دو پروانے شمع رسالت کے
1۔ حضرت براء بن معرور انصاری رضی اللہ عنہ
(1)
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ میں نزولِ اجلال فرمایا، تو انصارِ مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کر دیے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اپنے ایک انصاری جاں نثار کو نہ پایا جو بیعت عقبہ کبیرہ میں والہانہ جوش و خروش کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر چکے تھے اور بآوازِ بلند خدا کی قسم کھا کر یہ عہد کر چکے تھے کہ حضور مدینہ تشریف لائیں تو ہم اپنی جان اور آل اولاد کے ساتھ آپ کی حفاظت کریں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں دریافت فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ وہ ایک ماہ قبل اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر سن کر سخت صدمہ پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو ساتھ لے کر ان کی قبر پر تشریف لے گئے اور چار تکبیروں کے ساتھ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی ۔۔۔ یہ خوش بخت صاحب رسول جن کی قبر پر سید المرسلین، شفیع المذنبین خیر الخلائق صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس تشریف لے گئے اور اپنے بیسیوں صحابہ کے ساتھ ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ حضرت براء بن معرور انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔
(2)
سیدنا ابوبشر بن براء بن معرور رضی اللہ عنہ کا تعلق خزرج کے خاندان "بنو سلمہ" سے تھا۔ نسب نامہ یہ ہے:
براء بن معرور بن صخر بن سابق بن سنان بن عبید بن عدی بن غنم بن کعب بن سلمہ بن سعد بن علی بن اسد بن ساردہ بن یزید بن جشم بن خزرج۔
والدہ کا نام رباب بنت نعمان تھا جو سید الاوس حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی حقیقی پھوپھی تھیں۔
حضرت براء رضی اللہ عنہ بنو سلمہ کے سردار تھے اور کئی قلعوں کے مالک تھے امارت اور ریاست کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں فطرتِ سعید سے نوازا تھا سئہ 12 بعدِ بعثت میں حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے اور اپنی تبلیغی مساعی سے جن لوگوں کو حلقہ بگوشِ اسلام بنایا، حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ بھی ان میں شامل تھے۔ سئہ 13 نبوت میں مدینہ کے جو پچھتر اہل مکہ جا کر بیعت عقبہ کبیرہ کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔ حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ ان میں شامل ہی نہیں تھے۔ بلکہ انہوں نے اس موقع پر نہایت اہم کردار ادا کیا۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور ابن ہشام نے محمد بن اسحاق کے حوالہ سے حضرت کعب بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم اپنی قوم کے مشرکین کے ساتھ حج کے لیے روانہ ہوئے۔ ہمارے (مسلمانوں) کے ساتھ ہمارے بزرگ اور سردار براء بن معرور رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اثنائے راہ میں انہوں نے کہا میری ایک رائے ہے، معلوم نہیں تمہیں اس سے اتفاق ہے یا اختلاف۔ ہم نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرا خیال یہ ہے کہ میں کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھوں اور اس کی طرف پشت نہ کروں۔ ہم نے کہا کہ ہمیں تو یہ معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شام (بیت المقدس) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف عمل نہ کریں گے مگر براء بن معرور رضی اللہ عنہ کعبہ کی طرف منہ کر کے ہی نماز پڑھتے رہے اور ہم انہیں ٹوکتے رہے۔ جب ہم لوگ مکہ پہنچے تو براء رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا:
"بھتیجے چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں کہ میرا کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں، کیونکہ تم لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے میرے دل میں وسوسہ پیدا ہو گیا ہے۔"
چنانچہ ہم دونوں مکہ کے ایک شخص سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ پوچھ کر حرم گئے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے چچا) عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا، آپ ان دونوں کو جانتے ہیں؟ عباس رضی اللہ عنہ تجارت کے سلسلہ میں ہمارے ہاں آتے رہتے تھے اور ہمیں جانتے تھے، انہوں نے کہا، ہاں، یہ براء بن معرور رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ۔ براء رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اے اللہ کے نبی خدا نے مجھ کو اسلام کی ہدایت کی اور میں سفر کر کے یہاں آیا ہوں، میرا خیال یہ ہے کہ میں کعبہ کی طرف پیٹھ کرنے کے بجائے اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھوں اور میں ایسا کرتا ہوں لیکن میرے ساتھی اس کے خلاف ہیں۔ اس بارے میں آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم ایک قبلہ پر ضرور ہو لیکن ابھی صبر کرنا چاہئے چنانچہ براء رضی اللہ عنہ آپ کی تقلید میں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے لگے۔"
