مجددِ اسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ حرانی

اسلام میں سینکڑوں ،ہزاروں بلکہ لاکھوں علماء فضلا، مجتہدین آئمہ فن اور مدبرین ملک گزرے لیکن مجدد یعنی ریفارمر بہت کم پیدا ہوئے۔ایک حدیث ہے کہ ہرصدی میں ایک مجدد پیدا ہو گا ۔ اگر یہ حدیث صحیح مان لی جائے تو آج تک کم از کم 13مجددپیدا ہونے چاہئیں لیکن اس حدیث کے صادق آنے کے لیے جن لوگوں کو مجددین کا لقب دیا گیا ان میں سے اکثر معمولی درجہ کے لوگ ہیں یہاں تک کہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  بھی اس منصب کے امیدوار ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے مجدد کے رتبہ کا اندازہ نہیں کیا۔مجدد یاریفارمرکے لیے تین شرطیں ضروری ہیں۔
1۔مذہب یا علم یا سیاست (پالیٹکس ) میں کو ئی مفید انقلاب پیدا کردے ۔
2۔جو خیال اس کے دل میں آیا ہو کسی کی تقلید سے نہ آیا ہو بلکہ اجتہادی ہو۔
3۔جسمانی مصیبتیں اٹھائی ہوں جان پرکھیلا ہو سر فروشی کی ہو۔
یہ شرائط قدماءمیں بھی کم پائے جاتے ہیں اور ہمارے زمانہ میں تو ریفارمر ہونے کے لیے صرف یورپ کی تقلید کافی ہے تیسری شرط اگر ضروری قرار نہ دی جائے تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  ،امام رازی رحمۃ اللہ علیہ  شاہ ولی رحمۃ اللہ علیہ  صاحب اس دائرے میں آسکتے ہیں لیکن جو شخص ریفارمرکا اصلی مصداق ہو سکتا ہے وہ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  ہیں ۔ہم اس بات سے واقف ہیں کہ بہت سے امور میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کو ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  پر ترجیح ہے۔لیکن وہ امور مجددیت کے دائرے سے باہر ہیں مجددیت کی اصلی خصوصیتیں جس قدر علامہ کی ذات میں پائی جاتی ہیں اس کی نظیر بہت کم مل سکتی ہے۔۔۔ اس لیے ہم اس عنوان کے ذیل میں علامہ موصوف کے حالات اور ان کی مجددیت کی خصو صیات لکھنا چاہتے ہیں۔
نام ونسب وولادت(1):۔
احمد نام عرف ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  تقی الدین لقب ،سلسلہ نسب یہ ہے ۔احمد بن عبد الحلیم بن عبدالسلام بن عبد اللہ بن الخضر بن علی بن عبداللہ بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  الحرانی۔
دمشق کے علاقہ میں حران ایک مقام کا نام ہے۔ ان کے آباؤ اجداد یہیں کے رہنے والے تھے۔ان کے دادا محمد بن خضر کی والدہ کا نام تیمیہ تھا جو نہایت قابل تھیں اور وعظ کہا کرتی تھیں ۔علامہ موصوف انہیں کی طرف منسوب ہوکر ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کے نام سے مشہور ہیں علامہ کے خاندان میں سات آٹھ پشت سے درس و تدریس کا مشغلہ چلا آتا تھا اور وہ سب لوگ علم و فن میں ممتاز گزرے ۔علامہ کے والد عبد الحلیم بہت بڑے عالم تھے فن حدیث میں ان کو کمال حاصل تھا ۔
علامہ موصوف دوشنبہ کے دن 10/ربیع الاول 661ھ میں بمقام حران پیدا ہوئے یہ وہ زمانہ تھا کہ تا تاری بغدادکو غارت کر کے شام کی طرف پھیل رہے تھے اور جدھر جاتے تھے ملک کے ملک برباد کرتے جاتے تھے علامہ کے والد اسی پریشانی میں رات کو چھپ کر تمام خاندان کے ساتھ حران سے نکلے ۔الگ الگ سواری کا بندوبست نہ تھا اس لیے سب کے سب ایک گاڑی میں بیٹھے۔کتابیں بھی اسی گاڑی میں رکھ لیں تاتاری بھی تعاقب میں تھے لیکن خدا نے بچالیا۔اور گرتے پڑتے دمشق پہنچ گئے۔یہ 667ہجری کا واقعہ ہے۔ اس وقت علامہ کی عمر6برس کی تھی ۔علامہ نے والد کے اشارہ سے دمشق میں علم کی تحصیل شروع کی،دس برس عمرنہیں ہونے پائی تھی کہ نحو ،صرف ادب وغیرہ سے فراغت حاصل کی۔17برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتےفتویٰ دینے کے قابل ہوگئے ۔تصنیف و تالیف بھی اسی عمر میں شروع ہو گئی۔21برس کی عمر میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔وہ متعدد مدارس میں مدرس تھے ان کے بعد ان تمام مدرسوں میں باپ کا عہدہ ان کو ملا۔
