امام بخاریؒ اور الجامع الصحیح
حضرت مولانا مفتی محمد عبد ۃ الفلاح صاحب کی شخصیت جماعتی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ۔آپ الابر علماء میں سے ہیں آپ نے جہاں قریباً نصف صدی وطن عزیز کے اہم جامعات و مدارس کو اپنی تدریسی خدمات سے سر فراز فر ما یا وہاں آپ کی تسنیفی و تا لیفی خدمات بھی ملت کے علمی سر ما ئے میں گرا نقد ر اضافے کا مو جب بنیں پاکستان بھر میں آپ کے فیض یا فتہ علماء کی ایک بڑی تعداد دینی خدمات میں مصروف ہے تدریس کے میدان میں تو آپ یگانہ روز گا ر شخصیت ہیں ۔دوران تعلیم مشکل سے مشکل عبارتوں اور مسائل کو عام فہم انداز میں حل کر دینا آپ کی تدریس کاا متیازی وصف رہا ہے آپ معروف مدارس میں سالہا سال تک شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے ہیں تدریس کے ساتھ تصنیف و تا لیف میں بھی آپ نے بھر پور حصہ لیا تصنیف و تحقیق کے میدان میں آپ کے رشحات فکر علم و تحقیق کے شائقین کی الجھنوں کو رفع کرنے کا باعث بنتے رہے حضرت کی بڑی تصانیف میں قرآن کریم کی فتسیر موسوم باشرف الحواشی اور امام راغب کی المفردات کا اردو ترجمہ مع حواشی شامل ہیں کتاب احکام الجنائز میں آپ نے مسا ئل جنا زہ پر سیر حاصل بحث کی ہے آپ علم حدیث سے خصوصی شغف رکھتے ہیں آپ کی تحریر محققا نہ اسلوب میں ڈھلی ہو ئی ہے فن حدیث میں آپ نے گرا نقدر تصنیفی خدمات بھی انجام دی ہیں جن میں مراسیل ابی داؤد کو مسند بنا کر اسکی تخریج و تحقیق بھی شامل ہے موجودہ دور میں ذوق حدیث روبہ زوال ہے ان حالات میں آپ جیسے استاذ علم کی نگا ر شات علماء و طلبا کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہیں زیر نظر مضمون موصوف کا طویل و عریض مقالہ ہے جو امیرا لمومنین فی الحدیث امام بخاری کی علمی زندگی کے تعارف اور ان کی جا مع صحیح سے متعلقہ علمی مبا حث کا خزانہ ہے امید ہے قارئین محدث اس سے بھر پور استفادہ کریں گے ان شا اللہ ۔(ادارہ )
ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابرا ہیم بن المغیر ۃ بن بروزبہ ۔ البخاری
194ھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔256ھ
ان اوراق میں ہم اولاً امام المحدثین کی علمی زندگی کا مختصر سا خاکہ پیش کریں گے اس کے بعد "الجامع الصحیح "کا تعارف اس کی فنی اور فقہی اہمیت کو واضح کریں گے فقہاء وافاضل کی نظر میں اس کی قدر و قیمت کیا ہے ؟یہ مقالہ "الجامع الصحیح " کے جملہ پہلوؤں پر حادی ہو گا اور اس کی دراست میں علمی فوائد کو مو ضوع بحث بنا یا جا ئے گا ۔
امام بخاری کی علمی زندگی :
تمام مآخذ اور مراجع اس پر متفق ہیں کہ امام بخاری ایک علمی گھرانے کے چشم و چرا غ تھے امام المحدثین کے والد گرا می امام اسماعیل بن ابرا ہیم ممتاز محدث اور صاحب اسناد تھے انھوں نے امام مالکؒ سے حدث کا سماع کیا حماد بن زید سے شرف روایت حاصل ہوا ور امام عبد اللہ بن مبا رک کے ساتھ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کی نسبت حاصل کی ابن حبا ن کتاب الثقات میں لکھتے ہیں اور ابن ابی حاتم وراق البخاری نے بھی "کتاب شمائل البخاری" میں تصریح کی ہے :
إسماعيل بن إبراهيم والد البخاري , يروي عن : حماد بن زيد , ومالك , روى عنه : العراقيون
حافظ ابن حجر اس پر اضافہ کرتے ہیں :
رواه عنه يحيٰ بن جعفر ابيكندي وغيره
"آپ سے یحییٰ بن جعفر بیکندی وغیرہ نے روا یت کی ہے "یہ یحییٰ بن جعفر امام عبد الرزا ق کے تلا مذہ سے تھے اور انھوں نے امام عبد الرزاق کی کتابیں جمع کی تھیں امام بخاری نے امام عبد الرزاق کی کتابیں انہی سے حاصل کی تھیں مشہور ہے کہ جب امام بخاری نے بصرہ سے یمن جا نے کا ارادہ کیا تا کہ عبد الرزاق سے سماع کرتو بیکندی نے امام بخاری کو بتا یا کہ عبد الرزاق فوت ہو چکے ہیں اس پر امام بخاری نے یمن کا سفر چھوڑ دیا حالانکہ امام عبد الرزاق زندہ تھے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :یحییٰ بن جعفر فی نفسہ ثقہ ہیں ان کو غلط خبر پہنچی تھی جو انھوں نے شائع کردی مولانا عبد الالسلام مبارکپوری "سیرت بخاری" صفحہ نمبر 41میں مزید لکھتے ہیں ۔"اھل عراق ،احمد بن حفص اور نصر بن الحسین وغیرھما اسماعیل کے تلا مذہ میں شمار ہو تے ہیں ۔
الغرض امام بخاری کو خاندانی طور پر علمی شرف حاصل تھا باپ بیٹا دو نو ں نامور محدث تھے اور امام بخاری نے مال کے ساتھ علم بھی ورثہ میں پا یا تھا عبد اللہ بن المبارک اور وکیع کی کتا بیں اور جا مع سفیان ثوریؒ وغیرہ جیسی کتب امام بخاری کے خاندانی کتب خانہ میں موجود تھیں جو تحصیل حدیث میں ان کے لیے معاون ثا بت ہو ئیں ۔علامہ قسطلانی اسی خاندانی ورثہ کی طرف ارشارہ کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔
فقد رُبِّى في حجر العلم حتى ربا وارتضع ثدي الفضل فكان فطامه على هذا اللبا
"پس آپ نے علم کی گو د میں نشوونما پا ئی حتی کہ آپ کی رضاعت اور پرورش علم و فضل میں ہو ئی اور دودھ چھڑانے کا زمانہ بھی اسی کھیس پر گزرا
علم حدیث کا سماع :
دس سال کی عمر میں ہی حفظ حدیث کا شوق دامن گیرہو گیا ۔چنانچہ کتاب (مکتب )سے نکل کر بخار ا اور کے اطراف و اکناف میں محدثین کی مجالس حدیث میں شریک ہو نا شروع کر دیا ۔بخارا میں اس وقت محمد بن سلام الیکندی (225ھ)محمد بن یو سف الیکندی عبد اللہ بن محمد المسندی (م229ھ)ابرا ہیم بن اشعت اور علامہ داخلی تو معلوم نہیں ہو سکا البتہ ان کے حلقہ درس میں امام بخاری کی علمی دلچسپیوں کے بعض واقعات مراجع میں ملتے ہیں ۔
علامہ داخلی جو بخارا میں اس وقت بڑے پا یہ کے محدث تھے اور ان کی درسگاہ بڑی پر رو نق اور مشہور تھی حسب معمول درس دے رہے تھے کہ انھوں نے ایک حدیث کی سند یو ں بیان کی : سفيان عن أبي الزبير عن إبراهيم اس پر امام بخاری نے عرض کی (إن أبا الزبير لم يرو عن إبراهيم) یعنی سند میں تو ھم ہے اس پر شیخ جھلائے پہلے تو برھم ہو ئے مگر جب دوبارہ سنجیدگی سے وضاحت کی اگر آپ کے پاس اصل ہے تو اس کی طرف رجوع کریں چنانچہ انھوں نے اپنے اصل کی طرف رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ امام بخاری ٹھیک کہہ رہے ہیں اور اپنی اس غلطی پر متنبہ ہو گئے اور امام بخاری سے سند دریافت کی امام بخاری نے اصل سند بیان کی (الزبير وهو ابن عدي عن ابراهيم) تو اس کے مطا بق استاذ نے اپنے اصل کو درست کر لیا امام بخاری کا بیان ہے کہ اس وقت میری عمر دس برس کی تھی امام بخاری کے اوراق ابن حاتم نے امام بخاری کی زبانی ایک دوسرا دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے ۔
كان شيخ يمر بنا في مجلس الداخلي، فأخبره بالاحاديث الصحيحة مما يعرض علي، وأخبره بقولهم، فإذا هو يقول لي يوما: يا أبا عبدالله، رئيسنا في أبو جاد بلغني أن أبا عبد الله شرب البلاذر للحفظ، فقلت له: هل من دواء يشربه الرجل
للحفظ؟ فقال: لا أعلم. ثم أقبل علي وقال: لا أعلم شيئاً أنفع لحفظ من نهمة الرجل ومداومة النظر
"شیخ ۔۔امام داخلی کی مجلس میں ہمارے پاس سے گزرا کرتے تھے تو انھوں نے ان کو ان صحیح حدیثوں کے بارے میں بتا یا جو مجھ پر پیش کی جا تی تھیں اور ان کو ان کے قول کی بھی خبر دی کہ ان کو ایک دن کہہ رہے تھے اے ابو عبد اللہ جو ہمارا رئیس ابو جاد میں ہے ان سے کہا مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ابو عبد اللہ نے حافظے کے لیے دوائی بھی لی ہے جس کو "بلاذر "کہا جا تا ہے میں نے انہیں ایک دن خلوت میں کہا کیا کو ئی ایسی دوائی ہے جس کے پینے سے آدمی کے حافظے کو نفع پہنچتا ہے تو کہنے لے میں نہیں جا نتا ۔پھر وہ میری طرف متوجہ ہو ئے اور کہنے لگے کہ میں حافظے کے لیے آدمی کے شوق اور اس کے ہمیشہ غور و فکر سے زیادہ نفع والی چیز کو ئی نہیں جا نتا " علامہ داخلی کے علاوہ دیگر شیوخ سے بھی بخاری نے فنون حدیث کا وافراذخیرہ جمع کیا خاص طور پر علامہ بیکندی (محمد بن سلام) جو بڑے پا یہ کے محدث تھے اور وہ امام بخاری کی ذہانت و فطانت سے بہت متاثر تھے حتی کہ امام بخاری کی مو جو دگی میں محدث بیان کرنے سے خوط کھا تے ۔ بعض شیو خ نے بیان کیا ہے کہ اس دور میں امام بخاری نے سولہ سالہ کی عمر تک ستر ہزار احادیث حفظ کر لی تھیں ۔
علاوہ ازیں امام بخاری اسی نو عمری کے زمانہ میں فقہاء اہل الرائے کی مجا لس میں بھی چکر لگا تے رہے ورا ق کا بیان ہے کہ امام بخاری نے فر ما یا :
أختلف إلى الفقهاء بمرو وأنا صبي , حتيٰ حفظت كتب ابن المبارك ووكيع وعرفت كـلام هولاء يعني اهل الراي
"مرد میں بچپن سے ہی فقہاء کی طرف آیا جا یا کرتا تھا یہاں تک کے میں نے ابن المبارک اور وکیع کی کتابوں کو حفظ کر لیا اور اہل را ئے کی کلام کو بھی سمجھ لیا ۔
رحلات علمیہ :
الغرض جب امام بخاری سولہ سال کی عمر کو پہنچے اور بخارا اور اس کے اطراف و اکناف سے علم حدیث جمع کر لیا تو 10ھ میں اپنی والدہ محترمہ اور اپنے بھا ئی احمد بن اسماعیل کے ساتھ زیارت بیت اللہ کے لیے حجاز کو روانہ ہوئے اور حج سے فرا غت کے بعد والدہ محترمہ اور بھا ئی تو واپس چلے آئے اور امام موصوف ؒ طلب علم کے لیے حجاز ہی ٹھہر گئے
امام بخاری اس سے قبل عرصہ چھ سال نیشاپور اور اس کے نواح میں طلب علم کے لیے سفر کر چکے جو ان کی "رحلات قدیمہ" کے نام سے مشہور ہیں۔اور ہم ان کو داخلی رحلات بھی کہہ سکتے ہیں اب محدثین کے طریق پر سماع حدیث کے لیے مراکز اسلامی حجاز عراق شام اور مصر کی طرف رحلات کا آغاز کیا تا کہ ان اسلامیہ کے مشا ئخ حدیث سے حدیث کا سماع اور اس کی کتابت کی جا ئے ۔محدثین کی رحلات علمیہ بہت سے فوائد کا موجب بنیں ۔اول یہ کہ مختلف بلا د میں حدیث کا منتشر ذخیرہ یکجا ہو تا گیا محدثین اگر صعوبات سفر اٹھا کر حدیث جمع نہ کرتے تو حدیث کا ضیا ع یقینی ہو جا تا دوم یہ کہ رحلات سے مختلف مرا کز حدیث کا بھی علم ہو تا گیا اور ہر مرکز میں مشائخ حدیث تاریخ میں مدون ہو تے گئے اور تحریک احلحدیث کی تاریخ تدوین میں سہولت پیدا ہو گئی نیز علو اسناد کے حصول میں مدد ملی ۔
چنانچہ امام بخاری بھی ان رحلات میں علو اسناد سے شرف ہو ئے اور اس علو کا حل یہ ہے کہ آپ کے بعض شیوخ امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے ہم طبقہ نظر آتے ہیں مثلاً محمد بن عبد اللہ انصاری ابو نعیم علی بن عیاش عبید اللہ بن مو سیٰ خلا د بن یحی اور عصام بن خالد وہ شیوخ ہیں کہ ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تک صرف دو تین واسطے ہیں اور امام مکی بن ابراہیم کی ثلاثیا ت تو مشہور معروف ہی ہیں ۔
الغرض سب سے پہلے آپ نے حجاز کی طرف رحلت (سفر ) کی جو علوم اسلامیہ کا مرکز اول ہے جبکہ آپ کی عمر سو لہ سال کی تھی اور ابن مبارک اور وکیع کی کتابوں کو حفظ کر چکے تھے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں اور پھر فقہ اہل الرائے پر بھی کا مل دسترس حاصل ہو چکی تھی امام بخاری خود ہی اس حجازی سفر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فر ما تے ہیں ۔
لقيت أكثر من ألف شيخ من أهل الحجاز ومكة والمدينة والبصرة وواسط وبغداد والشام
"میں نے اہل حجا ز مکہ ،مدینہ ،بصرہ واسط بغداد اور شام کے ایک ہزار سے زائد شیوخ سے ملا قات کی "اور پھر اپنے سفر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فر ما تے ہیں ۔
میں شام اور جزیرہ گیا اور دو مرتبہ مصر پہنچا اور چار مرتبہ بصرہ اور پو رے چھ سال حجاز میں اقامت کی اور پھر محدثین خراسان کے ساتھ کتنی مرتبہ کوفہ اور بغداد میں پہنچا۔
رحلت جزیرہ :
حافظ ابن حجر نے تو جزیرہ کی طرف سفر کا ذکر کیا ہے اور تاریخ ابن عساکر تاریخ حاکم اور طبقات سبکی میں بھی جزیرہ کی طرف سفر کا ذکر ملتا ہے اور یہ بھی مذکور ہے کہ جزیرہ جا کر احمد بن عبد الما لک بن واقدالحرانی ،احمد بن ولید الحرا نی ،اسماعیل بن زرارۃ الرقی اور عمر بن خالد سے سماع کیا لیکن علامہ المزی لکھتے ہیں کہ یہ تو ہم ہے کیونکہ امام بخاری نے جزیرہ پہنچ کر مذکورہ شیوخ سے سماع نہیں کیا بلکہ احمد بن ولید سے تو امام بخاری نے بالواسطہ روایت کی ہے اسی طرح ابن زرارۃ سے بھی سماع حاصل نہیں البتہ اسماعیل بن عبد اللہ سے روایت کی ہے تو ہم یہ دراصل اسماعیل بن ابی اویس ہیں اور ابن واقد سے بغداد میں سماع کیا ہے اور عمرو بن خالد سے مصر میں پھر جن ایک ہزار اسی (1080)شیوخ سے امام بخاری نے حدیث لکھی ان کے مسلک کے متعلق خود امام موصوف فرماتے ہیں ۔
تبت عن ألف وثمانين رجلا، ليس فيهم إلا صاحب حديث، كانوا يقولون: الإيمان قول وعمل
"اور ایک ہزار انہی شیوخ سے حدیث لکھی جو سارے اصحاب حدیث تھے اور جن کا یہ اعتقاد تھا کہ "ایمان قول اور عمل کا نا م ہے ۔
اور دوسری روایت میں ہے :
("كتبت عن ألف ثقة من العلماء وزيادة، وليس عندي حديث لا أذكر إسناده")
"میں نے ایک ہزارسے زائد علماء سے حدیث نقل کی ہے اور میرے پاس ایسی کو ئی حدیث نہیں جس کی سند مجھے یا د نہ ہو ۔
مزید امام بخاری کے وراق کا بیان ہے ۔ پھر جب میں بلخ گیا تو لو گو ں نے املا ء کی درخواست کی چنانچہ میں نے ایک ہزار شیخ سے ایک ہزار حدیث لکھوائی یعنی ہر ایک سے ایک حدیث گو یا یہ امام بخاری کی معجم تھی ۔ نیز اپنے شیوخ کے متعلق فر ما تے ہیں ۔
میرے شیوخ میں معتدبہ حصہ ان شیوخ کا ہے جو سماع قدیم اور علو اسناد کے ساتھ متصف تھے ۔امام حاکم نے ایسے شیوخ کی تعداد نوے بتا ئی ہے اور بالا سیتعاب ان کی فہرست دی ہے اور امام نووی نے امام حاکم کی دی ہو ئی فہرست "تہذیب الاسماء "میں مکمل طور پر نقل کر دی ہے اس فہرست میں اس دور کے کبار آئمہ محدثین شامل ہیں ۔ ہم چند کے نام بطور مثا ل ذکر کرتے ہیں ۔
(1)مکی بن ابرا ہیم (215ھ)
(2)عبد اللہ بن موسیٰ العسبی (212ھ)
(3)محمد بن ہیو سف الفریا بی (212ھ)
(4)اسحاق بن راھویہ (238ھ)
(5)ابو بکر الحمیدی (219ھ)
(6)امام احمد بن حنبل (241ھ)
(7)امام العصر علی بن المدینی (234ھ)
حجاز ی رحلت میں جن سے استفادہ کیا ان میں ابو الولید احمد الازرقی (صاحب تاریخ مکہ ) اور علامہ الحمیدی صاھب المسند معروف ہیں آپ 212ھ کو مدینہ النبی وارد ہو ئے اور مسجد میں چاندنی رواتوں میں "التاریخ الکبیر"کا مسودہ تیار کیا اور حجاز کے سفر میں آپ نے سب سے پہلی کتاب "قضایا الضحا "مدون کی
بصرہ میں عاصم النیل حافظ ابو الولید الطیا لسی وغیرھما سے احادیث کی روا یت اخذا کی ۔الغرض جملہ بلاد اسلا میہ کا چکر لگا یا بغداد ی لکھتے ہیں ۔
رحل البخاري إلى محدثي الأمصار، وكتب عنهم
"امام بخاری نے محدثین امصار کی طرف سفر کیا اور ان سے حدیث لکھی "
کتا بت حدیث کا طریق :
امام بخاری کتا بت حدیث کے متعلق فر ما تے ہیں :
لم تكن كتابتي الحديث كما كتب هؤلاء , كنت إذا كتبت عن رجل سألته عن اسمه وكنيته ونسبه , وعلة الحديث إن كان الرجل فهما , فإن لم يكن سألته أن يخرج لي أصله ونسخته , وأما الآخرون فلا يبالون ما يكتبون , ولا كيف يكتبون
"میرا حدیث لکھنا عام لو گو ں کی طرح نہیں تھا کیونکہ جب میں کسی آدمی سے حدیث لکھتا تو اس سے اس کے نا م اور اس کی کنیت اور نسب کے با رے میں سوال کرتا اور اگر آدمی ذوفہم ہو تا تو حدیث کی علت کے با رے میں بھی سوال کرتا ۔اگر ایسا نہ ہو تا تو اس سے مطا لبہ کرتا کہ اس کے اصل نسخہ کو میرے سامنے پیش کر دے باقی رہے دوسرے لو گ تو وہ پرواہ نہیں کرتے کہ وہ کیا لکھتے ہیں اور کیسے لکھتے ہیں ۔اور عبا س دوریؒ کا بیان ہے "میں نے محمد بن اسما عیل سے بہتر کسی طالب حدیث کو نہیں دیکھا ۔وہ کو ئی اصل اور فرع نہ چھوڑتے مگر اس تک پہنچ جا تے پھر دوریؒ ہمیں مخاطب کر کے کہتے
لا تدعوا من كلامه شيئا إلا كتبتموه
کہ ان کی ہر با ت نو ٹ کرتے جا ؤ ۔
شیوخ بخاری کے مرا تب :
علما ء نے امام بخاری کے شیو خ کو پا نچ طبقات میں تقسیم کیا ہے ۔
(الف)طبقہ اعلیٰ یعنی وہ شیوخ جنہوں نے تا بعین سے حدیث روایت کی ہیں ۔ان میں ابو عاصم النیل (218ھ)مکی بن ابرا ہیم (212ھ) محمد بن عبد اللہ انصاری 215ھ) عبیداللہ بن مو سیٰ باذام العبسی (212ھ)ابو نعیم الملا ئی (214ھ) اور ابو المغیر ۃ وغیر ھما شامل ہیں ،
(ب)وہ شیوخ جو اوزاع ،ابن ابی ذئب شعبہ ثوری اور شعیب بن ابی حمزہ سے روا یت کرتے ہیں ۔مثلاً ایو ب بن سلیما ن (224ھ) حجا ج بن منھال (217ھ) اور آدم بن ابی ایا س الخراسانی (220ھ) وغیرھما شامل ہیں ۔
(ج)وہ شیوخ جو امام مالک امام اللیث ،حماد بن زید اور ابی عوانہ کے اصحاب میں سے ہیں اس تیسرے طبقہ میں احمد بن حنبل ( 241ھ)اسحاق بن راھویہ (238ھ) یحییٰ بن معین (233ھ) اور علی بن عبد اللہ بن جعفر (234ھ) وغیرھم شمار ہو تے ہیں ۔
(د) اس طبقہ کے شیوخ میں ان المبارک ابن عینہ ابن وھب اور ولید بن مسلم کے اصحاب شامل ہیں ۔
(ھ)جو امام بخاری کے ہم عصر بھی ہیں مثلاً محمد بن یحیی الذھلی (258ھ) ابو حا تم رازی عبد اللہ بن عبد الرحمٰن الدارمی (255ھ) وغیرھم اور ان میں وہ بھی شامل ہیں جو سن و اسناد کے اعتبار سے امام بخاری کے تلا مذہ کے برا بر تھے اور شیوخ کا یہ طبقہ وہ ہے جن سے امام بخاری نے مستقل طور پر ان کی مجا لس میں حدیث حاصل نہیں کی بلکہ اصل شیخ کی مجلس میں کو ئی حدیث رہ گئی تو ان سے اخذا کر لی۔ شیوخ کے اس طبقہ کے متعلق حافظ ابن حجر لکھتے ہیں ۔
رفقاؤه في الطلب ، ومن سمع قبله قليلا ، كمحمد بن يحيى الذهلي وغيره
