أَصلُها ثابِتٌ وَفَر‌عُها فِى السَّماءِ

پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے تینتیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ۔۔۔ اس دوران کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں اور مختلف نظامہائے حکومت آزمائے گئے، لیکن نہ تو کسی حکومت کو استحکام نصیب ہو سکا اور نہ ہی یہاں کوئی طرزِ حکومت کامیاب ہو سکا، بلکہ نت نئے تجربوں نے خود ملک کی سلامتی ہی کو داؤ پر لگا دیا ۔۔۔ چنانچہ جو لوگ 14 اگست سئہ 1947ء کو نقشہ دُنیا پر ایک نئی اسلامی مملکت کے وجود سے آشنا ہوئے تھے، تیس ہی سال بعد (دسمبر سئہ 77) میں ایک تلخ حقیقت کا سامنا کر رہے تھے ۔۔۔ سقوطِ ڈھاکہ کوئی معمولی حادثہ نہ تھا کہ جس کی یاد ذہنوں سے بھلائی جا سکے۔
چاہئے تو یہ تھا کہ یہ حادثہ ہمارے فکر و نظر میں ایک اہم انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتا اور اس تازیانہ قدرت میں ہم اپنے لیے عبرتوں کے نئے سامان تلاش کرتے، لیکن اس کے بعد کا چھ سات سالہ دور ایسا دور ہے کہ جسے نرم سے نرم الفاظ میں بھی "نظریہ پاکستان سے بغاوت کا دور" قرار دیا جا سکتا ہے ۔۔۔ تاہم اس ملک کے عوام جو "پاکستان کا مطلب کیا؟ ۔ لا اله الا اللہ" کا نعرہ ہر دورِ حکومت میں بلند کرتے رہے ہیں، "لا اله الا اللہ" کی اس نئی اور انوکھی تعبیر کو برداشت نہ کر سکے اور بالآخر وُہ لاوا پھوٹ نکلا جو ان کے ذہنوں مین مدتوں سے کلبلا رہا تھا ۔ یہ تھی "تحریکِ نظامِ مصطفیٰ" جس نے آتش فشاں کی شکل اختیار کر کے تمام غیر اسلامی نظریات کو بھسم کر کے رکھ دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

5 جولائی سئہ 77 اس نئے دور کی ابتداء ہے جب پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا نہ صرف احساس ابھرا بلکہ اس کے لیے کچھ عملی اقدامات بھی ہوئے ۔۔۔ رفتار اگرچہ سست ہے تاہم اس سلسلہ کی کوششوں میں جو خلوص کار فرما اور اس کی تہ میں جو جذبہ کروٹیں لے رہا ہے، اسے نظر انداز کرنا انتہائی زیادتی اور اس سے انکار یکسر ناممکن ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ نفاذِ اسلام کی اولین خشت "لا اله الا اللہ" یعنی توحید ہے اور یہی وُہ بنیادی نکتہ ہے جس کے گرد تمام انبیاء علیھم السلام کی دعوت گردش کرتی رہی ہے ۔۔۔ سورہ ہود میں حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کا ذکر ہے، الفاط اگرچہ مختلف ہیں لیکن مفہوم ایک ہی ہے کہ:
﴿قالَ يـٰقَومِ اعبُدُوا اللَّـهَ ما لَكُم مِن إِلـٰهٍ غَيرُ‌هُ...٦٥﴾... سورةالاعراف
کہ "اے قوم (صرف) اس اللہ کی عبادت کرو جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں"
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا والوں کی اصلاح اور ان کی رشد و ہدایت کے لیے مرکز و محور اسی چیز کو قرار دیا:
«ياءيهاالناس قولوا لا اله الا الله تفلحوا تملكوا العرب والعجم»
کہ "اے لوگو! "لا الہ الا اللہ" کا اقرار کر لو، نجات پا جاؤ گے، یہی نہیں بلکہ اس بناء پر عرب و عجم تمہارے زیرِ نگیں آ جائیں گے"
لیکن اس مقام پر پہنچ کر ہمارے سامنے سوچ کی کچھ نئی لہریں ابھرتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبینِ اولین (مشرکینِ مکہ) وہ لوگ تھے جو نہ صرف وجود باری تعالیٰ سے آشنا تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رزاقی اور ربوبیت کے قائل اور اس کو فاطرالسماوات والارض بھی مانتے تھے۔ سورۃ العنکبوت میں ارشاد ربانی ہے:
