رویتِ ملائکہ قرآنِ کریم کی روشنی میں
اس میں شک و شبہ نہیں کہ ملائکہ مستور و مخفی مخلوق ہیں۔ عام حالات میں یہ نظر نہیں آیا کرتے۔ لیکن بعض خصوصی حالات میں، جبکہ وہ انسانی پیکر میں نمودار ہوں، تو ان کا نظر آجانا امرِ مستعبد نہیں۔ چنانچہ نزولِ قرآن مجید سے لے کر اب تک علماء و مفکرین، فقہاء و مجتہدین اور محدثین و مفسرین ہمیشہ اس کے قائل رہے ہیں۔ البتہ معتزلہ وہ پہلا فرقہ تھا جس نے اس کا انکار کیا۔ اور آج کے اس دور میں غلام احمد پرویز نے اس حقیقت کا انکار کیا ہے۔
پرویزی موقف:
اس سلسلہ میں غلام احمد پرویز کا موقف درج ذیل ہے:
"ملائکہ کائنات کی غیر مرئی قوتیں ہیں، اس لیے ان کے متعلق کہہ دیا گیا ہے کہ تم ان کے لشکروں کو نہیں دیکھ سکتے۔" (لغات القرآن ص 244)
"قرآن کریم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف جنگوں میں ملائکہ کے نزول اور تائید کا ذکر آیا ہے۔ اور ہر مقام پر یہ کہا گیا ہے ﴿لَمْ تَرَوْهَا﴾ "تم انہیں نہیں دیکھ سکتے تھے۔" (26/9، 40/9، 9/33) یعنی قرآن کریم بالفاظ صریح کہہ رہا ہے کہ فرشتے (اور تو اور، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک کو بھی) نظر نہیں آ سکتے تھے۔(تفسیر مطالب الفرقان ج2 ص 402)
جائزہ:
اس مفکرِ قرآن کی اس عبارت کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ ﴿لَمْ تَرَوْهَا﴾ اُن فرشتوں کے بارے میں کہا گیا ہے جو انسانی شکل میں نہیں اترے تھے۔ رہے وہ ملائکہ جو انسانی شکل و صورت میں نازل ہوتے تھے، تو ان کا دکھائی دیا جانا ایک ایسی حقیقت ہے جو خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔ چنانچہ قرآن کریم یہ بیان کرتا ہے کہ قومِ لوط کو عذاب دینے کے لیے جو فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آئے تھے، وہ چونکہ انسانی پیکر میں تھے اس لیے اس بگڑی ہوئی قوم نے بھی انہیں دیکھا اور حضرت لوط علیہ السلام نے بھی انہیں دیکھا۔ قومِ لوط تو انہیں دیکھتے ہی کاشانہ نبوی پر جمع ہو گئی اور اس کے بعد وہ کچھ پیش آیا جس کی تفصیل قرآن پاک کے مختلف مقامات پر دی گئی ہے۔
فرستادگانِ لوط علیہ السلام اور پرویز:
لیکن پرویز صاحب ان فرشتوں کے متعلق فرماتے ہیں:
"قرآن کریم نے کہیں نہیں کہا کہ وہ فرشتے تھے۔" (تفسیر مطالب الفرقان ج2 ص 401، حاشیہ)
حالانکہ قرآن کریم اس واقعہ کو جس سیاق و سباق میں بیان کرتا ہے، وہ ان فرستادگان کے فرشتہ ہونے کا قطعی ثبوت ہے۔ آپ سورۃ الحجر کو نکال کر دیکھئے۔ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے، کفارِ عرب یہ مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ:
﴿لَو ما تَأتينا بِالمَلـٰئِكَةِ إِن كُنتَ مِنَ الصّـٰدِقينَ ﴿٧﴾... سورةالحجر
"اگر تم سچے ہو تو ہمارے سامنے فرشتوں کو لے کر کیوں نہیں آ جاتے؟"
اس مطالبہ کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے یوں دیا:
﴿ما نُنَزِّلُ المَلـٰئِكَةَ إِلّا بِالحَقِّ وَما كانوا إِذًا مُنظَرينَ ﴿٨﴾... سورةالحجر
"ہم فرشتوں کو یونہی نہیں اتار دیا کرتے، جب وہ اُترتے ہیں تو حق کے ساتھ اترتے ہیں اور پھر لوگوں کو مہلت نہیں دی جاتی۔"
