امام بخاری اور الجامع الصحیح

حضرت مولانا مفتی محمد عبدہ الفلاح صاحب کی شخصیت جماعتی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں۔ آپ اکابر علماء میں سے ہیں۔ آپ نے جہاں قریباً نصف صدی وطن عزیز کے اہم جامعات و مدارس کو اپنی تدریسی خدمات سے سرفراز فرمایا وہاں آپ کی تصنیفی و تالیفی خدمات بھی ملت کے علمی سرمائے میں گراں قدر اضافے کا موجب بنیں۔ پاکستان بھر میں آپ کے فیض یافتہ علماء کی ایک بڑی تعداد دینی خدمات میں مصروف ہے۔ تدریس کے مسائل کو عام فہم انداز میں حل کردینا آپ کی تدریس کا امتیازی وصف رہا ہے۔ آپ معروف مدارس میں سالہا سال تک شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے ہیں۔تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ تصنیف و تحقیق کے میدان میں آپ کے رشحات فکر علم و تحقیق کے شائقین کی اُلجھنوں کو رفع کرنے کا باعث بنتے رہے۔ حضرت کی بڑی تصانیف میں قرآن کریم کی تفسیر موسوم باشرف الحواشی اور امام راغب کی المفردات کا اردو ترجمہ مع حواشی شامل ہیں۔ کتاب احکام الجنائز میں آپ نے مسائل جنازہ میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ آپ علم حدیث سے خصوصی شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی تحریر محققانہ اسلوب میں ڈھلی ہوئی ہے۔فن حدیث میں آپ نے گراں قدر تصنیفی خدمات بھی انجام دی ہیں جن میں مراسیل ابی داؤد کو مسند بنا کر اس کی تخریج و تحقیق بھی شامل ہے۔ موجودہ دور میں ذوق حدیث روبہ زوال ہے۔ ان حالات میں آپ جیسے استاذ علم کی نگارشات علماء و طلباء کے لیے نعمت غیرمترقبہ ہیں۔زیر نظر مضمون موصوف کا طویل و عریض مقالہ ہے جو امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری کی علمی زندگی کے تعارف اور ان کی جامع صحیح سے متعلقہ علمی مباحث کا خزانہ ہے۔ اُمید ہے قارئین محدث نے اس سے بھرپور استفادہ کریں گے۔ ان شاء اللہ (ادارہ)



.........................................................

ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرة بن بروزبہ1 البخاری(194ھ تا 256ھ)
ان اوراق میں ہم اولاً اما م المحدثین کی علمی زندگی کا مختصر سا خاکہ پیش کریں گے۔ اس کے بعد ''الجامع الصحیح'' کا تعارف، اس کی فنی اور فقہی اہمیت کو واضح کریں گے۔ فقہاء و افاضل کی نظر میں اس کی قدر وقیمت کیا ہے؟ یہ مقالہ ''الجامع الصحیح'' کے جملہ پہلوؤں پر حاوی ہوگا اور ا س کی دراست میں علمی فوائد کو موضوع بحث بنایا جائے گا۔

امام بخاری کی علمی زندگی :
تمام مآخذ اور مراجع اس پر متفق ہیں کہ امام بخاری ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ امام المحدثین کے والد گرامی امام اسماعیل بن ابراہیم ممتاز محدث اور صاحب اسناد تھے انہوں نے امام مالک سے حدیث کا سماع کیا ۔ حماد بن زید سے شرف روایت حاصل ہوا اور امام عبداللہ بن مبارک کے ساتھ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کی نسبت حاصل کی2 ۔ ابن حبان کتاب الثقات میں لکھتے ہیں اور ابن ابی حاتم وراق البخاری نے بھی ''کتاب شمائل البخاری'' میں تصریح کی ہے:
إسماعیل بن إبراهیم والد البخاري یروي عن حما دبن زید و مالك و روٰی عنه العراقیون

حافظ ابن حجر اس پر اضافہ کرتے ہیں:3
رویٰ عنه یحییٰ بن جعفر البیکندي وغیرہ
''آپ سے یحییٰ بن جعفر بیکندی وغیرہ نے روایت کی ہے۔''

یہ یحییٰ بن جعفر امام عبدالرزاق کے تلامذہ سے تھے اور انہوں نے امام عبدالرزاق کی کتابیں جمع کی تھیں۔ امام بخاری نے امام عبدالرزاق کی کتابیں انہی سے حاصل کی تھیں۔ مشہور ہے کہ جب امام بخاری نے بصرہ سے یمن جانے کا ارادہ کیا تاکہ عبدالرزاق سے سماع کریں تو بیکندی نے امام بخاری کو بتایا کہ عبدالرزاق فوت ہوچکے ہیں اس پر امام بخاری نے یمن کا سفر چھوڑ دیا حالانکہ امام عبدالرزاق زندہ تھے، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
یحییٰ بن جعفر فی نفسہ ثقہ ہیں ان کو غلط خبر پہنچی تھی جو انہوں نے شائع4 کردی۔

مولانا عبدالسلام مبارکپوری ''سیرت بخاری'' صفحہ نمبر 41 میں مزید لکھتے ہیں:
''اھل عراق، احمد بن حفص اور نصر بن الحسین وغیرہما اسماعیل کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔''

الغرض امام بخاری کو خاندانی طور پر علمی شرف حاصل تھا۔ باپ بیٹا دونوں نامور محدث تھے اور امام بخاری نے مال کے ساتھ علم بھی ورثہ میں پایا تھا۔ عبداللہ بن المبارک اور وکیع کی کتابیں اور جامع سفیان ثوری وغیرہ جیسی کتب امام بخاری کے خاندانی کتب خانہ میں موجود5 تھیں، جو تحصیل حدیث میں ان کے لیے معاون ثابت ہوئیں۔ علامہ قسطلانی اسی خاندانی ورثہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فقد ربیٰ في حجر العلم حتی ربیٰ وارتضع تدی الفضل فکان فطامه علی ھذا اللباء
''پس آپ نے علم کی گود میں نشوونما پائی حتیٰ کہ آپ کی رضاعت اور پرورش علم و فضل میں ہوئی اور دودھ چھڑانے کا زمانہ بھی اسی کھیس پر گزرا6

علم حدیث کا سماع :
دس سال کی عمر میں ہی حفظ حدیث کا شوق دامن گیر ہوگیا۔ چنانچہ کتاب (مکتب) سے نکل کر بخارا اور اس کے اطراف و اکناف میں محدثین کی مجالس حدیث میں شریک ہونا شروع کردیا۔ بخارا میں اس وقت محمد بن سلام البیکندی (225ھ)، محمد بن یوسف البیکندی، عبداللہ بن محمد المسندی (م229ھ)، ابراہیم بن اشعث اور علامہ داخلی7 کے حلقات دروس قائم تھے۔ امام بخاری نے ان شیوخ سے سماع حدیث کیا اور سب سے پہلا سماع علامہ داخلی سے 203 یا 205ھ میں ہے۔ امام بخاری کے شیخ اوّل علامہ داخلی کا نام8 تو معلوم نہیں ہوسکا البتہ ان کے حلقہ درس میں امام بخاری کی علمی دلچسپیوں کے بعض واقعات مراجع میں ملتے ہیں۔

علامہ داخلی جو بخارا میں اس وقت بڑے پایہ کے محدث تھے اور ان کی درسگاہ بڑی پُررونق اور مشہور تھی، حسب معمول درس دے رہے تھے کہ انہوں نے ایک حدیث کی سند یوں بیان کی: ''سفیان عن أبي الزبیر عن إبراھیم.... الخ'' اس پر امام بخاری نے عرض کی ''إن أبا الزبیر لم یرو عن إبراهیم'' یعنی سند میں توھم ہے۔ اس پر چیخ جھلائے، پہلے تو برھم ہوئے مگر جب دوبارہ سنجیدگی سے وضاحت کی کہ اگر آپ کے پاس اصل ہے تو اس کی طرف رجوع کریں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اصل کی طرف رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ امام بخاری ٹھیک کہہ رہے ہیں اور اپنی اس غلطی پر متنبہ ہوگئے اور امام بخاری سے سند دریافت کی۔ امام بخاری نے اصل سند بیان کی۔ ''الزبیر وھو ابن عدي عن إبراھیم'' تو اس کے مطابق استاذ نے اپنے اصل کو درست کرلیا ۔ امام بخاری کا بیان ہے کہ اس وقت میری عمر دس برس کی تھی۔9

امام بخاری کے وراق ابن ابی حاتم نے امام بخاری کی زبان ایک دوسرا دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے:
کان شیخ يمر بنا في مجلس الداخل فأخبرہ بالأحادیث الصحیحة مما یعرض علی وأخبرہ بقولھم فإذا ھو یقول یوما یا أبا عبداللہ! رئیسنا في ابوجاد وقال بلغني أن أبا عبداللہ شرب دواء الحفظ یقال له ''بلاذر'' فقلت له یوما خلوہ: ھل من دواء بشرب الرجل فینفع به الحفظ فقال لا أعلم، ثم أقبل علی وقال لا أعلم شیئا أنفع للحفظ من نحھمة الرجل و مدا و مته النظر۔
''شیخ........ امام داخلی کی مجلس میں ہمارے پاس سے گزرا کرتے تھے۔ تو انہوں نے ان کو اُن صحیح حدیثوں کے بارے میں بتایا جو مجھ پر پیش کی جاتی تھیں اور اِن کو اُن کے قول کی بھی خبر دی کہ اُن کو ایک دن کہہ رہے تھے کہ ابوعبداللہ جو ہمارا رئیس ابوجاد میں ہے ان سے کہا۔ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ابوعبداللہ نے حافظے کے لیے دوائی بھی لی ہے جس کو ''بلاذر'' کہا جاتا ہے۔ میں نے انہیں ایک دن خلوت میں کہا۔ کیا کوئی ایسی دوائی ہے جس کے پینے سے آدمی کے حافظ کو نفع پہنچتا ہے تو کہنے لگے میں نہیں جانتا۔ پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ میں حافظ کے لیے آدمی کے شوق اور ا س کے ہمیشہ غوروفکر سے زیادہ نفع والی چیز کوئی نہیں جانتا۔''10

علامہ داخلی کے علاوہ دیگر شیوخ سے بھی بخاری نے فنون حدیث کا وافر ذخیرہ جمع کیا، خاص طور پر علامہ بیکندی (محمد بن سلام) جو بڑے پایہ کے محدث تھے اور وہ امام بخاری کی ذہانت و فطانت سےبہت متاثر تھے حتیٰ کہ امام بخاری کی موجودگی میں حدیث بیان کرنے سے خوف کھاتے۔ بعض شیوخ نے بیان کیا ہے کہ اس دور میں امام بخاری نے سولہ سال کی عمر تک ستر ہزار احادیث حفظ کرلی تھیں۔

علاوہ ازیں امام بخاری اسی نوعمری کے زمانہ میں فقہاء اہل الرائے کی مجالس میں بھی چکر لگاتے رہے۔ وراق کا بیان ہے کہ امام بخاری نے فرمایا:
اختلف إلی الفقهاء بمرو وأنا صبي حتی حفظت کتب ابن المبارك ووکیع و عرفت کلام ھؤلاء یعنی أھل الرأي۔11

رحلات ِ علمیّہ :
الغرض جب امام بخاری سولہ سال کی عمر کو پہنچے اور بخارا اور اس کے اطراف و اکناف سے علم حدیث جمع کرلیا تو 210ھ میں اپنی والدہ محترمہ اور اپنے بھائی احمد بن اسماعیل کے ساتھ زیارت بیت اللہ کے لئے ، حجاز کو روانہ ہوئے اور حج سے فراغت کے بعد والدہ محترمہ اور بھائی تو واپس چلے آئے اور امام موصو ف طلب علم کے لیے حجاز ہی ٹھہر گئے۔

امام بخاری اس سے قبل عرصہ چھ سال نیشاپور اور اس کے نواح میں طلب علم کے لئے سفر کرچکے جو ان کی ''رحلات قدیمہ'' کے نام سے مشہور ہیں۔12 اور ہم ان کو داخلی رحلات بھی کہہ سکتے ہیں۔ اب محدثین کے طریق پر سماع حدیث کے لئے مراکز اسلامی حجاز، عراق، شام اور مصر کی طرف رحلات کا آغاز کیا تاکہ ان بلاد اسلامیہ کے مشائخ حدیث سے حدیث کا سماع اور ان کی کتابت کی جائے۔

محدثین کی رحلات علمیہ بہت سے فوائد کا موجب بنیں۔اوّل یہ کہ مختلف بلاد میں حدیث کا منتشر ذخیرہ یکجا ہوتا گیا۔ محدثین اگر صعوبات سفر اٹھا کر حدیث جمع نہ کرتے تو حدیث کا ضیاع یقینی ہوجاتا۔ دوم یہ کہ رحلات سے مختلف مراکز حدیث کا بھی علم ہوتا گیا اور ہر مرکز میں مشائخ حدیث تاریخ میں مدوّن ہوتے گئے اور تحریک اہلحدیث کی تاریخ تدوین میں سہولت پیدا ہوگئی نیز علو اسناد کے حصول میں مدد ملی۔

چنانچہ امام بخاری بھی ان رحلات میں علو اسناد سے مشرف ہوئے اور اس علو کا حال یہ ہے کہ آپ کے بعض شیوخ امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے ہم طبقہ نظر آتے ہیں۔ مثلاً محمدبن عبداللہ انصاری، ابونعیم، علی بن عیاش، عبیداللہ بن موسیٰ، خلاد بن یحییٰ اور عصام بن خالد وہ شیوخ ہیں کہ ان کے صحابہ تک صرف دو یا تین واسطے ہیں اور امام مکی بن ابراہیم کی ثلاثیات تو مشہور و معروف ہی ہیں۔

الغرض سب سے پہلے آپ نے حجاز کی طرف رحلت (سفر) کی جو علوم اسلامیہ کا مرکز اوّل ہے جبکہ آپ کی عمر سولہ سال کی تھی اور ابن مبارک اور وکیع کی کتابوں کو حفظ کرچکے تھے جیسا کہ ہم بیان کرآئے ہیں اور پھر فقہ اہل الرائے پر بھی کامل دسترس حاصل ہوچکی تھی۔ امام بخاری خود ہی اس حجازی سفر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لقبت أکثر من ألفا شیخ من أھل الحجاز مکة والمدینة والبصرة وواسط و بغداد و الشام
''میں نے اہل حجاز، مکہ، مدینہ، بصرہ، واسط، بغداد اور شام کے ایک ہزار سے زائد شیوخ سے ملاقات کی۔''

اور پھر اپنے سفر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''میں شام اور جزیرہ گیا اور دو مرتبہ مصر پہنچا اور چار مرتبہ بصرہ اور پورے چھ سال حجاز میں اقامت کی اور پھر محدثین خراسان کے ساتھ کتنی مرتبہ کوفہ اور بغداد میں پہنچا۔'' 13

رحلت ِ جزیرہ :
حافظ ابن حجر نے تو جزیرہ کی طرف سفر کا ذکر کیا ہے اور تاریخ ابن عساکر، تاریخ حاکم اور طبقات سبکی میں بھی جزیرہ کی طرف سفر کا ذکر ملتا ہے اور یہ بھی مذکور ہے کہ جزیرہ جاکر احمد بن عبدالملک بن واقد الحرانی، احمد بن ولید الحرانی، اسماعیل بن زرارة الرقی اور عمر بن خالد سے سماع کیا۔ لیکن علامہ المزی لکھتے ہیں کہ یہ توہم ہے کیونکہ امام بخاری نے جزیرہ پہنچ کر مذکورہ شیوخ سے سماع نہیں کیا بلکہ احمد بن ولید سے تو امام بخاری نے بالواسطہ روایت کی ہے۔ اسی طرح ابن زرارہ سے بھی سماع حاصل نہیں البتہ اسماعیل بن عبداللہ سے روایت کی ہے تاہم یہ دراصل اسماعیل بن ابی اویس ہیں اور ابن واقد سے بغداد میں سماع کیا اور عمرو بن خالد سے مصر میں۔14

پھر جن ایک ہزار اسّی(1080) شیوخ سے امام بخاری نے حدیث لکھی ، ان کے مسلک کے متعلق خود امام موصوف فرماتے ہیں:
کتبت عن ألف و ثمانین لیس فیهم إلا صاحب
حدیث ولم أکتب إلا من قال: الإیمان قول و عمل
''اور ایک ہزار انہی شیوخ سے حدیث لکھی جو سارے اصحاب حدیث تھے اور جن کا یہ اعتقاد تھا کہ ''ایمان قول اور عمل کا نام ہے۔''

اور دوسری روایت میں ہے :15
کتب عن ألف شیخ من العلماء و زیادة ولیس عندي حدیث إلا أذکر أسنادہ
''میں نے ایک ہزار سے زائد علماء سے حدیث نقل کی ہے اور میرے پاس ایسی کوئی حدیث نہیں جس کی سند مجھے یاد نہ ہو۔''

مزید امام بخاری کے وراق کا بیان ہے:
پھر جب میں بلخ گیا تو لوگوں نے املاء کی درخواست کی چنانچہ میں نے ایک ہزار شیخ سے ایک ہزار حدیث لکھوائی یعنی ہر ایک سے ایک حدیث، گویا یہ امام بخاری کی معجم تھی۔16

نیز اپنے شیوخ کے متعلق فرماتے ہیں:
میرے شیوخ میں معتدبہ حصہ ان شیوخ کا ہے جو سماع قدیم اور علو اسناد کے ساتھ متصف تھے۔

امام حاکم نے ایسے شیوخ کی تعداد نوّے (90) بتائی ہے اور بلا ستیعاب ان کی فہرست دی ہے اور امام نووی نے امام حاکم کی دی ہوئی فہرست ''تہذیب الاسماء'' میں مکمل طور پر نقل کردی ہے۔17 اس فہرست میں اس دور کے کبارآئمہ محدثین شامل ہیں۔ ہم چند کے نام بطور مثال ذکر کرتے ہیں:
(1) مکی بن ابراھیم (215ھ)
(2) عبداللہ بن موسیٰ العبسی (212ھ)
(3) محمد بن یوسف الفریابی (212ھ)
(4) اسحاق بن راھویہ (238ھ)
(5) ابوبکر الحمیدی (219ھ)
(6) امام احمد بن حنبل (241ھ)
(7) امام العصر علی بن المدینی (234ھ)

حجازی رحلت میں جن سے استفادہ کیا ان میں ابوالولید احمد الازرقی (صاحب تاریخ مکہ) اور علامہ الحمیدی صاحب المسند معروف ہیں۔ آپ 212ھ کو مدینہ النبی وارد ہوئے اور مسجد میں چاندنی راتوں میں ''التاریخ الکبیر'' کا مسودہ تیار کیا اور حجاز کے سفر میں آپ نے سب سے پہلی کتاب ''قضایا الصحابة'' مدون کی۔

بصرہ میں عاصم النبیل، حافظ ابوالولید الطیالسی وغیرہما سے احادیث کی روایت اخذ کی۔ الغرض جملہ بلا اسلامیہ کا چکر لگایا۔ بغدادی لکھتے ہیں:
رحل البخاري إلی محدثي الأمصار و کتب عنهم
''امام بخاری نے محدثین امصار کی طرف سفر کیا اور ان سے حدیث لکھی۔''

کتابت ِ حدیث کا طریق :
امام بخاری کتابت حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:18
لم تکن کتابتي للحدیث کما کتب ھؤ لاء کنت إذا کتبت عن رجل سالته عن اسمه و کنیته و نسبه و علة الحدیث إن کان الرجل فھما، فإن لم تکن سالته أن یخرج إلی أصله و نسخته و إمام الآخرون فلا یبالون ما یکتبون ولا کیف یکتبون۔
''میرا حدیث لکھنا عام لوگوں کی طرح نہیں تھا۔ کیونکہ جب میں کسی آدمی سے حدیث لکھتا تو اس سے اس کے نام اور اس کی کنیت اور نسب کے بارے میں سوال کرتا اور اگر آدمی ذوفہم ہوتا تو حدیث کی علّت کے بارے میں بھی سوال کرتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس سے مطالبہ کرتا کہ اس کے اصل نسخہ کو میرے سامنے پیش کردے۔باقی رہے دوسرے لوگ تو وہ پرواہ نہیں کرتے کہ وہ کیا لکھتے ہیں اور کیسے لکھتے ہیں۔''

