"اقامه الله وادامها" کی تحقیق

ایک عزیز دوست لکھتے ہیں:

"اقامت کے جواب میں "اقامه الله وادامها" کہنا کیا صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ ۔۔۔ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اہل حدیث حضرات اس پر عامل ہیں لیکن حال ہی میں ایک اہل حدیث عالم سے گفتگو کے دوران یہ سنا کہ یہ کہنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ کیا آپ برائے مہربانی اس مسئلہ پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے؟۔۔جزاکم اللہ، والسلام"

الجواب: شافعی، حنبلی اور اہل حدیث مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء کی نماز یا اذکارِ مسنونہ کے موضوع پر لکھی جانے والی اکثر و بیشتر کتب میں یہ لکھا ہے کہ اذان کی طرح اقامت کا جواب بھی دینا چاہئے۔ لیکن جب مؤذن دورانِ اقامت "قدقامت الصلوة" کہے، تو تمام نمازیوں کو اس کے جواب میں "اقامه الله وادامها" کہنا چاہئے۔ چنانچہ علامہ محی الدین ابوزکریا یحییٰ بن شرف النووی الدمشقی الشافعی (م 676ھ) "باب ما يقول من سعم المؤذن والمقيم" کے تحت تحریر فرماتے ہیں:

"جو شخص مؤذن کو اذان دیتے اور مقیم کو اقامت پڑھتے ہوئے سنے، اس کے لیے مستحب ہے کہ اذان و اقامت کا جواب دے اور اقامت کے کلمات میں "اقامه الله وادامها" کہے۔"

کتاب "الاذکار" للنووی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور شارح علامہ ابن علان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے " اقامه الله وادامها" کہا ہے، پس اقامت کا جواب دینا اور اقامت کے وقت " اقامه الله وادامها" کہنا مسنون ہے۔ بعض روایات میں یہ اضافہ بھی وارد ہے: "وجعلنى من صالحى اهلها .... الخ"

علامہ ابومحمد عبداللہ بن احمد بن محمد بن قدامہ المقدسی الحنبلی (م 620ھ) فرماتے ہیں:

"اور مستحب ہے کہ اقامت میں وہی کہا جائے جو اقامت کہنے والا کہے، لیکن اقامت کے کلمہ کی جگہ " اقامه الله وادامها " کہا جائے۔ جیسا کہ ابوداؤد نے اپنی اسناد کے ساتھ بعض اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ الخ"

علامہ شمس الدین محمد بن ابی بکر ابن القیم الزرعی الجوزی رحمۃ اللہ علیہ (م 751ھ) لکھتے ہیں:

"سنن ابی داؤد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب سے مذکور ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اقامت پڑھتے تھے، جب وہ "قد قامت الصلوة" کہتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: " اقامه الله وادامها"۔

مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"جوابِ اقامت اذان ہی کی طرح ہے مگر "قد قامت الصلوة" کو سن کر یہ کہا جائے: " اقامه الله وادامها" اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ قائم و دائم رکھے)۔"

اسی طرح مولانا مختار احمد ندوی سلفی صاحب تحریر فرماتے ہیں:

"تکبیر کا جواب: اذان کی طرح تکبیر کا بھی جواب دینا چاہئے۔ صرف "قدقامت الصلوة" کے جواب میں "اقامه الله وادامها" کہے۔ (ابوداؤد)"

اور پروفیسر طیب شاہین لودھی صاحب بھی "اقامت سن کر پڑھنے کی دعا" کے زیر عنوان لکھتے ہیں:

"جب اقامت کھڑی ہوتی، حضرت بلال رضی اللہ عنہ اقامت کہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ساتھ وہی الفاظ دہراتے رہتے۔ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ "قدقامت الصلوة" کہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں فرماتے: " اقامه الله وادامها" (اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ قائم رکھے) سنن ابی داؤد ج1 ص 108۔"

بعض حنفی المسلک علماء نے بھی اقامت کے اس جواب کو اپنی بعض تصانیف میں بیان کیا ہے۔ مثلا جناب ایم ایس چوہدری قادری صاحب، چئیرمین یورپین اسلامک مشن ڈان کاسٹر انگلینڈ تحریر فرماتے ہیں:

"اذان و اقامت کا جواب: ۔۔۔ اور اقامت میں جب سنے "قدقامت الصلوة" تو سننے والا کہے "اقامه الله وادامها"۔

اگرچہ بعض احناف کی کتب میں اس کا ذکر ملتا ہے لیکن اس پر ان کا عمل نہیں ہے۔ ہاں ایک عرصہ دراز سے برصغیر کے بیشتر علماء اہل حدیث کا اس پر عمل جاری ہے۔ دراصل اقامت کا یہ جواب سنن ابی داؤد کی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ جیسا کہ اوپر نقل کی گئی بعض عبارات سے بھی ظاہر ہے، لیکن کسی بات کا صرف کسی حدیث کی کتاب میں موجود ہونا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اصل دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ حدیث کیا ہے؟ اور محدثین کے نزدیک اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟

مذکورہ حدیث حافظ سلیمان بن اشعث ابی داؤد السجستانی (م 275ھ) نے اپنی سنن کے "باب ما يقول اذا سمع الاقامة" میں بطریق "سليمان بن داؤد العتكى ثنا محمد بن ثابت حدثنى رجل من اهل الشام عن شهرين حوشب عن ابى امامة اوعن بعض اصحاب النبى ٌﷺ" اس طرح روایت فرمائی ہے:

«أَنَّ بِلاَلاً أَخَذَ فِي الإِقَامَةِ فَلَمَّا أَنْ قَالَ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أَقَامَهَا اللَّهُ وَأَدَامَهَا وَقَالَ فِي سَائِرِ الإِقَامَةِ كَنَحْوِ حَدِيثِ عُمَرَ - رضى الله عنه - فِي الأَذَانِ»

امام ابوداؤد السجستانی رحمۃ اللہ علیہ سے اس روایت کو صاحب مشکوٰۃ المصابیح شیخ ولی الدین ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الخطیب العمری التبریزی، ابن قدامہ، نووی اور ابن قیم وغیرہ رحمہم اللہ نے بھی اقامت کے جواب سے متعلق ایک حدیث روایت کی ہے۔ بعض روایات میں "قدقامت الصلاة" کے جواب میں "اقامها الله وادامها" کے بعد "وجعلنى صالحى اعماله" اور بعض میں "اهلها" کے الفاظ بھی مروی ہیں۔

مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں علامہ ابن علان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"اس حدیث کی سند میں "اوعن بعض اصحاب النبىﷺ" (یعنی " یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب رضی اللہ عنہم سے"مروی ہے) سے صحابی کی تعیین کا جو شک پیدا ہوتا ہے، وہ قطعی بے ضرر ہے۔ کیونکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عدول ہیں۔ الخ"

لیکن اس سلسلہ میں علامہ ابن علان رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ بالا تاویل نہایت کمزور اور غیر درست ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ اس حدیث کی سند میں "او عن بعض اصحاب النبىﷺ" سے مراد راوی کا شک ہے۔ جیسا کہ علامہ ابوالطیب شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ (م 1339ھ) نے اس امر کی صراحت فرمائی ہے۔

علامہ سید ابوالوزیر احمد حسن محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م 1338ھ) اس حدیث کی تخریج فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

"یہ حدیث شہر بن حوشب کی بعض احادیث میں سے ایک ہے۔ اس کی سند میں مجہول شخص موجود ہے اور شہر بن حوشب کی شخصیت متکلم فیہ ہے۔ ایک سے زیادہ اشخاص نے اس پر کلام کیا ہے۔ لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی توثیق کی ہے۔"

شیخ ابوالطیب شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد میں مجہول شخص موجود ہے۔ اور شہر بن حوشب پر ایک سے زیادہ (ائمہ جرح و تعدیل) نے کلام کیا ہے، اگرچہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ اسے ثقہ بتاتے ہیں۔"

