اِسلامی حدُود
موجودہ دور میں عالمی میڈیا پر صیہونیت کی حکمرانی ہے۔ ان کے ناپاک عزائم میں اُمت مسلمہ کو جہاں ہر محاذ پر نیچا دکھانا ہے وہاں مسلمانوں کے قلوب میں ان کے دین کی بابت بدگمانی راسخ کرنا بھی ایک بھرپور مشن ہے۔ ''حدود اسلامی'' کے ضمن میں بین الاقوامی میڈیا کافی عرصہ سے یہ پراپیگنڈہ کررہا ہے کہ ''اسلامی سزائیں وحشیانہ اور دور ظلم کی یادگار ہیں۔''حال ہی میں پاکستان میں بھی اس پراپیگنڈہ کی بازگشت سنائی دی، اور بعض طبقات اس آواز سے متاثر ہوکر اس نظریہ کی اشاعت میں بھی کوشاں ہیں۔ چند ارباب اقتدار جن میں سابق وزیراعظم صاحبہ کا نام نامی بھی شامل ہے، اہل یورپ کے سامنے سرخرو ہونے او رنام کمانے کے چکر میں ان غیر اسلامی نظریات کو پروان چڑھانے میں سرگرم عمل ہیں۔ ان حالات میں اسلامیان پاکستان پر جہاں ان سازشوں سے خبردار رہنا او ربچنا لازمی ہے وہاں علماء پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مغرب کے ان حملوں کا تدبر اور سنجیدگی سے جواب دیں۔ عوام الناس کو اسلامی احکام کی اصل روح سے روشناس کرائیں اور دین محمدی کی حفاظت کا فریضہ بطریق احسن انجام دیں۔ (ادارہ)
........................................................
اسلامی سزاؤں کے نفاذ ہی سے شرفِ انسانی کا تحفظ ممکن ہے :
جہاں تک اہل مغرب کا یہ واویلا ہے کہ ''اسلام ایک وحشی مذہب ہے'' اس کی سزائیں وحشت اور بربریت پر مبنی ہیں۔ سنگسار کرنا، ہاتھ پاؤں کاٹنا، کوڑے مارنا یہ سب چیزیں آج سے چودہ سو سال پہلے تو کارآمد ہوسکتی تھیں مگر آج کے تہذیب یافتہ اور سائنسی دور میں یہ سزائیں وحشیانہ، ظلم پر مبنی او رخلاف تہذیب ہیں۔ ہمارے مغرب سے مرعوب مسلمان بھائی او راہل مغرب سے بڑھ کر مغربی تہذیب کے پرستار و وفادار حضرات بھی اپنے ان استادوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اسلام کی حدود پر دست ''اصلاح'' دراز کرنا چاہتے ہیں۔ ان حدود کو بزعم خود ''جدید تہذیب یافتہ'' دور کے مطابق بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے دلائل کا تجزیہ کیا جائے تو ایک سے ایک بڑھ کر خلاف عقل باتیں سامنے آتی جائیں گی۔ پہلے تو یہی بات محل نظر ہے کہ آیا یہ دور واقعی تہذیب یافتہ دور ہے او رکیا تہذیب جدید مغربی ختاین سے واقعی حاصل ہوسکتی ہے؟
دوم ........... یہ حدید تہذیب کیا جرائم کا خاتمہ کرانے میں کامیاب ہوسکی ہے؟
سوم ........... کیا اس تہذیب میں جو مجرم کو پورا پورا ریلیف دیتی ہے، واقعی کوئی وحشیانہ اور بربریت پر مبنی سزا نہیں ہے؟
جدید مغربی تہذیب جو مذہب سے انکار پر مبنی ہے اور وطن پرستی ، مادہ پرستی اختلاط مرد و زن اور مادر پدر آزادی پر مبنی ہے، دراصل مصنوعی چمک دمک اور چکا چوند رکھتی ہے جبکہ اصل حقیقت ، جو پس پردہ ہے، بڑی بھیانک ہے اس کے متعلق علامہ اقبال نے بہت پہلے کہہ دیا تھا ؎
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغرب کی جن نام نہاد آزادیوں کو آج ہمارے دانشور بہت چاہتے ہیں، خصوصاً چند خواتین بے طرح سے نثار ہورہی ہیں اور یہ بیگمات اس آزادئ نسواں کو اپنے ہاں قانونی شکل دلوانے کے لیے بے قرار ہیں۔ دراصل یہ ایک ایسا مین ہول ہے جس کے اوپر تو روشنی کے خوشنما بلب لگا دیئے گئے ہیں مگراندر گندگی، عفونت، سڑاند اور بدبو کے سوا کچھ نہیں۔ وہ معاشرہ اختلاط مرد و زن کی تمام حدود پار کرکے اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ بے محابا آزادی سے عورت کے وجود میں کشش ختم ہوچکی ہے او راب انسان عورت بیزار ہوگیا ہے۔ وہاں ہم جنس پرستی او رلواطت کے لیے باقاعدہ پارلیمنٹوں میں بل پاس ہوئے ہیں۔ اسی ہم جنس پرستی کی وجہ سے ایڈز کا مرض پھیلا ہے او راب یہ مرض اتنی سرعت سے وبا بن کر پھیلا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ چیخ چیخ کر متنبہ کررہے ہیں کہ اگلی صدی کا سب سے خوفناک او رلا علاج مسئلہ ''ایڈز کا مرض'' ہوگا جس سے افراد کی کمی کے ساتھ ساتھ معیشت بھی بُری طرح متاثر ہوگی۔