(3)
ایامِ تشریق کے بیچ والے دن سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہمراہ عقبہ تشریف لائے۔ یہاں مدینہ کے تمام اہلِ حق (مشرکین سے الگ ہو کر) جمع تھے۔ کچھ دیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور انصار کے درمیان گفتگو ہوتی رہی۔ اس دوران میں جب انصار نے کہا کہ آپ اپنے لیے جو عہد ہم سے لینا چاہیں، لے لیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم میری اسی طرح حمایت و حفاظت کرتے رہو جس طرح خود اپنے اہل و عیال کی کرتے ہو۔ امام احمد اور امام بہیقی نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دستِ مبارک اپنے ہاتھ میں لے کر عرض کیا " جی ہاں، اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ہم اپنی جانوں اور آل اولاد کی طرح آپ کی حفاظت کریں گے، یا رسول اللہ، ہم سے بیعت لیجئے، ہم جنگ آزما لوگ ہیں اور ہم نے اسے اپنے باپ دادا سے ورثے میں پایا ہے۔"
واقدی نے ایک روایت میں اس موقع پر حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔
"ہم خوب سامانِ جنگ اور لڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ہمارا یہ حال اس وقت تھا جب ہم بت پرست تھے تو بھلا ہمارا حال کیا ہو گا جب کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہے جس سے دوسرے لوگ محروم ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہماری تائید فرمائی ہے۔"
ابنِ سعد نے ایک روایت میں بیعتِ عقبہ کے موقع پر حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ منسوب کیے ہیں:
"اے عباس ہم نے آپ کی بات سن لی ہے (یعنی یہ کہ تم خوب سوچ سمجھ لو کہ تم میں تمام عرب کی مخالفت مول لینے کی طاقت ہے یا نہیں) خدا کی قسم ہمارے دلوں میں کچھ اور ہوتا تو ہم صاف صاف کہہ دیتے لیکن ہم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچی وفاداری کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی جانیں لڑا دینا چاہتے ہیں۔"
ان روایات سے حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کے اخلاص اور جوشِ ایمان کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس گفتگو کے بعد مدینہ کے سبھی اہلِ حق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت سے مشرف ہو گئے۔ یہ بیعت تاریخ میں عقبہ کبیرہ یا لیلۃ العقبہ کے نام سے مشہور ہے۔
بیعت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ اپنے اندر سے بارہ نقیب منتخب کر کے دو جو اپنے اپنے قبیلے کے ذمہ دار ہوں۔ چنانچہ انصار نے بارہ نقباء منتخب کیے۔ 9 خزرج میں سے اور تین اوس میں سے۔ خزرج کے 9 نقیبوں میں ایک حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ تھے جنہیں بنو سلمہ کا نقیب منتخب کیا گیا۔
(4)
بیعت عقبہ کبیرہ سے سعادت اندوز ہو کر حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ مدینہ واپس آئے اور ایک ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں بے تابی سے کاٹنے لگے لیکن افسوس کہ اس دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالِ جہاں آرا کی دوبارہ زیارت ان کی قسمت میں نہ تھی۔ ہجرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ماہ قبل ماہِ صفر میں سخت بیمار ہو گئے۔ جب جانبری کی امید نہ رہی تو وصیت کی کہ قبر میں مجھ کو قبلہ رخ رکھنا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائیں تو میری تمام جائیداد کا ایک تہائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دینا۔ اس کے بعد اپنا منہ قبلے کی طرف کر لیا اور اسی حالت میں اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبر پر تشریف لے گئے اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق ان کا ثلث مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرما کر ان کے وارثوں کو واپس کر دیا۔
حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ نے اپنے پیچھے ایک صاجزادے بِشر اور ایک صاجزادی سلافہ رضی اللہ عنھم چھوڑے۔ ان دونوں کو شرفِ صحابیت حاصل ہے۔
حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ اگرچہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت الی المدینہ سے پہلے ہی فوت ہو گئے۔ تاہم ان کا شمار نہایت عظیم المرتبت صحابہ میں ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے لیلۃ العقبہ میں جس جوشِ ایمان کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ تھا، اہلِ سیر نے انہیں متقی، فاضل اور فقیہ کے القاب سے یاد کیا ہے۔
