ترجمان القرآن

آیت نمبر48 :

﴿وَاتَّقوا يَومًا لا تَجزى نَفسٌ عَن نَفسٍ شَيـًٔا وَلا يُقبَلُ مِنها شَفـٰعَةٌ وَلا يُؤخَذُ مِنها عَدلٌ وَلا هُم يُنصَر‌ونَ ﴿٤٨﴾... سورةالبقرة

ترجمہ: اور اس دن سے ڈرو جب کو ئی شخص کسی کے کا م نہیں آئے گا ۔کسی کی سفارش منظور نہیں کی جا ئے گی اور نہ ہی کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول ہو گا ۔نہ ہی لو گ (کسی اورطرح ) مدد حاصل کر سکیں گے۔

ہمارے پیغمبر ہمیں چھڑا لیں گے !

مذکورہ اعلان اللہ تعا لیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کے اس دعوے کی تر دید ہے جس میں وہ کہتے تھے کہ ہم چاہے کتنے ہی گنا ہ کرتے ہیں ہمارے باپ دادا اور پیغمبر ہمیں اللہ تعا لیٰ کے عذاب سے بچالیں گے ۔ بنی اسرا ئیلکے اس دعوے سے مکمل مماثلت رکھتے ہو ئے اسی دعویٰ کے الفاظ آج کل ایک گروہ کے ہونٹوں سے یوں ادا ہو تے ہیں ۔

"ہم عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سر شار ہیں ۔ہم احکامات نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہے کتنی حکم عدولی کرتے رہیں ۔آخر کا نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ہماری محبتاور عشق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہو ئے اللہ تعا لیٰ کے عذاب سے بچا لیں گے ۔"

اس دن کو ئی کسی کے کا م نہیں آئے گا :

اللہ تعا لیٰ ایسے فکری مغالطے کے شکار انسانوں کو بار بار اپنا حکم سناتے ہو ئے فر ما تے ہیں

﴿وَلا تَزِرُ‌ وازِرَ‌ةٌ وِزرَ‌ أُخر‌ىٰ...﴿١٨﴾... سورة الفاطر

ترجمہ: اور کو ئی شخص کسی کے (گناہ کا ) بو جھ نہیں اٹھا ئے گا ۔

دوسری جگہ ارشاد فر ما تے ہیں ۔

﴿لِكُلِّ امرِ‌ئٍ مِنهُم يَومَئِذٍ شَأنٌ يُغنيهِ ﴿٣٧﴾... سورة عبس

ترجمہ:" اور ہر شخص اس روز ایک فکر میں مبتلا ہو گا وہی اس کے لیے کا فی ہو گا ۔"

اور فر ما یا :

﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ اتَّقوا رَ‌بَّكُم وَاخشَوا يَومًا لا يَجزى والِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلا مَولودٌ هُوَ جازٍ عَن والِدِهِ شَيـًٔا ... ﴿٣٣﴾... سورةلقمان

ترجمہ: اے لو گو !ڈرو اپنے رب سے اور ڈرو اس دن سے جس دن کو ئی باپ اپنے بیٹے کے بدلے کا م نہیں آئے گا ۔اور نہ کو ئی بیٹا اپنے باپ کے بدلہ میں جزا پا ئے گا ۔

کتنے گستاخ ہیں وہ لوگ !

جو اللہ تعا لیٰ کے ان واضحاعلانات کے باوجود اپنی اسی فکر ی گمراہی پر مصر اور ناداں ہیں ان سے بڑھ کر گستاخ الٰہ کو ن ہو سکتا ہے ؟

اللہ تعا لیٰ فر ما تے ہیں باپ کا بیٹے کے کام آنا یا بیٹے کا باپ کے کا م آنا تو بہت دور کی بات ہے اس دن تو بھائی ،باپ اور ماں ایک دوسرے سے بھاگیں گے۔

البتہ زیر نظر آیت میں پہلے نفس کا استعمال نفس مؤمنہ کے لیے ہے اور دوسرے نفس سے مراد نفس کا فرہ ہے یعنی کسی اللہ کے فر ما ں بردار کی اطاعت کسی نافر ما ن کی معصیت کی وجہ سے ملنے والی سزاکو دور نہیں کر سکے گی ۔اور نہ ہی کسی کی سفارش چل سکے گی جس پر جو سزا اللہ کی طرف سے لا زم قرار دی گئی اس کا بھگتنا اس کے لیے ضروری ہو گا ۔

مزید وضاحت کے لیے اللہ جل شانہ فر ماتے ہیں ۔

﴿فَما تَنفَعُهُم شَفـٰعَةُ الشّـٰفِعينَ ﴿٤٨﴾... سورةالمدثر

ترجمہ:کسی سفارش کرنے والے کی سفارش انہیں فائدہ نہیں پہنچا سکے گی ۔

اسی طرح دوزخ میں اسیر گنہگاروں کی زبان سے اس کی تصدیق کراتے ہوئے فر ما یا :

﴿فَما لَنا مِن شـٰفِعينَ ﴿١٠٠﴾ وَلا صَديقٍ حَميمٍ ﴿١٠١﴾... سورةالشعراء

ترجمہ: (اور اہل نار کہیں گے) کو ئی نہیں ہماری سفارش کرنے والا اور نہ ہی کو ئی گہرا دوست !اسی طرح اگر کو ئی یہ چاہے یا سوطے کہ اس دن کو ئی فدیہ یا بدلہ دے کر رہائی ہو جا ئے گی تو یہ بھی نا ممکن ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿إِنَّ الَّذينَ كَفَر‌وا وَماتوا وَهُم كُفّارٌ‌ فَلَن يُقبَلَ مِن أَحَدِهِم مِلءُ الأَر‌ضِ ذَهَبًا وَلَوِ افتَدىٰ بِهِ أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ أَليمٌ وَما لَهُم مِن نـٰصِر‌ينَ ﴿٩١﴾... سورة آل عمران

ترجمہ :اور وہ لوگ جو کافر ہو ئے اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے ان میں سے کسی ایک سے زمین بھر کا سونا بھی بدلے میں قبول نہیں کیا جا ئے گا ۔

دوسری جگہ اسی مفہوم کو ان الفاظ میں بیان فر ما یا ۔

﴿إِنَّ الَّذينَ كَفَر‌وا لَو أَنَّ لَهُم ما فِى الأَر‌ضِ جَميعًا وَمِثلَهُ مَعَهُ لِيَفتَدوا بِهِ مِن عَذابِ يَومِ القِيـٰمَةِ ما تُقُبِّلَ مِنهُم وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٣٦﴾... سورةالمائدة

ترجمہ:بلاشبہ وہ لو گ جو کافر ہو ئے چاہے ان کے پاس اتنا مال ہو جو ساری زمین میں پائی جا نے والی دولت کے برابر ہو اس کے برابر اور بھی مزید ہو۔ انہیں قیامت کے دن عذاب سے رہائی نہیں دلوا سکے گا نہ ہی اسے قبول کیا جا ئے گا ۔ ان کے لیے دردناک عذاب مقدر ہو چکا ۔

ایک اور آیت میں ارشاد فر ما یا :

﴿وَإِن تَعدِل كُلَّ عَدلٍ لا يُؤخَذ مِنها...﴿٧٠﴾... سورة الانعام

ترجمہ:اگر بدلہ دے ہر امکانی بدل سے تو بھی ان سے قبول نہیں کیا جا ئے گا ۔

واضح تنبیہہ:

ارشاد ہے ۔

فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَلَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا ۚ مَأْوَاكُمُ النَّارُ‌ ۖ هِيَ مَوْلَاكُمْ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ‌

ترجمہ: آج کے دن نہ تم سے کو ئی فدیہ قبول ہو گا اور نہ ہی ان لوگوں سے جو کافر ہیں (فیصلہ کن بات یہ ہے) کہ تمھارا ٹھکانا دوزخ ہے اور یہی دوزخ تمھارا دوست ہے۔ "

گو یا ۔۔۔ان آیات میں اللہ تعا لیٰ نے اپنے فیصلہ کو بار بار سناتے ہو ئے بتا دیا ہے کہ جو لو گ اس دنیا میں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو سچ مانتے ہیں نہ ہی ان کی اطاعت کرتے ہیں تو قیامت کے دن ہمارا رویہ ان سے ایسا ہی ہو گا ۔کہ نہ کو ئی رشتہ داری ان کے کا م آئے گی ۔نہ کسی بڑے شخص (چاہے وہ ولی یا کسی دوسرے اعزازی نام سے پکارا قبول نہیں ہو گا )

گو یا محض دعوائے عشق بغیر اطاعت کے بے کار ہے ۔

سودے بازی ،دوستی اور سفارش

قیامت کےدن ۔۔۔عدالت کی کاروائی کیسی ہو گی ۔اس کی تر جما نی اللہ تعا لیٰ یو ں فر ماتے ہیں ۔

مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ

ترجمہ:خبردار ہو جاؤ اس دن کے ہونے سے پہلے جس دن نہ سوے بازی ہو گی نہ دوستی اور نہ سفارش چلے گی ۔

اور مزید ہوش اڑا دینے والا ارشاد سنیے:

يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ

نہ ہی اس میں کسی قسم کی تجارت (horse trading)ہو گی نہ دوستی (دوست نوازی ) ہو گی جو اس کو اس کی سزا سے عافیت دلا سکے ۔