یہاں یہ بات ذہن نشین رکھیے کہ فرشتوں کے نزول کو "حق کے ساتھ" (بالحق) مشروط کیا گیا ہے۔ یہ حق کیا ہے؟ اس سے مراد وہ فیصلہ خداوندی بھی ہے جو کسی کے لیے موجبِ سعادت و بشارت ہو، اور وہ امر ایزدی بھی جو کسی کے لیے باعثِ عذاب و عقوبت ہو۔ چنانچہ اس امر کی تائید، اُن "فرستادگان" کے نزول سے ہوتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور قومِ لوط کی جانب بھیجے گئے اور جن کا ذکر بھی، اسی سورۃ الحجر میں ذرا آگے چل کر ہے۔ یہ "فرستادگان" پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر انہیں رزندِ ارجمند کی بشارت دیتے ہیں۔ قرآن کریم یہاں ان کے یہ الفاظ نقل کرتا ہے:
﴿قالوا بَشَّرنـٰكَ بِالحَقِّ...﴿٥٥﴾... سورة الحجر
"فرشتوں نے کہا، "ہم تمہیں امرِ حق کے ساتھ بشارت دے رہے ہیں۔"
پھر یہی "فرستادگان" جب قومِ لوط کو عذاب دینے کے لیے، حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچتے ہیں تو وہاں یہ کہتے ہیں کہ:
﴿وَأَتَينـٰكَ بِالحَقِّ...﴿٦٤﴾... سورةالحجر
"ہم حق کے ساتھ تمہارے پاس آئے ہیں۔"
یہ ہے وہ "الحق" جس کے ساتھ وہ "فرستادگان" بھیجے گئے ہیں، جن کا ذکر سورۃ الحجر کی آیت 7،8 میں ملائکہ کے نام سے کیا گیا ہے۔ اور جس کی قید، قرآن پاک نے مختلف مقامات پر یا تو انبیاء کے متعلق لگائی ہے اور یا فرشتوں کے متعلق لاریب، یہاں ان "فرستادگان" سے مراد، انبیاء علیہم السلام تو ہو نہیں سکتے، کیونکہ جن کے پاس وہ آئے ہیں یعنی حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہم السلام، وہ خود نبی ہیں، لہذا یہ "فرستادگان" فرشتے ہی ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کا فرشتہ ہونا اس سے بھی ظاہر ہے (جیسا کہ گزر چکا) کہ اسی سورۃ الحجر کی آیات 7،8 میں انہی فرستادگان کو "ملائکہ" کا نام دیا گیا ہے اور ان کی آمد کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ "حق کے ساتھ" نازل ہوتے ہیں، اور جب وہ حق کو نافذ کر ڈالتے ہیں تو "﴿وَما كانوا إِذًا مُنظَرينَ ﴿٨﴾... سورة الحجر" پھر انہیں مہلت نہیں دی جاتی"۔۔ یہاں آپ دیکھیے کہ قومِ لوط کو قطعا مہلت نہیں دی گئی۔ عذاب اپنے وقتِ موعود پر (جو صبح کا وقت تھا) آیا اور انہیں پیوندِ خاک کر گیا۔ یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ یہ "فرستادگانِ لوط" یقینا ملائکہ تھے۔ اگرچہ قرآن مجید کا یہ اسلوبِ بیان "فرستادگانِ لوط" کے ملائکہ ہونے کو شک و شبہ سے بالاتر کر دیتا ہے، تاہم یہاں ہم پرویز صاحب ہی کا ایک اقتباس پیس کرنا مناسب سمجھتے ہیں جس میں انہوں نے لوط علیہ السلام کی طرف بھیجے جانے والوں کو صراحت کے ساتھ "فرشتے" کہا ہے۔ سورہ حجر میں ہے:
﴿فَلَمّا جاءَ ءالَ لوطٍ المُرسَلونَ ﴿٦١﴾ قالَ إِنَّكُم قَومٌ مُنكَرونَ ﴿٦٢﴾﴾... سورةالحجر
"پھر جب ایسا ہوا کہ یہ بھیجے ہوئے (فرشتے ) خاندانِ لوط کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا "تم لوگ اجنبی معلوم ہوتے ہو۔" (معارف القرآن ج3 ص 94)
جبریل بشکلِ انسان:
فرشتوں کے انسانی شکل میں دکھائی دیے جانے کی دوسری واضح مثال وہ ہے جس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی پیکر میں حضرت مریم علیہ السلام کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ سورہ مریم میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ آیات درج ذیل ہیں:
﴿وَاذكُر فِى الكِتـٰبِ مَريَمَ إِذِ انتَبَذَت مِن أَهلِها مَكانًا شَرقِيًّا ﴿١٦﴾ فَاتَّخَذَت مِن دونِهِم حِجابًا فَأَرسَلنا إِلَيها روحَنا فَتَمَثَّلَ لَها بَشَرًا سَوِيًّا ﴿١٧﴾ قالَت إِنّى أَعوذُ بِالرَّحمـٰنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا ﴿١٨﴾ قالَ إِنَّما أَنا۠ رَسولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلـٰمًا زَكِيًّا ﴿١٩﴾ قالَت أَنّىٰ يَكونُ لى غُلـٰمٌ وَلَم يَمسَسنى بَشَرٌ وَلَم أَكُ بَغِيًّا ﴿٢٠﴾ قالَ كَذٰلِكِ قالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَىَّ هَيِّنٌ وَلِنَجعَلَهُ ءايَةً لِلنّاسِ وَرَحمَةً مِنّا وَكانَ أَمرًا مَقضِيًّا ﴿٢١﴾... سورةمريم
ان آیات کا ترجمہ معارف القرآن میں پرویز صاحب کے قلم سے ملاحظہ ہو:
"اور (اے پیغمبر)، کتاب میں مریم کا معاملہ بیان کر، اس وقت کا معاملہ، جب وہ ایک مکان میں، کہ پورب کی طرف تھا، اپنے گھر کے آدمیوں سے الگ ہو گئی پھر اس نے ان لوگوں کی طرف پردہ کر لیا۔ پس ہم نے اس کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا اور ایک بھلے چنگے آدمی کے روپ میں نمایاں ہو گیا۔ مریم اسے دیکھ کر (گھبرا گئی، وہ) بولی "اگر تو ایک نیک آدمی ہے تو میں خدائے رحمان سے نام پر تجھ سے پناہ مانگتی ہوں" فرشتہ نے کہا "میں تو تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں اور اس لیے نمودار ہوا ہوں کہ تجھے ایک پاک فرزند دیدوں۔" مریم بولی "یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرے لڑکا ہو، حالانکہ مجھے کسی مرد نے چھوا نہیں اور نہ میں بدچلن ہوں۔" فرشتہ نے کہا " ہو گا ایسے ہی، تیرے پروردگار نے فرما دیا کہ یہ میرے لیے کچھ مشکل نہیں، وہ کہتا ہے کہ یہ اس لیے ہو گا کہ اسے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دوں اور میری رحمت کا اس میں ظہور ہو، اور یہ ایسی بات ہے جس کا ہونا طے پا چکا ہے۔" (معارف القرآن ج3 ص 549)
سورہ مریم آیت 21 کا ترجمہ ایک اور مقام پر پرویز صاحب نے یوں کیا ہے:
"فرشتہ نے کہا "ہو گا ایسا ہی، تیرے پروردگار نے فرمایا دیا کہ یہ میرے لیے کچھ مشکل نہیں، وہ کہتا ہے، یہ اس لیے ہو گا کہ اسے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دوں اور میری رحمت کا اس میں ظہور ہو اور یہ ایسی بات ہے جس کا ہونا طے پا چکا ہے۔" (معارف القرآن ج3 ص 551)
ایک اور مقام پر ان ہی آیات کا ترجمہ، متعدد قطعات میں دیا گیا ہے۔ چند ٹکڑوں کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
"﴿فَأَرسَلنا إِلَيها روحَنا فَتَمَثَّلَ لَها بَشَرًا سَوِيًّا ﴿١٧﴾... سورةمريم"۔ پس ہم نے اس کی طرف اپنا رشتہ بھیجا اور وہ ایک بھلے چنگے آدمی کے روپ میں نمایاں ہو گیا۔"
فرشتے نے جواب دیا "﴿قالَ إِنَّما أَنا۠ رَسولُ رَبِّكِ... ﴿١٩﴾... سورةمريم" فرشتے نے کہا "میں تو تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں۔"