علامہ شیخ محمد الشقیری اس حدیث کو "السنن والمبتدعات" میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اس حدیث کو ابوداؤد نے اپنی سنن میں اور ابن السنی رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بن حوشب سے روایت کیا ہے، جو کہ ائمہ کی ایک جماعت کے نزدیک ضعیف اور بعض دوسروں کے نزدیک متروک ہے۔" ۔۔اس کے بعد علامہ موصوف نے صاحبِ میزان الاعتدال کا قول نقل کیا ہے۔

ایک اور مشہور سلفی عالم علامہ شیخ عبداللہ الخضری نے موذن کے قول "قدقامت الصلاة" کے جواب میں "اقامها الله وادامها" کہنے کو "دعاء کی بدعات" میں شمار کیا ہے۔ آں موصوف لکھتے ہیں:

"اس سلسلہ میں جو حدیث وارد ہے وہ ضعیف اور غیر صحیح ہے، پس اس کا ترک کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا واجب ہے۔ الخ"

اسی طرح علامہ ابن قیم کی کتاب "الوابل الصیب" کے مرتبِ حاشیہ نے اس حدیث پر جو حاشیہ لکھا ہے، وہ اس طرح ہے:

"علماء فرماتے ہیں کہ یہ عمل غیر صحیح اور بدعت ہے۔ الخ"

اب ذیل میں اس حدیث کی سند کے ایک راوی ابوعبدالرحمن شہر بن حوشب الاشعری الشامی (جو کہ طبقہ ثالث سے تعلق رکھتا ہے) کے متعلق مشہور ائمہ جرح و تعدیل، محدثین اور شارحینِ احادیث کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں:

امام ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی بن بحر بن سنان النسائی رحمۃ اللہ علیہ (م 303ھ) فرماتے ہیں کہ: "شہر بن حوشب قوی نہیں ہے۔"

حافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (م 852ھ) فرماتے ہیں:

"صدوق تو ہے مگر کثیر الارسال والادہام ہے۔"

آں موصوف ایک اور مقام پر شہر بن حوشب کے متعلق لکھتے ہیں: "حسن الحدیث ہے لیکن اس کی بعض چیزوں میں ضعف ہے۔"

شارح ترمذی رحمۃ اللہ علیہ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ بھی اس راوی کے متعلق فرماتے ہیں:

"حسن الحدیث ہے مگر اس کی بعض چیزوں میں ضعف ہے۔"

علامہ حافظ نورالدین علی بن ابی بکر الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ (م 807) نے بہت سے مقامات پر اس راوی پر نقد و جرح کی ہے، مثلا: ۔۔۔"ضعیف ہے۔" "اس کے ساتھ احتجاج کرنے میں اختلاف ہے۔" "بعض نے اس کی توثیق کی ہے حالانکہ اس میں ضعف ہے۔" "اس کے متعلق اختلاف ہے۔ لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، ابن معین رحمۃ اللہ علیہ، ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ اور یعقوب بن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔" "ثقہ ہے لیکن لوگوں نے اس پر کلام کیا ہے۔" "حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی۔ اسی طرح حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے اس کا سماع نہیں ہے، لیکن وہ ان سے براہ راست روایت بیان کرتا ہے۔" "اس میں کلام ہے لیکن اس کی حدیث حسن ہے۔" اس کی حدیث حسن ہے لیکن اس میں ضعف ہے۔" "اس کی حدیث حسن ہے۔" ضعیف ہے لیکن اس کی حدیث لکھی جاتی ہے۔" "ثقہ ہے، اس پر کلام کیا گیا ہے جو مضر نہیں ہے۔" "اس کے متعلق اختلاف ہے۔" "اس کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ثقہ بتایا ہے لیکن اس میں اختلاف ہے۔" "امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اسے ثقہ بتایا ہے لیکن ایک سے زیادہ ائمہ نے اس کی تضعیف کی ہے۔" "اس کی توثیق کی گئی ہے۔"

علامہ ابوہاجر محمد سعید بن بسیونی الزغلول نے علامہ ہیثمی کے، شہر بن حوشب سے متعلق، تمام اقوال کی ایک طویل فہرست جمع کی ہے جو قابل رجوع ہے۔

