برصغیر پاک و ہند میں علمِ حدیث اور علمائے اہل حدیث کی مساعی

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ (م سئہ 1375ھ)

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اہل حدیث کے اکابرین میں ہوتا ہے۔ مشہور مناظر، شعلہ نوا خطیب، مفسرِ قرآن، علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں اعلیٰ نمونہ تھے۔

1874ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد میر غلام قادر کا شمار شہر کے رؤسا میں ہوتا تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مولانا ابوعبداللہ عبیداللہ غلام حسن سیالکوٹی (م 1918ء/ 1336ھ) سے حاصل کی۔

اس کے بعد شیخ پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث وزیر آبادی (م 1334ھ) سے تفسیر و حدیث میں سند حاصل کی۔ بعد ازاں حضرت شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی (م 1320ھ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سند و اجازہ حدیث حاصل کیا۔

تکمیلِ تعلیم کے بعد دارالحدیث کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی جس میں صدر مدرس آپ تھے۔ تین سال کے بعد یہ مدرسہ بند ہو گیا۔ اس تین سال کی مدت میں کئی حضرات نے آپ سے استفادہ کیا۔ مولانا محمد اسماعیل السلفی رحمۃ اللہ علیہ (گوجرانوالہ۔ م 1387ھ) اور مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی (م 1379ھ) آپ کے خاص شاگردوں میں سے تھے۔

مولانا محمد ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ نے جماعت اہل حدیث اور مسلک اہل حدیث کی اشاعت کے ئے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں، وہ تاریخ اہل حدیث میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ نے اپنی ساری زندگی اسی کام کے لئے وقف رکھی۔ اسی بناء پر اکابر علمائے اہل حدیث نے جلسہ اہل حدیث منعقدہ امرتسر 1913ء میں آپ کو تاریخ اہل حدیث مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ چنانچہ آپ نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود "تاریخ اہل حدیث" مرتب کی۔

تاریخ اہل حدیث ، دینِ حنیف، جمع و تدوینِ حدیث پر محققانہ تبصرہ اور ائمہ دین و محدثینِ عظام نیز علمائے اہل حدیث کے حالات پر مشتمل ہے۔

تصانیف

آپ کی تصانیف کی تعداد، جہاں تک راقم کی رسائی ہو چکی ہے، 66 ہے۔ تفصیل درج ذیل ہے:

بمتعلقہ عصمتِ انبیاء علیہم السلام : 4،سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم: 9، قرآنیات (تفسیر) : 22، ردِ مرزائیت: 11، تاریخ: 2، حدیث و فقہ: 18، کل تعداد: 66

تفسیر قرآن میں آپ کو خاص مہارت تھی۔ آپ نے درج ذیل سورتوں کی تفسیر لکھی اور یہ سب کی سب مطبوعہ ہیں:

1۔ تفسیر واضح البیان (تفسیر سورۃ الفاتحہ) اتنی بسیط اور مفصل تفسیر اس سے قبل نہیں لکھی گئی۔

2۔ تعلیم القرآن،3۔ تفسیر تبصیر الرحمان (پارہ 1-2-3) شیخ علی کی تفسیر رحمانی پر بہ طرزِ قدیم و حواشی جدیدہ، مفیدہ۔4۔ تفسیر سورۃ کہف 5۔ تفسیر سورہ الم سجدہ، یس، ملک، نوح، اور مزمل۔

