مصحفِ عثمانی کا ایک تحقیقی جائزہ

اعتراضات، پس منظر، ضرورت و نوعیت، مقاصد

زیر نظر مضمون میں فاضل مقالہ نگار نے مصحف عثمانی بالخصوص ''سبعہ قرآءات'' پر بیش قیمت بحث کی ہے۔ سبعہ قرآءات کا موضوع مدت مدید سے علماء کی بے اعتنائی کا شکار ہے۔ لہٰذا ایسے وقت میں اس موضوع کو نئے سرے سے شروع کرنا جہاں مشکل ہے وہاں مقالہ نگار کی کاوش لائق تحسین بھی ہے۔ گوکہ اس مضمون کے بعض مندرجات سے ادارہ اختلاف کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ تاہم ایک علمی تحقیق ہونے کے ناطے اسے شائع کیا جارہا ہے تاکہ علماء میں اس موضوع پر قلم اٹھانے اور اس بارے میں تفکر و تدبر میں پیش رفت اور علم کاایک وسیع باب اور قرآن جیسی کتاب الٰہی کے مختلف لہجوں سے عوام کو شناسائی ہو۔''محدث'' میں ''قرآت سبعہ و عشرہ'' سے متعلقہ مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا جارہا ہے لیکن یہ سب کچھ اہل قلم حضرات کے تعاون اور محنت کے بغیر ناممکن ہے۔ اس موضوع سے ادارہ ہذا کو خصوصی تعلق اور اس لحاظ سے نسبت بھی ہے کہ مجلس التحقیق الاسلامی ہی کے تعلیمی پروگراموں میں اس علم کی مکمل تعلیم کے لیے خصوصی منصوبہ بنام ''کلیۃ القرآن الکریم والعلوم الاسلامیہ'' دو برس قبل جاری کیا گیا تھا جو بحمداللہ و توفیقہ کامیابی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ اس شعبہ کو فن قرآت میں خصوصی مہارت رکھنے والے اصحاب کی سرپرستی حاصل ہے اور یہ شعبہ اس باب میں مفید تعلیمی اور تحقیقی پیش رفت کا خواہاں ہے تاکہ قرآءات متواترہ کی اشاعت کے فرض کو بحسن و خوبی انجام دیا جائے اور قرآن حکیم کو اعدائے اسلام کی سرگرمیوں سے محفوظ و مصئون کیا جاسکے۔ (ادارہ)



.................................................

حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے زمانے میں قریش کی لغت کے مطابق قرآن مجید کا ایک صحیح نسخہ تیار کروایا تاکہ پوری امت مسلمہ ایک ہی طرح سے قرآن مجید کی تلاوت کرسکے اور کوئی ا ختلاف پیدا نہ ہو۔ دراصل حذیفہ بن الیمانؓ نے شکایت کی تھی کہ بعض علاقوں میں قرآن مجید کو پڑھنے کے انداز میں اختلاف کی بنا پر حالات تشویشناک ہیں چنانچہ حضرت عثمانؓ نے قرآن حکیم کا ایسا نسخہ کمال احتیاط کے ساتھ تیار کروایا کہ جس میں تمام جائز قرأتین سما سکتی تھیں۔

مگر مستشرقین حضرت عثمانؓ کی اس کارروائی ، اس مصحف کی تیاری، پس منظر اور خود مصحف عثمانی پر اعتراضات کرتے ہیں اور ان اعتراضات کا ماحاصل یہ ہے کہ عہد عثمانی سے قبل قرآن مجید کا کوئی صحیح نسخہ معرض وجود میں نہ آسکا تھا۔ ذیل میں ہم مستشرقین کے اعتراضات نقل کرتے ہوئے ان کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

نولڈیکے(Noldeke) اپنے مقالے میں قرآن حکیم کی تاریخ حفاظت پر یوں رقم طراز ہے:
''مصحف عثمانؓ سے قبل قرآن مجید کا کوئی معیاری اور مرتب نسخہ موجود نہ تھا اور یہ مصحف، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مصحف کی نقل ہی تھا (لہٰذا اگر مصحف صدیقی حقیقی مصحف نہ تھا تو مصحف عثمانی کی بھی کوئی حیثیت نہیں)''

حضرت عثمانؓ کی تدوین قرآن کی ساری کارروائی کو مشکوک بناتے ہوئے، لکھتا ہے:
"As to how thay were conducted we have no Trust worthly information, Tradition being have too much the influence of dog matic presupposition."

مزید یہ کہ حضرت عثمانؓ کی جمع قرآن کی ان مساعی کو سیاسی مقاصد کے حصول کا رنگ دیتا ہے۔
"But for the assentially political object of putting an end to controversies by admitting only one form of the common book of religion and of law, this measuere was necessary."

آگے چل کر نولڈیکے کہتا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے نسخے کے علاوہ دیگر تمام مصاحف جلوا دیئے اس طرح قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہوگیا اور قرآن کا حقیقی متن اگر ہم جاننا چاہیں تو معلوم نہیں ہوسکتا۔ مزید اس طرح کے وہ بہت سے شکوک و شبہات پیدا کرتے ہوئے لکھتا ہے:
1 "Slight clerical errors there may have been though some times in vary strange order."

مصحف عثمانی کو مشکوک بنانے کی کوشش میں ایک اور مشہور مستشرق ایف بہل(F.Buhl) بھی پیش پیش نظر آتا ہے۔ وہ اپنے مقالہ میں لکھتا ہے:
''مصحف عثمانی دراصل مصحف صدیقی کی نقل تھا۔ لیکن ساتھ ہی کہتا ہے کہ مصحف صدیق کوئی باقاعدہ مرتب نسخہ نہ تھا۔''2
''اس سلسلے میں نوآموز اور ناتجربہ کار کاتبوں کی طرف سے کچھ لاپروائیاں اور غلطیاں سرزد ہوئیں۔''3
''حضرت عثمان نے اپنے تیار کروائے ہوئے نسخے کے علاوہ تمام نسخوں کو ضائع کروا دیا۔ اس طرح قرآن کا بڑا ایک حصہ ضائع ہوگیا۔''4
''حضرت عثمان تو ایک متفقہ متن قرآن اور متفقہ تلفظ بھی تیار نہ کرسکے''5 اگرچہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان نے اختلافات ختم کرنے کے لیے باقی نسخوں کو جلوا دیا تھا ۔ لیکن اختلافات ختم کرنے کے لیے جلانے یا ضائع کرنے کا یہ عمل بالکل بے اثر تھا کیونکہ قرآن لوگوں کے حافظے میں موجود تھا۔''6
''مصحف عثمانی حقیقی قرآن نہیں، اس مصحف کی کوئی ترتیب بھی نہ تھی۔ علاوہ ازیں جو مصاحف دیگر علاقوں کو روانہ کئے گئے ان میں ہم آہنگی بھی نہ تھی۔''7

ایف بہل نے تفسیر طبری کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عثمان خود بھی اپنے تیار کردہ نسخے کو مستند اور صحیح نہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ لکھتا ہے:
"Even Oth man himself, occording to one story____ did not adhere to the text authorized by him. But read sura iii 100 with an addition not now found in it. And if this is correct, it is no wonder that others took still greater liberties, various circumstances, contributed to the continual variation in the 8form of text."

نولڈیکے اور بہل کی طرح ایک اور مشہور مستشرق مارگولیتھ (Margoliouth) اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حضرت عثمان کے مرتب کئے ہوئے مصحف پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے۔ مارگولیتھ اس مصحف میں ابہام اور اغلاط کے بارے میں لکھتا ہے:
''زید بن ثابت کو حضرت عثمانؓ نے اس کام پر اس لئے لگایا کہ انتہائی ابہام کی موجودگی میں وہی اس متن کی وضاحت کرسکتے تھے۔'' 9

اس کے اپنے الفاظ میں:
" Perhaps because in the extreme ambiguity with and imperfection of the Arabic script he alone 10 could interpret the first edition with certainity"

اسی طرح مارگولیتھ کہتا ہےکہ ''حضرت عثمانؓ کے اپنے نسخے کے علاوہ دوسرے نسخے جلوا دینے کے عمل سے قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہوگیا۔ چنانچہ اب ہمیں قرآن کا حقیقی متن نہیں مل سکتا۔''11

قریب قریب یہی انداز دیگر مستشرقین12 نے بھی اختیار کیا ہے اور انہوں نے بھی اسی سے ملتے جلتے اعتراضات اٹھائے ہیں بعض مستشرقین کے نقطہ نگاہ کا تذکرہ ''البیان''13 میں بھی ملتا ہے اور بعض کا تذکرہ ڈاکٹر صبحی صالح14 نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ تاویل القرآن 15 میں بھی ان اعتراضات کو دھرایا گیا ہے۔

مستشرقین کا نقطہ نظر بیان کرنے کے بعد اب ہم ذیل میں اسلامی مآخذ سے عہد عثمانی میں جمع قرآن کی نوعیت، مقاصد، پس منظر اور طریقہ کار کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں تاکہ مستشرقین کے اعتراضات کا ردّ بھی ہوسکے اور حقیقت حال بھی سامنے آجائے۔

پس منظر :
حضرت عثمانؓ کے عہد حکومت تک اسلامی مملکت وسیع علاقے تک پھیل چکی تھی اور عرب کے علاوہ عجم کے تمام علاقے اسلامی حکومت کا حصہ بن چکے تھے۔ قرآن مجید جہاں مسلمانوں کی زندگی کا لازمی جزو تھا تو دوسری طرح ''سبعہ احرف'' بھی موجود تھے۔ حضورﷺ سے مختلف صحابہ کرامؓ نے انہی ''سات حروف'' کےساتھ قرآن پڑھا تھا۔ صحابہ نے اپنے شاگردوں کو بھی انہی کےمطابق پڑھایا تھا۔ حضور کی وفات کےبعد ، بلکہ آپ کی موجودگی میں صحابہ ان علاقوں میں بھی پھیل گئے۔ جب مملکت کی حدود عجم تک وسیع ہوتی چلی گئیں تو صحابہ کرام ان علاقوں میں پہنچ گئے۔ ان میں سرکاری طور پر بھیجے ہوئے معلمین بھی تھے اور دعوت و تبلیغ کی غرض سے جانے والے بھی16 ' اسی طرح ''سبعة أحرف'' عرب و عجم کے تمام علاقے میں پھیل گیا۔ جب تک لوگ ''سبعہ احرف'' کی حقیقت سے آگاہ تھے اس وقت تک اس سے کوئی خرابی پیدا نہ ہوئی۔ لیکن جب یہ اختلاف دور دراز کے علاقوں تک پہنچا اور ان پر یہ بات واضح نہ تھی کہ ''سبعہ احرف'' کی سہولت کا مقصد کیا ہے اور یہ بات ان میں پوری طرح مشہور نہ تھی کہ قرآن مجید سات حروف میں نازل ہوا ہے تو اس وقت لوگوں میں جھگڑے کھڑے ہونے لگے۔ بعض لوگ اپنی قرأت کو صحیح اور دوسروں کی قرأت کو غلط قرار دینے لگے۔17