حضرت بِشر بن براء انصاری رضی اللہ عنہ
سیدنا حضرت بِشر جلیل القدر صحابی، حضرت براء بن معرور الانصاری الخزرجی السلمی العقبی النقیب کے صاجزادے تھے۔ نسب نامہ حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کے حالات میں دیا جا چکا ہے۔ حضرت بِشر رضی اللہ عنہ نے ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سال قبل اپنے والد گرامی کے ساتھ اسلام قبول کیا اور پھر سئہ 13 بعدِ بعثت کے زمانہ حج میں ان کی معیت میں مکہ جا کر بیعت عقبہ کبیرہ کی عظیم سعادت حاصل کی۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ نے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں نزولِ اجلال سے ایک ماہ پہلے وفات پائی۔ وہ اپنے ایک تہائی مال کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں وصیت کر گئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت بِشر رضی اللہ عنہ نے یہ مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما کر اسے پھر حضرت بشر رضی اللہ عنہ کو واپس دے دیا۔
حضرت بِشر رضی اللہ عنہ نہایت ماہر قدر انداز تھے اور انصار کے بہادر نوجوانوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت اور عقیدت تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہین بہت عزیز جانتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بنو سلمہ کا ایک مالدار شخص جد بن قیس ان کا سردار بن گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلمہ کے لوگوں سے پوچھا کہ اب تمہارا سردار کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا جد بن قیس۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اسے تم نے سردار کیوں بنایا؟ عرض کیا کہ محض اس کے مالدار ہونے کی وجہ سے، ورنہ وہ پرلے درجے کا بخیل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بھلا بخل سے بھی بڑھ کر کوئی بیماری ہے؟ وہ تمہارا سردار نہیں ہو سکتا۔" انصار بنو سلمہ نے عرض کیا، تو پھر آپ ہی ارشاد فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارا سردار بشر بن براء بن معرور رضی اللہ عنہ ہے، چنانچہ اس دن سے حضرت بشر رضی اللہ عنہ بنو سلمہ کے سردار قرار پائے۔
حضرت بِشر رضی اللہ عنہ کو بیعتِ عقبہ کے شرف کے بعد انہوں نے احد اور احزاب میں شجاعانہ خدمات انجام دیں۔ غزوہ خیبر میں بھی سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔ فتح خیبر کے بعد ایک یہودی عورت زینب بنتِ حارث نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بکری کا زہر آلود گوشت پیش کیا۔ اس وقت جتنے صحابہ بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو شریک کر لیا اور سب سے پہلے خود کھانا شروع کیا لیکن ایک لقمہ کھا کر ہاتھ کھینچ لیا اور فرمایا، اس کھانے میں زہر ہے۔ یہ سنتے ہی سب صحابہ رضی اللہ عنہ دست کش ہو گئے۔ اس اثناء میں حضرت بشر نے کئی لقمے کھا لیے تھے۔ اب کا بیان ہے کہ لقمے کا مزا مجھے بھی خراب معلوم ہوا تھا لیکن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لقمہ اگلنا ادب کے خلاف سمجھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس زہر کے اثر سے بیمار ہو گئے اور ایک روایت کے مطابق وہیں جاں بحق ہو گئے۔ لیکن بعض نے لکھا ہے کہ ایک سال بیمار رہنے کے بعد وفات پائی۔
زینب بنت حارث کے انجام کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، ایک روایت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلا کر باز پرس کی تو اُس نے اپنے جرم کا اقبال کیا اور کہا کہ میں نے اس لیے زہر دیا کہ اگر آپ پیغمبر ہیں تو زہر آپ پر اثر نہ کرے گا اور اگر آپ پیغمبر نہیں ہیں تو ہم کو آپ سے نجات مل جائے گی۔ اب میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ سچے پیغمبر ہیں۔ پھر اس نے کلمہ شہادت پڑھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے درگزر فرمایا۔
دوسری روایت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حضرت بِشر رضی اللہ عنہ کے قصاص میں قتل کرا دیا۔ تیسری روایت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب کو حضرت بِشر رضی اللہ عنہ کے وارثوں کے سپرد کر دیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ حضرت بِشر رضی اللہ عنہ کا شمار جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کی کتابِ سیرت میں سبقت فی الاسلام، شجاعت و شہادت، جذبہ فدویت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت و عقیدت سب سے نمایاں ابواب ہیں۔