﴿وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَر‌ضَ وَسَخَّرَ‌ الشَّمسَ وَالقَمَرَ‌ لَيَقولُنَّ اللَّـهُ ۖ فَأَنّىٰ يُؤفَكونَ ﴿٦١﴾... سورةالعنكبوت
کہ "(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم!) اگر آپ ان (لوگوں) سے یہ سوال کریں کہ زمین و آسمان کا خالق اور سورج اور چاند کو مسخر کرنیوالا ہے)"
﴿وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن نَزَّلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَحيا بِهِ الأَر‌ضَ مِن بَعدِ مَوتِها لَيَقولُنَّ اللَّـهُ... ﴿٦٣﴾... سورة العنكبوت
"اور اگر آپ اُن سے یہ پوچھیں کہ آسمانوں سے پانی برسا کر مردہ زمین کو زندگی کس نے عطا فرمائی؟ ۔۔۔ تو بھی جواب میں یہ اللہ ہی کا نام لیں گے"
پس مشرکینِ مکہ کو مشرک اس لیے نہیں کہا گیا کہ وہ اللہ کی ہستی کا انکار کرتے تھے یا اسے خالقِ ارض و سماء اور ربِ کائنات نہیں مانتے تھے ۔۔۔ بلکہ یہ چیز تو ہمیں دعوتِ فکر دے رہی ہے کہ ان اعتقادات کے باوصف بھی ان کو توحید کی دعوت کیوں دی گئی کہ جس کے نتیجے میں یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں اس قدر دور نکل گئے کہ نوبت شمشیر و سناں تک جا پہنچی؟
اس سوال کا جواب ہمیں قرآنِ کریم کی اسی سورہ کے اسی مقام پر ملتا ہے:
﴿فَإِذا رَ‌كِبوا فِى الفُلكِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ فَلَمّا نَجّىٰهُم إِلَى البَرِّ‌ إِذا هُم يُشرِ‌كونَ ﴿٦٥﴾... سورة العنكبوت
کہ "جب یہ (مشرکین) کشتی میں سوار ہوتے ہیں (اور کشتی کے ہر آن ڈوبنے کا خدشہ انہیں لاحق ہو جاتا ہے) تو دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے صرف اسی کو پکارتے ہیں، لیکن جب ان کی کشتی (اس مصیبت سے بچ کر) بفضلہِ تعالیٰ ساحل آشنا ہوتی ہے تو اچانک وہ دوسروں کو اس کی خدائی میں شریک ٹھہرانے لگتے ہیں"
گویا یہ لوگ ایک اللہ کو مانتے تو تھے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ کچھ دوسروں کو بھی اس کی صفات میں شریک گردانتے تھے ۔۔۔ وہ خود اعتراف کیا کرتے تھے:
﴿ما نَعبُدُهُم إِلّا لِيُقَرِّ‌بونا إِلَى اللَّـهِ زُلفىٰ....هـٰؤُلاءِ شُفَعـٰؤُنا عِندَ اللَّـهِ﴾
کہ "ہم (ان بزرگوں اور بتوں) کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ اللہ سے ہمیں قریب کر دیں .... کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں"
یعنی ان کا منتہائے مقصود (بقول ان کے) اگرچہ "تقرب الی اللہ" تھا، اس کے باوجود ان کی اس حرکت (دوسروں کو اللہ کی خدائی میں شریک ٹھہرانے) کو شرک قرار دیا گیا اور ناقابلِ معافی جرم بھی:
﴿إِنَّ اللَّـهَ لا يَغفِرُ‌ أَن يُشرَ‌كَ بِهِ وَيَغفِرُ‌ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ.... ﴿٤٨﴾... سورةالنساء
کہ "اللہ تعالیٰ شرک کو ہرگز ہرگز معاف نہیں فرمائے گا، ہاں اس کے علاوہ (گناہ) جسے چاہے بخش دے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمربستہ ہونے کا ان کے نزدیک ایک بڑا سبب یہ تھا کہ:
﴿أَجَعَلَ الـٔالِهَةَ إِلـٰهًا وٰحِدًا ۖ إِنَّ هـٰذا لَشَىءٌ عُجابٌ ﴿٥﴾... سورة ص
"یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیں بہت سے معبودوں سے منہ موڑ کر صرف ایک معبود کی دعوت دیتا ہے ۔۔۔ یہ تو بڑی ہی عجیب و غریب دعوت ہے"

۔۔۔۔۔۔۔