علامہ موصوف نے جن اساتذہ سے علوم کی تحصیل کی ان کی تعداد دوسوتک پہنچتی ہے یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان کے اساتذہ میں زینب بھی ہیں جو ایک فاضل خاتون تھیں ۔681ہجری میں دارالحدیث سکریہ میں جوخاص فن حدیث کی درس گاہ تھی پہلا درس دیا ۔اس درس میں بڑے بڑے علماء اور فضلا استفادہ کی غرض سے شریک ہوئے۔چنانچہ قاضی القضاۃ بہاؤالدین شیخ تاج الدین فزاری زین الدین ابن مرجل شیخ زین الدین بن منجاتک شریک تھے۔
علامہ نے صرف نسم اللہ کے متعلق اس قدر نکات اور دقائق بیان کئے کہ لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔تاج الدین فزاری نے یہ تقریر حرف بحرف قلم بند کی۔ اسی زمانہ میں جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تفسیر پر ابتداسے  یہ ترتیب درس دینا شروع کیا۔یہ درس اس قدر مفصل اور بسیط ہوتا تھا کہ سورہ نوح کی تفسیر کئی برس میں تمام ہوئی۔
ان کے علم و فضل کا شہرہ اس قدر عام ہو تا جاتا تھا کہ 690ہجری سے پہلے یعنی جب ان کی عمر30برس کو نہ پہنچی تھی۔قاضی القضاۃ کا عہدہ پیش کیا گیا لیکن انھوں نے انکار کیا(2) 691ہجری میں حج کو گئے اور جب واپس آئے تو تمام ملک میں ان کے فضل و کمال کا سکہ جم چکاتھا لیکن اس حسن قبول کے ساتھ مخالفت کا سامان بھی جمع ہو تا جاتا تھا۔
اسلامی فرقوں میں سے اشعری اور حنبلی آپس میں حریف مقابل تھے۔لیکن امام رازی رحمۃ اللہ علیہ  کے اشاعرہ کے مذہب کو اس قدر مدلل اور روشن کردیا تھا کہ حنبلی مذہب گویا بجھ چلا تھا ۔علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  حنبلی تھے اور ان کے نزدیک حنبلیوں کی رائے صحیح تھی اس لیے انھوں نے دلیری سے حنابلہ کے ان خیالات کاا ظہار کیا۔698ہجری (3)میں ایک استفتا ان کے پاس اس کے متعلق آیا انھوں نے دوتین گھنٹہ میں اس کا لمبا چوڑا جواب لکھا جو حمویہ کے نام سے مشہور ہے اس میں نہایت تفصیل سے اشعریوں کی غلطی ثابت کی یہ پہلا دن تھا کہ ان کی عداوت اور مخالفت کی صدابلند ہوئی ۔فقہا نے ان سے جاکربحث کی لیکن قاضی امام الدین قزوینی ان کے طرف دارہوگئے اور کہا کہ جو شخص علامہ کے مخالف کوئی بات کہے گا ۔میں اس کو سزا دوں گا۔(4)شورش یہاں تک بڑھی کہ حنفی قاضی نے منادی کرادی کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فتوے نہ دینے پائیں لیکن حکام میں سے ایک صاحب اثر نے علامہ کی طرف داری کی اور فتنہ فروہو گیا۔(5)
705ہجری میں یہ فتنہ پھر بڑے زور شور سے اٹھا یہاں تک کہ شاہی حکم آیا کہ نائب السلطنت افرم علماء و فضلا کے مجمع میں علامہ کا اظہار لیں غرض 705ہجری میں تمام قضاۃ اور علماایوان شاہی میں جمع ہوئے اور علامہ کو بلوابھیجا ۔وہ اپنی تصنیف عقیدہ واسطیہ ہاتھ میں لے کر آئے اور اس کو پڑھ کر سنایا تین جلسوں میں پوری کتاب ختم ہوئی ،پھر 2صفر 705ہجری کو مناظرہ کی مجلس منعقد ہوئی اور علامہ صفی الدین ہندی افسر مناظرہ مقرر ہوئے ۔پھر کسی وجہ سے ان کے بجائے کمال زملکائی جو مشہور محدث تھے اس خدمت پر مامور ہوئے بالآخرسب نے تسلیم کیا کہ علامہ کے عقائد اہل سنت کے عقائد اہل سنت کے عقائد ہیں ۔چند روز کے بعد شاہی فرمان آیا کہ علامہ پرجو الزام لگائے گئے۔ تھےغلط تھے ۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے درر کا منہ میں لکھا ہے۔ کہ علامہ نے اقرار کیا کہ میرے عقائد امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ کے عقائد ہیں۔