اور عباس دوری کا بیان ہے:
''میں نے محمد بن اسماعیل  سے بہتر کسی طالب حدیث کو نہیں دیکھا۔ وہ کوئی اصل اور فرع نہ چھوڑتے مگر اس تک پہنچ جاتے پھر دوری ہمیں مخاطب کرکے کہتے: لاتدعوا من کلامه شیئا إلا کتبتموہ۔19 ''کہ ان کی ہر بات نوٹ کرتے جاؤ۔''

شیوخ ِ بخاری کے مراتب:
علماء نے امام بخاری کے شیوخ کوپانچ طبقات میں تقسیم کیا ہے۔
(الف) طبقہ اعلیٰ یعنی وہ شیوخ جنہوں نے تابعین سے حدیث روایت کی ہیں۔ ان میں ابوعاصم النبیل (218ھ)، مکی بن ابراھیم(214ھ)، محمد بن عبداللہ انصاری (215ھ)، عبیداللہ بن موسیٰ باذام العبسی (212ھ)، ابونعیم الملائی 218ھ) اور ابوالمغیرة وغیرہم شامل ہیں۔
(ب) وہ شیوخ جو اوزاعی، ابن ابی ذئب، شعبہ، ثوری اور شعیب بن ابی حمزہ سے روایت کرتے ہیں۔ مثلاً ایوب بن سلیمان (224ھ)، حجاج بن منہال (217ھ) اور آدم بن ابی ایاس الخراسانی(220ھ) وغیرہم شامل ہیں۔
(ج) وہ شیوخ جو امام مالک، امام اللیث، حماد بن زید اور ابی عوانہ کے اصحاب میں سے ہیں۔ اس تیسرے طبقہ میں احمد بن حنبل(241ھ)، اسحاق بن راھویہ (238ھ)، یحییٰ بن معین (233ھ) اور علی بن عبداللہ بن جعفر (234ھ) وغیرہم شمار ہوتے ہیں۔
(د) اس طبقہ کے شیوخ میں ابن المبارک، ابن عینیہ، ابن وھب اور ولید بن مسلم کے اصحاب شامل ہیں۔
(ھ) جو امام بخاری کے ہم عصر بھی ہیں مثلاً محمدبن یحییٰ الذھلی (258ھ)، ابوحاتم رازی، عبداللہ بن عبدالرحمٰن الدارمی (255ھ) وغیرہم اور ان میں وہ بھی شامل ہیں جو سن و اسناد کے اعتبار سے امام بخاری کے تلامذہ کے برابر تھے۔20 اور شیوخ کا یہ طبقہ وہ ہے جن سے امام بخاری نے مستقل طور پر ان کی مجالس میں حدیث حاصل نہیں کی بلکہ اصل شیخ کی مجلس میں کوئی حدیث رہ گئی تو ان سے اخذ کرلی۔ شیوخ کے اس طبقہ کے متعلق حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
رفقاء ہ في الطلب ومن سمع قبله قلیلا کمحمد بن یحییٰ الذھلي وغیرہ
''آپ کے طلب حدیث کے رفقاء اور وہ جنہوں نے آپ سے تھوڑی دیر قبل پہلے سماع کیا جس طرح محمد بن یحییٰ الذہلی وغیرہ''

جملہ معترضہ :
علامہ شبلی 'سیرة النعمان' میں لکھتے ہیں کہ امام ذھلی نے امام بخاری کو ''لفظي بالقرآن مخلوق'' کی وجہ سے اپنی مجلس سے نکال دیا تھا، حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے۔ کیونکہ امام بخاری جب ان کے تلامذہ سے ہی نہیں تھے جو باقاعدہ مجلس میں بیٹھتے تو پھر نکال دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ امام ذھلی نے جب یہ اعلان کرایا کہ جو شخص ''لفظي بالقرآن مخلوق'' کا قائل ہے وہ ہماری مجلس میں شریک نہ ہو تو امام مسلم سخت برانگیختہ ہوکر ذھلی کی مجلس سے اُٹھ کر چلے آئے اور امام ذھلی سے جو مسودے لکھے تھے وہ سب ذھلی کے پاس واپس بھیج دیئے اور ان سے کوئی روایت نہیں کی۔

تصنیف و تالیف کا آغاز :
امام بخاری نے فرمایا:
''جب میں اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچا تو تصنیف و تالیف کی ابتداء کردی۔''

ان کا بیان ہے کہ میں مسجد نبوی میں روضہ اطہر کے جوار میں بیٹھ کر چاندنی راتوں میں تاریخ لکھا کرتا تھا، حافظ ابن حجر لکھتے21 ہیں:
''اٹھارہ سال کی عمر میں مدینہ پہنچے اور اسی سفر میں انہوں نے تاریخ کبیر (1) کا مسودہ چاندنی راتوں میں لکھا۔''

''التاریخ الکبیر'' امام بخاری کا وہ شاہکار ہے جسے دیکھ کر امام اسحاق بن راھویہ نے فرط مسرت سے ''سحر'' فرمایا۔ امام بخاری کا قول ہے:22
قل اسم في التاریخ إلا وله عندي قصة إلا إني کرھت أن یطول الکتاب
''تاریخ میں ایسا کم ہی کوئی نام ہوگا جس کے بارے میں میرے پاس کوئی قصہ نہ ہو مگر کتاب کی طوالت کی وجہ سے میں نے اس کو ذکر نہیں کیا۔''

اس تاریخ پر بعض علماء نے حواشی بھی لکھے ہیں جن میں مسلمہ بن قاسم کا حاشیہ معروف ہے۔ 23

بہت سے علماء نے امام بخاری سے اس کتاب کو روایت کیا ہے، بطور مثال :
(1) ابوعبداللہ احمد بن محمد بن سلیمان بن فارس
(2) ابوالحسن محمد بن سھل اللغوی النسوی
(3) الدلال عبدالرحمٰن بن الفضل

الدلال ابن الفضل، اور ابن السھل کی روایات کو ابن خیر نے ''الفھرست'' میں صفحہ 204، 205 میں ذکر کیا ہے اور ابن فارس کی روایت کو الرودانی (1094ھ) نے ''صلة الخلف'' میں اور ابن سھل کی روایت کو حافظ ابن حجر نے التغلیق میں ذکر کیا ہے۔24 اور ابن سھل والا نسخہ حیدر آباد سے طبع ہوکر شائع ہوچکا ہے اور مصحح عبدالرحمٰن معلّمی نے اس کی تصحیح میں جو صعوبات اٹھائی ہیں تعلیقات میں ان کے اشارے ملتے ہیں۔25 اور ہم پورے دعویٰ سے نہیں کہہ سکتے کہ پورا نسخہ کماحقہ محقق اور صحیح ہے۔

امام حاکم کبیر اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:26
وکتاب محمد بن إسماعیل في التاریخ لم یسبق إلیه ومن ألف بعدہ شیئا في التاریخ أو الأسماء والکنی لم یستغن عنه منهم من نسبه إلی نفسه مثل أبي زرعة و أبي حاتم و منهم من حکاہ عنه فاللہ یرحمه فإنه أصل الأصول۔
''اور محمد بن اسماعیل کی تاریخ میں کتاب ایسی ہے جس پر کسی نے سبقت نہیں کی اور جس شخص نے بھی ان کے بعد تاریخ اسماء اور کنٰی میں کچھ تالیف کیا وہ ان سے مستغنی نہیں ہوا اور بعض نے تو اس کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ جیسے ابوزرعہ اور ابوحاتم ہیں اور بعض نے اس کو آپ سے حکایت کیا ہے اللہ اُن پر رحم کرے۔ پس آپ اصل الاصول ہیں۔''

تاریخ میں امام بخاری نے الاوسط (2) اور الصغیر(3) بھی لکھی ہے اور یہ تینوں تواریخ ثلاثہ کے نام سے معروف ہیں تاہم اوسط اور صغیر میں کچھ خلط ملط ہے۔ تاریخ صغیر تو مطبوع ہے لیکن اوسط کے متعلق کچھ علم نہیں ہوسکا۔

بعض کا خیال ہے کہ التاریخ الصغیر دراصل ''کتاب الضعفاء'' کا دوسرا نام ہے اور جو صغیر مطبوع ہے وہ دراصل اوسط ہے ۔27

معلّمی نے حیدر آباد میں مطبوع کو ہی تاریخ صغیر قرار دیا ہے۔28 اور الاوسط کا بعض مکتبات کے حوالہ سے ذکر کردیا ہے۔

الاوسط کا راوی زنجویہ بن محمد اور عبداللہ بن احمد الخفاف ہیں۔ ابن خیر نے ان دونوں کے طریق سے ذکر کیا ہے اور ابن حجر نے ''الھدی'' میں بھی ان دونوں کی روایت بتائی ہے۔

لیکن الصغیر کے راوی بقول ابن حجر، عبداللہ بن محمد بن عبدالرحمٰن الاشقر ہیں۔29 اور الاشقر کے طریق سے الرودانی نے ''صلة الخلف'' میں اس کا ذکر کیا ہے۔

پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ ذہبی ''المیزان'' میں قیس بن الربیع کے متعلق الاوسط سے نقل کرتے ہیں اور وہ عبارت بعینہ مطبوع میں پائی جاتی ہے۔30 بروکلمن لکھتے ہیں:
التاریخ الأوسط وھو مرتب حسب الأزمنة
''تاریخ اوسط یہ کتاب زمانوں کے اعتبار سے مرتب ہے۔''

اور الصغیر کے متعلق الرودانی ''صلة الخلف'' میں لکھتے ہیں:
وھذا التاریخ خاص بالصحابة وھو أول مصنف في ذلك
''اور یہ صحابہ کے ساتھ خاص ہے اور یہ اس موضوع پر پہلی تصنیف ہے۔''

ابن ابی حاتم نے خطأ البخاري في تاریخه کے نام سے امام بخاری کا ردّ کیا ہے اور اس سلسلہ میں ابوزرعہ اور اپنے والد ابوحاتم کے اقوال نقل کئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابوزرعہ اور ابوحاتم نے حرف بحرف تاریخ بخاری کو بنظر غائر پڑھا ہے اور کتاب الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم سے اگر ابوحاتم، ابوزرعہ، ابن معین اور احمد کے کلام کو تعلیل و تجریح کے سلسلہ میں نکال دیا جائے تو یہ تاریخ بخاری ہی ہے اور انہوں نے جو کچھ لکھا ہے امام بخاری سے از خود مرفوع نظر آتا ہے اور یہاں امام بخاری کا قول راجح معلوم ہوتا ہے۔

کتاب الکنٰی (4): امام مسلم نے اپنے ''الکنٰی'' میں ا س سے خوب استفادہ کیا ہے اور ابواحمد الکبیر نےبھی اپنے ''الکنٰی'' میں اس کتاب سے فائدہ اٹھایا ہے۔ حیدرآباد دکن سے طبع ہوکر شائع ہوچکی ہے۔

الضعفاء الصغیر (5): یہ تاریخ صغیر کے علاوہ ہے۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
رواہ عن البخاري أبو بشر الدولابي و أبوجعفر مسبح بن سعید و آدم بن موسیٰ الخوارزمي
''اس کو امام بخاری سے ابوبشر الدولابی اور ابوجعفر بن سعید اور آدم بن موسیٰ الخوارزمی نے روایت کیا ہے۔''

مسبح کی روایت کو ابن خیر نے اپنی فہرست میں ذکر کیا ہے اور آدم بن موسیٰ والی روایت مطبوع ہے جو کہ ابونعیم الاصبہانی کی روایت سے ہے۔

الادب المفرد (6): یہ احمد بن محمد البزاز کی روایت سے ہے اور یہ بزاز وہ نہیں ہے جو صاحب مسند ہے۔ یہ کتاب متعدد مرتبہ متحدہ ہندوستان اور مصر میں طبع ہوچکی ہے۔ محمد فواد عبدالباقی کی تصحیح سے جو نسخہ شائع ہوا ہے وہ قابل اعتماد ہے۔

خلقُ افعال العباد (7) : یہ کتاب طبع ہوچکی ہے۔ لیکن مصنف تک سند مذکور نہیں ہے ہاں الرودانی نے ''صلة الخلف'' میں فربری کے طریق سے روایت کی ہے۔ فہرسة لابن خیر میں بھی فربری اور یوسف بن ریحان کی روایات مذکور ہیں۔ اس ضمن میں کلام اللہ اور کلام العباد میں فرق مذکور ہے اور امام بخاری نے تصریح کی ہے کہ جو شخص میری طرف ''لفظی بالقرآن مخلوق'' کی نسبت کرتا ہے وہ کذاب ہے میں نے تو صرف یہ کہا ہے ''أفعال العباد مخلوقة'' مگر ''واء الحسدلیس له دواء''

جزء رفع الیدین (8) : یہ رسالہ متعدد مرتبہ زیور طباعت سے آراستہ ہوچکا ہے مگر پوری صحت کے ساتھ شائع نہیں ہوا اور پھر معلوم نہیں ہوسکا کہ اس رسالہ کا نام ''قرة العینین برفع الیدین في الصلاة'' کہاں سے اخذ کیا گیا ہے۔

القراء ة خلف الامام (9) : یہ رسالہ محمود بن اسحاق الخزاعی عن البخاری کی روایت سے ہے اور یہ رسالہ حافظ ابن حجر کی مرویات سے ہے۔ کما ذکرہ في مقدمة الفتح امام بیہقی نے بھی ''القراء ة خلف الامام'' کتاب لکھی ہے۔

کتاب الرقاق (10):
اب ہم ان کتابوں کا ذکر کرتے ہیں جو تاحال طبع نہیں ہوئیں۔

غیر مطبوعہ کتب :
امام بخاری کی وہ تالیفات جو تاحال طبع نہیں ہوئیں وہ حسب ذیل ہیں:
(1)اخبار الصفات : ظاہریہ دمشق کے حوالہ سے ابن سزکین ترکی نے اپنی تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے۔31 ممکن ہے کہ یہ کتاب التوحید کا ہی حصہ ہو۔
(2)اُسامی الصحابہ: ابن مندہ نے ابن فارس کی روایت سے اس کا ذکر کیا ہے اور بغوی کبیر نے معجم الصحابہ اور ابن مندہ نے معرفة الصحابہ میں اس کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نےالھدی (ھدیُ الساری) میں اس کا ذکر کیا ہے۔
(3)کتاب الاشربة المفرد: علامہ دارقطنی نے ''المؤتلف والمختلف'' میں کیسة کے ترجمہ میں کتاب الشربہ کے نام سے اس کا ذکر کیا ہے۔32 اور الجامع الصحیح کا یہ حصہ نہیں ہے بلکہ الادب المفرد کی طرح الگ کتاب ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتاب بھی اہل الرائ کے رد میں ہے۔
(4)برالوالدین: یہ محمد بن دلویہ الوراق کی روایت سے ہے۔ حافظ ابن حجر لکھتے33 ہیں۔ ''وھو موجود مروي لنا'' ''اور وہ مروی ہمارے پاس موجود ہے۔''
(5) التفسیر الکبیر المفرد : فربری نے اس کا ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر خاموش ہیں۔
(6)کتاب التوحید المفرد: ابن سزکین نے اپنی تاریخ میں (1؍1؍259) مکتبہ ظاہریہ دمشق کے نسخہ کے حوالہ سے اس کا ذکر کیا ہے اور ایک مصری نسخہ ہے جس پر الصعیدی نے ''کفایة المقتصد' کے نام سے شرح لکھی ہے۔موجودہ دور کے بعض اسکالرز نے اس کا انکار کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ کتاب التوحید دراصل الجامع الصحیح کا ہی حصہ ہے۔
(7) الجامع الکبیر : ابن طاہر نے اس کا ذکر کیا ہے اور یہ تواریخ ثلاثہ اور قضایا الصحابہ والتابعین کے بعد کی تصنیف ہے حافظ ابن کثیر کے قلم سے لکھا ہوا نسخہ دارالعلوم، المانیا (جرمنی) میں موجود ہے۔
(8) الضعفاء الکبیر : الضعفاء الصغیر میں اس کا ذکر آچکا ہے۔
(9) کتاب العلل : ابن مندہ نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس کو محمد بن عبداللہ بن حمدون عن ابی محمد عبداللہ بن الشرقی عن البخاری روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر اس سلسلہ میں خاموش ہیں۔ غالبا ً اس موضوع پر یہ پہلی کتاب ہے ''کتاب العلل لابن المدینی'' بھی طبع ہوچکی ہے اور علل پر امام بخاری کی برتری کو امام مسلم نے بھی تسلیم کیا ہے اور امام ترمذی نے اپنی الجامع میں امام بخاری کے اقوال نقل کئے ہیں۔''وسیأتی البحث''
(10) کتاب الفوائد : امام ترمذی نے ''کتاب المناقب'' کے اثنا میں اس کا ذکر34 کیا ہے۔ حافظ ابن حجر خاموش ہیں۔
(11) کتاب المبسوط: خلیلی نے ''الارشاد'' میں اس کاذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ مھیب بن سلیم نے ( ) امام بخاری سے اس کو روایت کیا ہے۔
(12) المسند الکبیر: حافظ ابن حجر نے اس کا ذکر کیا ہے۔ علامہ فربری نے روایت کی ہے۔
(13) کتاب الھبة المفرد: حافظ ابن حجر ''ھدی الساری'' میں لکھتے ہیں:
امام بخاری کے وراق کا بیان ہے کہ امام بخاری نے کہا میں نے ''کتاب الھبہ'' میں پانچ صد احادیث جمع کی ہیں۔ جبکہ امام وکیع کی کتاب الھبہ میں صرف دو یا تین مسند احادیث ہیں اور ابن المبارک کی کتاب میں پانچ کے قریب احادیث مسند ہیں باقی ان دونوں کتابوں میں آثار و اقوال ہیں۔
(14) کتاب الوُحدان: اس میں ان صحابہ کا ذکر ہے جن سے صرف ایک ہی راوی روایت کرتا ہے۔ ابن مندہ نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے امام مسلم اور امام نسائی رحمہم اللہ نے بھی اسی طرز پر ''کتاب الوحدان'' لکھی ہیں۔
(15) الاعتقاد والسنہ : اللالکائی نے شرح السنہ (1؍172۔176) میں عبدالرحمٰن بن محمد بن عبدالرحمٰن بخاری کے طریق کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا: سمعت ابا عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری۔
امام ترمذی العلل الکبیر اور العلل الصغیر میں اکثر طور پر امام بخاری سے نقل کرتے ہیں اور لکھا ہے ''اکثر ماناظرت بہ محمد بن اسماعیل البخاری'' اسی طرح ''کتاب التجریح والتعدیل لأ صحاب الحدیث'' لابن الجارود میں امام بخاری کے اکثر اقوال مذکور ہیں۔

امام بخاری کے تلامذہ :
علامہ مزی نے امام بخاری کے شیوخ اور تلامذہ کو حروف معجم کی ترتیب سے مرتب کیا ہے اور تلامذہ میں امام ترمذی ، امام مسلم اور امام نسائی کو بھی شمار کیا ہے، علامہ ذہبی لکھتے ہیں:
روی عنه مسلم في غیر صحیحه و قبل أن النسائی روی عنه في الصیام من سننه ولم یصح لکن قد حکی النسائي في کتاب الکنی له أشیاء عن عبداللہ بن أحمد الخفاف عن البخاري''
''آپ سے امام مسلم نے اپنی صحیح کے علاوہ روایت کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ امام نسائی نے اپنی سنن کے کتاب الصیام میں امام بخاری سے حدیث روایت کی ہے اور یہ بات صحیح نہیں۔ لیکن امام نسائی نے کتاب الکنی میں امام بخاری سے عبداللہ بن احمد الخفاف کے واسطے سے کچھ چیزیں نقل کی ہیں۔''35

ھامش ''النبلاء'' میں مذکور ہے:
''بل روی عنه النسائي ،رفع له ذلك في کتاب الإیمان لابن مندة''
''بلکہ امام نسائی نے آپ سے حدیث روایت کی ہے اس کا ذکر کتاب ایمان لابن مندہ میں موجود ہے۔'' (حدثنا حمزة، حدثنا النسائی، حدثنا محمد اسماعیل)

کتاب الصیام میں ہے :
''حدثنا محمد بن إسماعیل ثنا حفص بن عمر بن الحارث بن حمزة الکناني أحسن بن الخضر الأسیوطي'' اور ابن حیویہ کے نسخہ میں ایسے ہی ہے لیکن صوری کے نسخہ میں جو ابن النحاس بن حمزہ الکنانی عن النسائی ہے، اس میں وضاحت مذکور ہے۔