قرآنِ کریم کی روشنی میں مشرکینِ مکہ کے اعتقادات کی حدود متعین کر لینے کے بعد ہمیں انتہائی دکھ ہوتا ہے۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آج ہماری اکثریت بھی انہی بداعتقادیوں کا شکار ہے جن کا شکار مشرکین مکہ تھے ۔۔۔ اس دعوے کی دلیل کے طور پر نوائے وقت کی دو خبروں پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہو گا:
1۔ آج عشاء کے بعد بہشتی دروازہ کھول دیا جائے گا"۔ (نوائے وقت اکتوبر سئہ 1981ء)
2۔ آج "حضرت داتا گنج بخش" کے "مزار مبارک" کو 50 من عرقِ گلاب سے غسل دیا جائے گا۔۔۔ غسل کے وقت تلاوتِ کلامِ پاک کی جائے گی" (نوائے وقت 7 نومبر سئہ 1981ء)
علاوہ ازیں:
6 نومبر بروز جمعہ سئہ 1981ء کو ایک عجیب منظر دیکھنے میں آیا ۔۔۔ ضلع گجرات کے مختلف مقامات پر سپیشل بسیں تیار کھڑی تھیں اور مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے یہ اعلان گونج رہے تھے:
"سخی سلطان باہو کے میلے پر جانے کے لیے بس اڈہ پر تیار کھڑی ہے، جو لوگ وہاں جانا چاہیں اڈہ پر فورا پہنچ جائیں"

سچ ہی تو کہا تھا مولانا حالی ن
کرے غیر گر بُت کی پوجا تو کافر
بنائے خدا کا جو بیٹا تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
آگ پر بہرِ سجدہ تو کافر
مگر مومنون پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جا جا کر مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ ایمان بگڑے نہ اسلام جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمیں افسوس ہے کہ موجودہ پاکستان کی ایک اعتقادی جھلک دکھانے کی کوشش میں ہم اپنی حسن، ظنی کو برقرار نہ رکھ سکے ۔۔۔ لیکن تصویر کی صحیح عکاسی کے لیے ان خطوط کو بدلنا ممکن تو نہ تھا ۔۔۔ واقعات کی نشاندہی کے لیے ہم دوسرے (خلاف واقعہ) الفاظ تو استعمال نہ کر سکتے تھے ۔۔۔ اے کاش! یہ واقعات وقوع پذیر ہی نہ ہوتے اور ہمیں یہ سطور لکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی ۔۔۔ پس یہ دردِ دل تو اب صفحہ قرطاس پہ بکھر ہی جانا چاہتا ہے ۔۔۔ ان ھرکتوں کے انجام سے بے خبر مسلمان قوم کے غم میں بہنے والے آنسو اب سیاہی بن کر کاغذ کے سینے پر مچل جانے کے لیے بے تاب ہو اٹھے ہیں ۔۔۔ کہ اے وہ لوگو! کہ اپنے تئیں مسلمان کہلواتے اور محبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا دعوی رکھتے ہو، سوچو کہ آج تمہارے حالات وہی نہیں جو مشرکین مکہ کے تھے؟۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے پاس کون سی دلیل ہے؟ ۔۔۔۔ ایک طرف تمہارے سامنے یہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
«ما بين بيتى ومنبري روضة من رياض الجنة»
کہ "میرے گھر اور میرے منبر کی درمیانی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے"
۔۔۔لیکن پورے ذخیرہ حدیث میں کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی موجود ہے کہ جو شخص «روضة من رياض الجنة» میں سے گزر جائے گا، جنت اس پر واجب ہو جائے گی"چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک
کیا اس کی کوئی دلیل تمہارے پاس موجود ہے؟ ۔۔۔ کیا انہی بے سروپا باتوں کا نام دینِ اسلام ہے؟ ۔۔۔ اور کیا یہی وہ دینِ اسلام ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لِيُظهِرَ‌هُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِ‌هَ المُشرِ‌كونَ ﴿٩﴾... سورةالصف