12رجب 705ہجری کو علامہ مزی رحمۃ اللہ علیہ  نے نجاری کی کتاب افعال العباد کا درس جامع مسجد میں دیا اس پر بعض شافعیوں کو خیال ہوا کہ اس کا روئے سخن ہماری طرف ہے چنانچہ شافعی قاضی سے جاکر شکایت کی قاضی نے الٹا اسی کو قید کر دیا۔علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کو خبر ہوئی تو خود گئے۔اور بزور اس کو قید خانہ سے چھڑا لائے قاضی صاحب یہ سن کر قلعہ میں گئے کہ نائب السلطنت سے اس کی شکایت کریں اتفاق سے علامہ بھی وہیں موجود تھے رودررو گفتگوہوئی اور سخت کلامی تک نوبت پہنچی بالآخر نائب السلطنت نے رفع فساد کے کے لیے منادی کرادی کہ جو شخص ان عقائد کا اظہار کرے گا اس کو سزادی جائے گی۔(6)
چند روز کے بعد فتنہ پھر اٹھا ۔امرائے دربار میں سے ببرس چاش گیر حکومت کا دایاں ہاتھ تھا اور وہ شیخ نصرمنجمی کا نہایت معتقد تھا شیخ نصر علامہ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  اور ان کے عقائد کے سخت مخالفت تھے یہاں تک کہ بعض لوگوں کو اس جرم پر قتل کراچکے تھے انھوں نے ببرس کو آمادہ کیا کہ علامہ دمشق سے قاہرہ میں طلب کئے جائیں ۔چنانچہ 2رمضان 705ہجری کو علامہ ڈاک(حکومت کی طرف سے سفر کے لیے خصوصی سواری) میں بیٹھ کر دمشق سے قاہرہ آئے اور اس کے دوسرے دن قلعہ میں دربار عام ہوا۔ قاضی بن مخلوق مالکی حکم ہو کر بیٹھے ۔ایک شخص جس کا نام ابن عدلان تھا اس نے اظہار دیا کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  اس بات کے قائل ہیں کہ خداحرف الفاظ کے ذریعہ سے بولتا ہے اور اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ کہہ کر(7)اس نے قاضی ابن مخلوق کی طرف دیکھا کہ کیا ایسا شخص قتل کا مستحق نہیں ہے؟ قاضی صاحب نے علامہ کی طرف خطاب کیا۔ علامہ نے خطبہ (لیکچر) کے طور پر جواب دینا چاہا ۔اس لیے پہلے حمد وثنا شروع کی، قاضی نے کہا:جلد جواب دو۔علامہ بولے کہ کیا حمدو ثنا نہ کروں ۔قاضی نے کہا:اچھا وہ بھی ہو چکی اب تو جواب دو علامہ چپ ہو رہے جب زیادہ اصرار ہوا تو انھوں نے کہا :حکم کون ہے؟
لوگوں نے قاضی صاحب کی طرف اشارہ کیا چونکہ وہ اشعری تھے۔علامہ نے کہا: یہ خود مقدمہ میں فریق ہیں حکم کیونکر ہو سکتے ہیں اس پر لوگ برہم ہوئے اور علامہ کو مجلس سے اٹھا دیا ۔علامہ کے بھائی شیخ شرف الدین بھی اس معرکہ میں مو جود تھے وہ بھی علامہ کے ساتھ اٹھےاور ان کے منہ سے بددعا نکلی۔علامہ نے روکا اور کہا کہ یوں کہو۔
غرض قاضی مالکی کے حکم سے علامہ قلعہ کے قید خانہ میں بھیجے گئے لیکن جب قاضی صاحب کو معلوم ہوا کہ قید خانہ میں کچھ روک ٹوک نہیں ،لوگ علامہ سے بےتکلف ملتے جلتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کا کفر ثابت ہو چکا ہے اس لیے فرض تو یہی تھا کہ وہ قتل کر دئیے جاتے لیکن کم ازکم قید خانہ کی سختی ضرور ہے۔غرض عید کے دن قلعہ سے منتقل ہوکر جب یوسف میں جو نہایت تنگ و تاریک قید خانہ ہے قید کئے گئے اسی زمانہ میں ایک فرمان نافذ ہوا کہ جو شخص ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کا ہم خیال ہو گا قتل کردیا جائے گا۔ یہ فرمان ابن شہاب محمد نے جامع مسجد میں جاکر پڑھا۔ حنبلی فرقہ کے لوگ ہر جگہ سے گرفتارہوکر آئے اور ان سے یہ اقرار لیا گیا کہ وہ شافعی العقیدہ (8)ہیں قاہرہ میں حنبلیوں کو طرح طرح کی سزا ئیں دی گئیں کہ وہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ   کے عقیدہ سے باز آئیں ۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس عام آشوب میں علامہ کی جس نے حمایت کی وہ شمس الدین ابن الحویری تھے جو مذہباً حنفی تھے ۔انھوں نے ایک محضر(درخواست) لکھا جس میں یہ عبارت لکھی کہ تین سوبرس سے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کا کوئی ہمسر نہیں پیدا ہوا ۔اس جرم کی سزامیں شمس الدین کی معزولی کی کوشش کی گئی چنانچہ وہ اگلے سال معزول کر دئیے گئے۔(9)