''حدثنا محمد بن إسماعیل وھو أبوبکر الطبراني'' صرف ابن السنی کی روایت میں حدثنا محمد بن اسماعیل البخاری کی تصریح ہے، علامہ مزی لکھتے ہیں:
''ولم نجد للنسائي غیر ذا إن کان ابن السني حفظه وما نسبه من عندہ معتقداً أنه البخاري''
''اور ہمیں امام نسائی سے اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملی اگرچہ ابن السنی نے اسے محفوظ کیا ہے اور اس کو اپنی طرف سے منسوب نہیں کیا یہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہ یہ محمد بن اسماعیل بخاری ہیں۔''

یعنی اگر ابن السنی نے اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیا اور روایت کو حفظ کیا ہے تو پھر یہ صحیح ہے۔

ویسے امام نسائی عموماً محمد بن اسماعیل بن ابراہیم سے روایت کرتے ہیں لیکن وہ ابن علیہ ہیں۔ ہاں کتاب الکنی میں عبداللہ بن احمد الخلف کے واسطہ سے امام بخاری سے چند احادیث درج کی ہیں۔

لہٰذا یہ بات قرین قیاس ہے کہ امام بخاری سے ان کی ملاقات نہیں ہے۔ باقی رہے امام مسلم اور ترمذی، تو ان کا تلمذ مشہور ہے لیکن امام مسلم نے الصحیح میں امام بخاری سے کوئی حدیث درج نہیں کی اور نہ ہی امام ترمذی نے کوئی مسند حدیث امام بخاری سے روایت کی ہے جبکہ امام مسلم اور ابوداؤد سے ایک ایک روایت جامع ترمذی میں مذکور ہیں۔ چنانچہ امام مسلم سے حدیث (أحصوا ھلال رمضان لشعبان) روایت کی ہے۔36

علامہ عراقی لکھتے ہیں کہ ''امام ترمذی نے امام مسلم سے صرف یہ حدیث روایت کی ہے اور یہ ''من قبیل روایة الأقران'' ہے کیونکہ یہ دونوں بہت سے شیوخ ہیں مشترک ہیں۔37

اور ''باب ماجاء في الرجل ینام عن الوتر''(37) اس میں حدیث عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم مرفوعاً ذکر کرنے کے بعد، عبداللہ بن زی دبن اسلم سے مرسلاً روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
میں نے ابوداؤد سجزی یعنی سلیمان بن اشعث سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے متعلق امام احمد بن حنبل سے سنا کہ اس کے بھائی عبداللہ کے متعلق کوئی بأس نہیں اور امام بخاری نے علی بن المدینی سے نقل کیا ہے کہ عبدالرحمٰن ضعیف ہے اور عبداللہ ثقہ ہے۔

معلوم ہوا کہ امام ابوداؤد سے مسند حدیث نقل نہیں کی۔ بلکہ عبدالرحمٰن پر جرح نقل کی ہے اور امام بخاری سے تلمذ پر ہم نے امام ترمذی پر اپنے مقالہ میں مفصل لکھا ہے۔

الجامع الصحیح کی تالیف
تالیف کی ابتداء :
ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ امام المحدثین نے تقریباً اٹھارہ سال کی عمر میں تصنیف و تالیف کا آغاز کردیا تھا اور کتاب ''قضایا الصحابة والتابعین'' اور تواریخ ثلاثہ کے مسودات حجاز میں ہی تیار کرلئے تھے اور پھر اپنی تمام احادیث صحیحہ کو ''المبسوط'' کے نام سے تالیف کرلیا تھا۔ اب وقت کا تقاضا تھا کہ ایک ایسی کتاب تالیف کی جائے جس میں ان احادیث صحیحہ کو الگ جمع کیا جائے جن کی صحت پر اب تک کے محدثین متفق چلے آرہے ہیں اور ان میں آثار صحابہ و تابعین کی آمیزش بھی نہ ہو جیسا کہ مؤطا وغیرہ کتب میں احادیث مرفوعہ اور آثار و فتاوی کو جمع کیا گیا ہے۔

بواعث ِ تالیف :
امام بخاری سے پہلے مسانید اور جوامع جمع ہوچکی تھیں اور مصنفات کے نام سے مجموعے تیار ہوچکے تھے۔ امام بخاری نے اپنے سے پہلے محدثین کی مساعی پر نظر ڈالی، مؤطا امام مالک کو دیکھا اور جانچا کہ اس میں فقہی تراجم کے تحت احادیث کو جمع کیا گیا ہے اور احادیث صحیحہ کے ساتھ فتاویٰ و آثار صحابہ و تابعین کو مخلوط کردیا گیا ہے اور پھر ہر باب میں عمل اھل مدینہ نمایاں نظر آتا ہے۔ حافظ ابن حجر جامع صحیح بخاری کے اسباب تالیف پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''فلما رأی البخاري رحمه اللہ ھذہ التصانیف ورواھا و انتشق ریاھا و استحلی محیاھا ووجدھا بحسب الوضع جامعة بین ما یدخل تحت الصحیح والتحسین والکثیر عنها یشمله التضعیف، فلا یقال لغثه سمین فحرك ھمته لجمع الحدیث الصحیح الذي لا یرتاب فیه أمین''
''پس جب امام بخاری نے ان تصانیف کو دیکھا اور ان کو روایت کیا اور ان کی آبیاری کی اور ان کے وجود کو شیریں جانا اور ان کو وضع کے اعتبار سے اس طرح پایا کہ ان میں بعض صحیح اور بعض حسن کے درجے میں داخل ہیں اور اکثر ان میں سے ضعیف ہیں۔

آپ نے صحیح حدیث جس کی صحت میں کوئی امانت دار شک نہیں کرسکتا۔38 کو جمع کرنے کے لیے اپنی ہمت کو حرکت دی۔''

شاہ ولی اللہ دہلوی نے شرح التراجم اور اپنی دیگر تصنیفات میں بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
''باید دانست کہ بخاری بعد ماتین ظاہر شد و قبل از وے علماء درفنون چند از علوم دینیہ تصانیف ساختہ بودند، امام مالک و سفیان ثوری درفقہ تصنیف کردہ بودند ، و ابن جریج در تفسیر و ابوعبیدہ در غریب قرآن و محمد بن اسحاق و موسیٰ بن عقبہ ورسیر و ابن مبارک در زہد و مواعظ و کسائی دربدء الخلق و قصص انبیاء و یحییٰ بن معین وغیر او در معرفت احوال اصحاب و تابعین و جمع دیگر رسائل داشتند در رؤیا و ادب و طب و شمائل و اصول حدیث و اصول فقہ ورد برمبتدعین مثل جھمیہ، بخاری ایں ہمہ علوم مدونہ را تامل فرمود و جزئیات و کلیات را انتقاء نمود پس قدرے از علوم کہ باحادیث صحیحہ کہ برشرط بخاری است بطریق صراحت یا دلالت یافت در کتاب خود آورد تابدست مسلماناں در امھات ایں علوم حجت قاطعہ بودہ باشد کہ در آن تشکیل رامد خل نہ بود''
''یعنی دو صد سال کے بعد جب امام بخاری کا زمانہ آیا تو انہوں نے دیکھا کہ بہت سے علوم و دینی فنون جمع ہوچکے ہیں اور متعدد علماء نے مختلف الانواع مجموعے تیار کرلئے تھے امام بخاری نے ان مدونہ علوم کو غور سے دیکھا تو انہیں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ ان تمام فنون کو ایک مختصر اور جامع کتاب میں جمع کردیا جائے۔ پھر اس اثنا میں امام المحدثین کے شیخ محدث اسحاق بن راھویہ نے بھی امام بخاری کی مقدرت علمی اور معرفت حدیث میں کمال نمو کے پیش نظر ان پر زور دیا کہ حدیث میں ایک مختصر جامع کتاب کی ضرورت ہے۔ جس سے امام بخاری کا عزم پختہ ہوگیا اور ساتھ ہی امام بخاری نے خواب میں آنحضرتﷺ کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک پنکھا ہے جس سے رسول اللہ ﷺ سے مکھیاں اڑا رہے ہیں۔ جس کی تعبیریہ بتائی گئی کہ آنحضرتﷺ کی احادیث سے کذب بیانی کی آمیزش کو دور کریں گے۔''

الغرض یہ جملہ اسباب و بواعث تھے جو امام بخاری کے لیے صحیح کی تالیف کا سبب ہے ، چنانچہ انہوں نے اس کام کا آغاز کردیا۔

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
''وقوی عزمه علی ذلك لما سمعه من أستاذہ أمیر المؤمنین في الحدیث والفقه إسحاق بن إبراھیم الحنطلي المعروف بابن راھویه إنه قال له: لوجمعتم کتابا مختصراً لصحیح سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال فوقع ذلك في قلبي فأخذت في جمع الجامع''
''اور اس پر آپ کا عزم اس وقت پختہ ہوگیا جب آپ نے اپنے استاد، حدیث اور فقہ میں امیر المؤمنین اسحاق بن ابراہیم المعروف بابن راھویہ سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی سنت میں ایک مختصر کتاب جمع کردیں۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ بات میرے دل کو لگی تو میں نے ''الجامع الصحیح المسند المختصر من حدیث رسول اللہ و سننه و أیامه'' کو جمع کرنے کا آغاز کردیا۔'' 39

یعنی استاذ کی یہ بات میرے دل میں اتر گئی اور میں نے الجامع الصحیح کی تالیف کا آغاز کردیا۔

الجامع الصحیح کا پورا نام :
الجامع الصحیح یا صحیح البخاری اس کتاب کا مختصر نام ہے اور امام نے خود ہی الجامع الصحیح کے نام سے اس کو موسوم کیا ہے تاہم اس کتاب کا پورا نام بروایت حافظ ابن حجر اس طرح مذکور ہے:
''الجامع الصحیح المسند المختصر من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و سننه و أیامه''

مگر ابن صلاح اور نووی نے الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و سننه و أیامه ذکر کیا ہے۔40 یعنی المسند کو الصحیح پر مقدم ذکر کیا ۔

ان دونوں میں کوئی جوہری اختلاف نہیں ہے۔ نور الدین عتر نے اپنے رسالہ میں ابن صلاح والی روایت کو قرین قیاس اور راجح بتایا ہے کیونکہ اکثر نے اسی کو ذکر کیا ہے۔41 مگر حافظ ابن حجر کی روایت کے مؤیدات موجود ہیں۔ اوّل یہ کہ خود مصنف نے الجامع الصحیح کا لفظ ذکر کیا ہے اور یہ مختصر نام متعدد مراجع میں مذکور ہے۔42 لہٰذا راجح روایت حافظ ابن حجر کی ہے۔

آغاز اور تکمیل :
امام المحدثین نے الجامع الصحیح کی تالیف کا آغاز تقریباً 216 یا 217ھ کو کیا جبکہ آپ کی عمر23 سال تھی اور سولہ سال کی لگاتار محنت سے اس کو مکمل کیا اور تین مرتبہ اس پر نظرثانی کی۔ چنانچہ امام بخاری کے وراق کا بیان ہے کہ امام بخاری نے فرمایا:43
''صنفت الجامع في ست عشرة سنة و خرجته من ست مائة ألف حدیث وجعلته حجة فیما بیني و بین اللہ تعالیٰ''
''میں نے اس جامع کو سولہ سال میں جمع کیا اور چھ لاکھ حدیث سے منتخب کیا اور اس کو میں نے اپنے اور اللہ کے مابین حجت بنایا۔''

پھر جب تکمیل کے بعد اپنے کبار اساتذہ اور محدثین عصر کے سامنے پیش کی، جن میں امام احمد بن حنبل(241ھ)، یحییٰ بن معین (234ھ) اور علی بن المدینی (234ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں، تو سب نے اس کی تحسین کی اور ا س کی احادیث کو صحیح قرار دیا چنانچہ عقیلی کا بیان ہے۔44
''فاستحسنوہ و شھد واله بالصحةإلا أربعة أحادیث والقول فبها قول البخاري وھي صحیحة''
''پس علماء نے اس کی تحسین کی اور ا س کی صحت کی گواہی دی ماسوائے چار احادیث لے اور ان کےبارے میں بخاری کا قول ہی معتبر ہے کہ وہ صحیح احادیث ہیں۔''

علامہ اسماعیلی اپنی کتاب ''المدخل إلی المستخرج'' میں لکھتے ہیں:
''امام بخاری کی الجامع واقعی ''سنن صحیحہ'' کی جامع ہے اور مسائل مستنبط پر حاوی ہے اور ایسی کتاب وہی لکھ سکتا ہے جو علم حدیث کا ماہر اور رواة حدیث کے تراجم پر پورا عبور رکھتا ہوں اور جسے علل الحدیث، فقہ اور لغت پر رسوخ حاصل ہو۔

ابن عدی، امام بخاری سے ناقل ہیں:
میں نے اپنی الجامع میں صرف صحیح حدیثیں جمع کی ہیں اور بہت سی صحیح احادیث کو چھوڑ دیا ہے تاکہ طوالت نہ ہو۔

پھر احتیاط کا یہ عالم تھا کہ اپنی الصحیح میں کوئی حدیث اس وقت تک درج نہ کرتے جب تک کہ لکھنے سے پہلے غسل کرکے دوگانہ ادانہ کرلیتے اور اس کی صحت کا یقین نہ ہوجاتا۔کتاب کی تالیف کا آغاز بیت الحرام میں ہوا اور تراجم ابواب مسجد نبوی میں روضہ اور منبر کے درمیان بیٹھ کر لکھے۔ چونکہ یہ کتاب یحییٰ بن معین (234ھ) کی نظر سے بھی گذری ہے۔ معلوم ہوا کہ 233ھ تک مکمل ہوگئی تھی کیونکہ ابن معین کی وفات 233 یا 234 ھ ہے۔

تراجم ابواب :
امام بخاری نے اپنی کتاب میں استخراج مسائل فقہیہ کو موضوع بنایا ہے اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے اپنی ساری علمی اور دماغی توانائیاں ''فقہ الحدیث''کے مرتب کرنے پر صرف کردی ہیں اور تراجم ابواب میں جو فقہ مرتب کی ہے وہ فقہ المذاہب اور تقلیدی انداز کی فقہ نہیں ہے بلکہ مصنف کے اپنے اجتہاد و استنباط کے ثمرات ہیں اور یہ مصنف کا ایسا کارنامہ ہے جسے ہم پہلی اور آخری کوشش کہہ سکتے ہیں اس لیے واقعہ میں یہ مقولہ صحیح ہے۔ ''وفقه البخاري في تراجمه'' ،'' بخاری کی فقہ اس کے تراجم میں ہے۔''
لیکن امام بخاری سید الفقہاء تھے اور ان کی فقہ دیکھنا مقصود ہو تو تراجم بخاری پر نظر ڈال کر دیکھ لیں۔ اس بنا پر نعیم بن حماد فرماتے ہیں:45

محمد بن اسماعیل فقیہ ھذہ الامة کہ امام بخاری اس امت کے فقیہ تھے۔ کتاب الجامع الصحیح کے اس فقہی امتیاز کا اعتراف شارحین اورعلماء نے برملا کیا ہے امام نووی لکھتے ہیں:
''لیس مقصودہ ھذا الکتاب الاقتصار علی الحدیث و تکثیر المتون بل مرادہ الاستنباط عنها والاستدلال لأبواب أرادھا من الأصول والفروع والزھد والآداب والأمثال وغیرھا من الفنون وھذا المعنی أخلٰی کثیرا من الأبواب من أسناد الحدیث واقتصر فیه فلان الصحابي عن النبي وغیر ذلك و ذکر في المترجم کثیراً من الآیات القرآنیة وربما اقتصر في بعض الأبواب علیها لا یذکر معھا شیئا أصلاً''
''محمد بن اسماعیل اس اُمت کے فقیہ ہیں ان کی کتاب سے مقصود صرف صحیح حدیث پر اقتصار اور کثرت متون نہیں بلکہ اس سے مراد ان سے استنباط اور ان ابواب کے لیے استدلال ہے جن کا مصنف نے ارادہ کیا خواہ ان کا تعلق اصول سے ہو یا فروع سے، زہد سے ہو یا آداب سے، امثال سے ہو یا دیگر فنون سے اس مقصد کے لیےبہت سے ابواب کو حدیث کی سندوں سے خالی کردیا ہے اور اس لفظ پر اختصار کیا ہے (فلان الصحابي عن النبي وغیر ذالك) اور آپ نے تراجم میں بہت زیادہ قرآنی آیات ذکر کی ہیں بسا اوقات بعض ابواب میں ان آیات پر ہی اقتصار کیا ہے اور ان کے ساتھ کوئی حدیث ذکر نہیں کرتے۔''

دراصل امام بخاری اس نظریہ کے پرزور حامی نظر آتے ہیں کہ کتاب و سنت میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے۔ لہٰذا قیاس و رائے کی ضرورت نہیں ، امام المحدثین فرماتے ہیں۔46
''لا -علم شیئا یحتاج إلیه إلا وھو الکتاب والسنة''
''میں ایسی کوئی چیز نہیں جانتا جس کی طرف احتیاج ہو اور وہ کتاب و سنت میں نہ ہو۔''

اس پر امام بخاری کے وراق نے سوال کیا کہ کیا کتاب و سنت سے ہر مسئلہ کی معرفت ممکن ہے اس پر امام نے فرمایا:
''کہ ہاں یہ ممکن ہے۔''

اور ممکن ہی نہیں بلکہ امام بخاری نے الجامع الصحیح میں عملاً اس کا مظاہرہ بھی کیا ہے اور ایک ایک حدیث پر متعدد تراجم قائم کرکے فقہ الحدیث کے لیے دروازہ کھول دیا ہے جیسا کہ فقہ البخاری کے تحت ہم اصول فقہ کی طرز پر اس کی امثلہ پیش کریں گے اور ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابن حزم نے فقہ اسلامی میں ''المحلّی'' لکھ کر اس نظریہ کی تکمیل کردی ہے۔

تجرید ِاحادیثِ صحیحہ کی پہلی کوشش :
الغرض ''الجامع الصحیح'' تجرید احادیث صحیحہ کی پہلی کوشش ہے اور امام بخاری نے اس میں یہ کمال کردکھایا ہے کہ تراجم ابواب میں اقوال صحابہ و فتاوی تابعین کو مناسب طور پر جمع کردیا جس کے دو فائدے ہیں اوّل یہ کہ تجرید احادیث سے یہ نہ سمجھا جائے کہ محدثین کے نزدیک اقوال و آثار صحابہ کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے بلکہ محدثین کے نزدیک مخصوص شرائط کے تحت ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جیسا کہ اس سے پیشتر مؤطا امام مالک کی مثال موجود ہے۔

امام بخاری نے استخراج مسائل اور استنباط کے ذریعہ قوانین نقلیہ کو قواعد عقلیہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور دوسرے الفاظ میں ان کو معیار عقل پر پرکھا ہے جسے درایت سے تعبیر کرسکتے ہیں۔اور یہ وہ خوبی ہے جو امام بخاری کے بعد حافظ ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ ارشد ابن قیم کی تحریرات میں نمایاں نظر آتی ہے اور پھر ابن حزم اور ابن تیمیہ نے تو عقل و نقل کی مطابقت پر مستقل کتابیں لکھی ہیں جن پر جدید اسلامی معاشرہ کی تشکیل کی جاسکتی ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے امام کی اس کوشش کی داد دی ہے۔ شرح تراجم میں لکھتے ہیں:
''وکثیرا ما یستخرج الآداب المفھومة بالعقل من الکتاب والسنة بنحومن الاستدلال والعادات الکالنة في زمانه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ومن ذلك لا یدرك حسنه إلا من مارس کتاب الآداب و إجمال عقله في میدان آداب قومه ثم طلب لھا من السنة أصلاً''
''اورعموماً ایسے تراجم ابواب ذکر کرتے ہیں جو کتاب و سنت میں انتہائی غور کے بعد حاصل ہوتے ہیں جس طرح نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ہونے والی عادات سے استدلال اور اس میں وہ بھی چیزیں ہہیں جن کے حسن کا ادراک وہی شخص کرسکتا ہے جو صاحب فن ہے اور جس نے آداب کی کتاب پر مشق اور ہمیشگی کی اور اپنی عقل کو اپنی قوم کے آداب کے میدان میں سرگرداں رکھا۔پھر اس کے لیے سنت سے دلیل تلاش کی۔''