"آپ کے طلب حدیث کے رفقاء اور وہ جنہوں نے آپ سے تھوڑی دیر قبل پہلے اسماع کیا جس طرح محمد بن یحیی الذہلی وغیرہ ۔
جملہ معترضہ :
علامہ شبلی "سیرۃ النعمان "لکھتے ہیں کہ امام ذھلی نے امام بخاری کو "لفظی بالقرآن مخلوق " کی وجہ سے اپنی مجلس سے نکا ل دیا تھا حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے کیو نکہ امام بخاری جب ان کے تلامذہ سے ہی نہیں تھے جو با قا عدہ مجلس میں بیٹھتے تو پھر نکا ل دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا ۔ہاں یہ صحیح ہے کہ امام ذھلی نے جب یہ اعلان کرا یا کہ جو شخص "لفظی بالقرآن مخلوق "کا قائل ہے وہ ہماری مجلس میں شر یک نہ ہو تو امام مسلم سخت برانگیختہ ہو کر ذھلی کی مجلس سے اٹھ کر چلے آئے اور امام ذھلی سے جو مسودے لکھے تھے وہ سب ذھلی کے پا س واپس بھیج دئیے اور ان سے کو ئی روایت نہیں کی ۔
تصنیف و تا لیف کا آغاز:
آمام بخاری نے فر ما یا :
"جب میں اٹھا رہ سال کی عمر کو پہنچا تو تصنیف و تا لیف کی ابتداء کر دی "ان کا بیان ہے کہ میں مسجد نبوی میں روضہ اطہر کے جوار میں بیٹھ کر چاندنی راتوں میں تا ریخ لکھا کرتا تھا حافظ ابن حجر لکھتے ہیں اٹھارہ سال کی عمر میں مدینہ پہنچے اور اسی سفر میں انھوں نے تاریخ کبیر (1)کا مسودہ چاندنی راتوں میں لکھا
"التاریخ الکبیر" امام بخاری کا وہ شاہکار ہے جسے دیکھ کر امام اسحاق بن راھویہ نے فرط مسرت سے "سحر "فر ما یا ۔امام بخاری کا قول ہے
وقلَّ اسم في التاريخ إلا وله عندي قصة إلا أني كرهت أن يطول الكتاب"
"تاریخ میں ایسا کم ہی کو ئی نا م ہو گا جس کے بارے میں میرے پاس کوئی قصہ نہ ہو مگر کتاب ک8ی طوالت کی وجہ سے میں نے اس کو ذکر نہیں کیا "
اس تاریخ پر بعض علماء نے حواشی بھی لکھے ہیں جن میں مسلمہ بن قاسم کا حاشیہ معروف ہے بہت سے علماء نے امام بخاری سے اس کتا ب کو روایت کیا ہے بطور مثال (1)ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن سلیمان بن فارس
(2)ابو الحسن محمد بن سھل اللغوی النسوی
(3)الدلال عبد الرحمٰن بن الفضل
الدلال ابن الفضل اور ابن السھل کی رو ایت کو ابن خیر نے " الفھررستہ "میں صفحہ 2،4۔205میں ذکر کیا ہے اور ابن فارس کی روا یت کو الرودانی (1094ھ) نے "صلۃ الخلف "میں اور ابن سھل کی روا ہیت کو حافظ ابن حجر نے التغلیق میں ذکر کیا ہے ۔ اور ابن سھل والا نسخہ حیدر آباد سے طبع ہو کر شا ئع ہو چکا ہے اور مصح عبد الرحمٰن معلی نےاس کی تصحیح میں جو صعوبات اٹھائی ہیں تعلیقات میں ان کے اشارے ملتے ہیں اور ہم پورے دعوی سے نہیں کہہ سکتے کہ پورا نسخہ کما حقہ محقق اور صحیح ہے ۔
امام حاکم کبیر اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
محمد بن إسماعيل في التاريخ كتاب لم يسبق إليه. منهم من نسبه إلى نفسه مثل أبي زرعة، وأبي حاتم، ومسلم. ومنهم من حكاه عنه. فالله يرحمه، فإنه الذي أصل الأصول
"اور محمد بن اسماعیل کی تا ریخ میں کتاب ایسی ہے جس پر کسی نے سبقت نہیں کی اور جس شخص نے بھی ان کے بعد تاریخ اسماء اورکنی میں کچھ تا لیف کیا وہ ان سے مستغنی نہیں ہوا اور بعض نے تو اس کو اپنی طرف منسوب کیا ہے جیسے ابو زرعہ اور ابو حاتم ہیں اور بعض نے اس کو آپ سے حکا یت کیا ہے اللہ ان پر رحم کرے پس آپ اصل الاصول ہیں "
تاریخ میں امام بخاری نے الاوسط (2)اور الصغیر (3)بھی لکھی ہیں اور یہ تینوں تواریخ ثلاثہ کے نام سے معروف ہیں تا ہم اوسط اور صغیر میں کچھ خلط ملظ ہے تاریخ صغیر تو مطبوع ہے لیکن اوسط کے متعلق کچھ علم نہیں ہو سکا ۔
بعض کا خیال ہے کہ التاریخ الصغیر دراصل "کتاب الضعفاء "کا دوسرا نام ہے اور جو صغیر مطبوع ہے وہ درصل اوسط ہے معلمی نے حیدر آباد میں مطبوع کو ہی تاریخ صغیر قرادیاہے اور الاوسط کا بعض مکتبات کے حوالہ سے ذکر کر دیا ہے الاوسط کا راوی زنجویہ بن محمد اور عبد اللہ بن احمد الخلفاف ہیں ابن خیر نے ان دونوں کے طریق سے ذکر کیا ہے اور ابن حجر نے "الھدی "میں بھی ان دونوں کی روا یت بتا ئی ہے لیکن الصغیر کے راوی بقول ابن حجر عبد اللہ بن محمد بن عبد الر حمٰن الاشقر ہیں اور الاشقر کے طریق سے الرودانی نے "صلۃ الخلف "میں اس کا ذکر کیا ہے ۔پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ ذہبی "امیزان "میں قیس بن الربیع کے متعلق الاوسط سے نقل کرتے ہیں اور وہ عبارت بعینہ مطبوع میں پا ئی جا تی ہے برو کلمن لکھتے ہیں
ﺍﻟﺘﺎﺭﻳﺦ ﺍﻷﻭﺳﻂ. ﻭﻫﻮ ﻣﺮﺗﺐ ﺣﺴﺐ. ﺍﻷﺯﻣﻨﺔ
"تاریخ اوسط یہ کتاب زمانوں کے اعتبار سے مرتب ہے "اور الصغیر کے متعلق الرودانی "صلۃ الخلف "میں لکھتے ہیں۔
هذا التاريخ خاص بالصحابة وهو اول مصنف في ذلك
اور یہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ خاص ہے اور یہ اس موضوع پر پہلی تصنیف ہے
ابن ابی حاتم نے خطاً البخاری فی تاریخہ کے نام سے امام بخاری کا رد کیا ہے اور اس سلسلہ میں ابو زرعہ اور اپنے والد ابو حاتم کے اقوال نقل کئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابو زرعہ اور ابو حاتم نے حرف بحرف تاریخ بخاری کو بنظر غائر پڑھا ہے اور کتاب الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم سے اگر ابو حاتم ابو زرعہ ابن معین اور احمد کے کلام کو تعلیل و تجریح کے سلسلہ میں نکال دیا جا ئے تو یہ تاریخ بخاری ہی ہے اور انھوں نے جو کچھ لکھا ہے امام بخاری سے از خود مرفوع نظر آتا ہے اور یہاں امام بخاری کا قول راجح معلوم ہوتا ہے ۔
کتاب الکنی (4)امام مسلم نے اپنے "الکنی "میں اس سے خوب استفادہ کیا ہے اور ابو احمد الکبیر نے بھی اپنے "الکنی"میں اس کتاب سے فائدہ اٹھا یا ہے حیدر آباد کن سے طبع ہو کر شائع ہو چکی ہے ۔
الضعفاء الصغیر (5)یہ تاریخ صغیر کے علاوہ ہے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں ۔
رواه عن البخاري أبو بشر محمد بن أحمد بن حماد الدولابي، وأبو جعفر مسبح بن سعيد، وأدم بن موسى .الخوارزمي
اسکو امام بخاری سے ابو بشر الدوالابی اور ابو جعفر بن سعید اور آدم بن موسیٰ الخوارزمی نے روا یت کیا ہے ۔مسیح کی روایت کو ابن خیر نے اپنی فہرست میں ذکر کیا ہے اور آدم بن موسیٰ والی روایت مطبوع ہے جو کہ ابو نعیم الاصبہانی کی روا یت سے ہے الادب المفرد (6)یہ احمد بن محمد الباز کی روا یت سے ہے اور یہ بزازوہ نہیں ہے جو صاحب مسند ہے یہ کتاب متعدد مرتبہ متحدہ ہندوستان اور مصر میں طبع ہو چکی ہے محمد فواد عبد الباقی کی تصحیح سے جونسخہ شائع ہوا ہے وہ قابل اعتماد ہے ۔
خلق افعا ل العباد (7)یہ کتاب طبع ہو چکی ہے لیکن مصنف تک سند مذکور نہیں ہے ہاں الردوانی نے "صلۃ الخلف "میں فربری کے طریق سے روا یت کی ہے فہرستہ لابن خیر میں بھی فربری اور یو سف بن ریحان کی روا یا ت مذکور ہیں اس ضمن میں کلام اللہ اور کلام العباد میں فر ق مذکورہے اور امام بخاری نے تصریح کی ہے کہ جو شخص میری طرف "لفظی بالقرآن مخلوق "کی نسبت کرتا ہے وہ کذاب ہے میں نے تو صرف یہ کہا ہے " افعا ل العباد مخلوقہ "مگر" والحسد فإنه ليس له دواء
جزء رفع الیدین (8)یہ رسالہ متعدد مرتبہ زبور طباعت سے آراستہ ہو چکا ہے مگر پوری صحت کے ساتھ شائع نہیں ہوا اور پھر معلوم نہیں ہو سکا کہ اس رسالہ کا نا م قرة العينين برفع اليدين في الصلاة کہاں سے اخذا کیا گیا ہے ۔القراء ۃ خلف الامام (9) یہ رسالہ محمود بن اسحاق الجزاعیعن البخاری کی روا یت سے ہے اور یہ رسالہ حافظ ابن حجر کی مرویات سے ہے كما ذكر الحافظ ابن حجر في مقدمة (الفتح امام بیہقی نے بھی "القراءۃ خلف الامام "کتاب لکھی ہے ۔(10)کتاب الرقاق اب ہم ان کتابوں کا ذکر کرتے ہیں جو تا حال طبع نہیں ہو ئیں ۔
"غیر مطبوعہ کتب "
امام بخاری کی وہ تا لیفات جو تا حال طبع نہیں ہو ئیں وہ حسب ذیل ہیں :
(1)اخبار الصفات:
ظاہریہ دمشق کے حوالہ سے ابن سزکین ترکی نے اپنی تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے ممکن ہے کہ یہ کتاب التوحید کا ہی حصہ ہو۔
(2)اسامی الصحابہ :
ابن مندہ نے ابن فارس کی روایت سے اس کا ذکر کیا ہے اور بغوی کبیر نے معجم الصحابہ اور ابن مندہ نے معرفتہ الصحابہ میں اس کے حوالہ سے نقل کیا ہے حافظ ابن حجر نے الحدی (ھدی الساری)میں اس کا ذکر کیا ہے ۔
(3)کتاب الاشریۃ المفرد :
علامہ دارقطنی نے المؤتلف والمختلف میں کیستہ کے ترجمہ میں کتاب میں الاشریہ کے نا م سے اس کا ذکر کیا ہے اور الجامع الصحیح کا یہ حصہ نہیں ہے بلکہ الادب المفرد کی طرح الگ کتاب ہے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ یہ کتاب بھی اہل الرای کے رد میں ہے ۔
(4)برالوالدین :
یہ محمد بن داویہ دلویہ الوزاق کی روا یت سے ہے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں وهو موجود مروي لنااور وہ مروی ہمارے پاس موجود ہے "الرودانی نے "صلۃالخلف "میں محمد بن دلویہ کے طریق سے اپنی مرویات میں اس کو ذکر کیا ہے ۔
(5)التفسیر الکبیر المفرد :
فربری نے اس کا ذکر کیا ہے حافظ ا بن حجر خاموش ہیں ۔
(6)کتاب التوحید المفرد :
ابن سزکین نے اپنی تاریخ میں 1/1259۔مکتبہ ظاہریہ دمشق کے نسخہ کے حوالہ سے اس کا ذکر کیا ہے اور ایک مصری نسخہ ہے جس پر الصعیدی نے "کفایۃ المقتصد "کے نام سے شرح لکھی ہے موجودہ دور کے بعض آسکالرز نے اس کا انکار کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ کتاب التوحید دراصل الجامع الصحیح کا ہی حصہ ہے ۔
(7)الجامع الکبیر :
ابن طاہر نے اس کا ذکر کیا ہے اور یہ تواریخ ثلاثہ اور قضایا الصحابہ والتابعین کے بعد کی تصنیف ہے حافظ ابن کثیر کے قلم سے لکھا ہوا نسخہ دار العلوم المانیا (جرمنی )میں مو جو د ہے ۔
(8)الضعفاء الکبیر:
الضعفاء الصغیر میں اس کا ذکر آ چکا ہے ۔
(9)کتاب العلل:
ابن مندہ نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس کو محمد بن عبد اللہ بن حمدون عن ابی محمد عبد اللہ بن الشرقی عب البخاری روایت کیا ہے ۔حافظ ابن حجر اس سلسلہ میں خاموش ہیں غالباً اس مو ضوع پر یہ پہلی کتاب ہے "کتاب العلل لا بن المدینی"بھی طبع ہو چکی ہے اور علل پر امام بخاری کی بر تری کو امام مسلم نے بھی تسلیم کیا ہے اور امام ترمذی نے اپنی الجامع میں امام بخاری کے اقوال نقل کئے ہیں وسيأتي البحث
(10)کتاب الفوائد :
امام ترمذی نے "کتاب المناقب " کے اثنا میں اس کا ذکر کیا ہے حافظ ابن حجر خاموش ہیں ۔
(11)کتاب المبسوط :
خلیلی نے "الارشاد "میں اس کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ مصیب بن سلیم نے امام بخاری سے اس کو روایت کیا ہے ۔
(12)المسند الکبیر :
حافظ ابن حجر نے اس کا ذکر کیا ہے علامہ فر بری نے روا یت کی ہے ۔
(13)کتاب الھبتہ المفرد :
حافظ ابن حجر سھدی الساری "میں لکھتے ہیں ۔امام بخاری کے وزاق کا بیان ہے کہ امام بخاری نے کہا میں نے "کتاب الحبہ "میں پا نچ صد احادیث جمع کی ہیں جبکہ امام وکیع کی کتاب الحبہ میں صرف دو یا تین مسند احادیث ہیں اور ابن المبارک کی کتاب میں پا نچ کے قر یب احادیث مسند ہیں با قی ان دونوں کتابوں میں آثار و اقوال ہیں ۔
(14)کتاب الوحدان :
اس میں ان صحابہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین کا ذکر ہے جن سے صرف ایک ہی راوی روایت کرتا ہے ابن مندہ نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے امام مسلم اور امام نسائی ؒ نے بھی اسی طرز پر "کتاب الوحدان "لکھی ہیں
(15)الاعتقاد والسنہ :
امام للكائي نے شرح السنہ(1/172۔176)میں عبد الرحمٰن بن محمد بن عبد الر حمٰن بخاری کے طریق کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے کہا:
سمعت أبا عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري
امام ترمذی العلل الکبیر اور العلل الصغیر میں اکثر طور پر امام بخاری سے نقل کرتے ہیں اور لکھا ہے "اکثر مانا ظرت بہ محمد بن اسما عیل البخاری "اسی طرح "کتاب التجریخ والتعدیل لا صحاب الحدیث "لا بن الجارود میں امام بخاری کے اکثر اقوال مذکور ہیں۔
امام بخاری کے تلا مذہ :
علامہ مزی نے امام بخاری کے شیو خ اور تلا مذہ کو حروف معجم کی تر تیب سے مرتب کیا ہے اور تلا مذہ میں امام تر مذی امام مسلم اور امام نسا ئی کو بھی شمار کیا ہے علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں ۔
وروى عنه الإمام مسلم في غير ((صحيحه)). وقيل: إن النسائي روى عنه في الصيام من ((سننه)) ولم يصح، لكن قد حكى النسائي في كتاب (( الكنى )) له أشياء عن عبد الله بن أحمد الخفاف، عن البخاري
"آپ سے امام مسلم نے اپنی صحیح کے علا وہ روایت کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ امام نسائی نے اپنی سنن کے کتاب الصیام میں امام بخاری سے حدیث روایت کی ہے اور یہ بات صحیح نہیں ۔لیکن امام نسائی نے کتاب الکنی میں امام بخاری سے عبد اللہ بن احمد الخفاف کے واسطے سے کچھ چیزیں نقل کی ہیں " ھامش "النبلاء "میں مذکور ہے ۔
بل روي عنه النسائي وقع له ذلك في كتاب الإيمان لابن منده
"بلکہ امام نسا ئی نے آپ سے حدیث روایت کی ہے اس کا ذکر کتاب ایمان لا بن مندہ میں مو جو د ہے (حدثنا حمزۃ حدثنا النسا ئی حدثنا محمد بن اسما عیل )
کتاب الصیام میں ہے ۔
مُحَمَّد بْن إِسْمَاعِيل عَن حَفْص بْن عُمَر بْن الْحَارِثبن حَمْزَة بْن مُحَمَّد الكناني الْحَسَن بْن الخضر الأسيوطي
"اور ابن حیویہ کے نسخہ میں ایسے ہی ہے لیکن صوری کے نسخہ میں جو ابن النحاس بن حمزہ الکنانی عن النسا ئی ہے اس میں وضا حت مذکور ہے ۔"حدثنا محمد بن اسما عیل و ھو ابو بکر الطبرا نی "صرف ابن السنی کی روایت میں حدثنا محمد بن اسما عیل البخاری کی تصریح ہے علامہ مزی لکھتے ہیں ۔
ولم يجد للنسائي غير ذا ان كان ابن السني حفظه وما نسبه من عنده معتدا انه البخاري
"اور ہمیں امام نسا ئی سے اس کے علا وہ کو ئی چیز نہیں ملی اگر چہ ابن السنی نے اسے محفوظ کیا ہے اور اس کو اپنی طرف سے منسوب نہیں کیا یہ اعتقاد رکھتے ہو ئے کہ یہ محمد بن اسمٰعیل بخاری ہیں ۔
یعنی اگر ابن السنی نے اپنی طرف سے اضا فہ نہیں کیا اور روا یت کو حفظ کیا ہے تو پھر یہ صحیح ہے ۔ویسے امام نسا ئی عمو ماً محمد بن اسما عیل بن ابرا ہیم سے روایت کرتے ہیں لیکن وہ ابن علیہ ہیں ہاں کتا ب الکنی میں عبد اللہ بن احمد الخفاف کے واسطہ سے امام بخاری سے چند احا دیث درج کی ہیں لہٰذا یہ با ت قرین قیا س ہے کہ امام بخاری سے ان کی ملا قا ت نہیں ہے با تی رہے امام مسلم اور تر مذی تو ان کا تلمذ مشہور ہے لیکن امام مسلم نے الصحیح میں مامام بخاری سے کو ئی حدیث درج نہیں کی اور نہ ہی امام تر مذی نے کو ئی مسند حدیث امام بخاری سے روا یت کی ہے جبکہ امام مسلم اور ابو داود سے ایک ایک روا یت جامع ترمذی میں مذکو ر ہیں چنانچہ امام مسلم سے حدیث أحصوا هلال شعبان لرمضان روا یت کی ہے علا مہ عراقی لکھتے ہیں کہ "امام ترمذی نے امام مسلم سے صرف یہ حدیث روا یت کی ہے اور یہ "من قبیل روا یتہ الاقران "ہے کیونکہ یہ دونوں بہت سے شیوخ میں مشترک ہیں اور "باب ماجا ء فی الر جا ل ینام عن الوتر اس میں حدیث عبد الرحمن بن زید بن اسلم مرفوعاً ذکر کرنے کے بعد عبد اللہ بن زید اسلم سے مرسلاً روا یت کر نے کے بعد لکھتے ہیں میں نے ابو داؤد سجزی سلیمان بن اشعت سے یہ کہتے ہو ئے سنا کہ میں نے عبد الر حمن بن زید بن اسلم کے متعلق امام احمد بن حنبل سے سنا کہ اس کے بھا ئی عبد اللہ کے متعلق کو ئی با س نہیں اور امام بخاری نے علی بن المدینی سے نقل کیا ہے کہ عبد الرحمٰن ضعیف ہے اور عبد اللہ ثقہ ہے ۔معلوم ہوا کہ امام ابو داؤد سے سند حدیث نقل نہیں کی بلکہ عبد الرحمٰن پر جرح نقل کی ہے اور امام بخاری سے تلمز پر ہم نے امام ترمذی ؒ پر اپنے مقالہ میں مفصل لکھا ہے ۔
الجامع الصحیح کی تا لیف
تالیف کی ابتدا ء
ہم پہلے بیان کرآئے ہیں کہ امام محدثین نے تقریباً اٹھا رہ سال کی عمر میں تصنیف و تا لیف کا آغاز کر دیا تھا اور کتاب "قضایا الصحابۃ والتابعین "اور توریخ ثلاثہ کے مسؤدات حجاز میں ہی تیار کر لیے تھے اور پھر اپنی تمام احادیث صحیحہ کو "المبسوط "کے نام سے تالیف کر لیا تھا اب وقت کا تقاضا تھا کہ ایک ایسی کتاب تا لیف کی جا ئے جس میں ان احادیث صحیحہ کو الگ جمع کیا جا ئے جن کی صحت پر اب تک کے محدثین متفق چلے آرہے ہیں اور ان میں آثار صحابہ و تا بعین کی آمیزش بھی نہ ہو جیسا کہ مؤطا وغیرہ کتب میں احادیث مرفوعہ اور آثار و فتاوی کو جمع کیا گیا ہے ۔
بواعث تالیف :
امام بخاری سے پہلے مسنید اور جوا مع جمع ہو چکی تھیں اور مصنفات کے نا م سے مجموعے تیار ہو چکے تھے امام بخاری نے اپنے سے پہلے مھدثین کی مساعی پر نظر ڈالی مؤطا امام مالک کو دیکھا اور جا نچا کہ اس میں فقہی ترا جم کے تحت احادیث کو جمع کیا گیا ہے اور احادیث صحیحہ کے ساتھ فتاویٰو آثار صحابہ و تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین کو مخلوط کر دیا گیا ہے اور پھر ہر باب میں عمل اھل مدینہ نما یا ں نظر آتا ہے حافظ ابن حجر جامع صحیح بخاری کے اسباب تالیف پر بحث کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔
قال ابن حجر رحمه الله : ( * لما رأى البخاري رحمه الله هذه التصانيف ورواها وانتشق رياها واستجلى محياها، وجدها بحسب الوضع جامعة بين ما يدخل تحت التصحيح والتحسين والكثير منها يشمله التضعيف، فلا يقال لغثه سمين، فحرك همته لجمع الحديث الصحيح الذي لا يرتاب فيه أمين.