حرام اولادوں کی کثرت، کنواری ماؤں کا تناسب! اب وہاں نام و نسب ڈھونڈنا بھی مشکل مسئلہ بن چکا ہے۔ پھر طلاقوں کی کثرت، عورتوں پر دہری ذمہ داریوں کے بوجھ، رشتوں کا تقدس وہاں ختم ہوگیا ہے۔ خاندانی نظام ابتری اور انتشار کا شکار، پھر اولاد والدین کی ہمدردی، محبت اور توجہ نہ مل سکنے کی وجہ سے مار دھاڑ ، تشدد اور تخریب کاری کی عادی ہے۔ قاتل، ڈاکو، منشیات فروش وہاں ہیرو بنا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ جس سے جرائم کا آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ ادھر قوانین ایسے ہیں کہ وہ مجرم کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ملزم کو نفسیاتی مریض بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ وکیلوں کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ بہرصورت ملزم کو مجرم ثابت نہ ہونے دیں اور تمام جھوٹے سچے ثبوت فراہم کرکے ملزم کو بچالیں۔ وہاں مظلوم کا کوئی پرسان حال نہیں او رملزم کے ساتھ ہر ایک کو ہمدردی ہے۔ سزائے موت وہاں معطل ہے اس کو دور وحشت کی یادگار سمجھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق نیویارک جیسے ''متمدن'' شہر میں صرف ایک رات میں 150 تک کاریں چوری ہوجاتی ہیں۔ وہاں قتل و غارت، چوری، ڈکیتی، رشوت، کرپشن غرض ہر قسم کے جرائم صرف اتنے زیادہ ہیں کہ مسلمان ممالک میں باوجود اپنی تمام تر کوتاہیوں اور خامیوں کے اس کا بیسواں حصہ بھی نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عالمی میڈیا پر بھی انہی اہل مغرب کا قبضہ ہے اس لیے مسلمانوں کی معمولی سی بات کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ دنیا میں طوفان مچ جاتا ہے۔ وہاں اگر تو مظلوم غیر امریکی ہو خصوصاً کوئی کالا یا مسلمان، تو پولیس کبھی بھی مجرم کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ غیر امریکی امریکیوں کے ہاتھ لٹ جائیں، قتل ہوجائیں یاکسی سے پریشان ہوں، امریکی اخباروں میں اس کی خبر تک نہیں چھپ سکتی۔ اس پر عمل کاروائی ہونا تو دور کی بات ہے، خود امریکیوں کو کس حد تک جرائم کی سزا دی جاتی ہے وہ ایک دو مثالوں سے واضح ہے۔
نیویارک شہر میں ایک 21 سالہ شخص نے ''ٹے نیس'' جس کا نام تھا، اپنی گرل فرینڈ ''مونیکا'' کو قتل کرکے قیمہ بنایا اور بھون کر کھا گیا۔ دوسرے دن اس کے سر کو بوائل کرکے مغز کھایا او رہڈیوں کا سوپ بنا کر پی لیا۔ امریکہ کی عدالت میں اس قاتل نے اپنے جرم کا اعتراف تو کرلیا مگر عدالت نے اسے ذہنی او رنفسیاتی مریض قرار دے کر جیل میں ڈال دیا۔ اعلیٰ حکام اب اس کی رہائی کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ قاتل اب چند ہفتوں میں رہا ہوجائے گا (روزنامہ ''پاکستان'' اشاعت 4۔4۔ 1992ء) اللہ اللہ! قاتلوں اور ملزموں سے نفسیاتی مریض کے نام پر یہ وی آئی پی سلوک، ہاں یہی امریکہ ہے جو اپنے نیو ورلڈ آرڈر کو تمام دنیا پر نافذ کرنے کے خواب دیکھنے والا، سب سے زیادہ جرائم اسی امریکہ میں ہوتے ہیں۔
ایک اور ''جیفری ڈاہمر'' نامی مجرم تھا۔ اس امریکی نے گزشتہ دس برسوں میں کم از کم 17۔ افراد کو قتل کیا جس وقت وہ گرفتار ہوا اس کے فلیٹ میں انسانی جسموں کے ٹکڑے، کھوپڑیاں، ہڈیاں او رکھالیں جابجا پڑی ہوئی تھیں۔ گویا یہ جرائم ہی امریکہ کی صنعت ہیں۔
(24 جون 1992ء) نوائے وقت کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں جرائم کے بادشاہ جان گوئی کا مقدمہ فیڈرل کورٹ نیویارک میں پیش ہوا۔ اس شخص کے جرائم کی داستانیں زبان زد خاص و عام ہیں۔ وہ پانچ مافیاؤں کا سرپرست ہے۔ یعنی منشیات، قحبہ خانے، جوئے کے اڈے، قرضوں کی لوٹ کھسوٹ او ردیگر قتل جیسے بڑے جرائم اس کی سرپرستی میں ہوتے ہیں۔ خود اس نے پانچ قتل کئے ہیں اور کرائے پر تو وہ بے شمار قتل کروا چکا ہے۔ مگر اس کے باوجود لوگ اس کے پرستار ہیں۔ وہ مقدمہ کی سماعت کے وقت عدالت کے باہر مظاہرہ کررہے تھے کہ جان گوئی کو چھوڑ دیا جائے۔ تاہم عدالت نے ہمت کرکے اس کے لیے عمر قید کی سزا سنائی او رمجرم نے اس سزا کو قبول کرلیا۔ اس لیے کہ قید میں رہ کر وہ زیادہ محفوظ طریقے سے ان مافیاؤں کی سرپرستی کرسکے گا۔ مگرباہر کے مظاہرین کو بڑی تکلیف ہورہی تھی کہ اس نے کیوں یہ سزا قبول کی ہے؟