اور امام بخاری نے اس ضمن میں جو کمال کر دکھایا ہے ابن حجر نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ وہ مقدمہ ''الفتح'' میں لکھتے ہیں:47
''کذالك الجھة العظمی الموجبة لتقدیمه وھي ما ضمنته أبوابه من المتراجم التي حیرت الأفکار و ادھشت العقول والأبصار۔''
''اسی طرح دوسری بڑی وجہ جو اس کی تقسیم کی موجب ہے یہ ہے کہ ایسے تراجم ابواب پر یہ کتاب مشتمل ہے جنہوں نے افکار کو حیرت میں ڈال دیا اور عقلوں اور نظروں کو مدہوش کردیا۔''

یہی نہیں بلکہ موجودہ دور کے علماء نے بھی تراجم کی لطافت کا اقرار کیا ہے۔ چنانچہ مولانا انور شاہ کشمیری ''فیض الباری'' میں لکھتے ہیں:
''إن المصنف سباق غایات و صاحب آیات في وضع المتراجم لم یسبق به أحد من المتقدمین ولم یستطیع أحد أن یحاکبه أحد من المتأخرین فھو الفاتح لذالك الباب و صار الخاتم، وضع في تراجمه آیات تناسبها مما یتعلق من ھذا الباب ونبه علی مسائل مظان الفقه في القرآن بل أقامھا منه ودل علی طرق التأسیس من القرآن و به یتضح ربط الفقه والحدیث بالقرآن بعضه مع بعض وھذا من رفعة اجتهادہ و ذقته في الاجتهادیات و بسطھا في المتراجم قيل: إن فقه البخاري في تراجمه۔ فکان في تراجم المصنف علوم متفرقة في الفقه و أصوله والکلام أومأ إلیها باختصار و إیجاز۔''
''بے شک مصنف مقاصد میں آگے بڑھنے والے ہیں اور متحیر العقول تراجم ذکر کرتے ہیں متقدمین میں سے اس کام پر کسی نے پہل نہیں کی اور نہ ہی متاخرین میں سے کسی نے آپ کے مقابلے کی اہمت کی ہے۔ پس آپ ہی اس دروازے کو کھولنے والے ہیں اور آپ اس فن میں آخری ثابت ہوئے۔ آپ نے اپنے تراجم میں باب سے متعلق مناسب آیات بھی ذکر کی ہیں اور قرآن میں مذکورہ فقہی مسائل کی نشاندہی کی ہے بلکہ قرآن سے ان کو ثابت کیا ہے اور قرآن سے احکام اخذ کرنے کے طریقے بتائے ہیں۔ اسی وجہ سے فقہ اور حدیث کا قرآن سے اور قرآن کے بعض حصے کا بعض سے ربط واضح ہوتا ہے اور یہ آپ کے اجتہاد کی رفعت اور اجتہادیات میں صاحب ذوق ہونے کی علامت ہے آپ نے ان چیزوں کو تراجم میں بسط کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ مصنف کے تراجم میں فقہ، اصول اور علم کلام کے متعلق مختلف علوم موجود ہیں۔ جس کی طرف بڑے اختصار و ایجاز کے ساتھ اشارہ کیا ہے۔''

اور پھر استنباط فقہ اس خوبی سے کیا ہے کہ ایک ہی حدیث سے مختلف مسائل کا استخراج کرتے چلے گئے اس طرح بعض احادیث متعدد ابواب کے تحت مکرر آگئی ہیں لیکن فقہ اسلامی میں توسیع کا دروازہ کھولا ہے اور یہ ایسا کارنامہ ہے کہ شاہ ولی اللہ دہلوی اس سے متاثر ہوکر برملا اعتراف کرتے ہیں:
''وأراد أیضا أن یفرغ جھدہ في الاستنباط من حدیث رسول اللہ و یستنبط من کل حدیث مسائل کثیرة''
''اس طرح آپ نے ارادہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے مسائل کے استنباط میں اپنی پوری کوشش صرف کردیں اور ہر حدیث سے بہت زیادہ مسائل استنباط کریں۔''

اس طریق سے ہم آج بھی فقہ اسلامی کو فروغ دے سکتے ہیں موجودہ دور کے علماء میں احمد محمد شاکر محدث مصری  نے جب مسنداحمد کی بتویب شروع کی تو انہوں نے بھی یہی طریق اجتہاد اختیار کیا مگر افسوس یہ کام مکمل نہ ہوسکا تاہم ان کے کام کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔

الغرض امام نووی، حافظ ابن حجر اور شاہ ولی اللہ دہلوی نے الجامع الصحیح کے تراجم ابواب کی اہمیت پر زور دیا ہے اور علامہ کرمانی لکھتے ہیں:''إن ھٰذا فهم عجز عنه النھول'' اور حقیقت یہ ہے کہ کسی مصنف کی فہم و فراست،نبوغ و تفقہ کا اندازہ کتاب کے عنوانوں سے ہوجاتا ہے اور امام بخاری نے عموماً ظآہر حدیث کو چھوڑ کر اس کے خفی پہلو سے استنباط کیا ہے اور پھر اہم تراجم ابواب میں آثار صحابہ و تابعین درج کرکے کہیں تو اپنے اختیار کردہ مسلک کی طرف اشارہ کیا ہے اور بعض مواقع میں حدیث کی تاویل کے پہلو کو واضح کیا ہے اور تراجم ابواب کے ساتھ حدیث کی مناسبت یا مطابقت بیان کردی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح بخاری کے حل تراجم پر علماء نےمستقل تصانیف لکھی ہیں جن میں سے چند کا ذکرفائدہ سے خالی نہ ہوگا۔

(1)کتاب ترجمان التراجم لابی عبداللہ محمد بن عمر بن رشید البستی (م721ھ) حافظ ابن حجر عموماً اس کتاب کا حوالہ دیتے ہیں۔ تاہم یہ کتاب الصوم تک نامکمل ہے۔

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
''أطال فیه النفس ولم یکمل وصل إلی کتاب الصیام ولوتم لکان في غایة الإفادة وإنه کثیر الفائدة مع تقصر''
''اس میں آپ نے طویل عرصہ لگایا لیکن مکمل نہ کرسکے صرف کتاب الصیام تک پہنچے۔ اگر یہ کام مکمل ہوجاتا تو انتہائی مفید ثابت ہوتا۔ اگرچہ اب بھی مختصر ہونے کے باوجود کثیر الفائدہ ہے۔''

ابن رشید کا ترجمہ ''لحظ الالحاظ'' میں ابن فہد نے ذکر کیا ہے اور لکھا ہے:
''عال الأسناد۔ صحیح النقل، تام العنایة بصناعة الحدیث''
''عالی الاسناد۔ نقل میں صحت اور فن حدیث کا مکمل اہتمام رکھتا ہے۔''

(2)کتاب مناسبات تراجم البخاری۔ تصنیف قاضی القضاة الامام بدر الدین ابن جماعة یہ ابن المنیر کی کتاب کا ملخص ہے۔

(3)المتواری علی تراجم البخاری، علامہ ناصرالدین احمد بن المنیر خطیب اسکندریہ نے (283 ) اس میں چار سو منتخب ابواب کی شرح نہایت بسط کے ساتھ کی ہے۔ حافظ ابن حجرنے''ھدی الساری'' میں اس کا ذکر کیا ہے اور فتح الباری کا مأخذ ہے۔ متعدد مواضع میں اس کے حوالہ جات مذکور ہیں۔ علامہ زید ابن المنیر کی شرح بخاری ہے جو دس جلدوں سے زائد ہے۔ ولہ' حواش علی ابن بطال۔

(4)علامہ محمد بن منصور السجلماسی نے ''ذالك أغراضُ البخاري المبھمة في الجمع بین الحدیث والترجمة'' لکھی جس کے نام سے کتاب کی افادیت واضح ہے صرف ایک سو منتخب تراجم کی شرح ہے۔

(5)بدرالدین الدمامینی (828ھ) کہ انہوں نے ''تعلیق المصابیح علی أبواب الجامع الصحیح'' لکھی ہے۔ ان کی ''مصابیح الجامع'' شرح بخاری بھی ہے۔

(6)شرح التراجم پر ایک مختصر مگر جامع رسالہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے ''شرح تراجم الأبواب'' کے نام سے لکھا ہے۔ شروع میں تراجم کے متعلق چند اصول ذکر کئے ہیں پھر چار سو سے زائد تراجم پر مفصل بحث کی ہے جو قابل مطالعہ ہے۔

علاوہ ازیں شارحین نے بھی تراجم پر شرح و بسط کے ساتھ بحث کی ہے جن میں ابن حجر اور علامہ عینی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اس بحث کے آخر میں تراجم کے متعلق علامہ ابن خلدون کی رائے نقل کرنا فائدہ سے خالی نہیں۔ وہ اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
''فأما البخاري فاعلاھما رتبة واسصعب الناس شرحه واستغلقوا سخاہ من أجل من یحتاج إلیه من معرفة الطرق المتعددة و رجالھا من أھل الحجاز والشام والعراق و معرفة الأحوال و اختلاف الناس فیهم و کذالك یحتاج إلی إمعان النظر في التفقه في تراجمه لأنه یترجم المترجمة و یورد فبها الحدیث بسند أو طریق ثم یترجم أخریٰ و یورد فبها ذلك الحدیث بعینه لما تضمنه من المعنی الذي ترجم به الباب و کذلك في ترجمة و ترجمة إلی أن ینکرر الحدیث في أبواب کثیرة بحسب معانیه و اختلافھا۔''
''جہاں تک امام بخاری ہیں تو اس معاملہ میں اعلیٰ رتبہ کے حامل ہیں لوگوں نے اس کی شرح کو صعب گردانا اور انہیں ابواب کی شرح میں انتہائی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ان کی شرح کے لیے متعدد طرق کی معرفت اور احادیث کے رجال جو کہ حجاز، عراق اور شام تک پھیلے ہوئے ہیں کے حالات سے واقفیت اور لوگوں کے اختلافات کا علم از حد لازمی ہے۔ مزید برآں فقہ تراجم البخاری میں شارح کا عمیق النظر ہونا بھی لازمی وصف ہے کیونکہ آپ ایک جگہ ایک ترجمہ ذکر کرتے ہیں اور اس میں سند یا طریق کے ساتھ حدیث ذکر کرتے ہیں پھر کسی اور مقام پربعینہ اُسی حدیث کو کسی دوسرے ترجمہ کے تحت دوبارہ لاتے ہیں کیونکہ یہ حدیث اس دوسرے مضمون کو بھی شامل ہوتی ہے اور جا بجا مختلف تراجم میں یہ معاملہ ہوتا ہے حتیٰ کہ ایک حدیث مختلف معانی کی مناسبت اور اختلاف کے باعث متعدد مقامات پر ذکر ہوجاتی ہے۔''

الغرض امام بخاری نے ''الجامع الصحیح'' کو اس پہلو سے بھی جامع بنایا ہے کہ تراجم میں تقلیدی فقہ کی بجائے تحقیقی فقہ پیش کی ہے اور فقہ اہل الرائے پر تنقید کی ہے۔ نیز امام بخاری نے ان نظریاتی تحریکات کا بھی جائزہ لیا ہے جو اس دور میں اسلامی معاشرہ کے لیے چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکی تھیں۔ معتزلہ و جھمیہ نے صفات باری تعالیٰ کی نفی کردی تھی اور خوارج اور مرجئہ نے ایمان و کفر کے پیمانے مقرر کررکھے تھے اور شیعہ و خوارج نے نظریہ خلافت و حکومت کے سلسلہ میں انتشار پھیلا رکھا تھا۔ امام بخاری نے الجامع میں ان تمام نظریات کو سامنے رکھ کر اپنی کتاب کو مرتب کیا ہے۔ مولانا عبدالسلام المبارکپوری کتاب کی جامعیت اور صحت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
صحیح بخاری ہی ایک ایسی کتاب ہےجس پر صحیح اور جامع دونوں کا اطلاق ہوتا ہے جامعیت کی یہ حالت ہے کہ کیفیت وحی اور ابتدائے وحی (جس سے اسلام کی بناء قائم ہوتی ہے) سے لے کر تمام فنون عقائد و عبادات معاملات، سیر، بدء و العالم، غزوات و تفسیر، فضاول طب، آداب، رقاق اور توحید وغیرہ 54 فنون اسلامیہ کی جامع کتاب لکھی۔ ملکی سیاسی قوانین کے علاوہ روزہ مردہ کے جزوی معاملات کس طرح صاف اور روشن دلائل سے مستنبط کئے غرض بعد کتاب اللہ یہ ایسی کتاب ہے جو دین اور دنیا دونوں کے معاملات کو سلجھاتی ہے اور مصنف کے تمام فنون میں قابلیت کی شہادت دیتی ہے۔

اب اس کے بعد بھی مخالفین اگر صحیح بخاری کی عام قبولیت پر شور و شغب مچائیں تو کب قابل التفات ہے۔ ع


مہ نور مے فشاند و سگ بانگ میزند

امام بخاری نے کتاب العلم میں مصطلح الحدیث یا درایت حدیث کے اہم اصول واضح شکل میں مدوّن کردیئے اور اس دور میں یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم میں بہت سے اصول ایسے ہیں جو اسلامی طریق تعلیم سے ماخوذ ہیں اور امام بخاری نے ان اصولوں کو محدثانہ انداز میں کتاب و سنت سے ثابت کیا ہے۔ علاوہ ازیں مصنف نے ''الجامع الصحیح'' میں قواعد فنیہ مصطلحہ کا بھی بھرپور مظاہرہ کیا ہے اور ان کی رعایت سے اپنے فن کمال کو اوج تک پہنچا دیا ہے۔ جیسا کہ اس کے بعد صحیح بخاری کی فنی حیثیت پر بحث میں آرہا ہے۔

فی الحال ہم صحیح بخاری کے چند فقہی اصولوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو کتاب الاعتصام یا کتاب الاحکام میں امام بخاری نے صراحتاً یا اشارة بیان کئے ہیں:
(1)کتاب و سنت چونکہ جوامع کلمات پر مشتمل ہیں اس لیے ان دونوں سے ہر مسئلہ مستنبط ہوسکتا ہے۔(کمامر)
(2)دین اسلام، اصول و احکام کی حد تک مکمل ہوچکا ہے لہٰذا ان سے تمام مسائل کا استنباط ہوسکتا ہے۔
(3) سنت قولی، فعلی اور تقریری حجت ہے نیز ''احسنُ الہدی ھدی محمدﷺ کے تحت آپ کے شمائل بھی سنت میں داخل ہیں اور علماء نے شمائل نبوی پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔
(4) جو حکم سنت سے ثابت ہو وہ کتاب الٰہیہ میں داخل ہے۔
(5)اگر رائے و قیاس نصوص کتاب اللہ کے خلاف ہوں تو مذموم ہیں اور اگر قیاس کی بناء کتاب و سنت پر ہو تو وہ قیاس محمود ہے۔
(6)فرضی طور پر رائے و قیاس کا استعمال ولا تقف ما لیس لک بہ علم میں داخل ہے۔
(7)کسی حکم کی تفہیم کے لیے تشبیہ و تمثیل سے کام لیا جاسکتا ہے اور یہ رائے و قیاس نہیں ہے۔ اس کو امام بخاری ''تشبیہ اصل معلوم باصل مبین'' سے بیان کرتے ہیں۔ ابن بطال لکھتے ہیں کہ تشبیہ و تمثیل دراصل قیاس ہی کی ایک صورت ہے۔
(8) اجماع امت حجت ہے اور امام مالک کے نزدیک اجماع اہل مدینہ بھی حجت ہے۔
علامہ کرمانی لکھتے ہیں:
''وعبارة البخاري مشعرة بأن اتفاق أھل الحرمین کليهما إجماع''
''اور امام بخاری کی عبارت سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل حرمین کا اتفاق ''اجماع'' ہے۔''
تاہم اجماع سکوتی حجت نہیں ہے جیسا کہ .............. میں اشارہ پایا جاتا ہے۔
(9)کیا رسول اللہ ﷺ احکا م میں اجتہاد کے مجاز تھے؟ آیت ''لَيْسَ لَكَ مِنَ ٱلْأَمْرِ‌ شَىْءٌ''﴿١٢٨﴾ عموم نفی پر دال ہے۔
(10)رافضہ اور خوارج کا یہ زعم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے احکام کسی پر مخفی نہیں رہ سکتے لہٰذا جو احکام بعض سے مخفی ہیں وہ حجت نہیں ہوسکتے۔

امام بخاری نے اس نظریہ کا ردّ کیا ہے اور اخبار آحاد پر عمل کرنے کو اجماعی مسئلہ بتایا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی تقریری حدیث کی حجیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اجماع سکوتی حجت نہیں ہے۔

(11)''باب الأحکام تعرف بالدلائل'' کے تحت بیان کردہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر دلیل خاص نہ ہو تو دلیل عام سے استدلال کیا جائے گا چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حُمر کے متعلق سوال پر ''فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ خَيْرً‌ا يَرَ‌هُ''﴿٧﴾ آیت تلاوت فرمائی۔

(12)جب حکم مجمل ہو تو اس کی وضاحت قراون سے کی جائے گی۔

(13) اشارہ سے حکم مستنبط کرنا جائز ہے جیسا کہ (فأتٰی أبابکر) اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ ابوبکر آپؐ کے بعد خلیفہ ہوں گے۔ (قول حکیم دہلوی)

(14) امام بخاری ''سدّ الذرائع و اعتبار المقاصد'' کے قائل ہیں۔ حافظ ابن حجر حدیث ''إنما الأعمال بالنیات'' کے تحت لکھتے ہیں:
''والاستدلال بھذا الحدیث علی سدالذرائع و إبطال التحیل من أقوی الأدلة و تبع في ذلك مالکا'' (فتح الباری:15؍360)

''اس حدیث سے سدّذرائع اور حیل کے باطل ہونے پر استدلال کرنا چند قوی دلائل میں سے ایک ہے اور اس میں وہ امام مالک کے تابع ہیں۔''

(15) نصوص کی موجودگی میں نظر و قیاس سے استدلال جائز نہیں۔ (قاله المھلب)

(16)نہی تحریم کے واسطے ہے اور صیغہ امروجوب کیلئے مستعمل ہے الا یہ کہ اباحت یا کراہت پر کوئی دلیل ہو جیسا کہ حضرت جابر کا قول ہے۔
''قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد الإھلال من العمرة أصیبوا من النساء ولم یعزم علیهم وقول أم عطیة نهینا عن اتباع الجنائز ولم یعزم علینا''
''رسول اکرم ﷺ نے عمرہ سے اہلال کے بعد فرمایا کہ عورتوں کے پاس جاؤ اور یہ ان پر لازم نہیں کیا گیا تھا اور جس طرح اُم عطیہ کا فرمان ہے کہ ہم جنائز کے پیچھے جانے سے روکے گئے اور یہ ہم پر لازمی بھی نہیں ہے۔''

اور امام مالک اور شافعی کا بھی یہی مسلک ہے کہ :
''أي الأمر علی الإیجاب والنهي علی التحریم حتی یقوم دلیل علی خلاف ذلك قال ابن بطال وھذا قول جمهور و قول أکثر الشوافع الأمر علی الندب والنهي علی التحریم حتی یدل دلیل علی الوجوب في الأمر و دلیل التحریم في النهي انتھٰی''
''یعنی امر کی دلالت وجوب پر ہے اور نہی تحریم کے لئے ہے حتیٰ کہ کوئی دلیل اس کے خلاف واقع ہو۔ ابن بطال نے کہا اور یہی جمہور کا قول ہے اور اکثر شوافع کا قول یہ ہے کہ امرندب کے واسطے ہے اور نہی تحریم کیلئے حتٰی کہ کوئی ایسی دلیل پائی جائے جو امر کی وجوب پر دلالت کروائے اور نہی کی تحریم پر''

(17) حدیث تقریر سے استدلال کرتے ہیں (باب ضرب الدف ج11 ص108) قصة نکاح عبدالرحمٰن بن عوف (11؍128)

............ اطلاق سے استدلال جیسا کہ آیت ''وَءَاتُوا ٱلنِّسَآءَ صَدُقَـٰتِهِنَّ نِحْلَةً''﴿٤﴾ کہ اس میں صدقات مطلق ہے اسی طرح فریفتہ اور حدیث میں ہے: ''ولو خاتما من حدید''

............ استدلال بالالحاق وھو نوع من القیاس (باب المھر بالعروض و خاتم من حدید، باب استعارة الثیاب وغیرہا) قال الحافظ :
''لیس من شيء من أحادیث الباب ذکر و إنما یؤخذ منها بطریق الإلحاق ومن مقتضی قول عائشة''
''احادیث میں ترجمہ سے کوئی ظاہری مناسبت نہیں تاہم یہ مناسبت حضرت عائشہ کے قول کے مقتضیٰ اور طریق الحاق سے ہی پائی جاسکتی ہے۔''

............ کبھی ایسے لفظ سے استدلال کرتے ہیں جس سے دو معنی کا احتمال ہوتا ہے۔

............ ''عدم المفہوم'' سے استدلال صحیح ہے۔
''الاستدلال بعدم المفهوم (وَٱهْجُرُ‌وهُنَّ فِى ٱلْمَضَاجِعِ) أشار في ھجرة النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نسائه بأنه لیس لقوله تعالیٰ في المضاجع مفهوم''
''اس میں نبی اکرم ﷺ کا اپنے بیویوں سے دور رہنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ''فِى ٱلْمَضَاجِعِ'' میں مفہوم نہیں۔''

............تقیید مطلق سے استدلال کرلیتے ہیں بشرطیکہ وہاں پر تقیید کے دلائل موجود ہوں (باب مایکرہ من ضرب النساء)

............ ''مفہوم'' امام بخاری کے نزدیک حجت ہے۔

............نبی کریم ﷺ کے تمام افعال مطلقاً حکم پر دلالت نہیں کرتے جیسا کہ آپ کا فرمان''إني لا آکل متکئا'' منع پر دال نہیں ہے۔(ص471)

''باب الترغیب في النکاح لقوله تعالیٰ: فَانكِحُوامَا طَابَ لَكُم (الآیة) قال الحافظ: ووجه الاستدلال أنها صیغة أمر تقتضي الطلب و أقل درجاته الندب فثبت الطلب''

............ ضمیر خطاب یا صیغہ تخاطب، مخاطبین کے ساتھ حکم کی تخصیص نہیں کرتے۔

حافظ ابن حجر نے فرمایا:
''أشار أن الشفاھي لا بخص وھو کذلك اتفاقا وإنما الخلاف ھل یخص قصا أو استنباطا''
''اس میں یہ اشارہ ہے کہ تخاطب خصوصیت کا فائدہ نہیں دیتا اور یہ متفقہ بات ہے اختلاف اس میں ہے کہ کیا یہ نصاً خاص کرتا ہے یا استنباطاً''

''الاستدلال باللزوم: باب تزویج المعسر (حدیث ابن مسعود) تزویج الثیبات (حدیث اُم حبیبہ)، باب الی من ینکح (الخ) قال الحافظ: اشتملت المترجمة علی ثلاثة أحکام و تناول الأول والثاني وأضح وأما الثالث فیؤ خذمنه باللزوم''
............ لزوم سے استدلال: جیسا کہ تنگدست کی شادی کروانے کے لیے باب میں ابن مسعودؓ کی حدیث اور بیوہ عورتوں کی شادی کے بارے میں حدیث اُم حبیبہؓ ہے اور کس سے شادی کی جائے کے باب میں............

