پروگرام بہبود آبادی
چند دن قبل وطن عزیز پاکستان میں مغربی ممالک کی دیکھا دیکھی "عالمی یوم آبادی" بڑے تزک و احتشام سے منا یا گیا ۔اس دن کی تشہیر اور اس کو موثر بنا نے کے لیے حکومت نے تمام ذرائع ابلاغ پر اس کی بھر پور تشہیر کی۔اور اس موقعہ پر خصوصی اہتمام سے صدر پاکستان وزیر اعظم چاروں صوبائی وزراء اعلیٰ اور دیگر وزراء و مشیران کرام نے افزائش آبادی پر یہ تشویشناک پیغام اپنی قوم کے نام بصد حسرت پیش کیا ۔کہ اگر پاکستان کے عوام نے آج توجہ نہ کی اور خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کو اپناتے ہو ئے آئندہ نسل میں خاطر خواہ کمی نہ کی ،ان کی نااندیشی کے باعث اگر یہ آبادی بم خدانخواستہ پھٹ گیا تو بہت بڑی قیامت آجا ئےگی ۔اور پاکستان بیسویں صدی میں داخل ہو نے کے ضروری تقاضوں سے نبرد آزما نہیں ہو سکے گا ۔علاوہ ازیں پاکستان دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے رہ جا ئے گا ۔
تحدید آبادی جسے ایوبی دور میں فیملی پلاننگ کا نام دیا گیا تھا ۔اور وزیر اعظم جناب بھٹو کے دور میں اسے حق میں ریڈیو ،ٹی وی اور جرائد کے ذریعے ایک جا ندار مہم چلا ئی گئی تھی ۔مگر مغربی دانشوروں کے خیال میں پاکستانی قوم نے اس کا خاطر خواہ اثر قبول نہ کیا ۔لہٰذا موجودہ حکومت جو اسلامی جمہوری اتحاد کے نما ئندے کی حیثیت سے عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر مملکت خدا داد پاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ کا عزم لے کر وارد ہو ئی تھی اور جس نے قرار داد پاکستان کے تحت اپنی تقرری کے وقت ملک میں کتاب و سنت کی پا بندی و ترویج کا حلف اٹھا یا تھا ۔اب اپنے آپ کو بنیاد پرستی کے طعنہ سے بچانے کے لیے ہر خلاف شریعت کام کو تحفظ دینے پر تلی بیٹھی ہے۔ذرائع ابلاغ سے فحاشی تو ختم نہ کی جا سکی ۔اپنی معاشی پالیسی کو سود سے پاک کرنے کا عزم رکھنے والی حکومت اب خود ہی سود کو قائم و دائم رکھنے کے لیے سپر یم کورٹ میں اپیلیں دائر کر رہی ہے۔ بالکل اسی طرح تحدید آبادی کے مغربی نظریہ (جو مغرب کے خالص مادی تصور حیات کی پیداوار ہے۔ اور جو اللہ تعا لیٰ کی صفت ربوبیت و رزاقیت سے برا ہ راست متصادم ہے) کو تمام سر کا ری ذرائع و وسائل استعمال کر کے پاکستان کی آبادی کو کنٹرول کرنے کا عزم رکھتی ہے درباری سکا لر و مفتیان کرام اسکے حق میں سینکڑوں مضامین لکھ لکھ کر قوم کو فیملی پلا ننگ کی برکات سے آگا ہ فر ما رہے ہیں اب اس کو خاندانی منصوبہ بندی کے بجا ئے "بہبودآبادی"کا متبادل دلپذیر نام دے دیا گیا ہے ۔آٹھویں پنجسالہ منصوبے میں اس کے لیے نو ارب دس کڑوڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے ۔چوراہوں میں بہبود آبادی کے قدم آدم بینرز نصب کئے جا رہے ہیں اخباروں میں پورے پورے صفحے کے اشتہار دئیے جا رہے ہیں ۔محکمہ ڈاک کے ٹکٹوں پر چھوٹا خاندان زندگی آسان "کے نعرے لکھ دئیے ہیں ۔کہیں "بچے دو تے سکھ ہزار "کا پرو پگینڈ اور کہیں "دوبچے خاشحال گھرانہ" کا سبق پڑھا یا جا رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ وزیر جنگلات و بہبود آبادی رانا نذیر احمد ملک کے نام نہاد دانشوروں اور سکالروں کے جلومیں شاہراہ قائد اعظم پر اسکے حق میں مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں ۔