عدل سے کیا مراد ہے :

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں ۔عدل سے مراد بدل "فدیہ "کہلاتا ہے چنانچہ اسلاف کی ایک جماعت بھی اسی معنی سے متفق ہے ۔علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیال میں "صرف نفل ہے عدل فریضہ ہے" لیکن یہ غریب قول ہے اور پہلی رائے ہی قرین قیاس ہے ایک حدیث سے بھی ثابت ہو تا ہے کہ عدل "فدیہ"ہے یہ حدیث ابن جریر نے روایت کی ہے ۔

مقصد تفکریہ ٹھہرا کہ گنگاروں کو مدد نہیں ملے گی ۔وہاں کو ئی شخص ایسا نہیں ہو گا جو بارگاہ خداوندی میں سفارش کرنے کی جرات و ہمت رکھے ۔کہ وہ کسی کو عذاب الٰہی سے نجات دلا دے ۔غرض نہ کو ئی اپنا ہو گا نہ پرا یا جو کسی کے کا م آسکے ۔چنانچہ:

فَمَا لَهُ مِن قُوَّةٍ وَلَا نَاصِرٍ‌سے بھی یہی مراد ہے کہ کا فر کو عذاب سے رہائی دلانے میں نہ کو ئی قوت اور نہ ہی کو ئی مدد یا فدیہ کا ر گرہو گا ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے گریز اور محض محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ کرنا اللہ تعا لیٰ کے احکامات کی تعمیل سے فرار اور اس کے محبوب و منتخب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش یا شفاعت کی امید رکھنے کا انجام کیا ہو گا ۔مزید وضاحت کرنے والی مندرجہ ذیل آیات الہیہ پر غور فر ما ئیں ۔

ارشاد ہے:

وَهُوَ يُجِيرُ‌ وَلَا يُجَارُ‌

ترجمہ:وہ (اللہ جل شانہ سب سے بچانے کی مکمل قدرت رکھتا ہے )وہ پناہ دیتا ہے مگر اس کے خلاف پناہ نہیں دی جا سکتی ۔اپنی کبریائی کی ہیبت سے مبہوت انسانوں کی بے بسی کا ذکر فر ما تے ہو ئے ارشاد ہے ۔

فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ ﴿٢٥﴾ وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ

ترجمہ :اس دن کے عذاب سے زیادہ کسی کا عذاب نہیں ہو گا ۔اور اس کی کڑی گرفت سے زیادہ کسی کی مضبوط گرفت نہیں ہو گی ۔اس دن بڑے بڑے متکبرین کا عالم بیان فرما تے ہو ئے ارشاد ہے ۔

مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُ‌ونَ ﴿٢٥﴾ بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ

تم کو کیا ہو کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے بلکہ آج کے دن تو وہ فر ماں بردار ہیں ۔

اللہ سے قربت حاصل کرنے کا وسیلہ اور اس کا حشر

فَلَوْلَا نَصَرَ‌هُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ قُرْ‌بَانًا آلِهَةً ۖ بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ ۚ وَذَٰلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا يَفْتَرُ‌ونَ

"تو پھر جن کو ان لوگوں نے اللہ تعا لیٰ کے تقرب کے لیے اللہ کے سوا معبود بنا یا ہو اتھا انھوں نے ان کی کیوں مدد نہ کی بلکہ وہ ان کے سامنے سے گم ہو گئے اور یہ ان کا جھوٹ تھا اور یہی وہ افتراکیا کرتے تھے"

اللہ تبارک وتعا لیٰ سے قربت حاصل کرنے یا خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جن اشخاص کو بھی وسیلہ بنا یا جا ئے اللہ تعا لیٰ کا ان وسیلوں کے بارے میں کیا فیصلہ ہے ہر صاحب ہو ش کو فکری گمراہیوں سے بچانے کے لیے یہی کافی ہے۔ابن جریرؒ فر ما تے ہیں کہ اس آیت کے معنی یہی ہیں کہ اس دن کو ئی کسی کی مدد کرے گا نہ کسی کی سفارش چلے گی نہ ہی کو ئی بدلہ قبول ہو گا ۔نہ فدیہ لیا جا ئے گا گو یا دوستی باطل شفاعت بے کار رشوت مسترد تعاون ناممکن اس دن ترازوئے عدل اس عادل اعلیٰ کے ہاتھ میں ہو گا جو بدی کی سزا اس کے برابر اور نیکی کا اجر کئی گنا دے گا ۔

حتمی فیصلہ یہی ہے کہ۔

مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُ‌ونَ ﴿٢٥﴾ بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ ﴿٢٦﴾ وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ

کھڑا رکھو ان سے پوچھنا ہے!کیا ہوا تم کو آج ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے ؟ بلکہ آج کے دن تو وہ بڑے مطیع و فرماں بردار ہو رہے ہیں ۔"

غرض اہل کتاب ہوں یا مشرکین اس دن کسی کی رہائی ناممکن ہے ۔وہ دن دنیا داروں کا سا دن نہیں ہو گا ۔جہاں لینے دینے کھانے کھلانے خوشامد و آمد سعی و سفارش سے کا م بن جا ئے یا بھا ئی بند مدد کریں ۔یا دوست آشنا کا م آئیں یا باپ دادا بچالیں ۔

آیت نمبر49 :

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْ‌عَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ عَظِيمٌ

ترجمہ: اور جب نجات دی ہم نے تم کو آل فرعون سے جو تمہیں بڑی تکلیف دیتا تھا تمھارے بیٹوں کو ذبح کر دیتا اور تمھاری بیٹیوں کو زندہ رکھتا اس میں تمھارے رب کی طرف سے تمھارے لیے کڑی آزمائش تھی۔

ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ فرعون نے خواب دیکھا کہ ایک آگ بیت المقدس سے نمودار ہو کر مصر کےشہروں میں قبطیوں کے گھروں میں داخل ہو ئی ہے اور بنی اسرائیل کے گھروں کو چھوڑ کر باقی سب کو جلا کر راکھ کر دیا ہے ۔اس خواب سے فرعون ڈر گیا تعبیر پوچھی گئی تو کسی نے کہا ۔کہ فرعون شاہی کا زوال بنی اسرائیل کے ہاتھوں ہو نے والا ہے فرعون کو بتانے والوں نے یہ بھی بتا یا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہو نے والا ہے جس کی وجہ سے انہیں دولت واقتدار حاصل ہو گا ۔انہیں اطلاعات کی بنا پر فرعون نے عام اعلان کر دیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو اسے جان سے مار دو۔اور جو لڑکی پیدا ہو اسے زندہ رہنے دو! علاوہ ازیں فرعون نے بنی اسرائیل سے بڑی ذلیل کن اور گھٹیا قسم کی خدمات لینا شروع کر دیں ۔

فرعون تھا کون؟

ابن کثیر ؒ کہتے ہیں کہ عمالقہ نام کی قوم اپنے ہر بادشاہ کو "فرعون"کے لقب سے پکارتی تھی جس طرح روم اور شام کے لو گ اپنے حکمران کو قیصر کے نام سے پکارتے ۔ایرانی اپنے بادشاہوں کو کسریٰ یمن والے اپنے حاکم کو تبع حبشہ والے اپنے بادشاہ کو نجاشی ہندوستان والے اپنے بادشاہ کو جیپال چین والے خاقان اور یونان والے اپنے بادشاہ کو بطالسہ کے نام سے پکارتے تھے۔ابن کثیرؒ کہتے ہیں موسیٰ ؑ کے زمانہ کا "فرعون"ولید بن معصب بن ریان" ہے کسی نے کہا اس کا خاندان عملیق بن اودبن ارم بن سام بن نوح سے تھا اس کی کنیت ابو مرہ تھی فارس نزاد اہل اضطخرا(ایک مقام )سے تھا ۔

فتح البیان میں لکھا ہے کہ اہل کتاب کی کتابوں میں اس کا نام "قابوس "تھا چار سو برس سے زیادہ اس کی عمر تھی ۔موسیٰ ؑ کی عمر 1002برس تھی ۔

مسعود ی کہتے ہیں کہ عربی میں فرعون کے کو ئی معنی نہیں ۔جوہری کہتے ہیں کہ فرعون سر کش جبار ،متکبر اور مکار کو کہتے ہیں ۔

بلاء سے کیا مراد ہے؟

لفظ بلاء ۔۔۔خیر اور شر دونوں کے حوالےسے استعمال ہو تا ہے یہاں اگر بلاء کے معنی خیر لیے جا ئیں تو خیر یہ تھی اللہ نے ان کے آباء واجداد کو فرعون کے عذاب سے نجات دی یہی وجہ ہے کہ ابن جریر مجاہد اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس جگہ "بلاء "کا ترجمہ نعمت عظیم کیا ہے ۔اور اگر مراد شر سے مراد فرعون کا بنی اسرا ئیل کے لڑکوں کو ذبح کرنا اور بیٹیوں کو زندہ رکھنا مراد ہے سدی اور ابو العالیہ نے کہا کہ بلا ء کے معنی آزمائش ہیں آزمائش کبھی "خیر" اور کبھی " شر "دونوں صورتوں میں ہو تی ہے جس طرح کہ اللہ تعا لیٰ نے اپنے اس ارشاد میں فر ما یا ۔

وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ‌ وَالْخَيْرِ‌ فِتْنَةً

"اور ہم تمھا ری آزمائش کرتے ہیں برا ئی اور بھلا ئی سے "

دوسری جگہ فر ما یا :

وَبَلَوْنَاهُم بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْ‌جِعُونَ

"اور ہم نے ان کو اچھا ئیوں اور برا ئیوں میں آزمایا تا کہ وہ (ہماری طرف ) لوٹ آئیں"

قرطبیؒ کی را ئے میں بلا ء سے مراد محض شرہے !غالباً جمہور کی رائے بھی یہی ہے ۔

آیت نمبر50 :

وَإِذْ فَرَ‌قْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ‌ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَ‌قْنَا آلَ فِرْ‌عَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُ‌ونَ

ترجمہ: اور جب ہم نے تمھا رے لیے دریا کو پھاڑ دیا اور تم کو نجا ت دے کر فرعون کی قوم کو (اسی میں)غرق کردیا اور تم دیکھ ہی رہے تھے ۔

یہ قصہ تفصیل کے ساتھ سورۃ شعراء میں بیان ہو گا ۔یہاں صرف "تم دیکھ ہی رہے تھے" کے بارہ میں تو جہ دلا ئی جا ئے گی ۔

"دیکھنے "کو یہاں اس لیے اہمیت دی گئی ہے تا کہ بنی اسرائیل کو اپنے دشمن کی غرقابی سے جو تسکین ہو ئی تھی اس کی یاد دہانی کرائی جا ئے ۔دشمن ان کے آنکھوں کے سامنے کس طرح ذلیل و خوار ہوا اس کا احساس دلایا جا ئے

مرغ سحر کی آواز :

عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ جب موسیٰ ؑ اپنی قوم کو لیکر مصر سے نکلے فرعون کو اطلاع ہوئی تو اس نے کہا" جب تک مرغ سحر کی آواز نہ سنوان کا پیچھا نہ کرنا " اللہ کی شان اس رات مرغ کی آواز ہی غائب رہی صبح کے وقت ایک بکرا ذبح کیا اور حکم دیا میرے اس بکرے کی بھونی ہو ئی کلیجی کھانے تک چھ لاکھ قبطی جمع ہو جا ئے ۔چنانچہ ایسے ہی ہوا فرعون اپنی افواج کو لے کر چلا ۔

ادھر موسیٰ ؑ جب دریا ئے نیل کے کنا رے آپہنچے تو ان کے ایک ساتھی یوشع بن نون نے کہا اے موسیٰ تیرے رب کا حکم کیا ہے ۔

موسیٰؑ نے دریا پار کرنے کا اشارہ کیا یوشع بن نون گھوڑے سمیت دریا میں اترے مگر غوطہ کھانے لگے پلٹ آئے پھر موسیٰ ؑ کے حکم کی تعمیل میں گھوڑے سمیت دریا میں اترے پھر غوطوں کی نوبت آئی تو پلٹ آئے اور کہا یہ کیسا حکم ہے تمھارے رب کا ؟

موسیٰؑ نے کہا واللہ نہ میں جھوٹا ہوں نہ تم جھوٹے ہو۔ میرے اللہ کا یہی حکم ہے ۔اسی کشمکش میں تھے کہ وحی نازل ہوئی حکم ہوا کہ اپنا عصادریا کو مارو۔موسیٰ ؑ نے حکم کی تعمیل کی عصا مارا تو دریا پھٹ گیا ۔درمیان میں 12راستے نمودار ہو ئے ۔پانی دونوں طرف پہاڑوں کے سلسلہ کی طرح منجمد ہو کر رہ گیا موسیٰؑ اپنی قوم کے ہمرا ہ ثابت وسالم ۔۔۔ان راہوں سے گزر کر کنارے پہنچ گئے ۔اس اثناء میں فرعون کی افواج بھی اس کنارے آپہنچیں دریا میں موجود راستوں سے گزر کر دوسرے کنارے پہنچنا چاہا مگر درمیان میں پہنچے تھے کہ اللہ تعا لیٰ نے دریا کو روانی کا حکم دیا ۔جس کے نتیجہ میں فرعون اپنی افواج سمیت غرق ہو گیا ۔اور موسیٰؑ کی قوم ان کے غرق ہو نے کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی رہی کہتے ہیں یہ عاشور ہ کا دن تھا ۔یوم عاشورہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لا ئے تو دیکھا کہ یہود عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ۔اس دن کی خصوصیت کیا ہے جو تم روزہ رکھتے ہو! تو انھوں نے کہا ۔یہ وہ دن ہے جس دن موسیٰ ؑ کی قوم بنی اسرائیل کو اللہ تعا لیٰ نے فرعون سے نجات دلائی اور موسیٰؑ نے اس دن روزہ رکھا تھا تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ۔تم سے زیادہ موسیٰؑ کا حق دار میں ہوں اور پھر روزہ رکھا ۔اور سب کو حکم دیا کہ روزہ رکھو (رواۃ احمد) اس حدیث کو مسلم بخاری نسائی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے بنی اسرائیل کی نجات کے لیے عاشورہ کے دن دریا پھاڑا۔ اسے ابو یعلی نے روایت کیا ہے لیکن سند ضعیف ہے ۔زید عمی اس کے راوی میں ضعیف ہے ان کے شیخ یزید رقاشی بھی ضعیف ہیں ۔

فتح البیان میں ہے کہ موسیٰؑ کے اس عظیم معجزہ کا اعتراف کرنا بنی اسرائیل پر واجب ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ماضی کے اندھیروں میں چھپے ہو ئے اس معجزہ کو "ہو بہو" جیسے واقعہ ہوا اس طرح بیان کرنا اس سے بھی بڑا معجزہ ہے لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو تسلیم کرنا بنی اسرائیل کی آنے والی نسل پر لازم ہے ۔

آیت نمبر 51 :

وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْ‌بَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ

ترجمہ: اور جب ہم نے موسیٰ ؑ سے چالیس رات کا وعدہ کیا تو تم ان کے پیچھے بچھڑے کو معبود مقرر کر لیا اور تم ظلم کر رہے تھے ۔"

پوارا وقعہ سورہ الاعراف اور طہٰ میں آئے گا ۔ سورہ الاعراف میں فر ما یا :

وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ‌

ترجمہ :اور ہم نے موسیٰؑ سے تیس رات میعاد مقرر کی اور دس راتیں اور ملا کر اسے پورا "چلہ "کر دیا ۔

کہتے ہیں کہ ایک مہینہ ذی قعدہ اور دس دن ذی الحج کے تھے اور یہ واقعہ فرعون سے نجات اور دریا سے پار اتر جا نے کے بعد ہوا تھا ۔اور "تم ظلم کر رہے تھے "اس لیے فر ما یا کہ انھوں نے شرک کیا شرک سے بڑا کو ئی دوسرا ظلم نہیں ۔

آیت نمبر52 :

ثُمَّ عَفَوْنَا عَنكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ

ترجمہ : پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کر دیا تا کہ تم شکر گزار ہو ۔"

موسیٰ ؑ کے کوہ طور پر جا نے کے بعد بنی اسرائیل نے ایک بچھڑے کو پوجا تھا اللہ نے ان کا یہ قصور معاف کردیا اپنا احسان یاد دلایا کہتے ہیں اس بچھڑے کا نا م "بہموت "تھا لفظ موسیٰؑ عجمی اور عبرانی کا نام ہے "مو"ماء کو کہتے ہیں "شا" شجر کو بولتے تھے ۔ان کو پانی اور درخت کے درمیان سے پا یا تھا اس لیے "موسیٰ ؑ "کہنے لگے ۔"ش"تبدیل ہو کر "س"ہو گیا ۔"شکر"کہتے ہیں محسن کی تعریف کرنے کو اس کا احسان ماننے کو ۔

آیت نمبر53 :

وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْ‌قَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

ترجمہ: اور جب ہم نے مو سیٰؑ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔ "

کتاب سے اس جگہ تورات مراد ہے ۔ فرعون وہ ہے جو حق و باطل اور ہدایت و ضلالت میں فرق کردے ۔کسی نے کہا فرقان یہ تھا کہ فرعون کو ڈبو دیا کسی نے کہا فرقان وہ ہے جو حلال و حرام میں تمیز پیدا کرے ۔اولیٰ یہ ہے کہ فرقان سے مراد حجت و بیان الٰہی ہے جیسے "عصا" اور یدبیضا" وغیرہ یعنی ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی " معجزات دئیے اس کے بعد بنی اسرائیل کی تو بہ کی تفصیل بیان فر ما ئی ۔

آیت نمبر54 :

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِ‌ئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ عِندَ بَارِ‌ئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّ‌حِيمُ

ترجمہ: اور جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کے لو گو ں سے کہا اے قوم !تم نے بچھڑے کو معبود ٹھہرا نے میں بڑا ظلم کیا ہے ۔ تم اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے تو بہ کرو اور اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالو۔ تمھارے خالق کے نزدیک تمھارے حق میں یہی بہتر ہے ۔پھر اس نے تمھارا قصور معاف کردیا وہ بیشک معاف کرنے والا اور صاحب رحم ہے۔"