اتفاق یہ کہ سالار جو سلطان ناصر کا دست و بازوتھا علامہ کی حمایت پر آمدہ ہوا اس نے تینوں مذہب کے فقہا کو جمع کیا اور خواہش کی کہ علامہ قید سے رہا کر دئیے جائیں ۔سب نے بالا اتفاق فیصلہ کیا کہ اگر وہ چند شرائط قبول کریں اور بعض عقائد سے باز آئیں تو البتہ ان کی رہائی ہو سکتی ہے ۔چنانچہ ان شرائط کے قبول کرنے کے لیے علامہ طلب کئے گئےلیکن وہ نہ آئے بار بار ان کو پیغام بھیجا گیا لیکن ان کو فکر کی آزادی کی قیمت پر اپنا قید ہو نا گواراتھا ۔(10)
اس زمانہ کے واقعات کے متعلق خود علامہ کی ایک تحریر ہماری نظر سے گزری ہے اس کا نام مناظرہ مصریہ ہے۔ اس کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ
706ھ میں دو شاہی عہد ہ دار میرے پاس آئے کہ چل کر علما کے سامنے اپنے عقائد کا ثبوت بیان کیجئے میں نے کہا:سال بھر سے تم لوگ میرے خلاف لوگوں کے بیان سنتے رہے اور کبھی مجھ کو جواب کا موقع نہیں دیا ۔اب ایک دفعہ تنہا میرا بیان بھی سن لو پھر مجمع عام میں گفتگو ہوگی ۔دونوں عہدہ دار واپس گئے اور یہ پیغام لائے کہ آپ کو مجبوراًچلنا ہو گا میں نے انکار کیا وہ لوگ واپس گئے۔اور پھر یہ پیغام لائے  کہ فلاں فلاں عقیدوں سے باز آؤ میں نے اس کا جواب میں یہ رسالہ لکھا"
لطیفہ جن دنوں علامہ قید میں تھے باہر کے ایک رئیس نے علامہ کی صورت کا ایک آدمی دیکھا متعجب ہوکر پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ اس نے کہا:کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ۔ رئیس کو نہایت تعجب ہوا اس نے ماردین کے رئیس کو اس واقعہ کی اطلاع دی رئیس ماردین نے بادشاہ مصر کو لکھا لوگوں کو نہایت حیرت ہوئی ۔علامہ نے اس واقعہ کو ایک ضمنی موقع پر رسالہ الفرقان میں لکھا ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ غالباًجن تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ علامہ کی عظمت و شان نے اس رئیس کے دل میں ایک خیالی صورت پیدا کی جو مجسم ہو کر نظر آئی جن کا خیال علامہ کی وہم پرستی ہے(جن کے باوجود سے انکار نہیں لیکن جن یوں صورت بدل کر لوگوں کے پاس آیا جا یا نہیں کرتے)۔[1]
غرض ڈیڑھ برس تک علامہ قید خانہ میں رہے ان کے بھائی بھی ساتھ تھے معمول تھا کہ قیدیوں کو کھانا کپڑا حکومت کی طرف سے ملتا تھا لیکن علامہ نے عطیہ سلطانی لینے سے بالکل انکار کیا اور فقرو فاقہ سے بسر کی۔(12۔حریفوں کو زور استدلال سے قائل کر لیا ۔ بہر حال علامہ قید خانہ سے نکل کر درس و تدریس میں مشغول ہوئے اور چند روز کے لیے ان کو اطمینان نصیب ہوا۔
سلسلہ سخن کے اتصال سے ہم بہت دور نکل آئے اور بیچ کے اہم واقعات جن میں علامہ نے ملکی معاملات انجام دئیے چھوٹ گئے۔علامہ موصوف علماء کی طرح اپنا فرض منصبی صرف نماز روزہ ادا کرنا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک مہمات سیاست میں دخل دینا بھی علماء کے فرائض میں داخل تھا۔
678ھ میں جن اب کی عمر 18،19۔برس تھی۔غازان خان بن ہلاکوخان نے شام پر حملہ کیا۔ سلطان ناصر بادشاہ مصر اس کے مقابلہ کو نکلا لیکن بڑے معرکہ کے بعد شکست کھائی ۔غازان خان نے آگے بڑھ کر حمص پر قبضہ کرلیا،اس کی آمد آمد کی خبر سن کر دمشق میں اس قدر ابتری پھیلی کہ عام غارت گری شروع ہوگئی ۔ علامہ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  یہ حالت دیکھ کر خود غازان خان کے پاس گئے اور اس سے امن کا فرمان لے کر آئے۔ عام لوگ تو یہ سن کر مطمئن ہوگئے لیکن فوج نے نہ مانا اور شہر کو لوٹنا شروع کردیا۔ علامہ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے شیخ الشیوخ نظام الدین محمود کو لے کر شہر کا بندوبست اور امن وامان قائم کیا، پھر غازان خان سے جاکر ملاقات کی، اس کے بعد تاتاری فوجیں بیت المقدس وغیرہ پر بڑھیں اور ہزاروں آدمی گرفتار کر لیے۔علامہ غازان کے سردار لشکر کے پاس گئے اور بہت سے قیدیوں کو چھڑا کر لائے۔(13)