نسل کشی کے لیے مانع حمل ،اسقاط حمل اور دیگر غیر شرعی طریقے محض اس لیے نافذ کئے جا رہے ہیں کہ پاکستان کی آبادی وسائل کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ رہی ہے۔رانا نذیر احمد نے اس ضمن میں جو بیان جاری کیا ہے اسکے مطابق حکومت آئندہ دو بچوں والے خاندان کو مراعات دینے پر غور فر ما رہی ہے۔خواتین کو دوران ملازمت تین دن سے زیادہ زچگی کے لیے رخصت نہیں مل سکے گی بہبود آبادی کے اس پروگرام کو عام آدمی تک پہنچانے کے لیے حکومت الیکڑانک میڈیا سے کام لے گی۔جبکہ اخبارات کے لیے "میٹ وی پریس "پروگرام شروع کر دیا گیا ہے ان کے بقول ہمیں گو ہر مقصود حاصل کرنے کے لیے جراتمند انہ اقدام کرنے ہو نگے ۔یہ بات بھی انہی جراتمندانہ اقدام میں شامل ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر بیرونی ایجنسیاں پرائیوٹ طور پر اربوں روپیہ پاکستان میں صرف کریں گی۔
"ورلڈ پاپولیشن کونسل نیویارک" دراصل ایک یہودی ادارہ ہے جو یہودیوں ہی کے فنڈ سے قائم کیا گیا ہے اس کا مقصد تاسیس ہی فیملی پلاننگ کو افریشیائی ممالک میں رواج دینا ہے دوسرے الفاظ میں یہ ایک یہودی منصوبہ ہے جو اپنے پیش روؤں کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے مسلمانوں پر گا ہے بگا ہے خوشنما عنوان سے مزین منصوبوں کے تحائف مسلط کرتا رہا ہے اور جس کی تاریخ اس جیسے بے شمار سیاہ کارناموں سے بھری پڑی ہے ۔یہود و نصاری جو عالمی میذیا پر قابض ہیں دراصل امت محمدیہ کی افزائش و کثرت سے خائف ہیں اور جہاں مسلمانوں کو اپنے زیر نگین کرنے کی مذموم کو ششوں میں مصروف ہیں وہاں افرادی لحاظ سے بھی مسلمانوں کو بے وقعت کرنا چاہتے ہیں اور ہر ممکن طریقے سے مسلمانوں کو ابھرنے سے روکنا چاہتے ہیں ایک طرف عالمی دہشت گردامریکہ کی سر پرستی میں پہلے ہی مسلمانوں کا دنیا بھر میں قتل عام ہو رہا ہے ۔دوسری طرف اسی کے اشاروں پر مسلمانوں کی نسل کشی بذریعہ بہبود آبادی دراصل بربادی آبادی منظم طریقوں سے کی جا رہی ہے ۔انھوں نے میٹھے زہر کی شکل میں مسلم ممالک کے حکمرانوں کے دلوں میں خوف پیدا کر دیا ہے کہ کثرت آبادی سے افلاس بڑھ رہاہے اور زمین اپنے رہنے والوں کے لیے تنگ ہو تی چلی جا رہی ہے اگر تم نے اپنی آبادی کو کنٹرول نہ کیا تو ہم تمہیں ہر قسم کی امداد دینا بند کر دیں گے ۔اب مسلم ممالک کے یہ کمزور ایمان ارباب حکومت جو توکل علی اللہ کے مفہوم کو سمجھنے سے قاصر اور اللہ کی رزاقیت کے بارے میں متردد ہیں پیچ دار اعداد و شمار پیش کر کے عوام کو فریب میں مبتلا کر رہے ہیں اور اللہ و رسول کی نافر ما نی پر کمر بستہ ہو چکے ہیں ۔حالانکہ عوام کے ان مصنوعی ہمدردوں کو تو اپنے بارے میں بھی خبر نہیں کہ کل یہ کہاں ہو نگے اور کس حال میں ہو نگے ؟
