شریعتِ بل کی کہانی۔کچھ اپنی، کچھ ان کی زبانی

بلی بالآخر تھیلے سے باہر آ گئی


13 جولائی سئہ 1985ء کو سینٹ کے دو ارکان مولانا سمیع الحق اور قاضی عبدالطیف نے سینٹ میں نفاذِ شریعت بل پیش کیا۔۔۔اس بِل میں شریعت کی تعریف یوں کی گئی تھی کہ:

(ا)"شریعت سے مراد دین کا وہ خاص طریقہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے۔

(ب) شریعت کا اصل ماخذ قرآن پاک اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

(ج) کوئی حکم یا ضابطہ، جو اجماعِ اُمت سے ثابت اور ماخوذ ہو، شریعت کا حکم متصور ہو گا۔

(د) ایسے احکام، جو اُمت کے مسلمہ اور مستند فقہاء (مجتہدین) نے قرآن پاک، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماعِ اُمت کے قیاس و اجتہاد کے ذریعے مستنبط کر کے مدون کئے ہیں، شریعت کے احکام متصور ہوں گے۔"

یہ بل عوامی حلقوں کی آراء و تجاویز کے لئے مشتہر کیا گیا تو اہل حدیث کے لیے ایک عجیب و غریب صورتِ حال پیدا ہو گئی۔۔۔ایک طرف نفاذِ شریعت اس کے دل کی آواز تھی، اس کے خوابوں کی تعبیر اور اس کی آرزوؤں کی تکمیل تھی، کہ جس کے لیے ہر دور میں مخلصانہ مساعی اس کا شیوہ رہا ہے۔ اور نفاذِ شریعت بل چونکہ اسی سلسلہ کا ایک اقدام تھا، لہذا اسی بل سے لا تعلق رہنا بھی اس کے لئے مشکل تھا۔ لیکن دوسری طرف اس بل میں شریعت کی تعریف درست نہ تھی، چنانچہ اس سے کلی اتفاق کرنا بھی اس کے لیے ناممکن۔۔۔اس نے درمیانی اور درست راہ اختیار کی، کہ پہلے بل کو خامیوں سے پاک کیا جائے، پھر اس کے نفاذ کی کوششیں بھی ہونی چاہئیں ۔۔۔ اسی بناء پر اس نے مطالبہ کیا کہ شریعت کی تعریف سے متعلق اس بل کی دفعہ 2، شق (الف) کے آخر میں "اور وہ کتاب و سنت ہے" کے الفاظ کا اضافہ کیا جائے۔۔۔یعنی:

"شریعت سے مراد دین کا وہ خاص طریقہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنے بندوں کے لئے مقرر کیا ہے، اور وہ کتاب و سنت ہے"

۔۔۔یوں شریعت کی تعریف مکمل ہو جاتی ہے۔ لہذا اس دفعہ کی بقیہ شقوں (ب-ج-د) کی کوئی ضرور نہیں، بل سے انہیں حذف کر دیا جائے۔ بالخصوص اس لیے کہ یہ شقیں قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر سے متعلق ہیں، جس کی وضاحت کے لیے مستقل دفعہ نمبر 12 بل میں موجود ہے۔جس کے الفاظ یہ ہیں:

"قرآن و سنت کی وہی تعبیر معتبر ہو گی جو اہل بیتِ عظام رضی اللہ عنہم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور مستند مجتہدین کے علمِ اصولِ تفسیر اور علمِ اصولِ حدیث کے مسلمہ قواعد و ضوابط کے مطابق ہو"

اہل حدیث نے یہ آواز بروقت اٹھائی اور پوری توانائیوں کے ساتھ اٹھائی۔۔۔تحریروں، تقریروں، پمفلٹوں اور رسالوں میں اسے مستقل موضوع بحث بنایا اور اپنے موقف کی تائید میں عقلی اور نقلی دلائل فراہم کئے۔۔۔جن کا خلاصہ یہ ہے کہ:

"شریعت وہ خاص طریقہ ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعے بندوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ اور وحی صرف اور صرف کتاب و سنت ہیں۔ جبکہ انسانی اجتہادات نیز مختلف فرقوں کی فقہیں، خود ان فرقوں کے نزدیک بھی وحی نہیں ہیں۔۔۔آج تک حنفی جعفری وغیرہ، خود پر تقلیدی جمود کے طعن کا یہی جواب دیتے چلے آئے ہیں کہ ہماری فقہیں شریعت کی ایک تشریح ہیں، خود شریعت نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں فقہیں متعدد ہیں۔ اور "چاروں مذاہب برحق" کا مقولہ بھی مقلدین کے ہاں مشہور ہے۔ جبکہ اس بل کی دفعہ 2، شق (د) میں مستند فقہاء کے مدون قیاس و اجتہاد کو شریعت شمار کیا گیا ہے، جو خود اہلِ مذاہب کے نقطہ نظر سے بھی صحیح نہیں۔ بایں ہمہ اگر قیاسات و اجتہادات کو شریعت قرار دیا جا رہا ہے، تو یہ فقہ کو شریعت باور کرانے کی ایک بہت بڑی جسارت ہے۔ جس کی بناء پر اگر ایک طرف ان مذاہب کے ائمہ کو صاحبِ وحی قرار دیتے ہوئے مسندِ نبوت پر متمکن کر دینا لازم آتا ہے، اور جس کی زد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے "خاتم النبیین"ہونے کا عقیدہ پر بھی پڑتی ہے، تو دوسری طرف متعدد فقہوں کے ہوتے ہوئے، متعدد شریعتوں کا ماننا بھی لازم آئے گا، جبکہ شریعت صرف اور صرف ایک ہے۔

ظاہر ہے، اہل حدیث کے اس ٹھوس، سچے اور کھرے موقف سے کسی کو بھی مجالِ انکار نہ تھی، پھر بات بھی ہر ایک کی سمجھ میں آنے والی تھی۔۔۔اس پر مستزاد یہ کہ 25 اپریل سئہ 1986ء جو شریعت بل کے سلسلہ میں تجاویز و آراء کی وصولی کی آخری تاریخ تھی، اس تاریخ سے 17 روز قبل 7 اپریل سئہ 1986ء کو اہل حدیث نے لاہور میں "علمائے اہل حدیث کنونشن" کا انعقاد کیا، جو بلاشبہ اہل حدیث کا ایک ملک گیر نمائندہ اجتماع تھا اور جس میں ایک ہزار کے قریب اہل حدیث علماء جمع ہوئے۔ اس کنونشن میں تقریروں اور مقالات کے ذریعے اہل حدیث نے اپنے موقف کی خوب خوب وضاحت کی۔ اور ملک بھر میں شاید ہی کوئی روزانہ اخبار ایسا ہو گا، جس نے اس کنونشن کی کاروائی اور اس میں پاس ہونے والی قرار دادوں کو شائع نہ کیا ہو۔۔۔اس کنونشن کے نتیجہ میں اہل حدیث کا جو متفقہ مطالبہ ابھر کر سامنے آیا، وہ یہ تھا کہ:

"بل کی دفعہ 2، شق (ا) میں "جو کتاب و سنت ہی ہے" کے الفاظ کا اضافہ کر کے اس دفعہ کی شق ب،ج،د کو حذف کر دیا جائے تو متذکرہ شریعت بل جملہ مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول ہو سکتا ہے"

چنانچہ 25 اپریل سئہ 1986ء تک سینٹ کو شریعت بل کے سلسلہ میں 14 لاکھ کے قریب آراء وصول ہو چکی تھیں، جن میں سے ننانوےفیصد آراء اس کے حق میں تھیں۔ اور ان تائیدی آراء میں سے ایک کثیر تعداد ان تجاویز کی تھی جو اہل حدیث کے موقف پر مبنی تھیں۔ کیونکہ اہل حدیث نے اس کے لیے دستخطی مہم چلانے کے علاوہ پریس کانفرنسوں میں بھی یہی مطالبہ بار بار دہرایا تھا۔