﴿قالَ كَذٰلِكِ قالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَىَّ هَيِّنٌ...﴿٢١﴾... سورةمريم۔۔۔"فرشتہ نے کہا، "ہو گا ایسا ہی، تیرے رب نے فرما دیا کہ یہ میرے لیے کچھ مشکل نہیں۔" (معارف القرآن ج3 ص 491، ص 492)
"مفکرِ قرآن" کی یہ تصریحات، جو اُن ہی کے تراجم سے ماخوذ ہیں، اس امر پر شاہد عدل ہیں کہ اگر فرشتہ انسانی روپ میں نمودار ہو کر انسانوں کے پاس آئے تو وہ نہ صرف یہ کہ مرئی و مشاہد مخلوق ہے، بلکہ انسانوں کے ساتھ ہمکلام بھی ہوتا ہے۔
ایک آیت، کئی تراجم و مفاہیم:
پرویز صاحب اپنی فکری مجبوریوں کی بناء پر قرآن کو جس طرح تختہ مشق بناتے رہے ہیں، اس کی ایک واضح مثال ، آیت قرآنی ۔۔۔ "﴿ فَأَرسَلنا إِلَيها روحَنا فَتَمَثَّلَ لَها بَشَرًا سَوِيًّا ﴿١٧﴾... سورةمريم"۔۔۔ کے مختلف مفاہیم و تراجم ہیں جو انہوں نے مختلف سن و سال میں پیش کیے ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
٭ جولائی 1935ء ۔۔۔"پس ہم نے اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا اور وہ ایک بھلے چنگے روپ میں نمایاں ہو گیا۔" (معارف القرآن ج3 ص 549)
٭ اپریل 1961ء ۔۔۔"﴿ فَأَرسَلنا إِلَيها روحَنا فَتَمَثَّلَ لَها بَشَرًا سَوِيًّا ﴿١٧﴾... سورةمريم" تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ حضرت مریم علیہ السلام کی نگاہ میں ایک متوازن انسان کی شکل میں سامنے آیا۔ اندازہ یہ ہے کہ یہ واقعہ خواب کا ہے۔ یعنی حضرت مریم نے یہ کچھ اپنے خواب میں دیکھا۔" (لغات القرآن ص 1523)
٭ اکتوبر 1970ء۔۔۔"(خانقاہیت کی زندگی اور وہاں کے ناخوش آئند واقعات نے اس کے دل پر ایسا اثر چھوڑا تھا کہ وہ) وہاں بھی لوگوں سے الگ تھلگ رہتی تھی ہم نے (ان اثرات کو مٹانے کے لیے اسے زندگی کے خوشگوار پہلوؤں کے متعلق) تقویت بخش اشارہ کیا (جو اس کے خواب میں) ایک اچھے بھلے انسان کی شکل میں سامنے آیا۔" (مفہوم القرآن آیت 17/19)
٭ نومبر 1981ء۔۔۔"﴿ فَأَرسَلنا إِلَيها روحَنا...﴿١٧﴾... سورةمريم" کے معنی ہوں گے خدا نے حضرت زکریا علیہ السلام کی وساطت سے حضرت مریم علیہ السلام کی طرف پیغام بھیجا۔۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے یہ پیغام اس شخص کی معرفت بھیجا جسے انہوں نے حضرت مریم کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے منتخب اور آمادہ کیا تھا (یعنی اناجیل کے بیان کی رُو سے، یوسف نجار) "﴿بَشَرًا سَوِيًّا ﴿١٧﴾... سورةمريم" سے یہی نوجوان مراد ہے۔ اب رہا لفظ تمثل۔۔سو لغت کی رو سے، اس کے معنی "داستان زدن" یعنی بات کرنے کے بھی آتے ہیں۔
لہذا، آیت (17/19) کے معنی یہ ہوں گے کہ حضرت مریم علیہ السلام ان پریشانیوں میں افسردہ خاطر رہتی تھیں کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے ان کی طرف خدا کا پیغام دے کر ایک نوجوان کو بھیجا، اس اجنبی نوجوان کو دیکھ کر حضرت مریم نے کہا "﴿قالَت إِنّى أَعوذُ بِالرَّحمـٰنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا ﴿١٨﴾... سورة مريم" اگر تو خدائے رحمان کے قانون کا احترام کرتا ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمان کی پناہ میں آ جانا چاہتی ہوں۔" اس نوجوان نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں: "﴿قالَ إِنَّما أَنا۠ رَسولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلـٰمًا زَكِيًّا ﴿١٩﴾... سورة مريم "میں تیرے رب کی طرف سے ایک پیغام لے کر آیا ہوں" یہاں لفظ "رب" سے مراد اللہ تعالیٰ بھی ہو سکتا ہے اور اگر اس کے لغوی معنوں میں "پرورش کرنے والا" (مربی) لیا جائے، تو اس سے مراد حضرت زکریا علیہ السلام ہوں گے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ مفہوم زیادہ قرینِ قیاس ہے۔۔۔اور وہ پیغام یہ ہے کہ وہ (خدا) تجھے ایک عمدہ نشوونما پانے والا بچہ عطا کرنا چاہتا ہے۔" (مطالب الفرقان ج4 ص 106)
ان اقتباسات کی رو سے:
1۔ جولائی 1935ء میں "﴿فَأَرسَلنا إِلَيها روحَنا﴾" میں بھیجنے والا، خود خداوندِ قدوس تھا۔ اور جسے بھیجا گیا وہ ایک فرشتہ تھا جسے عالمِ واقعہ میں بھیجا گیا۔
2۔ اپریل 1961ء او اکتوبر 1970ء میں "﴿أَرسَلنا﴾" کا فاعل مبہم اور اس کا مفعول مجہول تھا۔ کیونکہ یہ معاملہ عالمِ واقعہ میں نہیں بلکہ عالمِ خواب میں پیش آیا تھا۔
3۔ نومبر 1981ء میں مرسِل، اللہ تعالیٰ کی بجائے حضرت زکریا علیہ السلام ہو گئے اور جسے ارسال کیا گیا وہ ازروئے اناجیل، یوسف نجار تھا۔
لطف یہ ہے کہ ان تینوں متضاد متبائن مفاہیم کو "مفکرِ قرآن" صاحب نے بڑی کوہ کنی اور جانکاہی سے قرآن ہی سے برآمد کر لیا ہے۔ چنانچہ حسبِ خواہش جو چاہا، نکال کر پیش کر دیا۔
انکارِ رؤیت ملائکہ کی لِم:
یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ پرویز صاحب اوائل عمری میں فرشتوں کی رؤیت کے قائل تھے، جیسا کہ گذشتہ بحث سے واضح ہے۔ مگر اب وہ رؤیت کے قائل ہونا تو درکنار، سرے سے اس بات ہی کے منکر ہیں کہ وہ انسانی پیکر میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔ پرویز صاحب کے اس تغیرِ فکر کی اصل لِم کیا ہے؟ وہ بہرحال ایک ذہین و فطین شخص تھے، مگر انہوں نے اپنی تمام تر ذہانت و فطانت کو "سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم" کی عدمِ حجیت میں کھپا دیا۔ اس مقصد کے لیے قرآن سے ایسے اصول کشید کیے جن کی بنیاد پر سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی اور آئینی حیثیت کو کالعدم کیا جائے۔ احادیث کی کتب میں ایسے بہت سے واقعات مذکور ہیں جن میں جبریل علیہ السلام کی آمد کی غرض و غایت، اخبار و اعلام اور منجانب اللہ بعض دینی احکام کی تعلیم و تبلیغ بیان کی گئی ہے۔ ایسی تمام احادیث کو بیک جنبشِ قلم مسترد کر ڈالنے کے لیے اس سے بڑا کوئی حربہ نہیں ہو سکتا کہ ان کو خلافِ قرآن قرار دے دیا جائے۔ اور بڑی تحدید و تحدی کے ساتھ یہ بلند بانگ دعویٰ کر ڈالا جائے کہ:
"ملائکہ نظر نہیں آیا کرتے۔ غزوہ حنین کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "﴿وَأَنزَلَ جُنودًا لَم تَرَوها﴾ "اس نے مؤمنین کی مدد کے لیے ایسے لشکر نازل کیے جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تھے۔" ذرا آگے چل کر جنگ بدر کے سلسلہ میں بھی یہی ارشاد ہے کہ "﴿وَأَيَّدَهُ بِجُنودٍ لَم تَرَوها...﴿٤٠﴾... سورة التوبة"اور خدا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے لشکروں سے مدد فرمائی جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تھے۔" سورۃ انفال میں ان جنود کو "ملائكة" کہہ کر پکارا گیا ہے (9/8) نیز سورہ آل عمران میں بھی (124/3)۔ یہ بحث کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام کی طرف ملائکہ انسانی شکل میں آئے تھے، تفصیل طلب ہے) ملائکہ کے معنی قاصد یا پیغام رسان بھی ہوتے ہیں۔ جب قرآن کریم نے بنصِ صریح کہہ دہا کہ ملائکہ کو (عام انسان تو ایک طرف خود) صحابہ کبار اور نبی اکرم بھی نہیں دیکھ سکتے تھے ﴿لَمْ تَرَوْهَا﴾ تو قرآن کے کسی مقام میں بھی یہ معنی نہیں لیے جا سکتے کہ فرشتے انسانی پیکر میں سامنے آیا کرتے تھے۔ جبریل امین کو تو قرآن کریم نے بالخصوص "الروح الامين" اور "روح القدس" کہہ کر پکارا ہے۔ بنابریں، یہ تصور ہی غلط ہے کہ جبریل امین ایک انسان کی شکل میں مجلسِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آ کر بیٹھے تھے۔" (ماہنامہ طلوع اسلام نومبر 1981ء ص 49)
یہ ہے پرویز صاحب کا اندازِ مطالعہ قرآن اور اسلوب، تحقیق قرآن کہ وہ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدمِ حجیت کو ذہنی طور پر پہلے سے طے کر لیتے ہیں، پھر اپنے ان ذپنی افکار کی حمایت میں قرآن سے دلائل کشید کرنے میں جُت جاتے ہیں، رؤیتِ ملائکہ کا انکار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس اندازِ تحقیق میں انہیں بسا اوقات یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ پہلے کیا لکھ چکے ہیں؟ ۔۔"تحقیق کی اس مخصوص ڈگر پر چلتے ہوئے وہ قرآنی آیات کے مفہوم میں "ترمیم و مرمت" سے بھی دریغ نہیں کیا کرتے تھے، ایک زمانہ تھا کہ وہ "لم تروها" کا ترجمہ "جو تمہیں نظر نہیں آتی تھیں۔" (معارف القرآن ج4 ص 548 ج4 ص 578) کے الفاظ میں کیا کرتے تھے۔ مگر اب وہ "تم نہیں دیکھ سکتے تھے" کے الفاظ میں کرتے ہیں۔ پہلے ترجمہ سے یہ بات متبادر ہوتی ہے کہ ان لشکروں کو اہلِ ایمان نے نہیں دیکھا تھا مگر دوسرے ترجمے میں دیکھنے کی سکت، رؤیت کی قدرت اور امکانِ دیدار ہی کی نفی کی گئی ہے۔ اور یہ بہرحال ایک غلط چیز ہے، جسے محض اپنے ذہنی مزعومہ کو تحفظ دینے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔
حوالہ و حواشی
1. "(عربی)" کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ "تم نے انہیں نہیں دیکھا۔" یہاں (ملائکہ کو اس موقع پر) دیکھنے کی نفی کی گئی ہے، مگر پرویز صاحب کا ترجمہ "قدرتِ دیدار" اور "امکانِ رؤیت" ہی کی نفی کر رہا ہے، جو قطعی غلط ہے۔
2. "بھیجے ہوئے" کے بعد بین القوسین ("فرشتے") ۔۔۔ یہ وضاحت خود پرویز صاحب ہی کی ہے۔
3. یہ صرف ایک مثال ہے، ایسی بیسیوں مثالیں ہیں جس میں ایک آیت کے باہم متضاد مفاہیم پیش کیے گئے ہیں۔ ملاحظہ ہو ہماری کتاب "ایک خواب کئی تعبیریں"
4. یہ سند انہی اناجیل سے لی جا رہی ہے جن کے محرف ہونے کا پرویز صاحب نے ہمیشہ ڈھونڈورا پیٹا ہے۔
5. سورۃ النحل کی آیت 106 میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں۔ یہ الفاظ آیت 102 کے ہیں۔ (ادارہ)