ان جھگڑوں سے ایک طرف تو یہ خطرہ تھا کہ لوگ قرآن کریم کی متواتر قراتوں کو غلط قرار دینے کی سنگین غلطی کریں گے، دوسری طرف یہ مسئلہ بھی تھا کہ حضرت زید بن ثابت کے لکھے ہوئے ایک نسخہ، جو مدینہ طیبہ میں حضرت حفصہؓ کے پاس موجود تھا، اس کے علاوہ پورے عالم اسلام میں اس سے معیاری نسخہ نہ تھا۔ جوپوری امت کے لئے حجت بن سکے۔ کیونکہ دوسرے نسخے انفرادی طور پر لکھے ہوئے تھے اور ان میں ساتوں حروف کو جمع کرنےکا کوئی اہتمام نہ تھا۔ اس لئے ان جھگڑوں کے تصفیے کی اگر کوئی قابل اعتماد صورت تھی تو وہ یہی تھی کہ ایسے نسخے پورے عالم اسلام میں پھیلا دیئے جائیں جن میں ساتوں حروف جمع ہوں اور انہیں دیکھ کر یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ کون سی قرأت درست اور کون سی قرأت غلط ہے؟ یہ عظیم الشان کارنامہ حضرت عثمانؓ نے سرانجام دیا۔

ان کے اس کارنامے کی تفصیلات روایات میں موجود ہیں۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ آرمینیا کے محاذ پر جہاد میں مصروف تھے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ لوگوں میں قرآن کریم کی قراء توں میں اختلاف ہورہا ہے۔ چنانچہ مدینہ طیبہ واپس آتے ہی انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ امیرالمؤمنین حضرت عثمانؓ کے پاس آئے اور خدمت میں حاضر ہوکر پوری صورت حال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے خلیفہ سے کہا کہ قبل اس کے کہ یہ امت کتاب اللہ کے بارے میں یہود و نصاریٰ کی طرح اختلاف کا شکار ہوجائے آپ اس اختلاف کا علاج فرما لیں۔ انہوں نے مزید کہا ''کہ میں آرمینیا کے محاذ پر جہاد میں مصروف تھا کہ میں نے دیکھا کہ شام کے رہنے والے لوگ اُبی بن کعبؓ کی قرأت میں پڑھتے ہیں جواہل عراق نے نہیں سنی تھی۔ اس بنا پر وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔18

اس سلسلے میں علامہ بدر الدین عینی لکھتے ہیں: 19
''إن حذیفة قدم من غزوة فلم یدخل في بیته حتی أتی عثمان رضی اللہ عنه فقال یا أمیرالمؤمنین أدرک الناس قال وما ذاك قال غزوت أرمینیة فإذا أھل الشام یقرءون بقراءة أبي ابن کعب رضی اللہ عنه فیأتون بمالم یسمع أھل العراق وإذا أھل العراق یقرءون بقراءة عبداللہ ابن مسعود فیأتون بمالم یسمعه أھل الشان فیکفر بعضھم بعضاً''
''حضرت حذیفہؓ کی ایک غزوہ سے واپسی ہوئی تو واپسی پر وہ اپنے گھر میں داخل نہیں ہوئے تاآنکہ حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے امیرالمؤمنین! لوگوں کی خبر لیجئے۔ انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہا میں لڑائی کے سلسلے میں آرمینیا گیا ہوا تھا وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اہل شام ابی بن کعب کی قرات میں پڑھتےہیں جسے اہل عراق نےنہیں سنا ہوا تھا اور اہل عراق عبداللہ بن مسعودؓ کی قرات میں پڑھتے ہیں جسے اہل شام نے نہیں سنا اس اختلاف کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔''

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کا واقعہ بخاری شریف میں ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
''حضرت حذیفہ بن الیمانؓ حضرت عثمانؓ کے پاس آذربائیجان کے معرکے کے بعد حاضر ہوئے اور انہیں قرآت قرآن میں باہمی اختلاف نے بہت پریشان کیا تھا۔ حذیفہ نے حضرت عثمانؓ سے کہا اے امیرالمؤمنین! اُمت کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ وہ اپنی کتاب میں یہود و نصاریٰ کی طرح اختلاف کرنے لگیں۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے حضرت حفصہؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے پاس قرآن مجید کے نوشتے اور صحیفے بھیج دیں، ہم انہیں نقل کرلیں گے اور ایک مصحف کی شکل میں جمع کرلیں گے پھر انہیں آپ کی طرف لوٹا دیں گے۔ حضرت حفصہؓ نے وہ صحیفے حضرت عثمانؓ کے پاس بھیج دیئے۔ حضرت عثمان نے حضرت زید بن ثابتؓ، عبداللہ بن زبیرؓ، سعد بن العاصؓ اور عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام کو متعین فرمایا کہ وہ ان صحائف کو ایک مصحف میں نقل کریں۔ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور حضرت عثمانؓ نے جماعت قریش کے تینوں کاتبوں کو فرمایا کہ جب تم اور زید بن ثابتؓ میں قرآن کریم کی کسی آیت کے لکھنے میں اختلاف ہو تو پھر اسے لغت قریش میں لکھنا کیونکہ قرآن مجید لغت قریش میں نازل ہوا ہے۔ چنانچہ ان حضرات نے اسی پر عمل کیا۔ یہاں تک کہ جب یہ حضرات ان صحائف کونقل کرچکے تو حضرت عثمانؓ نے ان اصل صحائف کو حضرت حفصہؓ کے پاس واپس لوٹا دیا اور ہر علاقے میں ایک ایک نقل شدہ مصحف ارسال کردیا اور یہ حکم صادر فرمایا کہ ان کے علاوہ جو مجموعے اور صحیفے لوگوں کے پاس لکھے ہوئے موجود ہوں ان کو جلا دیا جائے۔''20

حضرت عثمانؓ بھی شاید خود اس خطرے سے آگاہ تھے۔ انہیں اس بات کی اطلاع ملی تھی کہ خود مدینہ طیبہ کے اندر ایسے واقعات پیش آئے کہ جب مختلف صحابہ کرامؓ کے شاگرد اکٹھے ہوئے تو اختلاف کی سی ایک کیفیت پیدا ہورہی تھی۔21 ' جب حضرت حذیفہ نے بھی اسی قسم کی اطلاع دی تو آپ نے فوراً اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی وقت حضرت عثمانؓ نے جلیل القدر صحابہؓ کو جمع کیا اور ان سے اس سلسلے میں مشورہ کیا اور فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ میری قرات تمہاری قرات سے بہتر ہے اور یہ بات کفر تک پہنچ سکی ہے۔ لہٰذا آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟ صحابہ کرامؓ نے حضرت عثمانؓ سے یہی پوچھا کہ آپ نے کیا سوچا ہے؟ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ میرے رائے یہ ہے کہ ہم تمام لوگوں کو ایک یقینی مصحف پر جمع کردیں تاکہ کوئی اختلاف اور افتراق باقی نہ رہے۔ صحابہ نے اس رائے کو پسند کیا اور حضرت عثمان کی رائے کی تائید کی چنانچہ حضرت عثمانؓ نے اسی وقت لوگوں کو جمع کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا: 22
''أنتم عندي تختلفون فیه و تلحنون، فمن ذاتی عن من أھل الأمصار أشد فیه اختلافاً وأشد لحمنا، اجتمعوا بأصحاب محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاکتبوا الناس إماماً''
''تم لوگ مدینہ میں میرے قریب رہتے ہوئے قرآن کریم کی قراتوں کے بارے میں ایک دوسرے کی تکذیب اور ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہو۔ اس سے یہ ظاہر ہے کہ جو لوگ مجھ سے دور ہیں وہ تو اور زیادہ تکذیب اور اختلاف کرتے ہوں گے۔ لہٰذا تم لوگ مل کر ایک نسخہ ایسا تیار کرو جو سب کے لیے واجب الاقتداء ہو۔''

مصحف عثمان کے بارے میں ہم نے جو وضاحت بیان کی ہے اس سے صاف طور پر واضح ہورہا ہے کہ متفقہ مصحف تیا ر کروانے کی اس وقت اشد ضرورت تھی۔ ایسا نہیں کہ حضرت عثمانؓ نے اپنی سیاسی پالیسی یا ذاتی ضرورت کے تحت ایسا کیا تھا۔ حضرت حذیفہؓ کا آذربائیجان سے واپسی پر فوراً حضرت عثمانؓ کےپاس آنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اس اختلاف سے بہت پریشان تھے۔ پھر انہوں نے حضرت عثمانؓ کے سامنے یہ مسئلہ اس انداز سے پیش کیا کہ وہ اس کی سنگینی کو فوراً سمجھ گئے ۔ اس ساری صورت حال کے پیش نظر حضرت عثمان ؓ نے مندرجہ ذیل کام کئے۔

اوّلاً : قرآں کریم کے معیاری نسخے تیار کروائے اور انہیں مختلف اطراف میں روانہ کردیا۔
ثانیاً: ان مصاحف کا رسم الخط ایسا رکھا کہ اس میں ''ساتوں حروف'' سما سکیں۔ چنانچہ یہ مصاحف نقاط اور حرکات سے خالی تھے اور انہیں ہر حرف کے مطابق پڑھا جاسکتا تھا۔ جتنے انفرادی نسخے لوگوں نے تیار کررکھے تھے ان سب کو نذر آتش کردیا۔
ثالثاً : یہ پابندی عائد کردی کہ آئندہ جو مصاحف لکھے جائیں وہ اسی مصحف کے مطابق تیار کئے جائیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے تیار کردہ نسخہ میں الگ الگ سورتیں تھیں ۔ حضرت عثمانؓ نے انہیں اکٹھا کرکے ایک مصحف کی شکل دی23 ان اقدامات کا مقصد یہ تھا کہ تمام عالم میں رسم الخط اور ترتیب سُوَر کے اعتبار سے تمام مصاحف میں یکسانیت ہو اور ان مصاحف کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکے کہ کون سی قراءت درست اور کون سی غلط ہے۔ اس بات کی وضاحت حضرت علی کے اس قول سے ہوتی ہے ۔ جو ابن ابی داؤد نے کتاب المصحف میں نقل کیا ہے۔24