پھر مغربی ممالک نے توماتس کے فیملی پلاننگ کے نظریہ پر عمل کر کے اس کے کڑوے کسیلے پھل کھا کر اب اس نظریہ سے توبہ کر لی ہے اب وہ ہر ممکن طریقے سے اپنی آبادی بڑھانے کی فکر میں ہیں ۔ان کی حکومتیں آبادی بڑھانے کے لیے عوام کو نا گوں قسم کی ترغیبات دے رہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں کے "دانشور" ارباب اقتدار انہی کڑوے کسیلے پھلوں کو دیدہ دانستہ کھا نا چاہتے ہیں اور بر بادی آبادی کی مہم چلا کر عذاب الٰہی کو دعوت دینا چاہ رہے ہیں ۔
حالانکہ دیگر بے شمار برائیوں کے ساتھ ساتھ اس نظر یہ میں ایک بہت بڑی خامی جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ اس منصوبہ بندی کو جن قوموں نے اپنایا وہاں بتدریج نو جوان نسل کا تناسب کم ہو تا چلا گیا اور بو ڑھے بکثرت ہو گئے ۔جن کے لیے کما نے والا کو ئی نہ تھا ۔تب یہ لو گ افرادی قوت کے لیے دورسری کثرت آبادی والی اقوام کے دست نگر بن کر رہ گئے دوسری طرف اس مہم نے فحاشی ،عریانی ،معاشی بدحالی اور اخلا قی بے راہ روی اس حد تک پیدا کر دی کہ خود مغرب کے دانشور اس نازک صورتحال پر چیخ اٹھے یورپ امریکہ آج بھی انہی مشکلات سے دو چار ہیں ۔وہ انہی مشکلات میں ہمیں بھی مبتلا کرنا چاہتے ہیں غور کریں اگر اس وقت ہمارے دانشوروں کے بقول اگر پاکستان کی آبادی صرف چھ کروڑ ہو تی (جوان کے خیال میں بہت مثالی بات ہو تی) تو اس میں بو ڑھے تو بکثرت مو جود ہو تے مگر نوجوان نسل نہ ہو تی ۔ملک میں کمانے والوں کی تعداد کم ہو نے کی بناء پر ملک میں معاشی و معاشرتی توازن بگڑ کر رہ جا تا ۔پھر دفاع ملک کے لیے یہ بڑا نقصان اور خسارہ ہو تا ۔ ہم (خدا نخواستہ ) ہر وقت تا ک میں لگے رہنے والے دشمن کا ترنوالہ بن چکے ہو تے ۔دوسری طرف کھلی و چھپی بے حیائی اور فحاشی معاشرے کو ہر لحاظ سے کھو کھلا اور غیر مستحکم کر کے رکھ دیتی ہے۔ جس میں رشتوں کا تقدس اور احترام بالکل ختم ہو کر رہ جا تا ہے اور آخرت تو کجا رہی دنیا کو تباہ کر کے بیٹھ رہتے ۔
یہاں ہمارا ذمہ داران حکومت سے ایک سوال ہے اور خصوصاً وزراعظم سے کسی تعلیمی ادارے کا سر براہ صرف اتنے ہی طلبہ کو داخلہ دیتا ہے جن کا وہ بندو بست اپنے ادرے میں کر سکتا ہے کسی فیکٹری کا مالک اپنے ہاں اتنے ہی ملا زم رکھتا ہے جن کی تنخواہ وہ ادا کر سکتا ہے۔یہ تو انسان کا کا م ہے جو اتنی سوچ سمجھ رکھتا ہے کہ اپنی گنجائش کے مطابق پلاننگ کرے ۔تو کیا خود خدا جو کائنا ت کا خالق و مالک اور رازق ہے جو انسان کو شعور و سمجھ دینے والا ہے وہی نعوذباللہ اتنا ناہل ہے کہ انسان تو پیدا کرتا چلا جا تا ہے مگر ان کے لیے ان کے حساب سے وسائل پیدا نہیں کر سکتا ۔جب اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فر ما تا ہے ۔
﴿وَما مِن دابَّةٍ فِى الأَرضِ إِلّا عَلَى اللَّهِ رِزقُها ...﴿٦﴾... سورة هود
"کہ روئے زمین پر چلنے والا کو ئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو "
اور ہر انسان بچشم سر اس کا مشاہدہ بھی کر رہا ہے کہ بحر و بر اور جنگلات کے اندر اللہ تعا لیٰ بے شمار کھربوں کی تعداد میں پیدا ہو نے والی مخلوق جس میں درندے ،چرندے ،حشرات الارض اور آبی مخلوقات شامل ہیں سب کو حسب وعدہ رزق دے رہا ہے اور ہر جاندار کی تمام بنیادی ضرورتیں وافر مقدار میں پیدا کر رہا ہے تو کیا انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہی اللہ کے رزق سے محروم رہے گا ۔باوجود اس کے کہ وہ قدرت کی صفت تخلیق کا شاہکار اشرف المخلوقات ہے کیا وہ ہستی جو اسے نو ماہ مادر رحم میں اور دوسال شیر مادر کے ذریعہ اس کی پرورش کرتی ہے کیا جو ان ہو نے پر اسے بے آسرا چھوڑ سکتی ہے؟