لفظ "باری "کے استعمال سے یہ جتایا کہ وہ تمھارا خالق تھا تم نے بڑا گناہ کیا اس کو چھوڑ کر غیر کی پو جا کی۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرما ن ہے انکی تو بہ یہ تھی کہ جو شخص جس سے ملے باپ ہو یا بیٹا اس کی تلوار سے قتل کرے اور اس چیز کی پرواہ نہ کرے کہ کس نے کس کو مارا ۔جن لوگوں کا حال حضرت موسیٰؑ و ہارون ؑ پر مخفی رہاتھا اللہ کو ان کے گمناہوں کا علم تھا انھوں نے تو بہ کی اپنے گناہوں کا اقرار کیا ۔اللہ کا حکم بجا لا ئے اللہ نے قاتل و مقتول دونوں کو بخش دیا ۔(نسائی ابن ماجہ ابن ابی حاتم)

ابن کثیرؒ نے فر ما یا کہ یہ ایک ٹکڑا ہے "حدیث الفتون" کا سورہ طہٰ میں یہ پوری بحث آئیگی ۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فر ما ن ہے حضرت موسیٰؑ نے اللہ کے حکم سے بنی اسرا ئیل کو یہ حکم دیا تھا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی وہ ایک دوسرے کو قتل کریں ۔وہ لوگ جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی خنجر لیکر نکلے اور قتل کرنا شروع کیا اتنے میں سخت اندھیرا چھا گیا ۔جب اندھیرا دور ہوا تو دیکھا کہ ستر ہزار آدمی مقتول ہوئے تھے جو شخص قتل ہوا اسکی تو بہ قبول ہوئی اور جو بچ گیا وہ بھی تائب ٹھہرا ۔(ابن جریر)

آیت نمبر55،56 :

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَ‌ى اللَّـهَ جَهْرَ‌ةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُ‌ونَ ﴿٥٥﴾ ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ

ترجمہ : اور جب تم نے موسیٰ سے کہا کہ اے موسیٰؑ ہم اس وقت تک تجھ پر ایمان نہیں لا ئیں گے جب تک اللہ کو سامنے نہ دیکھ لیں گے ۔پس تم کو بجلی نے آگھیرا اور تم اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔پھر موت آجا نے کے بعد ہم نے تم کو از سر نو زندہ کیا تا کہ احسان مانو۔"

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا "جہرۃ" کے معنی "علانیۃ"ہیں قتادۃ نے فر ما یا "عیانا" ہیں ۔یہ ستر آدمی تھے جن کو حضرت موسیٰؑ نے اپنے ساتھ لیجانے کے لیے منتخب کیا تھا ۔انھوں نے اللہ کی گفتگو سن کر کہا کہ ہم تب ایمان لا ئیں گے جب اللہ کو اپنے سامنے دیکھیں گے اس پر بجلی کڑکی آواز سن کر مر گئے بعض علماء کا کہنا ہے کہ "صحیحہ " سے مراد آسمانی چیخ ہے کچھ نے کہا "آگ"سدی ؒ نے کہا موسیٰؑ یہ حال دیکھ کر رودئیے ۔اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھا ؤں گا ۔اللہ نے وحی کی یہ وہ ستر اشخاص ہیں جنہوں نے بچھڑا پوجا تھا پھر اللہ نے ان کو زندہ کر دیا ہر کو ئی ایک دوسرے کے زندہ ہو نے کو دیکھتا تھا ربیع بن انسؒ نے فر ما یا یہ موت ان کی سزا تھی اب زندہ رہ کر اپنی عمر پوری کریں گے رازیؒ کا یہ قول کہ یہ سارے لوگ اس کے بعد "نبی "ہو گئے تھے ٹھیک نہیں ہے اس لیے موسیٰؑ کے زمانے میں ہارون اور یوشع ؑ کے علاوہ کو ئی نبی نہیں ہوا اہل کتاب کا یہ قول کہ ان سب آدمیوں نے اللہ کو دیکھا تھا غلط ہے ۔جب موسیٰؑ ہی نہ دیکھ سکے تو دوسرا کو ئی دیکھنے کی کہاں تاب لا تا ؟

قرطبیؒ نے فر ما یا : زندہ ہو نے کے بعد بھی وہ اس دنیوی زندگی کے مکلف رہے اور تکلیف شران سے ساقط نہیں ہو تھی ،

روؤیت باری تعا لیٰ :معتزلہ کہتے ہیں اللہ کا دیدار نہ دنیا میں ہو سکتا ہے اور نہ آخرت میں ہو گا ،اہل سنتکا عقیدہ ہے کہ دنیا میں اللہ کا دیدار نہیں ہو سکتا مگر آخرت میں ضرورہو گا ۔صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ لوگ اپنے پروردیگار کو دیکھیں گے ۔ان احادیث کی دلالت قطعی ہے دلائل عقیلہ اور قواعد کلامیہ اس لا ئق نہیں ہیں کہ صحیح احادیث کے مقابل میں حجت ہو سکیں یہ بحث حافظ ابن قیمؒ نے "حادیالارواح "میں مفصل لکھی ہے جمہور سلف و خلف کے نزدیک قیامت کے دن اللہ کا دیدار ہو نا کتاب و سنت کے دلا ئل سے بخوبی ثابت ہے ۔

آیت نمبر57:

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَ‌زَقْنَاكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

ترجمہ:اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے بادل کا تم پر سایہ کئے رکھا اور تمھارے لیے من و سلویٰ اتارتے رہے تاکہ جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فر ما ئی ہیں انکو کھا ؤ پیؤ۔(اگر تمھارے بزرگوں نے ان نعمتوں کی کچھ قدر نہ جا نی تو ) ہمارا کچھ نہیں بگاڑتے تھے بلکہ اپنا ہی نقصان کرتے تھے ۔"

جب فرعون غرق ہو گیا بنی اسرائیل جنگ کو چلے انکے خیمے وغیرہ پھٹ گئے تو سارا دن دھوپ سے بچاؤ کے لیے بادل سایہ فگن رہتا ۔ اناج کی جگہ من و سلویٰ نازل ہو تا ۔من "دھنیے کی طرح کے میٹھے دانے تھے جو رات کو شبنم کی صورت میں برستے لشکر کے گرد جمع ہو جا تے صبح ہر آدمی اپنی اپنی مرضی کے مطابق چن لیتا ۔سلویٰ ایک پندے کا نا م ہے شام کے وقت لشکر کے گرد ہزروں کی تعداد میں جمع ہو جا تے اندھیرا ہو تا تو پکڑ کے بھون کر کھا جا تے ایک مدت تک یہ کھاتے رہے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فر ما ن ہے کہ بادل عام بادلوں کی طرح نہ تھا بلکہ اس سے کہیں زیادہ ٹھنڈا اور پاکیزہ تھا قیامت کے دن اللہ ایسے ہی بادل کے سائے میں آئے گا ۔بدر کے دن فرشتے ایسے ہی بادل میں آئے تھے ۔یہ بادل بنی اسرا ئیل کے ساتھ میدان "تہیہ "میں سایہ فگن رہتا تھا "من" کہتے ہیں ترنجبین کو مجا ہد نے فر ما یا ایک طرح کا گوندتھا عکرمہؒ نے کہا "اوس"مگر گاڑھی تھی سدیؒ کا فر ما ن ہے زنجیل کے درخت پر اوس پڑتی تھی ۔قتادہؒ نے فر ما یا زمین پر گرتی جس طرح برف گرتی ہے دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی تھی طلوع فجر سے لے کر سورج کے نکلنے تک برستی رہتی جو شخص ایک دن کی خوراک سے زیادہ لیتا تو خراب ہو جاتی ربیع ابن انس ؒ نے فر ما یا "من شہد کی طرح کا ایک مادہ تھا اس کو پانی میں ملا کر پیتے تھے" وھب بن منبہ ؒ نے فر ما یا :من چپاتی کی طرح پتلی روٹی تھی شعبی نے کہا یہ تمھارا شہد من کا سترواں حصہ ہے ۔زید بن اسلم ؒ کا بھی قول ہے ۔ابن کثیر ؒ فر ما تے ہیں مفسرین کی من کے بارے میں عبارتیں اور توجیہات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں فرق صرف یہ ہے کہ کسی نے اسے طعام کہا کسی نے پانی ٹھہرایا ۔ظاہر یہ ہے کہ من وہ ہے جس کی اللہ نے ان پر "منت " (احسان ) رکھی خواہ طعام ہو یا شراب ہر چیز محنت و مشقت کے ملتی جو کہ آج من کے نام سے مشہور ہے اس کو تنہا کھاؤ تو طعا م ہے پانی سے ملاؤ تو شراب ہے کسی دوسری چیز سے ملا ؤ تو کچھ اور بن جا تا ہے لیکن آیت سے وہ "من"اس جگہ مراد نہیں ہے بخاری میں سعید بن زید ؒ سے مرفوعاً آیا ہے کہ "من" کا پانی آنکھ کے لیے باعث شفا ہے امام احمدؒ نے اس کو روایت کیا ابو داؤد کے علاوہ سب اہل سنن نے بھی اس کو روایت کیا ہے ترمذیؒ نے اسے حسن "صحیح" کہا ابن کثیرؒ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خوالے سے لکھا ہے سلویٰ ایک پرندہ ہے جو ثمانی (بٹیر ) کے مشابہ ہے یہی بات ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جما عت نے بھی کہی ہے ۔عکرمہؒ نے کہا کہ وہ ایک چڑیا تھی جس طرح جنت کی چڑیا (کنجشک) ہو ۔قتادہؒ نے فر ما یا کہ وہ پرندہ سرخی مائل تھا مغربی ہوا اس کو لا تی تھی ۔وھب بن منبہ ؒ نے فر ما یا سلویٰ کبوتر کی طرح ایک پرندہ تھا ایک ہفتہ سے دوسرے ہفتہ تک کے لیے اس کو پکڑ رکھتے تھے وہ ایک سیل کے انداز میں ایک نیزہ بلند زمین پر گرتا تھا ۔سدیؒ نے فر ما یا :