قال علی : ''لا تقولوا في عثمان  إلاخیراً فواللہ ما فعل الذي فعل في المصاحف إلاعن ملاعنا قال ما تقولون في ھذہ القراءة فقد بلغني أن بعضهم یقولون إن قراءتي خیر من قراءتك و ھذا یکادون أن یکون کفراً قلنا مماتری قال أری أن نجتمع الناس  لمصحف واحد فلاتکون فرقة ولا اختلاف قلنا فیقم ما أریت''
''حضرت علی ؓنے فرمایا کہ حضرت عثمان کے بارے میں کوئی بات ان کی بھلائی کے علاوہ نہ کہو۔ کیونکہ انہوں نے اللہ کی قسم مصاحف کے بارے میں جو کام کیا وہ ہم سب کی موجودگی میں کیا۔ انہوں نے ہم سب سے مشورہ کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ ان قراتوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ کیونکہ مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری قرأت تمہاری قرات سے بہتر ہے۔ حالانکہ یہ ایسی بات ہے جو کفر کے قریب تر پہنچا دیتی ہے۔ اس پر ہم نےحضرت عثمان سے کہا کہ آپ کی کیا رائے ہے۔انہوں نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ ہم سب لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کردیں تاکہ کوئی اختلاف و افتراق باقی نہ رہے ہم سب نے کہا کہ ''آپ نے اچھی رائے قائم کی ۔''

اس روایت میں حضرت عثمان کے الفاظ ''إن نجمع الناس علیٰ مصحف واحد'' ہمارے موضوع کے اعتبار سے خاص توجہ کے حامل ہیں کہ آپ نے یہ ارادہ ظاہر فرمایا کہ ہم ایک معیاری مصحف تیار کرنا چاہتے ہیں جو پورے عالم اسلام کے لیے یکساں طور پر حجت بن سکے اور اس کے بعد کسی صحیح قرآن کے انکار یا منسوخ یا کسی شاذ قرات پر اصرار کی گنجائش باقی نہ رہے۔

مولانا تقی عثمانی نے مصحف عثمانی کے بارے میں لکھا ہےکہ اس کی تیاری کے وقت بنیادی طور پر انہی صحیفوں کو سامنے رکھا گیا جو حضرت ابوبکر صدیق کے زمانے میں لکھے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مزید احتیاط کے لیے وہی طریقہ اختیار فرمایا جو حضرت ابوبکر صدیق کے عہد میں کیا گیا تھا۔ چنانچہ حضور کے زمانے کی جو متفرق تحریریں مختلف صحابہ کرام کے پاس موجود تھیں انہیں دوبارہ طلب کیا گیا اور مصحف لکھتے وقت ان کا از سر نو مقابلہ کیا گیا اس مرتبہ سورۃ الاحزاب کی ایک آیت ''مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ رِ‌جَالٌ صَدَقُوا'' علیحدہ لکھی ہوئی صرف حضرت ابوخذیمہ کے پاس ملی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ آیت کسی کو یاد نہ تھی کیونکہ زید بن ثابت فرماتے ہیں: ''مجھے مصحف لکھتے وقت سورۃ احزاب کی آیت نہ ملی جو حضورﷺ کو پڑھتے ہوئے سنا کرتا تھا ہم نے سے تلاش کیا تو وہ حضرت خزیمہ بن ثابت انصاریؓ کے پاس ملی۔25

اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرت زیدؓ اور دوسرے صحابہ کرامؓ کو اچھی طرح یاد تھی اس طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ آیت کہیں اور لکھی ہوئی نہ تھی۔ کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق کے زمانے میں جو صحائف لکھے گئے ، ظاہر ہے کہ یہ آیت ان میں موجود تھی نیز دوسرے صحابہ کرامؓ کے پاس قرآن کریم کے جو انفرادی نسخے موجود تھے ان میں یہ آیت بھی شامل تھی۔ لیکن چونکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے کی طرح اس مرتبہ بھی تمام متفرق تحریروں کو جمع کیا گیا تھا جو صحابہ کرامؓ کے پاس علیحدہ لکھی ہوئی بھی ملیں لیکن سورۃ الاحزاب کی یہ آیت سوئے حضرت ابوخذیمہ کے کسی اور کے پاس الگ لکھی ہوئی دستیاب نہ ہوئی26 ' یہ تمام تفصیلا ت مولانا تقی عثمانی نے پیش کی ہیں۔27

علامہ جلال الدین سیوطی کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ حضرت عثمان کے قرآن کے جمع کرنے کی یہ شکل ہوئی کہ جس وقت وجوہ قرات میں بکثرت اختلاف پھیل گیا اور یہاں تک نوبت آگئی کہ لوگوں نے قرآن مجید کو اپنی اپنی زبان میں پڑھنا شروع کردیا اور ظاہر ہے کہ عربی کی زبانیں بڑی وسیع ہیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں میں سے ہر ایک زبان کے لوگ دوسری زبانوں کوبرسر غلط بتانے لگےاور اس معاملے میں سخت مشکلات پیش آنے لگیں اور بات بڑھ جانے کا خوف پیدا ہوگیا اس لیے حضرت عثمانؓ نے قرآن مجید کے صحف کو ایک ہی مصحف میں سورتوں کی ترتیب کے ساتھ جمع کردیا اور تمام عرب کی زبانوں کو چھوڑ کر محض قبیلہ قریش کی زبان پر اکتفا کرلیا۔ اس بات کے لیے حضرت عثمانؓ نے دلیل یہ دی کہ قرآن مجید کا نزول دراصل قریش کی زبان میں ہوا تھا۔ اگرچہ وقت اور مشقت دور کرنے کے لئے اس کی قرات غیر زبانوں میں بھی کرلینے کی گنجائش دے دی گئی تھی لیکن اب حضرت عثمانؓ کی رائے میں وہ ضرورت مٹ چکی تھی ۔ لہٰذا انہوں نے قرآن کی قرات کا انحصار محض ایک ہی زبان میں کردیا۔28

قاضی ابوبکر ''الانتصار'' میں لکھتے ہیں کہ :
''حضرت عثمانؓ نے ان اختلافات کو مٹایا جو اس وقت موجود تھے اور آپ نے آئندہ نسلوں کو فساد سے بچا لیا۔''29

علامہ بدر الدین عینی عمدۃ القاری فی شرح البخاری میں لکھتے ہیں:
''إنما فعل عثمان ھذا ولم یفعل الصدیق لأن غرض أبي بکر کان جمع القرآن بجمیع حروفه ووجوبها التي نزل بها وھي لغة قریش و غیرھا مکان غرض عثمان تجرید لغة قریش من تلك القرآن وقد جاء ذالك مصرحاً في قول عثمان لھولاء الکتاب جمع أبوبکر غیر جمع عثمان''30
''یہ جو کچھ حضرت عثمانؓ نے کیا۔ یہ حضرت عثمانؓ کے زمانے کا جماع کرنا تھا۔ یہ کام حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نہیں کیا تھا۔ ان کی غرض تو قرآن مجید کو جمع کرنا تھا اور ان تمام وجوہ لغات کے ساتھ جن پر قرآن مجید نازل ہوا اور وہ لغت قریش اور اس کے علاوہ دیگر لغات بھی شامل تھیں اور حضرت عثمانؓ کی غرض بھی یہ تھی کہ لغت قریش کو بقیہ لغات سے جدا کردیا جائے۔ چنانچہ اس بات کی تصریح حضرت عثمانؓ کے قول میں موجود ہے کہ جو انہوں نے کاتبین سے فرمایا تھا۔ اس طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ کا جمع کرنا اور تھا اور حضرت عثمانؓ کا اور تھا۔''31

ان روایات کی تصریح کرتے علماء اسلام نے حضرت عثمانؓ کے عمل کی یہی تشریح کی ہے کہ حضرت عثمانؓ کا مقصد قرآن مجید کے کسی حرف کو ختم کرنا نہ تھا، بلکہ انہیں تو اس بات کا افسوس تھا کہ بعض لوگوں نے درست حروف کا انکار شروع کردیا تھا اور بعض آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے تھے اور اسی مقصد کے لیے آپ نے قرآن مجید کا معیاری نسخہ تیار کروایا تھا۔

یہی نقطہ نگاہ علامہ ابن حزم نے ''الفصل فی الملل'' میں32 ' مولانا عبدالحق نے تفسیر حقانی33 کے مقدمہ میں، علامہ زرقانی نے منایل العرفان34 میں نقل کیا ہے۔

کیا حضرت عثمانؓ نے جمع قرآن کی کارروائی سیاسی مقاصد کے پیش نظر کی؟
گذشتہ صفحات میں ہم نے عہد عثمانی میں قرآن مجید کے ایک متفقہ نسخہ کی تیاری کا پس منظر، ضرورت، اس کی تیاری اور اس کے بعد کے نفاذ کی تفصیلات بیان کردی ہیں۔ ان تفصیلات کی روشنی میں مستشرقین کے پیدا کردہ ایک ابہام خود بخود دور ہوجاتے ہیں مثلاً ان تفصیلات میں مندرجہ ذیل اعتراض خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔ مصحف عثمانی کی تیاری محض بے مقصد کام نہ تھا بلکہ اس کی تیاری کی بھرپور ضرورت موجود تھی۔ یہ نسخہ کوئی نیا نسخہ نہ تھا بلکہ مصحف صدیقی کی مکمل نقل تھی۔ بعض پہلوؤں سے یہ مصحف صدیقی سے مختلف تھا۔( مصحف صدیقی میں ''سبعہ احرف'' سے تعرض نہیں کیا تھا جبکہ مصحف عثمانی میں ایسا رسم الخط اختیار کیا گیا کہ جن میں تمام جائز قراتیں سما سکیں) مستشرقین کے مزید اعتراضات کے جوابات ہم آئندہ صفحات میں پیش کریں گے۔ حضرت عثمان نے قرآن مجید کا جو نسخہ تیار کروایا تھا اس پر مستشرقین نے کئی ایک اعتراضات کئے ہیں ہم نے ان اعتراضات کا ذکر چند صفحات میں کیا ہے یہ اعتراضات نوعیت کے اعتبار سے باہم متصادم ہیں، اس مصحف کے حوالے سے بعض لوگوں نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ مصحف عثمانی میں ''سبعہ احرف'' ختم کردیئے گئے اور اس کے اندر چھ حصے قرآن مجید ضائع کردیا گیا۔35

بعض دوسرے لوگوں نے اس کے برعکس بات کی ہے کہ مصحف عثمان میں کوئی خاص بات نہ تھی اور جس طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مصحف میں کوئی ربط و ترتیب نہ تھی اسی طرح یہ مصحف بھی محض اوراق کا مجموعہ ہی تھا اس کی تیاری کے بعد بھی قرآن مجید میں اختلافات موجود رہے کیونکہ دیگر مصاحف بھی لوگوں کے زیر تلاوت رہے حضرت عثمانؓ نے ان اختلافات کو ختم کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔36

