ہائے یہ پھول کبھی نذرِ خزاں بھی ہوں گے

پسِ پردہ بھی وہ رگِ جاں بھی ہوں گے
ہم انہیں ڈھونڈ ہی لینگے وہ جہاں بھی ہونگے
بالیقین راہ محبت ہے رہ کرب و بلا
دیکھ اس پر مرے قدموں کے نشاں بھی ہوں گے
غیر ممکن ہے جہاں شمع ہو پروانہ نہ ہو
تو جہاں ہو گا ترے سوختہ جاں بھی ہوں گے
جن کے اقوال اور اعمال میں رہتا ہے تضاد
نادرِ و زخ میں وہ شعلہ بیاں بھی ہوں گے
دن نکل آیا ہے سورج کی تپش بڑھنے لگی
قافلے جانبِ منزل یہ رواں بھی ہوں گے
جن کی خوشبو سے مہکتا ہے مرا گلشنِ دل
ہائے یہ پھول کبھی نذرِ خزاں بھی ہوں گے
تیرے افعال سے دل وقفِ الم رہتا ہے
تیرے افعال کبھی راحتِ جاں بھی ہوں گے
جھوم اٹھیں گے وہ اعزاز سمجھ کر اپنا
تیرے شیدا جو تہِ نوکِ سناں بھی ہوں گے
ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ جس دن عاجز
تیرے اعمال جو پنہاں ہیں عیاں بھی ہوں گے