اگست 1969ء میں جب امریکی اپالو پہلی مرتبہ چاند پر اترا تو اس کے کچھ دنوں بعد وطن عزیز کے اخبارات میں امریکی صدر کینیڈی کی بیوہ کا انٹرویو شائع ہوا تھا۔ مس جیکولین نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا ''جس قوم کو زمین پر رہنے کا سلیقہ اور شعور نہیں وہ چاند پر جاکر کیا کرے گی؟'' واضح رہے کہ اس کا شوہر امریکہ کا صدر مسٹر کینیڈی اپنے ہی ایک ہم وطن کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔ مسز کینیڈی کا یہ جواب بالکل مبنی برحقیقت تھا۔ واقعی تمام تر سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود وہاں ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہے۔
یہ چند نمونے ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ اور سارا مغربی معاشرہ کتنا تہذیب یافتہ اور بلند کردار کا مالک ہے! جہاں ظالم کا ہاتھ نہ پکڑا جاسکے، مظلوم کو انصاف نہ مل سکے، جہاں جرائم ملکی صنعت قرار پائیں، جہاں مجرم اگر ہم وطن ہوں تو نفسیاتی مریض قرار پاکر سزا سے مستثنیٰ ہوں اور اگر مجرم غیر ملکی ہوں تو ان کو سخت اذیب ناک سزائیں دی جائیں۔ کیا یہ معاشرہ مہذب ہوسکتا ہے؟ ہمارے بعض دانشوروں کے قول کے مطابق وہ اپنے وطن کے لیے دیانتدار ہوسکتے ہیں، وقت کے پابند ، اپنی قومی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے، اپنے وطن کے لیے جانیں دینے والے ہوسکتے ہیں۔ مگران کی وفاداری کے معیار ہمیشہ دُہرے ہوتے ہیں۔ کشمیر میں ظالم اور غاصب بھارت نے مظالم کی انتہا کردی ہے، اجتماعی آبروریزی، اجتماعی طور پر گاؤں کے گاؤں جلا دینا معمول کے واقعات ہیں۔ مگر چونکہ امریکہ بھارت کا دوست ہے اس لیے ان کشمیریوں کی آہوں، سسکیوں اور مظالم کی بھنک بھی امریکہ نہیں سُن سکتا۔ مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل نے ظلم و ستم کے کون سے پہاڑ نہیں تورے او ران کو بے گھر، بے در کرکے کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا ہے مگر کیا امریکہ نے کبھی اسرائیل کا محاسبہ کیا ہے؟ حالانکہ سقوط ڈھاکہ کے موقع پر چند ایک معمولی شکایتوں پر وہ پاکستانیوں کے خلاف ایکشن لینے پر آمادہ ہوگیا تھا اور بھارت کی اس نے باقاعدہ پیٹھ ٹھونکی تھی۔
یہ مغربی تہذیب تو استحصالی نظام ہے جس نے ہر طریقے سے عالم اسلام کی جڑیں کھوکھلا کرنا اپنا فرض منصبی قرار دے لیا ہے۔ تیل ہمارا، مگرزندگی یورپ و امریکہ کی روشن او ررواں دواں ، خام مال ہمارا مگر کام یورپ کی فیکٹریوں میں آرہا ہے۔ افراد کار ہمارے، مگر ان کی صلاحیتیں اور ذہن مغرب کے پاس گروی ہیں۔ سرمایہ ہمارا، مگر تجوریاں مغربی دنیا کی بھری ہیں او رکام ان کے چل رہے ہیں او رہم ہر حال میں ان کے دریوزہ گر، ہم اسلحہ بھی اپنی مرضی کا حاصل کرنے کے مجاز نہیں۔ وہ ہمارا پوری سیاست کنٹرول کرکے اپنےمرضی کے مہرے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو ہر وقت عدم استحکام کا شکار رکھتے ہیں اوپر سے مغربی ثقافت کی یلغار نے ہمارے ہاں بھی اسی طرح فلموں او رکھیلوں کے ساتھ حد سے بڑھا ہوا جنون فحاشی، عریانی، مادیت پرستی، صوبائی او رلسانی عصبیتیں، فرقہ پرستی، الحاد اور دین بیزاری، اخلاقی و روحانی ابتری، افزائش جرائم جیسے گھناؤنے امراض پیدا کردیئے ہیں او رہم ہیں کہ اب بھی اسی تہذیب کے گن گا رہے ہیں او راسی تہذیب کو اپنے ہاں رائج کرنے کو بے قرار ہیں۔
یہ ایک الگ تلخ داستان ہے۔ مختصراً یہ کہ نہ تو مغربی معاشرہ مہذب ہے بلکہ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے اس کا دیوالیہ نکل چکا ہے اور نہ ہی مغربی قانون کی نقل کرکے ہم اپنے معاشرے کو جرائم سے پاک کرسکتے ہیں۔