"پس جب امام بخاری ؒ نے ان تصانیف کو دیکھا اور ان کو روایت کیا اور ان کی آبیاری کی اور ان کے باوجود کو شیریں جا نا اور ان کو وضع کے اعتبار سے اس طرح پایا کہ ان میں بعض صحیح اوربعض حسن کے درجے میں داخل ہیں اور اکثر ان میں سے ضعیف ہیں ۔آپ نے صحیح حدیث جس کی صحت میں کو ئی امانت دار شک نہیں کر سکتا کو جمع کرنے کے لیے اپنی ہمت کو حرکت دی "شاہ ولی اللہ دہلوی نے شرح التراجم اور اپنی دیگر تصنیفا ت میں بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے وہ لکھتے ہیں ۔
"باید دانست کہ بخاری بعد ماتین ظاہر شد و قبل ازوے علماء درفنون چند از علوم و لینہ تصانیف ساختہ بودند امام مالک و سفیان ثوری درفقہ تصنیف کردہ بودند وابن جریج در تفسیر وابو عبیدہ در غریب قرآن و محمد بن اسحاق و موسیٰ بن عقبہ در سیرا بن مبارک در زہدو مواعظ و کسا ئی در بدء الخلق و قصص انبیاءؑ و یحییٰ بن معین وغیراو در معرفت احوال اصحاب و تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین وجمع دیگر رسا ئل داشتدا در رؤیا وادب و شمائل و اصول حدیث و اصل فقہ ورد برمتبد عین مثل جھمیہ بخاری ایں ہمہ علوم مدونہ راتامل فرمود و جزئیات و کلما ت را انتقاء نمود پس قدرے از علوم کہ با حادیث صحیحہ کہ بر شرط بخاری است بطریق صراحت یا دلالت یافت در کتاب خود آور دتابدست مسلماناں درا امہات ایں علوم حجت قاطعہ بودہ باشد کہ در آن تشکیک را مد خل نہ بود "یعنی دوسال کے بعد جب امام بخاری کا زمانہ آیا تو انھوں نے دیکھا کہ بھت سے علوم و دینی فنون جمع ہو چکے ہیں اور متعدد علماء نے مختلف الانواع مجموعے تیار کر لیے تھے امام بخاری نے ان مدونہ علوم کو غور سے دیکھا تو انہیں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ ان تمام فنون کو ایک مختصر اور جامع کتاب میں جمع کر دیا جائے پھر اس اثنا میں امام المحدثین کے شیخ محدث اسحاق بن را ھوا یہ نے بھی امام بخاری کی مقدرت علمی اور معرفت حدیث میں کمال نمو کے پیش نظر ان پر زور دیا کہ حدیث میں ایک مختصر جا مع کتاب کی ضرورت ہے جس سے امام بخاری کا عزم پختہ ہو گیا اور ساتھ ہی امام بخاری نےخواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک پنکھا ہے جس سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مکھیاں اڑا رہے ہیں جس کی تعبیر یہ بتا ئی گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے کذب بیانی کی آمیز ش کو دور کریں گے ۔الغرض یہ جملہ اسباب و بواعث تھے جو امام بخاری کے لیے صحیح کی تا لیف کا سبب ہے چنانچہ انھوں نے اس کا م کا آغاز کر دیا ۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں ۔
وقوي عزمه على ذلك ما سمعه من أستاذه أمير المؤمنين في الحديث والفقه إسحاق بن إبراهيم الحنظلي المعروف بابن راهويه وذلك فيما أخبرنا أبو العباس - وذكر إسناده إلى البخاري - قال: ((كنا عند إسحاق بن راهويه فقال: لو جمعتم كتاباً مختصراً لصحيح سنة رسول الله '، قال فوقع في قلبي فأخذت في جمع الجامع الصحيح
"اور اس پر آپ کا عزم اس وقت پختہ ہو گیا جب آپ نے اپنے استاد حدیث اور فقہ میں امیر المؤمنین اسحاق بن ابرا ہیم المعروف بابن راہویہ سے سنا کہ انھوں نے فر ما یا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ایک مختصر کتاب جمع کر دیں امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ با ت میرے دل کو لگی تو میں نے الجامع الصحیح المسند المختصر من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسنة وايامه کو جمع کرنے کا آغاز کر دیا " یعنی استا د یہ بات میرے دل میں اتر گئی اور میں نے الجامع الصحیح کی تا لیف کا آغاز کر دیا ۔
الجامع الصحیح کا پورا نام :
الجامع الصحیح یا صحیح البخاری اس کتاب کا مختصر نام ہے اور امام نے خود ہی الجامع الصحیح کے نا م سے اس کو موصوم کیا ہے تا ہم اس کتاب کا پو را نام بروایت حافظ ابن حجر اس طرح مذکور ہے :
المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه
مگر ابن صلاح اور نووی نے الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایا مہ ذکر کیا ہے یعنی المسند کو الصحیح پر مقدم ذکر کیا ۔ان دونوں میں کو ئی جو ہر ی اختلا ف نہیں ہے نورالدین عتر نے اپنے رسالہ میں ابن صلاح والی روا یت کو قرین قیاس اور را جح بتا یا ہے کیونکہ اکثر نے اسی کو ذکر کیا ہے مگر حافظ ابن حجر کی روا یت کے مؤیدات موجودہیں اول یہ کہ خود مصتف نے الجامع الصحیح کا لفظ ذکر کیا ہے اور یہ مختصر نام متعدد مراجع میں مذکور ہے لہٰذا راجح روایت حافظ ابن حجر کی ہے ۔
آغاز اور تکمیل :
امام المحدثین نے الجامع الصحیح کی تا لیف کا آگاز تقریباً 216ھ یا 217ھ کو کیا جبکہ آپ کی عمر 23سال تھی اور سولہ سال کی لگا تار محنت سے اس کو مکمل کیا اور تین مرتبہ اس پر نظر ثانی کی چنانچہ امام بکاری کے وراق کا بیان ہے کہ امام بخاری نے فرمایا ۔
.. صنفت الصحيح في ست عشرة سنة وجعلته حجة فيما بيني وبين الله تعالى.
"میں نے اس جامع کو سولہ سال میں جمع کیا اور چھ لاکہ حدیث سے منتخب کیا اور میں نے اپنے اور اللہ کے مابین حجت بنا یا ۔پھر جب تکمیل کے بعد اپنے کبار اساتذہ اور محدثین عصر کے سامنے پیش کی جن میں امام احمد بن حنبل (241ھ)یحییٰ بن معین (234ھ) اور علی بن المدینی (234)خاص طور پر قابل ذکر ہیں تو سب نے اس کی تحسین کی اور اس کی احادیث کو صحیح قرارد یا چنانچہ عقیلی کا بیان ہے ۔
فاستحسنوه وشهدوا له بالصحة إلا أربعة أحاديث". قال العقيلي: "والقول فيها قول البخاري وهي صحيحة".
"پس علماء نے اس کی تحسین کی اور اس کی صحت کی گواہی دی سوائے چار احادیث کے اور ان کے بارے میں بخاری کا قول ہی معتبر ہے کہ وہ صحیح اھادیث ہیں علامہ اسماعیلی اپنی کتاب "المدخل الی المستخریج "میں لکھتے ہیں :امام بخاری کی الجامع واقعی "سنن صحیحہ "کی جا معہے اور مسا ئل مستنبط پر حاوی ہے اور ایسی کتاب وہی لکھ سکتا ہے جو علم حدیث کا ماہر ہو اور رواۃ حدیث کے تراجم پر پورا عبور رکھتا ہو اور جسے علل الحدیث فقہ اور لغت پر رسوخ حا صل ہو ۔ابن عدی امام بخاری سے ناقل ہیں میں نے اپنی الجا مع میں صرف صحیح حدیثیں جمع کی ہیں اور بہت سی صحیح احادیث کو چھوڑ دیا ہے تا کہ طوالت نہ ہو ۔پھر احتیاط کا یہ عالم تھا کہ اپنی الصحیح میں کو حدیث اس وقت تک درج نہ کرتے جب تک کہ لکھنے سے پہلے غسل کر کے دوگا نہ ادانہ کر لیتے اور اس کی صحت کا یقین نہ ہو جا تا ۔کتا ب کی تا لیف کا آغا ز بیت الحرام میں ہوا اور ترا جم ابواب مسجد نبوی میں روضہ اور منبر کے درمیان بیٹھ کر لکھے ۔
چونکہ یہ کتاب یحییٰ بن معین (234ھ)کی نظر سے بھی گذری ہے معلوم ہوا کہ 233ھ تک مکمل ہو گئی تھی کیونجکہ ابن معین کی وفات 233یا 234ھ ہے
ترا جم ابواب :
امام بخاری نے اپنی کتاب استخراج مسا ئل فقہیہ کو موضوع بنا یا ہے اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے اپنی ساری علمی اور دماغی توا نائیا ں "فقہ الحدیث " کے مرتب کرنے پر صرف کردی اور ترا جم ابواب میں جو فقہ مرتب کی ہے وہ فقہ المذاہب اور تقلیدی انداز کی فقہ نہیں ہے بلکہ مصنف کے اپنے اجتہاد و استنباط کے ثمرات ہیں اور یہ مصنف کا یسا کا ر نا مہ ہے جسے ہم پہلی اور آخری کو شش کہہ سکتے ہیں اس لیے واقعہ میں یہ مقولہ صحیح ہے
فقه البخاري في تراجمه بخاری کی فقہ اس کے ترا جم میں ہے ۔
لیکن امام بخاری سید الفقہاء تھے اور ان کی فقہ دیکھنا مقصود ہو تو ترا جم بخاری پر نظر ڈا ل کر دیکھ لیں اس بنا پر نعیم بن حماد فر ما تے ہیں ۔
«محمد بن إسماعيل فقيه هذه الأمة.
کہ امام بخاری اس امت کے فقیہ تھے کتاب الجامع الصحیح کے اس فقہی امتیاز کا اعترا ف شارحین اور علما ء نے برملا کیا ہے امام نووی ؒ لکھتے ہیں ۔
وليس مقصود البخاري الاقتصار على الأحاديث فقط بل مراده الاستنباط منها والاستدلال لأبواب ارادها ولهذا المعنى اخلى كثيرا من الأبواب عن إسناد الحديث واقتصر فيه على قوله فيه فلان عن النبي صلى الله عليه و سلم أو نحو ذلك وقد يذكر المتن بغير إسناد وقد يورده معلقا وإنما يفعل هذا لأنه أراد الاحتجاج للمسئلة التي ترجم لها.
"محمد بن اسما عیل اس اُمت کے فقیہ ہیں ان کی کتا ب سے مقسود صرف صحیح حدیث پر اقتضاراور کثرت متون نہیں بلکہ اس سے مرادان سے استنباط اور ان ابواب کے لیے استدلال ہے جن کا مصنف نے ارادہ کیا خواہ ان کا تعلق اصول سے ہو یا فروغ سے زہد سے ہو یا آداب سے اَمثال سے ہو یا دیگر فنون سے اس مقصد کے لیے بہت سے ابواب کو حدیث کی سندوں سے خالی کر دیا ہے اس لفظ پر اختصار کیا ہے (فلان الصحابي عن النبي وغير ذالك) اور آپ نے ترا جم میں بہت زیادہ قرآنی آیات ذکر کی ہیں بسا اوقات بعض ابواب میں ان آیا ت پر ہی اقتصار کیا ہے اور ان کے ساتھ کو ئی حدیث ذکر نہیں کرتے ۔
دراصل امام بخاری اس نظر یہ کے پر زور حا می نظر آتے ہیں کہ کتا ب و سنت میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے لہٰذا قیاس و را ئے کی ضرورت نہیں امام المحدثین فر ما تے ہیں۔
لا أعلم شيئا يحتاج إليه إلا وهو في الكتاب والسنة .
"میں ایسی کو ئی چیز نہیں جا نتا جس کی طرف احتیاج ہو اور وہ کتا ب و سنت میں نہ ہو ۔ اس پر امام بخاری کے وراق نے سوال کیا کہ کیا کتاب وسن سے ہر مسئلہ کی معر فت ممکن ہے اس پر امام نے فرمایا :"کہ ہاں یہ ممکن ہے ۔"اور ممکن ہی نہیں بلکہ امام بخاری نے الجامع الصحیح میں عملاً اس کا مظاہر ہ بھی کیا ہے اور ایک ایک حدیث پر متعدد ترا جم قائم کر کے فقہ الحدیث کے لیے دروازہ کھول دیا ہے جیسا کہ فقہ البخای کے تحت ہم اصول فقہ کی طرز پر اس کی امثلہ پیش کر یں گے ۔اور ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابن حزم نے فقہ اسلامی میں "المحلی "لکھ کر اس نظر یہ کی تکمیل کر دی ہے ۔
تجرید احادیث صحیحہ کی پہلی کو شش:
الغرض "الجامع الصحیح "تجرید احادیث صحیحہ کی پہلی کو شش ہے اور امام بخاری نے اس میں یہ کمال کر دکھا یا ہے کہ ترا جم ابواب میں اقوال صحابہ و فتاوی تابعین کو منا سب طور پر جمع کر دیا ہے جس کے دو فا ئدے ہیں اول یہ کہ تجرید احادیث سے یہ نہ سمجھا جا ئے کہ محدثین کے نزدیک اقوال و آثار صحابہ کی کو ئی قدرو قیمت نہیں ہے بلکہ محدثین کے نزیدیک مخصوص شرا ئط کے تحت ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ اس سے پیشتر موطا امام ما لک کی مثا ل مو جو د ہے ۔امام بخاری نے استخراج مسال اور استنباط کے ذریعہ قوانین نقلیہ کو قواعد عقلیہ کے مطابق ڈاھالنے کی کو شش کی ہے اور دوسرے الفاظ میں ان کو معیار عقل پر پر کھا ہے جسے درایت سے تعبیر کر سکتے ہیں اور یہ خوبی ہے جو امام بخاری کے بعد حافظ ابن تیمیہ ؒ اور ان کے تلمیذ ارشد ابن قیم کی تحریرات میں نما یا ں نظر آتی ہے اور پھر ابن حزم اور ابن تیمیہ ؒ نے تو عقل و نقل کی مطا بقت پر مستقل کتا بیں لکھی ہیں جن پر جدید اسلامی معاشرہ کی تشکیل کی جا سکتی ہے شاہ ولی اللہ دہلوی نے امام کی اس کو شش کی داد دی ہے شرح ترا جم میں لکھتے ہیں ۔
وكثيرا ما يستخرج الاداب المفهومة بالعقل من الكتاب والسنة بنحو من الاستدلال والعادات الكائنة في زمانه صلي الله عليه وسلم ومن ذلك لا يدرك حسنه الا من مارس كتاب الآداب واجال عقله في بدان آداب قومه ثم طلب ما من السنة اصلاً
"عموماً ایسے ترا جم ابواب ذکر کرتے ہیں جو کتا ب وسن میں انتہائی غور کے بعد حاصل ہو تے ہیں جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہو نے والی عادات سے استدلال اور اس میں وہ بھی چیزیں ہیں جن کے حسن کا ادراک وہی شخص کر سکتا ہے جو صاحب فن ہے اور جس نے آداب کی کتاب پر مشق اور ہمیشگی کی اور اپنی عقل کو اپنی قوم کے آداب کے میدان میں سر گرداں رکھا ۔پھر اس کے لیے سنت سے دلیل تلاش کی ۔اور امام بخاری نے اس ضمن میں جو کمال کر دکھا یا ہے ابن حجر نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔چنانچہ وہ مقدمہ "الفتح " میں لکھتے ہیں :
وكذلك الجهة العظمى الموجبة لتقديمه-يعني صحيح البخاري- وهي ما ضمّنه أبوابه من التراجم التي حيّرت الأفكار وأدهشت العقول والابصار،
"اسی طرح دوسری بڑی وجہ جو اس کی تقدیم کی مو جب ہے یہ ہے کہ ایسے ترا جم ابواب پر یہ کتا ب مشتمل ہے جنہوں نے افکار کو حیرت میں ڈال دیا اور عقلوں اور نظروں کو مد ہو ش کر دیا "
یہی نہیں بلکہ موجودہ دور کے علماء نے بھی ترا جم کی لطافت کا اقرار کیا ہے چنانچہ مولانا انور شاہ کشمیری "فیض الباری "میں لکھتے ہیں ۔
كما كان ( في تراجمه) سباق غايات و صاحب آيات في وضع تراجم لم يسبق إليها و لم يستطع أن يحاكيه أحد من المتأخرين فنبه على مسائل مظان الفقه من القرآن بل أقامها منه و دل على طرق التأنيس منه و به يتضح ربط الفقه و الحديث بالقرآن بعضه مع بعض فكانت تراجمه صورة حية لاجتهاده و عبقريته و منهجيته.