حافظ ابوالحسن احمد بن عبداللہ بن صالح العجلی الکوفی (م 261ھ) نے توثیق المجہولین کے اپنے قاعدہ کے مطابق شہر بن حوشب کو "ثقہ" قرار دیا ہے۔

علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "شہر بن حوشب متکلم فیہ ہے، لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔"

علامہ ابوالطیب شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ شارح سنن ابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بن حوشب کے متعلق علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔

علامہ عبدالعزیز عزالدین السیروان نے شہر بن حوشب کا شمار اپنی مشہور کتاب "المجموع فی الضعفاء والمتروکین" میں کیا ہے اور اسے غیر قوی قرار دیا ہے۔

حافظ محمد بن حبان بن احمد ابی حاتم التمیمی البستی رحمۃ اللہ علیہ (م 354ھ) بیان کرتے ہیں کہ: "شہر بن حوشب ثقات سے معضلات اور اثبات سے مقلوبات روایت کیا کرتا ہے۔"

نضر بن شمیل رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ "میں نے ابن عون رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے "شہر" کی ایک حدیث کا، جسے اس نے مغازی میں روایت کیا ہے، ذکر کیا تو انہوں نے کہا: "ان شهرا تركوه ان شهرا تركوه"

ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عمرو بن علی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "یحییٰ القطان رحمۃ اللہ علیہ شہر بن حوشب سے حدیث روایت نہیں کرتے تھے۔"

حافظ ابوجعفر محمد بن عمرو بن موسیٰ بن حماد العقیلی المکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "نضر بن شمیل رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ابن عون رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "میں نے شہر کو ترک کیا ہے۔"

ابن عون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "شعبہ نے شہر بن حوشب پر کلام کیا ہے۔" ابن عون رحمۃ اللہ علیہ کا ایک دوسرا قول ہے کہ: "شعبہ رحمۃ اللہ علیہ نے شہر کو ترک کیا ہے۔" ابن عون سے یہ بھی منقول ہے کہ "ہلال بن ابی زینب نے شہر بن حوشب کے متعلق ذکر کیا اور اس کو ترک کیا۔ یعنی اس طرح کہ اس پر کسی چیز کا اتہام لگایا اور اس کی تضعیف فرمائی۔"

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی رحمۃ اللہ علیہ (م 748ھ) نے شہر بن حوشب کا ترجمہ بالتفصیل درج کیا ہے، جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

"ابن ابی حثیمہ رحمۃ اللہ علیہ اور معاویہ بن صالح رحمۃ اللہ علیہ نے ابن معین سے روایت کی ہے کہ: وہ ثقہ ہے۔ امام احمد اس کے حسن الحدیث ہونے کے قائل ہیں۔ ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: وہ بغیر ابی الزبیر کے کوئی روایت نہیں کرتا اور وہ حجت نہیں ہے۔ ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نسائی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: وہ قوی نہیں ہے۔ دولابی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "لا يشبه حديثه حديث الناس"۔ فلاس رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ: یحییٰ بن سعید رحمۃ اللہ علیہ "شہر" سے حدیث روایت نہیں کرتے، لیکن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ اس سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ علی بن حفص المدائنی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے شعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے عبدالحمید بن بہرام کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا: صدوق ہے مگر وہ "شہر" سے روایت کرتا ہے۔ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ: محمد بن یحییٰ المروزی رحمۃ اللہ علیہ کو اسحاق نے بتایا کہ ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ محمد یعنی بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: شہر حسن الحدیث ہے۔ احمد بن عبداللہ عجلی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ: ثقہ ہے۔ عباس نے یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ سے اثبات نقل کیا ہے۔ یعقوب بن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "شہر ثقہ ہے، لیکن بعض ائمہ نے اس پر طعن کیا ہے۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ایک جماعت "شہر" کے ساتھ احتجاج کرنے کی طرف گئی ہے۔ احمد رحمۃ اللہ علیہ سے حرب الکرمانی روایت کرتے ہیں کہ: "ما احسن حديثه" اور پھر اس کی توثیق کرتے ہیں۔ اسی طرح حنبل رحمۃ اللہ علیہ احمد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں: "ليس به بأس"۔ فسوی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "شہر" جس پر ابن عون رحمۃ اللہ علیہ نے کلام کیا ہے، وہ ثقہ ہے۔ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مشہور قول ہے: "شهر ممن لا يحتج به ولايتدين بحديثه"