ایک گروہ کہتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے مصحف کی کوئی ضرورت نہ تھی۔37 مصحف عثمانی کی ضرورت اور اسکے بارے میں اصل حقیقت یہ ہے کہ:
''اگرچہ قرآن حکیم بے شمار صحابہ کرامؓ کو زبانی یاد تھا تاہم لوگوں نے اپنے ہاں بھی لکھا ہوا تھا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جو نسخہ تیار کروایا تھا اس میں اس بات کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا کہ ''سبعہ احرف'' کے نتیجے میں لکھے گئے ان ذاتی مصاحف کو ختم کردیا جائے۔ لوگوں کے پاس ذاتی مصاحف بھی موجود رہے۔''38 ، 39 ، 40 ، 41 ، 42 ، 43

عہد نبویؐ کے قریب زمانے میں یہ احساس نہ تھا کہ مسلمان کسی مشکل کا شکار ہوجائیں گے کیونکہ اس وقت تک اسلام ابھی ایک علاقے تک محدود تھا لیکن جب اسلام بلاد و احصار میں پھیل گیا تو حافظے کے ساتھ ساتھ کتابت کی یکساں اہمیت محسوس کی جانے لگی اور بلاد و احصار کے مسلمانوں کو کسی ایک طریقے کے مطابق قرآن مجید پڑھایا گیا یہ بات ان میں عملاً معروف نہ ہوئی کہ قرآن مجید سات حروف میں نازل ہوا ہے اس لیے پڑھاتے وقت ان میں اختلافات پیدا ہونے لگے ساتھ ہی انفرادی طور پر تیار کئے ہوئے مصاحف بھی کسی نہ کسی ''حرف'' کے مطابق تھے اور ان کے آپس میں اختلافات تھے لیکن ایک معیاری نسخہ موجود نہ تھا۔

آئندہ سطور میں ہم مستشرقین کے اس موقف کا رد ڈاکٹر صبُحی صالح کے بیان کی روشنی میں کریں گے کہ کیا حضرت عثمانؓ نے محض سیاسی مقاصد کے حصول اور سیاسی پالیسی کے طور پر قرآن مجید میں مداخلت کی تھی اور اپنی مرضی کا ایک نسخہ تیار کروا لیا تھا اور ارکان کمیٹی حضرت عثمانؓ کے آلہ کار بن گئی اور گٹھ جور کرکے ایک ایسا نسخہ تیار کرلیا44

ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں کہ:
''حضرت عثمانؓ کی اس کارروائی کا اصل محرک وہ لوگ تھے جن کی نشاندہی حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے آذربائیجان سے واپسی پر کی تھی لیکن مستشرقین اس کارروائی کا محرک سیاسی مقاصد کے حصول قرار دیتے ہیں اس سلسلے میں ''بلا شر'' پیش پیش ہے۔ جس نے جمع و تدوین قرآن کے بارے میں حضرت عثمانؓ کی نیت پر حملے کئے ہیں یہ تمام حملے بالکل بے بنیاد ہیں۔ مستشرقین کے پاس کوئی بنیاد نہیں کہ جس سے ثابت کیا جاسکے کہ حضرت عثمانؓ کے پیش نظر سیاسی مقاصد کا حصول تھا اور آپ نے یہ کارروائی اس لیے بھی کی کہ مہاجرین کی اہمیت جتائی جاسکے۔ ''

اس سلسلے میں ڈاکٹر صبحی صالح نے بلا شر(Blacher)کا حوالہ دیا ہے۔45

ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں کہ:
''یہ تمام اتہام محض مستشرقین کی الزام تراشی ہے اور عبث قیاس آرائیوں کا آئینہ دار ہے اور کسی تاریخی روایت سے ان کے اس دعویٰ کی تائید نہیں ہوتی۔ کوئی دانشور شخص یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ امام بخاری جیسے محدث کے مقابلکہ میں جو کہ ثقاہت و امانت اور حفظ و ضبط میں اپنی نظیر نہیں رکھتے، مستشرقین کی ان بے سروپا باتوں کو اہمیت دے۔ حضرت عثمانؓ نے اس سلسلے میں جو کمیٹی تشکیل دی اس بارے میں بھی مستشرقین نے بے سروپا باتیں کی ہیں یہ کمیٹی چار حضرات پر مشتمل تھی۔''46

ڈاکٹر صبحی صالح لکھتے ہیں کہ :
''عجیب بات ہے کہ محدث ابن ابی داؤد ایک ہی مسئلہ پر مختلف روائتیں نقل کرنے کے شائق ہیں اگرچہ ان میں واضح تضاد پایا جاتا ہو۔ اس پر مزید یہ کہ وہ مسئلہ زیر بحث میں امام بخاری کے ذکر کردہ چار اشخاص کی کمیٹی کا ذکرنہیں کرتے بلکہ اس سلسلے میں قائم شدہ دیگر کمیٹیوں کا ذکر کرتے ہیں مثلاً وہ ایک کمیٹی کا ذکر کرتے ہیں جس کے رکن حضرت ابی بن کعبؓ بھی تھے اسی طرح وہ ایک اور کمیٹی کا ذکر کرتے ہیں جو دو صحابہ کرامؓ حضرت زیدبن ثابتؓ اور سعید بن العاصؓ پر مشتمل تھی۔ اس کارروائی سے دو برس قبل حضرت ابی بن کعبؓ وفات پاچکے تھے اسی طرح ایک اور کمیٹی کا ذکر کرتے ہیں جو بارہ اصحاب پر مشتمل تھی اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان کے خیالات پر صرف ایک ہی مستشرق نے کلام کیا ہے۔ یہ مستشرق(Schwally) ہے اس نے جرح و قدح کی ہے۔ مستشرق بلا شر اس پر تعجب و حیرت کا اظہار کرتا ہے ابن ابی داؤد نے ایک ایسی کمیٹی کا بھی ذکر کیا ہے۔ جس کے ایک رکن ابی بن کعبؓ بھی تھے جو اس کارروائی سے دو برس قبل وفات پاچکے تھے۔47

کمیٹی کی تشکیل اور اس کے ارکان کی تعداد میں اس طرح کی روایات کے ذکر کرنے کا ان کے نزدیک مقصد یہ ہے کہ حفاظت قرآن کی ساری تاریخ کو مشکوک بنا دیا جائے۔ اس کمیٹی کے ارکان کی تعداد کے علاوہ مستشرقین نے ان حضرات کی ذات پر بھی اعتراضات کئے ہیں اس سلسلے میں بلاشر نے طرح طرح کی قیاس آرائیوں سے کام لیا وہ پہلے تینوں قریشی صحابہ کو حضرت عثمانؓ کی طرح امراء و خواص میں شامل کرتا ہے ۔ یہ مستشرقین اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی شخصیت و کردار کا کیا عالم تھا؟ اس معاشرے کا نقشہ بھی ان کے ذہنوں میں موجود نہیں ہے اس معاشرے میں عوام و خواص کا تصور کہاں باقی رہ گیا تھا اس معاشرے میں تو خلیفہ رسول، خلیفہ ہوتے ہوئے لوگوں کی بکریوں کا دودھ دھو آتا تھا۔ خلیفہ ثانی جس کے ڈر سے دشمن تھرتھر کانپتے تھے، راتوں کو بھیس بدل کر لوگوں کی خدمت کے لیے مدینہ کی گلیوں میں چکر لگایا کرتے تھے۔ ہم خود مستشرقین ہی کی کتب سے ایسی مثالیں پیش کرسکتے ہیں کہ یہ بزرگ تقویٰ پرہیز گاری میں کس مقام پر فائز تھے کیا یہ لوگ تقویٰ کے اس مقام پر فائز ہوتے ہوئے قرآن میں من مانی تبدیلی کرنے کی خاطر مختلف حربے استعمال کرسکتے ہیں۔

اس معاشرے میں نہ اس قسم کی کارروائی کا امکان ہوسکتا تھا اور نہ ہی ''خواص و عوام'' کی کوئی تقسیم وہاں موجود تھی۔ جہاں حضرت عمرؓ جیسی شخصیت سے برسرمنبر مواخذہ ہوسکتا تھا وہاں حضرت عثمانؓ کی اس قسم کی کارروائی پر لوگ خاموش رہ سکتے ہیں۔48

1) بلا شر مزید لکھتا ہے کہ :
'' یہ تینوں مکی صحابہ حضرت عثمانؓ کے رشتہ دار تھے اس لیے وہ ایک مشترکہ مصلحت کے حصول کی خاطر باہم متفق ہوگئے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ کتابت قرآن مجید کا کام کسی ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہو جو مکہ کے علاوہ کسی اور جگہ کا رہنے والا ہو۔ بلاشر اس من گھڑت قصے کی تکمیل یوں کرتا ہے کہ حضرت زیدؓ جانتے تھے کہ وہ قریش مکہ کے طبقہ خواص میں شامل ہیں اس لیے وہ ان صحابہ کرام ؓ کی رضا کو قرین مصلحت خیال کرتے تھے۔''49

بلاشر کے یہ خیالات بعید عقل و قیاس اور لایعنی ہیں۔ ان خیالات میں تناقص و تضاد پایا جاتا ہے۔ اگرہم صحابہ کرامؓ کے معاشرے کے تقویٰ اور احتیاط کی کوئی ایک جھلک ذہن میں رکھیں تو اس قسم کی حرکت کسی ذی ہوش انسان کے قلب و دماغ سے کوسوں دور بھاگتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے نظریات کے بطلان کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ بلا شر نے حضرت زید بن ثابت کو تینوں مکی صحابہ کے ساتھ گٹھ جوڑ میں ملوث کرکے انہیں بلا وجہ مہتم کیا ہے۔ اس کی کوئی نقلی یا عقلی دلیل موجود نہیں۔ بلاشر کے خیالات کے ردّ کے لیے مندرجہ ذیل باتیں قابل غور ہیں:

تحقیق ہمیشہ استدلال کی بنیاد پر ہوتی ہے، استدلال یا تو تاریخی شواہد کی بنا پر ہوتا ہے یا مختلف شواہد سے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر نتائج اخذ کئے جاتے ہیں لیکن بلاشر(Blacher) کے اس نقطہ نگاہ کے پیچھے کوئی بالواسطہ یا بلا واسطہ استدلال موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف انصاف اور اصول کا تقاضا ہے کہ جب وہ کوئی دلیل اپنے نقطہ نظر میں پیش نہ کرے تو اس کی بات تسلیم نہ کی جائے خصوصاً جب وہ ایسی بات کررہا ہو جو مسلمات کے برعکس ہو اس صورت میں مسلمانوں ہی کے اس نقطہ نگاہ کو درست تسلیم کیا جائے گا کہ حضرت عثمان کی اس کارروائی کے پیچھے نہ کوئی سازش کارفرما تھی نہ کوئی گٹھ جوڑ ہوا تھا اور نہ ہی اس کا رروائی سے حضرت عثمانؓ ذاتی اغراض حاصل کرنا چاہتےتھے۔50