رہا ان کے ہاں وحشیانہ سزاؤں کا تذکرہ تو دیکھیں جن کو وہ سزائیں دینا چاہتے ہیں کتنا اذیت ناک سزائیں دیتے ہیں۔ انفرادی طو رپر عقبوت خانوں میں نازک اعضاء کو بجلی کے کرنٹ لگانا، بجلی کی کرسیوں پر بٹھانا، ٹھنڈے یخ بستہ پانی میں ہفتوں کھڑا رہنے پر مجبور کرنا، مسلسل برین واشنگ کرتے رہنا، حوالات میں خونخوار کتے اور چوہے چھوڑ دینا، نازک اعضاء کو خصوصاً نشانہ بنانا اپنا ہی پیشاب پینے پر مجبو رکرنا وغیرہ وغیرہ۔
او راجتماعی طور پر ............... ایک بم گرا کر ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے ہنستے بستے شہروں کو تباہ و برباد کردینا۔ مختلف گیسیں پھینک کر دشمن ملک کے بیشتر افراد کو معذور اور ذہنی مریض بنا دینا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ نہتے افراد پرایسے مہلک ہتھیار استعمال کرنا جو اپنے تابکاری اثرات کی بنا پر نسلوں کی نسلیں معذور کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ایٹمی ترقی کے پس پردہ اسلامی ممالک کی بحری حدود میں ایٹمی دھماکے اور مہلک تجربات کرنا۔ بعد میں ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی آلودگی کا ذمہ دار قرار دے کر ان پر دباؤ ڈالنا کہ اپنے مالی بجٹ میں اس مد میں معقول رقم مختص کی جائے۔ مجبور، بیکس، نہتے شہریوں پر ٹنوں کے حساب سے بارود برسا دینا۔ یہ سب آتشیں اسلحہ اور پھر سٹار وار کا سلسلہ ! کیا یہ سب کچھ وحشیانہ او رظالمانہ نہیں ہے۔ دشمن ملک میں بارودی سرنگوں کا جال بچھا دینا، اجتماعی طور پر گاؤں کے گاؤں جلا دینا، اجتماعی طور پر خواتین کی آبرو ریزی کرنا کیا یہ سب کچھ تہذیب اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کے زمرے میں آئے گا؟
اسلامی نظام عقوبات :
اب آئیے اسلامی سزاؤں کی طرف کہ یہ کس طرح جرائم کی بیخ کنی کرتی ہیں۔
سزا نافذ کرنے کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے دو اصول قرآن پاک میں بیان فرما دیئے ہیں:
1۔ سزا برسر عام دی جائے۔ 2۔ سزا دینے میں کسی نرمی یا رعایت سے کام نہ لیا جائے۔
سزا برسر عام دینا: سورة نور میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ﴿٢﴾...سورۃ النور
کہ مجرموں کو سزا دیتے وقت مومنوں کا گروہ وہاں موجود ہونا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس مجرم کو سزا پاتے ہوئے دیکھیں او ران کا یہ مشاہدہ باقی لوگوں کو جرم کرنے سے باز رکھے۔ چنانچہ نبی پاک ؐ کے فرمان پر حضرت ماعز اسلمی کو صحیح بخاری کی روایت کے مطابق برسرعام رجم کیا گیا۔ اسی طرح قبلہ غامدیہ کی مجرم خاتون کو بھی برسر عام رجم کیا گیا۔ ایک چور کا ہاتھ کاٹ کر نبی پاک ﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو آپؐ نے حکم دیا کہ یہ کٹا ہوا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دیا جائے۔ (مشکوٰة بحوالہ ترمذی، مشکوٰة ہی میں ابوداؤد کی روایت کے مطابق ایک شرابی کا ذکر ہے جسے آنحضورؐ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپؐ نے لوگوں سے کہا اسے مارو تو کسی نے اس کی جوتیوں سے خبر لی، کسی نے چھڑیاں لگائیں، کسی نے کھجور کی شاخوں سے مرمت کی۔
دوسرا حکم ہے کہ سزا دینے میں کوئی نرمی نہ کی جائے :
وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِى دِينِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ...﴿٢﴾...سورۃ النور
سزا دیتے وقت نرمی سے کام لینا مجرم کو دوبارہ جرم پر آمادہ کرسکتا ہے۔ اس کو ایک بار ہی اتنی کڑی سزا مل جائے کہ آئندہ کسی کو بھی جرم کرنےسے قبل سو بار سوچنا پڑے (تاہم مجرم کی جسمانی کیفیت کے پیش نظر قاضی کوڑوں کی نرمی اور سختی پر غور کرسکتا ہے) مگر تعداد میں کمی بیشی نہیں کرسکتا۔