جب بنی اسرائیل صحرا میں گئے تو موسیٰ ؑ سے کہا کھا نا کہاں ہے ؟اللہ نے من و سلویٰ نازل کیا۔ پھر کہا پانی کہاں ہےے؟ موسیٰؑ نے پتھر پر "عصاء" مارا بارہ چشمے جاری ہو گئے ۔پھر کہا سایہ کہاں ہے ؟بادل سایہ فگن ہو گیا ۔پھر کہا لباس کہاہے؟ کپڑا جسم پر عمر کے مطابق بڑھتا رہتا نہ پرانا ہو تا اور نہ ہی پھٹتا۔

آیت نمبر58 :

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَـٰذِهِ الْقَرْ‌يَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَ‌غَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ‌ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ: اور جب ہم نے (ان سے )کہا کہ اس گاؤں میں داخل ہو جا ؤ اور اس میں جہاں سے جی چا ہے اور جو دل مانے خوب کھا ؤ (پیؤ) اور دروازے میں سے داخل ہو تے وقت سجدہ کرو اور "حطہ" کہوں ہم تمھارے گناہ معاف کر دیں گے اور ہم نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے ۔

آیت نمبر59 :

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ‌ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِ‌جْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

ترجمہ : پس ظالموں نے اس لفظ کو جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا بدل دیا اور اس کی جگہ دوسرا لفظ کہنا شروع کر دیا پس ہم نے ظالموں پر انکی نافر مانیوں کے سبب آسمان سے عذاب نازل کیا۔

فرعون سے نجات پانے کے بعد میدان تہیہ (صحرائے سینا ) میں اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے پھنسے ہو ئے تھے سورہ المائدۃ میں اس کا بیان ہے ۔ پھر ایک ہی کھا نا کھا تے اکتا گئے انکو ایک شہر میں پہنچا یا اور حکم دیا کہ شہر کے دروازے میں سجدہ کرتے ہو ئے کہو حِطَّةٌ (اے اللہ ہمارے گناہ معاف کر دے ) بنی اسرائیل نے مذاق سے (حِطَّةٌ) کی جگہ (حنطة)"گند م "کا لفظ اختیار کیا اور سجدے کی بجا ئے بیٹھ کر آگے بڑھنے لگے شہر میں داخل ہو نے کے بعد ان پر طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ۔

اور دوپہر ہو نے تک ستر ہزار آدمی لقمہ اجل بن گئے ابن کثیرؒ نے فر ما یا :کہ اس آیت میں موسیٰؑ کے ان ساتھیوں کے لیے ملا مت ہے جو مصر سے ان کے ساتھ نکلے تھے انہیں حکم ہوا تھا کہ تم ارض مقدس (بیت المقدس ) میں جا ؤ ۔وہ تمھارے باپ اسرائیل کی میراث ہے وہاں جو کفار عمالیق رہتے ہیں ان کے خلا ف جہاد کر کے انہیں وہاں سے نکا ل دو مگر انھوں نے پس و پیش کی ہمت ہار دی اس پر اللہ نے سزا کے طور پر انہیں میدان تہیہ میں پھینک دیا ۔

ارض مقدس کی تحقیق :

صحیح ترین قول یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو بیت المقدس شہر میں داخل ہو نے کا حکم دیا گیا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔

يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْ‌ضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَرْ‌تَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِ‌كُمْ

ترجمہ: اے قوم تم ارض مقدس میں جسے اللہ نے تمھارے لئے لکھ رکھا ہے داخل ہو جا ؤ اور (دیکھنا مقابلے کے وقت ) پیٹھ نہ پھیر دینا ۔

1۔ایک قول یہ بھی کہ وہ شہر اریحا"قریہ جبارین " تھا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد الرحمن بن زید کا یہی قول ہے مگر ابن کثیرؒ کہتے ہیں کہ یہ با ت سیاق و سباق سے بعید ہے اس لیے کہ بنی اسرا ئیل بیت المقدس کے ارادے ہی سے نکلے تھے ۔"اریحا "بیت المقدس کے قریب زیر یں علاقہ میں ایک بستی ہے ۔

2۔ایک قول یہ ہے کہ وہ شہر یا بستی "مصر "تھا ابن کثیرؒ نے اس کو بھی رد کیا ہے ۔

امام رازیؒ نے بیت المقدس کو ہی صحیح قرار دیا ہے کیونکہ جب یوشع بن نون کے ساتھ چالیس سال بعد بنی اسرائیل میدان تہیہ سے نکلے اللہ نے انکو فتح دی جمعہ کے روز تھوڑی دیر کے لیے تیسرے پہر سورج کو روک دیا گیا یہاں تک کہ انہیں فتح حاصل ہو گئی ۔تو انہیں اسوقت یہ حکم ملا کہ شہر کے دروازے سے سجدہ کرتے ہو ئے شہر میں داخل ہو جا ؤ اور یہ سجدہ اللہ کی طرف سے حصول فتح و نصرت کے لیے تھا جس نے کہا کہ اس سے مراد شہر "اریحا" ہے اس کا مطلب یہ تھا کہ جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ کیونکہ اس شہر کے ساتھ دروازے تھے ۔

قاضی بیضاوی کا خیال ہے کہ یہ ملک شام کی بات ہے لیکن جمہور مفسرین نے بیت المقدس کو ہی ترجیح دی ہے ۔

سجدے کی نوعیت :

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا سجدے سے اس جگہ رکوع مراد ہے ۔ حسن بصریؒ نے کہا سجدہ مراد ہے مگر امام رازیؒ نے اس کی تائید نہیں کی بعض نے کہا اس جگہ سجدے سے مراد خضوع ہے کیونکہ حقیقی سجدے کے معنی نہیں بنتے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا کہ یہ دروازہ قبلہ رخ تھا بعض نے کہا "باب " سے مراد "قبلہ کی طرف " تھی بعض نے کہا وہ جگہ جوا بن تک "باب حطتہ"کے نام سے معروف ہے ۔بعض نے کہا "باب قبہ" مراد ہے جس طرف موسیٰؑ اور بنی اسرائیل نماز پڑھتے تھے ۔ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ حطۃاور سجدے کا حکم دراصل عاجزی و خاکساری کے اظہار کے لیے تھا تا کہ قول و عمل کے ذریعے اپنے تصور کا اقرار و اعتراف کر کے مغفرت کی دعا کریں اللہ کی نصرت کا شکر بجا لا ئیں کیونکہ اللہ کو ایسے کا م محبوب ہیں جس طرح فر ما یا :

إِذَا جَاءَ نَصْرُ‌ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ ﴿١﴾ وَرَ‌أَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا ﴿٢﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَ‌بِّكَ وَاسْتَغْفِرْ‌هُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا

ترجمہ: جب اللہ کی مدد آپہنچی اور فتح (حاصل ہو گئی) اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ غول کے غول اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں ۔تو اپنے پروردیگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اس سے مغفرت مانگو بیشک وہ معاف کرنیوالا ہے ۔"

اس سورت کی تفسیر میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا یہ فر مان ہے کہ مراد فتح و نصرت کے وقت کثرت ذکر و استغفار ہے ۔مگر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فر ما ن ہے کہ اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر دی گئی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی نقطہ نظر ہے ۔ لیکن ان دونوں اقوال میں کو ئی اختلا ف نہیں اس لیے کہ پہلے ذکر و استغفار کا حکم دیا پھر ساتھ ہی انتقال کی خبر بھی دے دی رسول اکرم ؤ کی عادت طیبہ یہ تھی کہ جب فتح ہو تی تو بہت زیادہ خشوع وخضوع کرتے ۔فتح مکہ کے روز ثنیہ علیا سے شہر میں داخل ہو ئے تو بہت متواضع تھے پھر غسل کر کے آٹھ رکعتیں نماز پڑھی ۔

بعض نے کہا چاشت کی نماز تھی بعض نے کہا فتح کا شکرانہ تھا اس لیے امیر و امام کے لیے مستحب ہے کہ جب کو ئی شہر فتح کرے تو شہر میں داخل ہو نے کے بعد فوراً آٹھ رکعت نماز پڑھے ۔سعد بن ابی وقاص نے ایسا ہی کیا جب وہ ایوان کسریٰ میں پہنچے تو آٹھ رکعت نماز ادا کی صحیح یہ ہے کہ یہ نماز دو دو رکعت کر کے پڑھے ۔ایک قول یہ بھی ہے کہ ساری نمازکے بعد ایک ہی سلام پھیرے ۔واللہ اعلم ۔