699ھ میں غازان خان نے بڑے زورشور سے شام کے حملہ کی تیاری کی قلو بادشاہ اور تو لائے جواس کے سپہ سالار تھے فوجیں لے کر آگے بڑھے ۔یہ خبر سن کر علامہ نے جاکر ان سے گفتگو کی اور ان کو اس ارادے سے روکا ،ساتھ ہی جہاد کا سامان کیا اور قسم کی تیاریاں شروع کیں۔ اس وقت تو یہ فتنہ فرو ہو گیا لیکن سال بھر کے بعد تاتاریوں کاسیلاب پھر امنڈااور ہر طرف تاتاری فوجیں پھیل گئیں ۔علامہ ڈاک میں بیٹھ کر مصرپہنچے اور اعیان سلطنت سے مل کر ان کو جہاد کی ترغیب دی۔ تمام شہران سے ملنے کے لیے آیا یہاں تک کہ علامہ تقی الدین بن دقیق العید جو امام محدثین اور قاضی القضاۃ تھے وہ بھی تشریف لائے ۔مصر کے لوگوں کو آمادہ کر کے علامہ دمشق کوواپس گئے اور جہاد کی تیاریاں کیں(14)
702ہجری میں تاتاریوں نے پھر نہایت سرو سامان سے شام پر چڑھائی کی قلوبادشاہ اور چوہان جو سرداران فوج تھے نوے ہزار فوج لے کر بڑھے ۔اس وقت شام سلطان ناصر کے قبضہ میں تھا اس کو خبر ہوئی تو بہت گھبرایا۔ ارکان دربار نے بھی اہمت ہاردی علامہ یہ حالات سن کر ڈاک میں شام سے مصر پہنچے۔اور بادشاہ سے مل کر نہایت بے باکی سے اس کو غیرت دلائی اور کہا کہ اگر تم اسلام کی حمایت نہ کرو گےتو خدا کسی اور کو بھیجے گا جو اس فرض کو انجام دے گا اس کے بعد علامہ نے قرآن مجید کی یہ آیتیں پڑھیں۔
﴿وَإِن تَتَوَلَّوا يَستَبدِل قَومًا غَيرَكُم ثُمَّ لا يَكونوا أَمثـٰلَكُم ﴿٣٨﴾...محمد
"اگر تم پیٹھ دکھاؤ تو خدا تمھارے بدلےاور قوم بھیجے گا اور وہ تمھاری طرح (بزدل) نہ ہونگے"
علامہ نے جس دلیری اور بیبا کی سے بادشاہ سے گفتگو کی، تمام لوگوں کو حیرت ہوئی۔ امام تقی الدین بن دقیق العید کو بھی ان کی جرات اور لطف استنباط پر حیرت ہوئی۔(15)
علامہ کو اس سفارت میں پوری کامیابی حاصل ہوئی۔ سلطان ناصر شام کی طرف بڑھا اور مرج الصفر میں جس کا دوسرانام تقحب ہے دونوں فوجیں معرکہ آراء ہوئیں ۔بڑے زور کا رن پڑا بالآخر تاتاریوں کی تمام فوجیں برباد ہوگئیں ابن علامہ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  اس معرکہ میں علامہ کے بجائے ایک بہادر سپاہی نظرآتے تھے۔
غازان خان اور امرائے تاتارکی سفارتوں میں علامہ نے جس آزادی اور دلیری سے سفارت کی خدمت انجام دی۔ اس کا انداز ہ اس سے ہوگا کہ ایک دفعہ جب وہ سپہ سالارقتلو خان کے پاس ایک شخص کی دادرسی کے لیے گئے تو قتلوخان نے استہزا کے طور پر کہا کہ آپ نے کیوں تکلیف کی، آپ نے بلا بھیجا ہو تا میں خود حاضر ہو تا ۔علامہ نے کہا:نہیں حضرت موسیٰ  علیہ السلام  فرعون کے پاس خود جاتے تھے ۔فرعون حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کے پاس نہیں آتا تھا۔(16)
علامہ موصوف نے شیخ محی الدین اکبر وغیرہ کے متعلق متعدد رسالوں میں لکھا تھا کہ وہ وحدت وجود کے قائل ہیں ۔یعنی خدا اور مخلوقات سب ایک ہیں اور یہ مذہب اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ اس پر صوفیوں نے شافعی حاکم سے جاکر شکایت کی، اس کے فیصلہ کے لیے ایک مجلس منعقد ہوئی۔ علامہ پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ غلط ثابت ہوئے لیکن علامہ نے یہ تسلیم کیا کہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے استغاثہ کرنے کو ناجائزسمجھتا ہوں ۔