ان الدين عند الله الاسلام
اسلام ہر دور مین راہنمائی کا فریضہ سر انجام دے سکتا ہے
قانون کی ضرورت
اس حقیقت سے انکار نا ممکن ہے کہ اجتماعی زندگی میں بعض ایسے حوادث رونما ہوتے ہیں جن سے معاشرے کا امن و سکون غارت ہو جاتا ہے حتی کہ باہمی جنگ و جدال تک کی نوبت آ جاتی ہے۔ خصوصا وہ لوگ جن کو اقتدار و دولت کے نشہ نے بد دماغ بنا دیا ہو، اپنی انا کی تسکین کی خاطر شرافت کے لباس کو تار تار کرنے میں فخر محسوس کرتے اور زیر دستوں پر نت نئے مظالم کو اپنا ازلی حق تصور کرنے لگتے ہیں۔ ان حالات میں معاشرے کے امن و امان کو برقرار رکھنے اور اقدارِ انانیت کے تحفظ کے لیے جو اصول باہمی مشورت سے تیار کیے جاتے ہیں انہیں قانون کہا جاتا ہے گویا کہ قانون معاشرہ کی پیداوار ہوتا ہے اور وہ وقت کے تقاضوں سے وجود میں آتا ہے ۔۔۔ اور جس طرح وقت کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں اسی طرح قانون میں بھی تغیر و تبدل رونما ہوتا رہتا ہے۔ بالفاظ دیگر کسی بھی قانون کو قطعا دائمی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی۔
شریعت اور قانون میں فرق:
لیکن شریعت معاشرے کی پیداوار نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے جس کو خود اللہ تعالیٰ نے وضع فرمایا لہذا اس میں ایسی لچک اور عمومیت رکھی گئی ہے کہ معاشرہ میں ہزار تبدیلیوں کے باوجود یہ ہر دور کی جملہ ضرورتوں کو پورا فرمایا ہے۔ کیوں نہ ہو، یہ جابطہ حیات اس ذات کا وضع کردہ ہے جو علام الغیوب ہے ۔۔۔ انسان اپنے ماضی اور حال کی روشنی میں اپنے مستقبل کے لیے تجاویز مرتب کرتا ہے اور چونکہ وہ مستقبل سے بے خبر ہوتا ہے لہذا اس کی سوچ یا اندازے کا غلط ہونا عین ممکن ہے لیکن اللہ رب العزت کے فیصلے بالکل درست اور شک و شبہ سے بالاتر ہوتے ہیں۔
شریعت کا سرچشمہ کتاب و سنت ہے:
بلا شبہ کتاب و سنت ہی اصل سرچشمہ ہدایت ہیں اور اس شخص کی بدبختی اور فرومائیگی میں کچھ کلام نہیں جو کتاب و سنت سے رو گردانی کرتا اور کسی انسانی قانون کو کتاب و سنت پر فائق سمجھتا ہے۔ حضرت مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:
"دراصل مرکز حق و یقین کتاب و سنت ہے۔ یہ مرکز اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا، سب کو اس کی خاطر اپنی جگہ سے ہل جانا پڑے گا ۔۔۔ اس کی چوکھٹ کو کسی کی خاطر نہیں چھوڑا جا سکتا، سب کی چوکھٹیں اس کی خاطر چھوڑ دینا پڑیں گی۔"
کتاب اللہ کی جامعیت: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن پاک نازل فرمایا کہ اس کو تمام لوگوں تک پہنچا دیا جائے۔ اس میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے واضھ ہدایات نازل فرمائیں۔ اگر ایک طرف ایسی اصلاحات کا نفاذ فرمایا جن سے معاشرہ امن و سکون کی نعمتوں سے مالا مال ہو، تو دوسری طرف انسان کو ایسی درخشندہ تعلیمات سے روشناس کرایا جن کو اپنا کراللہ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ قرآن پاک کے مسلمہ اصول اور قواعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مکمل نظام حیات ہیں جن میں کمی بیشی کی کچھ گنجائش نہیں۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا﴾
"آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند فرما لیا۔"
یعنی شریعت کا اکمال ہو گیا، اب اس میں کسی ترمیم و تبدیلی کی کچھ گنجائش نہیں۔ زمانہ کے حالات خواہ کوئی رخ اختیار کریں لیکن ان نصوص میں قطعا تغیر و تبدل ممکن نہیں۔ یہ سراپا روشنی ہیں اور ہر دور کی ضروریات کے مسائل کا حل ان میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی رہے کہ شریعت صرف کتاب اللہ کا نام نہیں بلکہ کتاب و سنت دونوں کے مجموعہ کا نام ہے اور قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو بھی اصالۃ ذکر کیا گیا ہے، بلکہ محبت خداوندی کی علامت اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کو عملی نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