"بے شک مصنف مقاصد میں آگے بڑھنے والے ہیں اور متحیر العقول ترا جم ذکر کرتے ہیں متقدمین میں سے اس کا م پر کسی نے پہل نہیں کی اور نہ ہی متاخرین میں سے کسی نے آپ کے مقابلے کی ہمت کی ہے پس آپ ہی اس دروازے کو کھولنے والے ہیں اور آپ اس فن میں آخری ثابت ہو ئے آپ نے اپنے ترا جم میں با ب سے متعلق منا سب آیا ت بھی ذکر کی ہیں اور قرآن میں مذکورہ فقہی مسائل کی نشا ندہی کی ہے بلکہ قرآن سے ان کو ثابت کیا ہے اور قرآن سے احکام اخذا کرنے کے طریقے بتا ئے ہیں اسی وجہ سے فقہ اور حدیث کا قرآن سے اور قرآن کے بعض حصے کا بعض سے ربط واضح ہو تا ہے اور یہ آپ کے اجتہاد کی رفعت اور اجتہادیات میں صاحب ذوق ہو نے کی علا مت ہے آپ نے ان چیزوں کو ترا جم میں بسط کے ساتھ ذکر کیا ہے مصنف کے ترا جم میں فقہ اصول اور علم کلام کے متعلق مختلف علوم موجود ہیں جس کی طرف بڑے اختصار و ایجاز کے ساتھ اشارہ کیا ہے "
اور پھر استنباط فقہ اس خوبی سے کیا ہے کہ ایک ہی حدیث سے مختلف مسائل کا استخراج کرتے چلے گئے اس طرح بعض احادیث متعدد ابواب کے تحت مکرر آگئی ہیں لیکن فقہ اسلامی میں تو سیع کا دروازہ کھولا ہے اور یہ ایسا کا ر نا مہ ہے کہ شاہ ولی اللہ دہلوی اس سے متاثر ہو کر برملا اعتراف کرتے ہیں :
وقد برهن بهذه الطريقة على أنه يفرغ جهده في الاستنباط في أحاديث رسول الله صلى الله عليه وسلم ويستنبط من كل حديث مسائل كثيرة
"اس طرح آپ نے ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے مسائل کے استنباط میں اپنی پو ری کو شش صرف کر دیں اور ہر حدیث سے بہت زیادہ مسائل استنباط کریں
اس طریق سے ہم آج بھی فقہ اسلامی کو فروغ دے سکتے ہیں موجودہ دور کے علماء میں احمد محمد شاکر محدث مصریؒ نے جب مسند احمد کی تبویب شروع کی تو انھوں نے بھی یہی طریق اجتہاد اختیار کیا مگر افسوس یہ کا م مکمل نہ ہو سکا تا ہم ان کے کام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے ۔الغرض امام نووی حافظ ابن حجر اور شاہ ولی اللہ دہلوی نے الجامع الصحیح کے ترا جم ابواب کی اہمیت پر زور دیا ہے اور علامہ کرمانی لکھتے ہیں ۔ان هذا فهم عجز عنه النهول اور حقیقت یہ ہے کہ کسی مصنف کی فہم و فہراست نبوغ و تفقہ کا اندازہ کتاب کے عنوانوں سے ہو جا تا ہے اور امام بخاری نے عموماً ظاہر حدیث کو چھوڑ کر اس کے خفی پہلو سے استنباط کیا ہے اور پھر اہم ترا جم ابواب میں آثار صحابہ و تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین درج کر کے کہیں تو اپنے اختیار کر دہ مسلک کی طرف اشارہ کیا ہے اور بعض مواقع میں حدیث کی تاویل کے پہلو کو واضح کیا ہے اور ترا جم ابواب کے ساتھ حدیث کی منا سبت یا مطابقت بیان کر دی ہے یہی وجہ ہے کہ صحیح بخاری کے حل ترا جم پر علماء نے مستقل تصانیف لکھی ہیں جن میں سے چند کا ذکر فائدہ سے خالی نہ ہو گا (1) کتاب ترجمان الترا جم لا بی عبد اللہ محمد بن عمر بن رشید البستی (م721ھ)حافظ ابن حجر عموماً اس کتاب کا حوالہ دیتے ہیں تا ہم یہ کتا ب الصوم تک نامکمل ہے ۔حافظ ابن حجر لکھتے ہیں ۔
أطال فيه النفس ولم يكمل وله وصل الي كتاب الصيام ولونم لكان في غاية الفادة وانه كثير الفائدة مع تقصر
"اس میں آپ نے طویل عرصہ لگایا لیکن مکمل نہ کر سکے صرف کتاب الصیا م تک پہنچے اگر یہ کا م مکمل ہو جا تا تو انتہائی مفید ثابت ہو تا ۔اگر چہ اب بھی مختصر ہو نے کے باو جو د کثیر الفائدہ ہے ۔ابن رشید کا ترجمہ "لحظ الالحاظ "میں ابن فہد نے ذکر کیا ہے اور لکھا ہے
عالي الإسناد، صحيح النقل، أصيل الضبط، تام العناية بصناعة الحديث،
"عالی الاسناد ۔نقل میں صحت اور فن حدیث کا مکمل اہتمام رکھتا ہے ۔
(2)کتاب مناسبات ترا جم البخاری تصنیف قاضی القضاۃ الامام بدرالدین ابن جماعتہ یہ ابن المنیر کی کتاب کا ملخص ہے
(3)المتواری علی ترا جم البخاری علامہ ناصر الدین احمد بن المنیر خطیب اسندریہ نے (683)اس میں چار سو منتخب ابواب کی شرح نہایت بسط کے ساتھ کی ہے حافظ ابن حجر نے "حدی الساری " میں اس کا ذکر کیا ہے اور فتح الباری کا ماخذ ہے متعدد مواضع میں اس کے حوالہ جا ت مذکور ہیں علامہ زین ابن المنیر کی شرح بخاری ہے جو دس جلدوں سے زائد ہے ولہٰحواش علی ابن بطال
(4)علامہ محمد بن منصور السجلماسی نے
فكّ أغراض البخاري المبهمة في الجمع بين الحديث والترجمة
لکھی جس کے نام سے کتاب کی افادیت واضح ہے صرف ایک سو منتخب ترا جم کی شرح ہے ۔
(5)بدرالدین الدمامینی (828ھ) کہ انھوں نے "تعلیق المصابیح علی ابواب الجامع الصحیح "لکھی ہے ان کی مصابیح الجامع " شرح بخاری بھی ہے ۔
(6)شرح التراجم پر ایک مختصر مگر جامع رسولہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے " شرح ترا جم الابواب "کے نا م سے لکھا ہے شروع میں ترا جم کے متعلق چند اصول ذکر کئے ہیں پھر چار سو سے زائد ترا جم پر مفصل بحث کی ہے جو قابل مطالعہ ہے علاوہ ازیں شارحین نے بھی ترا جم پر شرح و بسط کے ساتھ بحث کی ہے جن میں ابن حجر اور علامہ عینی کو نما یاں حیثیت حاصل ہے اس بحث کے آخر میں ترا جم کے متعلق علامہ ابن خلدون کی را ئے نقل کرنا فائدہ سے خالی نہیں وہ اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں ۔
فأما البخاري وهو اعلاها رتبة فاستصعب الناس شرحه واستغلقوا منحاه من أجل ما يحتاج إليه من معرفة الطرق المتعددة ورجالها من أهل الحجاز والشام والعراق ومعرفة أحوالهم واختلاف الناس فيهم ولذلك يحتاج إلى إمعان النظر في التفقه في تراجمه لأنه يترجم الترجمة ويورد فيها الحديث مسند أو طريق ثم يترجم أخرى ويورد فيها ذلك الحديث بعينه لما تضمنه من المعنى الذي ترجم به الباب وكذلك في ترجمة وترجمة إلى أن يتكرر الحديث في أبواب كثيرة بحسب معانيه واختلافها ومن شرحه ولم يستوف هذا فيه فلم يوف حق الشرح كابن بطال وابن المهلب وابن التين ونحوهم
"جہاں تک امام بخاری ہیں تو اس معا ملہ میں اعلیٰ رتبہ کے حامل ہیں لو گوں نے اس کی شرح کو صعب گردانا اور انہیں ابواب کی شرح میں انتہائی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے کیو نکہ ان کی شرح کے لیے متعدد طرق کی معرفت اور احادیث کے رجا ل جو کہ حجا ز عراق اور شام تک پھیلے ہو ئے ہیں حالات سے واقفیت اور لوگو ں کے اختلا ف کا علم از حد لا زمی ہے مزید برآں فقہ ترا جم البخاری میں شارح کا عمیق النظر ہو نا بھی لا زمی وصف ہے کیونکہ آپ ایک جگہ ایک ترجمہ ذکر کر تے ہیں اور اس میں سند یا طریق کے ساتھ حدیث ذکر کرتے ہیں پھر کسی اور مقام پر بعینہ اسی حدیث کو کسی دوسرے ترجمہ کے تحت دوبارہ لا تے ہیں کیو نکہ حدیث اس مضمون کو بھی شامل ہو تی ہے اور جا بجا مختلف ترا جم میں یہ معاملہ ہو تا ہے حتیٰ کہ ایک حدیث مختلف معانی کی منا سبت اور اختلاف کے باعث متعدد مقامات پر ذکر ہو جا تی ہے ۔
الغرض امام بخاری نے " الجامع الصحیح "کو اس پہلو سے بھی جا مع بنایا ہے کہ ترا جم میں تقلید ی فقہ کی بجا ئے تحقیقی فقہ پیش کی ہے اور فقہ اہل الرائے تنقید کی ہے نیز امام بخاری نے ان نظریا تی تحر یکا ت کا بھی جا ئز ہ لیا ہے جو اس دور میں اسلامی معاشرہ کے لیے چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکی تھیں معتزلہ و جھمیہ نے صفات باری تعا لیٰ کی نفی کر دی تھی اور خوارج و مر حبہ نے ایمان و کفر کے پیمانے مقرر کر رکھے تھے اور شیعہ وخوارج نے نظر یہ خلافت و حکومت کے سلسلہ میں انتشار پھیلا رکھا تھا امام بخاری نے الجامع میں ان تمام نظریات کو سامنے رکھ کر اپنی کتاب کو مرتب کیا ہے مولانا عبد السلام المباری کپوری کتاب کی جامعیت اور صحت پر بحث کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔
صحیح بخاری ہی ایک ایسی کتاب ہے جس پر صحیح اور جامع دونوں کا اطلاق ہو تا ہے جامعیت کی یہ حا لت ہے کہ کیفیت وحی اور ابتدائے وحی (جس سے اسلام کی بنا ء قائم ہوتی ہے) سے لے کر تمام فنون عقائد و عبادات معا ملا ت سیر بدئ العالم غزو ات و تفسیر فضا ئل طب آداب رقاق اور تو حید وغیرہ 54فنون اسلامیہ کی جا مع کتا ب لکھی ۔ملکی سیاسی قوانین کے علاوہ روز مرہ کے جزوی معا ملا ت کس طرح صاف اور روش دلا ئل سے مستنبط کئے غرض بعد کتاب اللہ یہ ایسی کتاب ہے جو دین اور دنیا دونوں کے معا ملا ت کو سلجھاتی ہے اور مصنفت کے تمام فنون میں قابلیت کی شہادت دیتی ہے ۔
اب اس کے بعد بھی مخالفین اگر صحیح بخاری کی عام قبولیت پر شور و شغب مچائیں تو کب قابل التفات ہے ۔
ع:مہ نور مے فشا ندو سگ بانگ میز ند
امام بخاری نے کتاب العلم میں مصطلح الحدیث یا درایت حدیث کے اہم اصول واضح شکل میں مدون کر دئیے اور اس دور میں یو نیورسٹیوں کے نظام تعلیم میں بہت سے اصول ایسے ہیں جو اسلامی طریق تعلیم سے ماخوذ ہیں اور امام بخاری نے ان اصولوں کو محدثانہ انداز میں کتاب و سنت سے ثابت کیا ہے علاوہ ازیں مصنف نے "الجامع الصحیح " میں قواعد فنیہ مصطلحہ کا بھی بھر پور مظاہر ہ کیا ہے اور ان کی رعا یت سے اپنے فن کمال کو اوج تک پہنچا دیا ہے جیسا کہ اس کے بعد صحیح بخاری کی فنی حیثیت پر بحث میں آ رہا ہے ۔فی الحال ہم صحیح بخاری کے چند فقہی اصولوں کی نشا ندہی کرتے ہیں جو کتاب الاعتصام یا کتاب الاحکام میں امام بخاری نے صراحتاً یا اشارۃً بیان کئے ہیں :
(1)کتا ب و سنت چونکہ جوامع کلمات پر مشتمل ہیں اس لیے ان دونوں سے ہر مسئلہ مستنبط ہو سکتا ہے (کمامر )
(2)دین اسلام اصول و احکا م کی حد تک مکمل ہو چکا ہے لہٰذا ان سے تمام مسا ئل کا استنباط ہو سکتا ہے ۔
(3)سنت قولی فعلی اور تقریری حجت ہے نیز "احسن الھدی حدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت آپ کے شمائل بھی سنت میں داخل ہیں اور علماء نے شمائل نبوی پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔
(4)جو حکم سنت سے ثابت ہو وہ کتاب الیٰہ میں داخل ہے ۔
(5)اگر را ئے و قیاس نصوص کتاب اللہ کے خلا ف ہوں تو مذموم ہیں اور اگر قیاس کی بنا ء کتاب و سنت پر ہو تو وہ قیاس محمود ہے ۔
(6)فرضی طور پر رائے و قیاس کا استعمال وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ
میں داخل ہے ۔
(7)کسی حکم کی تفہیم کے لیے تشبیہ و تمثیل سے کا م لیا جا سکتا ہے اور یہ رائے و قیاس نہیں ہے اس کو امام بخاری "تشبيه اصل معلوم باصل مبين سے بیان کرتے ہیں ابن بطال لکھتے ہیں کہ تشبیہ و تمثیل دراصل قیاس ہی کی ایک صورت ہے ۔
(8)اجماع امت حجت ہے اور امام مالک کے نزدیک اجما ع اہل مدینہ بھی حجت ہے علامہ کرمانی لکھتے ہیں ۔
وعبارة البخاري مشعرة بان اتفاق اهل الحرمين كليها اجماع
"اور امام بخاری کی عبارت سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل حرمین کا اتفاق "اجماع" ہے "۔۔۔۔تاہم اجماع سکوتی حجت نہیں ہے جیسا کہ ۔۔۔میں اشارہ پا یا جا تا ہے ۔
(9)کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احکا م میں اجتہاد کے مجا ز تھے ؟ آیت لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌعموم نفی پر دا ل ہے ۔
(10)رافضہ اور خوارج کا یہ زعم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کسی پر مخفی نہیں رہ سکتے لہٰذا جو احکا م بعض سے مخفی ہیں وہ حجت نہیں ہو سکتے ۔
امام بخاری نے اس نظریہ کا رد کیا ہے اور اخبار آحاد پر عمل کر نے کو اجماعی مسئلہ بتا یا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریری حدیث کی حجیت سے ثا بت ہو تا ہے کہ اجماع سکوتی حجت نہیں ہے۔
(11)"باب الاحكام تعرف بالدلائل "کے تحت بیان کردہ احادیث سے ثابت ہو تا ہے کہ اگر دلیل خاص نہ ہو تو دلیل عام سے استدلال کیا جا ئے گا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُمر کے متعلق سوال پر فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ آیت تلا وت فر ما ئی ۔
(12)جب حکم مجمل ہو تو اس کی وضا حت قرائن سے کی جا ئے گی ۔
(13)اشارہ سے حکم مستنبط کرنا جا ئز ہے جیسا کہ فاتا ابا بكر اس میں اس با ت کا اشارہ ہے کہ ابو بکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہو ں گے ۔(قول حکیم دہلوی)
(14)امام بخاری "سدالذرائع واعتبار المقاصد " کے قا ئل ہیں حافظ ابن حجر حدیث "انماالاعمال بالنیات " کے تحت لکھتے ہیں ۔
والاستدلال بهذا الحديث على سد الذرائع وإبطال التحيل من أقوى الأدلة ، ووجه . (فتح الباري)
"اس حدیث سے سد ذرائع اور حیل باطل ہو نے پر استدلال کرنا چند قوی دلائل میں سے ایک ہے اور اس میں وہ امام مالک کے تا بع ہیں ۔
(15)نصوص کی مو جو دگی میں نظر و قیاس سے استدلال جا ئز نہیں (قالہ المہلب )
(16)نہی تحریم کے واسطے ہے صیغہ امرو جو ب کے لیے مستعمل ہے الایہ کی ابا حت یا کراہت پر کو ئی دلیل ہو جیسا کہ حضرت جا بر کا قول ہے ۔
قَالَ أَهْلَلْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجِّ خَالِصًا لَيْسَ مَعَهُ عُمْرَةٌ قَالَ عَطَاءٌ ... عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحِلَّ وَقَالَ أَحِلُّوا وَأَصِيبُوا مِنْ النِّسَاءِ قَالَ عَطَاءٌ قَالَ جَابِرٌ وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ
"رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ سے اہلال کے بعد فر ما یا کہ عورتوں کے پا س جاؤ اور یہ ان پر لا زم نہیں کیا گیا تھا اور جس طرح ام عطیہ کا فر ما ن ہے کہ ہم جنا ئز کے پیچھے جا نے سے روکے گئے اور یہ ہم پر لا زمی بھی نہیں ہے ۔
اور امام مالک اور شافعی کا بھی یہی مسلک ہے کہ ۔
والشافعي : أن الأمر عندهما على الإيجاب والنهي على التحريم حتى يقوم الدليل على خلاف ذلك ، وقال ابن بطال : هذا قول الجمهور ، وقال كثير من الشافعية وغيرهم : الأمر على الندب والنهي على الكراهة حتى يقوم دليل الوجوب في الأمر ودليل التحريم في النهي
"یعنی امر کی دلالت وجوب پر ہے اور نہی تحریم کے لیے ہے حتی کہ کو ئی دلیل اس کے خلا ف واقع ہو ۔ابن بطال نے کہا اور یہی جمہور کا قول ہے اور اکثر شوافع کا یہ قول یہ ہے کہ اَمر ندب کے واسطے ہے اور نہی تحریم کے لیے حتی کہ کو ئی ایسی دلیل پا ئی جا ئے جو امر کی و جو ب پر دلالت کروا ئے اور نہی کی تحریم پر ۔
(17)حدیث تقریر سے استدلال کرتے ہیں (باب ضرب الدف ج11ص108)قصتہ نکاح عبد الرحمٰن بن عوف (11/128)
۔۔۔اطلاق سے استدلال جیسا کہ آیت وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً كہ اس میں صدقات مطلق ہے اسی طرح فریضۃ اور حدیث میں ہے "
ولو خاتما من حديد
۔۔۔استدلال بالا لحاق وھو نو ع من القیاس (باب المھر بالعروض و خاتم من حدید باب استعارۃ الشیاب وغیرھا ) قال الحافظ :
ليس من شئي من احاديث الباب ذكر وانما يوخذ منها بطريق الالحاق ومن مقتضي قول عائشة
"احادیث میں ترجمہ سے کو ئی ظا ہری منا سبت نہیں تا ہم یہ منا سبت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قول کے مقتضیٰ اور طریق الحاق سے ہی پا ئی جا سکتی ہے
۔۔۔کبھی ایسے لفظ سے استدلال کرتے ہیں جس میں دومعنی کا احتمال ہو تا ہے
۔۔۔"عدم المفہوم "سے استدلال صحیح ہے ۔
الاستدلال بعدم المفهوم(وَٱهْجُرُوهُنَّ فِى ٱلْمَضَاجِعِ) اشار في هجرة النبي صلي الله عليه وسلم نسائه بانه ليس لقوله تعاليٰ في المضاجع مفهوم
"اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے بیویوں سے دور رہنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اللہ تعا لیٰ کے فرما ن فِى ٱلْمَضَاجِعِ میں مفہوم نہیں "
۔۔۔تقسید مطلق سے استدلال کر لیتے ہیں بشرطیکہ وہاں پر تقسید کے دلائل موجو د ہوں باب ما يكره من ضرب النساء
۔۔۔"مفہوم "امام بخاری کے نزدیک حجت ہے ۔
۔۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام افعال مطلقاً حکم پر دلالت نہیں کرتے جیسا کہ آپ کا فرمان اني لا اكل متكئاً منع پر دال نہیں ہے ۔(ص471)
باب الترغيب في النكاح ) لقوله تعالى فانكحوا ما طاب لكم من النساء زاد الأصيلي وأبو الوقت " الآية " ووجه الاستدلال أنها صيغة أمر تقتضي الطلب ، وأقل درجاته الندب فثبت الترغيب
۔۔۔ضمیر خطاب یا صیغہ "تخا طب مخاطسن کے ساتھ حکم کی تخصیص نہیں کرتے حافظ ابن حجر نے فرما یا ۔
