یہ عیشِ صبح یوں ہی رنجِ شام کا ہے نشاں
يہ اک شہید کے ادنیٰ مقام کا ہے نشاں
فلک پہ قوس و قزح، گلستاں میں سروِ بلند
ترے حضور سجود و قیام کا ہے نشاں
وہ اشکِ خوں جو گرا آنکھ سے ترے غم میں
چراغِ انجمنِ صبح و شام کا ہے نشاں
ترے ہی ملک میں بستے ہیں تیرے منکر بھی
یہ لطفِ خاص ترے فیضِ عام کا ہے نشاں
یہ دھوپ چھاؤں، یہ دن رات یہ بہار و خزاں
الہی تیرے ہی حسنِ نظام کا ہے نشاں
حضورِ ختمِ رسل (صلی اللہ علیہ وسلم) تھہ درود و سلام
رہِ شاعت خیر الانام کا ہے نشاں
گزر رہے ہیں زمانے مگر مہک ہے وہی
چمن میں یہ مِرے نگہت خرام کا ہے نشاں
کلامِ پاک جسے، ہم حدیث کہتے ہیں
وہ لا کلام، خدا کے کلام کا ہے نشاں
کلامِ پاک کے ہر حکم کو بجا لانا
کلامِ پاک کے یہ احترام کا ہے نشاں
ذرا سے کام کی تکمیل بھی نہیں ہوتی
یہ حالِ زار تیرے عزمِ خام کا ہے نشاں
زوال، شوق کی بنیاد ہے یہ مایوسی
امیدِ وصل ہی شوق تمام کا ہے نشاں
دعائیں کیوں نہیں پاتیں قبولیت کا شرف
سمجھ لے یہ ترے اکلِ حرام کا ہے نشاں
رضائے مالک و آقا پہ سر نجم رہنا
یہ ایک صابر و شاکر غلام کا ہے نشاں
یہ رقص و نغمہ، یہ جام و سبلو، یہ چند و رباب
یہ معصیت ہے، یہ شیطان کے دام کا ہے نشاں
نہ اب وہ تیرا لڑکپن، نہ اب وہ تیرا شباب
یہ کہنہ سالی اجل کے پیام کا ہے نشاں
وفور سجدہ سے یہ حاجیوں کا نقشِ جبیں
بہارِ گلشن بیت الحرام کا ہے نشاں
سفید چیز ہر اک دلربا نہیں ہوتی
سفید داغ بدن پر جذام کا ہے نشاں
بہارِ باغ، خزاں کی دلیل ہے جیسے
یہ عیشِ صبح یوں ہی رنجِ شام کا ہے نشاں
سر اور ریش میں آنے لگے جو موئے سفید
یہ تیری عمر کے اب اختتام کا ہے نشاں
خیال دل میں ترے موت کار ہے عاجز
برائے موت یہی اہتمام کا ہے نشاں