پھر آقائے نامدار فخر موجودات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کی مدح سرائی اور نعمت گوئی اور ان پر زبان سے فدا ہو نے کا کو ئی موقع ہم ہاتھ سے جا نے نہیں دیتے کیا اسی نبی صادق و مصدوق کا یہ فر ما ن نہیں ۔
تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الأُمَمَ
تم ایسی عورتوں سے شادی کرو جو زیادہ اولاد پیدا کرنے والی اور شوہروں سے محبت کرنے والی ہوں۔کیونکہ میں روز قیامت اپنی کثرت اُمت پر فخر کروں گا ۔ تو اپنے نبی صلوۃ والسلام کی اتنی ترغیب کے باوجود کیوں ہم اغیار کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ؟
میرا ایک اور سوال ہے کیا واقعی ہم اپنی آبادی کو کنٹرول کر سکتے ہیں تو پھر کیوں کسی کے ہاں صرف لڑکے ہو تے ہیں جبکہ اسے لڑکی کی کواہش ہو تی ہے کسی کے ہا ں صرف لڑکیاں ہو تی ہیں اور اسے لڑکے کی شدید خواہش ہوتی ہے اور کو ئی ساری عمر اولاد کو ترستے رہتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اپنے خاندان کو حسب خواہش بنانے والے لوگ مستقل کئی قسم کے روگ لگا لیتے ہیں بعض دفعہ خواتین اس لالچ میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں مگر جس روح کو اللہ نے ان کی کوکھ میں جنم دینا ہے وہ دے کر ہتا ہے ۔خود منصوبہ بندی کے ذمہ دار حضرات کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی اوللادوں کو کنٹرول نہیں کر سکے دوسروں کو کہتے پھرتے ہیں کہ مجھ سے تو غلطی ہو گئی میری اولاد زیادہ ہو گئی تم احتیاط کرنا۔ دراصل یہ مہم چلانے والے لوگ خود بھی واقف حال ہیں مگر عوام کو دھوکا اور فریب دینے کے لیے اعداد دو شمار کا گو رکھ دھندا پیش کر دیتے ہیں ۔
جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے یہاں خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں بلکہ "معاشی منصوبہ بندی "کی ضرورت ہے ۔دراصل تو پاکستان میں موجود وسائل کو منصفانہ بنیادوں پر استعمال میں لا نے کی اشد ضرورت ہے۔ خود ایک مغربی دانشور "پروفیسر فشر"کی تحقیق موجود ہے کہ " دنیامیں موجودہ آبادی سے دس گنا زیادہ آبادی کے لیے بھی اس وقت وسائل موجود ہیں بشرطیکہ موجودہ زمین اور وسائل کو صحیح طور پر استعمال میں لا یا جا ئے۔تو کیا ہمارے ترقی پسند دانشور پروفیسر فشر کے مشورے پر عمل کر نا پسند کریں گے ؟
وطن عزیز پاکستان کا بھی بالکل یہی معاملہ ہے اللہ تعا لیٰ نے ہمیں بے پناہ زرعی و مادی اور آبی وسائل سے نواز ا ہے اور سب سے بڑا وسیلہ خود حضرت انسان ہے ۔ ہر پیدا ہو نے والا انسان ایک کھا نے والا منہ لے کر آتا ہے مگر ساتھ کا م کرنے والے دو ہاتھ دو پاؤں اور بے شمار دماغی و جسمانی صلاحیتیں لیکر آتا ہے اور پاکستانی عوام تو ماشاء اللہ محنتی جفاکش اور محب وطن ہیں یہاں ایک سے ایک جو ہر قابل موجود ہے "ذرا نم ہو یہ مٹی تو بڑی زرخیز ہے ساقی والا معاملہ ہے صرف معاشی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے بہر حال اگر اعداد وشما ر کی زبان میں بات سننا چاہیں تو وہ بھی موجو د ہے پاکستان کی آبادی قیام پاکستان سے لے کر اب تک تین گنا بڑھی ہے ۔