﴿إِنَّ المُبَذِّر‌ينَ كانوا إِخوٰنَ الشَّيـٰطينِ﴾کے علاوہ کیا ﴿ هـٰؤُلاءِ شُفَعـٰؤُنا عِندَ اللَّـهِ﴾ کی یہ رٹ تمہیں انہی لوگوں کے ہمدوش نہ کر دے گی جو بدر و احد کے میدانوں میں والی بطحاء کے مقابلے میں تلواریں لے کر نکل آئے تھے؟ ۔۔۔ آخر ﴿ ما نَعبُدُهُم إِلّا لِيُقَرِّ‌بونا إِلَى اللَّـهِ زُلفىٰ﴾ کا یہ طلسم کب ٹوٹے گا؟ ۔۔۔ ﴿وَإِذا سَأَلَكَ عِبادى عَنّى فَإِنّى قَر‌يبٌ﴾کی رمزِ لطیف کو پہچاننے سے تم کب تک انکار کرتے رہو گے؟ ۔۔۔ ﴿أُجيبُ دَعوَةَ الدّاعِ إِذا دَعانِ﴾ کی برکتوں سے تم کب تک کنارہ کش رہو گے؟ ۔۔۔ اور ﴿فَليَستَجيبوا لى وَليُؤمِنوا بى لَعَلَّهُم يَر‌شُدونَ﴾ کے تقاضوں کو تم کب پورا کرو گے؟
۔۔۔ ہم یہودی نہیں، عیسائی نہیں، مسلمان ہیں لیکن جو کام وہ کیا کرتے تھے آج انہی کو ہم دین اسلام سمجھے بیٹھے ہیں ۔۔۔ انہی کرتوتوں کی بناء پر تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے "رحمۃ للعالمین" ہوتے ہوئے بھی ان پر لعنت بھیجی:
«لعن الله اليهود والنصارىٰ اتخذوا قبورانبياءهم وصالحيهم مساجدا»
کہ "یہود و نصاری پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء اور اپنے بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا"
۔۔۔ تو پھر ہم انہی کے نقش قدم پر چل کر حوض کوثر سے ساقی کوثر کے ہاتھوں آبِ کوثر پینے کی آس کیوں لگائے بیٹھے ہیں؟
۔۔۔ جو قرآنِ کریم تم نے "مزارِ مبارک" کو غسل دیتے وقت پڑھا تھا، کیا یہ آیت اسی قرآن کی نہیں؟
﴿اتَّخَذوا أَحبارَ‌هُم وَرُ‌هبـٰنَهُم أَر‌بابًا مِن دونِ اللَّـهِ وَالمَسيحَ ابنَ مَر‌يَمَ وَما أُمِر‌وا إِلّا لِيَعبُدوا إِلـٰهًا وٰحِدًا ۖ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ ۚ سُبحـٰنَهُ عَمّا يُشرِ‌كونَ ﴿٣١﴾... سورةالتوبة
کہ "ان (یہود و نصاری) نے اپنے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور درویشوں کو اپنا رب بنا لیا تھا اور عیسی بن مریم علیہ السلام کو بھی ۔۔۔ حالانکہ انہیں صرف خدائے واحد کی پرستش کا حکم دیا گیا تھا"
۔۔۔ کیا ان مزاروں کے چکر تم اسی لیے نہیں کاٹتے کہ نامراد نہ رہو، بامراد بن جاؤ، ۔۔۔ کیا تم اسی مقصد کی خاطر ان آستانوں پر نہیں جھکتے؟ ۔۔۔ ان چوکھٹوں پر اپنی پیشانیاں رکھ کر انہیں شرک کی نجاستوں سے آلودہ نہیں کرتے؟
۔۔۔۔ آہ "﴿لَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ فى أَحسَنِ تَقويمٍ ﴿٤﴾ ... سورالتين" کی بلندیوں سے گر کر ﴿ثُمَّ رَ‌دَدنـٰهُ أَسفَلَ سـٰفِلينَ ﴿٥﴾... سورالتين" کے مہلک غاروں کا شکار تمہی کو ہونا تھا ؟ ۔۔۔ لیکن تم تو توحید کے چمن کو نکھارنے نکلے تھے، پھر اس کی بہاروں کو خزاؤں کا پیغام کیوں دینے لگے؟
۔۔۔ تم سے کسی یتیم کے آنسو تو نہ پونچھے گئے ۔۔۔ کسی غریب کی فریاد تمہارے ہاتھوں کو جیب تک تو نہ پہنچا سکی ۔۔۔ تمہارے ہمسایے تو بھوکے ہی سو گئے، لیکن شرک کی بستوں کو آباد کرنے کے لیے تم نے ہزاروں روپے لٹا ڈالے ۔۔۔ بسوں کی قطاریں کھڑی کر دیں ۔۔۔ آہ! جہنم کے یہ ٹکٹ تم نے کیوں بانٹے؟ اور اپنے علاوہ دوسروں کی بھی عاقبت تم نے کیوں برباد کی؟
۔۔۔۔۔ اور
مساجد کے لاوڈ سپیکروں سے میلوں ٹھیلوں میں شمولیت کا اعلان کرتے وقت تم نے مساجد کے احترام کو بھی ملحوظ نہ رکھا؟۔۔۔۔ تم نے مساجد سے متعلق قرآن مجید کی اس آیت کو بھی فراموش کر دیا؟
﴿وَأَنَّ المَسـٰجِدَ لِلَّـهِ فَلا تَدعوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ﴿١٨﴾... سورة الجن