حافظ ابن حجر نے فرمایا:
''یہ ترجمہ تین احکام کو شامل ہے اور پہلے ، دوسرے کا مفہوم تو واضح ہے اور تیسرے کا معاملہ یہ ہے کہ وہ لزوم سے اخذ کیا جائے گا'' الخ

............جو باتیں نبی اکرم ﷺ کی خصوصیات سے نہیں ہیں ن میں دوسرے بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ اس پر ''عورت کا اپنے نفس کو نبی اکرمﷺ کے لیے کرنے والے قصہ'' سے استدلال کیا گیا ہے۔

حافظ ابن حجر نے فرمایا:
''ومن لطائف البخاري أنه لما علم الخصوصیة في قصة الواھبة استنبط من الحدیث مالا خصوصیة فیه وھو جواز عرض المرأة علی الرجل المصالح رغبة في صلاحه فیجوز له ذلك''
''لطائف بخاری'' میں سے یہ بھی ہے کہ ''واھبہ'' کے قصہ میں انہیں خصوصیت کا علم ہوا تو انہوں ن اس سے وہ بات اخذ کی جس میں کوئی خصوصیت نہیں اور وہ ہے............ عورت کا اپنے آپ کو کسی نیک آدمی پر اس کی نیکی کی وجہ سے پیش کرنے کا جواز............''

............یستدل بالعموم لوجود الصلاحیة إلا ما دل الدلیل علی اعتبارہ وھو استثناء الکافر (باب الکفاءة في الدین و قوله تعالیٰ (وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ مِنَ ٱلْمَآءِ بَشَرً‌ا فَجَعَلَهُۥ نَسَبًا وَصِهْرً‌ا)

حافظ ابن حجر نے فرمایا:
''ذھب إلی مذھب مالك في اعتبار الکفاءة بالدین فإن في النسب من لا یحل نکاحه و صھر عام إلا ما خصه الدلیل فلا نحل نکاح المسلمة بالکافر أصلا ولم یثبت في اعتبار الکفاءة بالنسب حدیث وما ورد من الأحادیث فلیست بصحیحة وإلی اعتبار الکفاءة بالدین ذھب أیضا الشافعي واللہ اعلم۔

............ باب مایتقی من شئوم المرأة وقوله تعالیٰ إِنَّ مِنْ أَزْوَ‌ٰجِكُمْ (الآیة) فان من ھھنا للتبعیض قال الحافظ ابن حجر: کأنه یشیر إلی اختصاص الشئووم ببعض النساء دون بعض مما دلت علیه الآیة من التبعیض۔

باب لا یتزوج أکثر من أربع اس میں رافضہ کا رد ہے کہ وہ تحدید کے قائل نہیں ہیں۔ مصنف نے تحدید کے لیے آیت ''مَثْنَىٰ وَثُلَـٰثَ وَرُ‌بَـٰعَ'' سے استدلال کیا ہے کہ واؤ بمعنی او ہے اور اعداد مذکور میں تخییر ہے۔ جیسا کہ اس کے بعد ''فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَ‌ٰحِدَةً'' سے مفہوم ہوتا ہے، پس آیت میں جمیع سے نکاح کی اجازت دی ہے نہ کہ مجموع سے جیسا کہ آیت''أُولِىٓ أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَـٰثَ وَرُ‌بَـٰعَ'' میں واؤ بمعنی اَو ہے اور حدیث سے اس کی تبیین ہوتی ہے۔

حضرت علی بن حسین نے مثنیٰ و ثلاث و رباع کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ واؤ بمعنی اَو ہے یعنی تنویع کے لیے ہے۔

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
''وھذا من أحسن الأدلة علی الرافضة لکونه من تفسیر زین العابدین وھو من المتهم الذین یرجعون ملی قولھم و یعتقدون عصمتهم۔ ''واللہ أعلم

علامہ کرمانی نے ''الردود والنقود'' میں فقہ الصحیح پر خصوصی توجہ دی ہے۔

شروط البخاری :
اس باب میں حافظ ابن حجر (752ھ) نے نہایت دقیق و مفید بات کہی ہے وہ اپنی کتاب ''فتح الباری'' میں لکھتے ہیں:

حدیث صحیح کی روایت میں امام بخاری کی شروط کو دو طریق سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔
(i) خود کتاب کے نام سے جو امام بخاری نے رکھا ہے۔
(ii) امام کے تصرف سے استقراء کے ذریعہ جو عموماً ائمہ نے بیان کی ہیں۔

پہلی بات ہم دیکھتے ہیں کہ امام بخاری نے اپنی کتاب کا نام ''الجامع الصحیح المسند المختصر من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و سننه و أیامه'' رکھا ہے۔
(1)الجامع کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے حدیث کی کسی ایک صنف کو خاص نہیں کیا بلکہ حدیث کے ''أنواع ثمانیة'' سے انتخاب کیا ہے۔ اس بناء پر اس کا نام الجامع رکھا ہے۔
(2)''الصحیح'' کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ضعیف روایت درج نہیں کی گئی۔ چنانچہ امام بخاری نے خود بھی تصریح کی ہے۔ ماأدخلت في الجامع إلاماصح۔ ''میں نے اپنی ''الجامع'' میں صحیح احادیث ہی درج کی ہیں۔''
(3)''المسند'' اس سے بتایا ہے کہ اصل میں وہ احادیث لائیں گے جن کی اسناد متصل اور مرفوع ہوگی، عام اس سے کہ وہ حدیث قولی، فعلی ہو یا تقریری۔ اور اگر کسی موقع پر اس کے خلاف آیا ہے وہ تبعاً اور عرضاً آیا ہے نہ کہ اصل مقصود کے لحاظ سے۔

اب رہی دوسری صورت یعنی مصنف کے تصرف سے استقراء اور تتبع، تو علماء نے اس پر طبع آزمائی کی ہے اور یہ دراصل امام بخاری کے نزدیک صحیح حدیث کی تعریف جاننے پر موقوف ہے اور امام بخاری کے نزدیک صحت حدیث کے لیے اتصال اسناد شرط ہے۔ یعنی راوی کی اپنے مروی عنہ سے لقاء ہو جیسا کہ حافظ ابن حجر نے تصریح کی ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر مزید لکھتے ہیں کہ امام بخاری اس راوی کی حدیث لاتے ہیں ''أکثر صحبته مع شیخه و أعرففم بحدیثه'' ہو، اور اگر اس صفت پر نہ ہو تو اس کی روایت متابعات میں لے آتے ہیں جبکہ قرینہ ہو کہ راوی نے اس کو ضبط کیا ہے یہی وجہ ہے کہ علماء نے صحیح بخاری کو ''أصح الکتب'' کہا ہے، اب ہم استقراء کے متعلق علماء کے خیالات مفصل بیان کرتے ہیں۔

علامہ حازمی کی رائے :
اوپر جوکچھ حافظ ابن حجر کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے دراصل یہ علامہ حازمی48 کی رائے ہے جو انہوں نے ''شروط الأئمة الخمسة'' میں امام بخاری کی شرط کی وضاحت کے سلسلہ میں ذکر کی ہے اور اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
جن محدثین نے حدیث صحیح لانے کا التزام کیا ہے وہ مشائخ سے راوی عدل کا التزام کرتے ہیں اور جس سے وہ روایت کرے وہ بھی عدل ہو۔ کیونکہ مشائخ سے روایت کرنے والے صحیح اور موصول دونوں قسم کی روایت کرتے ہیں اور یہ دوسری قسم شواھد و متابعات میں لانے کے قابل تو ہوسکتی ہے، اصول میں لانے کے قابل نہیں ہوتی۔ اس کی وضاحت کے لیے ہم رواة کو پانچ طبقوں میں تقسیم کرتے ہیں تاکہ صحیحین اور سنن کی روایات میں تفاوت درجات کی نشاندہی ہوسکے۔

طبقات رواة :
ہر راوی الاصل یعنی جو کثیر الروایہ راوی ہو، علماء نے اس کے اصحاب کو پانچ طبقات میں تقسیم کیا ہے اور ہر طبقہ کا مقام و مرتبہ متعین کیا ہے مثلاً امام زھری کے تلامذہ کے پانچ طبقے ہیں:
(1)جو عدل و اتقان میں تام ہوں اور کمال حفظ کے ساتھ متصف ہوں اور پھر ان کو زھری کے ساتھ طول ملازمت کا شرف بھی حاصل ہو اور حضر و سفر میں امام زھری کے ساتھ رہے ہوں، امام زھری کی احادیث کو جانچنے کا موقعہ ملا ہو۔ اس طبقہ کی روایت امام بخاری اصالتاً لاتے ہیں۔
(2)عدل و ضبط میں پہلے طبقہ کے ساتھ شریک ہو مگر طبقہ اولی کی مثل طول ملازمت حاصل نہ ہو اور نہ ہی روایات کی پوری طرح ممارست کا موقع ملا ہو اور اتقان میں بھی پہلے طبقہ سے کمتر ہو۔ اس طبقہ کی روایات امام مسلم تو اصالة لاتے ہیں لیکن امام بخاری متابعات اور شواہد میں لاتے ہیں۔
(3)وہ جماعت جو طبقہ اولی کی طرح امام زھری سے اتصال تو رکھتی ہو لیکن عوامل جرح سے سالم نہ رہی ہو یعنی ردّ و قبول میں بین بین سی ہو یہ امام ابوداؤد اور امام نسائی کی شرط ہے یعنی اس طبقہ کی روایت کو وہ بطور استدلال لے آتے ہیں۔
(4) جو جرح و تعدیل میں طبقہ ثالثہ کے ہم درجہ ہوں لیکن زھری کی حدیث کی ممارست بھی بہت کم کی ہو کیونکہ زھری کے ساتھ رہنے کا ان کو بہت کم موقع ملا ہو۔ ایسے رواة جامع ترمذی کی شرط ہیں۔
(5) طبقہ ضعفاء و مجھولین جن کی روایات ابواب احکام کی کتابوں میں صرف اعتبار و استشہاد کے طور پر لائی جاسکتی ہیں، جیسا کہ اصحاب سنن کرتے ہیں۔ شیخین ان کے نزدیک تک نہیں جاتے۔

آمدم برسرِ مطلب :
اس کے بعد علامہ حازمی لکھتے ہیں:
امام بخاری کا مقصود پہلے طبقہ کی روایت کو جمع کرنا ہے مگر کبھی دوسرے طبقہ کے اعیان سے بھی لے آتے ہیں اور امام مسلم دوسرے کے بعد تیسرے طبقہ کے اعیان کی روایت لے آتے ہیں اور امام ابوداؤد تیسرے کے بعد چوتھے طبقہ کے مشاھیر سے بھی۔ حازمی کے اس کلام کی تلخیص کے بعد ابن حجر لکھتے ہیں:49

''طبقات رواة کی یہ درجہ بندی مکثرین کے حق میں ہے۔ لہٰذا زھری کے اصحاب پر نافع، اعمش اور قتادہ وغیرہم کے اصحاب کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ باقی رہے غیر مکثرین ، تو شیخین صرف انہی کی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں جو ثقہ عدل ہوں اور قلت خطا کے ساتھ متصف ہوں، پھر جس پر اعتماد قوی ہو۔ تفرد کی صورت میں بھی اس کی روایت لے آتے ہیں جیسے یحییٰ بن سعید انصاری وغیرہ اور جس پر اعتماد قوی نہ ہو تو اس کی روایت مقرون لاتے ہیں۔''

اب اس کے بعد مقدسی اور امام حاکم کی تتبع اور استقراء پر نظر ڈالیں۔ حافظ ابوالفضل بن طاہر المقدسی اپنی کتاب ''شروط الأئمة'' میں لکھتے ہیں:
''ولم ینقل عن واحدمنهم أنه قال شرطت أن أخرج في کتابي مایکون علی الشرط الفلاني ومن سبرکتبهم یعلم بذلك شرط کل رجل منهم''
'' ان میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ میں نے اپنی کتاب فلاں شرط ملحوظ رکھتے ہوئے ترتیب دی ہے۔ جو آدمی ان کتب کا بغور مطالعہ کرتا ہے اور کھنگالتا ہے وہ استقراء کے ذریعے ان شروط کو پاسکتا ہے۔''

اس کے بعد تتبع اور استقراء سے صحیحین کی شروط بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''اعلم أن شرط البخاري و مسلم أن یخرجا الحدیث المتفق علی صحته نقلته إلی الصحابي المشهور من غیر اختلاف بین تقات الإثبات أویکون إسناد متصلا غیر مقطوع وإن کان للصحابي راویان فصاعداً فحسن وإن لم یکن له إلا راو واحد و صح الطریق إلیه أخرجاہ''
''جاننا چاہیے کہ امام بخاری اور مسلم کی یہ شرط ہے کہ ایسے راوی سے حدیث لیں گے جس کی صحت متفقہ ہو اور وہ اس حدیث کو ثقات، ضابطہ راویوں کے اختلاف کے بغیر اتصالاً مشہور صحابی سے روایت کرے، اور اگر صحابی سے دو یا دو سے زیادہ راوی روایت کریں تو بہت بہتر ہے تاہم اگر ایک ہی راوی صحیح طریق سے مع اتصال سند روایت کرے تو اس کی روایت بھی کتاب میں لے آئیں گے۔''

لیکن امام حاکم ''معرفة علوم الحدیث'' اور ''المدخل'' میں صحابہ سے نیچے ہر درجہ میں دو راویوں کا ہونا شیخین کی شرط قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ لکھتے ہیں:
امام بخاری اور مسلم نے صحیح احادیث کے اقسام میں درجہ اولیٰ کو اختیار کیا ہے یعنی وہ حدیث جو صحابی مشہور، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرے، پھر اس سے دو ثقہ تابعین روایت کریں اور تابعی سے دو متقن اور مشہور تبع تابعین روایت کریں ، پھر اس سے طبقہ رابعہ کے راوی روایت کریں اور بخاری اور مسلم کے شیوخ بھی حافظ متقن اور مشہور ہوں۔''50

ایک اعتراض :
علامہ حازمی نے شروط بخاری میں جو طول ملازمت کی شرط لگائی ہے اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ امام بخاری تو صحت حدیث کے لیے مطلق لقاء کی شرط لگاتے ہیں ''ولؤ مرة'' تو یہ ملازمت طویلہ کی شرط کہاں سے آگئی......؟

علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ ''لقاءة مرة'' کی شرط طبقہ ثانیہ میں ہے جن کی احادیث توابع اور شواہد کے طور پر لائی جاتی ہیں۔ چنانچہ ابن الوزیر ''التنقیح'' میں لکھتے ہیں:51
''وإنه قد یخرج أحیانا عن أعیان الطبقة التي تلي ھذہ في الإتقان والملازمة لمن رووا عنه فلم یلازموہ إلا ملازمة یسیرة''
''اور کبھی کبھی وہ اس طبقہ سے بھی روایت لیتے ہیں جو اتقان اور ملازمت کے اعتبار سے اس طبقے سے کمتر ہیں اور انہوں نے فقط ایک مرتبہ ملاقات کافی سمجھی ہے۔''

لہٰذا اس پر کچھ اعتراض نہیں ہے اور نہ ہی تضاد ہے۔

بعض اوقات ایک راوی ثقہ ہوتا ہے لیکن بعض دوسرے رجال سے اس کی روایت ضعیف ہوتی ہے جیسے حماد بن سلمہ کے متعلق ہے 'أثبت الناس في ثابت البناني'لیکن محدثین نے لکھا ہے کہ ثابت کے علاوہ کسی دوسرے سے روایت میں ضعیف ہے، مثلاً ایوب، داؤد بن ابی ھند، یحییٰ بن سعید، عمرو بن دینار وغیرہم سے اسکی روایت ضعیف ہے۔ 'لأنه یخطئ في حدیثھم کثیرا' تو ایسے ثقہ سے شیخین روایت لے آتے ہیں۔

اسی طرح بہت سے ثقات جو ''متھم بالبدعة'' ہیں ان کی ایک جماعة سے بھی شیخین نے روایت لی ہے جو ''داعی إلی البدعة'' نہ تھے اور اکثر محدثین نے ایسے اہل بدعت سے احتجاج کیا ہے۔52

ابن طاہر المقدسی، امام حاکم کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
امام حاکم کی بیان کردہ شرط حسن ہے لیکن یہ قاعدہ ''غرائب الصحیحین'' میں ٹوٹ جاتا ہے مثلاً امام بخاری اور مسلم وفات ابی طالب کے قصہ میں ''مسیب بن حزن'' کی حدیث لائے ہیں مگر اس سے یہ حدیث سعید بن مسیب نے ہی روایت کی ہے اس طرح امام بخاری عمرو بن تغلب کی حدیث: ''إني لأ عطي الرجل والذي أدع أحب إلي'' لائے ہیں جبکہ عمرو بن تغلب سے صرف حسن بصری نے ہی روایت کی ہے۔ اس طرح امام مسلم اپنی الصحیح میں کتاب الإیمان والنذور ''باب من حلف باللات والعزی'' میں زھری کی روایت کے بعد لکھتے ہیں:
''قال أبوالحسین (مسلم) لایرویه أحد غیر الزھري قال: للزھري نحو تسعین حرفا (حدیثا مرسلا) لایشارکه فبها أحد بأسانید جیاد''
''امام ابوالحسین مسلم نے فرمایا کہ زہری کے علاوہ اس سے کوئی روایت نہیں کرتا اور کہا، زہری کی اس سے تقریباً 90 روایات ایسی ہیں جو مُرسل ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی اعلیٰ سند کے ساتھ شریک نہیں ہوا ہے۔''