صحابہ کرامؓ جہاں تقویٰ کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے وہاں وہ قرآن و حدیث کے بارے میں حد درجہ محتاط بھی تھے وہ حضورؐ کے ان ارشادات کی اہمیت کو خوب جانتے تھے اور ان پر عمل پیرا تھے کہ آپ ؐنے فرمایا تھا:
''من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار''51
''جس نے میرے بارے میں جھوٹ بات کی تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔''

ابن کثیر نے ابن عباسؓ سے حضورؐ کا یہ فرمان نقل کیا ہے:
''من قال في القرآن برأیه فلیتبوأ مقعدہ من النار''52
''جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔''

جبکہ مستشرقین خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس کمیٹی کے ارکان حد درجہ محتاط اور متقی تھے بلاشر لکھتا ہے :
''اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ کمیٹی کے ارکان کو اپنی ذمہ داری کا پورا پورا احساس تھا اگرچہ وہ ان دونوں کی تنقید و تبصرہ کے طرز و انداز سے پوری طرح آشنا نہ تھے۔''53

اس کی دونوں باتوں میں تضاد ہے ایک طرف ان کو ذمہ دار اور متقی قرار دیتا ہے اور دوسری طرف قرآن جیسی کتاب میں تحریف کی سازش میں ملوث قرار دیتا ہے ظاہر ہے دونوں میں سے ایک بات درست ہوسکتی ہے اور ہم اس بات کو درست کہیں گے جسے تاریخ اور دلائل و شواہد ثابت کریں۔ ہم اس سلسلے میں ولیم میور کی وضاحت بھی پیش کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنے ساتھی مستشرقین کے مؤقف کو ردّ کرتا ہے، وہ لکھتا ہے کہ اس نظرثانی میں علماء نے آیات اور قرأت میں سے ایک ایک آیت کا پہلے نسخوں سے مقابلہ کیا۔''54

اس کمیٹی میں قریشی صحابہ کو شامل اسی لیے کیا گیا کہ قرآن انہیں کے لب و لہجہ میں نازل ہوا تھا۔55 میور نے بھی اس مصحف کی تیاری کا جواز تسلیم کیا ہے کہ آذربائیجان میں لوگوں کے اندر قرآن پاک کی تلاوت پر اختلاف دیکھنے میں آئے تھے۔56
2) ''حضرت عثمانؓ نے دیگر چند صحابہؓ سے مل کر اپنی پسندکا نسخہ تیار کروا لیا تھا:


اس الزام کا ردّ ہم مندرجہ ذیل حقائق کی روشنی میں کرسکتے ہیں:
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں جب زیدبن ثابثؓ نے تدوین قرآن کے کام کا آغاز کیا تو حضرت عمرؓ نے تدوین قرآن کمیٹی کے سامنے آیت رجم پیش کی لیکن حضرت زید بن ثابتؓ نے اسے قرآن مجید میں شامل نہیں کیا۔57

اگر ایسا ہی مسئلہ ہوتا جیسا کہ مستشرقین بیان کرتے ہیں تو حضرت عمرؓ اپنی حیثیت استعمال کرکے یہ آیت قرآن مجید میں شامل کرسکتے تھے لیکن چونکہ یہ آیت قرآن مجید کا حصہ نہ تھی اس لیے اسے شامل قرآن نہیں کیا گیا۔

حضرت زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ سورۃ التوبہ کی آخری آیت ''لَقَدْ جَآءَكُمْ رَ‌سُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ............'' صرف ایک ہی صحابی سے ملی جب تک اس آیت کے بارے میں بھی وہ شرائط پوری نہ ہوسکیں جو اس وقت ملحوظ رکھی تھیں اس وقت تک اسے شامل قرآن مجید نہ کیا گیا۔

یہی معاملہ عہد عثمانی میں سورۃ الاحزاب کی آیت : ''مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ رِ‌جَالٌ صَدَقُوامَا عَـٰهَدُواٱللَّهَ عَلَيْهِ ........ الخ'' کے ساتھ پیش آیا تھا۔58

اگر حضرت عثمانؓ کے کچھ ذاتی مقاصد تھے تو ان کی تکمیل کے لیے دوسرے صحابہ کو (ان صحابہ کے بجائے) کمیٹی میں شامل کرکے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرسکتے تھے۔

مشہور مستشرق اسپرنگر مسلمانوں کےفن اسماء الرجال (جو انہوں نے حضور کے ارشادات کو پرکھنے کے لیے جاری کیا تھا اور جس کی مثال دنیا کی کوئی اور قوم پیش نہ کرسکی) کے بارے میں لکھتا ہے:
''مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کے اقوال محفوظ کرنے کے لیے پانچ لاکھ لوگوں کے حالات زندگی محفوظ کرلیے۔''59

ایسی محتاط قوم سے یہ بات کیونکر منسوب کی جاسکتی ہے کہ اس نے ملی بھگت کرکے قرآن مجید میں تغیر و تبدل کیا ہے۔

اسلامی معاشرہ اس وقت طبقاتی طور پر امیر اور غریب میں منقسم نہ تھا کہ کچھ صحابہ کو امراء کے طبقہ سے اور کچھ کو غرباء کے طبقہ سے منسوب کیا جائے۔جس معاشرے میں ایک بڑھیا برسرمنبر حضرت عمرؓ جیسے جلالی خلیفہ وقت کو کسی مسئلے پر ٹوک سکتی ہے اور عام آدمی خلیفہ سے یہ کہہ سکتا ہےکہ اپنا خطبہ جاری کرنے سے پہلے مجھے جواب دیں کہ ہم سب کی قمیصیں تو چھوٹی ہیں اور آپؓ کی قمیص بیت المال کے کپڑے سے اتنی لمبی کس طرح بن گئی؟ اور خلیفہ کو اس کا جواب دینا پڑتا ہے۔60 اس معاشرے میں کیونکر گمان کیا جاسکتا ہے کہ ان کے سامنے قرآن حکیم میں تغیر ہوگیا اور وہ خاموش بیٹھے رہے؟

اسی سلسلے میں بنیادی بات یہ ہےکہ :
حضرت عثمانؓ کی سیاسی پالیسیوں کے ساتھ بعض لوگوں نے اختلاف کیا لیکن آپ کو بالاتفاق ''جامع القرآن'' کا خطاب دیا۔61 اگرجمع قرآن بھی سیاسی پالیسیوں کا حصہ ہو تو لوگ آپ کے خلاف فتنہ پیدا کرتے وقت آپ پر تحریف قرآن مجید کا الزام بھی لگاتے۔ یہ مصحف امت میں اتحاد کا باعث ہی ہوا نہ کہ افتراق کا۔

تحریف قرآن مجید کی جسارت تو ایک عام مسلمان بھی نہیں کرسکتا چہ جائیکہ حضرت عثمان جیسی ممتاز ہستی پر یہ الزام عائد کیا جائے۔62

آپؓ کی شرافت کا تو یہ عالم تھا کہ آخری ایام میں جب باغیوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا تھا آپ نے سرکاری محافظ قبول نہ کئے اور فرمایا میری خاطر کسی مسلمان کا خون نہیں بہنا چاہیے۔63

کیا اس بات کی کوئی گنجائش ہوسکتی ہے کہ انہوں نے ذاتی غرض کی خاطر قرآن مجید میں تحریف کردی ہو۔ علامہ مقری اپنی کتاب ''نفخ الطیب'' میں لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ کے تیار کروائے ہوئے مصحف پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔
''ھذا ما جمع علیه جماعة من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منهم زید بن ثابت و عبداللہ بن زبیر و سعید بن العاص رضی اللہ عنهم''64

شاہ ولی اللہ کے الفاظ کہ ''صحابہ کرام ؓ کے مشورہ اور اجماع سے ایک نسخہ تیار کیا گیا'' خاص طو رپر قابل ذکر ہیں اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ کارروائی حضرت عثمان ؓ کا ذاتی کام نہ تھا بلکہ صحابہ کرامؓ ان کے ساتھ شامل تھے۔65

3) کیا حضرت عثمانؓ نے وہ آیات قرآن مجید سے حذف کردی تھیں جن میں حضرت علیؓ اور اہل بیت کے مناقب جمع کئے گئے تھے؟66

اس سلسلے میں مندرجہ ذیل حقائق پیش کئے جاسکتے ہیں:
یہ اعتراض سراسر عقل کے خلاف ہے خصوصاً بنوامیہ اور حضرت علیؓ کے ساتھیوں کے درمیان مخاصمت کو ذہن میں رکھیں تو نظر آتا ہے کہ اتنے شدید ا ختلافات کے باوجود حضرت علیؓ کے ساتھی اسی قرآن پر متفق رہے جسے بعد میں لوگوں نے ''مصحف عثمانی'' کا نام دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ آج تک تمام فرقے قرآن کی صیانت اور عصمت پر متفق ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عثمانؓ جنہوں نے قرآن مجید دو مرتبہ لکھا، دونوں کے عہد میں حضرت علیؓ موجود تھے لیکن کبھی بھی قرآن کے بارے میں اختلاف نہیں ہوا نہ ہی حضرت علیؓ نے کوئی اختلاف کیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ میں کسی ایک کا دور بھی جبر و تشدد کا دور نہ تھا کہ حضرت علیؓ مجبوراً چپ ہوگئے، نہ ہی اس بات کا امکان ہوسکتا تھا کہ قرآن سے آیات و مضامین حذف کئے جارہے ہوں اور لوگ خاموشی سے بیٹھے رہیں۔ اگرحضرت علیؓ تینوں خلفاء کے عہد میں کچھ نہ کرسکے تو بعد میں جب وہ خود خلیفہ بنے تو اس وقت بھی تو وہ سب کچھ کرسکتے تھے اس وقت تو انہیں کوئی روکنے والا نہ تھا اگر وہ ایسا کردیتے کہ (بقول مستشرقین) اصل قرآن امت کو لوٹا دیتے تو انہیں کوئی روکنے والا نہ تھا، اور وہ امت کے ہیرو بن جاتے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ''جامع القرآن'' کا خطاب تو صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عثمانؓ کو ملا ہے۔67