﴿ولكم في رسول الله اسوة حسنة﴾
"معلوم ہوا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی 23 سالہ زندگی قرآن پاک کی عملی تشریح ہے۔ پھر مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ان کی زندگی کے نقوش محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش پاک کا عکس ہوں اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب قرآن پاک کے ساتھ ساتھ ہم صحیح حدیث اور سیرت پاک کے قیامت تک مھفوظ رہنے کا یقین رکھیں اور ہمارے دل و دماغ پر شک و شبہ کا ادنی سا سائبہ بھی راہ نہ پا سکے کہ حوادث زمانہ نے ان کی اصل شکل کو مسخ کر دیا ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے بارے میں اس قسم کے شبہات کو روا رکھا جا سکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کے واقعات سے ہدایت حاصل کریں؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک محفوظ نہیں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے اپنانے کا حکم کیوں دیا؟ پس معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کی تعلیمات قیامت تک کے لیے محفوظ ہیں اور ان کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔
ارشاد خداوندی ہے:
﴿انا نحن نزلنا الذكر وانا له لحافظون٩﴾.. سورة الحجر
"ہم نے ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔"
اور کون نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے نبوت کا محل پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کے اعزاز و اکرام سے نواز دیا گیا۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ اب کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ لہذا کسی دوسری شریعت کا آنا ناممکنات سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ شریعت کو دوام عطا کر دیا گیا ہے چنانچہ صاف لفظوں میں اعلان کر دیا گیا:
«لو كان موسىٰ حياما وسعه الا اتباعى»
"اگر موسی علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر بھی زندہ ہوں تو ان کو میری اتباع کے بغیر چارہ کار نہیں۔"
تو جب کسی پیغمبر کی شریعت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مقابلہ میں قابلِ عمل نہیں تو شریعت کے مقابلہ میں انسانوں کے بنائے ہوئے ناقص تغیر پذیر قوانین کو کس طرح تفوق عطا کیا جا سکتا ہے اور شریعت کو ناقابل عمل سمجھ کر درآمد کردہ قوانین کو زمانہ کے تقاضوں کی ضرورت قرار دے کر کیسے ترجیح دی جا سکتی ہے؟ ایسے تجدد گزیدہ برائے نام مسلمان سکالروں کی اس اپچ پر ہم اظہار تعجب کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں؟
شریعت کی جامعیت اجتہاد کی متقاضی ہے
مشہور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«تركت فيكم امرين لن تضلوا ماتمسكتم بهما كتاب الله وسنتى»
"میں تم میں دو چیزیں چھوڑ چلا ہوں، جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو گے، گمراہی نہیں ہو گے۔"
اس حدیث کی روشنی میں اگر اعتراض کیا جائے کہ علوم و فنون کے ارتقاء نے بعض ایسے مسائل پیدا کر دیے ہیں جن کے بارے میں نصوص خاموش ہیں تو ہم کہیں گے کہ ان کے حل کے لیے اسلام میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اجتہاد و استنباط کا دروازہ کھلا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی بعض ایسے جزئی واقعات رونما ہوئے جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عدمِ علم کی بناء پر اجتہاد کیا تو اگرچہ وہ اجتہاد صحیح نہ تھا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ صحیح حدیث میں اس وقت اجتہاد کی اجازت دی ہے اس لیے انہیں کچھ نہیں کہا گیا۔ حدیث میں ہے:
«اذا اجتهد الحاكم فاصاب فله اجران واذاجتهد فاخطأ فله اجرواحد»
"جب حاکم کا اجتہاد صحیح ہو تو اس کو دوگنا ثواب حاصل ہوتا ہے اور غلطی کی صورت میں بھی وہ بہرحال ایک ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ کیونکہ اس نے دین کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔"