اشار ان الشافعي لا نجص وهو كذلك اتفاقا وانما اختلاف هل يخص نصا او استنباطا
"اس میں یہ اشارہ ہے کہ تخاطب خصوصیت کا فا ئدہ نہیں دیتا اور یہ مفقہ بات ہے اختلاف اس میں ہے کہ کیا یہ نصا"خاص کرتا ہے یا استنباطاً "
الاستدلال باللزوم باب ترويج العمر (حديث ابن مسعود) ترويج الثيبات (حديث ام حبيبة) باب الي من ينكح(الخ) قال الحافظ اشتملت الترجمة علي ثلاثه احكاه وتناول الاول والشاني واضح واما الثالث فيوخذ منه باللزوم
۔۔۔لزوم سے استدلال :جیسا کہ تنگدست کی شادی کروانے باب میں ابن مسعود کی حدیث اور بیوہ عورتوں کی شادی کے با رے میں حدیث ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے اور کس سے شادی کی جا ئے کے باب میں ۔۔۔حافظ ابن حجر نے فرمایا ۔"ترجمہ تین احکا م کو شمل ہے اور پہلے دوسرے کا مفہوم تو واضح ہے اور تیسرے کا معاملہ یہ ہے کہ وہ لزوم سے اخذ کیا جا ئے گا "الخ ۔۔۔جو باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات سے نہیں ہیں ان میں دوسرے بھی شر یک ہو سکتے ہیں اس پر "عورت کا اپنے نفس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کرنے والے قصہ"سے استدلال کیا گیا ہے حافظ ابن حجر نے فر ما یا ۔
من لطائف البخاري أنه لما علم الخصوصية في قصة الواهبة استنبط من الحديث ما لا خصوصية فيه وهو جواز عرض المرأة نفسها على الرجل الصالح رغبة في صلاحه ، فيجوز لها ذلك
"لطائف بخاری" میں سے یہ بھی ہے کہ "واھبہ " کے قصہ میں انہیں خصوصیت کا علم ہواتو انھوں نے اس سے وہ بات اخذ کی جس میں کو ئی خصوصیت نہیں اور وہ ہے ۔۔۔عورت کا اپنے آپ کو کسی نیک آدمی پر اس کی نیکی کی وجہ سے پیش کرنے کا جوا ز
يستدل بالعموم لوجود الصلاحية الا مادل الدليل علي اعتباره وهو اسثناء الكافر (باب الكفاءة في الدين وقوله تعاليٰ(وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ)
حافظ ابن حجر نے فرمایا:
ذهب الي مذهب مالك في اعتبار الكفاءة بالدين فان في النسب من لا يحل نكاحه وصهر عام الا ماخصه الدليل فلا نحل نكاح المسلمة بالكافر اصلا ولم يثبت في اعتبار الكفاءة بالنسب حديث وما ورد من الاحاديث فليست بمصيحة والي اعتبار الكفاءة بالدين ذهب ايضا الشافعي والله اعلم
باب ما يتقى من شؤم المرأة وقوله تعالى: إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ (الاية)
فان من ههنا للتبيعض قال الحافظ ابن حجر كانه يشير الي اختصاص الشوم ببعض النساء دون بعض مما دلت عليه الاية من التبعيض
باب لا يتزوج اكثر من اربع اس میں رافضہ کا رد ہے کہ وہ تحدید کے قائل نہیں ہیں مصنف نے تحدید کے لیے آیت مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَسے استدلال کیا ہے کہ واؤبمعنی اَوَہے اور اعداد مذکور میں تخسیر ہے جیسا کہ اس کے بعد (فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً) سے مفہوم ہو تا ہے پس آیت (أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ)بمعنی اَوَہے اور حدیث سے اس کی تبیین ہو تی ہے ۔
حضرت علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مثنیٰو ثلاث و رباع کی تفسیر میں فر ما یا ہے کہ واؤ بمعنی اَوَہے یعنی تنو یع کے لیے ہے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
وهذا من أحسن الأدلة في الرد على الرافضة لكونه من تفسير زين العابدين وهو من أئمتهم الذين يرجعون إلى قولهم ويعتقدون عصمتهم والله اعلم
علامہ کرمانی نے "الردود وا لنقود "میں فقہ الصحیح پر خصوصی توجہ دی ہے ۔
شروط البخاری
اس باب میں حافظ ابن حجر ؒ (752ھ)نے نہایت دقیق و مفید بات کہی ہے وہ اپنی کتاب "فتح الباری "میں لکھتے ہیں ۔
حدیث صحیح کی روا یت میں امام بخاری کی شروط کو دو طریق سے اخذکیا جا سکتا ہے
(1)خود کتاب کے نا م سے جو امام بخاری نے رکھا ہے ۔
(2)امام کے تصرف سے استقراء کے ذریعہ جو عموماً آئمہ نے بیان کی ہیں ۔پہلی بات ہم دیکھتے ہیں کہ امام بخاری نے اپنی کتاب کا نا م "الجا مع الصحیح المسند المختصر من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننه وايامه "رکھا ہے ۔
(1)الجامع کے لفظ سے معلوم ہو تا ہے کہ مصنف نے حدیث کی کسی ایک صنف کو خاص نہیں کیا بلکہ حدیث کے "انواع ثمانيه" سے انتخاب کیا ہے اس بناء پر اس کا نا م الجامع رکھا ہے ۔
(2)"الصحیح" کے لفظ سے معلوم ہو تا ہے کہ اس میں ضعیف روایت درج نہیں کی گئی چنانچہ امام بخاری نے خود بھی تصریح کی ہے ۔
ماادخلت في الجامع الاماصح
"میں نے اپنی "الجامع "میں صحیح احادیث ہی در ج کی ہیں "
(3)"المسند "اس سے بتا یا ہے کہ اصل میں وہ احادیث لا ئیں گے جن کی اسناد متصل اور مرفوع ہو گی عام اس سے کہ وہ حدیث قولی فعلی ہو یا تقریر اور اگر کسی موقع پر اس کے خلاف آیا ہے وہ تبعاً اور عرضاً آیا ہے نہ کہ اصل مقصود کے لحاظ سے اب رہی دوسری صورت یعنی مصنف کے تصرف سے استقراء اور تتبع تو علماء نے اس پر طبع آزمائی کی ہے اور یہ دراصل امام بخاری کے نزدیک صحیح حدیث کی تعریف جا ننے پر مو قوف ہے اور امام بخاری کے نزدیک صحت حدیث کے لیے اتصال اسناد شرط ہے یعنی راوی کی اپنے مروی عنہ سے لقاء ہو جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے تصریح کی ہے لیکن حافظ ابن حجر مزید لکھتے ہیں کہ امام بخاری اس راوی کی حدیث لا تے ہیں جو اكثر صحة مع شيخه واعرفهم بحديثه ہو اور اگر اس صفت پر نہ ہو تو اس کی روا یت متابعات میں لے آتے ہیں جبکہ قرینہ ہو کہ راوی نے اس کو ضبط کیا ہے یہی وجہ ہے کہ علماء نے صحیح بخاری کو "اصح الکتب " کہا ہے اب ہم استقراء کے متعلق علماء کے خیالات مفصل بیان کرتے ہیں ۔
علامہ حازمی کی را ئے :
اوپر جو کچھ حافظ ابن حجر کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے دراصل یہ علامہ حازمی ۔کی رائے ہے جو انھوں نے "شروط الائمہ الخمسہ" میں امام بخاری کی شرط کی وضاحت کے سلسلہ میں ذکر کی ہے اور اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں ۔جن محد ثین نے حدیث صحیح لا نے کا التزام کیا ہے وہ مشائخ سے راوی عدل کا التزام کرتے ہیں اور جس سے وہ روایت کرے وہ بھی عدل ہو کیونکہ مشائخ سے روایت کرنے والے صحیح اور مو صول دونوں قسم کی روایت کرتے ہیں اور یہ دوسری قسم شواھد و متابعات میں لا نے کے قابل تو ہو سکتی ہے اصول میں لا نے کے قابل نہیں ہو تی اس کی وضاحت کے لیے ہم رواۃ کو پا نچ طبقوں میں تقسیم کرتے ہیں تا کہ صحیحین اور سنن کی روایات میں تفاوت درجا ت کی نشان دہی ہو سکے ۔
طبقات رواۃ :
ہرراوی الاصل یعنی جو کثیر الروایہ راوی ہو علماء نے اس کے اصحاب کو پانچ طبقات میں تقسیم کیا ہے اور ہرطبقہ کا مقام و مرتبہ متعین کیا ہے مثلاً امام زھری کے تلامذہ کے پانچ طبقے ہیں :
(1)جو عدل واتقان میں تام ہوں اور کما ل حفظ کے ساتھ متصف ہوں اور پھر ان کو زھری کے ساتھ طول ملازمت کا شرف بھی حاصل ہو اور حضر وسفر میں ایام زھری کے ساتھ رہے ہوں امام زھر ی کی احادیث کو جانچنے کا موقعہ ملا ہو اس طبقہ کی روا یت امام بخاری اصالتاًً ً لا تے ہیں ۔
(2)عدل و ضبط میں پہلے طبقہ کے ساتھ شریک ہو مگر طبقہ اولی کی مثل طول ملا زمت حاصل نہ ہو اور نہ ہی روا یا ت کی پو ری طرح ممارست کا مو قع ملا ہو اور اتقان میں بھی پہلے طبقہ سے کمتر ہو اس طبقہ کی روا یا ت امام مسلم تو اصالتہً لاتے ہیں لیکن امام بخاری متابعات اور شواہد میں لا تے ہیں ۔
(3)وہ جماعت جو طبقہ اولی کی طرح امام زھری سے اتصال تو رکھتی ہو لیکن عوامل جرح سے سالم نہ رہی ہو یعنی رد و قبول میں بین بین سی ہو یہ امام ابو داود اور امام نسا ئی کی شرط ہے یعنی اس طبقہ کی روا یت کو وہ بطور استدلال لے آتے ہیں ۔
(4)جو جرح و تعدیل میں طبقہ ثالثہ کے ہم درجہ ہوں لیکن زھری کی حدیث کی ممارست بھی بہت کم کی ہو کیونکہ زھر ی کے ساتھ رہنے کا ان کو بہت کم موقع ملا ایسے رواۃ جا مع ترمذی کی شرط ہیں ۔
(5)طبقہ ضعفاء و مجھولین جن کی روایت ابواب احکام کی کتابوں میں صرف اعتبار و استشہاد کے طور پر لائی جا سکتی ہیں جیسا کہ اصحاب سنن کرتے ہیں سخیین ان کے نزدیک تک نہیں جا تے ۔
آمدم برسر مطلب :
اس کے بعد علامہ حازمیؒ لکھتے ہیں ۔امام بخاری کا مقصود پہلے طبقہ کی روایت کو جمع کرناہے مگر کبھی دوسرے طبقہ کے اعیان سے بھی لے آتے ہیں اور امام مسلم دوسرے کے بعد تیسرے طبقہ کے اعیان کی روایت لے آتے ہیں اور امام ابوداؤد تیسرے کے بعد چوتھے طبقہ کے مشاہیر سے بھی حازمی کے اس کلام کی تلخیص کے بعد ابن حجرؒ لکھتے ہیں : "طبقات رواۃ کی یہ درجہ بندی مکثرین کے حق میں ہے لہٰذا زھری کے اصحاب پر نافع اعمش اور قتادہ وغیرھم کے اصحاب کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے ۔باقی رہے غیر مکثرین تو شیخین صرف انہی کی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں جو ثقہ عدل ہوں اور قلت خطا کے ساتھ متصف ہوں پھر جس پر اعتماد قوی ہو تفرد کی صورت میں بھی اس کی روایت لے آتے ہیں جیسے یحییٰ بن سعید انصاری وغیرہ اور جس پر اعتماد قوی نہ ہو تو اس کی روایت مقرون لا تے ہیں ۔
اب اس کے بعد مقدسی اور امام حاکم کی تتبع اور استقراء پر نظر ڈالیں حافظ ابو الفضل بن طاہر المقدسی اپنی کتاب "شروط الائمہ "میں لکھتے ہیں ۔
لم ينقل عن واحد منهم أنه قال: شرطتُ أن أخرج في كتابي ما يكون على الشرط الفلاني، وإنما يعرف ذلك من سبر كتبهم، فيعلم بذلك شرطُ كل رجلٍ منهم.
"ان میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ میں نے اپنی کتاب فلاں شرط ملخوظ رکھتے ہو ئے تر تیب دی ہے جو آدمی ان کتب کا بغور مطالعہ کرتا اور کھنگالتا ہے وہ استقراء کے ذریعے ان شروط کو پا سکتا ہے "اس کے بعد تتبع اور استقراء سے صحیحین کی شروط بیان کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔
واعلم أن شرط البخاري ومسلم أن يُخرجا الحديث المُتفق على ثقة نقلته إلى الصحابي المشهور، من غير اختلاف بين الثقات الأثبات، ويكون إسناده متصلاً غير مقطوع، فإن كان للصحابي راويان فصاعداً فحسن، وإن يكن له إلا راوٍ واحد إذا صح الطريقُ إلى الراوي أخرجاه،
"جاننا چا ہیے کہ امام بخاری اور مسلم رحمہ اللہ کی یہ شرط ہے کہ ایسے راوی سے حدیث لیں گے جس کی صحت متفقہ ہو اور وہ اس حدیث کو ثقات ضابط راویوں کے اختلاف کے بغیر اتصالاً مشہور صحابی سے روا یت کرے اور اگر صحابی سے دو یا دو سے زیادہ راوی روایت کریں تو بہت بہتر ہے تا ہم اگر ایک ہی راوی صحیح طریق سے مع اتصال سند روایت کرے تو اس کی روا یت بھی کتا ب میں لے آ ئیں گے ۔"
لیکن امام حاکم "معرفتہ علوم الحدیث "اور "المدخل " میں صحابہ سے نیچے ہر درجہ میں دو رایوں کا ہو نا سیخین کی شرط قرار دیتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں ۔
امام بخاری اور مسلم نے صحیح احادیث کے اقسام میں درجہ اولیٰ کو اختیار کیا ہے یعنی وہ حدیث جو صحا بی مشہور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روا یت کرے پھر اس سے دو ثقہ تا بعین روا یت کریں اور تا بعی سے دو متقن اور مشہو ر تتبع تا بعین روایت کریں پھر اس سے طبقہ را بعہ کے راوی روا یت کریں اور بخاری اور مسلم کے شیوخ بھی حافظ متقن اور مشہور ہوں ۔
ایک اعتراض :
علامہ حازمی نے شروط بخاری میں جو طول ملا زمت کی شرط لگا ئی ہے اس پر یہ اعتراض ہو تا ہے کہ امام بخاری تو صحت حدیث کے لیے مطلق لقاء کی شرط لگا تے ہیں ولو مرةتو یہ ملا زمت طویلہ کی شرط کہاں سے آگئی ۔۔۔؟
علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ لقاءة مرةکی شرط طبقہ ثانیہ میں ہے جبکی احادیث توابع اور شواہد کے طور پر لا ئی جا تی ہیں چنانچہ ابن الوزیر "التنقیح "لکھتے ہیں ۔
وَإِنَّهُ قَدْ يُخَرِّجُ أَحْيَانًا مَا يَعْتَمِدُهُ عَنْ أَعْيَانِ الطَّبَقَةِ الَّتِي تَلِي هَذِهِ فِي الْإِتْقَان ِوالملازمة لمن روداعنه فلم يلا زمره الا ملاذمة يسيرة
"اور کبھی کبھی وہ اس طبقہ سے بھی روا یت لیتے ہیں جو اتقان اور ملا زمت کے اعتبار سے اس طبقے سے کمتر ہیں اور انھوں نے فقط ایک مرتبہ ملا قات کافی سمجھی ہے۔لہٰذا اس پر کچھ اعترا ض نہیں ہے اور نہ ہی تضاد ہے بعض اوقات ایک راوی ثقہ ہو تا ہے لیکن بعض دوسرے رجا ل سے اس کی روایت ضعیف ہو تی ہے جیسے حماد بن سلمہ کے متعلق ہے ۔(اثبت الناس في ثابت البناني) لیکن محدثین نے لکھا ہے کہ ثابت کے علا وہ کسی دوسرے سے روا یت میں ضعیف ہے مثلاً ایوب داؤد بن ابی ہند یحییٰ بن سعید عمرو بن دینار وغیرھم سے اس کی روا یت ضعیف ہے (لانه يخطي في حديثهم كثيرا)تو ایسے ثقہ سے شیخین روا یت لے آتے ہیں اسی طرح بہت سے ثقات جو "متہم بالبدعتہ "ہیں ان کی ایک جما عتہ سے بھی شیخین نے روا یت لی ہے جو "داعي الي البدعة"نہ تھے اور اکثر محدثین نے ایسے اھل بدعت سے احتجا ج کیا ہے۔
ابن طاہر المقدسی امام حاکم کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
امام حکام کی بیان کردہ شرط حسن ہے۔لیکن یہ قاعدہ "غرائب الصحیحین" میں ٹوٹ جاتاہے۔مثلا امام بخاری ؒ اور مسلم ؒ وفات ابی طالب کے قصہ میں "مسیب بن حزن" ی حدیث لائے ہیں۔مگر اس سے یہ حدیث سعید بن مسیب نے ہی روایت کیا ہے اس طرح امام بخاری ؒ عمرو بن تغلب کی حدیث
إني لأ عطي الرجل والذي أدع أحب إلي لائے ہیں۔
جب کہ عمرو بن تغلب سے صرف حسن بصری نے ہی ر وایت کی ہے۔اس طرح امام مسلم اپنی صحیح میں کتاب الایمان والنذور باب من حلف بلات والعزی" میں زھری کی روایت کے بعد لکھتے ہیں:
قال أبو الحسين مسلم هذا الحرف يعني قوله تعالى أقامرك فليتصدق لا يرويه أحد غير الزهري قال وللزهري نحو من تسعين حديثا يرويه عن النبي صلى الله عليه وسلم لا يشاركه فيه أحد بأسانيد جياد
امام ابو الحسن مسلمؒ نے فر ما یا کہ زہرؒ ی کے علاوہ اس سے کو ئی روا یت نہیں کرتا اور زہری کی اس سے تقریباً90روا یا ت ایسی ہیں جو مرسل ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کو ئی اعلیٰ سند کے ساتھ شریک نہیں ہوا ہے ۔علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں ۔
عدي بن عمير الكندي ومرادس السلمي اخرج لهما مسلم وما روي عنها غير قيس بن ابي حازم وقطة ابن مالك خرج له مسلم وما حدث عنه سوي زياد بن علافة وخرج مسلم لطارق بن اشيم وماروي عنه الا ولده ابو مالك الاشجعي وخرج لبنيشة الخير وماروي عنه الاابو المليح الهذلي
عدیؒ بن عمیر الکندی اور مرداس اسلمی کی احادیث امام مسلمؒ نے ذخر کی ہیں قیس بن ابی حازم اور قطبہ بن مالک کے ماسواکو ئی دوسرا ان دونوں سے روا یت کرے تو اس کی رو ایت بھی لے آتے ہیں سوائے زیادہ بن علاقہ کے اور امام مسلم طارق بن اشیم اور طارق سے اس کے بیٹے ابو مالک الا شجعی کی بھی روا یت کرے ان کی بھی امام مسلم اپنی کتاب میں احادیث لا ئے ہیں لیکن جب ابو الملیح الہذلی نبشہ سے روا یت کرے تو نہیں ذکر کرتے "
یہ چند امثلہ ہم نے ذکر کی ہیں جو امام حاکم کے دعویٰ کی تر دید کے لیے کافی ہیں کہ شیخین صرف انہی سے روا یت کرتے ہیں جن سے دویا دو سے زیادہ راوی ہوں ۔امام حاکم کے اس قول سے علامہ حازمی نے یہ سمجھا ہے کہ امام حاکم اول تا آخر دو راوی عدل قرار دیتے ہیں اور ابو العباس قر طبی نے بھی حازمی کے بالتبع امام حاکم پر اعترا ض کیا ہے کہ " اثنین عن اثنین " والی روا یات تو صحیحین میں بہت کم پا ئی جا تی ہیں تا ہم امام حاکم کا یہ مطلب نہیں ہے کیونکہ صحیحین میں غرا ئب بھی ہیں مثلاً ابو جمیلہ ۔۔۔کہ ان سے زھری کے سوا کسی نے بھی صحت سند کے ساتھ روا یت نہیں کی ربیعہ بن کعب سلمی کہ ان سے صرف ابو سلمہ بن عبدا لرحمٰن ہی راوی ہیں اور امام ذہبی نے بخاری میں دس ایسے صحابہ کے نا م ذکر کئے کہ ان سے صرف ایک ہی راوی ہے صحابہ کی حد تک تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو تو امام حاکم نے بھی مستثنیٰ کیا ہے جیسا کہ سخاوی نے لکھا ہے اور وغیرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سلسلہ میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔
والشرط ما ذكره الحاكم وإن كان منتقضا في حق بعض الصحابة الذين أخرج لهم, إلا أنه معتبر في حق من بعدهم, فليس في الكتاب حديث أصل من رواية من ليس له إلا راو واحد فقط.