بخاری شریف میں ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے کہ جب بنی اسرا ئیل سے کہا گیا کہ تم دروازے سے سجدہ کرتے ہو ئے (حِطَّةٌ) کہہ کر داخل ہو تو یہ گھسیٹتے ہو ئے داخل ہو ئے (حِطَّةٌ)کی بجا ئے (حجة في شعرة) کہا ابن اسحق نے روایت کیا ہے کہ انھوں نے حطتہ کی بجائے (حنطة حمراء فيها شعرة) کہا براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عازب سے روایت ہے کہ (حنطة فيها حمرا شعرة) کہا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا (حطا'سماسا'ازبة مذبا) اس کے عربی الفاظ اس طرح ہیں (حبة حنطة حمراء مثقوبة فيها شعرة سوداء)

مفسرین کے ان اقوال کا نچوڑ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں حکم دیا تھا کہ قول و فعل دونوں میں عاجزی و خاکساری کا اظہار کریں انھوں نے قول و فعل دونوں میں نافرمانی کی اس بے ادبی اور گستاخی پر اللہ کا ن پر عذاب نازل ہو ا جیسے قرآن میں ہے ۔

فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِ‌جْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

ترجمہ: کہ ہم ان پر فسق و فجور کے سبب آسمان سے عذاب نازل کیا "

لفظ "رِجَز "کی تحقیق :

ثابت ہو اکہ نزول عذاب کا سبب نافر ما نی ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فر ما ن ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں لفظ"رِجَز "آیا ہے اس سے مراد عذاب ہے ۔مجاہد ابو مالکؒ اور سدیؒ نے بھی اس قول کی تا ئید کی ہے ابو العالیہ کا قول ہے کہ "رِجَز "غضب کے معنوں میں آیا ہے شعبی ؒنے "رِجَز" سے طاعون مراد لیا ہے ۔ حدیث سعد ؒ اسامہ ؒ خزیمہ ؒ مرفوعاً آیا ہے کہ طاعون رِجَز ہے ۔

یہ عذاب تھا جو اللہ نے تم سے پہلے لو گو ں پر اتارا تھا ۔اسے ابی حاتم اور نسائی نے رو ایت کیا ہے اسامہ بن زیدؒ سے ایک دوسری روایت مرفوعاً یہ آتی ہے کہ درد و تکلیف اور بیماری "رِجَز " ہے تم سے پہلے اُمتوں پر یہ عذاب آیا تھا اسے ابن جریر نے روا یت کیا ہے ۔

(ف)

اہل علم کا خیال ہے کہ اس آیت میں دلیل ہے کہ منصوص اقوال کا بدلنا جائز نہیں بلکہ انکے اتباع کی خصوصی ہدا یت ہے ۔امام رازیؒ فرما ن ہے کہ توقیفی (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہو ئی ترتیب) اذکار و اقوال کا بدلنا جا ئز نہیں ۔۔۔

میں کہتا ہوں کہ جب سے متاخرین نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اور نصوص قرآنی کو چھوڑ کر مسائل و احکام بیان کرنے میں اپنے تراشیدہ الفا ظ و عبادات کو اختیار کیا ہے تب سے اہل اسلام میں اختلاف رونما ہوا ہے ۔اگر کتاب و سن کی نصوص کا من و عن احاطہ کرتے تو تقلید و اتباع رائے وغیرہ کی خرابی پیش نہ آتی ۔امام غزالی ؒ" احیاء العلوم " میں کئی الفاظ ایسے لکھتے ہیں جن کے معنی سلف کے نزدیک کچھ اور تھے ۔پھر اصطلاح خلف میں وہ الفاظ بدل کر کچھ اور معنی اختیار کیے گئے ۔مثلاً فقہ ،صدر اول میں فقہیہ اسے کہتے تھے جو دنیا سے بے رغبت اور آخرت کی طرف راغب ہو تا تھا اب فقیہہ وہ ہے جسے خریدو فروخت ،نکاح اور ایجارہ وغیرہ کے مسائل معلوم ہوں کتب فروغ سے ایسے مسائل نکال کر بتا سکے ۔بہر حال اللہ تعا لیٰ نے بات بد لنے والوں کو ظالم فاسق کہا ان پر عذاب اتارا ۔اب بھی یہی دیکھا گیا ہے کہ جب کسی بستی اور شہر میں فسق و فجور کی کثرت ہو تی ہے تو وہاں سے وبا آتی ہے سینکڑوں ہزروں کو برباد کر جا تی ہے یہ وبا "رِجَز" ہے کسی جگہ قحط پڑتا ہے کسی جگہ زلزلہ آتا ہے کہیں شکلیں مسخ ہو جا تی ہیں کہیں زمین دھنس جا تی ہے کسی جگہ سیلا ب و طوفان تباہی لا تا ہے کسی طاعون کی وبا پھوٹتی ہے ۔

کہتے ہیں کہ اس "رجز " میں جو بنی اسرا ئیل پر نازل ہوا ایک ہی وقت میں ستر ہزار آدمی مارے گئے ۔یہ "رجز" میدان تیہ میں نازل ہو نے والے عذاب سے الگ تھا سورۃ اعراف میں بجا ئے (يَفْسُقُونَ کی تُظْلَمُونَ) فر ما یا ۔معلوم ہوا کہ وہ جا مع ہر دو وصف تھے ۔

آیت نمبر 60 :

وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِ‌ب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ‌ ۖ فَانفَجَرَ‌تْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَ‌ةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَ‌بَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَ‌بُوا مِن رِّ‌زْقِ اللَّـهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْ‌ضِ مُفْسِدِينَ

ترجمہ :اور جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کے لیے (اللہ تعا لیٰ سے ) پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لا ٹھی پتھر پر مارو (انھوں نے لا ٹھی ماری) تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر (کے پانی پی ) لیا (ہم نے حکم دیا کہ ) اللہ کی (عطا فر ما ئی ہو ئی ) روزی کھا ؤ اور پیؤ مگر زمین میں فساد نہ کرتے پھرنا۔

میدان تہیہ میں جب حیران و پریشان پھرتے تھے پانی میسر نہ تھا تو ایک پتھر سے بارہ چشمے نکلے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے کسی میں لو گ زیادہ تھے اور کسی میں کم ۔۔۔ہر قبیلے کی تعداد کے مطابق ایک چشمہ تھا اس کو پہچان لیا جب لشکر کو چ کرتا تو وہ پتھر ساتھ اٹھا لیتے جب پڑاؤ ہو تا تو رکھ لیتے کہا گیا ہے کہ یہ گزدوگز کمبا نرم پتھر تھا بعض نے کہا آدمی کے سر کے برابر تھا بعض نے کہا گا ئے کے سر کے برابر تھا بعض کا خیال ہے یہ حضرت موسیٰؑ کے قد کے برابر دس گز لمبا جنت کا پتھر تھا اس کی دو شاخیں تھیں جو رات کو اندھیرے میں چمکتی تھیں وہ پتھر گدھے یا گا ئے پر لادا جا تا تھا بعض نے کہا وہ پتھر آدمؑ کے ساتھ آیا تھا ۔شعیب ؑ کو ورثے میں ملا تھا انھوں نے حضرت موسیؑ کو عصاء (لاٹھی) کے ساتھ دیا تھا بعض کا خیال ہے یہ وہ پتھر تھا جو حضرت موسیٰؑ کے کپڑے لیکر بھا گا تھا جبرائیل نے ان سے کہا تھا تم اس پتھر کو اٹھا لو اس میں اللہ کی قدرت ہے تمھا رے لیے معجزہ ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ پتھر چوکور تھا ہر جانب سے تین تین چشمے بہتے ۔یہ حدیث الفتون میں ہے نسائی نے اس کو روایت کیا ہے ابن کثیرؒ کا فرمان ہے یہ قصہ سورہ اعراف کے مشابہ ہے فرق صرف یہ ہے کہ وہ مکی سورت ہے اور یہ مدنی ہے وہاں ضمیر غائب کی ہے یہاں خطاب کی ۔ وہاں فر ما یا (نکلا بہا) یہاں (فَانفَجَرَ‌تْ)(پھوٹابہا ) کہا ۔ان دونوں سیاق میں دس وجہ فرق ہے جس کا ذکر کشا ف میں ہے لیکن مطلب ایک دوسرے کے قریب ہے اس آیت میں بنی اسرا ئیل کو منع کیا کہ تم زمین میں فساد نہ کرتے پھرو ۔پہلے انہیں ظالم فاسق کہا تھا اب گو یا مفسد بھی ٹھہرا دیا ۔جو لو گ مفسد نہیں ہو تے ان کی لیے آخرت میں اچھائی کا وعدہ ہے ۔

تِلْكَ الدَّارُ‌ الْآخِرَ‌ةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِ‌يدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ

ترجمہ:وہ جو آخرت کا گھر ہے ہم نے اسے ان لوگوں کے لیے تیار کر رکھا ہے جو زمین میں ظلم و فساد کا ارادہ نہیں رکھتے اور نیک انجام تو پر ہیز گاروں ہی کا ہے ۔"جس کسی شخص میں ظلم ،فسق و فساد جمع ہو جا ئیں جن لو کہ وہ بنی اسرا ئیل کی ما نند ہے اس کا انجام بھی انہیں کا سا ہو گا ۔اللهم احفظنا