1951ء،کیمردم شماری کے مطابق یہ آبادی 33740167نفوس پر مشتمل تھی جبکہ 1989ءکی مردم شماری کے مطابق 100868420نفوس پر مشتمل ہے یعنی صرف تین گنا آبادی بڑھی ہے جبکہ دوسری طرف پیدوار مجموعی طور پر 4گنا بڑھی ہے مصنوعی کھادوں ٹیوب ویلز،ٹریکٹر ،تھریشر،جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے والی ادویات اور دیگر جدید سہولتوں کی بنا پر مجموعی قومی پیداوارمیں 4گنا اضافہ ہوا ہے ملا حظہ کیجئے (حکومت پاکستان شعبہ مالیات کی طرف سے شائع کردہ اکنامک سروے 89۔90۔کا ضیمہ ص46ٹیبل 3اور4)
پھر پاکستان میں اتنے آبی وسائل موجود ہیں ان سے بیس ہزار میگاواٹ بجلی باسانی پیدا کی جا سکتی ہے کلا باغ ڈیم بھا شااور سکردو کے مقامات پر ڈیم بنا ئے جا سکتے ہیں جبکہ یہ بجلی نسبتاً سستی بھی ہو گی ۔عملاً اس وقت پاکستان میں صرف 6298میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے دوسری طرف ہمارے قابل کا شت رقبہ میں سے صرف 43٪زیر استعمال ہے جبکہ باقی 57٪قابل کاشت زمین بے کار پڑی ہے ۔ہم اپنے ارباب اقتدار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اغیار کا آلہ بننے اور ان کے مقاصد کی تکمیل کرنے کے بجا ئے اسلام اور اہل اسلام کے تقاضوں کو سمجھیں ۔اللہ کے عذاب کو دعوت دینے مسلمانوں کی نسل کو محددو کرنے ان میں مغربی ممالک کے علانیہ و باطنی فحاشی اور اخلاقی بے راہ روی کو فروغ دینے سے باز آجا ئیں ۔اس کے بجا ئے ملک میں کتاب و سنت کا نفاذ کر کے دین و دنیا کی بر کتوں اور بھلائیوں سے بہرہ رہوں ۔ہماری رائے میں مملکت میں درج ذیل اقدامات فی الفور کئے جا ئیں تاکہ صورت حال کچھ بہتر ہو نے کا ساماں ہو ۔
1۔گھٹیا اور بھونڈے طریقے سے چلا ئی جا نے والی مہم خاندانی منصوبہ بندی فی الفور بند کر دی جا ئے اس پر خرچ ہو نے والی رقم اور وسائل غریب طبقات کی تعلیم صحت اور حفظان صحت کی بنیادی سہولتوں کی فرا ہمی پر استعمال کیے جا ئیں
2۔غیر سر کاری بیرونی ایجنسیوں سے براہ راست امداد (قرض ) لینے پر فی الفور پابندی لگائی جا ئے ۔
3۔زراعت پر سنجیدگی سے توجہ دی جا ئے اور سوڈان کی طرح اپنے ملک کو غلہ و زرعی اجناس میں خود کفیل بنا یا جا ئے ۔
4۔حکومت اور امراء اپنی عیاشی اور اسراف بند کریں ۔لمبی چوڑی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی لگا ئی جا ئے کرپشن اور بدعنوابیوں کا کڑا احتساب کیا جا ئے ۔دولت کی تقسیم منصفانہ ہوا ور قومی خزانہ و کلا دھن اجتماعی بہبود کے کا مو ں پر صرف کیا جا ئے ۔ملا زمتوں کے بڑے تفادت ختم کیے جا ئیں ۔۔۔ہر مزدور کو کم از کم تین ہزار تنخواہ دی جا ئے تا کہ وہ اپنی بنیادی ضرورت پوری کر سکے
5۔سود کو فی الفور ختم کیا جا ئے کہ یہی ہماری معاشی بد حالی اور تمام قومی مصائب کی اصل بنیاد ہے اور اللہ کے غیض و غضب کو للکارنے والا ہے اور بقول قرآن اللہ سے جنگ کے مترادف بھی ۔(وماعلینا الاالبلا غ )