ہم اچھے تھے

خود سے بیگانے نہ تھے ہم پہ کرم اچھے تھے      جیسی اب ہے، ایسی حالت سے تو ہم اچھے تھے
گر مقابر کی جبیں سائی منظور ہمیں        بت وہ اچھے تھے، وہ کعبے کے صنم اچھے تھے
مسلک وحدانیت پہ ہے خزاں چھائی اب      غیر سے کیونکہ ترے راہ و رسم اچھے تھے
دین کے روپ میں ہر آن ہے اک بدعت نو       گرچہ مذہب کے اصول عام فہم اچھے تھے
روشِ قلید رسالت ﷺ سے وفا کرنے نہ دے       ہوتے تقدیر میں گر لوح و قلم اچھے تھے
ہم نے ساقی ﷺ کے اشاروں کی نہ کی کچھ پرواہ       ورنہ جو دیتا تھا، وہ ساغر و خُم اچھے تھے
بدلے بدلے سے ہیں اطوار، عجب مشکل ہے      اس سے پہلے تو مرے اہل بزم اچھے تھے
جانے بھر آئے ہیں کس درد و ستم سے حمادؔ
کچھ ہی پہلے دلِ ویران کے زخم اچھے تھے


تصحیح:

شمارہ مئی ۱۹۷۱ء کے صفحہ ۴۶ پر نظم (حمد) کے دوسرے شعر کے آخر میں لفظ ''دھواں'' کی بجائے ''طوفان'' پڑھیں۔ (ادارہ)