بلاشبہ اہل حدیث نے اس سلسلہ میں "اُمت وسط" کا کردار ادا کیا تھا اور اس کی یہ آواز جملہ مسلمانوں کے لیے دعوتِ اتحاد بھی تھی۔ جس کو قبول کر لینے سے "فقہ حنفی بمقابلہ فقہ جعفری" کا تنازعہ بھی ختم ہو سکتا تھا۔ لہذا نہ صرف اس کی خوب خوب پذیرائی ہوئی، بلکہ اس کا یہی موقف "متحدہ شریعت محاذ" کی تشکیل اور "متفقہ ترمیمی شریعت بل سئہ 1986ء" کی ترتیب کی بنیاد بھی بنا ۔۔۔ جس کے بعد 24 ستمبر سئہ 1986ء کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا اور جس میں ملک کے جملہ مکاتب فکر کے علماء نے شرکت کی۔۔۔اس پریس کانفرنس کا مکمل متن، جسے ان تمام مکاتبِ فکر کے مشترکہ اعلامیہ کی حیثیت حاصل ہے، ہم قارئین کی طبع نازک کے احساس کے باوجود نقل کرنے پر مجبور ہیں کہ اس کے بغیر یہ کہانی نامکمل رہے گی اور جس کا ہر ہر جملہ قابلِ غور ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"برصغیر پاک و ہند کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے متحد ہو کر کوئی تحریک چلائی تو ان کے سامنے بڑی بڑی جابر قوتوں نے گھٹنے ٹیک دئیے۔۔۔خود پاکستان کا وجود برطانوی سامراج اور ہندو اکثریت کے علی الرغم، مسلم اقلیت کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔ماضی قریب میں علماء اور مشائخ کی قیادت میں مسلم عوام اٹھے تو نہ صرف قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا پڑا بلکہ نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبے کے سامنے مضبوط کرسی بھی نہ ٹھہر سکی۔

پاکستان کی پہلی اسمبلی کی طرف سے قراردادِ مقاصد کی منظوری اسی اسلامی جذبے کی مرہونِ منت تھی، لیکن پھر اسلام کے عملی نظام کے خلاف لادین اور ملک کی نظریاتی اساس کے مخالف عناصر نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ مسلمان شریعت پر متفق نہیں ہو سکتے، لہذا محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) شریعت کا نفاذ ممکن نہیں۔

آج ہم جملہ مکاتبِ فکر کے نمائندے بیک آواز ہیں کہ ہم نفاذِ شریعت کے لیے متحد ہیں اور ان شاءاللہ متحد رہیں گے۔ پاکستان کی اسلامی ریاست کے دستور کے لیے ہمارے اکابرین نے اسی چیلنج کا جواب بائیس نکات کی صورت میں دیا تھا اور نہی 22 نکات کے اہم قانونی پہلو کی تکمیل کے لیے متفقہ شریعت بل تیار کیا گیا ہے۔ افسوس کہ جس طرح ملک کے اکتیس (31) جید علماء کے متفقہ بائیس نکات کو آج تک قانونی حیثیت نہ دی گئی، اسی طرح آج بھی شریعت بل سے پہلوتہی کی جا رہی ہے۔

ہم حکومت پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ متفقہ شریعت بل، تحریکِ نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ایک تسلسل ہے۔ خود جنرل ضیاء الحق کا اقتدار اسی تحریک کے طفیل ہے اور ریفرنڈم کے بعد موجودہ سول حکومت کا جواز بھی اسلامی نظام کی تکمیل کے وعدے پر قائم ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش کے باوصف جملہ مکاتبِ فکر کا مطالبہ تسلیم نہ کرنا ملک و ملت کے لیے خطرناک ہو ا۔ کیونکہ نفاذِ شریعت کا مسئلہ سیاست بازی کا نہیں ملک و ملت کی بقا کا (مسئلہ) ہے۔ شریعت بل کے مشتہر ہونے کے بعد اس پر آراء سامنے آئیں تو ضرورت محسوس کی گئی کہ بل کے مندرجات کو قانونی شکل دینے کے لیے بعض ترامیم کی جائیں اور اس تاثر کو بھی قطعی طور پر ختم کر دیا جائے کہ مجوزہ شریعت بل متفقہ نہیں ہے۔ چنانچہ اب جملہ مکاتبِ فکر کے نمائندوں نے بل کو متفقہ بنا لیا ہے۔ بالخصوص دفعہ 2 اور 12 پر چونکہ اختلافی آراء سامنے آئی تھیں، ان میں ترمیم کر دی گئی ہے۔ جس سے فرقہ واریت اور اختلافی ہونے کا سدِباب ہو گیا ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ نویں آئینی ترمیم، شریعت بل کا متبادل نہیں ہے، بلکہ حکومت نے نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل نفاذ سے بچنے کے لیے اس کا سہارا لیا ہے، جس سے نفاذِ شریعت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔

ہم دو ٹوک الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ ہم سب نے متحد ہو کر مکمل نفاذِ شریعت کے لیے ملک گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اسی سلسلہ میں 11 اکتوبر کو "کل پاکستان نفاذِ شریعت کنونشن" ہو گا۔ جس میں تمام مکاتبِ فکر کے ہزاروں علماء ملک بھر سے شریک ہوں گے۔ لہذا رابطہ کمیٹیوں نے ملک گیر دورے شروع کر دئیے ہیں۔

حکومت، اور شریعت کے مخالفین کو ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ علماء نفاذِ شریعت کے خلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ان شاءاللہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


30 اگست سئہ 1986ء کو "متفقہ ترمیمی شریعت بل" پر دستخط ہوئے۔۔۔دستخط کرنے والوں مولانا محمد عبدالقیوم، ناظم اعلیٰ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور (ناظم اعلیٰ تنظیم المدارس پاکستان)، حافظ عبدالرحمان مدنی رابطہ علمائے اہل حدیث پاکستان، مولانا محمد اجمل غفرلہ، نائب امیر مرکزیہ جمیعت علمائے اسلام پاکستان، جناب محمد اسلم سلیمی نائب قیم جماعت اسلامی پاکستان اور میاں شیر عالم ایڈووکیٹ لاہور، نائب صدر ورلڈ ایسوسی ایشن آ مسلم جیورسٹس شامل تھے۔۔۔یوں متفقہ شریعت بل تیار ہو چکا تھا۔۔۔شریعت کی اس تعریف پر کہ "شریعت سے مراد قرآن و سنت ہیں" جملہ مکاتبِ فکر کا اتفاق ہو چکا تھا۔۔۔"متحدہ شریعت محاذ" کی تشکیل ہو چکی تھی۔۔۔جملہ مکاتبِ کر کے متحد ہونے اور متحد رہنے کا اعلان کیا جا چکا تھا۔۔۔حکومت، اور شریعت مخالف عناصر کو نفاذِ شریعت کے لیے ملک گیر تحریک چلانے کا الٹی میٹم دیا جا چکا تھا۔۔۔ابتدائی مرحلے پر 11 اکتوبر کو "کل پاکستان نفاذِ شریعت کنونشن" کے انعقاد کی اطلاع دی جا چکی تھی۔۔۔تیاریاں ہو رہی تھیں۔۔۔پھر یہ دن آیا بھی اور کنونشن بھی منعقد ہوا۔۔۔بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث ایک ہی سٹیج پر موجود، ایک ہی مسجد میں جمع، تقریریں کر رہے اور سن رہے تھے۔۔۔محبت، پیار اور خلوص کے اظہار ہو رہے تھے ۔۔۔ باہم مسکراہٹوں کے تبادلے ہو رہے تھے، اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ نفاذِ شریعت بس اب چند ہی دنوں کی بات ہے۔۔لیکن۔۔۔

لیکن ابلیس لعین بھی کہیں قریب ہی کھڑا مسکرا رہا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