پس جس طرح عدم علم ایک عذر ہے اسی طرح عدمِ وجود نصِ صریح بھی عذر ہے۔ ایسی صورت میں شریعت اجتہاد کی اجازت دیتی ہے۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں احکام کے بیان میں اجمال ہے، اگر اجمال کی بجائے تفصیل ہوتی تو ایسی مشکلات ضرور پیدا ہوتیں جن کا حل ممکن نہ ہوتا، اس لیے جب ہم پورے وثوق کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں کہ کتاب و سنت میں ہر دور کے لیے جامعیت ہے تو اس کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ اصول و شرائع کلیہ کے لحاظ سے جامعیت ہے وگرنہ زمانہ کے تغیرات اور تقاضوں سے قیامت تک کے لیے جو مسائل ابھرنے والے ہیں اور جن کا احکام کے بارے میں کتاب و سنت خاموش ہیں، ان کے حل کے لیے کتاب و سنت سے استنباط اور اجتہاد کے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہیں اور غالبا اسی لیے قرآن پاک میں اطاعت الہی اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اصالۃ اور اطاعت اولی الامر کو تبعا بیان کر کے اس مسئلہ کے حل کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ ذرا غور فرمائیں "﴿وَأَمرُهُم شورىٰ بَينَهُم.وَشاوِرهُم فِى الأَمرِ﴾ کے جملوں سے ایک ضابطہ اور اصول تو بہرحال ملتا ہے لیکن ان کی تفصیلات اور جزئیات کا قرآن پاک میں ذکر نہیں۔ بالکل اسی طرح سود کو حرام قرار دیا لیکن ان کی انواع و اقسام کا ذکر کتاب اللہ میں نہیں ہے اور سنت میں بھی "لا ضرر ولا ضرار" کا کلیہ ذکر کر دیا گیا ہے، لیکن اس کی تحدید کا ذکر نہیں فرمایا۔ گویا جزئیات کے تعین اور ان کی تحدید کے لیے بہرحال اجتہاد اور استنباط کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ معلوم ہوا کہ اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کے لیے کھلا ہے اور احکام کی تعیین کے لیے اہل علم کی شوری کا انعقاد ضروری ہے کہ وہ مصالھ کا خیال رکھتے ہوئے ان جزئی مسائل، جن میں کتاب و سنت کے نصوص خاموش ہیں، کا حل اجتہاد و استنباط کی روشنی میں پیش کریں۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«فان الشريعة بنائها واساسها على الحكم ومصالح العباد فى المعاش وفى المعاد»
"کہ شریعت کی بنیاد اور اساس یہ ہے کہ انسانوں کی مصلحتوں کا دنیا و آخرت کے لحاظ سے پورا پورا خیال رکھا جائے۔"
لیکن اجتہاد تغیر پذیر ہے مصالح کے پیش نظر اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے جبکہ کتاب و سنت کے اصول و ضوابط ناقابلِ ترمیم ہیں۔
علامہ ابن العربی احکام القرآن میں فرماتے ہیں:
"فا علماء ناردو ه الى كتاب الله فاذا لم تجدوه فالى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم فان لم تجدوه فكما قال على رضي الله عنه ما عندنا الا ما فى كتاب الله او مافى هذه الصحيفة او فهم اوتيه رجل مسلم"
ہمارے علماء کا قول ہے کہ ہر مسئلہ کا حل کتاب اللہ میں تلاش کرو، اگر وہاں نہ ملے تو سنت رسول اللہ میں ڈھونڈو اور اگر وہاں بھی نہ ملے تو پھر جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہمارے پاس تو صرف اللہ کی کتاب ہے یا یہ صحیفہ ہے یا پھر فہم ہے جو ہر مسلمان کو عطا کیا گیا ہے۔"
«وكما قال النبى صلى الله عليه وسلم لمعاذ بما تحكم قال بكتاب الله قال فان لم تجد قال بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فان لم تجد قال اجتهد رأئى ولا آلو»
"اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، "تو کس پر فیصلہ کرے گا؟" انہوں نے جواب دیا، "کتاب اللہ کی روشنی میں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "اگر وہاں حل موجود نہ ہو تو؟" انہوں نے کہا، "پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "اگر وہاں سے بھی حل کا علم نہ ہو سکے تو؟" انہوں نے کہا، "میں پوری جدوجہد کے ساتھ اجتہاد کروں گا۔"