علامہ ذہبی لکھتے ہیں:
''عدی بن عمیر الکندي و مرادس السلمي أخرج لھما مسلم وما روی عنهما غیر قیس بن أبي حازم و قطة ابن مالك خرج له مسلم وما حدث عنه سوی زیاد بن علاقة و خرج مسلم لطارق بن أشیم و ماروی عنه إلا ولدہ أبو مالك الأشجعي و خرج لبنیشة الخیر وماوری عنه إلا أبوالملیح الھذلي''
''عدی بن عمیر الکندی اور مرادس اسلمی کی احادیث امام مسلم نے ذکر کی ہیں۔ قیس بن ابی حازم اور قطبہ بن مالک کے ماسوا کوئی دوسرا ان دونوں سے روایت کرے تو اس کسی روایت بھی لے آتے ہیں سوائے زیادہ بن علاقہ کے ۔ اور امام مسلم طارق بن اشیم اور طارق سے اس کے بیٹے ابومالک الاشجعی کی بھی روایت لے آتے ہیں اپنی کتاب میں۔ بنیشہ سے روایت کرے تو نہیں ذکر کرتے۔''

یہ چند امثلہ ہم نے ذکر کی ہیں جو امام حاکم کے دعویٰ کی تردید کے لیے کافی ہیں کہ شیخین صرف انہی سے روایت کرتے ہیں جن سے دو یا دو سے زیادہ راوی ہوں۔

امام حاکم کے اس قول سے علامہ حازمی نے یہ سمجھا ہے کہ امام حاکم اوّل تا آخر دو راوی عدل قرار دیتے ہیں اور ابوالعباس قرطبی نےبھی حازمی کے بالتبع امام حاکم پر اعتراض کیا ہے کہ ''اثنین عن اثنین'' والی روایات تو صحیحین میں بہت کم پائی جاتی ہے۔53 تاہم امام حاکم کا یہ مطلب نہیں ہے۔54 کیونکہ صحیحین میں غرائب بھی ہیں مثلاً ابوجمیلہ.............. کہ ان سے زھری کے سوا کسی نے بھی صحت سند کے ساتھ روایت نہیں کی۔55

ربیعہ بن کعب سلمی کہ ان سے صرف ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن ہی راوی ہیں56 اور امام ذہبی نے بخاری میں دس ایسے صحابہ کے نام ذکر کئے کہ ان سے صرف ایک ہی راوی ہے۔57

صحابہ کی حد تک تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو تو امام حاکم نے بھی مستثنیٰ کیا ہے جیسا کہ سخاوی نے لکھا ہے۔58 اور غیر صحابہ کے سلسلہ میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:59
''والشرط الذي ذکرہ الحاکم وإن کان منتقضا في حق بعض الصحابة الذین أخرج لھم لکنه معتبر في حق من بعدھم فلیس في الکتاب حدیث أصل من روایة من لیس له إلا راو واحد فقط۔''
''اور وہ شروط جس کو امام حاکم نے ذکر کیا ہے اگرچہ صحابہ اس سے مستثنیٰ ہیں لیکن بعد میں آنے والے راویوں میں یہ شرط معتبر ہے۔ کتاب میں ایسے راوی کی کوئی حدیث نہیں ہے جس سے صرف ایک راوی نے روایت کی ہو۔''

پس امام حاکم کامطلب یہ ہے کہ صحابہ کے بعد کے رُواة صحیحین کے ہر راوی سے فی الجملہ دو کا روایت کرناضروری ہے تاکہ جہالت سےنکل جائے یہ نہیں کہ اس خاص حدیث میں یہ ضروری ہے۔ پھر حافظ لکھتے ہیں:
''علوم الحدیث'' میں تو حاکم نے فی الجملہ حدیث صحیح کے لیےد و کی روایت کو شرط قرار دیا ہےمگر ''المدخل'' میں صرف صحیحین کی حدیث کے لیے اس کو شرط قرار دیا ہے لہٰذا ''المدخل'' کی بنسبت ''علوم الحدیث'' کی عبارت پر زیادہ اعتراض ہے۔''

ابوحفص المیانجی نے حازمی سے بڑھ کر دعویٰ کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ شیخین نے اپنی کتابوں میں صحت حدیث کے لیے عدد کی شرط لگائی ہے چنانچہ وہ اپنی کتاب ''مالا یسع المحدث جھله'' میں لکھتے ہیں: 60
''إن شرط الشیخین في صحیحھما أن لا یدخلا فیھما إلا ماصح عندھما و ذلك مارواہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اثنان فصاعدا و نقله عن کل واحد من الصحابة أربعة من التابعین فأکثروا وإن یکون عن کل واحد من التابعین أکثر من أربعة''
''شیخین نے اپنی صحیح میں یہ شرط لازم کی ہے کہ صرف اسی سے روایت لیں گے جو ان کے نزدیک صحیح ہو اور وہ نبیؐ تک دو یا دو سے زیادہ راویوں سے روایت کرے اور لازمی ہے کہ صحابہ سے اس حدیث کو چار تابعین نے سنا ہو اور تابعین سےبھی کم از کم چار راویوں نے اس حدیث کا سماع کیا ہو۔''

ابوحفص کے اس قول کی تردید کی ضرورت نیں ہے کیونکہ شیخین میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا اور صحیحین میں کتنی ایسی احادیث ہیں جن کو صرف ایک ہی صحابی نے روایت کیا ہے اور ان میں کتنی ایسی احادیث ہیں جن کو صرف ایک ہی تابعی نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام مسلم کی تصریح گزر چکی ہے۔

اور مطلق صحیح حدیث میں عدد کی شرط تو ابراہیم بن اسماعیل بن علیہ وغیرہ سے بھی منقول ہے۔ امام شافعی نے الرسالہ (369۔ 458) میں خبرواحد کے وجوبُ العمل ہونے پر باب قائم کیا ہے اور اصول فقہ کی اصطلاح میں اخبار آحاد ''ان اخبار کو کہا جاتا ہے جو متواتر نہ ہوں عام اس سے کہ اس کا راوی ایک ہو یا ایک سے زیادہ ۔''

معتزلہ نے قبول خبر کے لئے چار کی شرط لگائی ہے۔ابوعلی الجبائی المعتزلی ابی الحسین کی کتاب المعتمد کے حوالہ سے لکھتے ہیں:61
''إن الخبر لا یقبل إذا رواہ العدل الواحد إلا اذاا نضم إلیه خبر عدل آخر (الخ)''
''اس عادل راوی کی اس وقت تک حدیث قبول نہ کی جائے گی جب تک کہ وہ اکیلا روایت کرے۔ حتیٰ کہ اس کے ساتھ ایک اور عادل راوی کی روایت بھی مل جائے۔''

علاوہ ازیں ابومنصور البغدادی نے ''اثنین عن اثنین'' کی شرط لگائی ہے اور انہوں نے اپنے دلائل میں چار احادیث پیش کی ہیں:
''قصة ذي الیدین في السھو في الصلاة ،قصة أبي بکر في میراث الجدة ،قصة عمر مع أبي موسیٰ الأشعري في الاستیذان، قصة علی استحلاف من حدثه''
''(i) ذوالیدین کا نماز میں بھولنے والا قصہ،(ii) ابوبکر کا دادی کی میراث والا قصہ، (iii) عمر بن خطاب کا حضرت موسیٰ اشعری سے استیذان والا قصہ، (iv) حضرت علی کا روایت پر قسم لینے والا واقعہ۔''

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ان چاروں احادیث کا جواب بالکل واضح ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے:
1۔ ذوالیدین کی خبر قبول کرنے میں توقف اس ظاہری شک کی وجہ سے تھا کہ اکابر صحابہ کی موجودگی میں یہ اکیلا خبر دے رہا تھا ورنہ متعدد مواقع پر آپؐ نےاکیلے کی خبر پر اعتماد کیا ہے، دیکھئے بخاری، کتاب اخبار الاحاد۔
2۔ حضرت صدیق اکبر نے محض تثبت کے لیے توقف کیا ورنہ حضرت صدیق نے کفن کی مقدار میں حضرت عائشہ اکیلی کی روایت پر عمل کیا............... وغیرہ
3۔ حضرت عمر بھی تثبت چاہتے تھے کیونکہ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حضرت عمر کے انکار پر یہ حدیث سنائی تھی ورنہ حضرت عمر نے مجوس ھجر سے جزیہ کے بارے میں اکیلے عبدالرحمٰن بن عوف کی خبر پر عمل کیا۔ اسی طرح طاعون سے فرار کے سلسلہ میں بھی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی خبر پر عمل کیا ۔علاوہ ازیں بہت سے واقعات ہیں جن میں حضرت عمر نے خبر واحد پر اعتماد کیا۔
4۔ حضرت علی کے استحلاف والی روایت اوّلاً تو ضعیف ہے کہ اس کے تمام طرق میں اسماء بن الحکم الفزاری ہے۔ امام بخاری ''التاریخ الکبیر'' میں لکھتے ہیں:
''لم یروعنه إلاھذا الحدیث و حدیث الآ خرلم یتابع علیه''
''اس سے اس حدیث کے علاوہ کسی حدیث کی روایت نہیں کی گئی اور دوسری حدیث کی متابعت نہیں ہے۔''

اور صحابہ کرام روایات پر قسم نہیں لیتے تھے۔

الغرض اسماء بن الحکم مجہول ہے اور اگر یہ حدیث ثابت بھی ہو تو احتیاط میں مبالغہ پر محمول ہے۔

صحیحین کی ارجحیت:
اب یہاں ہم صحیحین کی ارجحیت کی طرف اشارہ کرت ہیں جس کا تعلق صحیحین کی شرط سے ہے اور احناف نے اس کی نفی کرکے حنفی فقہ کو مؤید کرنے کی کوشش کی ہے۔ ابن الھمام ''التحریر فی الاصول'' اور ''فتح القدیر'' شرح ھدایہ میں لکھتے ہیں:
'کون ما في الصحیحین راجحاً علی ماروی برجالھما في
غیرھما أوما تحقق فیه شرطھما بعد إمامة المخرج تحکم
''یعنی صحیحین کی ارجحیت ان کے رجال کے معتبر شروط کی وجہ سے ہے۔ اگر وہی شروط ان رواة کی حدیث میں پائی جائیں جو حدیث کی دوسری کتابوں (سنن وغیرہ) میں ہے تو پھر مافی الصحیحین پر اصحیت کا حکم لگانا سراسر تحکم ہے۔''62

ابن الہمام کی دونوں جگہ کلام کا مطلب ایک ہی ہے یعنی دوسری حدیث کی کتابوں میں بھی انہی رجال کے ساتھ حدیث پائی جائے تو پھر صحیحین کو راجح کہنا خلاف واقعہ ہے۔ آگے چل کر لکھتے ہیں:
کسی معین راوی پر یہ حکم لگانا کہ اس میں شروط عدالت و ضبط قطعی طور پر پائی جاتی ہیں یہ بھی خلاف واقع ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس میں شروط قبولیت متحقق نہ ہوں۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح مسلم میں بہت سے رواة ہیں جو عوامل جرح سے بری نہیں ہیں۔ یہی حال صحیح بخاری کا ہے کہ رواة کی ایک جماعت پر جرح کی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ ائمہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں راوی متصف بصفات قبولیت ہے اور فلاں نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ایک محدث ایک راوی کی تضعیف کرتا ہے اور دوسرا اس کی توثیق کرتا ہے اور دونوں اپنے اپنے علم کے مطابق حکم لگاتے ہیں۔ واقعہ کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے۔

ابن الھمام کے اعتراض کا جواب :
اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ صحیحین کی ارجحیت صرف رجال اور شروط پر موقوف نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو بلا شبہ انہی رواة سے خارج از صحیحین روایت بھی صحیحین کی روایت کی مثل ہوسکتی تھی۔ مگر یہاں پر ارجحیت کے دیگر عوامل بھی ہیں جو صحیحین کے سوا دوسری کتابوں میں نہیں پائے جاتے۔

علماء نے احادیث صحیحہ کی درجہ بندی کی ہے اور ان کے سات درجے قرار دیئے ہیں اور وہ درجہ بندی جو مقدمہ ابن الصلاح میں مذکور ہے۔63 تمام علماء اس پر متفق ہیں:
1۔ مااتفق علیه البخاري و مسلم 5۔ صحیح علی شرط البخاري
2۔ ماانفرد به البخاری 6۔ صحیح علی شرط مسلم
3۔ ماانفرد به مسلم 7۔ صحیح عند غیرھما
4۔ صحیح علی شرطھما ولم یخرج واحد منھما

پس صرف رجال اسناد کی بات نہیں ہے بلکہ صحیحین کو تلقی بالقبول ہونے کی وجہ سے بھی ارجحیت حاصل ہے اور اس فضیلت میں کوئی دوسری کتاب ان کی سھیم و حصہ دار نہیں ہے۔

دراصل مثل رجال قرار دینے سے احناف کی غرض یہ ہے کہ فقہاء حنفیہ اور محدثین کے مابین معارضہ پیدا کرکے حنفیت کی تائید کے لیے راستہ ہموار کیا جائے۔ چنانچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ''شرح سفرالسعادة'' کے مقدمہ میں ابن ھمام کی اس تنقید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''وھذا مفید نافع في غرضنا من شرح ھذا الکتاب وھو تائید المذھب الحنفي''
''اس کتاب کی شرح ہمارے مقصد کے اعتبار سے مفید اور نفع بخش ہے اور اس میں حنفی مذہب کی تائید ہے۔''

شیخ دہلوی کی اس تصریح سے صاف ظاہر ہے کہ ابن الھمام اس تنقید سے حنفیہ کے لیے راستہ نکالنا چاہتے ہیں کیونکہ صحیحین دو ایسی کتابیں ہیں جن میں حنفیت کے خلاف زیادہ مواد پایا جاتا ہے۔ کاش احناف یہ کوشش نہ کرتے اور امام بخاری کے بلند مرتبہ ہونے پر حسد سے کام نہ لیتے امام بخاری کی شخصیت وہ ہے کہ ابن المدینی جیسے علل حدیث کے علامہ ان کی قدر و منزلت کرتے ہیں۔ حافظ ان حجر صحیحین کے فضل و مرتبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''لم یبق سبیل إلی ضبط ماراعاہ و احتاطاہ علی مبلغ کمالھما و خبرتهما في دقائق التصحیح والعلل في کتابیيها وقد ثبت أنهما أخرجهما عن الوف من الصحاح الثابتة عندهما حتی قال البخاري أحفظ مائة ألف حدیث صحیح و مائتي ألف حدیث غیر صحیح و قال مسلم لیس عندي کل شيء من الصحیح وضعته ھھنا وإنما وضعت ھھنا ما أجمعوا علیه فدققا النظر في التصحیح عندھما وأخرجا منهما اللب۔''
''شیخین نے انتہائی احتیاط اور فن تصحیح و علل میں اپنی کمال واقفیت کی بنا پر اپنی صحیحین میں احادیث درج کرنے میں محنت میں کوئی کمی نہیں کی اور تحقیق میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں جانے دیا جبکہ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے لاکھوں صحاح احادیث سے ان روایات کو اپنی کتاب میں درج کرنے کے لیے اخذ کیا۔ حتیٰ کہ امام بخاری نے فرمایا کہ مجھے ایک لاکھ صحیح اور دو لاکھ غیر صحیح احادیث حفظ ہیں اور امام مسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنی تمام صحیح روایات اس کتاب میں جمع نہیں کردیں بلکہ فقط وہ احادیث شامل کی ہیں جن کی صحت پر اجماع ہے۔ مزید برآں بخاری و مسلم نے ان احادیث کی صحت کی چھان پھٹک میں بہت دقتِ نظر سے کام لیا ہے۔''

اور یہ تدقیق اور مغز کا نکالنا ان کی شروط کی بنا پر ہے اور چونکہ شروط کی انہوں نے تصریح نہیں کی لہٰذا ضروری ہے کہ بعینہ ان رجال سے روایت لائی جائے اور امام نووی بھی لکھتے ہیں:
''علماء کا کسی روایت کو علیٰ شرط شیخین کہہ دینے سے مراد یہ ہے کہ اس روایت کے راوی صحیحین کے رجال میں سے ہیں۔'' (مقدمہ)

اور شیخین کے زمانہ اور اس کے بعد شیخین کے برابر کا کوئی حاذق فن نہیں ہوا، لہٰذا علی شرط الشیخین کا مطلب یہی ہے کہ ان کے رجال سے روایت لائی جائے اور انہی رجال سے روایت لانے سے شیخین کی ارجحیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا یعنی ارجحیت پھر بھی قائم رہے گی اس کی متعدد وجوہ ہیں:
1۔ شیخین کا کسی حدیث کی تصحیح کا مدار صرف راوی کی عدالت اور اتصال پر نہیں ہے بلکہ راوی کے اپنے مروی عنہ سے طول ملازمت اور اس کی حدیث کی ممارست پر ہے۔ (کمامر في بیان الطبقات)
2۔ بسا اوقات شیخین ان ثقات سے روایت کرتے ہیں جو مخصوص اشخاص سے روایت میں ضعیف سمجھے گئے ہیں لیکن شیخین ان سے ان لوگوں کی حدیث لاتے ہیں جن میں ضعف نہیں ہوتا مثلاً ہشیم ثقہ ہے مگر زھری سے اس کی روایت ضعیف ہے۔ اسی طرح ھمام ثقہ ہے مگرابن ھمام سے اس کی روایت ضعیف ہے حالانکہ یہ دونوں راوی صحیحین کے ہیں لیکن شیخین ان کی روایت زھری اور ابن جریج سے نہیں لاتے جن سے ان کی روایت ضعیف سمجھی گئی ہے۔ اس بنا پر ابن الصلاح لکھتے ہیں (مقدمة شرح مسلم لابن الصلاح: ص8)
''من حکم لشخص بمجرد روایة مسلم عنه في صحیحه بأنه من شرط الصحیح فقد غفل وأخطأ بل ذلك بتوقف علی النظر في کیفیة راویة لمسلم عنه وعلی أي وجه اعتمد علیه''
''جو آدمی فقط امام مسلم کا کسی شخص سے اپنی کتاب میں روایت لانے کو اس کا پیمانہ سمجھ بیٹھے کہ یہ تو راوی علیٰ شرط صحیح ہے تو ایسا آدمی واضح غلطی پر ہے۔ اسے دیکھنا ہوگا کہ امام مسلم نے اس سے کس کیفیت میں حدیث حاصل کی اور کن باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا اور کس بنا پر اعتماد کیا؟
3۔ جو لوگ ان کےرجال سے ملفق اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں اسےبھی علی شرط صحیحین نہیں کہہ سکتے۔ مثلاً :
سماک عن عکرمہ عن ابن عباس۔

کہ سماک رجال مسلم سےہے اور عکرمہ رجال بخاری سے لہٰذا ملفقاً ان کی روایت کو علی شرط الشیخین نہیں کہہ سکتے۔

4۔ شیخین نے ایک راوی سے اختلاط سے قبل روایت لی ہوتی ہے اب اختلاط سے بعد والی روایت کو علی شرط احدھما نہیں کہہ سکتے مثلاً احمد بن عبدالرحمٰن ابن اخی عبداللہ بن وھب کی روایت جو 250ھ کے بعد (جب امام مسلم مصر سے چلے آئے تھے) مختلط ہوگیا تھا لہٰذا اختلاط سے بعد والی روایت کو علی شرط مسلم نہیں کہہ سکتے۔

5۔ امام مسلم بعض ضعفاء کی روایات صحیحہ درج کرتے ہیں جیسا کہ معترض نے بیان کیا ہے مگر وہ روایات متابعات و شواھد میں لاتے ہیں اصالتہً نہیں۔لہٰذا صحیح کے مقصد کے خلاف نہیں ہیں پس ایسی روایت کو علی شرط مسلم نہیں کہہ سکتے۔

6۔ بعض اوقات امام مسلم غیر اثبات کی اس روایت کو بھی لے آتے ہیں جو اثبات نے بھی ان شیوخ سے روایت کی ہوتی ہے لیکن وہ سند نازل کے ساتھ ہوتی ہے اور امام مسلم علو والی روایت لاتے ہیں مثلاً اسباط بن نصر، قطن اور احمد بن عیسیٰ سے روایت پر جب ابوزرعة نے ملامت کی تو امام مسلم نے معذرت کی اور کہا:
''إنما أدخلت من حدیثهم مارواہ الثقات عن شیوخھم إلا أنه ربما وقع إلی عنهم بارتفاع ویکون عندي بروایة أوثق عنهم نبزول فاقنصرہ علی ذلك''
''میں نے اپنی صحیح میں ان ثقہ راویوں کی حدیث ذکر کی ہے جو اپنے ثقہ شیوخ سے حدیث بیان کریں الا یہ کہ میرے پاس کسی ثقہ راوی کی علو والی روایت ہو اور اس سے اوثق کی روایت بھی موجود ہو جو کہ نازل ہو تو تب میں عالی روایت کو ذکر کرتا ہوں اور اوثق کی روایت ترک کردیتا ہوں۔''(مقدمہ صحیح مسلم للنووی)