جن لوگوں کی نظر اقوام عالم کی تاریخ پر ہے ان سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ جرم و سزا کے معاملے میں دانشوروں اور قانون سازوں کا رویہ ہمیشہ افرادط اور تفریط کا رہا ہے۔ ایک قانون ایک قسم کے جذبات کے تحت بنایا گیا اس سے ایک خرابی کا ازالہ تو ہوگیا مگر کئی دوسری خرابیاں پیش آگئیں۔ جب ان کاازالہ کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری انتہا نے جنم لیا۔ اللہ تعالیٰ کو عقل انسانی کےہر دم بدلتے مزاج اور شعور انسانی کی محدودیت کا پتہ ہے اس نے یہ پسند نہ کیاکہ انسانی عقل انسانی زندگی کے بنیادی تحفظات کو اپنی نئی نئی موشگافیوں سے نقصان پہنچاتی رہے۔ لہٰذا اس نے کامل مہربانی سے بنیادی جرائم کی سزا خود ہی واضح طور پر مقرر فرما دی، او رکسی کو ان میں تبدیلی کرنے یا کتر بیونت کرنےسے روک دیا۔ چنانچہ اسلام کی مقرر کردہ ہر ایکحد انسانی شرف کو بحال کرتی ہے معاشرہ کو امن و سکون مہیا کرتی ہے۔ انسانی کردار کو تطہیر فکر و عمل عطا کرتی ہے۔ آپ دیکھئے کہ ہرایک حد کس کس طرح انسانی شرک کوبحال کرتی ہے اور ہر انسان کے جان، عقل، نسل، مال او ردین کےتحفظ کو کس طرح یقینی بناتی ہے۔
قتل:
انسان خود فطرت کی قوت تخلیق کا شاہکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح منصوبہ اور پروگرام کے تحت انسان کو پیدا کیا ہے۔ تہذیب و تمدن کی گرم بازاری، ایجادات و اختراعات کی فراوانی، یہ ساری رونق او ربہار انسان ہی کے دم قدم سے ہے اب خود عقل کا ہی تقاضا ہے کہ ہر وہ کوشش جو خود اس انسان کے وجود ہی کو ختم کرنے والی ہو اس کا سختی سے سدباب کرنا چاہیے۔ نبی اکرمﷺ کے فرمان کے بموجب ''ایک مسلمان کی حُرمت اللہ کے ہاں بیت اللہ سےبھی بڑھ کر ہے'' تو جو انسان اس قدر اہمیت کا حامل ہے ، اگر کوئی حدود اللہ کو بالاطاق رکھتے ہوئے، اس کے شرف کو حقیر بنا کر اس پر حیات کے دروازے تنگ کرے تو وہ کون سی تاویل کے مطابق اس قابل ہے کہ اس کے شرف کا لحاظ کیا جائے۔ جو شخص کسی دوسرے انسان کو جینے کا حق نہیں دیتا وہ کہاں خود اس لائق ہے کہ زمین اس کے بوجھ سے زیربارہو۔ اس پر یہ مستزاد کہ اگر آج یہ کہا جاتا ہے کہ حدود عوام کے سامنے نہ دی جائیں کیونکہ اس سے شرف انسانی میں کمی واقع ہوتی ہے۔اخبارات میں سرعام سرخیاں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں جگہ برسرعام سزائیں روک دی گئیں۔ عدالت نے سرعام سزا کو انسانی وقار سمجھتے ہوئے کھلے بندوں سزا سے روک دیا۔
مقام تدبر ہے کہ کیا وہ شخص جو خود اشراف کی عزت کو پامال کرتا ہے جو مسلمہ حقوق کو توڑنے کا مرتکب واقع ہوا ہے کیا اسے اس سزا سے بھی ہمکنار نہ کیا جائے جو بعد کے لوگوں کے لیےباعث عبرت ہو۔ شریعت اسلامی اس سلسلے میں اتنی حساس ہے کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔
سورة مائدہ آیت نمبر 32 میں :
مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ أَنَّهُۥ مَن قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِى ٱلْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ ٱلنَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَآ أَحْيَا ٱلنَّاسَ جَمِيعًا...﴿٣٢﴾
''اس وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرمان لکھ دیاتھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے علاوہ کسی او روجہ سے قتل کیا اس نےگویا تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ اور جس نے کسی کو زندگی بخشی گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔''
ایسے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانا او رانسانی زندگی کے تحفظ کو بحال کرنا انسان کے شرف و عزت کی توقیر او ربحالی ہے یا وحشت؟ مغرب والے چاہے قاتل کو ذہنی بیمار کہہ کر چھوڑ دیں مگر متاثرہ مظلوم خاندان کیا کسی ہمدردی کا مستحق نہیں؟ پھر کیا ذہنی امراض کے شفا خانوں سے شفایاب ہونے کے بعد کیا یہ مجرم واقعی جرم سے باز آجاتے ہیں، کیا شرح قتل میں واقعتاً کمی آجاتی ہے؟ عملاً صورت حال یہ ہے کہ اٹلی میں سزائے قتل معطل ہے نتیجہ یہ ہے کہ وہاں عام انسان تو کیا، کئی وزیراعظم قتل کئے جاچکے ہیں او راب وہاں وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری لینے والوں کو سوبار سوچنا پڑتا ہے، بلکہ کوئی تیار ہی نہیں ہوتا۔