"اور وہ شرط جس کو امام حاکم نے ذکر کیا ہے اگر چہ صحابہ اس سے مستثنیٰ ہیں لیکن بعد میں آنے والے راویوں میں یہ شرط معتبر ہے کتاب میں ایسے راوی کی کو ئی حدیث نہیں ہے جس سے صرف ایک راوی نے روایت کی ہو ۔"پس امام حاکم کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کے بعد کے رواۃ صحیحین کے راوی سے فی الجملہ دو کا روایت کرنا ضروری ہے تا کہ جھالت سے نکل جا ئے یہ نہیں کہ اس خاص حدیث میں یہ ضروری ہے پھر حافظ لکھتے ہیں ۔
"علوم الحدیث "میں تو حاکم نے فی الجملہ حدیث صحیح کے لیے دو کی روا یت کو شرط قرار دیا ہے لہٰذا "المدخل "کی بنسبت "علوم الحدیث "کی عبارت پر زیادہ اعتراض ہے ۔"ابو حفصؒ المیانجی نے حازمی سے بڑھ کر دعویٰ کیا ہے انھوں نے کہا ہے کہ شیخین نے اپنی کتا بو ں میں صحت حدیث کے لیے عدد کی شر ط لگا ئی ہے چنانچہ وہ اپنی کتاب "مالایتع المحدث جھلہ"میں لکھتے ہیں
إن شرط الشيخين في صحيحهما أن لا يدخلا فيه إلا ما صح عندهما وذلك ما رواه عن رسول الله عليه الصلاة والسلام اثنان فصاعداً وما نقله عن كل واحد من الصحابة أربعة من التابعين فأكثر وأن يكون عن كل واحد من التابعين أكثر من أربعة
"شیخین نے اپنی صحیح میں یہ شرط لا زم کی ہے کہ صرف اسی سے روایت لیں گے جو ان کے نز دیک صحیح ہو اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک دویادو سے زیادہ راویوں سے روا یت کرے اور لازمی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اس حدیث کو چار تابعین نے سنا ہوا ور تابعین سے کم از کم چار راویوں نے اس حدیث کا سماع کیا ہو ۔
ابو حفصؒ کے اس قول کی تر دید کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ شیخین میں کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا اور صحیحین میں کتنی ایسی ا حادیث ہیں جن کو صرفایک ہی صحابی نے روا یت کیا ہے اور ان میں کتنی ایسی احدیث ہیں جن کو صرف ایک ہی تابعی نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام مسلم کی تصریح گزر چکی ہے ۔اور مطلق صحیح حدیث میں عدد کی شرط تو ابرا ہیم بن اسماعیل بن علیہ وغیرہ سے بھی منقول ہے ۔امام شا فعی نے الرسا لہ (458۔369)میں خبر واحد کے وضوب العمل ہو نے پر باب قائم کیا ہے اور اصول فقہ کی اصطلاح میں اخبار آحاد "اخبار کو کہا جاتا ہے جو مرواتر نہ ہوں عام اس سے کہ اس کا راوی ایک ہو یا ایک سے زیادہ ۔"
معتزلہ نے قبول خبر کے لیے چار کی شرط لگا ئی ہے ابو علی الجبائی المعتزلی ابن الحسین کی کتاب المعتمد کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
أن الخبر لا يقبل إذا رواه العدل الواحد إلا إذا انضم إليه خبر عدل آخر (الخ)
"اس عادل راوی کی اس وقت تک حدیث قبول نہ کی جا ئے گی جب تک کہ وہ اکیلا روایت کرے حتیٰ کہ اس کے ساتھ ایک اور عادل راوی کی روایت بھی مل جا ئے "
علاوہ ازیں ابو منصور البغدادی نے "اثنين عن اثنين "کی شرط لگا ئی ہے اور انھوں نے اپنے دلائل میں چا ر احادیث پیش کی ہیں ۔
قصه زي اليدين في السهو في الصلاة قصه ابي بكر في ميراث الجدة قصة عمر مع ابي موسيٰ الاشعري في الاستيذان قصه علي استحلاف من حدثه
"(1)ذوالیدین کا نماز میں بھولنے والاقصہ (2)ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دادی کی میراث والاواقعہ (3)عمر بن خطاب کا حضرت مو سی اشعریؒ سے استیذان والاقصہ (4)حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا روا یت پر قسم لینے والا قصہ "حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :ان چاروں احادیث کا جواب بالکل واضح ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے ۔
1۔ذوالید ین کی خبر قبول کرنے میں تو قف اس ظا ہری شک کی وجہ سے تھا کہ اکابرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی مو جو دگی میں یہ اکیلا خبر دے رہا تھا ورنہ متعدد مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے کی خبر پر اعتماد کیا ہے دیکھئے بخاری "کتاب اخبار الاحاد "
2۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محض تشبت کے لیے تو قف کیا ورنہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کفن کی مقدارمیں حضرت عائشہ اکیلی کی روا یت پر عمل کیا ۔۔۔وغیرہ
3۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تشبت چاہتے تھے کیونکہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انکار پر یہ حدیث سنا ئی تھی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجوس ھجر سے جزیہ کے بارے میں اکیلے عبد الرحمٰن بن عوف کی خبر پر عمل کیا علاوہ ازیں بہت سے واقعات ہیں جن میں حضرت عمر نے خیر واحد پر اعتماد کیا ۔
4۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے استحلاف والی روا یت اولاً تو ضعیف ہے کہ اس کے تمام طرق میں اسماء بن الحکم الفزاری ہے امام بخاری "التاریخ الکبیر "میں لکھتے ہیں ۔
لم يروعنه الا هذا الحديث وحديث الا خرلم يتابع عليه
"اس سے اس حدیث کے علاوہ کسی حدیث کی روا یت نہیں کی گئی اور دوسری حدیث کی متابعت نہیں ہے "اور صحابہ کرام روا یا ت پر قسم نہیں لیتے تھے ۔الغرض اسماء بن الحکم مجہول ہے اور اگر یہ حدیث ثابت بھی ہو تو احتیاط میں مبالغہ پر مہمول ہے ۔
صحیحین کی ارجحیت :
اب یہاں ہم صحیحین کی ارجحیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا تعلق صحیحین کی شرط سے ہے اور احناف نے اس کی نفی کر کے حنفی فقہ کو مؤید کرنے کی کو شش کی ہے ابن الحمام "التحریر فی الاصول "اور "فتح القدیر "شرح ھدایہ میں لکھتے ہیں ۔
كو ن ما في الصحيحين راجحا علي ماروي برجالهما في
غير هما اوما تحقق فيه شرطها بعد امامة المخرج تهكم
یعنی صحیحین کی ارجحیت ان کے رجال کے معتبر شروط کی وجہ سے ہے اگر وہی شروط ان رواۃ کی حدیث میں پا ئی جا ئیں جو حدیث کی دوسری کتابوں (سنن وغیرہ )میں ہے تو پھر مافی الصحیحین پراصحیت کا حکم لگا نا سراسر تحکم ہے ۔ ابن الحمام کی دونوں جگہ کلام کا مطلب ایک ہی ہے یعنی دوسری حدیث کی کتابوں میں بھی انہی رجال کے ساتھ حدیث پائی جا ئے تو پھر صحیحین کو را جح کہنا خلا ف واقعہ ہے آگے چل کر لکھتے ہیں ۔
کسی معین راوی پر یہ حکم لگانا کہ اس میں شروط عدالت وضبط قطعی طور پر پائی جا تی ہیں یہ بھی خلاف واقعہ ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس میں شروط قبولیت متحقق نہ ہو ں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح مسلم میں بہت سے رواۃ ہیں جو عوامل جرح سے بری نہیں ہیں یہی حال صحیح بخاری کا ہے کہ روا ۃ کی ایک جما عت پر جرح کی گئی ہے معلوم ہوا کہ ائمہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں راوی متصف مبصفات قبولیت ہے اور فلا ں نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ایک محدث ایک راوی کی تضعیف کرتا ہے اور دوسرااس کی تو ثیق کرتا ہے اور دونوں اپنے اپنے علم کے مطابق حکم لگاتے ہیں واقعہ کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے ۔
ابن الھمام کے اعتراض کا جواب :
اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ صحیحین کی را جحیت صرف رجال اور شروط پر موقوف نہیں ہے اگر ایسا ہو تا تو بلا شبہ انہی روا ۃ سے خارج از صحیحین روا یت بھی صحیحین کی روا یت کی مچل ہو سکتی تھی مگر یہاں پر ارجحیت کے دیگر عوامل بھی ہیں جو صحیحین کے سوا دوسری کتا بو ں میں نہیں پا ئے جا تے ۔علماء نے احادیث صحیحہکی درجہ بندی کی ہے اوران کے ساتھ درجے قرار دئیے ہیں اور وہ درجہ بندی جو مقدمہ ابن الصلاح میں مذکور ہے تمام علماء اس پر متفق ہیں :
(1)مااتفق علیه البخاری و مسلم (2)ماانفرد به البخاری (3)ماانفردبه مسلم (4)صحیح علی شرطهاولم یخرج واحد منھما (5)صحیح علی شرط البخاری (6)صحیح علی شرط مسلم (7)صحیح عند غیرھما
پس صرف رجال اسناد کی با ت نہیں ہے بلکہ صحیحین کو تلقی بالقبول ہو نے کی وجہ سے بھی ارجحیت حاصل ہے اور اس فضیلت میں کو ئی دوسری کتاب ان کی سحیم و حصہ دار نہیں ہے ۔دراصل مثل رجا ل قرار دینے سے احناف کی غرض یہ ہے کہ فقہاء حنفہ اور محدثین مابین معارضہ پیدا کر کے حنفیت کی تا ئید کے لیے راستہ ہموار کیا جا ئے چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی "شرح سفر السعاد ۃ" کے مقدمہ میں ابن حمام کی اس تنقید کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔
وهذا مفيد نافع في غرضنا من شرح هذا الكتاب وهو تائيد المذهب الحنفي
"اس کتاب کی شرح ہمارے مقصد کے اعتبار سے مفید اور نفع بخش ہے اور اس میں حنفی مذہب کی تا ئید ہے "
شیخ دہلوی کی اس تصریح سے صاف ظاہر ہے کہ ابن الحمام اس تنقید سے حنفیہ کے لیے راستہ نکا لنا چا ہتے ہیں کیونکہ صحیحین دو ایسی کتابیں ہیں جن میں حنفیت کے خلاف زیادہ مواد پا یا جا تا ہے کا ش احنا ف یہ کو شش نہ کرتے اور امام بخاری کے بلند مرتبہ ہو نے پر حسد سے کا م نہ لیتے امام بخاری کی شخصیت وہ ہے کہ ابن المدینی جیسے علل حدیث کے علامہ ان کی قدر و منزلت کرتے ہیں حافظ ابن حجر صحیحین کے فضل و مرتبہ کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔
لم يبق سبيل الي ضبط ماراعاه واحطاطاه علي مبلغ كما لهما وخبرتهما في دقائق الصصيح والعلل في كتابها وقد ثبت انهما اخرجهما عن الوف من الصحاح الثابة عندهما حتيٰ قال البخاري احفظ مائة الف حديث صحيح ومائتي الف حديث غير صحيح وقال مسلم ليس عندي كل شئي من العصصيح وضعته ههنا وانما وضعت ههنا ما اجمعوا علي فدققا النظر في العصصيح عندهما واخر جا منها اللب
"شیخین نے انتہائی احتیاط اور فن تصحیح وعلل میں اپنی کمال واقفیت کی بنا پر اپنی صحیحین میں احادیث درج کرنے میں محنت میں کو ئی کمی نہیں کی اور تحقیق میں کو ئی وقیقہ فرد گنواشت نہیں جا نے دیا جبکہ واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے لا کھوں صحاح احادیث سے ان روا یا ت کو اپنی کتاب میں درج کرنے کے لیے اخذ کیا۔ حتیٰ کہ امام بخاری نے فر ما یا کہ مجھے ایک لا کھ صحیح اور دو لا کھ غیر صحیح روا یا ت اس کتاب میں جمع نہیں کر دیں بلکہ فقط وہ احادیث شامل کی ہیں جن کی صحت پر اجماع ہے مزید برآں بخاری و مسلم رحمہم اللہ نے ان احادیث کی صحت کی چھا ن پھٹک میں بہت وقت نظر سے کا م لیا ہے ۔
اور یہ تدقیق اور مغز کا نکالنا ان کی شروط کی بنا پر ہے اور چونکہ شروط کی انھوں نے تصریح نہیں کی لہٰذا ضروری ہے کہ بعینہ ان رجا ل سے روا یت لائی جا ئے اور امام نووی بھی لکھتے ہیں ۔
"علماء کا کسی روا یت کو علیٰ شرط شیخین کہہ دینے سے مراد یہ ہے کہ اس روایت کے راوی صحیحین کے رجا ں میں سے ہیں ۔(مقدمہ)
اور شیخین کے زمانہ اور اس کے بعد شیخین کے برابر کا کو ئی حاذق فن نہیں ہو ا لہٰذا علی شرط الشیخین کا مطلب یہی ہے کہ ان کے رجال سے روا یت لا ئی جا ئے اور انہی رجا ل سے روا یت لا نے سے شیخین کی را جحیت پر کو ئی اثر نہیں پڑے گا یعنی ارجحیت پھر بھی قا ئم رہے گی اس کی متعدد وجوہ ہیں :
(1)شیخین کا کسی حدیث کی تصحیح کا مدارصرف راوی کی عدالت اور اتصال پر نہیں ہے بلکہ راوی کے اپنے مروی عنہ سے طول ملازمت اور اس کی حدیث کی ممارست پر ہے ۔(کمامر فی بیان الطبقات )
(2)بسا اوقات شیخین ان ثقات سے روا یت کرتے ہیں جو مخصوص اشخاص سے روایت میں ضعیف سمجھے گئے ہیں لیکن شیخین ان سے ان لو گو ں کی حدیث لا تے ہیں جن میں ضعف نہیں ہو تا مثلاً ہشیم ثقہ ہے مگر زھری سے اس کی روا یت ضعیف ہے اسی طرح حمام ثقہ ہے مگر ابن حمام اس کی روایت ضعیف ہے حالانکہ یہ دو نو ں راوی صحیحین کے ہیں لیکن شیخین ان کی روا یت زھری اور ابن جریج سے نہیں لا تے جن سے ان کی روا یت ضعیف سمجھی گئی ہے اس بناء پر ابن الصلاح لکھتے ہیں ۔(مقدمہ شرح مسلم لا بن الصلاح :ص8)
من حكم لشخص بمجرد رواية مسلم عنه في صحيحه – فقد غفل وأخطأ -، بل ذلك يتوقف على النظر في كيفية رواية مسلم عنه، وعلى أي وجه اعتمد عليه.