اور اس کا باعث صرف علو ہی نہیں ہوتا بلکہ متہم راوی کی روایت میں متعدد محاسن بھی پائے جاتے ہیں مثلاً بخاری کی بعض اسانید میں مروان مذکور ہے تاہم وہ روایت دوسرے طریق سے بھی آئی ہوتی ہے اس لیے امام بخاری مروان والی روایت لے آتے ہیں تو یہ کوئی اعتراض کی چیز نہیں ہے۔

مثلاً علی بن حسین بن علی بن ابی طالب عن مروان بن الحکم والی روایت! تو جو حقیقت حال سے آگاہ نہیں وہ مروان کو علی بن حسین کا شیخ سمجھ لیتا ہے ''وھٰذا واللہ لجفاء عظیم'' اور محدثین باوجود اس کے کہ ان کو کسی راوی کے کذاب ہونے کا علم ہوتا ہے مگر اس سے وہ روایت لے لیتے ہیں جو کذب نہیں ہوتی کیونکہ وہ ثقات سے مروی ہوتی ہے سفیان کے متعلق مشہور ہے وہ کہا کرتے: ''حدثني فلان وھو کذاب''

پس ہمارے اس بیان سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ دوسروں کی شیخین کے رجال سے روایت مساوات کی مقتضی نہیں ہے۔

7۔ اگر ابن ماجہ وغیرہ کی بعض اسانید کو صحیحین کی اسانید کے برابر بھی فرض کرلیں تو پھر بھی دوسری کتابوں کی مرویات صحیحین کے مساوی نہیں ہوسکتیں کیونکہ علل متن کی معرفت میں دوسرے مشائخ امام بخاری اور مسلم کے برابر نہیں ہوسکتے لہٰذا صحیحین کی روایت اصحاب التصانیف میں ارجحیت کا وصف قائم رہے گا۔ ابن الصلاح نے مقدمہ میں ایسی امثلہ ذکر کی ہیں جو صحت سند کے باوجود معلول ہیں۔

8۔ہم ذکر کر آئے ہیں کہ صحیحین کو تلقی بالقبول کی خصوصیت حاصل ہے جو تواتر کے ساتھ منقول ہے۔ اور یہ ایسی خصوصیت ہے کہ جو دوسری کسی کتاب کو حاصل نہیں ہے اور اس کا تعلق نفس صحت کے ساتھ ہے، اس بنا پر صحیحین کی آحاد بھی وجوب عمل میں قطعی ہیں اور جن اسانید پر جرح کی گئی ہے ان میں بھی ہم کہتے ہیں کہ شیخین نے ان کی روایت کے شفاف ہونے میں اپنی طاقت صرف کی ہے اور ان اسانید کی تصحیح کی ہے اور جرح کرنے والے شیخین کے مقابلہ میں ہیچ ہیں لہٰذا ان کی جرح غیر معتبر ہے اور علماء نے ہر حدیث پر اعتراض کے جوابات دیئے ہیں اور اس پر مستقل رسالے لکھے گئے ہیں اور پھر امام دارقطنی وغیرہ جرح کرنے والے بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا تدارک ہوسکتا ہے۔ صحیحین کی ارجحیت کی یہ آٹھ وجوہ ہیں ان میں سے بعض کی تفصیل آئندہ قول ''الحاکم علی شرطھما'' میں آرہی ہے۔

یہ بحث دراصل شرط الصحیحین کا تتمہ ہے جسے الگ شذرہ کی شکل میں شائع کیا جارہا ہے۔ (مرتب)

قول الحاکم علی شرطھما :
امام حاکم کی ''المستدرک'' پر مختلف علماء نے اظہار خیال کیا ہے۔ جن میں ابن الصلاح اور ان کے بالتبع ابن دقیق العید اور امام ذہبی ہیں۔ ابن الصلاح لکھتے ہیں:
امام حاکم شرط صحیح میں متساھل ہیں، اس لیے ان کے بارے میں توسط سے کام لیا جائے جس حدیث پر صحت کا حکم لگانے میں منفرد ہوں اگر وہ صحیح نہیں ہے تو من قبیل حسن ہے لہٰذا وہ قابل عمل و احتجاج ہے الا یہ کہ اس میں سبب ضعف ظاہر ہوجائے۔64

علامہ مالینی کی رائے :
اس کے برعکس علامہ مالینی لکھتے ہیں:65
''طالعت المستدرك علی الشیخین الذي صنفه الحاکم من أوله إلی آخرہ فلم أرفیه حدیثا علی شرطھما''
''میں نے امام حاکم کی تصنیف ''مستدرک علی الشیخین'' کا شروع تا آخر مطالعہ کیا ہے اور مجھے اس میں کوئی بھی حدیث شیخین کی شرط پر نہیں ملی۔''

حافظ عبدالغنی المقدسی (600ھ)کا قول ہے:
''نظرت إلی وقت إملائي علیك ھذا الکلام فلم أجد حدیثا علی شرط البخاري و مسلم لم یخرجاہ إلاثلاثة أحادیث ''66
(1) ''حدیث أنس: یطلع علیکم الآن رجل من أھل الجنة (مستدرک و مسند احمد1663 فی حدیث طویل)''
(2) ''حدیث الحجاج بن علاط لما أسلم قال یارسول اللہ إن لي أھلا و مالا وإني أرید أن آتیهم فأنا في حل أن قلت شیئا الحدیث''67
(3) ''حدیث علی: لا یؤمن العبد حتی یومن بأربع''68
''آپ کو املا لکھواتے ہوئے میری اس کلام پر نگاہ پڑی۔ پس میں نے اس کتاب میں شیخین کی شرط پر تین احادیث کے ماسوا کسی حدیث کو نہیں پایا''

علامہ ذہبی نے المالینی کے قول پر تعاقب کیا ہے اور لکھا ہے:
''ھذا غلو و إسراف وإلا ففي المستدرك جملة و افرة علی شرطھما و جملة کثیرة علی شرط أحدھما وھو قدر النصف وفیه نحوالربع مما صح سندہ أوحسن وفیه بعض العلل69 وباقیه مناکیر وواھیات وفیه موضوعات أفردتها في جزء''
''امام مالینی کا یہ قول افراط و تفریط کا شکار ہے۔ وگرنہ مجھے مستدرک میں بے شمار احادیث دونوں یا کسی ایک کی شرط پر ملی ہیں اور ان کی تعداد تقریباً تمام کتاب کا نصف ہے جوکہ علی شرط شیخین ہیں اور تقریباً چوتھائی احادیث صحیح یا حسن درجے کی ہیں۔ کچھ احادیث معلول بھی ہیں، کچھ مناکیر اور موضوعات بھی ہیں جنہیں میں نے اپنی کتاب میں ذکر کردیا ہے۔''70

حافظ ابن حجربھی تقریباً ذہبی کے تبصرہ کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
''مستدرک کی متعدد اقسام ہیں۔ہر قسم کی تقسیم ممکن ہے، کچھ شروط کے ساتھ تو کہہ سکتے ہیں کہ کوئی روایت ایسی نہیں ہے جس کی اصل یا نظیر کو شیخین نے روایت نہ کیا ہو۔''

اب ہم اصل بحث پر آتے ہیں کہ جب امام حاکم یہ کہتے ہیں:
''الحدیث صحیح علی شرطھما ولم یخرجاہ''
''یہ حدیث بخاری و مسلم کی شروط پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اس حدیث کونہیں ذکر کیا۔''

تو اس جملہ کا کیا مطلب ہے؟ علماء نے اس کی تشریح میں بھی اختلاف کیا ہے اور ہر ایک نے تتبع سے اپنی رائے قائم کی ہے۔

ابن الصلاح، ابن دقیق العید اور علامہ ذہبی تو علی شرطھما سے بعینہ رواة اور رجال لیتے ہیں۔ لیکن علامہ عراقی نے اس کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ مستدرک کے خطبہ میں امام حاکم نے خود لکھا ہے:
''وأنا أستعین اللہ تعالیٰ علی إخراج أحادیث رواتها ثقات قد اجتج بمثل رواتها الشیخان أو أحدھما''
''اور میں ایسی احادیث کو اپنی کتاب میں لانے کے لیے اللہ کی توفیق کا طالب ہوں کہ جو ثقہ سے مروی ہوں یا ان سے مروی ہوں جنہیں امام بخاری، مسلم یا کسی ایک نے اپنی کتب میں بطور حجت ذکر کیا ہو۔''

جس سے واضح ہوتا ہے کہ بعینہ رجال صحیحین مراد نہیں ہیں بلکہ ان کی صفات کے رجال مراد ہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ''ھا'' ضمیر کا مرجع احادیث ہوں یعنی شیخین نے ان جیسی احادیث سے استدلال کیا ہو۔71

یہ صحیح ہے کہ مثل کا لفظ غیریت کو چاہتا ہے لیکن محاورہ میں ''مثل الشیئ'' کا لفظ عین شیئ پر بھی بولا جاتا ہے۔ پس عین رجال مراد لینا زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ جب کسی حدیث کی اسناد میں ایسا راوی ہوتا ہے جو صحیحین کا راوی نہیں ہوتا تو امام حاکم ایسی حدیث کے بعد ''علی شرطھما'' نہیں کہتے بلکہ ''ھٰذا حدیث صحیح الاسناد'' کہتے ہیں:72

مثلاً باب التوبہ میں ایک حدیث عن ابی عثمان عن ابی ھریرہ مرفوعاً ہے: ''لا تنزع الرحمة إلا من شقٰی'' امام حاکم نے اس کی تخریج کے بعد صرف ''ھٰذا حدیث صحیح الاسناد'' کہا ہے اور لکھا ہے:
''وأبوعثمان ھذا لیس ھو النهدي ولو کان النهدي لحکمت بالحدیث علی شرطھما''
''اور یہ ابوعثمان.................... النھدی نہیں ِ اگر یہ ''النہدی'' ہوتا تو میں اس حدیث پر ''علیٰ شرط شیخین'' کا حکم لگاتا''

پس امام حاکم کے اس قول سے حافظ ابن الصلاح وغیرہ کی تائید ہوتی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ امام حاکم نے احادیث پر صحت کا حکم لگانے اور ''لم یخرجاہ'' کہنے میں تساہل سے کام لیا ہے۔ تاہم علی ٰشرطھما کی تشریح میں مزید تفصیل کی ضرورت ہے، جو حسب ذیل ہے:
(الف) یہ ''علیٰ شرطھما'' کا حکم کل رواة کے مجموعہ کے اعتبار سے ہوتا ہے ورنہ بعض احادیث کی اسانید ملفق ہوتی ہیں یعنی شیخین نے انفراداً ان رواة سے احتجاج کیا ہوتا ہے لیکن اجتماعاً نہیں۔ لہٰذا ایسی اسناد کو علی شرطھما نہیں کہہ سکتے مثلاً سفیان بن حسین عن الزھري'' کہ یہ دونوں صحیحین کے راوی ہیں اور سفیان في نفسه ثقة بھی ہے مگر زھری سے ضعیف73 ہے اس لیے سفیان بن حسین عن الزھری کے مجموعہ کو علی شرطھما نہیں کہہ سکتے اور محدثین جب ''فلان عن فلان ضعیف'' کہتے ہیں تو اس کا بھی یہی مطلب ہوتا ہے۔

اسی طرح اگر کسی اسناد میں دو راوی ایسے ہوں کہ ایک سے بخاری نے احتجاج کیا ہو اور دوسرے سے مسلم نے ، مثلاً شعبہ عن سماک بن حرب74 عن عکرمہ عن ابن عباس کہ سماک سے امام مسلم نے احتجاج کیا بشرطیکہ اس سے راوی ثقہ ہو اور امام بخاری نے صرف عکرمہ سے احتجاج کیا ہے تو ایسی اسناد کو بھی علی شرطھما نہیں کہہ سکتے۔

اور پھریہ بھی شرط ہے ک ہاس اسناد میں کسی مدلس کا عنعنہ نہ ہو اور نہ ہی مختلط راوی ہو۔ جس سے بعد از اختلاط روایت لی گئی ہو کیونکہ ایسی سند کو بھی علی شرط الشیخین نہیں کہہ سکتے، ہاں اگر مدلس کی تحدیث ثابت ہوجائے اور یہ بھی ثابت ہوجائے کہ مختلط سے قبل از اختلاط روایت لی گئی ہے تو اس کو علی شرط الشیخین کہہ سکتے ہیں۔

مذکورہ بالا شروط کے ساتھ المستدرک میں شاذ و نادر ہی کوئی ایسی حدیث ہوگی جسکی نظیر یا مثل صحیحین میں نہ ہو یا شیخین نے اصول میں اسکو روایت نہ کیا ہو۔ تاہم المستدرک میں بہت سی روایات ہیں جن کی صحیحین میں بھی تخریج کی گئی ہے لیکن امام حاکم نے تو ہمّا ''ولم یخرجاہ'' کہہ دیا ہے۔75

المستدرک میں ایسی روایات بھی ہیں جن کے رواة سے شیخان نے تخریج کی ہے، لیکن ان کو شواھد و متابعات یا تعالیق میں ذکر کیا ہے یا مقرون بغیر مذکور ہیں یا کوئی ایسا راوی ہے جو رجال صحیحین سے ہے مگر تفرد یا ثقات کی مخالفت کی وجہ سے اس سے گریز کیا ہے، مثلاً امام مسلم نے اپنی صحیح میں العلاء بن عبدالرحمٰن عن ابیہ عن ابی ھریرہ کے نسخہ سے بعض روایات درج کی ہیں لیکن وہ بھی جن میں تفرد نہیں ہے اور باقی روایات کو چھوڑ دیا ہے جن میں تفرد پایا جاتا ہے لہٰذا ان باقی کو علی شرطھما نہیں کہہ سکتے حالانکہ نسخہ ایک ہی ہے۔76

امام حاکم نے ''المدخل'' میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے جس میں ان رواة کا ذکر کیا ہے جن کی احادیث شیخین متابعت اور شواھد کے طورپر لاتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کی روایات کو علی شرطھما کہہ دیا ہے، حالانکہ ان رواة کی احادیث درجہ ''الصحیح'' سے کم تر ہیں اور شاذ و نادر ضعیف بھی ہیں اور اکثر احادیث درجہ حسن پر ہیں اور پھر امام حاکم تقسیم ثنائی کے قائل ہیں جو حسن کو صحیح میں داخل کرتے ہیں تاہم علی شرطھما کہنے پر ان سے مناقشہ کیا جائے گا۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ''وھٰذا القسم ھو عمدة الکتاب''

المستدرک میں اس نوع کی احادیث بہت ہیں جو صحیحین میں نہ تو اصالتہً مذکور ہیں اور نہ ہی شواھد و متابعات ہیں۔ مگر امام حاکم ان کو ''ھٰذا حدیث صحیح'' کہہ دیتے ہیں مثلاً ''باب التزین للعیدین'' میں ہے ''اللیث عن إسحاق بن بزرج عن الحسن بن علی رضی اللہ عنهما'' اس روایت کے بعد امام حاکم لکھتے ہیں:77
''لولا جھالة إسحق لحکمت بصحته''
''اگر اسحاق جہالت سے متصف نہ ہوتا تو میں اس کی روایت کو صحیح گردانتا''

اس کے بعد حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
''بڑی آفت یہ ہے کہ اس قسم کی احادیث ''المستدرک'' میں مذکور ہیں اور امام حاکم نے ان پر صحت کا حکم لگایا ہے۔''

مزید برآں امام حاکم نے عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم عن ابیہ کا ترجمہ ''المستدرک'' میں درج کردیا اور یہاں تک کہہ دیا ہے:
''ھذا حدیث صحیح الإسناد وھو أول صحیح ذکرته لعبدالرحمٰن''
''یہ حدیث سنداً صحیح ہے اور یہ پہلی صحیح حدیث ہے جس کو میں نے عبدالرحمٰن سے ذکر کیا ہے۔''

راقم الحروف کہتا ہے کہ یہ وہی حدیث ہے جسے قصہ آدم میں حافظ ابن کثیر نے البدایہ (1؍81) میں ذکر کیا ہے۔ (رأیت علی قوائم العرش مکتوبا لا إلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ) اور لکھا ہے رواہ الحاکم والبیہقی و ابن عساکر و عبدالرحمٰن بن زید عن ابیہ ضعیف مگر حافظ ذہبی نے اس کے متعلق لکھا ہے۔ (المستدرک:3؍615)

''موضوع و عبدالرحمٰن واہ رواہ عنه عبداللہ بن مسلم الفهري ولاأدري من ذا؟''
''موضوع حدیث ہے اور عبدالرحمٰن کچھ بھی نہیں ہے اس سے عبداللہ بن مسلم الفہری نے روایت کیا ہے مجھے معلوم نہیں یہ کون ہے۔''

پھر امام حاکم نے خود ہی ''کتاب الضعفاء'' میں اسی عبدالرحمٰن کے متعلق لکھا ہے :
'' عبدالرحمٰن زید بن اسلم یروی عن أبیه أحادیث موضوعة لا یخفی علی من تأملھا من أھل الصنعة بأن الحمل فیها علیه لأن الجرح لا أستحله تقلیداً۔''
''عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم اپنے باپ سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے اور اہل فن میں سے جنہوں نے ان احادیث پر تامل کیا ان پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ان احادیث میں یہی شخص مجروح ہے اور میں جرح میں تقلید کا قائل نہیں ہوں۔''

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تساہل اور تسامح کے ساتھ امام حاکم کے کلام میں تضاد بھی پایا جاتا ہے۔ بایں وجہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
''فکان ھذا من عجائب ماوقع له من النساھا والغفلة واللہ أعلم بالصواب''
''ان سے اس قدر تساہل اور غفلت کا صدور عجیب بات ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔''

الجامع الصحیح اور تکرارِ حدیث:
امام بخاری نے اپنی صحیح کی بنیاد چونکہ فقہی ابواب پر رکھی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ استنباط کے لیے مختلف ابواب میں احادیث کی تقطیع کی گئی ہے اور ایک ہی حدیث کو متعدد تراجم کے تحت مکرر لایا گیا ہے۔ حتیٰ کہ ایک ہی حدیث کو دس سے زیادہ مرتبہ لانا پڑا ہے اور حضرت عائشہ کی بریرہ والی حدیث تو بیس سے زیادہ مرتبہ تکرار ہوگئی ہے تاہم تکرار محض استنباط تک محدود نہیں رہا بلکہ اس سے اسناد کو فروغ ہوا حدیث اور طرق حدیث کا احصاء ہوتا گیا اور اختلاف الفاظ بھی سامنے آیا جو نہایت فوائد حدیثیہ ہیں۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ الجامع الصحیح میں احادیث تو مکرر ہیں۔ لیکن کوئی حدیث بعینہ پہلے سند و متن کے ساتھ مکرر نہیں ہے بلکہ اسناد و متن میں تغایر پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اصطلاح محدثین میں وہ دو حدیثیں شمار ہوتی ہیں اور اگر مخرج حدیث تنگ ہوجائے اور اسناد و متن میں شرط صحیح کے مطابق تغایر ناممکن ہوجائے تو امام بخاری حدیث کو معلق اور مختصر کردیتے ہیں، تاکہ بعینہ تکرار سے اجتناب ہوسکے۔

اس اسلوب اور تتبع کے مطابق ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحیح بخاری میں شاذ و نادر کے سوا کوئی حدیث بعینہ مکرر نہیں ہے۔ الجامع الصحیح کے بعض نسخوں میں کتاب الحج ''باب تعجیل الوقوف'' میں امام بخاری کا مقولہ ہے۔
قال أبوعبداللہ یزداد في ھذا الباب حدیث
مالك عن ابن شهاب ولکن لا أرید أن أدخل معاداً

''ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری نے فرمایا: اس باب میں ابن شہاب کی امام مالک سے بھی حدیث آتی ہے لیکن میں اس کو تکرار کے خوف سے دوبارہ ذکر نہیں کرنا چاہتا۔''

اس پر حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
امام بخاری الجامع الصحیح میں بھی کوئی حدیث تکرار کےساتھ عمداً نہیں لائے اور اگر بلا قصد کوئی حدیث مکرر پائی گئی ہے تو وہ شاذ و نادر ہے۔78