موسیٰؑ کا عصاء جس سے پتھر کو مارا تھا درخت "آس" کا تھا آدمؑ کے ساتھ جنت سے آیا تھا دس گز لمبا تھا موسیٰؑ کے قد کے برابر تھا اس کا نا م علیق یا نبغہ تھا ۔بارہ قبیلوں کی تعداد چھ لا کھ تھی انکا پڑاؤ بارہ کو س (20کلو میٹر تقریباً) ہو تا تھا یہ موسیٰؑ کا بڑا معجزہ ہے کہ ایک چھوٹے سے پتھرسے چھ لا کھ آدمیوں پانی ملتا تھا ۔مگر ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اس سے بھی بڑا ہے کہ دو انگلیوں کے در میان سے اتنا پانی نکلا کہ ایک جم غفیر سیراب ہوا ۔

آیت نمبر61:

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ‌ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَ‌بَّكَ يُخْرِ‌جْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْ‌ضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ‌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرً‌ا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِ‌بَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُ‌ونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ‌ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ

ترجمہ: اور جب تم نے کہا اے موسیٰؑ ہم سے ایک ہی کھانے پر صبر نہیں ہو سکتا آپ اپنے پرور دیگار سے دعا کیجئے کہ تر کاری ککڑی اور گیہوں ،مسور اور پیاز وغیرہ جو نباتا ت زمین سے اگتی ہیں ہما رے لیے پیدا کرے موسیٰؑ نے کہا بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے بدلے ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو ( اگر یہی چیزیں مطلوب ہیں ) تو کسی شہر میں جا اترو وہاں جو مانگتے ہو مل جا ئے گا اور آخر کا ر ذلت و رسوائی اور محتاجی و بے نوائی ان پر مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گرفتا ہو ئے یہ اس سبب سے ہے کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور انبیاؑ ء کو ناحق قتل کردیتے تھے اور یہ عذاب اس لیے بھی تھا کہ انھوں نے نافر ما نی کی اور حد سے آگے بڑھ گئے ۔حسن بصریؒ نے کہا انہیں اپنا پہلا عیش و عشرت یا د آیا ایک کھا نا من و سلویٰ کی صورت میں ملتا تھا اس پر صا بر نہ ہوئے ۔

فوم کو ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ثوم پڑھا ہے ثوم کہتے ہیں لہسن کو سلف کی ایک جما عت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجاہدؒ اور حسن کا بھی یہی قول ہے ۔ث کی جگہ فکا حرف استعمال ہوا بعض نے کہا فوم گیہوں (گندم ) کو کہتے ہیں ۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بنی ہاشم کی زبان میں فوم (حنطة) کے لیے استعمال ہو تا ہے ۔مجاہد ؒ اور عطاءؒ نے کہا فوم سے مراد خبز(روٹی)قدیم لغت میں (فوموا) بمعنی (اختبزوا) (روٹی کھا ؤ) آیا ہے ۔جو ہری نے بھی فوم کا تر جمہ (حنطة) کیا ہے ۔ابن درید نے (سنبلة) (خوشہ) گردانا ہے قتادۃ ؒ نے فر ما یا جس دانے کی رو ٹی پکا ؤ وہی فوم ہے بعض کا قول ہے شامی لغت میں فوم چنے کو کہتے ہیں چنے فروش کو فا می یا فومی کہتے ہیں امام بخاری ؒ نے کہا ایک خیال یہ بھی ہے کہ کھا ئے جا نے والے سب دانے فوم کہلا تے ہیں جس روئیدگی کی بیل نہ چلے اس کو ساگ کہتے ہیں کشاف میں ہے زمین سے جو سبزہ اگتا ہے اسے بقل بو لتے ہیں بنی اسرائیل کی مراد اس سے اچھے پاکیزہ ساگ (سبزیاں ) تھے یہ چیزیں اس لیے مانگیں کہ جنگل میں پڑے پڑے اکتا گئے تھے اس بہانے سے شہر میں جا نا چا ہا ۔ یہ جو فر ما یا کہ شہر کو جا ؤ یہ بطور اہانت و تذلیل کے تھا اس لیے جنگ میں راستہ مسدود تھا کسی راستے سے شہر نہ جا سکتے تھے اگر راستہ ڈھونڈ

پاتے تو چالیس برس تہیہ میں حیرا ن و پریشان زند گی بسر نہ کرتے یہ بھی ثابت ہو اکہ اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ کو اختیار کرنا حماقت و جہالت کی دلیل ہے ایسی تبدیلی انجام کار نقصان و خسران کا باعث بنتی ہے کتاب و سنت خیر محض ہیں رائے و قیاس ادنیٰ ہیں جو لوگ ادنیٰ کو لیتے ہیں خیر کو چھوڑ تے بلندی سے پستی کی طرف آتے ہیں ابن کثیرؒ نے لکھا ہے ذلت خواری اور محتاجی انکا مقدر بن گئی تھی جس نے ان کو پایا ذلیل و خوار کیا ۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فر ما ن ہے کہ وہ اصحاب قبالات (جزیہ دینے والے ) ہیں یہ ان کی ذلت و مسکنت کی دلیل ہے حسن و قتادہؒ نے کہا وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیتے تھے اللہ نے ان کو خوار کر دیا ہے ان کی کو ئی قوت باقی نہ رہی مسلما نوں کے ہاتھوں پامال ہو ئے جب اس اُمت نے انکو پا یا تو وہ مجوس کے جزیہ گزار تھے سدیؒ نے کہا مسکنت سے مراد افاقہ کشی ہے عطیہ عونی نے کہا خراج ہے ضحاک ؒ نے کہا جزیہ ہے شو کا نی نے کہا یہ جو اللہ نے خبر دی سب زمانوں میں نظر آتی ہے یہود سے زیادہ ذلیل و خوار اور محتاج و فقیر کو ئی فرقہ نہیں ۔کسی جگہ کہیں بھی انہیں شوکت و جمعیت نہ ملی ہر زمانے میں جہاں رہے غلاموں کی طرح رہے اتفاقاً اگر ان میں کو ئی مالدار بھی ہو تا ہے تو وہ محتاجی و فقیری ظاہر کرتا ہے تا کہ اس کے مال میں کسی کو طمع نہ ہو ۔خواہ اس طرح کہ ان پر جزیہ بڑھا دے یا اس طرح کہ بطور ظلم ان کا مال چھین لے غرضیکہ ساری قوموں میں ان سے بڑھ کر نہ کو ئی ذلیل ہے اور نہ مال کا حریص ۔گویا سب کے سب فقراء و گدا ہیں اگرچہ آسودہ حال کیوں نہ ہوں

ضحاکؒ نے کہا (وَبَاءُوا بِغَضَبٍ) کا مطلب ہے کہ اللہ کے غضب کے مستحق تھہرے یہ اسزا انہیں اس لیے ہو ئی کہ انھوں نے اتباع حق سے تکبر کیا اللہ کی آیتوں کا انکار کیا انبیاءؑ کو معہ انکے پیروکاروں کے خوار کیا حتی کہ انہیں قتل کر دیا اس سے بڑھ کر اور کیا کفر ہو گا ۔حدیث میں ہے کبر کہتے ہیں رد حق اور انسانی تحقیر کو ۔یعنی اپنے آپ کو بڑا ٹھہرا نا اوروں کو ذلیل سمجھنا اور حق کا انکار کرنا بنی اسرا ئیل نے جب یہ کا م کئے اللہ نے ان پر عذاب نازل کیا دنیا میں ذلیل و خوار کیا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فر ما ن ہے بنی اسرا ئیل ایک ایک دن میں اول وقت میں تین تین سو انبیاؑء کو قتل کرتے تھے تیسرے پہر کو سبزی ترکاری کا کاروبار کرتے ۔شعاء ،زکریا اور یحییٰ ؑ کو انہیں نے قتل کیا حدیث ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیا دہ سخت عذاب اس آدمی کو ہو گا جسے کسی نبی نے قتل کیا یا جس نے کسی نبی کو قتل کیا یا گمرا ہی میں امام مانا جا تا تھا ۔اسے احمد نے روا یت کیا ہے عصیا ن کہتے ہیں منع کئے گئے کام کو کرنا اور اعتداء کہتے ہیں حد سے آگے بڑھ جا نے کو اس قوم میں یہ دونوں وصف تھے ۔

آیت نمبر٦٢:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَ‌ىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُ‌هُمْ عِندَ رَ‌بِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

ترجمہ :بے شک جو لوگ مسلما ن ہیں یا یہودی یا عیسا ئی یا ستارہ پرست (یعنی کو ئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو ) جو اللہ اور روز قیامت پر ایمان لا ئے گا اور نیک عمل کرے گا تو انکو انکے اعمال کا اللہ کے ہاں صلہ ملے گا (اور قیامت کے دن )ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہو ں گے اجرو ثواب کسی خاص فرقے کے لیے موقوف نہیں بلکہ اللہ پر یقین لا نا اور نیک مل کرنا شرط ہے جس آدمی نے جس دور اور جس زمانے میں اور زمانے میں جہاں نیک عمل کیا اس نے ثواب پا یا بنی اسرا ئیل کو گھمنڈ تھا کہ وہ پیغمبروں کی اولاد ہیں اور ہر طرح اللہ کے قریب ہیں ۔

نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ

حضرت موسیٰ کی اُمت یہود کہلاتی ہے ۔ نصاریٰ حضرت عیسیٰ کی امت کا نا م ہے اور صائبین ایک فرقہ تھا جو حضرت ابرا ہیم ؑ کو مانتا تھا ابن کثیرؒ کہتے ہیں اللہ نے اس فرقے کا حال بیان کردیا جس نے اللہ کی نافر ما نی کی زواجر کا مر تکب ہوا محارم کو جا ئز قرار دیا تو اس بات پر آگاہ کیا گیا کہ گزاشتہ اُمتوں میں سے جنہوں نے نیک عمل کئے ان کو اچھا بدلہ ملے گا ۔یہی حکم تا قیام قیامت قائم ہے ۔ جو بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے گا اس کے لیے سعادت ابدی ہے نہ اس کو آئند کچھ ڈر ہے اور نہ کسی چیز کے فوت ہو جانے پر کچھ غم ہے ۔

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

ترجمہ :جان لو جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غماناک ہو ں گے ۔

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَ‌بُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُ‌وا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ

ترجمہ : جن لوگو ں نے کہا ہمارا پروردیگار اللہ ہے ہے پھر وہ اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اتریں گے (اور کہیں گے نہ خوف کرو اور نہ غمناک ہو اور جس جنت کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے اس کی خوشی منا ؤ ۔"

حضرت سلمان نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لوگوں کے دین کے بارے میں پوچھا جن کے وہ ہمراہ رہتے تھے اور انکی نماز و عبادت کا ذکر بھی کیا تو اس پر یہ آیت اتری (ابن حاتم نے اسکوروایت کیا ہے ) سدیؒ نے فر ما یا یہ آیت حضرت سلما فارسی کے ساتھیوں کے حق میں نازل ہو ئی ۔یہودیوں کا یمان تھا کہ سنت موسوی اور تورات کی پیروی لا زمی ہے جب عیسیٰ ؑ آئے تو جس کسی نے تو را ت اور سنت موسوی کو چھوڑ کر اتناع نہ کیا وہ ہلا ک ہوا ۔

نصاریٰ کا ایمان تھا کہ انجیل اور حضرت عیسیٰ ؑ کی شریعت پر عمل ہو نا چا ہیے مگر جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا ئے تو جس کسی نے انجیل اور عیسوی شریعت چھوڑ کر آپ کا تباع نہ کیا وہ ہلا ک ہوا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اس کے بعد یہ آیت اتری ۔

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ‌ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ

"اور جو شخص اسلام کے سواکسی اور دین کا طا لب ہو گا وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جا ئے گا ۔اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہو گا ۔"

ثابت ہوا کہ کسی شخص سے کو ئی عمل یا طریقہ مقبول نہیں ہے جب تک کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے موا فق نہ ہو ۔ہاں آپ کی بعث سے پہلے جس نے اپنے زمانے کے رسول کا اتباع کیا وہ طریق ہدایت اور سبیل نجات پر تھا اس آیت میں فقط اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لا نے کا ذکر ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں یہ اس لیے کہ اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کو شخص اللہ اور یو م آخرت پر ایمان نہیں لا سکتا ۔اللہ پر وہی آدمی ایمان لا ئے گا جو پہلے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکا ہو گا ۔بعض نے کہا (إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا) سے مراد منافقین ہیں اس لیے کہ ان کا ذکر ان تینوں فرقوں کے ساتھ کیا گیا ہے اولیٰ یہی ہے کہ یہاں (آمَنُوا) سے مراد سچے مومنین ہی ہیں گو یا اللہ نے اس اُمت اور پہلی اُمتوں کا حال بیان فر ما یا ہے کہ مرجع ان سب کا اسی ایک حکم کی طرف ہے کہ اللہ اور یو م آخرت پر ایمان لا ئیں اور عمل صالح کریں ایمان سے مراد وہی ہے جو حدیث جبرائیل میں آیا ہے ۔

أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ , وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُ‌سُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌, وَ تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ

سوایمان اسی کو ملتا ہے جو ملت اسلامیہ میں داخل ہو تا ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لا یا قرآن کو نہ ما نا وہ ہر گز مومن نہیں ہے ۔جس نے ان دونوں کو نہ مانا وہ مسلما ن نہیں ایمان دار ہوا نہ یہودی رہا نہ نصرانی نہ مجوسی "یہود " یہوذبن یعقوبؑ کی اولاد کو کہتے ہیں ۔"ذال "دال "میں بدل گئی ہے یا تہوذ سے مشتق ہے تہود کا معنی تو بہ کرنا ہے جیسے قرآن میں ہے

إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ اي تبنایا تہود کہتے ہیں ہلنے کو یہودی توراۃ کی تلاوت کے وقت ہلتے تھے جس طرح بچے مکتب میں سبق پڑھتے وقت ہلا کرتے ہیں جب عیسیٰؑ آئے تو ان پر ان کی تابعداری واجب ہو ئی جنہوں نے انکادین قبول کیا وہ نصار یٰ کہلا ئے انہیں انصار بھی کہتے ہیں ۔جیسے قرآن میں ہے۔

قَالَ الْحَوَارِ‌يُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ‌ اللَّـهِ

یا اس لیے نصاریٰ کہلا ئے کہ نا صرہ نا می بستی میں آکر آباد ہو ئے پس جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا ئے تو تمام بنی آدم جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم بن کر آئے ان پر ان کی تصدیق فرض ہو ئی جنہوں نے آپ کو ما نا وہ سچے مومن کہلا ئے امت محمد یہ کا نا م مومنین ٹھہرا اس لیے کہ اس اُمت کا ایمان زیادہ ہے تصدیق نہایت شدید ہے کیونکہ یہ سارے پہلے انبیاء پر ایمان لا ئے ہیں آئندہ کے غیوب پر یقین رکھتے ہیں ۔جہاں تک صائبین کا معاملہ ہے وہ یہود و نصاریٰ اور مجوس کے اندر ہی ایک گرو ہ تھا ان کا کو ئی دین نہیں تھا لامذہب تھے ایک جماعت سلف کا قول ہے وہ اہل کتاب کا ایک فرقہ جو زبور پڑھتے تھے اسی لیے امام ابو حنیفہ ؒ اور اسحق ؒ کہتے ہیں ان کا ذبیحہ حلال ہے ان کی عورتوں سے نکا ح درست ہے حسن نے کہا یہ مجوس کی طرح تھے دوسراخیال یہ بھی ہے کہ یہ فرشتوں کو پوجتے تھے زیا د ؒ نے کہا وہ قبلہ رو ہو کر پنجگانہ نما ز پڑھتے تھے ۔ابو الزناد نے کہا عرا2ق کے متصل بستی "کو ثی" میں رہتے تھے سب نبیوں کو مانتے تھے تیس روزے رکھتے یمن کی طرف منہ کر کے نما ز پنجگا نہ پڑھتے وہب بن منبہؒ نے کہا صابی وہ شخص ہے جو نہ موحد ہو نہ کفر کرے اور نہ کسی شریعت پر چلے ابن زید نے کہا کہ جزیرہ موصل میں رہنے والوں کا دین تھا ۔کلمہ" لاالہ الااللہ " کہتے نہ عمل کرتے نہ کسی کتاب پر ایمان لا تے نہ رسول کو مانتے فقط یہی کلمہ کہتے اسی لیے مشرکو ں نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو صائبین کہہ دیا تھا ۔خلیل ؒ نے کہا وہ ایک فرقہ تھا انکا دین نصاریٰ سے ملتا جلتا تھا انکا قبلہ باد جنوب کی طرف تھا ان کو یہ گمان تھا کہ " حضرت نوح" کے دین پر ہیں ۔مجاہد ؒ نے فر ما یا ان کا دین یہود اور مجوس سے مل کر بنا ہے اس لیے نہ ان کا ذبیحہ جا ئز ہے اور نہ نکا ح کرنا قرطبیؒ نے فر ما یا وہ موحد تھے مگر ستوروں کی تا ثیر کے قائل تھے ستاروں کو فاعل مانتے تھے اس لیے خلیفہ قادر باللہ کے استفسار پر ابو سعید اصطغری نے ان کے کفر کا فتویٰ دیا تھا رازی ؒ کا مذہب یہ ہے کہ یہ ستارہ پرست تھے ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ نے ستاروں کو قبلہ عبادت و دعا ٹھہرا یا ہے یا اس دنیا کی تدبیر ان کو سونپی ہے پھر کہا یہ قول کثراسین کی طرف منسوب ہے جن کے ردوابطال کے لیے حضرت ابرا ہیمؑ آئے تھے ابن کثیرؒ فر ما تے ہیں سب سے زیادہ ترجیحی قول مجاہدؒ وابن منبہؒ کا ہے کہ وہ نہ یہود و نصاریٰ کے دین پر تھے نہ مجوس و مشرکین کے دین پر بلکہ اپنی فطرت پر باقی تھے انکا کو ئی دین نہ تھا اس لیے مشرک لوگ مسلمانوں کو صابی کہتے تھے یعنی سارے اہل ارض کے سب ادیان سے باہر اور مختلف

ع۔ہم طرز جنوں اور ہی ایجا د کریں گے

بعض علماء کا خیال ہے کہ صائبین وہ ہیں جنہیں کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی بعض نے کہا وہ صابی بن شیث بن آدم کے دن پر تھے (واللہ اعلم )