"جو آدمی فقط امام مسلم کا کسی شخص سے اپنی کتاب میں روا یت لا نے کو اس کا پیمانہ سمجھ بیٹھے کہ یہ تو راوی اعلیٰ شرط صحیح ہے تو ایسا آدمی واضح غلطی پر ہے اسے دیکھنا ہو گا کہ امام مسلم نے اس سے کس کیفیت میں حدیث حاصل کی اور کن باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا اور کس بنا پر اعتماد کیا ؟
(3)جو لو گ ان کے رجال سے ملفق اسناد کے ساتھ روا یت کرتے ہیں اسے بھی علی شرط صحیحین نہیں کہہ سکتے مثلاً :سماک عن عکرمہ عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ سماک رجال مسلم سے ہے اور عکرمہ رجا ل بخاری سے لہٰذا ملفقاًان کی روایت کو علی شرط الشیخین نہیں کہہ سکتے ۔
(4)شیخین نے ایک راوی سے اختلاط سے قبل روا یت لی ہو تی ہے اب اختلاط سے بعد والی روا یت کو علی شرط احد ھما نہیں کہہ سکتے مثلاً احمد بن عبد الرحمٰن ابن اخی عبد اللہ بن وھب کی روا یت جو 250ھکے بعد (جب امام مسلم مصر سے چلے آئے تھے )مختلط ہو گیا تھا لہٰذا اختلاط سے بعد والی روا یت کو علی شرط مسلم نہیں کہہ سکتے ۔
(5)امام مسلم بعض ضعفاء کی روا یت صحیحہ درج کرتے ہیں جیسا کہ معترض نے بیان کیا ہے مگر وہ روا یا ت متا بعا ت و شواھد میں لا تے ہیں اصالتہً نہیں لہٰذا صحیح کے مقصد کے خلا ف نہیں ہیں پس ایسی روا یت کو علی شرط مسلم نہیں کہہ سکتے ۔
(6)بعض اوقات امام مسلم غیر اثبات کی اس روا یت کو بھی لے آتے ہیں جو اثبات نے بھی ان شیوخ سے روایت کی ہو تی ہے لیکن وہ سند نا زل کے ساتھ ہو تی اور امام مسلم علو والی روا یت لا تے ہیں مثلاً اسباط بن نصر ،قطن اور احمد بن عیسیٰ سے روا یت پر جب ابو زرعۃ نے ملامت کی تو امام مسلم نے معذرت کی اور کہا۔
إنما أدخلت من حديثهم ما رواه الثقات عن شيوخهم، إلا أنه ربما وقع إليّ عنهم بارتفاع، ويكون عندي ... إلا أنه ربما وقع إلي عنهم بارتفاع، ويكون عندي من رواية أوثق منهم بنزول، فأقتصر على ذلك
"میں نے اپنی صحیح میں ان ثقہ راویوں کی حدیث ذکر کی ہے جو اپنے ثقہ شیوخ سے حدیث بیان کریں الایہ کہ میرے پاس کسی ثقہ راوی کی علووالی روا یت ہواور اس سے اوثق کی روا یت بھی موجود ہو جو کہ نازل ہو تو تب میں عا لی روا یت کو ذکر کرتا ہوں اور اثق کی روا یت ترک کردیتا ہوں "(مقدمہ صحیح مسلم للنووی ؒ)
اور اس کا باعث علو ہی نہیں ہو تا بلکہ متہم راوی کی روا یت میں متعدد محاسن بھی پا ئے جا تے ہیں مثلاً بخاری کی بعض اسانید میں مردان مذکور ہے تا ہم وہ روا یت دوسرے طریق سے بھی آئی ہو تی ہے اس لیے امام بخاری مردان والی روا یت لے آتے ہیں تو یہ کو ئی اعترا ض کی چیز نہیں ہے ۔مثلاً علی بن حسین بن علی بن ابی طالب عن مردان بن الحکم والی روا یت !تو جو حقیقت حال سے آگا ہ نہیں وہ مردان کو علی بن حسین کا شیخ سمجھ لیتا ہے ۔
وهذا والله لجفاء عظيم اورمحدثین باوجود اس کے کہ ان کو کسی راوی کے کذاب ہو نے کا علم ہو تا ہے مگر اس سے وہ متعلق مشہور ہے وہ کہا کرتے :حدثني فلان وهو كذابپس ہمارے اس بیان سے یہ حقیقت واضح ہو جا تی ہے کہ دوسروں کی شیخین کے رجال سے روا یت مساوات کی مقتضی نہیں ہے ۔
(7)اگر ابن ما جہ وغیرہ کی بعض اسنید کو صحیحین کی اسانید کے برابر بھی فرض کرلیں تو پھر بھی دوسری کتابوں کی مرویات صحیحین کے مساوی نہیں ہو سکتیں کیونکہ علل متن کی معرفت میں دوسرے مشائخ امام بخاری اور مسلم کے برابر ننہیں ہو سکتے لہٰذا صحیحین کی روا یت اصحاب التصانیف میں را جحیت کا وصف قائم رہے گا ابن الصلاح نے مقدمہ میں ایسی امثلہ ذکر کی ہیں جو صحت سند کے با و جو د معلول ہیں ۔
(8)ہم ذکر کر آئے ہیں کہ صحیحین کو تلقی بالقبول کی خصوصیت حاصل ہے جو تواترکے ساتھ منقول ہے اور یہ ایسی خصوصیت ہے کہ جو دوسری کسی کتاب کو حاصل نہیں ہے اور اس کا تعلق نفس صحت کے ساتھ ہے اس بنا ء پر صحیحین کی آحاد بھی وجوب عمل میں قطعی ہیں اور جن اسانید پر جرح کی گئی ہے ان میں بھی ہم کہتے ہیں کہ شیخین نے ان کی روا یت کے شفاف ہو نے میں اپنی طاقت صرف کی ہے اور ان اسانید کی تصحیح کی ہے اور جرح کرنے والے شیخین کے مقابلہ میں ہیچ ہیں لہٰذا ان کی جرح غیر معتبر ہے اور علماء نے ہر حدیث پر اعترا ض کے جوا با ت دئیے ہیں اور اس پر مستقل رسا لے لکھے گئے ہیں اور پھر امام دارقطنی وغیرہ جرح کرنے والے بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا تدارک ہو سکتا ہے صحیحین کی را جحیت کی یہ آٹھ وجوہ ہیں ان میں سے بعض کی تفصیل آئندہ قول "الحاکم علی شرطحما " میں آرہی ہے ۔یہ بحث دراصل شرط الصحیحین کا تتمہ ہے جسے الگ شذرہ کی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے ۔(مرتب )
قول الحاکم علی شرطھما:
امام حاکم کی "المستدرک " پر مختلف علماء نے اظہار خیال کیا ہے جن میں ابن الصلاح اور ان کے بالتبع ابن وقیق العید اور امام ذہبی ہیں ابن الصلاح لکھتے ہیں امام حاکم شرط صحیح میں تمساھل ہیں اس لیے ان کے بارے میں تو سط سے کا م لیا جا ئے جس حدیث پر صحت کا حکم لگا نے میں منفرد ہوں اگر یہ صحیح نہیں ہے تو من قبیل حسن ہے لہٰذا وہ قابل مل و احتجاج ہے الایہ کہ اس میں سبب ضعف ظاہر ہو جا ئے ۔
علامہ مالینی کی را ئے :
اس کے بر عکس علامہ مالینی لکھتے ہیں :
طالعت "المستدرك على الشَّيخيْن" الذي صنَّفه الحاكم من أوّله إلى آخره، فلم أر حديثاً على شرطهما".
"میں نے امام حاکم کی تصنیف "مستدرک علی الشیخین "کا شروع تا آخر مطا لعہ کیا ہے اور مجھے اس میں کو ئی بھی حدیث شیخین کی شرط پر نہیں ملی "
حافظ عبد الغنی المقدسی (600ھ) کا قول ہے ۔
(( نظرت إلى وقت إملائي عليك هذا الكلام فلم أجد حديثاً على شرط البخاري ومسلم لم يخرجاه إلا أحاديث :
(1) حديث أنس (( يطلع عليكم الآن رجل من أهل الجنة )) . (مستدرك ومسند احمد 3/١٦٦ في حديث طويل)
(2)( وحديث الحجاج بن علاط لما أسلم .)
(3)... وحديث علي ـ رضي الله عنه ـ (( لا يؤمن العبد حتى يؤمن بأربع )) ، انتهى
"آپ کو املا لکھواتے ہو ئے میری اس کلام پر نگاہ پڑی پس میں نے اس کتاب میں شیخین کی شرط پر تین احادیث کے ماسوا کسی حدیث کو نہیں پا یا ۔علامہ ذہبی نے المالینی کے قول پر تعا قب کیا ہے اور لکھا ہے :
هذا غلو وإسراف وإلا ففي المستدرك جملة وافرة على شرطهما وجملة كثيرة على شرط أحدهما وهو قدر النصف . وفيه نحو الربع مما صح مسنده أو حسن . وفيه بعض العلل . وباقيه مناكير وفي بعضها موضوعات قد ألإردتها في جزء انتهى
"امام مالینی ؒ کا یہ قول افراط و تفریط کا شکار ہے و گرنہ مجھے مستدرک میں بے شمار احادیث دونوں یا کسی ایک کی شرط پر ملی ہیں اور ان کی تعداد تقریباً تمام کتاب کا نصف ہے جو کہ علی شرط شیخین ہیں اور تقریباً چوتھا ئی احادیث صحیح یا حسن درجے کی ہیں ۔کچھ احادیث معلول بھی ہیں کچھ مناکیر اور موضوعات بھی ہیں جنہیں میں نے اپنی کتاب میں ذکر کر دیا ہے حافظ ابن حجر بھی تقریباً ذہبی ؒ کے تبصرہ کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں وہ لکھتے ہیں "مستدرک کی متعدد اقسام ہیں ہر قسم کی تقسیم ممکن ہے کچھ شروط کے ساتھ تو کہہ سکتے ہیں کہ کو ئی روا یت ایسی نہیں ہے جسکی اصل یا نظیر کو شیخین نے روا یت نہ کیا ہو ۔اب ہم اصل بحث پر آتے ہیں کہ جب امام حاکم یہ کہتے ہیں ۔
الحديث صحيح على شرطهما ولم يخرجاه
"یہ حدیث بخاری و مسلم کی شروط پر صحیح ہے لیکن انھوں نے اس حدیث کو نہیں ذکر کیا۔"
تو اس جملہ کا کیا مطلب ہے ؟علماء نے اس کی تشریح میں بھی اختلاف کیا ہے اور ہر ایک نے تتبع سے اپنی را ئے قائم کی ہے ۔ابن الصلاح ابن وقیق العید اور علامہ ذہبی تو علی شرطھما سے بعینہ روا ۃ اور رجال لیتے ہیں لیکن علامہ عراقی نے اس کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ مستدر ک کے خطبہ میں امام حاکم نے خود لکھا ہے ۔
وأنا أستعين الله تعالى على إخراجي أحاديث رواتها ثقات، قد احتج بمثلها .الشيخان او احد هما
"اور میں ایسی احادیث کو اپنی کتاب میں لا نے کے لیے اللہ کی تو فیق کا طالب ہو ں کہ جو ثقہ سے مروی ہوں یا ان سے مروی ہوں جنہیں امام بخاری مسلم یا کسی ایک نے اپنی کتب میں بطور حجت ذکر کیا ہو۔"
جس سے واضح ہو تا ہے کہ بعینہ رجا ل صحیحین مراد نہیں ہیں بلکہ ان کی صفات کے رجال مراد ہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ "ھا" ضمیر کا مرجع احادیث ہوں یعنی شیخین نے ان جیسی احادیث سے استدلال کیا ہو ۔ یہ صحیح ہے کہ مثل کا لفظ غیریت کو چا ہتا ہےلیکن محاورہ میں "مثل الشئیی"کا لفظ عین شیئی پر بھی بولا جا تا ہے پس عین رجال مراد لینا زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ جب کسی حدیث کی اسناد میں ایسا راوی ہو تا ہے جو صحیحین کا راوی نہیں ہوتا تو امام حاکم ایسی حدیث کے بعد "علی شرطمھا "نہیں کہتے بلکہ "ھذا حدیث صحیح الاسناد "کہتے ہیں : مثلاً باب التوبہ میں ایک حدیث عن ابی عثمان عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً ہے (لاتنزع الرحمة الا من شقي)امام حاکم نے اس کی تخریج کے بعد صرف "ھذاحدیث صحیح الاسناد"کہا ہے اور لکھا ہے ۔
وأبو عثمان هذا ليس هو النهدي، ولو كان هو النهدي لحكمت بالحديث على شرط
"اور یہ ابو عثمان ۔۔۔النھدی نہیں ہے اگر یہ "النہدی "ہو تا تو میں اس حدیث پر "علی شرط شیخین "کا حکم لگا تا "پس امام حاکم کے اس قول سے حافظ ابن الصلاح وگیرہ کی تا ئید ہو تی ہے لیکن یہ ضرور ی ہے کہ امام حاکم نے احادیث پر صحت کا حکم لگا نے اور "لم یخرجاہ "کہنے میں تسا ہل سے کا م لیا ہے تا ہم علی شرطھما کی تشریح میں مزید تفصیل کی ضرورت ہے جو حسب ذیل ہے : (الف)یہ"علی شرطھما " کا حکم کل رواۃ کے مجموعہ کے اعتبار سے ہوتا ہے ورنہ بعض احادیث کی اسانید ملفق ہو تی ہیں یعنی شیخین نے انفراداًان روا ۃ سے احتجاج کیا ہو تا ہے لیکن اجتماعاً نہیں ۔لہٰذا ایسی اسناد کو علی شرطھما نہیں کہہ سکتے مثلاً سفیان بن حسین عن الزھری "کہ یہ دونوں صحیحین کے راوی ہیں اور سفیان فی نفسہ ثقہ بھی ہے مگر زھری سے ضعیف ہے اس لیے سفیان بن حسبن عن الزھری کے مجموعہ کو علی شرطھمانہیں کہہ سکتے اور محدثین جب "فلانعن فلان ضعیف "کہتے ہیں تو اس کا بھی یہی مطلب ہو تا ہے ۔اسی طرح اگر کسی اسناد میں دو راوی ایسے ہوں کہ ایک سے بخاری نے احتجاج کیا ہو اور دوسرے سے مسلم نے مثلاً شعبہ عن سماک بن حرب عن عکرمہ عن ابن عباس کہ سماک سے امام مسلم نے احتجاج کیا بشرطیکہ اس سے راوی ثقہ ہو اور امام بخاری نے صرف عکرمہ سے احتجاج کیا ہے تو ایسی اسناد کو بھی علی شرطھمانہیں کہہ سکتے ۔
اور پھر یہ بھی شرط ہے کہ اس اسناد میں کسی مدلس کا عنعنہ نہ ہو اور نہ ہی مختلط راوی ہو ۔جس سے بعد از اختلاط روایت لی گئی ہو کیونکہ ایسی سند کو بھی علی شرط الشیخین نہیں کہہ سکتے ہاں اگر مدلس کی تحدیث ثابت ہو جا ئے اور یہ بھی ثابت ہو جا ئے کہ مختلط سے قبل از اختلاط روایت لی گئی ہے تو اس کو علی شرط الشیخین کہہ سکتے ہیں ۔مذکورہ بالا شروط کے ساتھ المستدرک میں شاذ نادر ہی کو ئی ایسی حدیث ہو گی جس کی نظیر یا مثل صحیحین میں نہ ہو یا شیخین نے اصول میں اس کو روایت نہ کیا ہو ۔تا ہم المستدرک میں بہت سی روا یا ت ہیں جن کی صحیحین میں بھی تحریج کی گئی ہے لیکن امام حاکم نے تو ہما "ولم یخرجاہ "کہہ دیا ہے ۔ المستدرک میں ایسی روا یا ت بھی ہیں جن کے رواۃ سے شیخان نے تخریج کی ہے لیکن ان کو شواہد و متابعات یا تعا لیق میں ذکر کیا یا مقرون بغیرہ مذکورہیں یا کو ئی ایسا راوی ہے جو رجا ل صحیحین سے ہے مگر تفرد یا ثقات کی مخالفت کی وجہ سے اس سے گریز کیا ہے مثلاًامام مسلم نے اپنی صحیح میں العلاء بن عبد الرحمٰن عن ابیہ عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخہ سے بعض روا یا ت درج کی ہیں لیکن وہ بھی جن میں تفرد نہیں ہے اور باقی روا یات کو چھوڑ دیا ہے جن میں تفرد پا یا جا تا ہے لہٰذا ان باقی کو علی شرطھما نہیں کہہ سکتے حالانکہ نسخہ ایک ہی ہے۔امام حاکم نے "المدخل"میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے جس میں ان روا ۃ کا ذکر کیا ہے جن کی احادیث شیخین متابعت اور شواہد کے طور پر لا تے ہیں مگر اس کے باو جو د ان کی روا یا ت کو علی شرطھما کہہ دیا ہے حالانکہ ان روا ۃ کی احادیث درجہ "الصحیح "سے کم تر ہیں اور شاذ و نادر ضعیف بھی ہیں اور اکثر احادیث درجہ حسن پر ہیں اور پھر امام حاکم تقسیم ثنائی کے قائل ہیں جو حسن کو صحیح میں داخل کرتے ہیں تا ہم علی شرطھما کہنے پر ان سے منا قشہ کیا جائے گا ۔حافظ ابن حجر لکھتے ہیں ۔
وهذا لقسم هو عمدة الكتاب
المستدرک میں اس نوع کی احادیث بہت ہیں جو صحیحین میں نہ تو اصالتہً مذکورہیں اور نہ ہی شواہد و متابعا ت میں مگر امام حاکم ان کو ھذا حدیث صحیح کہہ دیتے ہیں مثلاً "باب التزین للعیدین "میں ہے "اللیث عن اسحاق بزرج عن الحسن بن رضی اللہ عنہ "اس روا یت کے بعد امام حاکم لکھتے ہیں ۔
لولا جهالة إسحاق لحكمت بصحته
"اگر اسحٰق جہالت سے متصف نہ ہو تا تو میں اس کی روا یت کو صحیح گردانتا "
اس کے بعد ابن حجر لکھتے ہیں :
"بڑی آفت یہ ہے کہ اس قسم کی احادیث "المستدرک "میں مذکور ہیں اور امام حاکم نے ان پر صحت کا حکم لگا یا ہے ۔
مزید برآں امام حاکم نے عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم عن ابیہ کا ترجمہ "المستدرک " میں درج کر دیا اور یہاں تک کہہ دیا ہے:
هذا صحيح الإسناد وهو أول حديث ذكرته لعبد الرحمن
"یہ حدیث سند اً صحیح ہے اور یہ پہلی صحیح حدیث ہے جس کو میں نے عبد الرحمٰن سے ذکر کیا ہے ۔"
راقم الحروف کہتا ہے کہ یہ وہی حدیث ہے جسے قصہ آدم میں حافظ ابن کثیر نے البدایہ (1/81)میں ذکر کیا ہے
رايت علي قوام العرش مكتوبا لا الٰه الا الله محمد رسول الله )
اور لکھا ہے رواۃ الحاکم والبیہقی وابن عساکر و عبد الرحمٰن بن زید عن ابیہ ضعیف مگر حافظ ذہبیؒ نے اس کے متعلق لکھا ہے ۔(المستدرک 3/615)
موضوع وعبدالرحمٰن واہ رواہ عنه عبدالله بن مسلم الفهري ولا ادري من ذا؟
"موضوع حدیث ہے اور عبد الرحمٰن کچھ بھی نہیں ہے اس سے عبد اللہ بن مسلم الفہری نے روا یت کیا ہے مجھے معلوم نہیں یہ کو ن ہے ؟"پھر امام حاکم نے خود ہی" کتاب الضعفاء"میں اسی عبد الرحمٰن کے متعلق لکھا ہے
عبدالرحمان زيد بن اسلم يروي عن ابيه احاديث موضوعة لايخفي علي من تاملها من اهل الصنعة بان الحمل فيها عليه لان الجرح لاستحله تقليداً
"عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم اپنے باپ سے موضوع احادیث روا یت کرتا ہے اور اہل فن میں سے جمہوں نے ان احادیث پر تامل کیا ان پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ان احادیث میں یہی شخص مجروح ہے اور میں جرح میں تقلید کا قائل نہیں ہو ں ۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تسا ہل اور تسا مح کے ساتھ امام حاکم کے کلام میں تضاد بھی پا یا جاتا ہے بایں وہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔
فكان هذا من عجائب ماوقع له من النساها والغفلة والله اعلم بالصواب
"ان سے اس قدر تسا ہل اور غفلت کا صدور عجیب بات ہے اور اللہ ہی بہتر جا نتا ہے ۔"
الجامع الصحیح اور تکرار حدیث