اس پر لوگوں  میں اختلاف رائے پیدا ہوا بعض کہتے تھے کہ اس میں کیا ہرج ہے لیکن حاکم بن جماعہ نے کہا:یہ خلافادب ہے فیصلہ یہ ہوا کہ مقدمہ قاضی کے پاس بھیج دیا جا ئے وہ احکام شریعت کے موافق فیصلہ کردیں آخر سلطنت کی طرف سے یہ حکم صادر ہوا کہ علامہ کے سامنے دو باتیں پیش کی جائیں یا تو چند شرائط کے ساتھ چھوڑ دئیے جائیں یا اگر شرائط کے قبول کرنے سے انکار ہو تو قید خانہ گواراکریں علامہ نے قید خانہ قبول کیا لیکن ان کے احباب نے جو دمشق سے ان کے ساتھ آئے تھے اپنی طرف سے ذمہ داری کی کہ علامہ کو وہ شرطیں منظور ہیں۔اس بنا پر دمشق جانے کی اجازت ملی اور علامہ ڈاک میں روانہ ہوئے۔ لیکن دوسرے دن پھر واپس آنا پڑا اور امرااور قضاۃ نے پھر ایک اجتماعہ کیا۔مختلف رائیں دیتے تھے بعض نے قید کی رائے دی قاضی مالکی نے کہا:ان پر جرم ثابت نہیں ہے۔ نورالدین زدادی سے لوگوں نے پوچھا تو متحیر تھے کہ کیا جواب دیں علامہ نے دیکھا کہ ان کی وجہ سے لوگوں میں اختلاف آراہوتا ہے بولے کہ میں خود قید کانہ میں جاتا ہوں۔ زدادی نے کہا:اگر قید خانہ میں بھیجے جائیں تو وہاں ان کی شان کے مناسب ان سے برتاؤ کیا جائے لیکن اوروں نے کہا :یہ نہیں ہو سکتا سلطنت اس کو منظور نہیں کر سکتی ۔قیدخانہ میں عام قیدیوں کی طرح رہنا ہو گا ۔غرض قید خانہ میں بھیجےگئے۔ لیکن احترام قائم رہا ۔خدام کو ان کے ساتھ رہنے کی اجازت دی گئی ۔ہر شخص ان کے پاس آنے جانے کا مجاز تھا چنانچہ مشکل مشکل فتوے لے کر لوگ آتے تھے اور علامہ ان کے جواب لکھتے تھے۔ اکثر لوگ برکت کی غرض سے ملنے جاتے تھے خاص ان کے یاران صحبت کو بھی آزادی حاصل تھی بے تکلف ان سے مل سکتے تھے(17)
سلطان مظفر کی چند روزہ سلطنت میں قاہرہ سے اسکندر یہ بھیج دئیے گئے اور ایک وسیع خوش منظربرج میں نظر بند کئے گئے لیکن یہاں بھی ہر طرح کی آزادی حاصل تھی نہانے کے لیے حمام میں جا سکتے تھے جب دوبارہ سلطان ناصر کو غلبہ کو غلبہ حاصل ہوا اور سلطان مظفر قتل کر دیا گیا تو سلطان نے حکم دیا کہ علامہ نہایت عزت و احترام کے ساتھ قاہرہ میں بلائے جائیں ۔چنانچہ 609ہجری میں نہایت احترام کے ساتھ قاہرہ میں آئے سلطان نے دربار میں بلایا اور جب وہ آئےتو کھڑے ہو کر تعظٰیم دی۔
سلطان نے مجمع عام میں علامہ کی نہایت تعریف کی جس سے غرض یہ تھی کہ لوگ ان کی مخالفت سے باز آئیں ۔ سلطان نے یہ بھی ارادہ کیا کہ علامہ کے مخالفوں کو سزادے چنانچہ خود علامہ سے مشورہ کیا لیکن انھوں نے باز رکھا ۔ابن مخلوق جو علامہ کے قتل کے درپے تھے اس موقع پر موجود تھے۔(18)علامہ نے ان سے بھی درگزر کی۔ چنانچہ وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  جیسا جواں مرد نہیں دیکھا میں نے ان کے قتل کی کوشش کی لیکن جب ان کو قابو ملا تو معاف کر دیا ۔(19)
مہینہ بھر کے بعد سلطان نے پھر علامہ کو طلب کیا اور ان سے ملا قات کی، سلطان کے حسن عقیدت کی وجہ سے علامہ کا آستانہ مرجع عالم بن گیا ۔امرا،اہل فوج درباری سب آتے تھے اور نہایت عزت و احترام سے ملتے تھے۔لیکن بعضوں کو اس قدر عناد تھا کہ اس حالت میں بھی شرارت سے باز نہ آتے تھےان میں ایک بزرگ فقیہ بکری تھے انھوں نے ایک دن علامہ کو اکیلا پا کر گریبان پکڑلیا اور کہا:کہ عدالت میں چلو مجھ کو تم پر استغاثہ کرنا ہے۔ زیادہ شور غل ہوا تو ادھر اُدھر سے لوگ جمع ہو گئے ۔ فقیہ صاحب بھاگ نکلے اتفاق یہ کہ ایک مدت کے بعد کسی بات پر سلطان اسی فقیہ صاحب سے ناراض ہوا اور حکم دیا کہ ان کی زبان کٹوادی جائے علامہ کو خبر ہوئی تو سلطان کے پاس جاکر سفارش کی اور اتنی بات پر معاملہ ٹل گیا کہ وہ فتویٰ نہ دینے پائیں ۔
712۔ہجری میں سلطان تاتاریوں کے مقابلہ کے لیے شام کو روانہ ہوا ۔علامہ بھی جہاد کی غرض سے ساتھ ہوئے اور عسقلان تک ساتھ ساتھ آئے یہاں سے بیت المقدس کی زیارت کے لیے گئے۔زیارت سے فارغ ہو کر سات برس کے بعد دمشق میں آئے ۔ ان کے بھائی اور اکثر شاگرد بھی ساتھ تھے شہر کے لوگوں کو خبر ہوئی تو تمام شہر امنڈآیا۔بڑی دھوم دھام سے شہر میں داخل ہوئے اور جن مدارس میں درس دیتے تھے وہاں درس دینا شروع کیا۔