علامہ قسطلانی نے حافظ ابن حجر کے ایک نوشتہ کے حوالہ سے 21 حدیثیں ایسی نقل کی ہیں جن میں امام بخاری نے اس قاعدہ کی مخالفت کی ہے اور پھر ان پرایک حدیث کا اضافہ کیا ہے۔79 اور امام بخاری کے اس ''تفنن في الروایة'' کا مشاہدہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث (من حلق علی یمین) پر نظر ڈالنے سےبخوبی ہوسکتا ہے۔ امام بخاری اس حدیث کو اپنی صحیح میں دس سے زیادہ مقامات پر لائے ہیں مگر ہر جگہ سند یا متن میں فائدہ حدیثیہ پایا جاتا ہے صرف دو مقام میں بعینہ مکرر ہے۔

علامہ المزی نے اطراف میں اس حدیث کو عبداللہ بن مسعودؓ کی مسند میں بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے أخرجه في الشهادات 42(1) عن موسیٰ بن إسماعیل عن عبدالواحد بن زیاد عن الأعمش عن شقیق عنه (7؍36) مگر زیادہ تر اس کی اسانید کو مسند الاشعث بن قیس الکندی میں مقروناً بعبداللہ بن مسعود و مفرداً ذکر کیا ہے۔ رواہ في الشرب والمساقات (2) عن عبدان عن أبي حمزة في الأشخاص ........ وفي الشهادات(3) عن محمد بن سلام عن أبي معاویة............ وفي الأشخاص أیضاً (4) عن بشر بن خالد عن غندر عن شعبة......... وفي النذور(5) عن موسیٰ ....... وفي التفسیر(6) عن حجاج بن المنهال کلاھما عن أبي عوانة عن الأعمش وفي الرھن (7) عن قتیبة عن جریر عن منصور............ وفي الإیمان (8) عن بندار عن ابن أبي عدی عن شعبة........... وفي الأحکام(9) عن إسحاق بن نصرکلاھما أبي وائل عنه به اور چار دوسرے مواضع ہیں۔ علامہ مزی کے حوالے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسانید اور بعض مواضع میں متن میں قدرے تغیر ہے مگر دو مواضع میں سند اور متن ایک ہے۔

''موازنہ بین الصّحیحین''
بلا شبہ صحیحین کوامہات الکتب پر فضیلت حاصل ہے۔ شاہ ولی اللہ الدہلوی نے کتب حدیث کو بلحاظ صحت چار طبقات قائم کئے ہیں اور مؤطا اور صحیحین کو طبقہ اولیٰ میں شمار کیا ہے۔ حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں:
''ثم إن کتاب البخاري أصح الکتابین صحیحا و أکثرھا فوائد'' 80
''پھر امام بخاری کی کتاب صحیحین میں زیادہ اعلیٰ درجہ کی ہے اور کثیر فوائد کی حامل ہے۔''

لیکن نووی اور زین الدین عراقی نے اس اصحیت کو مسند احادیث کےساتھ خاص کیا ہے اور تعالیق اور تراجم کی احادیث اس سے مستثنیٰ ہیں۔اس اصحیت کی وجوہ آگے ہم بیان کریں گے۔

بعض نے صحیح مسلم کو صحیح بخاری پر مقدم رکھا ہے ۔ ان میں ابن حزم میں اور حافظ ابوعلی حسین بن علی النیشاپوری، امام حاکم کے شیخ ہیں۔ چنانچہ ابوعلی نیشاپوری کا قول ہے:
''علم حدیث میں آسمان کے نیچے امام مسلم کی کتاب سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔''81

اور قاضی عیاض نےبیان کیا کہ ''أبی مروان الطبنی (457) نے اپنے بعض شیوخ سے روایت کی ہے کہ صحیح مسلم کو صحیح بخاری پر فضیلت ہے اور ابن مندہ نے کہا ہے:
''علم حدیث میں آسمان کے نیچے امام مسلم کی کتاب سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔''

اور علامہ قرطبی نے ''مفہم شرح مسلم'' کے مقدمہ میں بھی اسی قسم کا میلان ظاہر کیا ہے مگر ابن حزم نے تو خود اس فضیلت کی وجہ بیان کردی ہے کہ صحیح مسلم میں مقدمہ کے بعد خالص احادیث ہی ہیں جو امام مسلم نے ایک خاص ترتیب سے جمع کردی ہیں۔82 جس کا مطلب یہ ہے کہ ابن حزم اصحیت کے اعتبار سے مسلم کو بخاری پر مقدم نہیں رکھتے بلکہ حدیث کے سرد (ذکر) کی وجہ سے اس کو ترجیح دیتے ہیں۔

دونوں کتابوں میں اس تفاوت کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی ''الجامع'' میں فقہ الحدیث کا التزام کیا ہے لہٰذا امام موصوف تقطیع حدیث پر مجبور تھے تاکہ ایک ہی حدیث سے مختلف احکام کا استنباط کرسکیں اور ہر قطعہ حدیث کو اس کی مناسب جگہ پر رکھ سکیں۔ لیکن امام مسلم کا مقصد مناسب سیاق سے احادیث صحیحہ کو جمع کرنا تھا۔

اور ابوعلی نیشاپوری کے کلام میں مطلقاً اصحیت اور افضیلت کی تصریح نہیں ہے، بلکہ احتمال ہے اس بنا پر امام نووی لکھتے ہیں:83
''والبخاري أصح و قیل المسلم أصح والصواب الأول''

اور پھر ابوسعید العلائی کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوعلی نیشاپوری نے صحیح بخاری دیکھی تک نہیں وہ مسلم کے ہم شہر تھے اور انہوں نے صحیح مسلم پر ''المستخرج'' بھی لکھی ہے اسی بنا پر صحیح مسلم کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور پھر ابواحمد حاکم کبیر نیشاپوری (م378ھ) جو ابو علی سے بڑے محدث اور اس کے شیوخ سے ہیں امام حاکم صاحب المستدرک کے بھی استاذ ہیں۔ انہوں نے صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر ترجیح دی ہے ۔ چنانچہ ابواحمد حاکم کبیر نیشاپوری نے (م378ھ) نے صحیح بخاری کے متعلق کہا ہے:84
''رحم اللہ محمد بن إسماعیل فإنه ألف الأصول و بین للناس وکل من عمل بعدہ فإنما أخذ من کتابه کمسلم بن حجاج فإنه فرق أکثر في کتابه و تجلد فیه غایة الجلادة حیث لم بنسبه إلیه''
''اللہ تعالیٰ محمد بن اسماعیل پر رحمت کی بارش برسائے انہوں نے اصول متعین کردیئے اور لوگوں پر سب کچھ واضح کردیا۔ آپ کے بعد آنے والوں میں ہر ایک نے آپ کی کتاب سے استفادہ کیا ہے جیسا کہ مسلم بن حجاج ہیں انہوں نے اپنی کتاب میں بخاری کی صحیح کو پھیلا دیا ہے۔ ناانصافی یہ کی کہ بخاری کی طرف اس کی نسبت بھی نہیں کی۔''

اور امام دارقطنی لکھتے ہیں: 85
''وأي صنع مسلم إنما أخذ کتاب البخاري و عمل علیه مستخرجاً و زیادات''
''اور امام مسلم نے اپنی کتاب میں جو بھی کیا، بخاری سے اخذ کردہ تھا اور دراصل انہوں نے بخاری پر مستخرج لکھی ہے اور اس میں کچھ اضافہ جات بھی کئے ہیں۔''

اور امام نسائی کا مقولہ ہے:
''وما في ھذا الکتاب کلھا أجود من کتاب محمد بن إسماعیل البخاري''
''اور یہ کتاب محمد بن اسماعیل البخاری کی کتاب سے بہت اچھی ہے۔''

الغرض بہت سے دیگر ائمہ کبار نے بھی امام بخاری کی الجامع کی تعریف کی ہے اور صحیح مسلم پر اسے مقدم رکھا ہےاور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ امام بخاری امام مسلم سے زیادہ ماہر حدیث تھے اور امام مسلم نے فن حدیث امام بخاری سے ہی حاصل کیا ہے اور امام دارقطنی نے تو یہاں تک فرمایا ہے:
''لولا البخاري لماراح مسلم ولاجاء''
''اگر امام بخاری نہ ہوتے تو مسلم نہ کہیں آتے اور نہ کہیں جاتے''

مذکورہ بالا اقوال سے ظاہر ہے کہ علماء کبار کے نزدیک صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر فضیلت حاصل ہے ۔ اب ہم اس سلسلہ میں اس ارجحیت کی وجوہ کچھ تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔86

(الف) اسناد صحیح کا مدار اتصال سند اور رواة کے عدل ہونے پر ہے اور اتصال کے سلسلہ میں امام بخاری کی شرط امام مسلم سے سخت ہے۔ امام بخاری معاصرہ کے علاوہ لقاء کی تصریح کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں۔ لیکن امام مسلم صرف معاصرة اور امکان لقاء کو کافی سمجھتے ہیں۔ امام مسلم نے اپنی جگہ پر صحیح کہا ہے مگر امام بخاری کی شرط اتصال زیادہ واضح ہے۔

(ب) اور عدالت و ضبط کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام بخاری (435) رواة میں امام مسلم سے منفرد ہیں جن میں سے صرف (80) رواة پر جرح کی گئی ہے۔ اس کے بالمقابل امام مسلم (600) رواة میں منفرد ہیں اور ان میں (160) رواة متکلم فیہ ہیں۔

(ج) صحیح بخاری میں جن رواة پر جر کی گئی ہے ان سے امام بخاری بہت کم احادیث لاتے ہیں اور کوئی بھی ایسا صاحب نسخہ نہیں ہے جس سے اکثر یا کل روایات درج کردی ہوں۔ ماسوائے عکرمہ عن ابن عباس کے نسخہ کے ، کہ صحیح بخاری میں اس نسخہ سے روایات موجود ہیں جبکہ امام مسلم اس کی روایت مقروناً لاتے ہیں اور امام مالک نے اس نسخہ سے روایت درج ہی نہیں کی۔ مگر عکرمہ کے متعلق مرقوم ہے۔
''آپ ثقہ، حافظ اور تفسیر کے عالم تھے اور ابن عمر سے آپ کی تکذیب ثابت نہیں اور نہ کسی بدعت کا صدور آپ سے ثابت ہوا ہے۔''

لیکن امام مسلم ان نسخوں سے روایات اکثر اپنی صحیح میں لے آتے ہیں مثلاً أبوالزبیر عن جابر، سھیل عن أبیه عن أبي ھریرة، حماد بن سلمة عن ثابت عن أنس، العلاء بن عبدالرحمٰن عن أبیه عن أبي هریرة وغیرها۔

(د) امام بخاری جن رواة سے منفرد ہیں ان میں اکثر وہ ہیں جو امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں اور امام بخاری ان کے احوال اور ان کی احادیث کو خوب سمجھتے ہیں اس کے بالمقابل امام مسلم جن متکلم فیہ رواة سے احادیث لاتے ہیں وہ امام مسلم سے متقدم ہیں اور امام مسلم ان کے احوال سے بالمشافہ واقت نہیں ہیں بلکہ انہوں نے ان نسخوں سے روایات اخذ کرکے اپنی صحیح میں درج کردی ہیں۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
''ولاشك أن المرء أشد معرفة بحدیث شیوخه و بصحیح حدیثهم من ضعیفه لمن تقدم عن عصرھم''
''اور اس میں شک و شبہ نہیں کہ امام بخاری اپنے اساتذہ کی احادیث کی زیادہ معرفت رکھتے تھے اور آپ کی احادیث میں صحیح و ضعیف کی زیادہ پہچان رکھتے تھے ان لوگوں سے جوکہ آپ سے پہلے ہوگزرے تھے۔''

(ھ) امام بخاری متکلم فیہ رواة کی احادیث متابعات اور شواہد میں لاتے ہیں جو کہ اصل کتاب کے موضوع سے خارج ہیں اس کے بالمقابل امام مسلم وہ روایات اصول میں لے آتے ہیں اور ان سے احتجاج بھی کرتے ہیں۔

ان وجوہ خمسہ کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحیح بخاری اصحیت کےاعتبار سے صحیح مسلم پر مقدم ہے اور باقی ماندہ کچھ بحث صحیح مسلم پر تنقید کے سلسلہ میں درج کریں گے۔
حوالہ جات
1. کذا في تهذیب الأسماء 1؍67؍1 و معناہ الزراع وفی وفیات الاعیان 4؍190: وقیل بزدبه أوبزوذبه أسلم المغیرة علی یدي الیمان الجعفي حاکم بخاری و کان مجوسیا و طلب إسماعیل بن إبراهیم العلم قال الخطیب(2؍6) ''ویمان ھذا ھو أبوجد عبداللہ بن محمد المسندي''
2. ۔ التاریخ الکبیر 1؍242، ھدی الساری ص477، طبقات المفسرین للداودی 2؍101
3. ۔ التہذیب ج1 ص274
4. ۔تہذیب ص مذکور
5. ۔ تاریخ بغداد 2؍11
6. ۔مقدمہ قسطلانی
7. ۔ قال الحافظ ابن حجر لم أقف علی اسمه ولم یذکر ابن السمعاني ولا الرشاطي ھذہ الثبة وأظن أنھا نسبته إلی ''المدینة الداخلة'' بنیشابور واللہ أعلم ۔التغلیق ج5 صفحہ 587۔
8. ۔...................؟؟؟؟؟؟
9. ۔ فتح الباری
10. ۔ مقدمہ فتح الباری و تاریخ بغداد والنبلا 125؍392 وفیہ المراجع
11. ۔ مقدمہ فتح الباری صفحہ مذکور
12. ۔ تاریخ بغداد 2؍7، تہذیب الکمال 1169، طبقات للسبکی 2؍216، مقدمہ الفتح 278
13. ۔ ھدی الساری 478 والنبلاء، 12؍395
14. ۔راجع ھوامش النبلاء ذهبي نبه علی ذالك المزي فیما رأیته بخطه
15. ۔ تہذیب 9؍49، تاریخ بغداد 2؍23۔ 27
16. ۔ النبلاء 12؍395
17. ۔ تہذیب الاسماء ج2 ص71۔72
18. ۔التغلیق ج5 ص389، النبلاء 12؍406
19. ۔ ایضاً النبلاء
20. ۔ تاریخ بغداد 2؍33، مقدمہ الفتح ج2 ص251، سیرة النعمان و سیرة البخاری ص313
21. ۔ مقدمہ الفتح ج2 ص250
22. ۔ حوالہ سابق
23. ۔ دیکھئے کشف الظنون
24. ۔ دیکھئے التغلیق 6؍459
25. ۔ جزء ثالث کے سوا شیخ عبدارحمٰن بن یحییٰ المعلمی کی تحقیق سے چھپی ہے۔
26. ۔ الطبقات ج2 ص325 و سیر اعلام النبلاء ج12 ص391
27. ۔ راجع فہرستہ ابن خیر (600۔2)
28. ۔تاریخ جرجان ص8 حاشیہ
29. ۔ دیکھئے الھدی 492 کتاب التغلیق 5؍459 و سیر اعلام النبلاء للذہبی 20؍312
30. ۔ المیزان 3؍396
31. ۔تاریخ (1؍1؍259)
32. ۔ دیکھئے الھدی الساری ، ص492
33. ۔ الھدی، ص492
34. ۔کتاب المناقب باب مناقب أبي محمد طلحة بن عبید اللہ رضي اللہ عنه قال في آخرہ سمعت محمد بن إسماعیل یحدث بھذا عن أبي کریب ووضعه کتاب الفوائد(تحفة الاحوذی ج4 ص333)
35. ۔عبداللہ بن احمد الخفاف النیشابوري نزیل مصر حدث عن البخاري وغیرہ ولازم البخاري حدث عنه أبو عبدالرحمٰن النسائي و ھوأ سند منه و روایته النسائي عنه في الکنی توفی 294ھ، النبلاء 14؍89۔
36. ۔ تحفة الاحوذی ، ج2 ص33
37. ۔ تحفة الاحوذی ، ج1 ص343 نیز دیکھئے البدایہ لابن کثیر 11؍33 و تہذیب التہدیب 10؍126
38. ۔التغلیق، ج5 ص420 و مقدمہ الفتح، ج1 ص4
39. ۔ تدریب الراوی ، ص24 و تاریخ بغداد 2؍9 و تہذیب الاسماء ج1 ص61، ھدی الساری ج1 ص18 و تہذیب الکمال1169و طبقات السبکی 2؍221
40. ۔ ابن الصلاح، ص11 مقدمہ الفتح ج1 ص5
41. ۔حاشیہ نمبر 1 ص34
42. ۔ مقدمہ شرح نووی ص7 مقدمہ ابن الصلاح ص11 تہذیب الاسماء ج1 ص73
43. ۔ الہدی الساری 489، تہذیب الاسماء 1؍74، تاریخ بغداد 2؍14، وفیات 4؍190، طبقات 2؍221
44. ۔ الھدی الساری تاریخ بغداد 2؍8، تہذیب التہذیب 9؍54
45. ۔ تاریخ بغداد 2؍22 و تہذیب الکمال 1171
46. ۔ الھدی الساری و تاریخ بغداد 2؍8 و تہذیب التہذیب 9؍54
47. ۔ مقدمہ الفتح 413 ولذا قال أبومصعب الزبیري: لو أدرکت مالکا و نظرتُ إلی وجهه ووجھه محمد بن إسماعیل لقلت کلاھما واحد في الفقه والحدیث (تہذیب الکمال 1171)
48. ۔ ہو الحافظ زین الدین ابی عبداللہ محمد بن موسیٰ الحازمی المتوفی 584ھ
49. ۔الھدی الساری، ج1 ص6
50. ۔ شروط الائمہ السنة، ص10 والتغلیق ج5 ص433، 434
51. ۔ ص103 و شروط الائمہ حازمی
52. ۔ تدریب الراوی، 217۔ 219
53. ۔ شروط الائمة للحازمی، ص33۔ 35
54. ۔ جامع الاصول مقدمہ
55. ۔ شروط الائمہ ، 33
56. ۔ شروط الائمہ للمقدسی 15
57. ۔ سیراعلام النبلاء ، ج8 ص253۔ 254 و ایضاً ج12 ص470
58. ۔ فتح المغیث، ص18
59. ۔ ہدی الساری، ج1 ص6
60. ۔ص9، النکت لابن حجر 241 ج1
61. ۔ المعتمد لابی الحسین البصری، ج1 ص622
62. ۔ التحریر مع التیسیر، ج3 ص166 و فتح القدیر
63. ۔ ابن الصلاح، ص23
64. ۔مقدمہ ابن الصلاح، ص 18
65. ۔ احمد بن محمد بن احمد الانصاری الھروی (412کھ)
66. ۔ طبقات سبکی :4؍165 توضیح الافکار:1؍65 و عزاہ الی الذھبی فی النبلاء
67. ۔ رواہ عبدالرزاق في المصنف بطوله (5؍466) و طبقات ابن سعد (4؍269) و مسند احمد (3؍138) و تحفة الأشراف:1؍153
68. ۔ المستدرک :1؍33
69. ۔ تذکرة الحفاظ:4؍1372
70. ۔طبقات سبکی :4؍165
71. ۔ النکت للعراقی، ص30
72. ۔ المستدرک :4؍249
73. ۔ وفی التقریب ثقتہ فی غیر الزھری باتفاقھم
74. ۔سماك بن حرب الذھلي الکوفي قال في التقریب: صدوق و روایته عن عکرمة خاصته مضطربته و قد تغیر بآخرہ مات 123ھ
75. ۔ المستدرک:4؍230
76. ۔ ملخص من النکت لابن حجر ، ج1 ص314۔ 320
77. ۔ المستدرک :4؍230 و قال الحافظ في اللسان (1؍353) لیث عن إسحاق عن الحسن ذکرہ ابن حبان في الثقات ولم یذکر ابن أبي حاتم فیه جرحا وراجع لترجمة الجرح و التعدیل(2؍213)
78. ۔ ھدی الساری، ج1 ص26
79. ۔ مقدمہ شرح القسلانی 32۔ 33
80. ۔مقدمہ ابن الصلاح، ص14
81. ۔ تاریخ بغداد ترجمہ مسلم
82. ۔ توضیح الافکار، ج1 ص46
83. ۔مقدمہ شرح مسلم
84. ۔ الارشاد لابی یعلی الخلیلی المتوفی 446 بحوالہ النکت لابن حجر ، ج1 ص486
85. ۔ النکات لابن حجر
86. ۔ النکت لابن حجر، ج1 ص286۔ 288 و توضیح الافکار ، ج1 ص40۔41