شراب :
اسلام تندرست و توانا اور باشعور جسم کو ترجیح دیتا ہے۔ جس طرح وہ جسمانی قتل کوسنگین جرم قرار دیتا ہےبعینہ انسان کے لئے کے عقل و شعور کو تباہ کرنے کی ہر کوشش کو بھی سنگین جرم قرار دیتا ہے۔ نشہ اسی لئے حرام ہے کہ وہ عقل انسانی کو مختل کردیتا ہے۔ شراب پی کر وہ انسان جو اپنے عقل و شعور کی بنا پر ہی ''اشرف المخلوقات'' قرار پاتا ہے اب عقل و شعور سے عاری ہوگیا۔ اب وہ ہر قسم کے جرائم بے دھڑک کرسکتا ہے۔ اسی لئے شراب کا نام ''اُم الخبائث'' رکھا گیا ہے۔ اسلام نے عقل و شعور کو زائل کرنے والی ہر کوشش کو سنگین قراردے کر اس کے خاتمہ کے لیے سخت ہدایات دیں۔ یعنی برسرعام (80)کوڑے ۔ اس کے نتیجہ میں بیشتر مسلمان تاریک کے ہر دور میں شراب نوشی سے محفوظ رہے۔
آج کا دور بجا طور پر منشیات کا دو رکہلا سکتا ہے۔ آج کے دور کے سنگین مسائل میں سے ایک مسئلہ منشیات کا خاتمہ بھی ہے۔ الحمدللہ کہ مسلمانوں کی کثیر تعداد اس وبا سے آج بھی محفوظ ہے او رکروڑوں مسلمانوں کو یہ بھی خبر نہیں کہ شراب کا رنگ اور ذائقہ کیسا ہوتا ہے یا شراب کی بو کیسی ہوتی ہے؟ نہ صرف شراب بلکہ ہر قسم کے چھوٹے بڑے نشے سے محفوظ ہیں۔ اس طرح شراب خوری سے نفرت انسانی شرف کا تحفظ کرتی او راس کو برقرار رکھتی ہے۔ جبکہ شراب خوری کی کثرت انسان او رمعاشرہ دونوں کو گناہوں کی دلدل میں دھکیل کر رکھ دیتی ہے۔ رشتوں کا تقدس معدوم ہوجاتا ہے۔ انسانی غیرت کا جنازہ اُٹھ جاتا ہے، جس طرح عملاً آج مغربی معاشروں میں ہورہا ہے۔
زناکاری :
اسلام خاندان او رنسب کے تحفظ میں بھی بڑا حساس ہے۔ ناجائز فعل کے نتیجے میں نسب نامے غلط ہوتے ہیں۔ خاندانوں کے تحفظ پامال ہوتے ہیں۔ عصمتیں لٹتی ہیں۔ ایک زانی اور بدکار شخص خاندان کے ادارہ کو نقصان پہنچتا ہے اور زوجین کے باہمی تعلق کو نقصان پہنچاتا ہے۔ لہٰذا شریعت کی نگاہ میں زنا کاری سنگین جرم ہے۔اس لیے اس کی سزا بھی سنگین قرار دی گئی ہے۔ یعنی اگر زانی غیر شادی شدہ ہو تو سو کوڑے کی سزا اور اگر شادی شدہ ہے تو سنگسار کرنے کی سزا۔ یہاں عصمت فروشی کی کسی بھی شکل میں بھی اجازت نہیں ہے۔پھر ناجائز فعل جس سے مرد تو تھوڑی دیر کے لیے لذّت حاصل کرکے چلا گیا جبکہ خاتون جو حاملہ ہوگئی، اسے تنہا اس بچےکو بلوغت تک پالنا ہے۔ خاندان میں تو اس کو رفیق حیات کا عمر بھر کا تعاون اور تحفظ میسر رہتا ہے، اب وہ اس سے یکسر محروم ہے۔ کیا یہ صورت حال عورت پر صریح ظلم نہیں؟ اس طرح کی پلنے والی اولاد بھی الجھنوں کا شکار، ابنارمل اور لطیف جذبات سے عاری ہوتی ہے۔ شرف انسانی کا کوئی تصور ان کے ذہن میں نہیں رہ سکتا۔ پھر اس شنیع عمل کی کثرت کے تلخ نتائج بھی جلد ہی معاشرے کو بانجھ کرکے رکھ دیتے ہیں ۔ یک زوجگی کا دعویٰ کرنے والے اہل مغرب پچاس پچاس پرائیویٹ داشتائیں رکھتے ہیں۔
دس سال سے پہلے ہی بچے (لڑکا یا لڑکی) باپ یا بڑے بھائی کی ہوس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ خصوصاً شمالی یورپ میں حالات او ربھی خراب ہیں۔ وہاں ننگوں کے باڑے (Nudist Clubs) قائم ہیں، جن میں مرد و عورت برہنہ رہتے ہیں۔ نائی او رحجام کی دکانوں کی طرح وہاں (Sex Houses) کھلے ہوئے ہیں۔ وہ حیوانوں کی طرح آزاد شہوت رانی کے قائل ہیں۔ مگر وہ ایک بات بھول گئے کہ حیوان تو پورے سال میں ایک بار جنسی ہیجان کی زد میں آتے ہیں۔ مگر یہاں تو ہر وقت آگ لگی ہوئی ہے۔ قدرت نے انہیں اس کی یہ سزا دی ہے کہ مردشادی سے قبل ہی ناکارہ ہوجاتے ہیں او رپہلے تو مانع حمل ادویات کے استعمال سے او راب طبعاً ان امراض خبیثہ کے نتیجے میں وہاں شرح پیدائش خطرناک اور مہلک حد تک کم ہوگئی ہے۔ سویڈن جو سب سے زیادہ خوشحال ملک ہے وہ سب سے زیادہ شرح پیدائش کی کمی کا شکار ہے۔ بوڑھے وہاں بکثرت ہیں مگران کی جگہ لینے والی نسل بہت محدود ہورہی ہے۔ جس کے نتیجے میں مغرب کی افرادی طاقت میں بھرپور کمی واقع ہوئی ہے۔ اور آئندہ بھی ''خاندانی ادارہ'' کی غیر مستقل بنیادوں کے باعث خانگی نظام ابتری کا شکار ہے۔ اسی سے خائف ہوکر مغربی دانشور، مسلمان ممالک کو بھی افرادی طاقت میں کمی کے مشورے اس خوشنما عنوان سے دے رہے ہیں کہ اسلامی ممالک کی ترقی کا واحد طریقہ ''محدود اولاد''۔ اس نظریہ پر دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ وسائل و ذرائع اگر وافر نہیں تو ان کی تقسیم کا عمل کم افراد میں ہو تاکہ محدود لوگ معقول حصہ پائیں۔ ہمارے ہاں مغرب سے مرعوب دانشور اس نظریہ سے بے طرح متاثر ہیں۔ وہ اس نکتہ پر غور نہیں کرتے کہ کیا مغرب ہمارا خیر خواہ ہے؟ کیا آج تک اس کی مخالفانہ پالیسیاں ہماری نظریں نہیں کھول سکیں۔ جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے تو ایک مسلمان کے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے جس میں جابجا رزق کی ذمہ داری اللہ نے اپنے اوپر لی۔
وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِى ٱلْأَرْضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ رِزْقُهَا...﴿٦﴾...سورۃ ھود
کہ رزق پیدا کرنا اللہ کی ذمہ داری ہے، انسان کا کام فقط یہ ہے کہ اس کو تلاش کرکے حاصل کرے۔ اللہ جو تمام مخلوقات کا رازق ہے کیا اشرف المخلوقات کو رزق دینے سے قاصر ہے؟ او رجب کہ ہمارا بنیادی عقیدہ بھی یہ ہو کہ اللہ ہی ہمارا رازق ہے، خالق و مالک ہے۔ ان تمام پر مستزاد ایڈز کا مرض جو وبا کی طرح پھیل رہا ہے جس میں مریض سسک سسک کر جان دے دیتا ہے مگر اس کا علاج کوئی نہیں۔
کیا ان سب بے حیائیوں کے مقابلے میں اسلام کی سزا سنگساری بہترین علاج نہیں۔ جو جرائم کو ابتدائ ہی میں ختم کردے اور خاندان کے ادارے کو محفوظ رکھے۔ایک آدھ سے جو جرم ہوجائے اس کی برسر عام سنگین سزا دوسروں کو ایسا عبرتناک درس دیتی ہے کہ وہ آئندہ اس کام کا خیال دل سے نکال دیں۔ آج بھی مسلم معاشرہ بہت حد تک اس سنگین جرم سے پاک ہے۔ (جگہ جگہ ''آج بھی'' اس لیے لکھنا پڑتا ہے کہ مسلم حکومت کب کی رخصت ہوچکی اور اسلامی حدود کب سے معطل ہیں۔ مگر اس کے باوجود ان گناہوں کی قباحت مسلمانوں کے ذہن میں اس طرح جاگزیں ہے کہ مسلمان معاشرے بہرصورت مقابلتاً غیر مسلم معاشروں سے، ان سنگین گناہوں سے بہت حد تک پاک ہیں)
چوری اور ڈاکہ :
چوری کی جو سزا اہل مغرب دیتے ہیں اس سے وہ جیل سے پکے چور او رمجرم بن کرنکلتے ہیں۔ صرف اسلام ہی نے اس جرم کا مکمل قلع قمع کیا۔ مملکت سعودی عرب منہ بولتا ثبوت ہے کہ الٰہی قانون کامیاب ہے اور دیگر تمام قوانین ناکام ہیں۔
أَفَحُكْمَ ٱلْجَـٰهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ ٱللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿٥٠﴾...سورۃ المائدہ
ترجمہ: ''کیا یہ لوگ دورجاہلیت کے احکام کی جستجو میں ہیں۔ او ریقین رکھنے والی قوم کے لیے اللہ کے سوا کون بہترین احکام نازل کرنے والا ہے۔''
ڈاکہ، چوری سے بھی بڑھ کرسنگین جرم ہے دوسرے کا سامان بے نوک کلاشنکوف چھیننا او راس کو جسمانی نقصان پہنچانا یا مار ڈالنا۔ جدید تکنیک میں تو یہ لوگ کسی مالدار آدمی کو اغوا کرلیتے ہیں او رپھر اس کی رہائی کی قیمت لاکھوں میں مانگتے ہیں۔ مظلوم خاندان اپنی ایک ایک پائی جوڑ جوڑ کر مجرموں کے حضور پیش کرکے اپنا آدمی چھڑانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس لیے ڈاکہ کی سنگینی چوری سے کہیں زیادہ ہے۔جدید قانون سازوں نے تو اس کو بھی ایک معمولی جرم قرار دیا۔ مگر اسلام اس کو سنگین جرم سمجھتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلانے والوں اور دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو چار قسم کی سزائیں دی جائیں۔
سورہ مائدہ آیت نمبر 33 کی روشنی میں :
1۔ تقتیل، یعنی ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے قتل کردیا جائے۔