718ہجری (20)میں علامہ نے حلف طلاق کے متعلق جمہورفقہا کے خلاف رائے ظاہر کی اس پر پھر ہنگامہ برپا ہوا یہاں تک کہ لوگوں نے حکام سے شکایت کی اور امن و امان قائم رہنے کی غرض سے شاہی فرمان صادر ہوا کہ وہ فتوی نہ دینے پائیں ۔ شہر میں اس کی عام منادی کرادی گئی لیکن علامہ نے کہا:کہ حق کا چھپا نا جائز نہیں چنانچہ عام طور پر فتویٰ دیتے رہے بالآخر سلطان کے حکم سے قید کئے گئے اور قلعہ میں بھیج دئیے گئے۔پانچ مہینے کے بعد 721ہجری میں رہائی ملی اور بد ستور پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہوئے لیکن جو عام ناراضی پھیل چکی تھی اس کی آگ رہ رہ کر بھڑکتی۔بیس برس پہلےعلامہ نے ایک فتویٰ لکھا تھا کہ صرف زیارت کے ارادے سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا شرعاً ثابت نہیں ۔یہ فتویٰ ایک فتنہ خوابیدہ تھا جس کو موقع پاکر لوگوں نے جگا یا اور تمام شہر میں آگ سی لگ گئی۔اٹھارہ بڑے بڑے فقہا نے علامہ کے اوپر کفر کا فتویٰ دیا جن کے سر گروہ قاضی اختائے مالکی تھے۔ چاروں مذہب یعنی حنفی شافعی، مالکی،حنبلی فقہا سے فتویٰ لیا گیا سب نے بالاتفاق علامہ کی قید کا فتویٰ (21)دیا۔
چنانچہ شعبان 722ہجری میں شاہی فرمان کی روسے دمشق کے قلعہ میں قید کر دئیے گئے۔ان کے بھائی شرف الدین پر اگرچہ جرم نہ تھا لیکن ان کی غیرت نے گوارانہ کیا کہ بھائی کو تنہا چھوڑ دیں ۔اپنی خوشی سے قید خانہ میں گئے۔14جمادی الاولیٰ کو قید خانہ میں ان کا انتقال ہو گیا ۔ان کے جنازہ کی نماز قلعہ  سے باہر پڑھی گئی لیکن علامہ کو بھائی کے جنازہ میں شرکت کا موقع نہ دیا گیا۔مجبوراًقید ہی کی حالت میں قلعہ کے اندر نماز ادا کی چونکہ تکبیر کی آوازاندر تک آتی تھی اس لیے نماز کے ارکان میں فرق نہ آیا لیکن بھائی کا بھائی کے جنازہ میں نہ شریک ہوسکنے پر سب کو رقت ہوئی اور لوگ بہت روئے۔(23)
قید کی حالت میں بھی علامہ کا پاس ادب محفوظ رکھا گیا ان کے رہنے کو بہت اچھا کمرہ دیا گیا کمرہ ہی میں پانی کا انتظام بھی تھا خدمت کے لیے ایک وفادار نوکر موجود تھا علامہ نے یہاں نہایت اطمینان سے تصنیف و تالیف شروع کی۔ قرآن مجید کے حقائق پر بہت کچھ لکھا ،کہا کرتے تھے کہ مجھ کو یہاں جو نکات اور حقائق اللہ نے القاکئے کبھی نہیں کئے تھے۔افسوس ہے کہ قرآن کے سوا میں نے اپنی زندگی دوسری تصنیفات میں کیوں صرف کی۔ جس مسئلہ پر علامہ کو سزا ملی تھی اس کے متعلق نہایت مفصل مضامین لکھے احباب اور اہل فتویٰ کو خطوط اور فتوے بھی لکھتے رہتے تھے یہ تحریریں ملک میں پھیلیں تو رفع فساد کے لیے حکم دیا گیا کہ ان کے پس قلم دوات وغیرہ کوئی چیز نہ رہنےپائے، اس کے بعد علامہ نے جو سب سے آخری تحریر لکھی وہ چند سطریں تھیں جن کا مضمون یہ تھا کہ مجھ کو اگر اصل سزا دی گئی تو صرف یہی ہے۔یہ سطریں علامہ نے کوئلے سے لکھی تھیں ۔
اب علامہ ہمہ تن ذکر و عبارت تلاوت قرآن مجاہد ہ اور ریاضت میں مشغول ہوئے بالآخر بیمار ہوئے اور 20دن بیمار رہ کردہ شنبہ کی رات دوقعدہ 728ہجری میں وہ آفتاب علم دنیا کی اُفق سے چھپ گیا اور تمام عالم میں تاریکی چھا گئی۔
رفتم و از رفتن من عالمے تاریک شد
من مگر شمعم چو رفتم بزم برہم ساختم
علامہ کی زندگی تک تو زمین اور آسمان ان کے دشمن تھے لیکن جب ان کے مرنے کی خبر پھیلی تو تمام ملک پر سناٹا چھا گیا، مؤذن نے جامع مسجد کے مینارپر چڑھ کر اعلان دیا پولیس والوں نے برجوں سے منادی کی دفعتہً تمام دکانیں بند ہو گئیں ،نائب الحکومت کے پاس جاکر لوگوں نے تعزیت کی رسم ادا کی، آئمہ محدثین امام مزی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے غسل دیا قلعہ میں کثرت کی وجہ سے تل دھرنے کی جگہ نہیں رہی ۔