چنانچہ پھر نہ جانے کیا ہوا؟ ۔۔۔متضاد خبریں، متضاد بیانات آنے لگے۔۔۔کھچڑی سی پکنے لگی۔۔۔اہل حدیث سے ہٹ کر بالا ہی بالا فیصلے ہونے لگے۔۔۔متفقہ شریعت بل کی بجائے فقہ حنفی کے نفاذ کی صدائے بازگشت بھی سنائی دینے لگی۔۔۔اہل حدیث سمجھ گئے کہ مقلدین کی نیتوں میں فتور آ چکا ہے۔۔۔اب ان کا کھچا کھچا رہنا لازمی تھا، لہذا انہیں منانے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں۔۔۔ظاہر ہے، متحدہ شریعت محاذ میں اب وہ اتحاد، وہ پہلا سا دم خم باقی نہ رہا تھا۔۔۔اس کے باوجود حکومت کے سر پر شریعت بل اور شریعت محاذ کا ہوا سوار تھا۔۔۔وہ پینترے پہ پینترا بدلنے لگی، کبھی پرائیوٹ شریعت بل کے بالمقابل سرکاری شریعت بل کو لانا چاہا، تو کبھی اسی مقصد کے لئے نویں ترمین کو انتہائی عجلت میں پاس کرانا چاہا۔۔۔ادھر اخبارات میں، شریعت مخالفین کے بیانات اور مضامین بھی، شریعت سے ان کے خوف کا صاف پتہ دیتے تھے۔۔۔لیکن نہیں جانتے تھے کہ وہ بدستور فتح مند ہیں۔۔۔شریعت محاذ نہ جانے کہاں لمبی تان کو سو چکا تھا۔

ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا۔۔۔ 4 اپریل سئہ 1988ء کو مینارِ پاکستان کے سبزہ زار میں "نظامِ شریعت کانفرنس" کے انعقاد کا اعلان ہوا، لیکن متحدہ شریعت محاذ کی طرف سے نہیں، تنہا جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے۔۔۔کانفرنس ہوئی، اور بالآخر بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی۔۔۔ اعلان ہوا کہ:

"ملک میں فتاویٰ عالمگیری کو رائج کیا جائے"

۔۔۔اور:

"ہم مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے باتے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں"

اول الذکر اعلان کرنے والے مولانا 'محمد اجمل غفرلہ" تھے، جنہوں نے اُس شریعت بل پر اپنے دستخط ثبت فرمائے تھے جس میں شریعت کی تعریف درج تھی کہ "شریعت سے مراد قرآن و سنت ہیں"۔۔۔لیکن اب اس اعلان کے ذریعے انہوں نے فتاویٰ عالمگیری کو شریعت اور کتاب و سنت کا متبادل قرار دے دیا تھا، جبکہ ثانی الذکر اعلان کرنے والے مولانا سمیع الحق، یکے از محرکینِ شریعت بل، سیکرٹری جنرل جمعیت علماء اسلام تھے۔۔۔تقلید کی محبت نے اپنا کرشمہ دکھایا دیا تھا۔۔۔مقلدین نے اتباعِ کتاب و سنت پر تقلیدِ شخصی کو ترجیح دے ڈالی تھی۔۔۔فانا لله وانا اليه راجعون

مزید برآں، تضادات ملاحظہ ہوں کہ اسی کانفرنس میں شریعت بل منظور کرنے پر بھی زور دیا گیا اور دھمکی دی گئی کہ اگر شریعت بل پیش نہ کیا گیا تو تحریک چلائی جائے گی۔ چنانچہ شریعت بل ہی کے دوسرے محرک مولانا قاضی عبداللطیف نے کہا کہ:

"تین برس سے ہم حکومت سے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں، آج تک انہیں توفیق نہیں ہوئی کہ ہمارے پرائیوٹ شریعت بل پر کوئی اعتراض کر سکیں"

