معالم المدینۃ المنورۃ

حرمِ مدینۃ


حرم: (بفتح الحاء الراء المهملتين) جو چیز قابلِ تکریم ہو وہ حرم کہلاتی ہے۔

اصطلاحا: وہ مقررہ حدود جن کے اندر شکار کرنا، درخت اور گھاس کاٹنا وغیرہ امور، شرعی طور پر ناجائز ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک دو حرم ہیں مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ۔

مکہ کے حرم ہونے میں کوئی اختلاف نہیں البتہ بعض الناس نے مدینہ کے حرم ہونے کا انکار کیا ہے حالانکہ مدینہ منورہ کا حرم ہونا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

چنانچہ ملاحظہ ہو:

«عن على رضي الله عنه قال: ما عندنا شئي الا كتاب الله وما فى هذه الصحيفة عن النبى صلى الله عليه وسلم، ان المدينة حرما بين عير الى ثور من احدث فيها حدثا اواوىٰ محدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا »

"حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس صحیفہ کے علاوہ کوئی چیز نہیں۔ یہ صحیفہ اللہ کے نبی کی طرف سے ہے اور اس میں ہے کہ مدینہ منورہ جبلِ عیر سے جبلِ ثور تک حرم ہے۔ جو شخص ان حدود کے اندر غلط کام کرے یا غلط کار کو پناہ دے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی یا فرضی عبادت قبول نہ فرمائیں گے۔"

2۔ حضرت بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خیبر سے واپسی پر جب ہم مدینہ کے قریب آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«اللهم انى احرم ما بين جبليها مثل ما حرم به ابراهيم مكة-الخ»

کہ"یا اللہ! جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام بنایا اسی طرح میں بھی ان دو پہاڑوں کے درمیانی علاقہ کو حرام قرار دیتا ہوں۔" (صحیح البخاری، کتاب الاطمعۃ، باب الحیس۔ صحیح مسلم)

3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ "آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ کی پتھریلی زمینوں کے درمیانی علاقہ کو حرام قرار دیا۔ اگر میں ان حدود میں ہرن کو چرتے ہوئے دیکھوں تو اسے نہیں دھمکاؤں گا اور آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بارہ میل تک مدینہ کو حرام قرار دیا۔"

«عن جابر رضى الله عنه قال قال النبى صلى الله عليه وسلم ان ابراهيم حرم مكة وانى حرمت المدينة ما بين لا بتيها لا يقطع عضاهها ولا يصاد صيدها»

"حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا۔ میں مدینہ کے دو پہاڑوں کے درمیانی رقبہ کو حرم قرار دیتا ہوں۔ اس کی جھاڑیاں نہ کاٹی جائیں اور نہ اس کا شکار کیا جائے۔"

«عن سهل بن حليف قال اهوى رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده الى المدينة فقال: انها حرم أمن »(صحيح مسلم)

"حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ "یہ حرم ہے اور امن کی جگہ ہے"

ان احادیث کے علاوہ صحیحین میں اور حدیث کی دوسری کتابوں میں حضرت ابوسعید الخدری، عبداللہ بن زید بن عاصم، رافع بن خدیج، سعد بن ابی وقاص وغیرہ (رضی اللہ عنھم)

سے بہت سی روایات مروی ہیں۔ اختصار کے پیشِ نظر مندرجہ بالا پانچ احادیث پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو حق سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دیں۔ آمین

جُرف


مدینہ منورہ سے جنوب کی طرف تقریبا ایک فرسخ (تین میل) کے فاصلہ پر وادی عقیق سے متصل جرف نام کی ایک دادی ہے۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس کا ذکر آتا ہے۔ آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک لشکر تیار کر کے رومیوں کے مقابلہ کے لیے روانہ فرمایا۔ جب یہ لشکر اس وادی میں پہنچا تو اطلاع ملی کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طبیعت بہت زیادہ ناساز ہو گئی ہے۔ چنانچہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ لشکر سمیت واپس مدینہ آ گئے۔ فرماتے ہیں کہ میں جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے پھر میرے جسم پر ہاتھ مبارک پھیرا۔ مجھے معلوم ہوا کہ میرے لیے دعا فرما رہے ہیں۔

مکتبات (لائبریریاں)

مدینہ منورہ میں چھوٹی بڑی بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری لائبریریاں ہیں جن میں بے شمار نادر اور نایاب نفیس کتابیں موجود ہیں۔ بعض مشہور لائبریریاں مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ مکتبۃ المدینۃ المنورہ:

یہ مکتبہ مسجد نبوی سے جنوب کی جانب واقع ہے۔ مسجد اور مکتبہ کے درمیان ایک کھلی سڑک ہے۔ سعودی حکومت نے 1380 میں یہ مکتبہ قائم کیا۔ اس مکتبہ میں مطبوع اور قلمی کتابوں کی تعداد پندرہ ہزار سے متجاوز ہے۔

2۔ مکتبۃ عارف حکمت:

مکتبۃ المدینہ کے جوار میں مشرق کی جانب مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے جنوب مشرقی گوشہ کے بالمقابل واقع ہے۔ صاحبِ مکتبہ نے سئہ 1370ھ میں یہ مکتبہ وقف کیا۔ چند سال قبل کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں سات ہزار کتابیں ہیں، ان میں سے 4718 قلمی نسخے ہیں۔ ان میں سے اکثر کتابیں نایاب اور نادر ہیں۔

3۔ مکتبۃ محمودیۃ:

سلطان محمود العثمانی نے سئہ 1272ھ میں اس مکتبہ کی بنیاد رکھی۔ یہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر بابِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے اوپر ایک کمرہ میں واقع تھا۔ اب باہر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس میں آٹھ ہزار کتابیں ہیں۔ ان میں سے پانچ ہزار قلمی ہیں۔

4۔ مکتبۃ الحرم النبوی الشریف:

یہ مکتبہ سعودی حکومت کی طرف سے سئہ 1359ھ میں قائم کیا گیا۔ یہ بھی مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر ہی بابِ عمر رضی اللہ عنہ کے جوار میں ہے۔ یہاں کتابوں کی تعداد چھ ہزار ہے اور چھ سو کے قریب قلمی نسخے ہیں۔

5۔ مکتبہ مرکزیہ جامعہ اسلامیہ:

یہ جامعہ اسلامیہ کا مرکزی مکتبہ ہے جس میں تقریبا ہر موضوع پر کتابیں موجود ہیں شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر کتابیں یہاں نہ ہوں۔ عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی کتابیں موجود ہیں۔ اس مکتبہ کی خصوصیت یہ ہے کہ مسلمانوں کا علمی ذخیرہ جو اب تک مخطوط چلا آ رہا ہے، جامعہ کی کوشش ہے کہ ان کتابوں کی فوٹو اسٹیٹ حاصل کر کے اس مکتبہ میں جمع کر لیا جائے۔ یہاں مخطوط کتابوں کے لیے علیحدہ شعبہ قائم ہے۔ اس مکتبہ کے علاوہ جامعہ کے زیرِ اہتمام دیگر ادارے کلیات، ثانوی، متوسط اور دارالحدیث کے اپنے اپنے مکتبے ہیں جہاں معقول تعداد میں کتابیں موجود ہیں۔

الجامعۃ الاسلامیۃ


جامعہ اسلامیہ (یعنی مدینہ یونیورسٹی) عالمِ اسلام کی یونیورسٹی ہے جس کا انتظام سعودی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں دنیا بھر کے طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ اس سال طلبہ کی مجموعی تعداد چھ ہزار ہے۔ معالمِ مدینہ کے ضمن میں جامعہ کا مختصر تذکرہ بے جا نہ ہو گا۔

تاریخ تاسیس:

جامعہ کے قیام سے قبل دینی علوم کی درسگاہ مسجدِ نبوی تھی، جہاں پر علماء اورع مشائخ طلابِ علم کو دینی علوم کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ ملک کے علمی حلقوں کی طرف سے بار بار مطالبہ ہوتا رہا کہ سرکاری طور پر ایک ایسی یونیورسٹی قائم کی جانی چاہئے جہاں فرزندانِ اسلام کو علوم، اسلامیہ سے کماحقہ روشناس کرایا جا سکے۔

چنانچہ 25 ربیع الاول سئہ 1380ھ کو جامعہ کی بنیاد رکھی گئی اور نام "الجامعۃ الاسلامیہ" تجویز ہوا۔

خصوصیت:

اس جامعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ دار الہجرۃ مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں واقع ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد اپنا مسکن بنایا۔ جہاں سے اسلام کو اطرافِ عالم میں فروغ حاصل ہوا اور مختلف اطراف سے آ کر لوگ اسلام کے دائرہ میں داخل ہوئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی درس گاہ اور مدرسہ مسجد نبوی تھا۔ وقت کی ضرورت اور حالات کے تقاضوں کے پیشِ نظر اس عظیم یونیورسٹی کو جب مستقل عمارت اور مزید جگہ کی ضرورت ہوئی تو اسے شہر سے باہر منتقل کرنا پڑا۔

جامعہ کے بنیادی مقاصد:

مندرجہ ذیل اہم مقاصد کی خاطر جامعہ کا قیام عمل میں لایا گیا:

1۔ تبلیغ اور تعلیم کے ذریعہ دعوتِ اسلامیہ کو پوری دنیا میں عام کرنا۔

2۔ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خالص اتباع کا جذبہ پیدا کر کے مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی روح کو اجاگر کرنا۔

3۔ وقت کی ضرورت کے پیشِ نظر مختلف مضامین لکھوا کر شائع کرنا۔

4۔ عالمِ اسلام سے آنے والے طلابِ علم کی خصوصی تربیت کرنا تاکہ وہ اسلامی اور عربی علوم میں ماہر اور دین میں فقیہ بن کر کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور سلف صالح کے طریق کو اپنا کر اسلام کی تبلیغ کر سکیں اور مسلمانانِ عالم کو پیش آنے والی مشکلات کا حل سوچ سکیں۔

5۔ دنیا میں علومِ اسلامی سے متعلق کتابوں کو جمع کر کے ان کی حفاظت کرنا اور تحقیق کر کے شائع کرنا۔

6۔ عالمِ اسلام میں موجود یونیورسٹیوں اور دیگر اسلامی درسگاہوں سے رابطہ قائم کر کے خدمتِ اسلام کے سلسلہ میں ان سے تعاون کرنا۔

کلیات (فیکٹیلز)


اس وقت جامعہ کے زیر اہتمام پانچ کلیات جاری ہیں:

1۔ کلیۃ الشریعۃ:

جامعہ کے قائم ہوتے ہی سب سے پہلے یہ کلیہ قائم کیا گیا اور 2 جمادی الاخری 1381ھ کو یہاں تعلیم کی ابتداء ہوئی۔

2۔ کلیۃ الدعوہ واصول الدین:

یکم رجب 1386ھ کو ابتداء ہوئی۔

3۔ کلیۃ القرآن الکریم والدراسات الاسلامیۃ:

یہاں 6 شوال 1394ھ کو تعلیم شروع ہوئی۔

4۔ کلیۃ الغۃ العربیہ والاداب:

اس میں 27 شوال 1395ھ سے تعلیم کی ابتداء ہوئی۔

5۔ کلیۃ الحدیث الشریف والدراسات الاسلامیۃ:

1396ھ میں اس کلیہ کی بنیاد رکھی گئی اور 24 شوال سے تعلیم کا آغاز ہوا۔

تمام کلیات میں مدتِ تعلیم چار سال ہے اور توحید، تفسیر، حفظِ قرآن، حدیث، اصولِ حدیث، فقہ، سیرت اور تاریخ وغیرہ مضامین میں تمام کلیات میں مشترک ہیں۔

البتہ کلیۃ الشریعۃ میں فقہ، اصول، فقہ، کلیۃ الدعوۃ میں تبلیغ اور اصولِ تبلیغ، کلیۃ القرآن الکریم میں قرآن کریم کے علوم قراءت اور تفسیر، اعجاز القرآن، کلیۃ اللغۃ العربیہ میں عربی لغت کے علوم اور کلیۃ الحدیث الشریف میں حدیثِ نبوی کے متعلق فنون اور علوم کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

ان کلیات کے علاوہ مندرجہ ذیل ادارے بھی جامعہ کے تحت تعلیمی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

1۔ المعہد الثانوی (ہائی سکول)

2۔ المعہد المتوسط (مڈل سکول)

3۔ شعبۃ تعلیم اللغۃ

4۔ دارالحدیث مدینہ منورہ

5۔ دارالحدیث مکہ مکرمہ

ان تمام اداروں میں طلبہ کو درسی کتب کے علاوہ بہت سی مفید علمی کتب دی جاتی ہیں مثلا کلیۃ الشریعۃ کے پہلے سال میں "المغنی لابن قدامہ" دی جاتی ہے جو کہ فقہ حنبلی کا مرجع ہے۔ "کلیۃ الدعوۃ" میں البدایہ والنہائی دی جاتی ہے۔ کلیۃ القرآن میں تفسیری طبری اور کلیۃ الحدیث میں تہذیب التہذیب ، تذکرۃ الحفاظ، خلاصہ تہذیب الکمال اور النہایہ لابن الاثیر وغیرہ کتب دی جاتی ہیں۔

المراجع:

القرآن الکریم، صحیح البخاری، صحیح مسلم، سُنن النسائی، منتحہ المعبود بترتیب مسند الطیالسی ابی داؤد، وفاء الوفاء للسمہودی، سیرت ابنِ ہشام، فصول من تاریخ المدینۃ شیخ علی حافظ، مراءۃ الحرمین، ابراہیم رفعت پاشا، مختصر سیرۃ الرسول، شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ، آثار المدینۃ المنورۃ، عبدالقدوس الانصاری، دلیل الجامعۃ الاسلامیہ۔