حضرت علیؓ امت سے کہہ سکتے تھے کہ لوگ یہ ہے قرآن کا وہ حصہ جو پہلے تین خلیفہ نے غائب کروا دیا تھا اور ا س کا علم صرف مجھے ہی تھا ہم تو اس کے بالکل برعکس دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پورے عہد حکومت میں اس کا تذکرہ تک نہیں کیا بلکہ ہمیں تو اس کے بالکل برعکس بیانات ملتے ہیں ی بات بھی ذہن میں رہے کہ حضرت علیؓ بہت ہی جرأت مند انسان تھے کیا کوئی شخص یہ بات گوارا کرسکتا ہے کہ کوئی حضرت علیؓ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلے کہ انہوں نے تحریف قرآن کی کارروائی آنکھوں سے دیکھ لی ہو اور کسی کو روکا تک نہیں یا تو بزدلی کا مظاہرہ کیا یا مصلحت کا۔ قرآن مجید جبکہ ان کے بارے میں کہتا ہے کہ :
يُجَـٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ
''وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف نہیں کھاتے۔''68

رمضان المبارک کی راتوں میں جب ابی ابن کعبؓ لوگوں کی امامت کرواتے اور قرآن مجید سناتے تھے اس وقت حضرت علیؓ ان کی اقتداء میں نمازپڑھ رہے ہوتے تھے۔

اگر قرآن مجید میں کوئی ردّبدل ہوا ہوتا تو آپؓ اسی وقت اعتراض کرسکتے تھے نیز یہ کہ حضورؐ آپؓ کو قرآن سنایا کرتے تھے۔69

مصحف عثمانی کی بنیاد وہ نسخہ تھا جو اس وقت حضرت حفصہؓ کی تحویل میں تھا۔70 عقل کہتی ہے کہ اگر حضرت عثمانؓ نے قرآن میں تغیر و تبدل کردیا تھا تو پھر حضرت حفصہؓ کو ان کا مصحف واپس کبھی نہ کیا جاتا کیونکہ ان کی موجودگی میں تو حضرت عثمانؓ کی ساری کارروائی رائیگاں جاسکتی تھی۔ حضرت حفصہؓ نے کبھی بھی یہ نہیں فرمایا کہ اے عثمانؓ آپ نے تو ایک نیا قرآن تیار کرلیا ہے، حالانکہ میرا مصحف کچھ اور تھا۔

حضرت عثمانؓ نے باقی تمام مصاحف نذر آتش کردیئے اور اس کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے تیار کروائے ہوئےنسخے کو کوئی چیلنج نہ کرسکے لیکن اتنی بات تو تاریخ طور پر ثابت شدہ ہے کہ حضرت حفصہؓ والا نسخہ مروان بن حکیم کے دور تک موجود تھا۔ حضرت عثمانؓ کے قرآن کے نسخے کی تیاری(24ھ تا 35 ھ)71 اور مروان کی فرمانروائی کے درمیان کئی برس کا عرصہ گزرا۔ اگر حضرت عثمانؓ نے قرآن کریم میں تغیر و تبدل کردیا تھا تو حضرت حفصہؓ کانسخہ قرآن کی اصل صورت میں موجود تھا۔ لہٰذا اصل نقول تیار کروائی جاسکتی تھیں۔ یہ بات بھی ناقابل تسلیم ہےکہ حضرت عثمانؓ کا دور جبر وتشدد کادور تھا ایسا خیال کرنا تاریخی غلطی ہوگی۔ جس خلیفہ نے بلوائیوں کے ہاتھوں محض اس لیے شہادت قبول کی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان کی حفاظت کرے اور ان کے دروازے پر کھڑا ہو اور حفاظت کرتے ہوئے کسی مسلمان کی جان ضائع ہو، وہ ہستی ذاتی مقاصد کے تحت تیار کردہ قرآن کو لوگوں میں مروج کرنے کے لیے لوگوں پر تشدد کرے گی؟

4)اگریہ کہا جائے کہ حضرت عثمانؓ کی وفات کے بعدحضرت حفصہؓ والے نسخے سے اصل قرآن مجید کو حاصل نہ کیا جاسکا۔ کیونکر حضرت عثمانؓ کےاثرات بڑے گہرے تھے تو یہ بات بھی بڑی خلاف واقعہ ہے کیونکہ جو خلیفہ بلوائیوں کے ہاتھوں کسی میدان میں نہیں بلکہ اپنے گھر میں شہیدہورہا ہے اور اس کی شہادت کا بدلہ بھی نہیں لیا جارہا اس کے سیاسی اثرات کے بارےمیں کیا تصور کیا جاسکتا ہے؟

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب مسلمانوں کے فرقوں میں خون ریز لڑائیاں ہورہی تھیں اس وقت بھی ان سب کا قرآن ایک ہی تھا۔ ایک قرآن پر متفق ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عثمانؓ نے قرآن مجید میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی کیونکہ حضرت عثمانؓ نے دیگر مصاحف ہی تلف کئے تھے لوگوں کےحافظے سے تو قرآن محو نہیں ہوا تھا۔72

حضرت عثمانؓ کےمصحف کے بارے میں علامہ ابن حزم نے اس نقطہ نگاہ کا جواب یوں دیا ہے:
حضرت علیؓ جو روافض کے نزدیک بہت عظیم مقام رکھتے ہیں پونے چھ برس تک برسراقتدار رہے۔ ان کا حکم چلتا تھا ان پر کیا دباؤ تھا کہ انہوں نے اصل قرآن جاری نہیں فرمایا؟ امام حسنؓ کو بھی خلافت ملی وہ بھی معصوم سمجھے گئے ہیں........ ان سب باتوں کے باوجود یہ کس طرح جرأت ہوسکتی ہے کہ ایسی بات کہی جائے ۔73

علامہ فرماتے ہیں:
قرآن پاک میں کوئی حرف کم ہونا، زائد ہونا، تبدیل ہونا ہم کیسے تسلیم کرسکتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں تغیر کےمرتکب ہونے کی وجہ سے ان حضرات سے جہاد، اہل شام سے لڑائی کرنے سے زیادہ ضروری اور اہم تھا۔ 74

کیا حضرت عثمانؓ نے حضرت علیؓ اور اہل بیت سے متعلقہ آیات قرآن مجیدسےنکال دی تھیں؟ مستشرقین کے اس موقف کا جواب ہم انہیں کے ایک ساتھی ولیم میور کے حوالے سے پیش کریں گے۔میور لکھتے ہیں یہ اعتراض سراسر عقل کے منافی ہے۔ خصوصاً بنوامیہ اور حامیان حضرت علیؓ کے مناقشات پرنظر کرتے ہوئے کہ اتنے شدید اختلافات کے باوجود حامیان حضرت علیؓ اسی قرآن مجید پر متفق رہے۔ جسے بعد میں انہیں لوگوں نے ''صحیفہ عثمانی'' سے موسوم کیا نہ صرف یہ بلکہ آج تک تمام شیعہ سنی فرقے قرآن مجید کی صیانت و عصمت پرمتفق ہیں۔75

آخر میں ولیم میور لکھتے ہیں:
''پس ہمارے ان معارضات سے ثابت ہے کہ موجودہ قرآن میں کوئی ایسی آیت نظر انداز نہیں کی گئی جو حضرت علیؓ کی عصمت پر دال ہو۔''

کیا حضرت عثمانؓ نے قرآن مجید 7؍6 حصہ ضائع کردیا؟
5)مستشرقین کا ایک اعتراض یہ ہے کہ:
''حضرت عثمانؓ نے جب مصحف تیارکروایا تو انہوں نے سات قراتوں میں سے چھ کو خارج کردیا اور لوگوں کو ایک ہی قرأت (حرف) پر جمع کردیا۔ اس طرح ان کے بقول حضرت عثمانؓ نے 7؍1 قرآن باقی رہنے دیا اور 7؍6 حصہ ضائع کردیا۔''76

اس اعتراض کا جب ہم تحقیقی جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یا تو اس کے پیچھے مستشرقین کی کم علمی کارفرما ہے یا ان کی دانستہ حقائق سےچشم پوشی۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل نکات اصل مسئلے کی وضاحت کرتے ہیں۔

مستشرقین یہ سمجھتے ہیں کہ شاید قرآن مجید کا ہر ہر لفظ سات سات قرأتوں سے پڑھنے کی اجازت تھی حالانکہ ایسی صورت حال نہ تھی۔

''سبعہ احرف'' محض الفاظ کی ادائیگی کا فرق تھا۔ ایک لفظ دوسرےلفظ کے مترادف تھا، سات میں سے کوئی ایک اختیار کرلیا گیا تو قرآن مجید کا لفظ ادا ہوگیا اس فرق سے معانی میں بھی کوئی واضح فرق نہیں پڑتا تھا۔

مزید جو اس نقطہ نگاہ کا اصل جواب ہے وہ یہ کہ:
حضرت عثمانؓ نے درحقیقت لوگوں کو متواتر اور ثابت شدہ قرأتوں پر جمع کیا تھا یہ تو حقیقت ہی کے برعکس ہےکہ انہوں نے سات قرأتیں یا ''سبعہ احرف'' کو ختم کرکے ایک ''حرف'' پر لوگوں کو جمع کیاتھا۔77 مصحف عثمانی میں ایسا رسم الخط اختیار کیاگیا کہ اس میں بھی وہ ساری قرأتیں اور حروف سما سکیں۔ آپ نے یہ اہتمام اس لیےکیاتھا بلکہ صحیح تر لفظوں میں آپ کے مصحف کا اصلی مقصد یہ تھا کہ شاذ قرأتوں کے پھیلنے کا سدباب کیا جائے اور جائز و ثابت شدہ قرأتوں میں قرآن مجید کو محدود کیا جائے۔78

حضرت عثمانؓ کے رسم الخط جس میں کہ ''سات حروف'' سما سکیں اس کی مثالیں دوسری جگہ بیان کردی گئی ہیں، ذیل میں ان کو مکرر بیان کیا جاتا ہے ''امام ابن حزم'' نے بھی اس سلسلے میں اپنی کتاب ''الفصل فی الملل والنحل'' میں مدلل بحث کی ہے اور اس قسم کے اعتراض کا ردّ خالص عقلی اور منطقی انداز میں کیا ہے کہ کیا فی الواقع حضرت عثمانؓ کے عہد میں قرآن میں تغیر ہوگیا تھا۔ امام موصوف نے خود یہود و نصاریٰ کے طرف سے کئے گئے کچھ اعتراضات کا بھی ذکر کیا ہے اور پھر ان کا ردّ فرمایا ہے۔79