قلعہ سے لے کر جامع مسجد تک آدمیوں کی بھیڑ تھی شہر کا شہر اُمنڈ آیا جامع مسجد سے قلعہ تک ٹھٹ لگ گئے جنازہ جامع مسجد میں لا کر رکھا گیا ہجوم اور کشمکش سے بچانے کے لیے ہر طرف فوجیں متعین ہوگئیں۔سب سے پہلے قلعہ میں شیخ محمد باقر کی امامت سے جنازہ کی نماز پڑھی گئی۔ پھر جامع دمشق میں نماز ہوئی جب جنازہ چلا تو کثرت کا یہ عالم تھا کہ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔لوگ دور سے رومال عمامے چادر پھینکتے تھے کہ جنازہ سے چھوجائے۔جنازہ سروں پر چلتا تھا اور آگے بڑھ بڑھ کر کشمکش سے پیچھےہٹ ہٹ جاتا تھا ہر چند پہلے سے کچھ اطلاع نہ تھی ۔فقہا اور مفتیوں نے شہر کو علامہ کا دشمن بنادیا تھا تاہم ڈھائی لاکھ آدمی جنازہ کے ساتھ تھے جن میں پندرہ ہزار عورتیں تھیں رستہ میں لوگ زاروزارروتے جاتے تھے (23)پردہ نشیں عورتیں بالا خانوں اور کوٹھوں پر جنازہ کی طرف منہ کر کے نوحہ کرتی تھیں نماز میں صف قائم نہ رہ سکی صف سے صف اس طرح پیوستہ تھی کہ بیٹھنا تک ناممکن تھا اسی حالت میں ایک شخص نے پکارا کہ اہل سنت کا جنازہ یوں اٹھتا ہے اس پر کہرام پڑ گیا اور تمام فضا گونج گئی۔علامہ کے بھائی زین الدین نے نماز پڑھائی اور مقبرہ صوفیہ میں اپنے بھائی شرف الدین کے پہلو میں دفن ہوئے۔(24)
اس وقت ریل اور جہاز نہ تھے لیکن فوراً تمام دنیائے اسلام میں یہ خبر پھیل گئی اور ہرجگہ نمازیں پڑھی گئیں ۔مسافروں نے بیان کیا کہ چین میں ان کے جنازہ کی نماز پڑھی گئی اور منادی یہ پکارتا تھا کہ الصلوۃ علی ترجمان القرآن (مفسر قرآن کی نماز جنازہ)
1۔علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کے حالات اگر چہ اکثر کتابوں میں مذکور ہیں لیکن طبقات الحنابلہ میں ابن رجب حنبلی نے جو خود علامہ موصوف کے شاگرد کے شاگرد ہیں ان کا حال زیادہ تفصیل سے لکھا ہے ذیل ابن خلکان اور طبقات الحفاظ میں بھی مفید حالات ہیں حافظ ابن حجر نے دررکامنہ میں نہایت دلچسپ اور مفید حالات لکھے ہیں لیکن میرے پاس اس کتاب کا نسخہ تھا اغلاط سے پر تھا اس لیے اکثر جگہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔
2۔طبقات الحنابلہ
3۔فوات الوفیات
4۔دررکامنہ حالات ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  
5۔ طبقات الحنابلہ ابن رجب
6۔یہ واقعات صرف دررکامنہ میں ہیں
7۔دررکامنہ
8۔دررکامنہ
9۔دررکامنہ
10۔طبقات و دررکامنہ مطبوعہ مصر صفحہ 71
12۔ طبقات الحنابلہ
13۔یہ تمام واقعات تاریخ ابن خلدون میں مذکورہیں جلد 5ذکر سلطنت اتراک مصر
14۔فوات الوفیات
15۔ابن خلدون اور طبقات الحنابلہ 12۔
16۔فوات الوفیات
17۔طبقات ابن رجب
18۔دررکامنہ میں لکھا ہے کہ قاضی زین بن مخلوق نے ان کو نائب السلطنت سے کہہ کر اسکندر یہ کے قید خانہ میں بھیجوایا تھا کہ کوئی ان سے ملنے نہ پائے لیکن لطف یہ ہے کہ جب قاضی صاحب نے یہ حکم بھیجوایا تھا تو مرض الموت میں گرفتارتھے حسن خاتمہ بغیر اس کے کیونکر ہو سکتا تھا ۔
19۔طبقات
20۔ دررکامنہ میں حافظ ابن حجر نے اس کو 719ہجری کا واقعہ بتا یا ہے۔
21۔طبقات
22۔طبقات عبد اللہ بن عبد الحلیم شرف الدین
23۔فوات الوفیات
24۔یہ تمام واقعات طبقات ابن رجب اور فوات الوفیات سے لیے گئے۔ [1] ۔علامہ شبلی کایہ خیال درست نہیں کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے جن کا انسانی شکل میں میں ملاقات کر کے تیسرے روزآیت الکرسی کا تحفہ دینا احادیث میں موجود ہے اسی طرح ہمارے روز مرہ  معمو لات میں اس خیال کے برخلاف تجزیہ ہوتا رہتا ہے۔