اب خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ پرائیوٹ شریعت بل کون سا ہے؟ خود ان کا اپنا پیش کردہ بل، یا متحدہ شریعت محاذ کا متفقہ ترمیمی شریعت بل؟ ۔۔اگر یہ متفقہ ترمیمی شریعت بل ہے تو اس کی رو سے فتاویٰ عالمگیری کے نفاذ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔اور اگر اس سے مراد ان سینیٹر حضرات کا اپنا پیش کردہ بل ہے، تو ہم بتلا چکے ہیں کہ اس میں فقہ کو شریعت قرار دینے کی جسارت کی گئی تھی۔۔۔اور یہ کام ان سے قبل ان کے اُن اکابرین میں سے بھی کسی نے نہیں کیا جن کے وہ مقلد ہیں، بلکہ یہ انہی کے ماتھے کا جھومر ہے۔۔۔چنانچہ مولانا مفتی مقبول الرحیم صاحب کے بقول برصغیر میں "مولانا شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر اب تک جمعیت نے نفاذِ فقہ حنفی کو اپنا موقف نہیں بتایا"۔۔۔اور مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ تو وہ بزرگ ہیں کہ جو قراردادِ مقاصد پیش کرنے والوں میں شامل ہیں۔۔۔جبکہ قراردادِ مقاصد میں واضح طور پر "مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلامی تعلیمات و متقضیات کے مطابق، جو قرآن مجید اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں متعین ہیں، ترتیب دینے کی بات کی گئی ہے۔۔اس کے باوجود اسی کانفرنس میں فتاویٰ عالمگیری کے نفاذ کی بات کی گئی اور مولانا سمیع الحق یہ فرما رہے ہیں کہ: " ہم مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے باتے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں " ۔۔گویا انہی کے راستے پر چلنے کی خوشخبری سنانے کے باوجود ، خود انہی سے وفا نہیں کی گئی۔۔اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ:

"ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یارو، کوئی کس پر اور کہاں تک اعتماد کرے؟ اب تو علمائے دین نے بھی اپنا بھرم کھو دیا ہے۔۔۔نفاذِ شریعت بل کو جس قدر شہرت اور پذیرائی ملی، شاید اس ملک کی تاریخ میں تحریکِ نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، شہرت و پذیرائی کے لحاظ سے، یہ دوسرے نمبر پر ہے۔۔۔یہ حقیقت ہے کہ علماء متحد رہتے، تو اب تک خوابوں کو ان کی تعبیر مل چکی ہوتی۔۔لیکن مقاصد سے انحراف کیا گیا، عہد توڑ ڈالے گئے، بلند بانگ دعوؤں کی بھی لاج نہ رکھی گئی۔ اور یہ کہنے کے باوجود کہ، نفاذِ شریعت ملک و ملت کی بقا کا مسئلہ ہے، کوئی سیاست بازی نہیں۔۔۔اسے سیاست بازی ہی بنا دیا گیا۔۔۔پاکستان میں عرصہ چالیس سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ماضی قریب میں قومی اتحاد نے بھی وہی داستان رقم کی، جو اب متحدہ شریعت محاذ کے ان مقلدین راہنماؤں نے رقم کی ہے۔۔۔اہل حدیث سے انہیں یہ شکوہ نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے ان سے تعاون نہیں کیا، کہ وہ تو ان ہر دو تحریکوں میں ان کا ہراول دستہ تھے۔۔ہاں اہل حدیث کو ان سے یہ شکوہ بجا ہے کہ انہوں نے رسمِ وفا نہیں نبھائی۔۔۔ نہ عوام سے کئے گئے وعدوں کا پاس انہیں لاحق ہوا، نہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم ہی انہیں دامن گیر ہوئی۔۔۔نتیجہ سامنے ہے کہ یہ ملک اب مسلسل اور بڑی تیزی سے الحاد و لادینیت کی راہ پر گامزن ہے۔۔۔ہم واضح لفظوں میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کتاب و سنت سے اعراض کر کے فرقہ بندیوں کو پالنے والوں ہی نے اس ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے۔۔۔منزل اگر قریب آ آ کر ہم سے روٹھ روٹھ جاتی رہی تو اس کی بڑی وجہ تو یہی ہے۔۔۔لہذا اگر انہیں ملک و ملت کی بقا کے ساتھ ساتھ اپنی اخروی سلامتی کا بھی کچھ احساس ہے تو انہیں اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کرنا ہو گی۔۔۔ کتاب و سنت کے شفیق دامنوں میں پناہ لینا ہی ہو گی۔۔۔ورنہ کل کو وہ خدا کے ہاں بھی کس منہ سے جائیں گے؟ وما علینا الا البلاغ