6)مستشرقین نے تمام زور استدلال اس پر صرف کردیا ہے کہ حضرت عثمانؓ کا مصحف ناقابل اعتبار، غیر مرتب اور نامکمل تھا اس کے لیے وہ مختلف قسم کے حربے اختیار کرتے ہیں۔ مزید اعتراض یہ کرتے ہیں کہ حیات نبیؐ کے آخری عرصہ میں متعدد آیات منسوخ ہوگئی تھیں۔ اس سلسلے میں ابن جزری لکھتے ہیں:80
''ولاشك أن القرآن نسخ منه و غیر فیه في العرصة الأخیرة فقد صح النص بذلك عن غیر من الصحابة وروینا بإسناد صحیح عن زر بن جیش قال قال لي ابن عباس رضی اللہ عنه أي القرآءتین تقرأ قلت الآخبرة قال فإن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یعرض القرآن علی جبریل علیه السلام کل عام مرة قال فرض علیه القرآن في العام الذي قبض فیه النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرتین فشھد عبداللہ یعنی ابن مسعود مانسخ عنه و مابدل''
''اس میں شک و شبہ نہیں کہ قرآن میں زمانہ وحی میں نسخ اور تغیرات اللہ کے حکم کے مطابق ہوتے رہے ہیں اور متعدد صحابہ سے ایسی مرویات بھی وارد ہیں اور ہم نے صحیح سند کے ساتھ حضرت زر بن جیش سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن عباسؓ نے پوچھا کہ آپ دونوں قرأتوں میں سے کون سی تلاوت کرتے ہیں تو میں نے جواب دیا ''میں آخری عرصہ والی تلاوت کرتا ہوں پھر فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ سےجبریل امین ہر سال ایک مرتبہ قرآن کا دور فرماتے حتیٰ کہ جس سال آپ کی وفات ہوئی تب سے آپ پر ایک سال میں دو دور کرنا لازم ہوا تھا۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے بھی گواہی دی ہے کہ اس موجودہ قرآن میں اب کوئی منسوخ آیت نہیں نہ ہی کوئی تغیر ہے۔''

یہ تو ہے عرصہ اخیرہ سے قبل بہت سی قرأتیں خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے منسوخ ہوگئیں۔ حضرت ابی بکرہ نے مترادف الفاظ کے جس اختلاف کا ذکر کیا ہے اسکی جزئیات بھی یقیناً اسی وقت منسوخ ہوگئی ہوں، لیکن مستشرقین کا اس نسخ اور تبدیلی سے استدلال کرتے ہوئے قرآن کو محرف بنانا صحیح نہیں کیونکہ حضرت عثمانؓ نے جو مصحف تیارکروایا تھا وہ عرصہ اخیرہ کے مطابق تھا۔ جبکہ تمام منزل وحی تبدیلیوں کے بعد اپنا اپنا اصل مقام پاچکی تھی۔

بناء بریں ہم پوری طمانیت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مصحف عثمانی اور حضرت زید بن ثابتؓ کے اس نسخے میں اصلاً کوئی تعرض نہ تھا جس میں زید نے قرأت کی مختلف صورتوں میں سے صرف قریش کے لہجہ کو محفوظ رکھا۔81

7) بعض لوگوں نے مصحف عثمانی کے بارے میں ابہام پیش کیا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے ایک طرف فرمایا کہ لکھنے والوں میں رسم الخط کے بارے میں کہیں اختلاف ہو تو قریش کے رسم الخط کو ترجیح دی جائے۔82 اور دوسری طرف یہ کہا گیا کہ انہوں نے اپنے ساتوں حروف کو باقی رکھا تو پھر قریش کے رسم الخط کوباقی رکھنے کا کیا مطلب ہوا؟

کیا مصحف عثمانی لغت ِقریش کے مطابق لکھا گیا؟
اس ابہام کا ازالہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ ''حضرت عثمانؓ کے اس جملہ سے حافظ ابن جریر اور بعض دوسرے علماء نےبھی یہ سمجھا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے چھ حرف ختم کرکے صرف ایک حرف یعنی حرف قریش کو باقی رکھا'' لیکن درحقیقت اگر عثمان غنیؓ کے اس ارشاد پر اچھی طرح سے غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس سے یہ سمجھنا درست نہیں کہ انہوں نے حرف قریش کے علاوہ باقی چھ حروف کو ختم کروا دیا تھا بلکہ مجموعی طو رپر تمام روایات کے مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد سے حضرت عثمانؓ کا مطلب یہ تھا کہ :
''اگر قرآن مجید کی کتابت کے دوران''رسم الخط'' کے طریقے میں کوئی اختلاف ہو تو قریش کے ''رسم الخط'' کو اختیار کیا جائے۔ اس مفہوم کو اخذ کرنےکی دلیل یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کی ہدایت کے بعد صحابہ کرامؓ نے جب کتابت قرآن مجید کا کام شروع کیا تو پورے قرآن کریم کے دوران ان میں صرف ایک اختلاف پیش آیا اس اختلاف کا ذکرامام زہری نے یوں فرمایا ہے۔حضرت زید بن ثابتؓ اور باقی اراکین کمیٹی کے درمیان یہ اختلاف ہوا کہ تابوت کو ''تابوۃ'' لکھا جائے یا''تابوت'' لکھا جائے چنانچہ اسے قریش کے رسم الخط کے مطابق ''تابوۃ'' لکھا گیا۔''83

اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عثمانؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ اور قریشی صحابہ کے درمیان جس اختلاف کا ذکر فرمایا اس سے رسم الخط کا اختلاف مراد تھا نہ کہ لغات کا۔ اس سلسلے میں امام طحاوی سے بھی کافی تفصیلات موجود ہیں۔

8)مصحف عثمانی پرایک اعتراض یہ کیا گیا کہ حضرت عثمانؓ کے سامنے جب ان کا لکھوایا ہوا نسخہ پیش کیا گیا تو آپ ؓ نے فرمایا:
''إن في ھذا القرآن لحمنا سنقیمه العرب بألسنتهم''84

اس اعتراض اور حضرت عثمانؓ کے ان الفاظ کے بارے میں علامہ آلوسی فرماتے ہیں:
''لم یصح عن عثمان أصلا'' ''یعنی یہ روایت حضرت عثمانؓ سے بالکل ثابت نہیں ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا جواب یہ ہے کہ:

مصحف عثمانی پر صحابہ کرامؓ کا جماع تھا، ''رسم'' پر بھی اجماع ثابت ہے جبکہ بفرض محال اگریہ غلط ہے تو غلطی پر اجماع (حدیث کی رو سے) نہیں ہوسکتا۔

اس روایت کے آغاز میں بھی مذکور ہے کہ حضرت عثمانؓ نے جمع قرآن کمیٹی کے ارکان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''أحسنتم و أجملتم'' تم نے اچھا اور عمدہ کام کیا۔ اس مجموعہ میں اگر غلطی ہوتی تو آپؓ غلطی کی کس طرح تحسین فرماتے۔

ابوعبیدہ سے عبدالرحمٰن بن ھانی نے نقل کیا ہے کہ میں حضرت عثمانؓ کے پاس تھا کہ کاتبان حضرت عثمانؓ کے سامنے مصاحف پیش کرتے تھے تو اس میں ''لم یتسن''، ''لاتبدیل للخلق'' اور ''وامھل الکافرین'' لکھا ہوا تھا۔ آپ نے قلم دوات منگو کر تینوں جگہوں پر غلطی کی اصلاح کردی اس روایت سے اس شبہ کی نفی ہوتی ہےکہ آپؓ نے احتیاط سے کام نہ لیا۔بلکہ آپؓ نے تو کتابت کی معمولی سی غلطی بھی نہ رہنے گی۔

9) بعض مستشرقین کا کہنا ہے کہ ابن مسعودؓ مصحف عثمانی سے متفق نہ تھے۔

اس سلسلے میں ترمذی شریف میں ایک روایت ہے جس میں امام زہری سے منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی شکایت تھی کہ کتابت کا کام ان کے سپرد کیوں نہ کیاگیا جبکہ حضرت زید بن ثابتؓ کے مقابلے میں انہوں نے زیادہ طویل عرصے تک حضورؐکی صحبت سے فیض حاصل کیا تھا۔''85

اس سلسلے میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے ''فتح الباری'' میں بھی اس نقطہ نگاہ کا ردّ کیا ہے۔آپ فرماتے ہیں: 86
حضرت عثمانؓ کا مؤقف یہ تھا کہ انہوں نے یہ کام مدینہ طیبہ میں شروع کیا تھا اور ابن مسعودؓ اس وقت کوفے میں تھے اور حضرت عثمانؓ ان کے انتظار میں اس کام کومؤخر نہیں کرناچاہتے تھے۔اس کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی حضرت زیدبن ثابتؓ کو یہ کام سونپا تھا انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ یہ مرحلہ بھی انہی کے ہاتھ سے تکمیل کو پہنچے۔ حافظ ابن حجر کی اس توجیہہ کے علاوہ اس نقطہ نگاہ کی تردید یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ حضرت عثمانؓ کو اس وقت جو مسئلہ درپیش تھا اس میں صحابہ کے مقابی مرتبےکا عمل دخل کم تھا بلکہ اس کے مقابلے میں اس مسئلے کا تعلق تجربے سے زیادہ تھا۔

حضورﷺ نے جن صحابہ کرامؓ کو ''علمائے قرآن'' سے موسوم کیا تھا اور قراء ارشاد فرمایا تھا ان میں عبداللہ بن مسعودؓ بھی تھے۔ لیکن عہد عثمانی کا معاملہ کچھ اس سے مختلف تھا۔ کیا زید بن ثابتؓ کے لئے یہ اعزاز کم تھا کہ حضرت ابن مسعودؓ پرفوقیت رکھنے والے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ نے حضرت عثمانؓ سے پہلے ''جمع القرآن'' کے نام پر حضرت زید بن ثابتؓ کو ہی مامور فرمایا۔ اس وقت تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ مدینہ کے اندر موجود تھے اور ان کی موجودگی کے باوجود حضرت زید بن ثابتؓ کو منتخب فرمایا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ حضرت زید بن ثابتؓ کو مصحف کی تیاری پر کوئی پہلی مرتبہ متعین نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس سے پہلے عہد شیخین میں بھی ان کو اس کام کے لئے موزوں ترین قرار دیا گیا تھا۔ حضرت عثمانؓ نے اپنے متقدمین ہی کی اقتداء میں انہیں تعینات کیا تھا۔ دونوں مواقع پر انہیں کا انتخاب اس سبب سے تھا کہ انہیں عرصہ اخیرہ تک حضورؐ کا ساتھ نصیب رہا۔87 اس لئے حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے منصب میں موازنہ کرتے ہوئے ہمیں ان مذکورہ بالا حقائق کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔

10)''احراق مصحف'' کے بارے میں ولیم میور کہتا ہے کہ یہ ایک ناانصافی کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے مجمع علیہ نسخہ کے علاوہ تمام مصاحف تلف کروا دیئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل اس میں ان کا مقصد فقط حفاظت کتاب الٰہی تھا، نہ ہی وہ اس سے کسی ممکنہ تحریف کے مرتکب ہوئے تھے لہٰذا اس دور میں کسی نے بھی حضرت عثمانؓ پر یہ الزام نہیں لگایا کہ انہوں نے قرآن مجید میں تحریف کی ہے۔ اگر بفرض محال حضرت عثمانؓ ایسا ہی کرتے تو یہ راز ضرور آشکار ہوکر رہتا۔ حقیقت میں حضرت عثمانؓ پر یہ اتہام متاخرین شیعہ نے اپنے اعتراض کے لیے وضع کرلیا ہے۔88