6۔ جامع الخیرات فی تفسیر سورۃ الحجرات،7۔ انکشاف فی سورۃ ق،8۔ توفیق اللہ العمد فی تفسیر سورۃ البلد، 9۔ النکات القیمہ فی تفسیر سورۃ البینہ،10۔ تحصیل الکمال فی سورۃ العصر، 11۔ القول الجمیل فی سورۃ الفیل، 12۔ تجسس الجیش فی سورۃ القریش، 13۔ الورد الاطہر فی تفسیر سورۃ الکوثر، 14۔ نجم الہدے فی تفسیر سورۃ انجم، 15۔ عرائس البیان فی تفسیر سورۃ الرحم، 16۔ الانوار الالشاطعہ فی تفسیر سورۃ الواقعہ، 17۔ریاض الحسنات، 18۔ اعجاز القرآن، 19۔ آدابِ تلاوت قرآن مجید، 20۔ تفسیر القرآن، 21۔ تائید القرآن، 22۔ شہادت القرآن (یہ آپ کی علمی کتاب ہے، جس میں صرف "﴿إِنّى مُتَوَفّيكَ وَر‌افِعُكَ إِلَىَّ﴾" کی تفسیردو جلدوں میں ہے۔ حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام پر یہ ایسی گواہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو فوت شدہ بتانے والے بھی "﴿كَذ‌ٰلِكَ يُحىِ اللَّهُ المَوتىٰ وَيُر‌يكُم ءايـٰتِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ ﴿٧٣﴾... سورةالبقرة" پکار اٹھے۔

جلد اول میں قرآن مجید سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت اور آیت "﴿إِنّى مُتَوَفّيكَ وَر‌افِعُكَ إِلَىَّ﴾" کی تفسیر ہے، جبکہ جلد دوم میں مرزائے قادیانی کی پیش کردہ 30 آیات کا جواب اور صحیح مفہوم درج کیا گیا ہے، جو مرزا نے ازالہ اعہام میں بزعمِ خود حضرت عیسٰ علیہ السلام کی وفات قبل النزول کے ثبوت میں پیش کی ہیں۔

شہادۃ القرآن کی مقبولیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مشہور ولی اللہ، حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری (م 1381ھ) اس کے بہت گرویدہ تھے اور آپ نے پوری کی پوری کتاب ملتان میں ایک مجلس میں سنی۔ سننے کے بعد حکم دیا کہ اس کی اشاعت بہت ضروری ہے۔ چنانچہ ملتان کے ایک مخیر آدمی نے مولانا رائے پوری کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے طبع کرایا۔

اس کتاب کی پہلی جلد 1320ھ میں شائع ہوئی اور دوسری جلد 1323ھ میں شائع ہوئی (اس وقت آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی زندہ تھے)

دوسری بار: پہلی جلد 1330ھ اور دوسری جلد 1340ھ میں شائع ہوئی۔

تیسری بار: پہلی جلد 1346ھ اور دوسری جلد 1349ھ میں شائع ہوئی۔

چوتھی بار: ملتان سے پہلی اور دوسری جلد اکٹھی 1377ھ میں طبع ہوئیں۔

کتبِ احادیث کے متعلق مولانا سیالکوٹی کی رائے

آپ کے تلمیذ رشید مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی (م 1379ھ) بیان کرتے ہیں کہ مولانا سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:

"حدیث شریف کی کتابیں (صحاح ستہ) تعلیماتِ اسلامیہ کا سرچشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب کا بڑا سرمایہ ہیں۔ جن کی زبان بہت سادہ اور سلیس ہے اور تصنع و تکلف سے پاک۔ افسوس کہ لوگوں نے کتبِ احادیث کی طرف اس نقطہ نگاہ سے توجہ نہیں کی۔ اور تصنع و تکلف سے لبریز زبان اور اظہارِ بیان کو ادب کا نام دے دیا گیا ہے۔ خصوصا ہمارے ملک میں صرف مقاماتِ حریری نثر میں اور سبعہ معلقہ نظم میں معیاری کتب سمجھی گئیں۔ یہ دونوں کتابیں اپنی جگہ اہم ہونے کے باوجود زبان کی صرف دو شاخوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ زبان ادب صرف وہ نہیں، جو شعراء یا ادباء یا صرف اونچے طبقے کے لوگ کہتے ہیں۔ کہ ہر زبان کا سرمایہ زندگی کے تمام شعبوں پر مشتمل ہوتا ہے۔"

مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ (م 1373ھ) جیسے بلند پایہ عالم، مؤرخ اور محقق، جن کی انشاء پردازی، علمی تبحر اور تفقہہ و اجتہادمسلم ہے، مولانا محمد ابراہیم میر رحمۃ اللہ علیہ کے قدر دانوں میں سے تھے۔

وفات

28 جمادی الاولیٰ سئہ 1375ھ (12 جنوری 1956ء) کو سیالکوٹ میں انتقال فرمایا۔

مولانا حافظ عبداللہ امرتسری روپڑی رحمۃ اللہ علیہ (م 1384ھ)

مولانا حافظ عبداللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کا شمار ممتاز علمائے حدیث میں ہوتا ہے۔ آپ ایک بلند پایہ عالم، مؤرخ، مفتی، مفسر، محقق اور محدث تھے، تفسیر و احادیث میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے اور مسائل کی تحقیق میں برصغیر میں آپ کے شل کوئی عالم پیدا نہیں ہوا۔ 1304ھ میں ضلع امرتسر کے موضع کمیرپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد حضرت الامام مولانا عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ (1913ھ) سے جملہ علوم و فنون میں تکمیل کی۔ اور اس کے بعد استاذِ پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث وزیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ (م 1334ھ) سے سند و اجازت حاصل کی۔

تکمیلِ تعلیم کے بعد کچھ عرصہ امرتسر میں رہے اور بعد میں روپڑ ضلع انبالہ کو اپنا وطن بنایا، یہاں آپ نے اپنی زندگی کے کم و بیش 40 سال گزارے۔ روپڑ کے دورانِ قیام آپ نے اخبار "تنظیم اہل حدیث" جاری کیا۔ اس اخبار کے ذریعے آپ نے حدیث و حفاظتِ حدیث کے سلسلہ میں بے شمار علمی خدمات انجام دیں۔ جن حضرات کے مطالعہ میں اخبار "تنظیم اہل حدیث" کے فائل آئے ہیں، وہ اس کی گواہی دیں گے کہ آپ نے حدیث و حفاظتِ حدیث کی کس قدر علمی خدمات سر انجام دی ہیں۔

حدیث کے سلسلہ میں آپ کی تصانی یہ ہیں:

1۔ شرح مشکوٰۃ، از شروع تا کتاب القدر

2۔ مودودیت اور حدیثِ نبویہ

3۔ اہل حدیث کی تعریف

4۔ اہل حدیث کے امتیازی مسائل

5۔ اہل سنت کی تعریف

11 ربیع الثانی 1384ھ (20 اگست 1964ء) کو لاہور میں آپ کا انتقال ہوا۔ رحمہ اللہ تعالیٰ

شیخ الحدیث مولانا ابوسعید شرف الدین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م 1381ھ)

شیخ الحدیث مولانا ابوسعید شرف الدین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات محتاجِ تعارف نہیں۔آپ علمائے اہل حدیث میں ایک ممتاز مقام کے حامل تھے۔ آپ ایک عالم باعمل، بہترین مدرس، معروف محقق اور کامیاب مصنف تھے۔ زہد و ورع کا پیکر، اعلیٰ اخلاق کے مالک، سلف صالحین کا بہترین نمونہ تھے۔ جامع معقولات و منقولات تھے، تفسیر، حدیث، فقہ اور اصولِ فقہ کی جزئیات اور اس کے متعلقات پر وسیع رکھتے تھے۔ عربی ادب، لغت اور تاریخ میں بھی کافی دسترس تھی۔

آپ کا مولد و مسکن (گجرات) پنجاب ہے۔ ہوش سنبھالا تو والدہ انتقال کر گئیں۔ لہذا اپنی خالہ کے ساتھ شاہ پور (پنجاب) چلے گئے۔ ابتدائی تعلیم شاہ پور میں مولانا عبدالحق محدث ملتانی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔

بعد ازاں دہلی تشریف لے گئے تو وہاں مولانا محمد بشیر سہسوانی (م 1326ھ) مولانا حافظ نذیر احمد صاحب ترجمۃ القرآن (م 1330ھ) حکیم حافظ عبدالوہاب نابینا (م 1338ھ) وغیرہ سے درسی کتابیں پڑھیں۔

درسیات میں تکمیل کے بعد علامہ شیخ حسین بن محسن الانصاری الیمانی (م 1327ھ) سے حدیث میں سند و اجازہ حاصل کیا۔ اور مولانا شمس الحق صاحب ڈیانوی عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ، صاحبِ عون المعبود شرح فی سنن ابی داؤد، (م 1329ھ) اور حضرت شیخ الکل السید مولانا محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م 130ھ) سے بھی مستفید ہوئے۔

تکمیل کے بعد دہلی کو اپنا مسکن قرار دیا، وہی شادی کی اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دور میں حضرت شیخ الکل میاں صاحب کا انتقال ہو گیا۔ تو آپ نے ان کی مسند کو عزت بخشی۔ اس وقت آپ کے ساتھ حضرت میاں صاحب کے پوتے مولانا سید عبدالسلام (م 1335ھ) صدر مدرس تھے۔ اور مولانا عبدالرحمن ولایتی (م 1338ھ) معاون مدرس۔

1309ھ میں مدرسہ علی جان دہلی میں منتقل ہو گئے۔ وہاں اس وقت مولانا حافظ عبداللہ صاحب غازی پوری (م 1337ھ)، مولانا محمد بشیر سہسوانی (1326ھ) مولانا عبدالرحمن شاہ پوری، مولانا احمد اللہ دہلوی (م 1348ھ) اور مولانا عبدالسلام بستوی (م 1394ھ) مسندِ تدریس پر فائز تھے۔ رحمہم اللہ

1350ھ میں دہلی میں علیحدہ ایک مدرسہ "مدرسہ سعیدیہ عربیہ" کے نام سے جاری کیا، جو قیامِ پاکستان تک جاری رہا۔

آپ سے بے شمار حضرات نے استفادہ کیا ہے اور ان میں بعض وہ حضرات بھی شامل ہیں، جو بعد میں خود مسندِ تحدیث کے وارث بنے اور بعض حضرات نے تصنیفی دنیا میں نام پیدا کیا۔ مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف بھوجیانی رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کے شاگردِ رشید تھے۔

حدیث پر آپ کی تصنیفی خدمات

آپ کی تصنیفات کی تعداد "7" ہے۔ حدیث پر آپ کی تصانیف کی تفصیل یہ ہے:

1۔ تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ (عربی) اس کا ابتدائی حصہ مولانا احمد حسن دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، مؤلف تفسیر احسن التفاسیر (م 1338ھ) نے لکھا۔ اور کتاب الزکوٰۃ سے لے کر تا آخر مولانا ابو سعید شرف الدین نے مولانا احمد حسن کی نگرانی میں لکھا۔ تنقیح الرواۃ کا ربع اول و دوم مولانا حافظ نذیر احمد دہلوی (م 1330ھ) کی نگرانی میں شائع ہوا۔ باقی ربع نصب طبع مجتبائی دہلی کی طباعت کے لئے دیا گیا مگر ان کی سردمہری کا شکار ہو گیا۔ سئہ 1985ء میں یہ مسودہ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی کوششوں سے حاصل کیا اور برس ہا برس کی محنت کے بعد اس کو دوبارہ ایڈٹ کیا۔

2۔ تخریج آیات الجامع الصحیح البخاری (عربی) غیر مطبوعہ۔

3۔ شرح سنن ابن ماجہ (عربی) غیر مطبوعہ

4۔ شرح مسند امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ۔ اس کے متعلق صاحبِ تراجم علمائے حدیث لکھتے ہیں:

"یہ اس نسخہ کی شرح ہے جسے حضرت العلامہ مولانا حافظ عبدالحکیم صاحب نصیر آبادی نے فقہی ابواب پر مرتب کیا۔یہ تبویب علی نہج الجامع الصحیح البخاری ہے۔ 6 یا 7 مجلدات میں ہے۔ مولانا نصیر آبادی نے بعد تکمیل پوری کتاب آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس دہلی کو پیش کر دی۔ کانفرنس نے اس پر مولانا ابو سعید شرف الدین کا تقر کیا۔ آپ نے اس کی شرح و تنقید و صلاح و تبویب عربی ہی میں محدثانہ طریق پر بڑی محنت اور جانفشانی سے شروع کی۔ یہ کتاب 60 صفحہ تک چھپ گئی کہ یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ کاش یہ کتاب چھپ جاتی تو ہماری جماعت کے اولیات میں شمار ہوتی۔

وفات

قیامِ پاکستان کے بعد دہلی سے تشریف لے آئے اور مختلف مقامات پر قیام کے بعد مستقل طور پر کراچی میں سکونت پذیر ہو گئے۔ وہاں آپ نے، صفر 1381ھ (21 جولائی 1961ء) کو انتقال کیا۔ رحمہ اللہ تعالیٰ


حوالہ و حواشی

1. مولانا غلام حسن کا شمار علمائے اہل حدیث کے ممتاز اکابرین میں ہوتا ہے۔ مولانا غلام مرتضیٰ سیالکوٹی کے تلمیذ تھے۔ حدیث کی سند کتابتا حضرت والا جاہ مولانا السید نواب صدیق حسن خان قبوجی رئیس بھوپال (م 1307ھ) سے حاصل کی۔ خداداد حافظہ تھا۔ جو کتاب ایک دفعہ دیکھ لیتے، یاد ہو جاتی، علم و فضل میں یکتا تھے،زہد و تقویٰ میں اپنی مثال تھے۔ تہجد گزار او شب زندہ دار تھے۔ اتباعِ سنت میں سلف صالحین کا نمونہ تھے۔ فتویٰ میں حق گوئی یہاں تک مسلم تھی کہ دیگر مسلک کے لوگ آپ کی طرف رجوع کرتے ۔ (تاریخ اہل حدیث، ص 431) آپ کی تصانیف یہ ہیں: کتاب الصلوٰۃ ما ثبت بالسنۃ (نماز کے متعلق لوامع الانوار فی عقائد الابرار ) (مسلک اہل حدیث پر اعتراضات کے جواب میں) شمس الضحیٰ (بعض معترضین کےجواب میں) شہابِ ثاقب(تقویۃ الایمان پر اعتراضات کے جواب میں) القول الفصیح فی وجوب الفاتحہ علی الماموم فی المذہب الصحیح (عربی، فاتحہ خلف الامام کے متعلق) انیس الغریب (غیر مطبوعہ) خطبہ جمعہ کے جواز میں (ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ص 61، تاریخ اہل حدیث ص 433) 18 جولائی 1918ء (5 ربیع الثانی 1336ھ) کو آپ کا انتقال ہوا۔

2. استاذ الاساتذہ مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری (م 1322ھ) مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی صاحب حسن البیان (م 1341ھ) علامہ شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی صاھب عون المعبود فی شرح سنن ابی داؤد (م 1329ھ) مولانا شاہ عن الحق صاحب پھلواروی (م 1333ھ) مولانا عبدالجبار عمر پوری (م 1334ھ) امام المناظرین مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری (م 1367ھ)

3. شہادۃ القرآن

4. تذکرہ مولانا عبدالقادر رائے پوری

5. شہادۃ القرآن

6. الاعتصام، لاہور 19 اپریل سئہ 1974ء ص5

7. الاعتصام، لاہور 16 مارچ سئہ 1956ء

8. تراجم علمائے حدیث ہند، ص 181

9. ایضا ص 182

10. ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ص 116

11. ایضا ص 119