معلوم ہوا، مسلمان کا فہم بھی کتاب و سنت کی روشنی میں ایک دلیل ہے اور فہم سب کا ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اس لیے بعض مسائل میں ائمہ کا اختلاف ہوا بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں بھی اس اختلاف کی کثرت کے ساتھ مثالیں موجود ہیں۔ دورِ نبوت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق میں اعلان فرمایا کہ آج ہر شخص عصر کی نماز بنو قریظہ کے علاقہ میں ادا کرے تو بعض صحابہ رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا مطلب یہ سمجھا کہ ہمیں وہاں پہنچنے میں جلدی کرنی چاہئے اور بعض وہاں عشاء کے قریب پہنچے تو انہوں نے اس وقت عصر کی نماز ادا کی۔ بہرحال فہم کا اختلاف برداشت کیا جا سکتا ہے اگرچہ عشاء کے وقت میں عصر کی نماز ادا کرنے کے فہم کو بہرحال صحیح نہیں کہا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَما جَعَلَ عَلَيكُم فِى الدّينِ﴾
کہ "اللہ تعالیٰ نے دین کے امور میں تم پر کچھ تنگی نہیں کی۔"
نیز فرمایا:
﴿يُريدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُم﴾
"کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ وہ تم سے تخفیف کرے"
«الدين يسر»"دین آسان ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:
«بعثت بالحنفية السمحة البيضاء»
"کہ مجھے دینِ حنیف دے کر بھیجا گیا تھا جو بہت ہی آسان اور واضح ہے۔"
ان سب ارشادات کا تقاضا ہے کہ لوگوں کی مصالح کا خیال رکھتے ہوئے کتاب و سنت کے بعد اجتہاد کو قابلِ عمل سمجھا جائے۔
علامہ ابن قیم زاد المعاد میں فرماتے ہیں:
«وفيها دليل على جواز الاجتهاد فى الوقائع فى حياة النبى صلى الله عليه وسلم واقراره على ذلك لكن هذا كان فى حال الحاجة الى الاجتهاد وعدم تمكينهم من مراجعة النص وقد اجتهد ابوبكر وعمر رضى الله عنهما بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم فى عدة من الوقائع واقرهما على ذلك لكن فى قضايا جزئية معينة لا فى احكام عامة وشرائع كلية فان هذا لم يقع بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم من احد من الصحابة فى حضوره صلى الله عليه وسلم البتة» زادالمعاد ص213ج2)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی بعض اوقات میں اجتہاد کا جواز ملتا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اجتہاد کو برقرار رکھا لیکن یہ اجتہاد ایک ضرورت کے پیش نظر تھا کہ اجتہاد کرنے والے صحابہ کرام نص کی ممراجعت پر قادر نہ تھے اور ثابت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بعض اوقات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل سامنے اجتہاد کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے اجتہاد کو صحیح قرار دیا، لیکن خیال رہے کہ ان کا اجتہاد جزئی معاملات میں تھا، احکامِ عامہ، شرائع کلیہ یعنی "اصول" میں نہ تھا اس لیے کہ اصول میں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی صحابی سے بھی اجتہاد کرنا قطعا ثابت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ، آئمہ دین رحمۃ اللہ علیہ ضرورت کے تحت جزئی مسائل میں اجتہاد کرتے رہے۔ شرعا ان کے لیے اجتہاد کی اجازت تھی۔ بعض اوقات عدم علم نص یا عدم بلوغ نص کی بناء پر ائمہ کرام کا اجتہاد نص سے متصادم ہے۔ اس صورت میں ائمہ کرام رحمہم اللہ تو معذور ہیں کہ انہیں نص کا علم نہ ہو سکا بلکہ انہوں نے نیک نیتی کے ساتھ اجتہاد کیا پس ان کا حق بجانب ہونا واضح ہے البتہ حق واضح ہو جانے کے بعد جس قدر ائمہ کرام کے اجتہادات نصوص صریحہ کے مخالف ہوں ان کو ترک کرنا ضروری ہے۔ نصوص شریعت کے مقابلہ میں ائمہ کرام کے اجتہادات کو ترجیح دینا ایک مسلمان کے لیے کسی طرح بھی درست نہیں جبکہ خود ائمہ کرام نے اپنے شاگردوں سے واضح الفاظ میں کہا کہ "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مل جانے کی صورت میں میرے قول پر عمل نہ کرنا۔"