اس سلسلے میں مزید تفصیلات کے لیے تففسیر ''روح المعانی'' کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت عثمانؓ کے مصحف پر اعتراضات کے جواب کے سلسلے میں ہم ولیم میور کا ایک اقتباس نقل کرتے ہیں۔ جس میں وہ لکھتا ہے کہ:
''قرآن مجید کی ترتیب خود اس کی شاہد ہے کہ جامعین نے اس میں پوری دقت نظر کا لحاظ رکھا اس کی مختلف سورتیں اس سادگی سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کردی گئیں ہیں جن کی ترتیب دیکھ کر کسی تصنیفاتی تکلف کا شائبہ تک نہیں رہتا جو اس امر کا بین ثبوت ہے کہ جامعین قرآن میں تصنیف کی شوخی سے زیادہ ایمان و اخلاص کا جذبہ کارفرما تھا اور اس ایمان کے ولولہ میں وہ نہ صرف سورتوں بلکہ آیات کی ترتیب میں بھی تصنع سے اپنا دامن بچائے ہوئے نکل گئے۔''89

پھر ولیم میور آخری نتائج اخذ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:
''ہم پورے شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ عہد عثمانی میں زیدبن ثابتؓ نے قرآن کی جس صورت میں نظرثانی کی وہ نہ صرف حرفاً حرفاً درست ہے بلکہ اس کے جمع کرنے کے موقع پر جو اتفاقات یکجا ہوگئے ان کی رو سے بھی یہ نسخہ اس قدر صحیح ہے کہ نہ تو اس میں کوئی آیت اصل وحی الٰہی سے اوجھل ہوئی اور نہ اس قسم کے کسی شائبہ کی گنجائش ہے، نہ ہی جانبین نے از خود کسی آیت کو قلم انداز کیا ہے۔''90

پس! یہی وہ قرآن ہے جسے حضرت محمدﷺ نے پوری دیانت و امانت کے ساتھ دوسروں کو سنایا۔91

مذکورہ بالا عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مستشرقین درحقیقت ''مصحف عثمانی'' پر بے جا اعتراضات کرکے مسلمانوں کو بدظن کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہ بدگمان کرنا تو دور رہا خود ان کے اقوال ہی باہم اس قدر مختلف ہوگئے کہ جن میں ایک جگہ اگر مصحف کی تنقیص کی گئی تو دوسرے مقام پر خود اسی میں قلم سے توصیف و تحمید کے الفاظ بھی نکلے ہیں اور وہ مسلمانوں کو بدظن کرتے کرتے خود اپنےجال میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اس مصحف کو جھٹلانا تو درکنار! خود اس ''حفاظت قرآن'' سے متاثر ہوکر ان کے قدم ڈگمگا گئے ہیں۔ تو یہ ہے قرآن کا اعجاز! کہ کوئی حملے کی نیت بھی کرے تو اپنی ہی ہستی کو جھٹلا بیٹھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ان مستشرقین کو یہ باتیں بھی دین حق کی راغب نہیں کرتیں۔ اللہ نے کس قدر صحیح فرمایا ہے:
وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ ٱللَّهُ لَهُۥ نُورً‌ا فَمَا لَهُۥ مِن نُّورٍ‌ ﴿٤٠...سورۃ النور
''جس کے لئے اللہ تعالیٰ ہدایت کا سامان نہ کریں اسے کون ہدایت دے سکتا ہے۔''

 


حوالہ جات

1. ۔ Ibid, 605
2. ۔ Encyclopaedia of Islam, iv, 1073
3. ۔ Ibid, 1073
4. ۔ Ibid,1070
5. ۔ Ibid, 1070
6. ۔Ibid, 1073
7. ۔ Ibid, 1073
8. ۔ Ibid, 1073
9. ۔ Margoliouth, D.S. Mohammadanism, 70
10. ۔ Ibid, 70
11. ۔ Ibid, 70
12. ۔ (i) Wath, Mantgomery, 'Mohammad at Makka',9
(ii) Frost, S.E. the sacred Writions of World's Great Religious, 307
(iii) Jeffery, Arthur, Matevial for the Study of History of the Tost of the Quran.1
(iv) Nicholson, R.A. Literary History of the Arabs.
(v) Trition, A.S. Islam Belief and Practice, 60.
(vi) فنڈز، پادری، میزان الحق، 36۔ 40
(vii) Bell, Richerd, Introduction to the Quran, 42-44.
13. ۔ حقانی، عبدالحق، البیان فی علوم القرآن، 258
14. ۔ صبحی صالح، ڈاکٹر، مباحث فی علوم القرآن، 79۔ 80
15. ۔ ضربت، عیسوی، تاویل القرآن، 106۔ 107
16. ۔ صبحی صالح، ڈاکٹر حوالہ مذکور، 81
17. ۔ سیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، 1، 61
18. ۔ ایضاً، 61
19. ۔ عینی، بدر الدین، علامہ ''عمدۃ القاری'' شرح صحیح البخاری، x، 61
20. ۔ بخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، III،146
21. ۔ جلال الدین ، سیوطی، حوالہ مذکور، I، 61
22. ۔ ایضاً، فتح الباری، شرح البخاری، IX،15
23. ۔ سیوطی، جلال الدین، حوالہ مذکور، 2، 61
24. ۔ ایضاً، حوالہ مذکور، 61
25. ۔ تقی عثمانی، مولانا، علوم القرآن، 191
26. ۔ سیوطی، جلال الدین، حوالہ مذکور، I، 61
27. ۔ تقی عثمانی، مولانا، حوالہ مذکور،I،191
28. ۔ سیوطی ، جلال الدین، حوالہ مذکور 161
29 ۔ ایضاً، I،61
30. ۔ ایضاً، I، 61
31. ۔ عینی، بدر الدین، علامہ، حوالہ مذکور، vii، 655
32. ۔ ابن حزم، الفصل فی الملل والنحل، II، 81، 82
33. ۔ حقانی، عبدالحق، حوالہ مذکور، 51، 52
34. ۔ زرقانی، عبدالعظیم، محمد، مناھل العرفان فی علوم القرآن، I، 288، 269، 272
35. ۔ Jeffery, Arthur Op-Cit-5-6
36. ۔ Vide Bell, Richard. Intorduction to the Quran, 23
37. ۔ Ibid-23
38. ۔سیوطی، جلال الدین، حوالہ مذکور، 61'I
39. ۔ایضاً 61'
40. ۔ایضاً 61'
41. ۔بخاری ، محمد بن اسماعیل، حوالہ مذکور، 61'III
42. ۔سیوطی، جلال الدین، حوالہ مذکور، 61'I
43. ۔ایضاً، 61'I
44. ۔صبحی صالح، ڈاکٹر، حوالہ مذکور، 79
45. ۔ایضاً،79
46. ۔ایضاً ، 79
47. ۔ایضاً ، 79
48. ۔ایضاً ،80
49. ۔ایضاً ، 80
50. ۔ایضاً ، 80
51. ۔مسلم بن الحجاج القشیری، الجامع الصحیح،I،81
52. ۔ابن کثیر، عماد الدین، تفسیر القرآن العظیم، I،5 (مقدمہ)
53. ۔ صبحی صالح، ڈاکٹر، حوالہ مذکور، 81
54. ۔Mior 'William.
55. ۔ Ibid, xiii
56. ۔Ibid, xiii
57. ۔تفصیلات کے لیے ناسخ و منسوخ، جلال الدین سیوطی، کتاب الاتقان کا مطالعہ کریں۔
58. ۔عہد نبوی میں حفاظت قرآن ، ملاحظہ فرمائیں صبحی صالح کی کتاب علوم القرآن۔
59. ۔شبلی نعمانی، مولانا، سیرت النبیؐ، I،42
60. ۔سیوطی، جلال الدین، حوالہ مذکور، II،124، 127
61. ۔ایضاً ،I، 61
62. ۔ایضاً ، II، 151، 153
63. ۔ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، III، 60
64. ۔مقری، نفخ الطیب، I، 398
65. ۔ولی اللہ، شاہ از اللہ الخفاء عن خلافتہ الخلفاء، II، 5
66. ۔فنڈر، پادری، میزان الحق، 36، 44
67. ۔حریری، غلام احمد، تاریخ تفسیر و مفسرین، 91
68. ۔ المائدہ : 54
69. ۔ بخاری، محمد بن اسماعیل، حوالہ مذکور ، I، 234
70. ۔ ایضاً ، III،146
71. ۔ ندوی، معین الدین، تاریخ اسلام، I،378
72. ۔ ایضاً ، 378
73. ۔ ابن حزم، حوالہ مذکور، II، 78
74. ۔ ایضاً، 78
75. ۔ Mior, William, OP.Cit, xiv
76. ۔ ناصر، کے ایل، قرآن شریف کے متن کا تاریخی مطالعہ، 25
77. ۔ زرقانی، عبدالعظیم ، محمد، حوالہ مذکور، I253، 254
78. ۔ ایضاً، I، 254
79. ۔ ابن حزم، حوالہ مذکور، II، 76، 88
80. ۔ الجزری، ابوالخیر، النشر فی القرآت العشر، II، 38
81. ۔ Mior, William, Opcit, xix
82. ۔ سیوطی، جلال الدین، حوالہ مذکورI، 62
83. ۔ ایضاً، I، 61
84. ۔ آلوسی، محمود سید، علامہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن والسبع المثانی، I، 28
85. ۔ ترمذی، محمد بن عیسیٰ، جامع الترمذی، vi، 229
86. ۔ ابن حجر، عسقلانی، حوالہ مذکور، ix ، 13۔ 15
87. ۔ ایضاً ، 13۔ 15
88. ۔ Mior, William Pocit, vii
89. ۔ Ibid, xxi
اس عبارت میں ولیم میور نے صحابہ کی تعریف کے پس پردہ ان پر ایساسنگین الزام وارد کیا ہے جس کو محترم مقالہ نگار بھانپ نہیں سکے اور وہ ہے ''صحابہ کا سورتوں کی ترتیب کے ساتھ ساتھ آیات کی ترتیب میں بھی عمل دخل''!! اس بارے میں اختلاف موجود ہے کہ آیا سورتوں کی ترتیب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا صحابہ کی ترتیب شدہ؟ لیکن اس پر مکمل اتفاق ہے کہ آیات کی ترتیب توقیفی ہے اور اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں۔ آئندہ کسی مضمون میں اس نکتہ کی مکمل وضاحت کردی جائے گی۔ (ادارہ)
90. ۔ Ibid, xxi
91. ۔ Ibid, xxi