت اپنا ریسیور اٹھایا اور وہاں کسی دو کی گفتگو سنائی دے رہی ہے تو آپ فوراً ریسیور واپس رکھ کر گفتگو کے اختتام کا انتظار کریں۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ اپنے حقیقی بھائی یا والدہ یا دیگر رشتہ داروں کی گفتگو دوسرے سیٹ پر سنتے ہیں حالانکہ یہ اس سے بھی بدترین جرم ہے۔ایسے آدمی کی وعید کے لیے ہم ایک حدیث درج کررہے ہیں،جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الادب المفرد میں درج کیا ہے :
"عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ اسْتَمَعَ إِلَى حَدِيثِ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ أَوْ يَفِرُّونَ مِنْهُ صُبَّ فِي أُذُنِهِ الْآنُكُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس آدمی نے کسی کی اجازت کے بغیر ان کی گفتگو سنی اور وہ اس کی گفتگو کو سننا ناپسند کرتے تھے،ایسے آدمی کے کام میں قیامت کے دن سیسہ ڈالا جائےگا۔"
رانگ نمبر(Wrong Number):۔
یہ بات بھی معاشرے میں دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض پراگندہ خیالات کے نوجوان مردوں کےڈیوٹی اور کاروباری اوقات میں گھریلو خواتین کو تنگ کرنے اور ان کی آواز سننے اور ان سے گپ شپ لگانے کے لیے کسی گھر میں فون کرکے بات چیت کا سلسلہ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔بخدا یہ حرام ہے اور بہت گناہ کی بات ہے کیونکہ صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ"
"تم اجنبی عورتوں کے پاس مت جاؤ"
اور جب اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے منع کیاگیا ہے تو اس پر قیاس کرتے ہوئے اجنبی عورتوں کو فون کرنا بھی حرام ٹھہرا اور یہ بھی یاد رہے کہ اگر کوئی رنگ نمبر کے ذریعہ یاکہیں نمبر ڈائل کرکے وقت گزاری کا سامان پیدا کرتا ہے تو قوی امکان ہے کہ کسی دوسرے وقت کوئی اور اس کے گھر میں رانگ نمبر کرکے وقت گزاری کا سامان پیدا کرنے کی کوشش کرے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کاایک شعر لائق مطالعہ ہے:
إن الزنـا دين إذا أقرضــته
كان الوفا من أهل بيتك فاعلم
"بے شک زنااُدھار ہے اگر آپ نے اس جرم کاارتکاب کیاہے تو یاد رکھئے کہ ایک دن آپ کے گھر والوں کےساتھ اس اُدھار کوچکا دیا جائے گا"
اس لیے گھر کے سربراہ اور باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اسباب اختیار کرے جس سے ان بے ہودہ لوگوں کے شر سے بچا جاسکے۔ایسے چندطریقے جن سے رانگ نمبر کم وصول ہوں:
1۔گھر میں ٹیلی فون کے سیٹ ایک سے زیادہ نہ ہوں۔
2۔لڑکیوں کے کمروں میں ٹیلی فون سیٹ نہ رکھے جائیں۔
3۔ مردوں کی غیر موجودگی میں ٹیلی فون پر بالترتیب جواب دینے کی ذمہ داری لگائی جائے۔
4۔ٹیلی فون پر جواب دینے کا طریقہ بتایا جائے اور یہ کہ بامقصد اور ضروری گفتگو ہی کی جائے اور کال کرنے والے کے سوال کا ہی جواب دیا جائے۔
ٹیلی فون کا استعمال:۔
فون کو بے جا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ہر وقت فون پر باتیں کرتا نظر آنا کوئی اچھی بات نہیں ۔دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ فون پر چپکے کبھی دفتر،کبھی گھر،کبھی دکان،کبھی فیکٹری فون کرتے نظر آئیں گے،ہوسکتا ہے وہ اپنی عادت سے خود تو مطمئن ہوں لیکن فون کرنے والوں کے لیے وبال جان بنے ہوتے ہیں،اسلئے فون کااستعمال بامقصد اور مختصر ہونا چاہیے۔
فون یا شب خون:۔
ایک مسلمان کادوسرے مسلمان کو ڈرانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔حدیث میں آیا ہے :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا "(رواہ احمد وابوداود)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ اپنے کسی دوسرے مسلمان بھائی کو ڈرائے"
اس لئے ایک مسلمان کادوسرے مسلمان کی طرف لوہے کی چیزوں مثلاً چاقو،چھری،یاخنجر وغیرہ سے اشارہ کرنا حرام ہے۔اسی طرح سے کسی کو ڈرانے والی نظروں سے دیکھنا بھی صحیح نہیں اور اس پر یہ خیال کرتے ہوئے کسی کو بلاوجہ فون کرکے ڈرانا صحیح نہیں۔بعض لوگ کسی کی کمزوری سے واقف ہوجاتے ہیں۔پھر فون کرکے ان کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔بہرحال مسلمان کو ڈرانا جائز نہیں۔
موبائل فون:۔
موبائل فون موجودہ دور کی ایجادات میں سے ایک مفید ایجاد ہے۔اس کا صحیح استعمال قابل تعریف ہے۔لیکن موجودہ دور میں موبائل نے ایک فیشن کی حیثیت اختیار کرلی ہے ۔چند ا فراد کے لیے واقعتاً یہ انتہائی ناگزیر ضرورت بھی ہے۔جن کی کاروباری ودیگر مصروفیات اس قدر زیادہ اور اہم ہیں کہ فون کے بغیر چارہ نہیں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اب یہ رواج،فیشن اور سٹیٹس سمبل(امارت کی علامت) سمجھا جارہا ہے بعض لوگ ضرورت نہ ہونے کے باوجود اسے اٹھائے پھرتے اور نمایاں کرتے نظر آتے ہیں۔سفر اور حضر میں ،شادی اور غمی میں ،دفتر اور گھر میں ،عوض جگہ جگہ ساتھ لئے پھرنا ان کا معمول ہے۔جہاں چند لوگ نظر آئے جھٹ فون نکالا اور جھوٹی شان وشوکت کے لیے فون ملانا شروع کردیا۔بعض لوگ میٹنگ یا پروگرام میں دوسروں پر رعب اور اپنی جھوٹی دھاک بٹھانے کے لیے میٹنگ سے باہر جا کر بار بار فون کریں گے تاکہ لوگوں کو دکھلایا جاسکے کہ کس قدر مصروف آدمی ہیں۔ہمارے اور آپ کے مشاہدے میں ہے کہ بعض لوگ موبائل کو بلا مقصد استعمال کریں گے۔صرف نمائش اور خود نمائی کے لیے یہ کوئی اچھی عادت نہیں،بلکہ یہ توایک نفسیاتی مرض ہے اور ایسا شخص احساس کمتری کا شکار نظر آتا ہے۔اور وہ ایسی حرکات کرکے اپنے آپ کو نمایاں اور باحیثیت دکھلانا چاہتا ہے۔
یادرہے کہ ہم موبائل فون کی افادیت اور اس کی اہمیت وضرورت سے انکار نہیں کررہے،بلکہ ہمارا مقصد تو اس کی نمائش اور وہ بھی بھونڈے طریقے سے دکھلاوا کرنے والوں کی مذمت کرنا ہے۔ہاں غرض مندآدمی کی بلاشبہ ضرورت ہے اور جس کو استعمال کرنا اس کا حق ہے۔