خلاصہ یہ کہ اسلام میں قرآنِ پاک آئین اور دستور کی کتاب ہے۔ اس میں نہ تو تغیر و تبدل راہ یا سکتا ہے اور نہ ہی یہ مٹ سکتی ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے لہذا اس میں بیان کردہ اصول و قوانین کی جامعیت سے انکار نہیں اور زمانہ کے تغیرات و انقلابات یا نئی نئی حیران کن ایجادات و اکتشافات نے جس قدر بھی معاشرے میں تبدیلیاں پیدا کین اور بظاہر ناقابلِ حل مشکلات اور پیچیدگیاں سامنے آئی ہیں، فہمِ صحیھ اور ذوقِ سلیم رکھنے والا انسان جب قرآن پاک کے بحرِ بیکراں میں غوطہ زن ہو گا اور مشکلات کا حل نکالنا چاہے گا تو اپنی مخلصانہ جدوجہد سے منجدھار سے نکل کر ساحلِ مراد سے ضرور ہمکنار ہو گا۔ کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان درست نہیں کہ قرآن پاک میں ہر چیز کا بیان موجود ہے؟ یعنی قواعد و ضوابط کی حد تک اس میں مکمل راہنمائی پائی جاتی ہے۔ ﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَينا بَيانَهُ﴾ آیت کی روشنی میں یہ نظریہ رکھنا بالکل صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی تشریحات سے بھی آگاہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب نازل کیا جا رہا ہے اس کو لوگوں کے سامنے کھول کھول کر بیان فرمائیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قواعد و ضوابط کی تشریح اور اُن کی جزئیات وغیرہ سے امتِ مسلمہ کو مطلع فرمایا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ قرآنِ پاک میں نماز قائم کرنے کا ذکر ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی کیفیت کے متعلق ایک جامع جملہ بیان فرمایا:
«صلوا كما رأيتمونى اصلى»
"کہ تم اس طرح نماز ادا کرو جس طرح تم مجھے نماز ادا کرتے دیکھتے ہو۔"
اسی طرح حج کے بارے مین اگرچہ کچھ تفصیلات قرآنِ پاک میں بھی موجود ہیں لیکن حجۃ الوداع کے ایک خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
«خذوا عنى مناسككم لعلى لا احج بعدعامى هذا»
"مجھ سے مناسکِ حج معلوم کر لو، شاید میں اس سال کے بعد حج نہ کر سکوں۔"
ان دو مثالوں کے بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ ساتھ سنتِ رسول بھی، جسے کتاب اللہ کی شرح کہنا درست ہے، سرچشمہ ہدایت ہے اور سنت کے بغیر قرآنِ پاک سمجھنا خاصا مشکل ہے۔ ہمارے تمام فیصلے اسلامی شریعت کے اصل ماخذ کتاب و سنت کی روشنی میں طے ہونے چاہئیں۔ قرآنِ پاک میں ہے: "جو شخص کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر ہے، ظالم ہے، فاسق ہے" رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأَنِ احكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّـهُ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم... ٤٩﴾... سورةالمائدة
"یعنی آپ کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کرنا ہے اور ان کی خواہشات کا اتباع نہیں کرنا ہے۔"
پس کتاب و سنت کا جو مقام ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی کے پروگراموں کو مرتب کیا جائے۔ نیز یاد رکھنا چاہئے کہ جو شخص کتاب و سنت کی حاکمیت کو تسلیم کر لیتا ہے اور ان کے احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیتا ہے اور ہر صدا پر لبیک کی آواز بلند کرتا ہوا دیوانہ وار بھاگتا ہے حتی کہ اپنی قیمتی جان کو اس کی چوکھٹ پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
تو گویا وہ دنیوی اخروی سعادتوں سے ہم کنار ہو گیا اور اس نے گوہر مقصود کو پالیا۔ اور جو شخص کتاب و سنت کو پس پشت ڈالتا ہے، اس کی واضھ ہدایات کے مقابلہ میں انسانی قوانین کو ترجیح دیتا ہے تو اس کی بدبختی اور نالائقی میں کچھ شک نہیں۔ یہ شخص "خسرالدنيا والآخرة" ہو گیا، اس نے عظمتِ انسانی کو خاک میں ملا دیا اور کتاب و سنت سے بغاوت کر کے عذابِ خداوندی کا مستحق ٹھہرا۔"فوا اسفاه على ذلك" کہ وہ حزب اللہ کے زمرہ سے خارج ہو گیا۔