اختتام پر محدثِ عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی کی تحقیق پیشِ خدمت ہے۔ آں موصوف نے اپنی تصانیف میں بہت سے مقامات پر شہر بن حوشب پر کلام کیا ہے، چنانچہ آپ لکھتے ہیں: "شہر بن حوشب میں اس کے حافظہ کی خرابی کے باعث ضعف ہے۔"

"شہر" کا ضعف مشہور ہے۔" شہر بن حوشب ضعیف ہے۔" شہر بن حوشب سئی الحفظ ہے۔" اور "شہر بن حوشب ضعیف ہے۔ اس کی بکثرت خطاؤں کی وجہ سے اس کے ساتھ احتجاج درست نہیں ہے۔ الخ"

مزید تفصیل کے لیے تاریخ یحییٰ بن معین ط ج2 ص 260، الضعفاء الکبیر للبخاری ج4 ص 258، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 283 اور کامل فی الضعفاء لابن عدی رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 1354 وغیرہ کی طرف رجوع مفید ہو گا۔ ان شاءاللہ

خلاصہ کلام: یہ کہ شہر بن حوشب کی اگرچہ بعض ائمہ نے توثیق کی ہے، لیکن ائمہ و محدثین کی اکثریت کا اس کے ضعف پر اتفاق ہے۔ لہذا وہ ضعیف (بلکہ بعض کے نزدیک متروک) قرار پائے گا۔ نتیجتا اس سلسلہ میں جو حدیث اوپر زیرِ بحث تھی وہ مجہول اور ضعیف الاسناد رواۃ کی موجودگی کے باعث غیر صحیح ہو گی۔ پس جو لوگ بہ سبب لاعلمی آج تک اس پر عمل کرتے آرہے ہیں اُن پر اس کا فوری ترک کر دینا واجب ہے۔


حوالہ جات

1. کتاب الاذکار المنتخبہ من کلام سید الابرار صلی اللہ علیہ وسلم للنووی رحمۃ اللہ علیہ ص 37 طبع دارالکتب العربی بیروت 1979ء

2. شرح الوجیز مختصر لابن علان رحمۃ اللہ علیہ علیٰ ہوامش کتاب الاذکار ص 39 طبع دارالکتاب العربی بیروت 1979ء

3. المغنی لابنِ قدامہ رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 427 طبع مکتبۃ الریاض الحدیثہ 1981ء

4. الوابل الصیب من الکلم الطیب لابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ص 118۔ طبع انصار السنۃ المحمدیہ لاہور

5. پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیادی دعائیں مع نمازِ مسنون مرتبہ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف رحمۃ اللہ علیہ ص 19 طبع المکتبۃ السلفیہ لاہور

6. نمازِ مسنون از مولانا مختار احمد ندوی ص 12 طبع الدارالسلفیہ بمبئی 1978ء

7. اذکار ماثورہ از پروفیسر شاہین لودھی ص 69 ناشر شیخ عبدالحمید ملتان

8.نماز و ادعیہ از ایم ایس چوہدری طبع یورپین اسلامک مشن ڈان کاسٹر انگلینڈ فیصل آباد 1982ء

9. سنن ابی داؤد مع عون المعبود ج1 ص 208 طبع دہلی و ملتان، مشکوٰۃ المصابیح مع تنقیح الرواۃ ج1 ص 119 طبع دہلی و لاہور۔ کتاب الاذکار للنووی ص 39 طبع بیروت، المغنی لابنِ قدامہ ج1 ص 427 طبع ریاض، الوابل الصیب لابن قیم ص 118 طبع لاہور وابن السنی وغیرہ