کہ "مساجد (فقط) اللہ ہی کے لیے ہیں، لہذا (ان میں) تم اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو نہ پکارو"
اور تم ہو کہ غیراللہ کے در کا طواف کرنے کے لیے تم نے انہی کا انتخاب کر ڈالا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پس اے وہ لوگو کہ اس ملک میں نفاذِ اسلام کے علمبردار ہو، اور معاشرتی خرابیوں سے نالاں، ان کا علاج ڈھونڈنے کے لیے نکلے ہو ۔۔۔ ان رستے ناسوروں کا واحد علاج اللہ کا قرآن ہے جس کا مرکزی مضمون توحید ہے۔۔۔ تمہیں اسی توحید کے تصور کو عوام کے ذہنوں میں راسخ کرنا ہے۔۔۔ کہ جب یہ دلوں میں گھر کر لیتا ہے تو ہر برائی سے اجتناب اور ہر نیکی کو اختیار کرنے کی صلاحیت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔۔۔ "لا الہ الا اللہ" ہی وہ بنیاد ہے جس پر اسلام کی سربفلک عمارت تعمیر ہو سکتی ہے۔۔۔ اور اگر پاکستان واقعی ایک نظریاتی مملکت ہے اور اس کی بنیادی بھی اسی کلمہ توحید پر ہے، تو اس کی بقاء کا راز بھی یقینا شرک کی بیخ کنی اور توحید کے پرچم کو بلند کرنے ہی میں مضمر ہے، کہ اگر بنیاد مضبوط نہ ہو تو دیواریں گرجایا کرتی ہیں ۔۔۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کمزور بنیادوں کو شرک ہی سے تعبیر کیا ہے، اور اس کی ناپائیداری کی مثال یوں بیان فرمائی ہے:
﴿وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبيثَةٍ كَشَجَرَ‌ةٍ خَبيثَةٍ اجتُثَّت مِن فَوقِ الأَر‌ضِ ما لَها مِن قَر‌ارٍ‌ ﴿٢٦﴾... سورابراهيم
کہ "ناپاک کلمہ (شرک) کی مثال ایک ایسے درخت کی ہے کہ جس کی جڑ نہ تو مستحکم ہے اور نہ ہی اس کی شاخیں بلند ہیں، اسے ذرا سا بھی قرار و ثبات حاصل نہیں۔
بس زمین کے اوپر ہی سے اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا جائے"
۔۔۔ جبکہ اس کے برعکس توحید کی مثال اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے درخت سے دی ہے جس کی جڑ مضبوط ، زمین کو پکڑے ہوئے ہو اور اس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں:
﴿ضَرَ‌بَ اللَّـهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَ‌ةٍ طَيِّبَةٍ أَصلُها ثابِتٌ وَفَر‌عُها فِى السَّماءِ ﴿٢٤﴾...سورة ابراهيم
۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنیاد کو مضبوط اور درست بنایا تھا، اس پر عمارت بھی مضبوط اور درست ہی تعمیر ہوئی ۔۔۔ لیکن تم ہو کہ کمزور بنیادوں پر عظیم الشان عمارت کے خواب دیکھ رہے ہو ۔۔۔ دیواریں تو تمہارے سامنے مسمار ہو رہی ہیں، پھر تم نے اپنی تمام تر توجہ انہیں مسقف بنانے پر کیوں مرکوز کر رکھی ہے؟
تمہارا اولین فریضہ یہ ہے کہ ان نقب زنوں کے دستِ ظلم و فساد کو "لا" کی تلوار کے ایک ہی وار سے کاٹ پھینکو جو "لا اله الا الله" کی بنیادوں کو منہدم کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔۔۔ اور وہ استعماری قوتیں کہ پاکستان کا وجود جن کی آنکھوں میں کاربن کے کھٹک رہا ہے، اُن کے مقابلہ کے لیے بھی تمہیں توحید ہی کے اسلحہ خانے کی گرزِ البرز شکن کی ضرورت ہے ۔۔۔ "لا اله الا الله" ہی وہ تلوار ہے جو دور جدید کے راکٹوں اور میزائلوں کا توڑ ثابت ہو سکتی ہے ۔۔۔ اگر یقین نہ ہو تو ماضی کے جھروکوں سے پردہ ہٹا دیکھو۔۔۔ قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں تمہیں یہ بجلیاں کوندتی ضرور نظر آجائیں گی ۔