امام بخاری نے اپنی صحیح کی بنیا د چونکہ فقہی ابواب پر رکھی ہے جس کا لا زمی نتیجہ یہ ہے کہ استنباط کے لیے مختلف ابواب میں احادیث کی تقطیع کی گئی ہے اور ایک ہی حدیث کو متعدد تراجم کے تحت مکر ر لا یا گیا ہے حتیٰ کہ ایک ہی حدیث کو دس سے زیادہ مرتبہ لا نا پڑا ہے اور حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بریرہ والی حدیث تو بیس سے زیادہ مرتبہ تکرار ہو گئی ہے تا ہم تکرار محض استنباط تک محدود نہیں رہا بلکہ اس سے اسناد کو فروغ ہوا حدیث اور طرق حدیث کا احصاء ہو تا گیا اور اختلاف الفاظ بھی سامنے آیا جو نہایت فوائد حدیثیہ ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ الجامع الصحیح میں احادیث تو مکرر ہیں لیکن کو ئی حدیث بعینہ پہلے سندو متن کے ساتھ مکرر نہیں ہے بلکہ اسناد و متن میں تغایر پایا جا تا ہے حتیٰ کہ اصطلاح محدثین میں وہ دو حدیثیں شمار ہو تی ہیں اور اگر مخرج حدیث تنگ ہو جا ئے اور اسناد و متن میں شرط صحیح کے مطابق تغایر ناممکن ہو جا ئے تو امام بخاری حدیث کو متعلق اور مختصر کر دیتے ہیں تا کہ بعینہ تکرار سے اجتناب ہو سکے ۔اس اسلوب اور تتبع کے مطابق صحیح بخاری میں شاذو نادر کے سوا کو ئی حدیث بعینہ مکرر نہیں ہے الجامع الصحیح کے بعوض نسخوں میں کتا ب الحج "باب تعجیل الوقوف " میں امام بخاری کا مقولہ ہے ۔
قال ابو عبد الله يزاد في هذا الباب حديث
مالك عن ابن شهاب ولكن لااريد ان ادخل معادا
"ابو اسمعیٰل البخاری نے فر ما یا : اس باب میں ابن شہاب کی امام مالک سے بھی حدیث آتی ہے لیکن میں اس تکرار کے خوف سے دوبارہ ذکر نہیں کرنا چا ہتا ۔"اس پر حافظ ابن حجر لکھتے ہیں امام بخاری الجامع الصحیح میں بھی حدیث تکرار کے ساتھ عمداً نہیں لا ئے اور اگر بلا قصد کو ئی حدیث مکرر پا ئی گئی ہے تو وہ شاذو نادر ہے علامہ قسطلانی ؒ نے حافظ ابن حجر کے ایک نو شتہ کے حوالہ سے 21حدیثیں ایسی نقل کی ہیں جن میں امام بخاری نے اس قاعدہ کی مخالفت کی ہے اور پھر ان پر ایک حدیث کا اضافہ کیا ہے اور امام بخاری کے اس "تفن فی الروایہ" کا مشاہدہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی حدیث (من حلف علی یمین ) پر نظر ڈالنے سے بخوبی ہو سکتا ہے امام بخاری اس حدیث کو اپنی صحیح میں دس سے زیادہ مقامات پر لا ئے ہیں مگر ہر جگہ سند یا متن میں فا ئدہ حدیثیہ پا یا جا تا ہے صرف دو مقام میں بعینہ مکرر ہے ۔علامہ المزی نے اطراف میں اس حدیث کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سند میں بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے اخرجہ فی الشھادات 26(1)عن موسیٰ بن اسماعیل عن عبد الوا حد بن زیاد عن الاعمش عن شقیق عنه (7/36)مگر زیادہ تر اس کی اسانید کو مسند الاشعت بن قیس الکندی میں مقروناً بعبد اللہ بن مسعود مفرداً ذکر کیا ہے رواۃ فی الشرب والمساقات (2)عن عبدان عن ابی حمزہ وفی الاشخاص ۔۔۔وفی الشھادات (3)عن محمد بن سلام عن ابی معاویہ ۔۔۔وفی الاشخاص ایضا(4)عن بشربن خالد عن غند ر عن شعبة ۔۔۔وفی النذور(5)عن موسیٰ۔۔۔وفی التفسیر (6)حجاج بن المنھال کلاھما عن ابی عوانه عن الاعمش وفی الرهن (7)عن قتیبه عن جریر عن منصور ۔۔۔وفی الایمان (8)عن بندار عن ابن ابی عدی عن شعبة ۔۔۔وفی الاحکام (9)عن اسحاق بن نصر کلاھما عن ابی وائل عنه به اور چار دوسرے مواضع ہیں علامہ مزی کے حوالہ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسانید اور بعض مواضع میں متن میں قدرے تغیر ہے مکرر دو مواضع میں سند اور متن ایک ہے ۔
"موازنہ بین الصحیحین "
بلا شبہ صحیحین کو امھات الکتب پر فضیلت حاصل ہے شاہ ولی اللہ الدہلوی نے کتب حدیث کے بلحاظ صحت چار طبقات قائم کئے ہیں اور مؤطا اور صحیحین کو طبقہ اولیٰ میں شمار کیا ہے حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں ۔
ثم ان كتاب البخاري اصح الكتابين صحيحا واكثر ها فوائد
"پھر امام بخاری کی کتاب صحیحین میں زیادہ اعلیٰ درجہ کی ہے اور کثیر فوائد کی حامل ہے
نووی ؒ اور زین الدین عراقی نے اس اصحیت کو مسند احادیث کے ساتھ خاص کیا ہے اور تعا لیق اور تراجم کی احادیث اس سے مستثنیٰ ہیں اس اصحیت کی وجوہ آگے ہم بیان کر یں گے ۔بعض نے صحیح مسلم کو صحیح بخاری پر مقدم رکھا ہے ان میں ابن حزم میں اور حافظ ابو علی حسین بن علی النیشاپوری امام حاکم کے شیخ ہیں چنانچہ ابو علی نیشاپوری کا قول ہے : "علم حدیث میں آسمان کے نیچے امام مسلم کی کتاب سے زیادہ صحیح کو ئی کتاب نہیں اور قاضی عیاض نے بیان کیا ہے کہ "ابی مردان الطبنیؒ (457)نے اپنے بعض شیوخ سے روا یت کی ہے کہ صحیح مسلم کو صحیح بخاری پر فضیلت ہے اور ابن مندہ نے کہا ہے ۔"علم حدیث میں آسمان کے نیچے امام مسلم کی کتاب سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں ۔"اور علامہ قرطبیؒ نے" مضھم شرح مسلم"کے مقدمہ میں بھی اسی قسم کا میلان ظاہر کیا ہے مگر ابن حزم نے تو خود اس فضیلت کی وجہ بیان کر دی ہے کہ صحیح مسلم میں مقدمہ کے بعد خالص احادیث ہی ہیں جو امام مسلم نے ایک خاص تر تیب سے جمع کر دی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ابن حزم اصحیت کے اعتبار سے مسلم کو بخاری پر مقدم نہیں رکھتے بلکہ حدیث کے سرو (ذکر ) کی وجہ سے اس کو تر جیح دیتے ہیں ۔دونوں کتابوں میں اس تفادت کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی " الجامع "میں فقہ الحدیث کا التزام کیا ہے لہٰذا امام موصوف تقطیع حدیث پر مجبور تھے تا کہ ایک ہی حدیث سے مختلف احکام کا استنباط کر سکیں اور ہر قطعہ حدیث کو اس کی منا سب جگہ پر رکھ سکیں ۔لیکن امام مسلم کا مقصد مناسب سیاق سے احادیث صحیحہ کو جمع کرنا تھا ۔اور ابو علی نیشاپوری کے کلام میں مطلقاً اصحیت اور افضلیت کی تصریح نہیں ہے بلکہ احتمال ہے اس بنا پر امام نووی لکھتے ہیں
والبخاري اصح وقيل المسلم اصح والصواب الاول
اور پھر ابو سعید العلائی کے کلام سے معلوم ہو تا ہے کہ ابو علی نیشاپوری نے صحیح بخاری دیکھی تک نہیں وہ امام مسلم کے ہم شہر تھے اور انھوں نے صحیح مسلم پر " المستخرج "بھی لکھی ہے اسی بنا پر صحیح مسلم کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور پھر ابو احمد حاکم کبیر نیشاپوریؒ (م378ھ)جو ابو علی سے بڑے محدث اور اس شیوخ سے ہیں امام حاکم صاحب المستدرک کے بھی استاذ ہیں ۔۔۔انھوں نے صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر تر جیح دی ہے ۔چنانچہ ابو احمد حاکم کبیر نیشاپوری نے (م378ھ)نے صحیح بخاری کے متعلق کہا ہے ۔
(( رحم الله تعالى محمد بن إسماعيل فإنه ألف الأصول وبين للناس وكل من عمل بعده فإنما أخذه من كتابه كمسلم بن الحجاج فإنه فرق أكثر كتابه في كتابه وتجلد فيه غاية الجلادة حيث لم ينسبه إليه ... )) .
"اللہ تعا لیٰ محمد بن اسمٰعیل پر رحمت کی بارش بر سائے انھوں نے اصول متعین کر دئیے اور لو گوں پر سب کچھ واضح کر دیا آپ کے بعد آنیوالوں میں ہر ایک نے آپ کی کتا ب سے استفادہ کیا ہے جیسا کہ مسلم بن حجاج ہیں انھوں نے اپنی کتاب میں بخاری کی صحیح کو پھیلا دیا ہے ناانصافی یہ کی کہ بخاری کی طرف اس کی نسبت بھی نہیں کی ۔اور امام دار قطنی لکھتے ہیں :
(( وأي شئ صنع مسلم إنما اخذ كتاب البخاري وعمل عليه مستخرجاً وزاد فيه زيادات )) .
"امام مسلم نے اپنی کتاب میں جو بھی کیا بخاری سے اخذ کردہ تھا اور دراصل انھوں نے بخاری پر مستخرج لکھی ہے اور اس میں کچھ اضافہ جا ت بھی کئے ہیں ۔"اور امام نسا ئی کا مقولہ ہے ۔
(( ما في هذه الكتب كلها أجود من كتاب محمد بن إسماعيل )) .
"اور یہ کتاب محمد بن اسمٰعیل البخاری کی کتاب سے بہت اچھی ہے ۔الغرض بہت سے دیگر آئمہ کبار نے بھی امام بخاری کی الجامع کی تعریف کی ہے اور صحیح مسلم پر اسے مقدم رکھا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ امام بخاری مسلم سے زیادہ ماہر حدیث تھے اور امام مسلم نے فن حدیث امام بخاری سے ہی حاصل کیا ہے اور امام دار قطنی نے تو یہاں تک فر ما یا ہے :
لولا البخاري لماراح مسلم ولا جاء
"اگر اما م بخاری نہ ہو تے تو مسلم نہ کہیں آتے اور نہ کہیں جا تے "مذکورہ بالااقوال سے ظاہر ہے کہ علماء کبار کے نزدیک صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر فضیلت حاصل ہے اب ہم اس سسلسلہ میں اس ارجحیت کی وجوہ کچھ تفصیل سےذکر کرتے ہیں ۔
(الف)اسناد صحیح کا مدار اتصال سند اور رواۃ کے عدل ہو نے پر ہے اور اتصال کے سلسلہ میں امام بخاری کی شرط امام مسلم سے سخت ہے امام بخاری معاصرہ کے علاوہ لقاء کی تصریح کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں لیکن امام مسلم صرف معاصرۃ اور امکان لقاء کو کافی سمجھتے ہیں امام مسلم نے اپنی جگہ پر صحیح کہا ہے مگر امام بخاری کی شرط اتصال زیادہ واضح ہے ۔
(ب)اور عدالت وضبط کے لحاظ سے دیکھا جا ئے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام بخاری چار سو پینتیس رواۃ میں امام مسلم سے منفرد ہیں جن میں سے صرف اسی(80)رواۃ پر جرح کی گئی ہے اس کے بالمقابل امام مسلم چھ سو روا ۃ میں منفرد ہیں اور ان میں ایک سو ساٹھ (160)رواۃ متکلم فیہ ہیں ۔
(ج)صحیح بخاری میں جن رواۃ پر جرح کی گئی ہے ان سے امام بخاری بہت کم احادیث لاتے ہیں اور کو ئی بھی ایسا صاحب نسخہ نہیں ہے جس سے اکثر یا کل روا یا ت درج کر دی ہوں ماسوائے عکرمہ عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخہ کے کہ صحیح بخاری میں اس نسخہ سے روایا ت موجود ہیں جبکہ امام مسلم اس کی روا یت مقروناً لا تے ہیں اور امام مالک نے اس نسخہ سے روا یت درج ہی نہیں کی ۔مگر عکرمہ کے متعلق مرقوم ہے "آپ ثقہ حافظ اور تفسیر کے عا لم تھے اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کی تکذیب ثا بت نہیں اور نہ ہی کسی بدعت کا صدور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت ہوا ہے لیکن امام مسلم ان نسخوں سے روا یا ت اکثر اپنی صحیح میں لے آتے ہیں مثلاً
ابو الزبیر عن جابر ـ رضي الله تعالى عنه ـوسهيل عن أبيه عن أبي هريرة ـ رضي الله تعالى عنه ـ وحماد بن سلمة عن ثابت عن أنس ـ رضي الله تعالى عنه ـ والعلاء بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه ونحوهم .
(د)امام بخاری جن روا ۃ سے منفرد ہیں ان میں اکثر وہ ہیں جو امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں اور امام بخاری ان کے احوال اور ان کی احادیث کو خوب سمجھتے ہیں اس کے بالمقابل امام مسلم جن متکلم فیہ روا ۃ سے احادیث لا تے ہیں وہ امام مسلم سے متقدم ہیں اور امام مسلم ان کے احوال سے بالشمافہ واقف نہیں ہیں بلکہ انھوں نے ان کے نسخوں سے روا یت اخذا کر کے اپنی صحیح میں درج کردی ہیں حا فظ ابن حجر لکھتے ہیں ۔
ولا شك أن المرء أشد معرفة بحديث شيوخه وبصحيح حديثهم من ضعيفه ممن تقدم عن عصرهم .
"اور اس میں شک وشبہ نہیں کہ امام بخاری اپنے اساتذہ کی احادیث کی زیادہ معرفت رکھتے تھے اور آپ ان کی احادیث میں صحیح و ضعیف کی زیادہ پہچان رکھتے تھے ان لوگو ں سے جو کہ آپ سے پہلے ہو گزرے تھے ۔
(ھ)امام بخاری متکلم فیہ روا ۃ کی احادیث متابعات اور شوہد میں لا تے ہیں جو کہ اصل کتاب کے موضوع سے خارج ہیں اس کے بالمقابل امام مسلم وہ روا یا ت اصول میں لے آتے ہیں اور ان سے احتجاج بھی کرتے ہیں ۔
انوجوہ خمسہ کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحیح بخاری اصحیت کے اعتبارسے صحیح مسلم پر مقدم ہے اور باقی ماندہ کچھ بحث صحیح مسلم پر تنقید کے سلسلہ میں درج کریں گے ۔
حوالہ جات
۔کذافی تہذیب الاسماء 1/67/1ومعنا الزراع وفی وفیات الاعیان 4/190:قبل (عربی)اسلم المغیرۃ علی یدی الیمان الجعفی حاکم بخاری و کان مجوسیا و طلب اسماعیل بن ابرا ہیم العلم قال الخطیب (2/6)"ریمان ھذا ھو ابو جد عبد اللہ بن محمد المسندی "
۔التاریخ الکبیر 1/642،حدی الساری ص477،طبقات المفسرین للداؤدی 2/101۔
۔التہذایب جاص274۔
۔تہذیب ص مذکور
۔تاریخ بغداد 2/11،
۔مقدمہ سلطانی
۔قال الحافظ ابن حجر لم اقف علی اسمہ ولم یزکر ابن السمعانی ولا الرشاطی ھذہ الشبہ واظن وانسبۃ الی "المدینہ الداخلہ "بنیشا پور واللہ اعلم التغلیق ج5صفحہ 587،
۔مقدمہ فتح الباری
۔مقدمہ فتح الباری و تاریخ بغداد والنبلاء 125/392دفیہ المرجع
۔تاریخ بغداد 2/7الکمال 169طبقات للسبکی 2/16مقدمہ الفتح 278۔
۔ھدی الساری 478والنبلاء 12/395۔
۔راجع هوامش النبلاء ذهبي فيه علي ذلك المزي فيما رايته بخلط
۔تہذیب 9/49،تاریخ بغداد 2/23۔27۔
۔النبلاء 12/395،
۔تہذیب الاسماء ج3 ص71۔72۔
۔التعلیق ج5ص389النبلا ء 12/406۔
۔ایضاً النبلاء
۔تاریخ بغداد 2/33،مقدمہ الفتح ج2 ص251سیرۃ النعمان و سیرۃ البخاری ص313۔
۔مقدمہ الفتح ج2 ص250۔
۔حوالہ سابق
۔دیکھئے کشف الظنون
۔دیکھئے التغلیق 6/459۔
۔جزء ثالث کے سوا شیخ عبد الرحمٰن یحییٰ المعلمی کی تحقیق سے چھپی ہے
۔الطبقات ج2 ص325و سیراعلام النبلاء ج3ص391۔
۔راجع فہرستہ ابن خیر (2۔600
۔تاریخ جرجا ن ص8حاشیہ
۔دیکھئے الحدی 492کتاب التلغیق 5/459وسیراعلام النبلاء للذہبی 20/312۔
۔المیزان 3/396۔
۔تاریخ 1/1/259)
۔دیکھئے الھدی الساری ص492۔
۔الھدی ص693۔
۔کتاب المنا قب باب مناقب ابی محمد طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال فی آخرہ سمعت محمد بن اسماعیل یحدث ہذا عن ابی کریب و دفعہ فی کتاب الفوائد (تحفۃ الاحوذی ج4ص333۔
۔عبد اللہ بن احمد الخفاف النیشاپوری نزیل مصفر حدث عن البخاری وغیرہ لازم البخاری حدث عنہ ابو عبد الرحمٰن النسا ئی وھوا سند منہ و روا یتہ النسا ئی عنہ فی الکنی تو فی 294ھ،النبلاء 14/89۔
۔تحفۃ الاحوذی ج2 ص33۔
۔تحفۃ الاحوذی ج1ص343،نیز دیکھئے البدایہ لا بن کثیرہ 11/33و تہذیب 10/116،
۔تحفۃ الاحوذی 1ص 43نیز دیکھئے البدایہ لا بن کثیر 11/33وتہذیب 10/126
۔التغلیق ج5ص420ومقدمہ الفتح ج1ص4۔
۔تدر یب الراوی ص24وتاریخ بغداد 2/9وتہذیب الاسماء ج1ص61ھدی الساری ج1ص18و تہذیب الکمال 1169و طبقات السبکی 2/22۔
۔ابن الصلاح ص11مقدمہ الفتح ج1ص5۔
۔حاشیہ نمبر 1ص34۔
۔مقدمہ شرح نووی ص7مقدمہ ابن الصلاح ص11تہذیب الاسماء ج1ص73۔
۔الہدی الساری 489تہذیب الاسماء 1/74تاریخ بغداد 2/14،دفیات 4/190طبقات 2/22۔
۔الہدی الساری تاریخ بغداد 2/8تہذیب التہذیب 9/54۔
۔تاریخ بغداد 2/22و تہذیب الکمال 1171۔
۔الہدی الساری و تا ریخ بغداد 2/8وتہذیب التہذیب 9/54۔
۔مقدمہ الفتح 413 ولذاقال ابو مصعب الزہری ۔لوادرکت مالکا و مظرت الی وجہہ دو جھہ محمد بن اسماعیل لقلت کلا ھما واحد فی الفتہ والحدیث الکمال 1171۔
۔ہوا لحافظ زین الدین ابی عبد اللہ محمد بن موسیٰ الحازمی المتوفی 584ھ۔
۔الھادی الساری ج1 ص6۔
۔شروط الائمہ الستہ ص10والتغلیق ج5ص434،433۔
۔ص103وشروط الائمہ حازمی
۔(5)تدریب الراوی 219۔217،
۔شروط الائمہ للبخاری ص33۔35
۔جامع الاصول مقدمہ
۔شروط الائمہ 33۔
۔شروط الائمہ للمقدسی 15۔
۔سیرا علام النبلاء ج8ص253۔254۔وایضاًض12ص470
۔فتح المغیث ص18،
۔ہدی الساری ج1ص6۔
۔ص9النکت لابن حجر 241ج1،
۔المعتمد لابی الحسین البصری ج1 ص622۔
۔التحریر مع الیسیرج3ص166وفتح القدیر،
۔ابن الصلاح ص23،
۔مقدمہ ابن الصلاح ص18۔
۔احمد بن محمد بن احمد الانصاری الحروی (412ھ)
۔طبقات سبکی 4/165توضیح الافکار 1/65وعزالی الذہبی فی النبلاء
۔ رواۃ عبد الرزاق فی المصنف بطولہ (5/466)وطبقات ابن سعد (4/269)و مسند احمد (3/138وتحفۃ الاشراف 1/153۔
۔ المستدرک 1/33۔
۔تذکرۃ الحفاظ 4/1372
۔المستدرک 4/249
۔وفی التقریب ثقۃفی غیر الزھری باتفاقہم
۔سماک بن حرب الذھلی الکوفی قال فی التقریب : صدوق و روایتہ عن عکرمہ خاصتہ مضطربتہ وقد تغیر بآخر ہ مات 123ھ،
۔المستدرک 4/230،
۔ملخص من النکت لا بن حجر ج1ص314۔320،
۔المستدرک 4/230وقال الحافظ فی اللسان 1/353لیث عن اسحق عن الحسن ذکرہ ابن حبان فی الثقات ولم ید کرابن ابی حاتم فیہ جرحا وراجع الترجمتہ الجراح والتعدیل (2/213)
۔ھدی الساری ج1 ص 26،
۔مقدمہ شرح قسطلانی 32،33،
۔مقدمہ ابن الصلاح ص14،
۔تاریخ بغداد ترجمہ مسلم
۔تو ضیح الافکار ج1 ص46،
۔مقدمہ شرح مسلم
۔الارشاد لابی یعلی الخلیلی المتوفی 446،بحوالہ النکت لابن حجر ج1 ص486،
۔النکات لا بن حجر
۔النکت لا بن حجر ج1ص288۔286،وتوضیح الافکار ج1ص41۔40،