2۔ تصلیب، سولی چڑھایا جائے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو۔
3۔ مخالف سمت سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں۔
4۔ جلا وطن کردیا جائے جس کی ایک شکل جیل میں بند کردینا بھی ہے۔
یہ سزائیں بیان کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْىٌ فِى ٱلدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِى ٱلْءَاخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٣٣﴾
''یہ سزا اس لیے ہے کہ ان کی دنیا میں رسوائی او ربدنامی ہو اور لوگ ان وحشی جرائم سے باز رہیں او رآخرت میں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔''
اس طرح اسلامی قانون معاشرہ کے اعتماد کو ،دوسری طرف مظلومین و محرومین کے اعتماد کو بحال کرتا ہے او رایسے ذہنی بیماروں کے لیے اعادہ جرم ناممکن او رسنگین رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔
کیا مظلوموں او رمحروموں کے اعتباد کو بحال کرنا او رعبرتناک سزائیں دے کر لوگوں کو ایسے سنگین جرائم سے بچا لینا شرف انسان کا تحفظ نہیں، یااس معاشرے میں جہاں چوری اور ڈاکہ جدید دور کے باضابطہ مہذب پیشے ہیں او رجہاں ہر شخص اپنی مملوکہ اشیاء کی حفاظت کے لیے ہر وقت پریشان ہے بنک بھی لٹ جاتے ہیں تو پھر کون سی جائے امان رہی؟
ارتداد:
مسلمانوں کا دین اسلام سے پھر جانا سنگین جرم ہے، جس کی سزا موت ہے ۔ اس مسئلے پر اجماع امت ہے۔ گزشتہ چودہ سو سال میں جہاں بھی اسلامی نظام نافذ ہوا وہاں مرتد کو ہمیشہ واجب القتل قرار دیا گیا۔
مرتد شخص کلمہ اسلام پڑھنے، اللہ کی توحید او ررسالتؐ کی صداقت کی گواہی دینے کے بعد جب اسلام سے منحرف ہوتا ہے تو اس کا دین اسلام ترک کردینا جس طرح اللہ و رسولؐ کے خلاف بغاوت ہے اسی طرح اس کے عزیز و اقارب کے لیے ہزاروں موتوں سے بھی بڑھ کر غمناک او رپریشان کن ہوتا ہے کہ اس سے خونی رشتے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ نکاح فسخ ہوجاتے ہیں او رحقوق وارثت زائل ہوجاتے ہیں۔
عقل کا تقاضا ہے کہ کوئی انسان جب اپنی حکومت کا باغی ہو تو اس کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ تو پھر شہنشاہ کائنات اور سرکار دو جہاں کے باغی کو بھی عبرتناک سزا ملنی چاہیے ۔ ایمان کا تحفظ لازم ہے کیونکہ ایماندنیا کی عظیم ترین دولت اور سب سےبڑا سرمایہ ہے۔جو شخص اس دولت سے منہ موڑتا ہے وہ پھر اسلامی حکومت اور مسلمانوں کے خلاف تخریب کاریسےبھی گریز نہیں کرتا۔ قادیانی جماعت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
ہمیں اندرا گاندی اور برزنیف کے کفر سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا نقصان بنگلہ دیش کے صدر مجیب الرحمٰن او رافغانستان کے صدر ببرک کارمل کے باغیانہ کردار سے ہوا ہے۔ پھر آج کل غیر ملکی عیسائی مشنریاں جس طرح اربوں روپیہ مسلمانوں کو عیسائی بنانے پرخرچ کررہے ہیں۔ ان کو غیر موثر بنانے کی ایک ہی موثر تدبیر ہے کہ قانون ارتداد لاگو کردیا جائے تاکہ نو مسلم غریب، کمزور ایمان والے لوگ کسی دھوکہ میں نہ آکرفتنہ ارتداد سے بچ سکیں۔ قانون ارتداد کا تعلق تو مسلمانوں سے ہی ہے، غیر مسلموں کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ البتہ ہمیں یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ کوئی غیر مسلم، مسلم ہونے سے پہلے پوری طرح سوچ بچار کرلے گا اور یونہی کسی لالچ یا خوف سے اسلام کا دامن گیر نہیں ہوگا۔
اس طرح انسان کے پانچوں بنیادی حقوق یعنی جان، مال، عقل، نسل اور دین کو تحفظ دے کر اسلامی شریعت انسان کے شرف کو برقرار اور محفوظ رکھتی ہے۔ جو بصورت دیگر بڑھتے ہوئے جرائم سے مکمل طور پر پامال ہوجاتا ہے۔ اسی لئے ارشاد خداوندی ہے:
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ ﴿٤٤﴾...سورۃ المائدہ
''کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق اپنے فیصلے نہ کریں ایسےلوگ تو کافر ہیں