10. شرح الوجیز مختصر لابن عدی رحمۃ اللہ علیہ علیٰ ہوامش کتاب الاذکار ص 39، طبع بیروت

11. عون المعبود ج1 ص 208

12. تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ ج1 ص 119 طبع المجلس العلمی السلفی لاہور و دہلی

13. عون المعبود ج1 ص208

14. السنن والمبتدعات ج1 ص 51

15. کتاب الدعاء للشیخ عبداللہ الخضری ص 78 طبع الجمعیۃ لاحیاء التراث الاسلامی کویت 1948ء۔ اس کتاب کا مکمل ترجمہ "آدابِ دعا" کے عنوان سے "محدث" میں شائع ہو چکا ہے۔

16. حاشیہ علی الوابل الصیب ص 118 طبع لاہور

17. الضعفاء والمتروکین للنسائی ترجمہ 294

18. تقریب التہذیب لابن حجر ج1 ص 355 طبع دارالمعرفۃ بیروت 1975

19. فتح الباری شرح صحیح البخاری ج3 ص 65 طبع دارالمعرفۃ بیروت

20. تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی للمبارکفوری ج1 ص 270 طبع دہلی و ملتان

21. مجمع الزوائد و منبع الفوائد للہیثمی ج5 ص 261 طبع دارالکتاب العربی بیروت 1982ء

22. ایضا ج1 ص 27

23 .ایضا ج1 ص 54، 184

24. ایضا ج1 ص 213

25. ایضا ج3 ص 125

26. ایضا ج3 ص 168-181

27. ایضا ج4 ص 51

28. ایضا ج4 ص 394

29. ایضا ج4 ص 217

30. ایضا ج5 ص 147

31. ایضا ج6 ص 228

32. ایضا ج 10 ص 63

33. ایضا ج 10 ص 64

34. ایضا ج 10 ص 221

35. ایضا ج 10 ص 240

36. کتاب فہارس مجمع الزوائد و منبع الفوائد للزغلول ج 3 ص 207، 208 طبع دارالکتب العلمیہ بیروت 1986ء

37. معرفۃ الثقات للعجلی ج1 ص 641 طبع مکتبۃ الدار مدینۃ المنورۃ 1985ء

38. خاتمۃ الترغیب للمنذری ج4 ص 248 وکذا فی عون المعبود شرح سنن ابی داؤد ج1 ص 208 طبع دہلی و ملتان

39. عون المعبود ج1 ص 208

40. المجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان ص 128 طبع دارالقلم بیروت 1985ء

41. کتاب المجروحین لابن حبان ج1 ص 361 طبع دارالباز مکۃ المکرمہ

42. ایضا وکذا فی کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی ج2 ص 191 طبع الدارالکتب العلمیہ بیروت

43. کتاب المجروحین لابن حبان ج1 ص 362

44. کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی ج2 ص 191 وکذا فی المیزان الاعتدال للذہبی ج2 صطبع دارالمعرفۃ بیروت283

45. کتاب الضعفاء للعقیلی ج2 ص 191

46. میزان الاعتدال للذہبی ج2 ص 283

47. کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی ج2 ص 192

48. کذا فی التاریخ یحییٰ بن معین ج2 ص 260

49. کذا فی الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم ج4 ص 382

50. کذا فی الکامل فی الضعفاء لابن عدی ج4 ترجمہ 1354

51. ایضا

52. کذا فی معرفۃ الثقات للعجلی ج1 ص 641

53. کذا فی الکامل فی الضعفاء لابن عدی ج4 ترجمہ 1354

54. میزان الاعتدال للذہبی ج2 ص 283، 285

55. سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی ج1 ص 200، 505و ج2 ص 101 طبع المکتب الاسلامی دمشق 1985ء

56. ایضا ج1، ص 47، 181

57. سلسلۃ الاحادیث الضعفیۃ والموضوعۃ للالبانی ج2 ص 50 طبع المکتب الاسلامی دمشق 1399ھ

58. ایضا ج2 ص 341

59. ایضا ج2 ص 281